وضع حدیث اور وضاعین

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس جہاں سے رحلت فرمائی تو عرب کا تقریباً تمام علاقہ اسلام کے زیر نگیں آچکا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں جو افراد اسلام قبول کرچکے تھے ان کی تعداد چار لاکھ بیان کی جاتی ہے ۔لیکن ایسے مسلمان جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یافتہ ہوئے ایسے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی تعداد سوا لاکھ کے لگ بھگ ہے اور وہ اصحاب رضوان اللہ عنھم اجمعین جن سے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم مروی ہیں۔ان کی تعداد تقریباً چار ہزار ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں سنت کی واضح ترین شکل یہ تھی کہ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کچھ اور جیسے کرتے دیکھتے وہی کچھ اور ویسے ہی کرنے لگ جاتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی کام کا حکم دیتے تو فوراً اس کی تعمیل کرتے اور اگر کسی کام سے روکتے تو فوراً رک جاتے۔گویا سنت اور اتباع سنت کا بیشتر دارومدار تعامل صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین پر تھا۔حفظ وکتابت اور روایت احادیث کا نمبر بہرحال ثانوی تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کو احادیث لکھنے کی اجازت بھی دی جاتی تھی اور روایت حدیث کی اجازت بھی اس شرط پر دی تھی کہ "خبردار!میری طرف کوئی جھوٹی بات منسوب نہ ہونے پائے۔ورنہ اس کی سزا جہنم ہے۔"لہذا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس سلسلہ میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے تھے۔

بایں ہمہ اس حقیقت سے بھی انکار مشکل ہے کہ مسلمانوں میں منافقین اور مرتدین کابھی ایک گروہ شامل تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد کھل کر سامنے آگیا تھا۔ایسے ہی لوگوں میں سے یا نرم تر الفاظ میں ان نو مسلموں میں سے جن میں ابھی ایمان راسخ نہ ہوا تھا۔ایک شخص ایسا بھی تھا کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہی آخری ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولا۔پورے دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ میں سے صرف یہی ایک اور پہلی مثال ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھاگیا۔ملا علی قاری نے اپنی موضوعات کبیر میں اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے:

«ولابن عدي فى الكامل عن بريدة قال: كان حي من بني ليث على ميلين من المدينة، وكان رجلٌ قد خطب منهم في الجاهلية فلم يزوجوه، فأتاهم وعليه حلة فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كساني هذه، وأمرني أن أحكم في أموالكم ودمائكم، ثم انطلق فنزل على تلك المرأة التي كان خطبها. فأرسل القوم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: كذب عدو الله. ثم أرسل رجلاً فقال: إن وجدته حياً فاضرب عنقه، وإن وجدته ميتاً فأحرقه. فوجده قد لدغته أفعى فمات فحرقه بالنار. قال: فذلك قول رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كذب علي متعمداً فليتبوأ مقعده من النار»(موضوعات كبير ملا على قارى ص4)

"ابن عدی"کامل" میں بریدۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ مدینہ سے دو میل کے فاصلے پر بنی لیث کا ایک ذیلی قبیلہ رہتاتھا۔اس ذیلی قبیلہ کے کسی شخص کو ایک آدمی نے ایام جاہلیت میں نکاح کا پیغام دیا۔جسے اس کے سرپرستوں نے نامنظور کر دیا تھا۔اب وہی(ناکام) شخص ایک حلہ(حلہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ) پہن کر اس قبیلہ کے لوگوں کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ حلہ (بطور نشانی) پہنایا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے مالوں اور جانوں کے متعلق فیصلہ کروں ۔پھر وہ چل کھڑا ہوا اور اس عورت کے مکان پر پہنچا جس کے لئے اس نے نکاح کاپیغام دیاتھا ۔اب ان قبیلہ والوں نے ایک آدمی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس اللہ کے دشمن نے جھوٹ بولا"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو بھیجا اور حکم دیا کہ"اگراسے زندہ پاؤ تو قتل کردینا اور اگر مُردہ پاؤ تو جلا دینا۔" اس (انصاری) شخص نے جا کر دیکھا کہ اس مفتری کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔اور وہ مرگیا ہے۔تو اس انصاری نے اس مفتری کی میت کو جلادیا۔اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا،" جس شخص نے مجھ پر عمداً جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔"اس حدیث سے مندرجہ زیل نتائج مستنبط ہوتے ہیں:

1۔وضع حدیث،حجیتِ حدیث کی سب سے بڑی عقلی دلیل ہے:

اس دور میں تمام کے تمام مسلمان حجیت حدیث کے قائل تھے۔ورنہ اس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ جھوٹ باندھنے کی کیا ضرورت تھی؟اور ہمارے خیال میں وضع حدیث در اصل حجیت حدیث کی سب سے بڑی دلیل ہے۔زراسوچیئے!کہ جعلی نوٹ لوگ اس لئے بناتے ہیں کہ اصلی نوٹ بازار میں قدروقیمت رکھتا ہے اور جس چیز کی بازار میں کوئی قدروقیمت نہ ہو اس میں جعل سازی کرنے یا اس کی نقل اتارنے کی کسی کو کیا ضرورت ہوسکتی ہے؟اس سے ضمناً دوسرانتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ جب تک موضوعات کادور چلتا رہا کم از کم اس وقت تک مسلم اکثریت حجیت حدیث کی قائل تھی اور آج بھی اگرکوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کرتا ہے تو خواہ وہ زبانی حجیت حدیث کا منکر ہی کیوں نہ ہو بالواسطہ وہ حجیت حدیث کااقرار کررہا ہوتا ہے۔

2۔وضع حدیث اورتنقید حدیث لازم وملزوم ہیں:

اس مفتری اور وضاع کی بات کو بنو لیث کے قبیلہ والوں نے تسلیم کرنے سے انکار کیا اورہچکچاہٹ محسوس کی چنانچہ انھوں نے اس بات کی تحقیق و تنقید کےلئے ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا۔ان کا یہ فعل قرآن کریم کی درج زیل آیت کی تعمیل تھی:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن جاءَكُم فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنوا ...﴿٦﴾... سورة الحجرات

"اے ایمان والو!جب کوئی فاسق تمہارے پا س کوئی خبر لے کرآئےتو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔"

گویا وضع حدیث اورتنقید حدیث کا چولی دامن کاساتھ ہے۔دونوں آپس میں لازم ملزوم ہیں۔چنانچہ وضع حدیث کے ساتھ ہی تنقید حدیث کاسلسلہ بھی شروع ہوگیا اور جب وضع حدیث کا بازار گرام ہوا تو اسی نسبت سے ناقدین حدیث کی تنقید میں شدت پیدا ہوتی چلی گئی اور تنقید کے تمام ممکنہ طریقوں کو حسب ضرورت بُروئے کا لایا گیا۔

3۔خبرواحد بھی حجت ہے:

اس قبیلہ کے لوگوں نے صورتحال کی تحقیق کے لئے صرف ایک شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔پھر سزا دینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صرف ایک آدمی کو بھیجا جس سے معلوم ہوا کہ عام حالات اوردینی معاملات میں خبرواحد مکمہل حجت شرعیہ ہے۔دو یا اس سے زیادہ گواہوں یا گواہیوں کی ضرورت صرف فصل خصومات یا حدود والے جرائم کی صورت میں ہواکرتی ہے۔

4۔روایت مذکورہ سے وحی خفی کاثبوت:

رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے کہ"اگر زندہ ہو تو اس کی گر دن اڑا دینا اور مرچکا ہو تو اس کو جلادینا"سے یہ واضح ثبوت ملتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کے علاوہ "کچھ اور" بھی وحی ہوتی تھی۔سوچنے کی بات ہے کہ صرف دو میل کافاصلہ طے کرنے میں آخر کتنا وقت لگتا ہے؟زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ۔اور اس مدت کےلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ"اگر مر چکاہوتو اس کو جلا دینا"گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی خفی کے ذریعے یہ معلوم ہوچکاتھا کہ اس اللہ کے دشمن کوسانپ نے ڈس لیا ہے ۔اسی لئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ"اگر تمہارے وہاں پہنچنے تک وہ زندہ رہے تو اسے قتل کردینا اور مرچکا ہوتو اس کو جلادینا۔

5۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کی سزا:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراء باندھنے کی سز ا محض تعزیر نہیں بلکہ حد ہے اور وہ ہے قتل یا جلادینا۔دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں جلا دینے کی سزا اگرچہ دوسر مواقع پر درست نہیں اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع بھی فرمایا ہے تاہم افتراء علی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی سزا تحریق فی النار ہے۔اور یہ غٖالبا« فليتبوأ مقعده من النار» کی نسبت سے ہے اور آخرت میں سزا جہنم تو بہرحال ہے ہی۔گو مفتری علی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سزادینا حکومت کاکام اورذمہ داری ہے تاہم اس وضاع کاتعاقب اور موضوع حدیث کا محاسبہ ہر مسلمان کا فرض ہے۔کیونکہ اس کے نتائج بڑے دُور رس ہوتے ہیں۔

طلوع اسلام کی دیانت:

یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اس روایت کو جناب حافظ اسلم صاحب جے راجپوری (استاذ جناب پرویز صاحب) نے "مقام حدیث" میں دو مقامات پرص 123 اور ص 144 پر درج فرمایا ہے۔صرف ترجمہ ہی درج کیا ہے اصل عربی عبارت نقل نہیں کی صرف ترجمہ لکھنے کا فائدہ صرف یہی نہیں ہوتا کہ مضمون نگار طوالت سے بچ جاتا ہے بلکہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ترجمے میں وہ من مانی"اور حسب پسند ترجمہ پیش کرسکتا ہے اب ایک عام قاری کے لئے یہ بات مشکل ہوتی ہے کہ وہ اصل متن کی طرف رجوع کرے۔پھر ہر قاری عربی عبارت کاترجمہ سمجھنے یا متن اور ترجمہ کا مقابلہ کرنے کی استعداد بھی نہیں رکھتا۔بس اسی کمزوری سے یار لوگ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔چنانچہ حافظ صاحب موصوف نے ترجمہ میں دو مقامات پر"تصرف" فرمایا ہے کہ یہ ایک"فارسل القوم الى رسول الله" کا ترجمہ لکھا ہے"اپنے دو آدمی تصدیق کے لئے دربار رسالت میں بھیجے۔"یہ"دو آدمی"لکھنے کی مصلحت غالباً یہ ہے کہ آپ خبر واحد کو مردود قرار دینے کی ایک وجہ یہ بھی پیش کیاکرتے ہیں کہ سند ایک شہادت ہے۔اور وہ کم از کم دو آدمیوں کی ہونی چاہیے۔ اور دوسرے یہ کہ روایت کے ان الفاظ «إن وجدته حياً فاضرب عنقه، وإن وجدته ميتاً فأحرقه» کا ترجمہ فرمایاہے۔"جا کر اس کو قتل کرکے جلا دو۔"اس تبدیلی میں یہ مصلحت ہے کہ اگر صحیح ترجمہ پیش کیا جاتا تو اس سے وحی خفی کاثبوت ملتا ہے۔لہذا ترجمہ میں یہ مختصر سی تبدیلی کرلی۔یہ ایک مثال"مشتے نمونہ از خروارے" آپ نے ملاحظہ فرمالی۔اگر آپ غور فرمائیں تو دیکھیں گے کہ ادارہ مذکور کی اکثر تحریروں کا یہی حال ہوتاہے اور اس طرح ناواقف یاکم علم حضرات کی آنکھوںمیں دھول جھونکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس واقعہ اور اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجوزہ سزا کا یہ اثر ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین روایت بیان کرنے میں پہلے سے بھی زیادہ محتاط ہوگئے اور بلا تکلف حدیث بیان کرنے سے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کو منع بھی فرماتے رہے۔اسی احتیاط کانتیجہ تھا کہ ایک عرصہ دراز کےلئے فتنہ وضع حدیث فروہوگیا۔

موضوع احادیث کی ابتداء:

تقریبا ً بیس سال بعد یعنی دور عثمانی کے اواخر میں دوبارہ اس فتنہ کے احیاء کاسراغ ملتاہے۔اس فرق کے ساتھ کے دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ واقع انفرادی سطح پر وقوع پزیر ہواتھا۔مگر اب کی بار یہ فتنہ اجتماعی شکل میں نمودار ہوا۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ عبداللہ بن سبا یہودی یمنی ایک نہایت ذہین فطین آدمی تھا۔اس وقت جب اس نے یہ معلوم کرلیا کہ اس وقت کوئی طاقت مسلمانوں کوکھلے میدان میں شکست نہیں دے سکتی جب کہ اسلام اور مسلمانوں سے انتقام کا جذبہ اس کی رگ رگ میں سرایت کرچکا تھا۔لہذا اس نے در پردہ ایک تدبیر اختیار کی۔اس نے اسلام قبول کرلیا پھر ایک نہایت متدین ۔پرہیز گار اور درویش بن کر سامنے آیا اور مسلمانوں میں انتشار ڈالنے کی غرض سے کچھ نئے نئے عقائد وضع کئے اور اس تحریک کو بپا کرنے کے لئے اس نے ناپختہ اور غیر تربیت یافتہ نو مسلموں کاانتخاب کیا جو اسلام کے اصل مرکز مدینہ سے دور مثلا ً کوفہ۔بصرہ۔مصر اور شام کی فوجی چھاؤنیوں میں مقیم تھے اور اسلام لانے کے فوراً بعد جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے فوج میں بھرتی ہوگئے تھے۔ان میں سے بعض نومسلموں کا یہ حال تھا کہ انہیں قرآن کی ایک آیت بھی زبانی یاد نہ تھی نہ ہی ان میں اسلامی عقائد کچھ راسخ ہوئےتھے فی الواقع ایسے ہی لوگ عبداللہ بن سبا کی تحریک کے لئے سازگار ہوسکتے تھے کیونکہ اس کی تحریک کا اصل مقصد مسلمانوں میں انتشار پیدا کرکے ان کی سیاسی طاقت کو کمزور بنا دینا تھا اس کے مخترعہ عقائد کا مرکزی نقطہ مسلمانوں میں نسلی تعصبات کو بھڑکانا اوراس راستے سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جائز حقدار خلافت اور دوسرے خلفاء کو غاصب ثابت کرنا تھا۔اس کی پہیم کوششوں ،مختلف مذکورہ مراکز میں دوروں اورخفیہ خط وکتابت کے ذریعہ وہ اپنی تحریک میں بہت حد تک کامیاب ہوا۔اسی تحریک کے نتیجے میں شہادت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا درد ناک واقعہ وقوع پزیر ہوا اور جن نو مسلموں نے عبداللہ بن سبا کا ساتھ دیا وہ شیعان علی کہلائے۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی شہادت سے پیشتر انہی مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہاتھا:

"اگرتم اپنی حرکت سے باز نہ آئے تو یاد رکھو کہ اُمت مسلمہ ایسے تشتت وانتشار کاشکا ر ہوگی کہ تاقیامت وہ متحد نہ ہوسکے گی۔"

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوگئے۔ان کی پیشن گوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور یہی کچھ اس نو مسلم یہودی کی اس تحریک کا مقصد تھا۔

عبدللہ بن سبا اور اس کے پیروؤں کو نومسلموں میں اپنے عقائد کو شائع کرنے کی بہترین صورت جو نظر آئی وہ یہی"وضع حدیث" کا حربہ تھا چنانچہ اس طبقے نے اس حربے کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد اسی مفسد اور غنڈہ عنصر نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا اور قصاص کے انتقام سے بچنے کی خاطر امت کو مسلسل جنگوں سے دو چار کردیا۔اب یہ لوگ شیعان علی نہیں بلکہ محض شیعہ کہلاتے تھے۔جنگ جمل اور جنگ صفین انہی کی رخنہ اندازیوں سے وقوع پزیر ہوئیں ۔جن میں کم وبیش سوا لاکھ کے قریب مسلمان کام آئے۔جنگ صفین کے نتیجہ میں کچھ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کرلیا۔یہ لوگ خارجی یا خوارج کہلائے۔جواگرچہ انہی شیعان علی سے پیدا ہوئے تھے لیکن انہوں نے بالکل مخالفت سمت اختیار کی۔ شیعہ تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعریف وتوصیف میں حد سے بڑھ گئے تھے۔کچھ انھیں وصی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے تو کچھ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خداسمجھتے تھے۔ اور خوارج کا یہ حال تھا کہ وہ ہرطرح سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تنقیص کرتے تھے حتیٰ کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پرکفر کافتویٰ بھی لگادیا۔اس فرقے نے بھی اپنے مخصوص عقائد کی اشاعت کے لئے وہی وضع حدیث کاحربہ اختیار کیا اس دو طرفہ کاروائی سے وضع حدیث کابازار خوب گرم ہوگیا۔فرق صرف یہ رہا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے د ور خلافت میں صرف سبائیوں کی موضوع احادیث مشتہر ہوئیں اور خوارج کی احادیث آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد۔

وضع احادیث کاسد باب


احادیث کے متعلق یہ خدمت کہ کوئی غلط بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہونے پائے ایسی بات ہے کہ جس کی نگرانی کے ذمہ دار تمام مسلمان ٹھرائے گئے ہیں۔اجتماعی سطح پر بھی اور انفرادی سطح پر بھی۔اس خدمت کاتعلق جیسے حکومت سے ہے ویسے ہی انفرادی طور پر بھی ہے پھر یہ خدمت کسی زمانہ کے ساتھ مختص بھی نہیں۔اس نگرانی کی ضرورت جیسے قرآن اول میں تھی ویسے ہی آج بھی ہے اور یہ ضرورت قیامت تک باقی رہے گی۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ تک خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم تھی۔لہذا اس نگرانی کی بیشترزمہ داری حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پرعائد ہوتی تھی۔اب ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس فتنہ کے سد باب کےلئے کیاکچھ اقدامات کیے۔احادیث اور تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہےکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سلسلہ میں حسب زیل چار طریقے اختیار کیے تھے:

1۔تحریق فی النار:

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان لوگوں کے لئے وہی سزا تجویز کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے وضاع کردی تھی۔یعنی ایسے لوگوں کو آگ میں جلا دیا جائے تفصیل اس واقعے کی یہ ہے کہ ایک دفعہ یہ لوگ بازار میں کھڑے ہوکر علی الاعلان اپنے نظریات کاپرچارکررہے تھے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام قنبر نے بھی یہ باتیں سنیں تو جاکر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اطلاع دی کہ کچھ لوگ آپ کو خدا کہہ رہے ہیں اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں خدا کی صفات مانتے ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان لوگوں کو بلایا یہ قوم زط کے تقریباًستراشخاص تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا کیا کہتے ہو؟وہ کہنے لگے کہ"آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے رب ہیں اور خالق اور رازق ہیں"آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم پر افسوس ہے۔میں تم جیسا ہی ایک بندہ ہوں تمہاری طرح ہی کھاتا اور پیتا ہوں۔اگراللہ کی اطاعت کروں گا تو مجھے اجر ملے گا اور اگراس کی نافرمانی کروں گا تو مجھے سزا دے گا۔لہذا تم خدا سے ڈرو اور اس عقیدے کو چھوڑ دو۔"

لیکن ان لوگوں پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت کاکچھ اثر نہ ہوا کیونکہ ان کامقصد طلب ہدایت تو تھا ہی نہیں۔وہ تو اُمت میں انتشار بپا کرنا چاہتے تھے لہذا اپنے عزائم سے باز نہ آئے۔ د وسرے روز قنبر نے پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتلایا کہ وہ لوگ تو وہی کچھ کہہ رہے ہیں ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوبارہ انھیں بلایا اور پھر تنبیہ اور سرزنش کی ۔لیکن پھر بھی یہ لوگ باز نہ آئے تیسرے دن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو بلا کر یہ دھمکی دی کہ اگراب کے بھی تم باز نہ آئے تو میں تمھیں بدترین طریقے سے سزا دوں گا۔لیکن یہ لوگ پھر بھی باز نہ آئے۔تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یوں کیاکہ ایک گڑھا کھدوایا اور اس میں آگ جلوائی اور اُن سے کہا کہ دیکھو اب بھی باز آجاؤ ورنہ تمھیں ا س گڑھے میں پھینک دوں گا"مگر یہ لوگ اپنی تخریبی کاروائیوں پر تلے بیٹھے تھے زبان سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خدا کہنے والے خود ان کے منہ پر ان کی نافرمانی کررہے تھے لہذاحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے آگ میں پھینک دئیے گئے۔( فتح الباری ج12 ص 238)

امام بخاری ؒ نے یہ حدیث مختصراً صحیح بخاری میں درج فرمائی ہے اور ان سبائیوں کے لئے "زنادقہ" کا لفظ استعمال کیا ہے۔الفاظ یہ ہیں:

«عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ أُتِيَ عَلِيٌّ ـ رضى الله عنه ـ بِزَنَادِقَةٍ فَأَحْرَقَهُ فَبَلَغَ ذَلِكَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ لَوْ كُنْتُ أَنَا لَمْ أُحْرِقْهُمْ لِنَهْىِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم !وَلَاتُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللهِوَلَقَتَلْتُهُمْ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ ‏»(صحيح بخارى باب حكم المرتد)

"عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کچھ زندیق لائےگئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کوجلادیا پس جب یہ خبر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوپہنچی تو کہنے لگے کہ اگر آپ کی جگہ میں حاکم ہوتا تو میں انھیں جلانےکی بجائے قتل کرتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ہے :جو کوئی اپنا دین بدل ڈالے اسے قتل کردو۔"

اس حدیث سے درج زیل باتوں کاپتہ چلتا ہے:

(الف) دین کی تبدیلی کا مفہوم صرف یہ نہیں کہ کوئی شخص صرف اسلام کوچھوڑ کر عیسائی یا یہودی یاہندو ہوجائے بلکہ مسلمان کہلوا کر اور مسلمانوں میں شامل رہ کر اس کے بنیادی عقائد کی جڑیں کاٹنے والا شخص بھی اس حکم میں داخل ہے۔

(ب)ایسے لوگوں کو قرن اول میں زندیق بھی کہاجاتا تھااور مرتد بھی۔جن مرتدین سے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےجہاد کیا وہ مسلمان ہی کہلواتے تھے البتہ انہوں نے عقائد میں تخریب وتحریف کی بجائے اسلام کے ایک بنیادی حکم کے تسلیم کرنے سے انکار کیاتھا۔یہ لوگ زکواۃ کو اسلام کا رکن تسلیم نہیں کرتے تھے۔

(ج) ایسے لوگوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں قسم کی سزاتجویزفرمائی تھی۔پھر یہ سبائی چونکہ وضع حدیث کے علاوہ اور بھی کئی قسم کے کبیرہ جرائم کے مرتکب تھے لہذا ہمارے خیال میں اس مسئلہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کااجتہاد اور فیصلہ موزوں تر تھا۔

لیکن اس واقعہ"تحریق فی النار" کے بعد بھی اس تخریبی تحریک کامکمل طور پر استیصال نہ ہوا۔اس تحریک کے ادھر ادھر بکھر ے ہوئے لوگ جو لوگ بچ رہے تھے وہ اپنے عقائد اور عزائم میں اور بھی سخت ہوگئے اوراپنے اس عقیدہ کی تائید میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد سے استشہاد کرنے لگے۔وہ کہتے تھے کہ آگ اور پانی کا عذاب چونکہ اللہ تعالیٰ کو ہی سزاوار ہے۔اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ہم کو یہی سزا دی ہے اور جلایا ہے لہذا وہ عین خدا ہیں وہ زبان سے یہ کہتے تھے۔«لَا يُعَذِّبُ بِالنَّارِ اِلَّا رَبِّ النَّارِ» یعنی آگ کا خدا ہی آگ سے عذاب دینے کا حقدار ہے"غورکیجئے! کہ عقل کج رو جب کسی غلط بات کو درست ثابت کرنے کےلئے در پہ ہوجاتی ہے تو کہاں کہاں سے اور کیسے کیسے دلائل تلاش کرلیتی ہے؟اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ د عا سکھلائی ہے:

﴿رَ‌بَّنا لا تُزِغ قُلوبَنا بَعدَ إِذ هَدَيتَنا...﴿٨﴾... سورةآل عمران

"اے ہمارے پروردیگار! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کیجیو۔"

اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو ایسی کجروی سے اپنی پناہ میں رکھے۔آمین!

2۔سبائیوں کی تکذیب:اس سبائی فرقہ کے لوگ جو کوئی موضوع حدیث بناتے تو اسے بالعموم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب کردیاکرتے تھے۔ یہ لوگ جہاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعریف وتوصیف میں غلو سے کام لیتے تھے۔وہاں پہلے خلفاء بالخصوص حضر ت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تنقیص اور غصب سے متعلق بھی انہوں نے بہت سی احادیث گھڑ کر مشہور کردی تھیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واشگاف لفظوں میں برسر منبر ان سب باتوں سے اپنی برائت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:

«مالى ولهذا الخبيث الاسود معاذالله ان اقول لهما الا الحسن الجميل ثم نهض على المنبر حتى اجتمع الناس فذكر القصة فى المدح عليهما بطوله»

" مجھے اس کالے آدمی سے کیا سروکار؟ اللہ کی پناہ کے میں ان دونوں(ابوبکر وعمر رضوان اللہ عنھم اجمعین ) کے متعلق اچھی بات کے علاوہ کچھ اورکہوں۔پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر پر تشریف لے گئے اور لوگ اکھٹے ہوئے پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان دونوں حضرات کی مدح وتوصیف میں بہت لمبی چوڑی گفتگو کی۔"(لسان المیزان ج3ص 290 بحوالہ تدوین حدیث از مناظر احسن گیلانی مطبوعہ برہان دہلی اگست 51 ص78)

ظاہر ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب کرکے جھوٹی حدیثیں اور اقوال مسلمانوں میں پھیلائے جاتے تھے۔ان کے علاج کی موزوں ترین صورت یہی ہوسکتی ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ علی الاعلان ایسی روایتوں سے برائت کااظہار کردیں۔اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جماعت کے ایک بزرگ ایک دن عبداللہ بن سبا کو پکڑے ہوئے کوفہ کی جامع مسجد میں منبر کے پاس تشریف لائے۔اور اس کی طرف اشارہ کرکے اعلان کیا کہ:

«يكذب على الله ورسوله»(لسان الميزان ص289 بحواله رساله مذكور ص70)

"یہ(یعنی عبداللہ بن سبا) خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی باتیں بنا کر منسوب کرتا ہے"

3۔اشاعت احادیث صحیحہ:اس فتنہ کے سد باب کے لئے تیسری تدبیر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اختیار کی کہ صحیح احادیث جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم تھیں۔ان کی عام نشرواشاعت کردی جائے تاکہ صحیح حدیثوں کے مقابلہ میں غلط اور جھوٹی حدیثوں کا امتیاز تمام لوگ از خود کرسکیں۔ پہلے تمام صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین احادیث کی عام نشرو اشاعت سے گریز کرتے رہے جو ایک احتیاطی تدبیر تھی کہ اگر لوگوں میں احادیث کی نشرواشاعت کا عام چرچا شروع ہوجائے توسچ میں جھوٹ کے مل جانے کا خطرہ تھا۔اسی احتیاط اور اسی خطرہ نے بالخصوص خلفاء کو کہ اس حدیث کی نگرانی کے کام میں ان کی ذمہ داریاں عام مسلمانوں سے بہت زیادہ تھیں۔اس معاملہ میں انتہائی محتاط بنا دیاتھا۔اور اب جب ان سبائیوں نے جھوٹی احادیث بنا کر انہیں عوام میں پھیلا ہی دیا۔تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہی مناسب سمجھا کہ اب ان کے مقابلے میں صحیح احادیث کی نشرواشاعت لابدی ہوگئی ہے۔وہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اپنی لکھی ہوئی احادیث کو اپنی تلوار کے نیام میں چھپائے رکھتے تھے اور لوگوں کے مطالبے پر بھی وہ نکال کر دکھلانے کی بجائے زبانی یہ بتلا دینے پر اکتفاء کرتے تھے کہ اس میں کچھ زکواۃ کے احکام ہیں یا کچھ دیت کے اور کچھ فرائض کے۔انہی کے متعلق ہمیں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ:

« إن علي بن أبي طالب خطب الناس فقال: من يشتري علما بدرهم؟ فاشتري الحارث الأعور صحفا بدرهم، ثم جاء بها عليا فكتب له علما كثيرا»(طبقات ابن سعد ج6ص116، بحواله رساله مذكور جون 51ء ص326)

" حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو(کوفہ) میں خطبہ دیا اور کہا:"کون ایک درہم میں علم خریدنا چاہتا ہے؟"حارث اعور ایک درہم کے کچھ کاغذ خرید کر لائے اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کاغذوں پر بہت سا علم لکھ دیا۔"

صرف یہی نہیں کہ جوشخص بھی کاغذ لاتا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پر اسے "علم" لکھ دیتے تھے بلکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اعلان عام تھا کہ جو کوئی مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہے۔ پوچھے"میں اسے بتلاؤں گا۔مصلح عامری کہتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا:

«يَا اَخَابَنِى عَامِرٍ سَلْنِى عَمَّا قَالَ اللهُ وَرَسُولُهُ فَاَنَا اَهْلُ الْبَيْتِ اَعْلَمُ بِمَا قَالَ اللهُ وَرَسُولُهُ»(طبقات ج6ص267 بحواله رساله مذكورص143)

"اے قبیلہ بنی عامر کے بھائی! مجھ سے ان امور سے متعلق پوچھو جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے ہیں۔کیونکہ میں گھر کے لوگوں سے ہوں اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو زیادہ جانتا ہوں۔"

ان سبائیوں کے ظہور سے پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روش تحریر شدہ علم لوگوں کو دیکھانا بھی نہیں چاہتے تھے۔اور اب یہ حالت ہے کہ ہر ایک سے کہتے ہیں کہ مجھ سے پوچھو اور ایک درہم میں مجھ سے لے لو اس کی وجہ بھی انھوں نے خود اپنے الفاظ میں یہ بیان فرمائی کہ:

قاتلهم الله، أي عصابة بيضاء سودوا وأي حديث من حديث رسول الله -صلى الله عليه وسلم أفسدوا-(تذكرة الحفاظ ج1ص12بحواله رساله مذكور ص143)

"خدا ان سبائیوں کو تباہ کرے۔کتنی روشن جماعت(امت مسلمہ) کو انہوں نے سیاہ کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی ہی حدیثوں کو انہوں نے بگاڑ دیا۔"

چنانچہ پچاس سے زیادہ آدمیوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔(تہذیب ج 7 س375)

4۔تنقید حدیث کا معیار:

چوتھا اقدام حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کیا کہ موضوع احادیث کو جانچنے کے لئے ایک ایسا معیار پیش کیا جسے بعد میں آنے والے تمام محدثین نے اصول کے طور پر اپنایا اور وہ یہ ہے:

«كل حديث يخالف العقول اويناقض الاصول فاعلم انه موضوع»

"ہر وہ حدیث جسے تم عقل اور اصول دین کے خلاف دیکھو تو جان لو کہ وہ موضوع ہے۔"

اسی معیار کی مذید تشریح ان الفاظ میں کی گئی کہ:

"اَوْيَكُونُ مِمَّا يَدْفَعُ الْحِسُّ وَالْمُشَاهَدَةُ اَو مُبَائِنَا لِبَعْضِ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ الْمُتْوَاتِرَةِ اَوِ لْاِجْمَاعِ الْقَطْعِىِّ حَيْثُ لَا يُقْبَلُ مِنْ ذَلِكَ التَّاوِيْلُ"(فتح الملهم شرح مسلم للعثمانى ص16)

"یا حدیث ایسی ہو کہ حواس اور مشاہدہ اسے مسترد کردے۔یا اللہ کی کتاب اور احادیث متواترہ یاقطعی اجماع کے مخالف ہو خصوصاً جب کہ اس حدیث میں کسی تاویل کی گنجائش بھی نہ ہو۔"

ساتھ ہی ساتھ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو یہ ہدایت بھی فرمایا کرتے تھے:

"حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا يَعْرِفُوْنَ وَدَعُوْا مَا يُنْكِرُوْنَ"(تذكره ص12)

"لوگوں سےصرف ایسی حدیث بیان کرو جس سے وہ متعارف ہوں نہ ایسی کہ جن سے وہ آشنا ہی نہ ہوں۔"

خلافت راشدہ کے بعد:

ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے بیشتر یہی سبائی فرقہ تھا اور انہی کے بپا کئے ہوئے فتنہ سے متعلق آپرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند در چند اقدامات کئے۔آپرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد خوارج کی طرف سے بھی موضوع احادیث کا سلسلہ شروع ہوگیا۔قابل زکر بات یہ ہےکہ وضع احادیث کا اصل مرکز در اصل کوفہ اور بصرہ ہی تھا۔جیسا کہ اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان(65ھتا85ھ) نے اس کا اظہا ان الفاظ میں کیا تھا:

«قد سالت علينا احاديث من قبل المشرق ولا نعرفها»(طبقات ابن سعد ص173)

"مشرق(عراق) جس میں کوفہ بصرہ وغیرہ تھے) سے حدیثوں کاایسا سیلاب بہ کر ہماری طرف آگیا ہے جنھیں ہم نہیں پہچانتے!"

یہ اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان اپنی اوائل عمر کابیشتر حصہ طلب علم حدیث میں صرف کرچکا تھا اور ممتاز طلبہ میں اس کا شمار ہوتا تھا۔اس نے ان موضوع احادیث کے متعلق یہ تبصرہ بحیثیت ناقد حدیث کیاتھا۔لطف کی بات یہ تھی کہ صرف سبائی اور خوارج ہی نے اس "کارخیر" میں حصہ نہیں لیا۔بلکہ اور بھی کوئی طرح کے لوگ مثلاً واعظ یاسیاست سے وابستہ افراد نے موضوعات کا سہارا لیناشروع کردیا۔اوراس میدان میں اتر آئے۔پھر کچھ لوگ ایسے بھی پیداہوئے جنھوں نے صحیح احادیث کاانکار شروع کردیا یا پھر ان کی تاویلات ڈھونڈنے لگے۔بالخصوص معتزلین اور جہمیہ اس میں پیش پیش تھے۔جو بظاہر "حسبُنا کتاب اللہ" کانعرہ لگاتے تھے۔گویا عراق کی سرزمین تمام فتنوں کے لئے بہت زرخیز ثابت ہورہی تھی۔اور اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشن گوئی بھی فرمائی تھی جیسا کہ بخاری میں مذکور ہے کہ:

"یسیر بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے سہل بن حنیف سے پوچھا:کیا آپ نے خوارج کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ کہتے سنا ہے؟ سہل بن حنیف نے کہا،یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے عراق کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:

«يَخْرُجُ مِنْهُ قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَمِ كَمَا مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ ‏»

"اس ملک سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن تو پڑھیں گے لیکن قرآن ان کی ہنسلیوں سے نیچے نہیں اترے گا(یعنی قرآن کا کچھ اثر قبول نہ کریں گے)یہ لوگ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور کے پار نکل جاتا ہے۔"(بخاری باب من ترک الخوارج)

خلافت راشدہ کے بعد امت میں پہلی سی مرکزیت باقی نہ رہ گئی تھی۔نہ ہی شوریٰ کا وجود باقی تھا۔ اور بحیثیت فتنہ اس کا سد باب حکومتی اور انفرادی دونوں محاذ پر لازمی تھا۔ لہذا اس لامرکزیت کے باوجود دونوں طبقوں نے اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کیا جس کا مختصر تزکرہ درج زیل ہے:

حکومت کی طرف سے وضاعین حدیث کو سزائے پھانسی یاقتل:

یہی عبد الملک بن مروان جس نے کہا تھا کہ،مشرق کی طرف سے موضوع احادیث کاسیلاب بہ کر ہماری طرف آرہا ہے اس نے مشہور وضاع حارث بن سعید الکذاب کو اسی جرم میں تختہ دار پر کھینچا۔کیونکہ عبدالملک اپنے آپ کو محض بادشاہ ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے دین کا محافظ بھی سمجھتاتھا۔اسی عبدالملک کے بیٹے ہشام نے غیلان دمشقی کو قتل کیا،جس کاجرم یہ تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں رخنہ اندازیاں کرتا تھا اور موضوع حدیثیں بنا کر عوام میں پھیلاتا تھا۔

ابو جعفر منصور عباسی(136ھتا158ھ)نے اسی وضع حدیث کے جرم میں محمد بن سعید مصلوب کو سولی دی۔مہدی رشید مامون وغیرہ عباسی خلفاء کے عہد میں ہم دیکھتے ہیں۔کہ اس باب میں سب کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کو ئی بات منسوب ہوکر پھیل نہ جائے۔اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ عدالتوں میں شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلے ہوتے تھے۔اور یہ کیونکر ممکن تھا کہ ان وضع احادیث کی بناء پر اگر انسانوں کے حقوق تہ وبالا ہوتے نظر آرہے ہوں اور وہ خاموشی سے برداشت کرلئے جائیں بلکہ تاریخ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان بادشاہوں کےولاۃ اور حکام بھی اس مسئلہ میں کسی رو رعایت کو برداشت نہیں کرتے تھے۔بنی امیہ کے مشہو رگورنر خالد بن عبداللہ القسری نے ایک شخص کو اسی وضع حدیث ک جرم میں قتل کیا تھا۔اسی طرح عباسیوں کی طرف سے بصرہ میں محمد بن سلیمان جب حاکم تھا تو اس نے مشہور وضاع عبدالکریم بن ابی العرجاء کو اسی وضع حدیث کے جرم میں قتل کیا۔اور عدالتوں کے قاضی تو اس معاملے میں اور بھی زیادہ چوکنے رہتے تھے۔اگر انہیں زرا بھی شک پڑ جاتا کہ فلاں شخص حدیث صحیح نہیں بیان کررہا تو اس کی خوب خبرلیتے تھے قاضی اسماعیل بن اسحاق نے ہیثم بن سہل کو محض اس وجہ سے پٹوایا کہ ایسی روایات بیان کرنے لگا تھا جنھیں قاضی اسماعیل صحیح نہیں سمجھتے تھے۔

ان سلاطین کی سیاسی مصلحتیں اپنے مقام پر الگ اور یہ ممکن ہے کہ اس سلسلہ میں انھوں نے بھی بالواسطہ یابلاواسطہ وضع حدیث کا سہار لیا ہو۔لیکن جہاں تک لوگوں کے آپس میں حقوق وفرائض اور نیز اعتقادات وعبادات کا تعلق ہے۔اس میں وہ کسی قسم کی رخنہ اندازی برداشت نہیں کرتے تھے۔ اور اس کی دو وجوہ تھیں۔ایک تو عدالتوں میں شرعی قانون رائج تھا۔اور دوسرے وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کے جانوں مال کا ہی نہیں دین کا بھی محافظ سمجھتے تھے۔

ناقدین اور محدثین کی طرف سے وضع حدیث کادفاع:

جس طرح زنادقہ کی سزا کے سلسلہ میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اجتہاد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے الگ تھا۔اسی طرح ان کا وضع حدیث کے سد باب کا نظریہ بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مختلف تھا۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو اس کا ایک حل یہ تجویز کیاتھا کہ صحیح احادیث کی بکثرت اشاعت کی جائے۔لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مسئلہ میں اس کا یہ حل تجویز کیا کہ صحیح احادیث سے بھی سکوت اختیار کیا جائے ان کا خیال یہ تھا کہ اگر ہم صحیح احادیث بھی بیان کریں گے تو عوام ہمارا سہارا لے کر صحیح اور موضوع سب کچھ بیان کرنے لگیں گے۔چنانچہ امام مسلم ؒنے اپنی کتاب کے مقدمہ میں ایک واقعہ درج کیا ہے۔ کہ بشیر بن لعب العددی ایک دن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں آئے۔اور حدیثیں بیان کرنےلگے ان کا خیال تھاکہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان حدیثوں کو غور سے سنیں گے لیکن ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب دیکھا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی طرف قطعاً توجہ نہیں فرمارہے بشیر بن کعب نے گھبرا کر پوچھا،"حضرت کیا معاملہ ہے؟ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنا رہا ہوں اور آپ ایسی بے التفاتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔تو جواباً حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

«اِنَّا كُنَّا مَرَّةً اِذَا سَمِعْنَا رَجُلًا يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ ابْتَدَرَتْهُ اَبْصَارُنَا وَاَصَغْنَا اِلَيْهِ بَاٰذَانِنَا» مقدمة صحيح مسلم

"ایک وقت ہم پر ایسا بھی گزرا ہے۔کہ جب کوئی یوں کہتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا تو ہماری نگاہیں بے اختیار اس کی طرف اٹھ جاتیں اور ہم اپنے کانوں کو اس کی طرف جھکا دیتے۔"

پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ:

«اِنَّا كُنَّا نُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللهِﷺ اِذَا لَمْ يَكُنْ يَكْذِبُ اِلَيْهِ فَاَمَّا اِذَا رَكِبَ النَّاسُ الصَّعْبَ وَالذَّلُولَ تَرَكْنَا الْحَدِيْثَ»(حواله ايضاً)

"ہم اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث بیان کرتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ منسوب نہیں کیا جاتا تھا۔(یعنی وضعی احادیث کا وجود نہ تھا) پھر جب لوگوں نے ہر بلندی وپستی پر سوار ہونا شروع کردیا(یعنی احادیث میں رطب ویابس سب کچھ ملادیا)تو ہم نے حدیث بیان کرناچھوڑ دیا۔"

یہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنھوں نے ان حالات میں سکوت کو مناسب سمجھا پتہ ہے کون ہیں؟وہی جو ایک مدت تک مکہ میں حدیث کی تدریس کی خدمت سرانجام دیتے رہے۔(تاریخ اہلحدیث ص47)اور جو 2660 احادیث کے راوی ہیں اور مکثرین میں شمار ہوتے ہیں۔پھر جب یہ وضعی احادیث کاسیلاب آیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہا کرتے تھے:

«لَمْ نَاْخُذْ مِنَ النَّاسِ اِلَّا مَا نَعْرِفُ» (حواله ايضاً)

"اب ہم صرف ان حدیثوں کو قبول کرتے ہیں جنھیں ہم پہچانتے ہیں۔"

گویا اس طرز عمل میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یکتا نہ تھے۔ بلکہ ایسے محتاط صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہم خیال ہوگئی تھی جیسا کہ لفظ" اِنَّا كُنَّا" سے ظاہر ہے یہ لوگ دوسروں سے برملا کہنے لگے تھے کہ:

«لَا تُحَدِّثُونَا اِلَّا بِالْقُرآنِ»

"قرآن کے سوا ہم سے کچھ اور بیان نہ کرو۔"

لیکن حالات نے بتلادیا کہ وضعی احادیث کےسد باب کے لئے یہ بھی کوئی کامیاب حل نہ تھا۔کیونکہ قرآن کے بیشتر احکام کی تفصیل احادیث سے ہی ملتی تھی۔چنانچہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب ان حالات کی خبر ہوئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان لوگوں کو جنھوں نے ارادہ کیا تھا کہ آئندہ ہم نہ کسی سے کوئی حدیث سنیں گے اور نہ ہی سنی ہوئی حدیثوں کو قبول کریں گے،متنبہ کرتے ہوئے گرجدار آواز میں فرمایا:

«خُذُوْا عَنَّا فَاِنَّكُمْ وَاللهِ اِنْ لَّم تَفْعَلُوا لَضَلَلْتُمْ»(كفاية ص15)

"ہم لوگوں(یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابیوں رضوان اللہ عنھم اجمعین ) سے احادیث کو حاصل کرو۔خدا کی قسم اگر تم ایسا نہ کرو گے تو گمراہ ہوجاؤ گے۔"

گویا احادیث کو اخذ کرنے کا معیار یہ قائم ہوا کہ یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض یافتہ صحابیوں رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ہی قبول کی جائے۔پہلا معیار جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قائم کیا تھا وہ درایت سے متعلق تھا۔اب یہ دوسرا معیار روایت کی بنیاد کے طور پر سامنے آیا۔اور اس طرح دورصحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں ہی موضوع احادیث کی جانچ پڑتال اور ان سے بچاؤ کی حفاظت کے لئے روایت ودرایت کی بنیاد رکھ دی گئی۔(جاری ہے)


حوالہ و حواشی

۔اس موضوع پر تفصیلی بحث اپنے مقام پر ہوگی۔

۔عبداللہ بن سبا خود بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خدا ہی کہتاتھا۔چنانچہ ایک مرتبہ کوفہ میں آکراس نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے منہ پر یہ بات کہہ دی تھی ۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےسخت سرزنش کی۔

۔اس زمانے کی اصطلاح ہی یہ تھی کہ لفظ علم کا اطلاق زیادہ تر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں پر کیا جاتا تھا۔

۔تدوین حدیث مناظر احسن گیلانی ۔برہن دہلی دسمبر 1948 ص 352،353۔