"قانون سازی کی بجائے کتاب وسنت کی دستوری حیثیت کااعلان کیجئے!"

ایک شوراٹھا،ایک طوفان برپا ہوا کہ"عورت کی نصف گواہی نا منظور!" اور وہ جو ہمیشہ سے عورت کو چراغِ خانہ کی بجائے شمع محفل بنانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔چادر اور چار دیواری کے تقدس کو اپنی عیاشیوں کے راستے کا روڑا خیال کرتے۔اور کتاب وسنت کی فضاؤں میں اپنی خواہشات کا دم گھٹتا محسوس کرتے تھے۔اس نعرہ"مستانہ" کو سن کر میدان میں آگئے۔۔۔

چنانچہ ہرکہ ومہ نے گواہی سے متعلقہ قرآنی آیات پر طبع آزمائی کی اور وہ نئے نئے مطالب اور مفاہیم قرآن سامنے آئے کہ اقبال کی زبان میں:

ولے تاویل شاں درحیرت انداخت ۔۔ خُدا وجبرائیل ؑ ومصطفےٰ ؐ را!


کی کیفیت پیدا ہوگئی۔اخبارات اور رسائل میں اس سلسلہ کی طول بحثوں کا آغاذ ہوگیا۔۔۔لیکن ادھر سے آواز آئی،ہم بھی عورتیں ہیں،تاہم نصاب شہادت کے خلاف آواز اٹھانے والی عورتوں کی خدا اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باغی تصور کرتی ہیں۔ہمیں وہی فیصلہ منظور ہے جو اس بارے میں اللہ رب العزت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کردیا ہے!

۔۔۔۔ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ نصاب شہادت کے خلاف آواز بلند کرنے والی عورتوں نے دوسرا حربہ آزمایا۔اور"عورت کی دیت مرد کے برابر ہونی چاہیے"کا آسمان سر پراُٹھا لیا۔اس پر بھی خاصی لے دے ہوئی اور بالآخر بے چینی کی ان لہروں نے علماء کے دروازوں پر دستک دی۔اور ہم نے دیکھا کہ وہی علماء جو اس سے قبل صرف اور صرف فقہ حنفی کے حصار میں محصور رہنے پر مصر تھے۔اس میں اپنے تئیں غیر محفوظ خیال کرتے ہوئے کتاب وسنت کے وسیع دامنوں میں پناہ لے رہے تھے۔اسی پر بس نہیں،انہوں نے اس پروگرام کو خوشخبری سے موسوم کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کیا کہ:

"ہم نے راجہ ظفر الحق صاحب کی زیرصدارت نیامسودہ بنایا ہے کیونکہ یہ جھگڑا ختم نہیں ہو پاتا تھا۔اس پر تمام کمیٹیوں نے بیٹھ کر یہ مسودہ تیار کیا ہے۔۔۔دیت قرآن وسنت کے مطابق طے کی جائے گی۔مگر اس کی مقدار کتنی ہوگی۔یہ سپریم کورٹ پر چھوڑ دی گئی ہے اور ہمارے خیال میں یہ آپ کو قبول ہوگا!

۔۔۔قارئین کرام اس اجمال کی تفصیل محدث(شمارہ رمضان المبارک 1404ھ) میں ملاحظہ فرماچکے ہیں!

چنانچہ یہ اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔۔۔روزنامہ"جسارت" اپنی 18جولائی 84ء کی اشاعت میں لکھتا ہے:

"قصاص اور دیت کے مسودہ قانون کے بارے میں مجلس شوریٰ کی خصوصی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ تمام ارکان کے درمیان بحث وتمحیص کہ مشترکہ اساس قرآن وسنت سے کمیٹی کےارکان میں ممتاز علمائے کرام قانون کے پیشے ک مجھے ہوئے ارکان تعلیم یافتہ خواتین اور اقلیتی برادریوں کے وسیع المشرب ارکان شامل ہیں۔جنھوں نے بحث کے دوران قرآن کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے حوالے پیش کیے۔۔۔اس بات پر اتفاق رائے ظاہر کیا گیا کہ عورتوں سمیت دیت کے نصاب کا تعین قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق کیا جائے گا۔اور اس بارے میں شرعی عدالت یا سپریم کورٹ کے شریعت بنچ کی تشریح قابل قبول ہوگی۔!"

اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک پروگرام پر عمل درآمد کاتعلق ہے۔یہ ٹھیک چل رہا ہے البتہ"قابل قبول" ہونے کی توقعات خوش فہمی ہی بن کر رہ گئیں،کیونکہ"ناقابل قبول"ہونے کا اعلان بھی ہوچکا ہے۔۔۔26جولائی 84ء کے روزنامہ "جنگ" کی ایک خبر ملاحظہ ہو:

"قصا ص ودیت کا مسئلہ منتخب اسمبلی پر چھوڑ دیا جائے!"

اس عنوان کے تحت اخبار مذکور لکھتا ہے:

"خواتین کی دس تنظیموں پر مشتمل۔۔۔کو آرڈی نیشن کمیٹی نے کہا ہے کہ خواتین کے لئے صرف وہی قانون قبول ہوسکتا ہے جو انصاف اور برابری پر مبنی ہو اور قانون سازی کے اس بین الاقوامی طور پر مسلمہ اصول کے خلاف خواتین کے حقوق کے منافی جو قانون بھی بنایا جائے گا وہ ناقابل قبول ہوگا۔۔۔کمیٹی نے خبر دار کیا ہے کہ خواتین کے حقوق پر بندش کو خواتین پر مشتمل آبادی کی حمایت حاصل نہیں ہوگی اور خواتین اس بندش کے خلاف مؤثر مہم چلائیں گی۔۔۔کمیٹی نے مجلس شوریٰ کی خواتین ارکان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اجتماعی طور پر شوریٰ کی خواتین ارکان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اجتماعی طور پر شوریٰ کے اس اجلاس سے واک آؤٹ کریں جس میں اس قسم کے امتیازی قوانین پر بحث کی جائے۔کیونکہ ایسے اجلاس میں بیٹھے ر ہنا خواتین کی توہین کے مترادف ہوگا!"۔۔۔(اس کے بعد اخبار مذکور نے ان دس خواتین تنظیموں کے نام گنوائے ہیں)

شوریٰ کے معزز اراکین اس خبر کو بار بار پڑھیں۔کیا اس کے الفاظ پکار پکار کریہ تقاضا نہیں کررہے کہ اسلام میں قانون سازی کی درد سری مول ہی نہ لی جائے اور صرف کتاب وسنت کی دستوری حیثیت کااعلان کردیا جائے؟

۔۔۔یعنی ابتداء میں ہی قبلہ درست کرلیا جائے۔اور "پھر

﴿وَما جَعَلنَا القِبلَةَ الَّتى كُنتَ عَلَيها إِلّا لِنَعلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّ‌سولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلىٰ عَقِبَيهِ...﴿١٤٣﴾... سورةالبقرة

کے مصداق ہر شخص کھل کر سامنے آجائے کہ کتاب وسنت کا فیصلہ کس کے لئے قابل قبول ہے اور کس کے لئے ناقابل قبول؟کون"﴿وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَ‌سولَهُ فَقَد فازَ فَوزًا عَظيمًا ﴿٧١﴾... سورة الاحزاب" کی خوشخبری سننے کے بے قرار ہے اور کون﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُولَ﴾ کی صف میں شامل ہوکر ﴿وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَساءَت مَصيرً‌ا ﴿١١٥﴾... سورةالنساء"کی وعید سننا پسند کرتا ہے؟۔۔۔ہمیں یقین ہے کہ اگر یہ اعلان ہوجائے تو کسی شخص کو "ناقابل قبول" کا نعرہ لگانے کی جرائت ہی نہ ہوگی۔کیونکہ اس صورت میں واضح طور پر وہ اسلام کا باغی قرار پائے گا!

ہمارے نزدیک موجودہ بے چینی کی سب سے بڑی وہ یہ ہے کہ مفروضات پر قانون سازی کی عمارت استوارکی جارہی ہے۔حالانکہ صحیح فکر یوں ہے( اور شارٹ کٹ بھی) کہ کتاب وسنت کی دستوری حیثیت کے اعلان کے بعد پیش آمدہ مسائل کا فیصلہ اسی مرتب ومتعین دستور کے مطابق کیا جائے،اور یا پھر کتاب وسنت کی روشنی میں ان کا حل تلاش کیا جائے۔اسی کا نام اجتہاد ہے۔لیکن جو مفروضات کی بنیاد پر نہ ہوگا۔۔۔ہاں جب بھی کوئی اجتہادی مسئلہ پیش آئے گاشریعت اس بارے میں ہماری رہنمائی ضرور کرے گی۔

مجلس شوریٰ کی پوری تاریخ شوریٰ کے اراکین کے سامنے ہے۔۔۔کیا سالوں پر محیط اس پوری کاروائی کے دوران اس قانون سازی کے مراحل سے گزرتے ہوئے اس درد سری کااحساس انہیں ابھی تک نہیں ہوا؟۔۔۔اور نتائج کیا ہیں؟۔۔۔کیاہنوز روزاول کا معاملہ نہیں؟۔۔۔مذکورہ خبر میں خواتین کے یہ الفاظ بالخصوص قابل غور ہیں:

"قانون سازی کے اس بین الاقوامی طور پر مسلمہ اصول کے خلاف خواتین کے حقوق کے منافی جو قانون بھی بنایا جائےگا وہ ناقابل قبول ہوگا!"

۔۔۔کیا یہ کہنے کی جرائت انہیں آپ کیاس قانون سازی نے عطا نہیں کی؟۔۔۔اس بین الاقوامی طور پر مسلمہ اصول کا حوالہ کیااس لئے نہیں دیا جارہا کہ ان پر یہ واضح ہی نہیں،مسلمہ اصول صرف اور صرف کتاب وسنت ہیں؟۔۔۔آپ نے اگرچہ ان خواتین کو "کتاب وسنت" سے مطابقت" کا حوالہ دےکر وقتی طور پرجان چھڑا لی تھی۔لیکن کیا وہ پھر مقابلے پر نہیں آگئیں؟۔۔۔ صرف اسی لئے کہ جب قانون بنانا ہی ٹھرا۔تو یوں نہیں ،یوں بنا لیا جائے۔۔۔اگر ایسابنا تو قابل قبول لیکن اگر ویسا بنا تو ناقابل قبول واک آؤٹ اور اس کے خلاف مؤثر مہم چلانے کی دھمکیاں!۔۔۔اس کے برعکس اگر یوں کہہ دیا جائے کہ ہمارا دستورکتاب وسنت ہے۔اسلام میں دستورسازی کی سرے سے گنجائش ہی نہیں لہذا ہم وہی کچھ کریں گے جو اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا:اور اس معاملے میں کسی کی رو رعایت نہیں کیجائے گی۔کسی کی ایک نہ سنی جائے گی۔تو کیا آپ سستے نہ چھوٹ جائیں گے؟۔۔۔اور پھر کیا جو اس کی مخالفت میں صف آرا ہوگا اس کو اپنے انجام کے بارے میں کوئی غلط فہمی باقی رہے گی یا اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے میں وہ اپنے تئیں حق بجانب تصور کرے گا؟

پس خدارا اگر آپ نے کتاب وسنت کا نام لیا ہی ہے تو ان کی حیثیت بھی پہچان لیجئے۔جس قدر جلد آپ یہ کام کرلیں گے اسی قدر یہ ہم سب کے لئے مفید رہے گاا۔اور بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی۔۔۔سوال یہ ہے کہ پورا اسلام کیا صرف قانون شہادت اورقصاص ودیت ہی کا نام ہے؟۔۔۔ قصاس ودیت کامسودہ 1980 ء میں اسلامی نظریاتی کونسل نے سال بھر کی محنت کے بعد مرتبکرکے حکومت کو پیش کیا تھا۔پھر یہ مجلس شوریٰ میں پیش ہوا۔گویا اس کی ابتداء 1979ء میں ہوئی۔اب چھٹا سال گزرنے کو ہے ا س دوران یہ کئی مراحل سےگزرا اورآج تک اس پر بحث وتمحیص کا یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آیا۔۔۔دن رات کام بھی ہورہا ہے۔ اور بات کسی نتیجہ تک بھی نہیں پہنچ پاتی۔کہ اب فضاؤں میں پھر سے ایک نئے طوفان کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔۔۔کیا یہ بات سوچنے کی نہیں کہ ابھی سینکڑوں دیگر مسائل نپٹانے کے لئے پڑے ہیں۔چنانچہ موجودہ تمام قوانین کو مسلمان بنانے کی رفتار اگر یہی رہی اور بشرط یہ کہ یہ مسائل طے ہو ہی جائیں تو اس دن رحمت کی گھنگھور گھٹاؤں سے شائد یہ ہماری چوتھی یاپانچویں نسل سیراب ہوسکے گی۔پھر پاکستان کےا ن کروڑوںمسلمانوں کاکیا بنے گا جو آج زندہ موجود ہیں۔اور حکومت کی طرف سے نفاذ اسلام کے وعدہ کے ایفاء کی آس لگائے بیٹھے ہیں؟۔۔۔آہ! آج تک کوئی ایک قانون بھی مسلمان نہ ہوسکا نہ نافذالعمل ہونے میں آیا۔لیکن کہنے کو بہت کچھ ہوچکا بہت کچھ ہورہا ہے اور بہت کچھ ہو کررہے گا!۔۔۔سنو،اسے مسلمانو،اسلام ان جھمیلوں کا نام تو نہیں۔۔۔یہ راہ اتنی دشوار گزار تو نہ تھی جس قدر کہ ہم نے اسے بنا لیا ہے۔دین تو نہایت آسان ہے۔۔۔«اَلدِّيْنُ يُسْرٌ» بالکل سیدھا ہے۔﴿وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهُ عِوَجاً﴾ اس میں کوئی کجی نہیں۔«اَلَلَّهُمَّ رَبَّنَااهدِنَا الصِّر‌ٰ‌طَ المُستَقيمَ ﴿٦﴾ صِر‌ٰ‌طَ الَّذينَ أَنعَمتَ عَلَيهِم غَيرِ‌ المَغضوبِ عَلَيهِم وَلَا الضّالّينَ ﴿٧﴾... سورة الفاتحة»