مسئلہ قربانی کی شرعی حیثیت

نوٹ۔اس مضمون کی پہلی قسط گزشتہ سال ذوالحجہ 1403ھ کے محدث میں شائع ہوئی تھی لیکن مسودہ گم ہوجانے کی وجہ سے اس کی تکمیل نہ ہوسکی تھی۔چنانچہ صاحب مضمون سے اسے دوبارہ حاصل کیاگیا اور اب موقع کی مناسبت سے اس کی دوسری قسط ہدیہ قارئین ہے۔۔۔بہرحال اس مضمون کو محدث جلد13 عدد 12(ذوالحجہ 1403ھ) کے آخری مضمون سے ملا کر پڑھا جائے تو اس کی تکمیل ہوجائےگی۔(ادارہ)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کے ارشادات عالیہ کے مقابلے میں کوئی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی بڑے سے بڑے قول کو کوئی وقعت نہیں دیتا تھا۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے گرویدہ ہونے کی شہادت پروفیسر موصوف نے بھی اپنے مضمون میں دی ہے۔ کے سامنے ایک شامی شخص نے حج تمتع کے بارے میں پوچھا تو فرمایا" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو درست کہا ہے"تو اس شخص نے کہا۔"

«اِنَّ اَبَاكَ قَدْ نْهىٰ عَنْهَا»

"آپ کے باپ نے اس سے روکا ہے۔"

اس شخص کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو جواب دیا ،وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے،انہوں نے فرمایا:

«اَرَأَيْتَ اِنْ كَانَ اَبِى نَهىٰ عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللهﷺءَاَمْرُاَبِى يُتَّبَعُ اَمْ اَمْرُرَسُولِ اللهِ»

"آپ کا کیاخیال ہے،اگر میرے باپ نے اس سے منع کیا،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیا ہے،تو میرے باپ کے حکم کی اطاعت کی جائے گی۔یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی؟"اس شخص نے کہا:"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اطاعت کیجائے گی۔"تو حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

« لَقَدْصَنَعَهَا رَسُولُ الله»

"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے۔"

ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے کہ انہیں کسی نے کہا،"سفر کی نماز قرآن مجید میں نہیں ہے:"تو انہوں نے فرمایا:

«إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا وَلاَ نَعْلَمُ شَيْئًا وَإِنَّمَا نَفْعَلُ كَمَا رَأَيْنَاهُ يَفْعَلُ»

"اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مبعوث کیا ہے اور ہم کچھ نہیں جانتے تھے،ہم اس طرح کریں جیسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کرتے دیکھا ہے۔"دوسری روایت میں ہے:

« بِهٰذَا ضَلَلْتُمْ اُحَدِّثُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُحَدِّثُونِي عَنْ اَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ »

"تمہاری گمراہی کی یہی وجہ ہے کہ میں تمھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین بتاتا ہوں اور تم مجھے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باتیں سناتے ہو!"

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہ ہر عمل پر عمل ضروری سمجھتے تھے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ حجر اسود کو چومنے کے موقع پر فرمایا:

« وَإِنِّي لأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ وَلَوْلاَ أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ»

"میں خوب جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے جو نہ نقصان دے سکتا ہے اور نہ نفع پہنچاسکتا ہے،اگر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے نہ چومتا۔"پیغمبر علیہ السلام کی کسی بات کی بھی زرا سی مخالفت ان کے لئے ناقابل برداشت تھی۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےفرمایا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،"عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے نہ روکو "تو ان کے بیٹے نے کہا"وَاللهِ لَنَمْنَعْهُنَّ" خدا کی قسم ہم روکیں گے"تو حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت غصہ میں آگئے اور فرمانے لگے:

«اُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللهِ وَتَقُول لَا»

"میں تمھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سناتا ہوں اور تم انکار کرتے ہو۔"

تابعین ؒاور دیگر کاطرز عمل:

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے بعد امت مسلمہ میں تابعین کا درجہ ہے۔سید التابعین حضرت امام شعبی ؒ جن کی تعریف میں خود شہاب صاحب رطب اللسان ہیں اور جنھوں نے 500 صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ملاقات کی ہے نے فرمایا:

«مَا حَدَّثُوكَ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَخُذْبِهِ وَمَا فَالُوْا بِرَايِهِمْ فَاَلْقِهِ فِى الْحَمْشِ»

" یہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کریں اس کو لے لو لیکن جو بات یہ لوگ اپنی مرضی سے کہیں اس کو غلاظت میں پھینک دو۔"

امام اہل المدینہ مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

"محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہرشخص کی کچھ باتیں لی جاسکتی ہیں اور کچھ رد کی جاسکتی ہیں۔"

حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا:

«لَولَا السُّنَّةُ مَا فَهِمَ اَحَدٌ مِنَّا القُرآنَ»

"اگر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتی تو ہم میں سے کوئی بھی قرآن کریم نہ سمجھ سکتا۔"

حضرت امام شافعی ؒ نے فرمایا:

"تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا پتہ چل جائے تو پھر اس بات کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ کسی کے قول کی بناء پر اسے ترک کردیا جائے۔"

حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کا قول یہ ہے:

«مَنْ رَدَّ حَدِيْثَ رَسُولِ اللهِ ﷺ وَهُوَ عَلٰى شَفَا هَلَكَةٍ»

" جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث رد کی وہ ہلاکت کے کنارے پہنچ گیا"

امام ابن حزم جو پروفیسر موصوف کےممدوح ہیں،نے فرمایا:

«لَا يَحِدُّ لِاَحَدٍ اَنْ يَّاْخُذَ قَوْلَ اَحَدٍ غَيْرَ رَسُولِ اللهِﷺ بِلَا بُرْهَانٍ»

"کسی شخص کو یہ لائق نہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے علاوہ کسی شخص کی بات دلیل (قرآن وسنت) کے بغیر قبول کرے۔"

ان قرآنی آیات ،احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم،اقوال صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین ؒ اوراقوال ائمہ ؒ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے سے ہی دین حنیف پر صحیح طور پر عمل کرسکتا ہے۔اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کوئی کامیابی نہیں ہوسکتی۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہر کام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی کی انتہائی کوشش کرتے تھے۔لیکن اگر بفرض محال ان کا کوئی کام ہمیں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نظر نہ آئے تو ہم سوئے فہم کی وجہ سے انہیں مطعون نہیں کرسکتے۔البتہ ایسے امور میں خود ان کی پیروی کرنے کے پابند نہیں ہیں۔کیونکہ یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے۔کہ ان کی ہر بات سند کی حیثیت رکھتی ہے یہ بات نہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا عمل بعد میں میعار حق نہ رہا(جیسا کہ صاحب مضمون نے لکھا ہے)اور نہ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ بعض صحابہ کرامرضوان اللہ عنھم اجمعین کے بعض اعمال کی پیروی نہ کرنا دین میں کسی نقص کا سبب ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف اشارہ کرکے کسی شاعر نے ٹھیک کہاتھا۔

ادب گاہیست زیر آسمان ازعرش نازک تر
شمس گم کردہ می آید جنید وبایزید اینجا


موضوع حدیث سے استدلال:

احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے والوں کی عجیب حالت ہے کہ جب احادیث کو رد کرنا ہوتو تمام مسلمانوں کی رائے کے خلاف صحیح احادیث کو ضعیف اور موضوع قرار دے دیتے ہیں۔لیکن جب اپنا مطلب نکالنا چاہتے ہیں تو موضوع اور ضعیف احادیث کو دلیل کے طور پر پیش کرنے سے نہیں چوکتے بلکہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی ضعیف اقوال کو پیش کردیتے ہیں۔یہی کردار اس مضمون میں ادا کیا گیا ہے قربانی کی صحیح احادیث کو ضعیف قرار دے کر ان کے مقابلے میں کمزور اقوال کو بنیاد بنایا گیا ہے۔اور اپنا مطلب نکالنے کے لئے امام مالک ؒ کی موطا کوچھوڑ کر ان کے قول کا "نیل الاوطار" سے حوالہ دیتے ہیں جو کہ درجہ بندی کے لحاظ سے موطا امام مالک ؒ سے بہت ہی نیچے درجے کی کتاب ہے۔انہوں نے اپنے مضمون کی ابتداء ایک موضوع حدیث سے کی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانچنے کامیعار قرار دیا ہے۔یہ حدیث ملاحظہ ہو:

"میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے ہر ایک کی پیروی درست راستے کی طرف ہوگی!"(پروفیسر صاحب نے ترجمہ اسی طرح کیا ہے)یہ حدیث مختلف چھ روایات سے وارد ہے لیکن یہ کسی لحاظ سے۔۔۔بھی محدثین کے معیار پر پوری نہیں اترتی ابن عبدالبر نے لکھا ہے،یہ کلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت نہیں۔"

علامہ علی قاری نے لکھا ہے:

«وَقَدْ ذَكَرَهُ ابْنُ حَجْر وَذَكَرَ اَنَّهُ ضَعِيْفٌ وَاهِنٌ بَلْ ذَكَرَ عَنِ ابْنِ حَزْمٍ اَنَّهُ مَوضُوعٌ بَاطِلٌ»

"ابن حجرؒ نے اس کو زکر کرکے بہت ضعیف قراردیا ہے ابن حزم ؒ سے یہ روایت کیاگیا ہے کہ یہ موضوع ہے اور باطل ہے ۔"امام ذہبی نے بھی اس کے رجال پر تنقید کی ہے۔ اس حدیث کو محدثین نے موضوعات کی کتابوں میں درج کیا ہے۔ابن عراقی نے اس کو اپنی کتاب "تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن اخبار الشنیعہ"جلد1 ص119 پر درج کیا ہے۔امام سیوطی ؒ نے اس کو "اللالی" المصنوعہ فی الاحادیث المرفوعۃ"ص209 پر درج کیا ہے۔ابن عبدالبر ؒ نے اس روایت کو دوسری سند سے یون بیان کیا ہے:

"سلام بن سلیمان حارث بن غصین اعمش اور ابو سفیان اورآگے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں۔

«اَصْحَابِى كَالنُّجُومِ بَاَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمْ اهْتَدَيْتُمْ»

" میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جن کی اقتداء (پیروی) کروگے ہدایت پاجاؤگے۔"

ابن عبدالبر ؒ نے آگے خود اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے،اس سند سے دلیل نہیں لی جاسکتی۔کیونکہ حارث بن غصین مجہول ہے۔"ابن حزم نے لکھا ہے،"ابو سفیان ضعیف ہے۔سلام بن سلیمان موضوع احادیث روایت کرتا ہے۔اور یہ روایت بھی بلاشبہ انہی میں سے ہے۔" حافظ ابن حجر ؒ عسقلانی نے تہذیب التہذیب جلد 4 ص 281 پر سلام بن سلیمان پر بہت بحث کی ہے کہ محدثین کےنزدیک یہ متروک راوی ہے۔دیگر تمام اسناد سے بھی یہ روایت مجروح ہے۔دورجدید کے عظیم محدث ناصر الدین البانی نے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔ جب اس موضوع حدیث سےاستشہاد ہی درست نہ ہواتو استدلال کی پوری عمارت از خود زمین پر آرہتی ہے۔

مسئلہ اعتکاف کی حقیقت:

جہاں تک امام مالک ؒ کے اس قول کاتعلق ہے "کہ اعتکاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا اورصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کسی نے بھی اعتکاف نہیں کیا۔"اس کا غلط ہونا قرآن مجید سے ثابت ہے۔ارشادربانی ہے:

﴿وَلا تُبـٰشِر‌وهُنَّ وَأَنتُم عـٰكِفونَ فِى المَسـٰجِدِ ﴾

"اگر یہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا تو یہاں جمع کا صیغہ استعمال کرنے کی کیا ضرورت تھی؟قرآن مجید کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنھم اجمعین اعتکاف کرتے تھے کیونکہ قرآن مجید کے اولین مخاطب وہی تھے۔صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اعتکاف کرتے رہے اور بعد میں بھی انہوں نےاعتکاف کیا۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے:

«اِعْتَكَفَنَا مَعَ رَسُولِ اللهِﷺ»

"ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کیا"

اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:

«حَتَّى تَوَفَّاهُ اللهُ ثُمَّ اعْتَكَفَ اَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ»

"یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھما اجمعین نے اعتکاف کیا۔"اس روایت سے نہ صرف صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بلکہ صحابیات رضوان اللہ عنھم اجمعین کااعتکاف بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ثابت ہوا۔صحیح بخاری جیسی معتبر کتاب میں یہ روایات موجود ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اعتکاف کیا کرتے تھے۔لیکن پروفیسر صاحب موصوف کی تحقیق کی داد دیجئے کہ انہوں نے کس قدر جرائت سے لکھ دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اعتکاف نہیں کیا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اعتکاف بیٹھنے اور پھر ایک مسلمان بھائی کی حاجت براری کےلئے مسجد سے باہر نکلنے کا ذکر طبرانی ،بیہقی اور مستدرک حاکم جیسی احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔خود امام مالک ؒ نے اپنی کتاب موطا میں اعتکاف سے متعلقہ احادیث درج کی ہیں۔ان میں سے ایک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اعتکاف متعلق بھی ہے۔ موطا ہی میں ہے کہ انھوں نے(امام مالک ؒ) نے امام ابن شہاب زہری سے سوال کیا کہ کیا معتکف کسی خاص حاجت کے لئے کسی چھت کے نیچے جاسکتا ہے؟"تو انہوں نے فرمایا:

«لَابَاْسَ بِذَلِكَ»

"اس کا کوئی حرج نہیں۔"

امام مالک ؒ کے اس مسئلہ پوچھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اعتکاف کے قائل تھے۔اگر وہ اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ سمجھتے تو انہیں سوال کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوتھی۔امام نووی ؒ نے صحیح مسلم کی احادیث کے بعد ان پر اس طرح سے تبصرہ کیا ہے:

«معنٰى هٰذه الاحاديث ان الاعتكاف لا يصحّ الا فى المسجد لان النبىﷺ وازواجه اصحابه انما اعتكفوا فى المسجد»

کہ ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ اعتکاف مسجد کے علاوہ درست نہ ہوگا،کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھما اجمعین اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین مسجد میں اعتکاف بیٹھتے تھے۔"

اعتکاف کا مسئلہ کتب احادیث میں ضمنی طور پر بیان نہیں ہوا بلکہ اس کے متعلق الگ باب قائم کئے گئے ہیں جن میں اس مسئلہ کی پوری وضاحت اور صراحت موجود ہے۔مندرجہ بالا صحیح بخاری اور موطا امام مالک ؒ سے پیش کی گئی احادیث پر کوئی اعتراض ہو تو پیش کیاجائے۔وگرنہ ان معتبر روایات کی موجودگی میں "نیل الاوطار" میں سے پیش کئے گئے امام مالکؒ کے قول سے ان احادیث کے خلاف استدلال کرنا محض لاعلمی کی دلیل ہے۔اعتکاف کے خاصہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کوئی ارشاد نہیں فرمایا،جبکہ صیام وصال کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا:

«اِنِّى لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ اِنِّى يُطْعِمُنِى رَبِّى وَيَسْقِيْنِى»

"میں تمہاری طرح نہیں ہوں میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔"

یہ حدیث صیام وصال کے خاصہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی صریح دلیل ہے جبکہ اعتکاف کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا نہیں فرمایا۔مولف مضمون صحابہ کرامرضوان اللہ عنھم اجمعین کے عمل کو شریعت میں ضروری قرار دیتے ہیں۔لیکن عقیقہ کے مسئلہ میں ان کی نظر اس طرف نہیں گئی جیسا کہ 22 نومبر 1981ء کے روزنامہ"جنگ" میں ان کے مضمون سے ظاہر ہے۔حالانکہ جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عروہ بن زبیر تابعی ؒ اپنی اولاد کا عقیقہ کرتے تھے۔ تعلیق الممجد حاشیہ موطا امام مالک ؒ میں لکھا ہے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفاتگ کے بعد صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین عقیقہ کرتے تھے۔"ان کے ممدوح امام حزم ؒ عقیقہ کو فرض قرار دیتے ہیں۔(جاری ہے)


حوالہ جات

۔جامع الترمذی مع تحفۃ الاحوذی جلد 2 ص 82 باب ماجاء فی التمتع

۔طحاوی،ج1،ص398)

۔بخاری،جامع الصحیح جلد اول ص217۔

۔صحیح مسلم۔الجامع الصحیح جلد اول ص 204

۔تزکرۃ الحفاظ جلد 1 ص 79(امام ذہبی) بحوالہ "ارکان اسلام" ص 218(خالد گھر جاکھی)(11)دارمی جلد 1 ص 67

۔عقد الجید ص70(شاہ ولی اللہ)

۔قواعد الحدیث بحوالہ مقدمہ المیزان للشعرانی ص 62)

۔اصول الاحکام ج6 ص 135(ابن حزم)

۔جامع بیان العلم وفضلہ ج 2 ص 90 (حافظ یوسف بن عبدالبر)

۔ مرقاۃ شرح مشکواۃ ج 11 ص 280(علی بن سلطان محمد القاری)

۔میزان الاعتدال ج2ص 605(امام ذہبی)

۔جامع بیان العلم جلد 2 ص 90 (حافظ یوسف بن عبدالبر)

۔الاحکام فی الاصول الاحکام ج6ص810(ابن حزمؒ اندلسی تعلیق احمد شاکر)

۔سلسۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعۃ س78 حدیث 58۔

۔البقرۃ۔187

۔صحیح بخاری ج1ص 271۔

۔ایضاً

۔موطا امام مالکؒ ص 261کتاب الاعتکاف

۔ایضاً

۔حاشیہ مسلم ص391(شرف الدین ج1 نووی)

۔بخاری ج1ص263۔

۔موطا امام مالک ؒ