قرآن کے نام پر انتشار

ربِ قدیر کے لیے یہ کچھ مشکل تو نہ تھا کہ اہلِ زمین کی نگاہوں کے سامنے ایک مدون و مرتب، سلی سلائی کتاب آسمانوں سے نازل ہوتی، اور اس کے ساتھ ہی "إِنَّ هـٰذَا القُر‌ءانَ يَهدى لِلَّتى هِىَ أَقوَمُ " کا ایسا آوازہ بلند ہوتا جسے ہر شخص اپنے کانوں سے سن کر بخوبی یہ جان لیتا کہ یہ ہے وہ کتاب (قرآن مجید) جسے "هدى للمتقين" اور "هدى للناس" ہونے کا شرف حاصل ہے۔۔۔اس کے بعد ان کا کام صرف یہ رہ جاتا کہ ضرورت کے مطابق اس کی نقلیں یا فوٹو سٹیٹ کاپیاں کروا کر اپنے پاس محفوظ کر لیتے اور سبھی اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اپنے جملہ شعبہ ہائے حیات میں اس سے راہنمائی حاصل کرتے۔۔۔تاہم اس صورت میں یہ قرآن، موجودہ قرآن سے یقینا مختلف ہوتا اور اس میں اطاعتِ الہی کے ساتھ ساتھ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، جس سے موجودہ قرآن بھرا پڑا ہے، کا کہیں ذکر تک نہ ہوتا۔۔۔ صرف یہی نہیں کہ حاملین قرآن کا کلمہ "لا اله الا الله محمد رسول الله" کی بجائے کچھ اور، مثلا صرف "لا اله الا الله" ہوتا۔ بلکہ ہر شخص کا کلمہ بھی جدا ہوتا۔ یا سرے سے کوئی کلمہ موجود ہی نہ ہوتا کیونکہ یہ کلمہ ہمیں قرآن مجید میں یکجا کہیں نظر نہیں آتا، ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں ملا ہے۔۔۔ حتیٰ کہ اسلام کی پوری تاریخ، موجودہ تاریخ اسلام سے یکسر مختلف ہوتی اور ہر شخص کا دین الگ الگ ہوتا، کیونکہ یہ تاریخ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے بغیر ادھوری، اور یہ دین بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کے بغیر نامکمل ہے۔۔۔ لیکن ظاہر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ کے بغیر براہِ راست امت کی طرف قرآن مجید کے نزول کا کوئی شخص بھی قائل نہیں، ہر شخص یہی کہے گا کہ ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہوا۔ اور اگر صورت حال یہی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر قرآن مجید کو سمجھنا تو کجا، ہمارے پاس اس امر کی کوئی بیرونی شہادت بھی موجود نہیں ہے کہ یہ قرآن مجید واقعی اللہ رب العزت کا کلام ہے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ ﴿إِنّا أَنزَلنا عَلَيكَ الكِتـٰبَ لِلنّاسِ بِالحَقِّ﴾ کے تحت لوگوں کی رہنمائی کے لیے یہ کتاب (قرآن مجید) رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر یوں مرحلہ وار نازل ہوئی کہ آغازِ وحی سے لے کر تکمیلِ دین تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول، ہر فعل اور ہر تقریر اسی قرآن مجید سے عبارت ہے۔۔۔گویا کہ پورا قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں یوں پرویا ہوا ہے کہ اسے اس سے الگ کرنے سے اس کے جملہ جواہر بکھر کر رہ جائیں گے اور اسی طرح قرآن مجید کی پوری تشریح و تعبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہے۔۔۔ یا بقول مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ ایک قرآن مجید آسمان سے نازل ہوتا تھا اور دوسرا قرآن مدینہ کی گلیوں میں چلتا پھرتا لوگوں کی نگاہوں کے سامنے موجود تھا۔ چنانچہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم، لوگوں کے سامنے اللہ کی آیات پڑھتے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتے تھے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اس آیت قرآنی کی مصداق تھی:

﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَر‌جُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ‌...﴿٢١﴾... سورة الاحزاب

کہ "(اے لوگو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے درمیان ہر اس شخص کے لیے ایک مکمل نمونہ عمل کی حیثیت رکھتے ہیں جو اللہ (سے ملاقات یا اس کی رضامندی) اور روزِ آخرت (کی کامیابی) کی امید رکھتا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے کسی ایک لمحہ کو بھی قرآن مجید سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرقہ بندی بلاشبہ ایک لعنت ہے، اور جس کے لازمی نتیجہ امتِ مسلمہ کی زبوں حالی، کو دیکھ کر اکثر داعیانِ اتحاد یہ کہا کرتے ہیں کہ ہمارا قرآن، ہمارا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمارا دین ایک ہے، پھر یہ فرقہ بندی کیوں اور کس لیے؟ ۔۔۔لہذا چاہئے تو یہ تھا کہ مختلف فقہی مذاہب کے غیر مشروط مقلدین کی طرف سے، ان مذاہب کو شریعت کا درجہ دے دینے سے امتِ مسلمہ جس فرقہ بندی کا شکار ہوئی ہے، امت کو اس لعنت سے نجات دلانے اور مسلکِ واحد میں پرونے کی خاطر قرآن مجید اور اس کی واحد متعین تعبیر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جمع ہو جانے کی دعوت دی جاتی۔۔۔ لیکن بعض سر پھروں نے خود سنت ہی کو اس آڑ میں منجملہ دیگر فقہوں کے اختلاف و انتشار کا ذمہ دار ٹھہرا لیا اور "صرف قرآن" کا نعرہ لگا کر اتحاد کا نام پر وہ انتشار پھیلایا کہ جس کے مختلف مظاہر ہمیں برصغیر کی تاریخ میں انکار و استخفافِ حدیث کے مختلف فتنوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔۔۔ چنانچہ کسی نے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کو الگ کر کے اس میں مذکورہ معجزات کا انکار کیا اور ان کی من مانی تاویل کی، تو کسی نے سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم فرماتے ہوئے، قرآن مجید کو جڑ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تنا اور شاخیں، لیکن فقہ کو اس درخت کا پھل قرار دیا۔۔۔ کسی نے کسی حدیث کے مضمون سےبِدکتے ہوئے، لیکن بظاہر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت بھی بحال رکھنے کے لیے، اس حدیث کو جھوٹا کہنے کی بجائے اس کے راوی کو جھوٹا کہہ دینے میں عافیت تلاش کی تو کوئی یوں شکوہ کناں ہوا کہ لوگ قرآن کے نام پر اٹھنے والی تحریکات سے الرجک ہیں، لیکن یہ نہ سوچا کہ ان تحریکات سے الرجک ہونے کی وجہ ان تحریکات کی آڑ میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا استخفاف و انکار ہے۔۔۔ ادارہ "طلوع، اسلام" نے قرآن کے نام پر قائم ہونے والی ہر حکومت کے سربراہ کو "مرکزِ ملت" اور پھر "مرکزِ ملت"" کو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ دے کر ایک خدا اور ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے ہزاروں لاکھوں خدا اور رسول بنا دیے، تو نام نہاد اہل قرآن نے "وحی صرف قرآن میں ہے" کا نعرہ لگا کر علی الاعللان سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیزاری کا اظہار کیا اور احادیث کو محض روایات کا نام دے کر ان کا یوں تمسخر اڑایا کہ آج اگر کوئی ایک بھی غازی علم الدین شہید موجود ہوتا تو یہ لوگ کب کے اپنے انجام کو پہنچ کر "خس کم جہاں پاک" کی خبر دے کے ہوتے۔۔۔لیکن کھلی چھٹی مل جانے کے باعث آج ان کی ہمتیں یوں جوان ہیں کہ ان مسائل میں بھی امت کو متفق نہ رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، جن مسائل سے متعلق امت مسلمہ کے درمیان کبھی کوئی اختلاف رونما نہیں ہوا۔۔۔چنانچہ ان کے نزدیک نمازیں پانچ کی بجائے تین رہ گئیں، ہر نماز کی رکعات صرف دو ٹھہریں، ہر رکعت میں سجدہ صرف ایک صحیح قرار پایا۔۔۔جبکہ نماز میں تکبیرِ انتقال جملہ "اللہ اکبر" سرے سے ہی غلط ہو گیا کہ یہ جملہ قرآن میں نہیں، تسبیحاتِ رکوع و سجدہ بدل گئیں، درودِ ابراہیمی کا یوں مذاق اڑایا کہ "اللہ تو فرماتا ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلـٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ ۚ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا ﴿٥٦﴾... سورة الاحزاب" لیکن یہاں "اللهم صل على محمد" کہہ کر خدا کے اس حکم کو خدا ہی کی طرف لوٹایا جا رہا ہے کہ تم صلوۃ پڑھو، ہم کیوں پڑھیں"۔۔۔کسی نے قرآن ہی میں سے چار نمازیں تلاش کر لیں تو کوئی پانچ سے بھی زیادہ کا مدعی ٹھہرا۔۔ اور کسی نے یہاں تک کہہ دیا کہ قرآن مجید کے لفظ، صلوۃ کا مفہوم صلوۃ نہیں بلکہ نظام ربوبیت میں داخل ہونا ہے اور اس طرح نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) نماز کا سرے سے ہی انکار کر دیا گیا۔

۔۔۔۔ الغرض وہ کون سا ستم ہے جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور پھر اسی بہانے دین اسلام پر نہیں توڑا گیا؟ یہ ایک طویل اور دلخراش داستان ہے، جس نے بظاہر "قرآن کے نام پر اتحاد" لیکن درحقیقت "قرآن کے نام پر انتشار" پھیلانے میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا۔۔۔ اور اسی طرح وہی صورت حال پیدا کر دی گئی ہے کہ گویا واقعی یہ کتاب (قرآن مجید) مدون و مرتب، براہ، راست امت کے حوالہ کر دی گئی تھی، اس اعلان کے ساتھ کہ جاؤ اور اس کی حسبِ ضرورت کاپیاں کروا کر اپنے پاس محفوظ رکھو اور پھر اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس سے رہنمائی حاصل کرو۔ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی مقام رہا، نہ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی تصور باقی رہ گیا۔۔۔ نہ یہ وہ قرآن رہا اور نہ یہ وہ اسلام رہا۔۔۔اور جس صورت حال کو تسلیم کرنے سے امت مسلمہ کا کوئی ایک فرد انکاری تھا، اسی کو تسلیم کروانے کی خاطر آج بےشمار علمبردار میدان میں آ گئے ہیں۔۔۔ستم بالائے ستم، یہ سب کچھ اس دورِ حکومت میں ہو رہا ہے جس نے زبانی اور کلامی ہر سُو کتاب و سنت کی حکمرانی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔۔۔ کیا خدا ان ذمہ داروں سے روزِ محشر یہ نہیں پوچھے گا کہ فرقہ وارانہ اور گمراہ کن لٹریچر تلاش کرنے کے لیے چھاپے مارتے وقت تم اس لٹریچر کو کیوں بھول گئے تھے جو تمہاری اپنی سرپرستی میں شائع ہو کر تمہارے دفتروں کی میزوں پر پڑا رہتا تھا اور جو '﴿يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللهِ وَرُسُلِهِ﴾" کی کامل و مکمل تفسیر تھا؟ ۔۔ یقینا یہ قرآن، جو آج قرآن کے ان علمبرداروں اور ان کے سرپرستوں کے در پر کھڑا رو رہا ہے کہ: "﴿وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا﴿ ٢٧﴾... سورة الفرقان" روزِ محشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی قرآن کے ہمنوا ہو کر مدعی ہوں گے کہ:

﴿ رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿٣٠ ﴾... سورة الفرقان

۔۔۔ قرآن مجید سے اس سلوک کی شکایت کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بیزاری کی جسارت کی وعید قرآن مجید کی طرف سے، اسی قرآن مجید کی سورۃ الفرقان میں ایک ہی مقام پر موجود ہے جو رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔۔۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سے اور قرآن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک لمحہ کے لیے بھی علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ لیکن

سینہ ہمہ داگ داغ شد پنیبہ کجا کجا نہم


﴿ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ﴾ والى الله المشتكى، وما علينا الا البلاغ