اخبار الجامعہ

*خبرِ واحد حجتِ شرعیہ ہے ۔۔۔ اس کو حجت تسلیم نہ کرنے والے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے قائل نہیں (علامہ احسان الہی ظہیر)

* ناسخ و منسوخ کی ساری بحث حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک محدود ہے، ۔۔۔ حدیث قرآن مجید کی تائید کرتی ہے ۔۔۔ کوئی صحیح حدیث قرآن مجید سے معارض نہیں۔ (پروفیسر قاضی مقبول احمد)

(1) "میری حدیث کو قرآن پر پیش کرو، اگر اس کے مطابق ہو تو یہ میرا فرمان ہے، ورنہ نہیں"

(2) "میرا کلام اللہ کے کلام کو منسوخ نہیں کرتا، جبکہ اللہ کا کلام میرے کلام کو منسوخ کرتا ہے"

* ۔۔۔۔۔ یہ دونوں حدیثیں جعلی اور بناوٹی ہیں۔ (مولانا عبدالسلام کیلانی)

جامعہ لاہور الاسلامیہ میں

المہد العالی للشریعۃ والقضاء کے زیرِ اہتمام اسلامی حدود و تعزیرات کے سلسلہ میں "کتاب و سنت کا باہمی ربط" کے موضوع پر پندرہ روزہ علمی مذاکرہ میں مدیر جامعہ حافظ عبدالرحمن مدنی، علامہ احسان الہی ظہیر، پروفیسر قاضی مقبول احمد اور مولانا عبدالسلام کیلانی کے خطابات!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

20 جمادی الاولیٰ سئہ 82 ہجری مطابق 17 مارچ سئہ 1982ء بروز بدھ جامعہ لاہور الاسلامیہ میں "المہد العالی للشریعۃ والقضاء" کے زیر اہتمام اسلامی حدود و تعزیرات کے سلسلہ میں کتاب و سنت کے باہمی ربط" پر مذاکرہ سے مدیر سے مدیر الجامعہ حافظ عبدالرحمن مدنی، علامہ احسان الہی ظہیر، پروفیسر قاضی مقبول احمد اور مولانا عبدالسلام کیلانی نے خطاب فرمایا۔

حاضرین میں مہھد کے شرکاء کے علاوہ مہمان اساتذہ میں سے جسٹس بدیع الزمان کیکاؤس، اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ، پروفیسر محمد سلیم، پروفیسر عظمت، پروفیسر فاروق اختر نجیب، اور ڈاکٹر اسرار احمد بھی تشریف لائے تھے، جبکہ علمی ذوق رکھنے والے متعدد اصحاب بھی اس موقع پر موجود تھے۔

مدیر جامعہ حافظ عبدالرحمن صاحب مدنی نے مذاکرہ کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ معھد کے زیر اہتمام یہ مذاکرہ ہر پندرہ روز بعد منعقد ہوا کرے گا جس سے غرض یہ ہے کہ دورانِ تعلیم معھد کے شرکاء کے سامنے جو اہم موضوعات آئیں، ان موضوعات سے متعلق علمی شخصیات کے افکار و خیالات سے مستفید ہوا جا سکے تاکہ ان موضوعات کے تمام پہلو واضح ہو کر سامنے آ جائیں اور ان کا کوئی گوشہ بھی نظروں سے مخفی نہ رہے۔

بعد ازاں آپ نے اس مذاکرہ میں زیر بحث آنے والے موضوعات کا مختصر تعارف کرایا، اور مقررین کو ان کے مواضیع سے مطلع کرتے ہوئے خطاب کی دعوت دی۔

علامہ احسان الی ظہیر

علامہ صاحب نے محدثین کی ایک اصطلاح "خبر واحد" کی حجیت پر تقریبا سوا گھنٹہ خطاب فرمایا۔ انہوں نے سب سے پہلے خبر متواتر اور خبر واحد کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ خبر واحد کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ خبرِ متواتر اس حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہیں کہ جس کو بہت زیادہ رواۃ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہو۔ پھر ان رواۃ سے اسے اخذ کرنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہو اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا جائے، حتی کہ یہ کسی مسلمہ اور مستند کتاب میں محفوظ ہو جائے یا دوسرے الفاظ میں اس روایت کو بیان کرنے والے ہر دور میں تعداد میں اتنے زیادہ ہوں اور اتنے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے ہوں کہ ان کا کسی غلط بات پر جمع ہو جانا مشکل ہو اور عرفِ عام میں ان کے بارے میں یہ وہم و گمان بھی نہ کیا جس سکے کہ انہون نے باہم مل کر، متحد ہو کر اسے اپنی طرف سے ایجاد کر لیا ہے ۔۔۔نیز یہ کہ اخبارِ متواترہ کی تعداد کسی کے نزدیک صرف ایک ہے، کسی کے نزدیک چار، اور کسی کے نزدیک چھ یا آٹھ ہے ۔۔۔ لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اخبارِ متواترہ کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔

علامہ صاحب نے بتایا کہ خبر متواترہ کی تعریف بیان کرنے سے ان کا مقصود یہ ہے کہ خبرِ واحد کی تعریف واضح ہو کر سامنے آ جائے۔ پس خبر واحد کی تعریف یہ ہے کہ اس کے راوی ایک، دو یا تین بھی ہوں لیکن خبر متواتر کی مذکورہ تعریف کا اس پر اطلاق نہ ہو سکتا ہو، یا زیادہ واضح الفاظ میں خبر واحد وہ ہے جو خبر متواتر نہ ہو ۔۔۔۔ اور جب یہ بات مسلمہ ہے کہ اخبارِ متواترہ کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے تو ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال و تقریرات کا پورا ذخیرہ ان چند احادیثِ متواترہ کو چھوڑ کر باقی سب کا سب اخبارِ احاد پر مشتمل ہے۔ لہذا اصل مسئلہ یہ نہیں کہ خبرِ واحد حجت ہے یا نہیں، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حجت ہے یا نہیں؟ اور اگر کوئی شخص اس بحث میں پڑتا ہے کہ خبرِ واحد حجت ہے یا نہیں تو وہ اس اصولی بحث میں نہیں پڑتا کہ خبر واحد کیا ہے اور خبر متواتر کیا؟ بلکہ منوائے کہ اصل اصول اسلام میں صرف قرآن ہے اور دوسری کوئی بات حجت نہیں، اس لیے کہ خبرِ واحدکا انکار حدیث کی ایک مخصوص قسم کا انکار نہیں بلکہ بنیادی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری سنت ہی کا انکار ہے۔

علامہ صاحب نے فرمایا:

اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ قرآن پاک کی روشنی میں حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی اہمیت ہے یا نہیں؟ ۔۔۔ اس سلسلہ میں آپ نے قرآن مجید کی متعدد آیات سے استدلال کیا اور ثابت کیا کہ جس طرح قرآن کریم حجت ہے اسی طرح فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی حجت ہے۔۔۔ مثلا:

﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّ‌سولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ﴾

﴿وَما كانَ لِمُؤمِنٍ وَلا مُؤمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَرَ‌سولُهُ أَمرً‌ا أَن يَكونَ لَهُمُ الخِيَرَ‌ةُ مِن أَمرِ‌هِم ۗ وَمَن يَعصِ اللَّهَ وَرَ‌سولَهُ فَقَد ضَلَّ ضَلـٰلًا مُبينًا ﴿٣٦﴾... سورةالاحزاب

﴿فَلا وَرَ‌بِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّىٰ يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ‌ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَ‌جًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا ﴿٦٥﴾... سورةالنساء

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ وَلا تُبطِلوا أَعمـٰلَكُم ﴿٣٣﴾... سورة محمد

انہوں نے فرمایا:

اگر دنیا میں فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہیں تو حجیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اور اگر یہ موجود ہے اور یقینا ہے، تو یہ حجت ہے۔۔۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ حجت صرف اخبارِ متواترہ ہیں تو ان کی تعداد چند ایک ہے اور باقی سب اخبارِ احاد، جن کو اگر حجت تسلیم نہ کیا جائے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم نے سرے سے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حجت تسلیم نہیں کیا۔۔۔ تو اس سلسلہ میں قرآن مجید کی یہ وعید ہمارے پیشِ نظر ضرور رہنی چاہئے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ وَلا تُبطِلوا أَعمـٰلَكُم ﴿٣٣﴾... سورة محمد

کہ "ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور (اس سے منحرف ہو کر) اپنے اعمال کو باطل نہ کرو۔"

واقعاتی طور پر علامہ صاحب نے خبرِ واحد کی حجیت پر استدلال کرتے ہوئے فرمایا، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 9 ہجری میں صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو مناسکِ حج سکھلا کر اور امام، حج بنا کر بھیجا اور آپ رضی اللہ عنہ تنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین لے کر کعبۃ اللہ، منیٰ اور عرفات میں حاضر ہوئے، لیکن کسی نے یہ نہ کہا کہ آپ تنہا ہیں، لہذا ہم آپ کے بتائے ہوئے مناسک کو تسلیم نہیں کرتے۔ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سورہ توبہ کی آیات دے کر صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تنہا ہی تھے جو پیغام لے کر گئے۔ اسی طرح معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ تنہا اسلام کے اصول لے کر یمن گئے۔ بحرین کے وفد کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو تن تنہا اصولِ اسلام کی تعلیمات دینے کی غرض سے روانہ فرمایا ۔۔۔ حتیٰ کہ تحویل قبلہ کے حکم کے نزول کے بعد ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں بیت المقدس کی بجائے کعبۃ اللہ کی طرف منہ کر کے ادا کی ۔۔۔ بعد میں وہ اپنی بستی کی مسجد میں پہنچے، نماز شروع ہو چکی تھی اور چونکہ تحویلِ قبلہ کی خبر ابھی ان لوگوں تک نہ پہنچ سکی تھی، وہ ہنوز بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے، اس صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پکار کر ان سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نمازِ ظہر بیت اللہ کی طرف رخ کر کے ادا کی ہے، تو ان لوگوں نے سلام پھیر کر تحقیق کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کہ اس صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، نماز ہی میں اپنا رخ بیت المقدس کی بجائے بیت اللہ کی طرف کر لیا۔۔۔ اور یہ واقعہ خبرِ واحد کی حجیت پر زبردست دلیل ہے۔

اسی طرح جنگِ خیبر کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اکیلے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے مطلع کرنے پر کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو گدھے کے گوشت کو حرام کر دیا ہے" اس گوشت کی پکی ہوئی ہنڈیاں تک الٹ دیں، گو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بہت زیادہ بھوکے تھے لیکن اٹھائے ہوئے لقمے بھی پھینک دیے ۔۔۔ بلاشبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا طرزِ عمل یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سن لینے کے بعد کچھ چون و چرا کی گنجائش نہ پاتے تھے ۔۔۔ اور یہاں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے خبرِ واحد یا متواتر کی حجیت کو زیرِ بحث نہیں بنایا۔

انہوں نے اس سلسلہ میں مزید فرمایا:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بابِ مدینہ میں (یا ایک روایت میں باب، مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں) کھڑے ہو کر آواز دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب حرام قرار دے دی ہے تو لوگوں نے یہ اعلان سنتے ہی شراب کے متکے توڑ دیے۔۔۔ ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے جام کو توڑ دینا چاہا تو ایک دوسرے صاحبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اسے نہ توڑئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تو حرام قرار نہیں دیے، یہ دودھ یا پانی وغیرہ پینے کے کام آ سکتے ہیں، تو ان صاحب نے فرمایا، جس چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام بتلا دیا ہے، ہم اس کی یادگار کو بھی باقی نہیں رکھنا چاہتے۔۔۔ یہاں بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر یہ اعتراض نہیں کیا گیا کہ شراب کی حرمت کی خبر دینے والے آپ تنہا آدمی ہیں۔

علامہ صاحب نے واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ:

خبرِ واحد حجت نہ ہو تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حیثیت ہی باقی نہیں رہتی، اور در حقیقت خبرِ واحد کے حجت نہ ہونے کی آڑ لے کر سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے انکار کیا جا رہا ہے۔

۔۔۔ خبرِ واحد کے ساتھ عموم، قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہے یا نہیں؟ ۔۔۔ اس سلسلہ میں علامہ صاحب نے فرمایا کہ

لوگوں کو مسئلہ رجم کے سلسلہ میں بھی یہی اشکال ہے اور یہاں میں نے بڑے بڑے بزرجمہروں کو ٹھوکر کھاتے دیکھا ہے ۔۔۔ تعجب ہے لوگ اپنی عقلوں کو تو قرآن کے مقابلے میں حجت سمجھتے ہیں لیکن جس پر قرآن اترا ہے، اس کی حدیث و فراست کو قرآن کے مقابلے میں حجت تسلیم نہیں کرتے۔

علامہ صاحب نے فرمایا کہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کے بغیر عربوں کو عرب ہونے کے باوجود "﴿حَتّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الخَيطُ الأَبيَضُ مِنَ الخَيطِ الأَسوَدِ مِنَ الفَجرِ‌﴾" اور "ظلم" کا مفہوم تک سمجھ میں نہ آسکا۔ چنانچہ جب یہ آیت اتری:

﴿الَّذينَ ءامَنوا وَلَم يَلبِسوا إيمـٰنَهُم بِظُلمٍ أُولـٰئِكَ لَهُمُ الأَمنُ وَهُم مُهتَدونَ ﴿٨٢﴾... سورة الانعام

تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نہایت پریشان ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ چھوٹے موٹے ظلم سے تو ہم میں سے شاید ہی کوئی بچا ہو، تو پھر ہماری نجات کا حال کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "یہاں ظلم سے مراد شرک ہے"

اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:

﴿وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ﴾

کہ "ہم نے قرآن مجید کو آپ کی طرف نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اس کو بیان کریں"

اللہ تعالیٰ چاہتے تو قرآن مجید کو کوۃِ صفا پر اتار سکتے تھے، غارِ حرا میں قرآن مجید اتر سکتا تھا، کعبہ کی چھت یا صحن کو اس سے آراستہ کیا جا سکتا تھا، بیت المقدس کو اس سے سجایا جا سکتا تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر اس کے نازل ہونے کا مقصد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ہمارے سامنے بیان کریں، کہ جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بتائیں، قرآن کا بیان ہماری سمجھ میں آ ہی نہیں سکتا ۔۔۔ اور یہ کہ ہمیں اس شخصیت کی بہرحال ضرورت ہے جس کے سینے کو خداوندِ عالم نے قرآن مجید کا نشیمن بنایا ہے۔ قرآن مجید اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مصادر و مآخذ الگ الگ ہوں تو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حجیت ہونے یا نہ ہونے کی بات زیرِ بحث آ سکتی ہے، لیکن جہاں سے قرآن آیا ہے وہیں سے فرمان، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آیا ہے:

﴿وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ﴿٣﴾ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ ﴿٤﴾... سورة النجم

امتِ مسلمہ کے نزدیک کتاب و سنت دونوں وحی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک وحی متلو ہے اور دوسری غیر متلو۔

علامہ صاحب نے خبرِ واحد سے عمومِ قرآن کی تخصیص کے موضوع پر واپس لوٹتے ہوئے فرمایا:

کہ ایک عورت کا پوتا مر گیا، یہ عورت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئی کہ کیا پوتے کی وراثت میں اس کا حصہ موجود ہے یا نہیں؟ تو صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کتاب اللہ میں تمہارا حصہ موجود نہیں (اس سلسلہ میں علامہ صاحب نے "يوصيكم الله -الاية" تلاوت فرمائی) مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے جو قریب ہی موجود تھے، فرمایا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دادی کو چھٹا حصہ دیا ہے" ۔۔۔ علامہ صاحب نے زور دار الفاظ میں فرمایا کہ "پوائنٹ نوٹ کیجئے۔"

"صدیق اکبر رضی اللہ عنہ قرآن مجید میں سے اس عورت کے حصہ کی نفی کر رہے ہیں اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پیش کر رہے ہیں۔۔۔ گویا دونوں کے حجت ہونے میں کوئی شبہ نہیں"

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کیا کوئی اور بھی اس بات پر آپ کا گواہ ہے؟" اس پر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر گواہی دی، تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی اس بات کو تسلیم کر لیا (بعد میں جب علامہ صاحب نے حاضرین کو سوالات کرنے کی دعوت دی اور یہ سوال زیرِ بحث آیا کہ "جب خبرِ واحد حجت ہے تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی گواہی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟" تو علامہ صاحب نے جوابا فرمایا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی گواہی کے باوجود یہ خبر، خبرِ واحد ہی ہے کہ خبرِ واحد میں راوی دو کی بجائے تین بھی ہو سکتے ہیں اور جس روایت کے راوی تین ہوں اس کو خبر متواتر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا، جبکہ یہاں صرف دو کی بات ہو رہی ہے)

علامہ صاحب نے اس سلسلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور کی بھی کچھ مثالیں پیش کیں ۔۔۔ نیز بتایا کہ:

بیٹا باپ کو قتل کر دے تو وہ باپ کی وراثت کا حقدار نہ ہو گا۔ یہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، جب کہ قرآن مجید میں عمومی حکم موجود ہے کہ بیٹا باپ کا وارث ہو گا ۔۔۔ لیکن اس حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تمام امت کا اتفاق ہے، اور یہ خبر واحد ہے جو عمومِ قرآن کی تخصیص کر رہی ہے۔۔۔اسی طرح قرآن مجید میں ﴿احل لكم ما وراء ذلكم﴾ کے تحت جن عورتوں سے نکاح حرام ہے ان میں ایک ایسے مرد پر اس عورت کے حرام ہونے کا ذکر موجود نہیں کہ جس کی پھوپھی یا خالہ اس (مرد) کے نکاح میں پہلے سے موجود ہو لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث پر امت کا اجماع ہے کہ ایسی عورت کا نکاح اس مرد سے نہیں ہو سکتا۔

یہی معاملہ آیت قرآنی "﴿وَالسّارِ‌قُ وَالسّارِ‌قَةُ فَاقطَعوا أَيدِيَهُما﴾" کے ساتھ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عموم کی تخصیص یوں فرمائی کہ ربع دینار کے برابر یا اس سے زیادہ میں چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا، اس سے کم میں نہیں ۔۔۔ اور "﴿الزّانِيَةُ وَالزّانى فَاجلِدوا كُلَّ و‌ٰحِدٍ مِنهُما مِا۟ئَةَ جَلدَةٍ﴾" کے عموم کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص کیا کہ غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لیے جلا وطن بھی کیا جائے گا۔ جبکہ شادی شدہ کو رجم کر دیا جائے گا ۔۔۔ اور یہ سب خبرِ واحد ہیں۔

علامہ صاحب نے فرمایا:

اسلام میں اور موجودہ قوانین میں بھی دو آدمیوں کی گواہی پر قاتل کی گردن اڑائی جا سکتی ہے، دو آدمیوں کے کہنے پر ہاتھ کٹ جاتا ہے، حتیٰ کہ بعض امور میں عادل و مصنف شخص کی گواہی موجود ہو اور (دوسری گواہی کے طور پر) وہ قسم کھائے تو اس کی بات مسلم ہے، حالانکہ یہ بھی خبر واحد ہیں۔ تو حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر خبر واحد ہو تو اسے حجت تسلیم کیوں نہیں کیا جا سکتا؟

آخر میں علامہ صاحب نے یہ وضاحت بھی فرمائی کہ خبرِ واحد کا یہ معنی نہیں کہ ہر ایرے غیرے کی بات کو مان لیا جائے، خبرِ واحد وہ حجت ہے جو صحیح ہو اور محدثین کے معیار پر پروی اترتی ہو، کیونکہ جھوٹے تو ہزار ہوں تب بھی جھوٹے ہیں۔

نیز یہ کہ:

اس موضوع پر سینکڑون دلائل میرے سامنے ہیں، لیکن قلتِ وقت کی بناء پر انہیں پیش کرنا ناممکن ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پروفیسر قاضی مقبول احمد

موصوف نے "کتاب و سنت کے باہمی ربط" کے سلسلہ میں کتاب و سنت میں نسخ کے موضوع کو زیرِ بحث لاتے ہوئے نسخ کے چند اہم اصول بیان فرمائے:

1۔ نسخ کے موضوع کی اہمیت کے پیشِ نظر آپ نے فرمایا، یہ موضوع اس قدر اہم ہے کہ جب تک کسی شخص کو یہ علم نہ ہو کہ قرآن مجید میں ناسخ آیات کون سی ہیں اور منسوخ کون سی؟ ۔۔۔ کن معاملات میں نسخ ہوتا ہے اور کن میں نہیں ہوتا؟ اس وقت تک اس شخص کی عالم، محدث یا فقہیہ نہیں کہا جا سکتا، جبکہ اکثر علماء ناسخ منسوخ کے بیان میں غلطی کر جاتے ہیں۔

نسخ کا لغوی معنی تبدیل کرنا، نقل کرنا، منتقل کرنا، ختم کر دینا یا ضائع کر دینا ہے۔۔۔ کتاب و سنت کی روشنی میں علماء نے نسخ کا جو معنیٰ بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک شرعی حکم کا اٹھا دینا اور اس کی بجائے کسی دوسرے نئے شرعی حکم کا آجانا۔

2۔ نسخ شروع سے چلا آ رہا ہے۔ ایک نبی کی شریعت کو دوسرا نبی منسوخ کرتا رہا ہے، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں بھی پہلے سے موجود تمام شرعی احکام منسوخ ہوئے، ماسوائے ان کے جن کو بدستور بحال رکھا گیا ۔۔۔ نسخ کی ضرورت یوں ہے کہ یہ انسانوں کی اصلاح کا ایک طریقِ کار ہے، مثلا ایک خاص ضرورت کے تحت کوئی حکم آیا۔ لیکن جب یہ ضرورت پوری ہو گئی اور اس کی بجائے حالات کے مطابق کسی دوسرے حکم کی ضرورت ناگزیر ہو گئی، تو پہلا حکم اٹھا لیا گیا اور اس کی جگہ دوسرا حکم جاری کر دیا گیا۔

3۔ (ا) دین کبھی منسوخ نہیں ہوتا اور نہ آدم علیہ السلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ کبھی منسوخ ہوا ہے ۔۔۔ دین سے مراد اللہ تعالیٰ، انبیاء علیھم اسللام ، فرشتوں، کتبِ الہی، حشر و نشر اور جنت و دوزخ پر ایمان لانا ہے۔

(ب) مکارم اخلاق میں بھی نسخ نہیں ہوتا، مثلا سچ بولنا، خندہ پیشانی، خوش اخلاقی وغیرہ۔

(ج) اخبار و واقعات کبھی منسوخ نہیں ہوتے۔۔۔ مثلا یوسف علیہ السلام کا واقعہ، اگر اس میں نسخ مان لیا جائے تو لامحالہ اسے غلط اور جھوٹا واقعہ قرار دینا پڑے گا۔

(د) نسخ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات تک ہے۔ اس کے بعد کوئی محدث، عالم یا فقیہ کسی چیز کے نسخ کا دعوٰی نہیں کر سکتا، چنانچہ جو مسئلہ کتاب و سنت سے ثابت ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات تک وہ منسوخ نہیں ہوا، اب منسوخ نہیں ہو سکتا۔

4۔ قرآن مجید کی ایک آیت کسی دوسری آیت کو منسوخ کر سکتی ہے۔ مثلا پہلے حکم تھا کہ جس عورت کا خاوند مر جائے، ایک سال عدت گزارے۔ بعد میں اس مدت میں تبدیلی ہوئی اور عدت چار مہینے دس دن ٹھہری۔

5۔ قرآن مجید سنت کو بھی منسوخ کر سکتا ہے۔۔۔ مثلا بیت المقدس کی طرف منہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز پڑھنا، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، جس کو قرآنی حکم "﴿فَوَلِّ وَجهَكَ شَطرَ‌ المَسجِدِ الحَر‌امِ﴾" نے منسوخ کیا ہے۔

6۔ سنت میں بھی نسخ ہو سکتا ہے، مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ»

بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:

«فَزُورُوهَا»

کہ "اب ان کی زیارت کر لیا کرو"

کتاب و سنت کے باہمی ربط کے سلسلہ میں پروفیسر صاحب نے فرمایا:

سنت سے کتاب کا تعلق صرف تین طرح کا ہے، کوئی چوتھا تعلق ممکن نہیں۔

(ا)بعض احادیث ایسی ہیں جن میں صرف قرآن مجید کی تائید ہے، مثلا قرآن مجید نے سچ بولنے، جھوٹی شہادت نہ دینے کا حکم دیا ہے، اور سنت میں بھی یہ چیز موجود ہے۔

(ب) بعض احادیث ایسی ہیں جو قرآن مجید کی مجمل آیات کی تفسیر بیان کرتی ہیں، مثلا قرآنی حکم صلاۃ، زکوۃ اور حج کی تفسیر احادیث سے معلوم کرتی ہے۔

(ج) بعض احادیث ایسی ہیں جن میں ایسے احکام موجود ہیں، جن کے بارے میں قرآن مجید خاموش ہے۔

اس سلسلہ میں علماء کرام کی دو آراء ہیں:

پہلی رائے یہ ہے کہ قرآن مجید سے ایسے زائد احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید ہی کے بیان سے سمجھے ہیں۔

مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک نکاح میں خالہ اور بھانجی، پھوپھی اور بھتیجی جمع نہیں ہو سکتیں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید ہی کے بیان سے سمجھ کت بتلائی ہے۔۔۔ قرآن مجید میں ہے:

﴿وَأَن تَجمَعوا بَينَ الأُختَينِ﴾

کہ "دو بہنیں ایک نکاح میں جمع نہیں ہو سکتیں"

۔۔۔ اگر دو بہنوں میں سے ایک کو بھائی اور دوسری کو بہن سمجھ لیا جائے، تو چونکہ بھائی اور بہن کا نکاح آپس میں نہیں ہو سکتا، لہذا ایسی جتنی بھی صورتیں ہوں گی ان میں یہی اصول (ایک نکاح میں نہ جمع کرنے کا) کارفرما ہو گا ۔۔۔ پھوپھی اور بھتیجی میں سے اگر ایک کو مرد اور دوسری کو عورت تسلیم کر لیا جائے تو چونکہ چچا کا نکاح بھتیجی سے نہیں ہو سکتا لہذا پھوپھی اور بھتیجی ایک نکاح میں نہیں جمع ہو سکتیں۔۔۔ وعلیٰ ہذا القیاس

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وراثت میں دادی کے حصہ کو قرانی حکم ماں کے حکم سے سمجھا ہے۔۔۔وغیرہ

اور دوسری رائے یہ ہے کہ:

یہ زائد احکام بھی مستقل سنت اور مستقل احکام ہیں (لیکن یہ قرآن مجید کے ناسخ نہیں۔ کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں اور نہ ہی سنت قرآن کو منسوخ کر سکتی ہے، تاہم اس سلسلہ میں جو حدیث بیان کی جاتی ہے وہ بالکل موضوع ہے۔۔ اس حدیث کا ذکر مولانا عبدالسلام کیلانی کے خطاب میں مفصل آ رہا ہے)

مثلا قرآن مجید میں یہ حکم موجود ہے کہ جو مرد اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہ اب اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں جب تک کہ یہ عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کر لے (اور مطلقہ یا بیوی ہو جائے) ۔۔﴿حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَ‌هُ﴾

۔۔۔ نکاح سے مراد ایجاب و قبول ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں قرآن مجید سے زائد جو مسئلہ بیان فرمایا، وہ یہ ہے کہ یہاں نکاح سے مراد ایجاب و قبول نہیں بلکہ حقوقِ زوجیت کا قیام ہے۔۔۔ قاضی صاحب نے بتکرار فرمایا کہ اس میں نسخ کی بات نہیں، حدیث نے صرف قرآن مجید کے منشا کو بیان فرمایا ہے اور یہ مستقلا زائد حکم بھی ہے ۔۔۔ لہذا کوئی حدیث نہ تو قرآن کی ناسخ ہے نہ اس کے خلاف۔

باقی رہا سنت سے قرآن مجید کی تخصیص، تویہ بھی نسخ نہیں (قاضی صاحب نے علامہ صاحب کے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ) خبرِ واحد تو بہت اونچی چیز ہے، قرآن مجید کی تخصیص تو قیاس سے بھی ہو سکتی ہے۔ مثلا:

لونڈی زنا کرے تو اس کی سزا آزاد زانیہ عورت کی سزا سے قرآن مجید نے نصف بیان فرمائی ہے، اسی قرآنی حکم سے قیاس کرتے ہوئے غلام اگر زنا کرے تو اس کی سزا کا تعین بھی کیا جا سکتا ہے کہ اسے آزاد زانی مرد سے نصف سزا دی جائے گی۔۔۔ اور اسی پر اجماع ہے، اگرچہ یہ قرآن مجید میں موجود نہیں، قاضی صاحب نے رجم کے سلسلہ میں علامہ صاحب کے نقطہ نظر (کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت کے ذریعے قرآن مجید کی تخصیص کی ہے) سے اکتلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ تخصیص نہیں، بلکہ قرآن مجید میں رجم کا حکم بھی موجود ہے اور کوڑوں کا حکم بھی۔۔۔ رجم کے سلسلہ میں آپ نے سورہ مائدہ کا حوالہ دیا کہ:

﴿وَكَيفَ يُحَكِّمونَكَ وَعِندَهُمُ التَّور‌ىٰةُ فيها حُكمُ اللَّهِ...﴿٤٣﴾... سورة المائدة

اس آیت کا شان نزول اس حکم کی وضاحت کر رہا ہے، اور اس کے بعد ۔﴿وَقَفَّينا عَلىٰ ءاثـٰرِ‌هِم بِعيسَى ابنِ مَر‌يَمَ مُصَدِّقًا لِما بَينَ يَدَيهِ مِنَ التَّور‌ىٰةِ...﴿٤٦﴾... سورةالمائدة ۔۔۔ اور اس کے بعد ﴿وَأَنزَلنا إِلَيكَ الكِتـٰبَ بِالحَقِّ مُصَدِّقًا لِما بَينَ يَدَيهِ مِنَ الكِتـٰبِ وَمُهَيمِنًا عَلَيهِ ۖ فَاحكُم بَينَهُم بِما أَنزَلَ اللَّه... ﴿٤٨﴾...سورةالمائدة" اس طرف اشارہ ہے کہ رجم کا حکم تورات کے بعد انجیل میں بھی موجود رہا اور خود قرآن مجید میں بھی موجود ہے۔ (یہاں قاضی صاحب نے یہ وضاحت ضروری سمجھی کہ یہودیوں کے ہاں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی سزا رجم ہی تھی، لیکن امتِ محمدیہ (علی صاحبہا الصلوۃ والسلام) پر اللہ تعالیٰ نے یہ احسان فرمایا کہ غیر شادی شدہ کے لیے اس میں تخفیف کر دی) ۔۔۔ اور یہی حال اعضاء او زخموں کے قصاص کے حکم کا ہے کہ یہ صرف توراۃ کے حوالے سے قرآن مجید میں موجود ہے۔

جبکہ کوڑوں کی سزا کے سلسلہ میں قاضی صاحب نے سورہ نور کی آیت کا حوالہ دیا:

﴿الزّانِيَةُ وَالزّانى فَاجلِدوا كُلَّ و‌ٰحِدٍ مِنهُما مِا۟ئَةَ جَلدَةٍ...﴿٢﴾... سورةالنور

قاضی صاحب نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان دونوں حکموں کا انطباق کیا ہے، یہاں سنت سے قرآن کی تخصیص نہیں کی۔۔۔ یعنی رجم کی آیت کا مدلول بھی بیان فرما دیا اور کوڑے مارنے والی آیت کا ملزم بھی متعین کر دیا کہ شادی شدہ زانی کو رجم کیا جائے اور غیر شادی شدہ کو کوڑے مارے جائیں۔

قاضی صاحب نے قرآن مجید سے سنت کے ان زائد احکام کے ذریعہ قرآن مجید کی تخصیص ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فرمایا کہ حنفیہ اس کو نہیں مانتے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سے تخصیص ہو سکتی ہے۔ مثلا حنفیہ دو مردوں کی گواہی یا ایک مرد اور دو عورتوں "رجل امرأتان" ۔۔۔قرآنی حکم) کی گواہی کے ہی قائل ہیں۔ لیکن حدیث میں ہے:

«قضى رسو ل اللهﷺ بشاهد ويمين»

کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مالی معاملات میں) ایک گواہ اور دوسری گواہی کے طور پر اسی گواہ کی) قسم کی بناء پر فیصلہ فرمایا"

اور اس میں حکمت یہ ہے کہ مدعی اور مدعا علیہ کی حیثیت برابر ہے، لیکن ایک نے جب گواہ پیش کر دیا تو اس کا پلڑا بھاری ہو گیا۔

الغرض (پروفیسر موصوف نے کتاب و سنت میں نسخ کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے علاوہ کتاب و سنت کے باہمی ربط کی تفصیلات کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ)

1۔ حدیث (خبرِ واحد) قرآن مجید کی موید اور مؤکد ہے۔

2۔ حدیث قرآن مجید کی مفسر ہے اور اس کا معنی و مفہوم متعین کرتی ہے۔

3۔ یا قرآن مجید سے زائد احکام بیان کرتی ہے جو بجائے خود مستقل احکام کی حیثیت رکھتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولانا عبدالسلام کیلانی:

مولانا عبدالسلام کیلانی نے اپنے خطاب میں مندرجہ ذیل دو مشہور من گھڑت احادیث کا تحقیقی جائزہ پیش کیا:

« رُوِيَ عَنْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «مَا أَتَاكُمْ عَنِّي فَاعْرِضُوهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ وَافَقَ كِتَابَ اللَّهِ فَأَنَا قُلْتُهُ وَإِنْ خَالَفَ كِتَابَ اللَّهِ فَلَمْ أَقُلْهُ أَنَا، وَكَيْفَ أُخَالِفُ كِتَابَ اللَّهِ، وَبِهِ هَدَانِي اللَّهُ»

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو بات تمہارے پاس میرے حوالے سے پیش ہو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو، اگر موافق پاؤ تو میرا فرمان ہے ورنہ نہیں، کیونکہ میں صرف کتاب اللہ کی موافقت کرتا ہوں اور اسی سے اللہ مجھے راہ دکھاتے ہیں

2 «كَلَامِي لَا يَنْسَخُ كَلَامَ اللَّهِ وَكَلَامُ اللَّهِ , يَنْسَخُ كَلَامِي وَكَلَامُ اللَّهِ , يَنْسَخُ بَعْضُهُ بَعْضًا»

کہ "میرا کلام اللہ کے کلام کو منسوخ نہیں کرتا جبکہ اللہ کا کلام میرے کلام کو منسوخ کرتا ہے اور اللہ کے کلام کا بعض اس کے بعض کو منسوخ کرتا ہے۔"

مولانا عبدالسلام کیلانی نے فرمایا کہ یہ دونوں حدیثیں جعلی اور بناوٹی ہیں اور میرے خیال میں انہیں حدیث کہنا ہی غلط ہے۔۔۔ ان دونوں حدیثوں کے الفاظ ہی یہ بتلا رہے ہیں کہ یہ مہرِ نبوت سے نہیں نکلے، اور جس شخص کو حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ذرا سا بھی لگاؤ ہے وہ یہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہو ہی نہیں سکتے۔

پہلی حدیث کے متعلق مولانا نے فرمایا کہ اس حدیث کا مضمون خود اس حدیث کو موضوع قرار دے رہا ہے کیونکہ اس میں یہ بات موجود ہے کہ "میری حدیث کو کلام اللہ پر پیش کرو، اگر موافق ہو تو میرا فرمان ہے، ورنہ نہیں۔" چنانچہ اگر خود اس حدیث کو کلام اللہ پر پیش کیا جائے تو یہ کلام اللہ کی موافقت نہیں کرتی۔ کیونکہ قرآن مجید نے اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلقا ذکر فرمایا ہے نہ کہ مقید ۔۔۔ کیا کلام اللہ میں کہیں یہ موجود ہے کہ رسول اللہ کی اطاعت صرف اس صورت میں کرو جبکہ ان کا حکم کلام اللہ کے موافق ہو، ورنہ نہیں؟ ہرگز نہیں، لہذا یہ حدیث خود اپنے بیان کردہ اصول کی روشنی میں اپنے کلامِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی نفی کر رہی ہے۔ یا بالفاظِ دیگر اسی حدیث کی روشنی میں خود اسی کا جھوٹا ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔

دوسری حدیث: مولانا نے اس حدیث کے موضوع ہونے کی دلیل پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ:

کسی بات کے کسی خاص پہلو کو بالفرض درست بھی مان لیا جائے تو اس کے متعلق یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ رسول اللہ نے ایسا فرمایا ہے ۔۔۔ ایک مثال سے اپنی اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے ہیں۔ یہ بات واقعتا درست ہے لیکن اگر کوئی شخص رسول اللہ کی طرف نسبت کر کے یہ کہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ "میرے بعد یہ حضرات یکے بعد دیگرے خلیفہ بنیں گے" تو ظاہر ہے یہ روایت درست نہ ہو گی۔ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہرگز نہیں فرمایا۔۔ چنانچہ اس حدیث کے مضمون کا واقعتا درست ہونا اس پر دال نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان بھی فرمائی ہو۔ پس (روایتا اس دوسری حدیث پر تحقیق پیش کرتے ہوئے مولانا نے فرمایا کہ) ۔۔۔ اس کی سند مسند احمد اور حجۃ اللہ البالغہ میں بیان کی جاتی ہے۔ میں نے یہ دونوں کتابیں دیکھی ہیں، کسی میں یہ حدیث موجود نہیں۔۔ ہاں مشکوۃ، کہ جس کا کام ہی احادیث کی تخریج کرنا ہے، اس میں یہ موجود ہے لیکن دارقطنی اور ابن عدی کی نسبت سے۔۔۔ اور امام سیوطی بھی جامع الصغیر میں اس کی نسبت دارقطنی اور ابن عدی کی طرف کرتے ہیں جبکہ ابن عدی اور عقیلی کی طرف کسی حدیث کا منسوب ہو جانا اس لیے خطرے سے خالی نہیں کہ انہوں نے موضوعات اور ضعفاء پر مستقل تصانیف لکھی ہیں۔۔۔اور امام ذہبی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں محمد بن حبروت مہتم بالکذب ہے اور اس کا استاد قنطری اس سے بھی گیا گزرا جھوٹا آدمی ہے۔

آخر میں مولانا نے اس بات پر زور دے کر فرمایا کہ یہاں یہود و نصاریٰ کی بات نہیں ہو رہی کہ بغیر سوچے سمجھے یہ کہہ دیا جائے کہ موسی علیہ السلام نے ایسے کہا، عیسی علیہ السلام نے یوں فرمایا، بلکہ یہاں بات اہلِ علم اور امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، اور ہمارے اور پہلی امتوں کے درمیان یہی فرق ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حدیث کے راوی کے متعلق یہ تحقیق موجود ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کیا کرتا رہا ہے۔۔۔ لہذا جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کی کوشش کرے گا، منہ کی کھائے گا۔

مولانا عبدالسلام کیلانی کے بعد مدیرِ جامعہ حافظ عبدالرحمن صاحب مدنی نے پہلی حدیث کے متعلق روایت کے اعتبار سے مزید وضاحت یہ فرمائی کہ:

اس حدیث کے متعلق عبدالرحمن بن مہدی فرماتے ہیں۔۔۔ اور عبدالرحمن بن مہدی وہ شخص ہیں کہ امام علی بن مدینی استاذ بخاری فرماتے ہیں: "بارہ اشخاص نے اپنی تصنیفات میں کل علمِ اسناد جمع کر لیا ہے۔ پھر یہ سارا علم تین اشخاص میں منتقل ہوا ہے۔ جن میں سے ایک عبدالرحمن بن مہدی ہیں ۔۔۔ کہ زنادقہ اور خوارج نے یہ حدیث وضع کی ہے۔" امام وکیع بن الجراح فرماتے ہیں کہ یہ حدیث گھڑی ہوئی ہے۔ صاحب کشف الخفاء نے امام صنعانی سے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث بناوٹی ہے۔

امام وکیع بن الجراح کے متعلق مدنی صاحب نے فرمایا، کہ وکیع وہی استاذ امام شافعی ہیں۔ جن کے بارے میں امام شافعی کا یہ شعر ہے

شكوت إلى وكيع سوء حفظي
فأوصاني إلى ترك المعاصي
لان العلم فضل من اله
وفضل الله لا يعطى لعاصي,؟


کہ " میں نے استاذِ گرامی قدر سے اپنے سوء حفظ کی شکایت کی تو انہوں نے مجھے ترکِ معاصی کی وصیت فرمائی اور فرمایا کہ علم اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اللہ تعالیٰ اپنا فضل اس شخص کو عطا نہیں فرماتے۔

آخر میں مدنی صاحب نے یہ کہہ کر محفل کو کشتِ زعفران بنا دیا کہ مجھے مولانا عبدالسلام صاحب مدنی سے اس حد تک اختلاف ہے کہ "ان احادیث کو احادیث کہنا ہی غلط ہے۔" کیونکہ گواہ اگر جھوٹا ہو تو بھی ہوتا وہ گواہ ہی ہے ۔۔۔ شرکاء میں سے بالخصوص قانون دان طبقہ اس وضاحت پر محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔۔۔ مغرب کی اذان کے ساتھ ہی یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔


حاشیہ

صاحب عون المعبود شرح سنن ابی داؤد (ج4 ص379) میں لکھتے ہیں: "یہ حدیث باطل ہے جس کا کوئی اصل نہیں۔ زکریا الساجی امام یحییٰ بن معین سے اس حدیث کا موضوع ہوتا ذکر کرتے ہیں اور علامہ طاہر پٹنی تذکرۃ الموضوعات (ص 28) میں خطابی سے بھی یہی نقل کرتے ہیں۔" (مزید بحث کے لئے ملاحظہ ہو، مقدمہ موضوعات ابن الجوزی اور اللآلی المصنوعہ للسیوطی (ج2 ص461) اس بناوٹی حدیث کے متعلق مصطفیٰ سباعی نے "حدیث کی تشریعی حیثیت" میں عمدہ بحث کی ہے) (ادارہ)