داڑھی کی شرعی حیثیت

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر محدثین نے بھی نقل کیا ہے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«خَالِفُوا الْمُشْرِكِيْنَ وَفِرُّوا اللِّحٰى وَاَحْفُوا الشَّوَارِبَ»

کہ "مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کٹواؤ۔"

بخاری و مسلم میں ہی دوسری روایت بھی حضرت عبداللہ بن عمرر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

«اَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَاَعْفُوا اللِّحٰى»

کہ "مونچھوں کو کٹواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ"

ایک روایت میں ہے:

«انهكوا الشوارب واعفوا اللحى»

"مونچھیں ختم کرو اور داڑھیاں بڑھاؤ"

لحية (داڑھی) کا اطلاق ان بالوں پر ہوتا ہے جو رخساروں اور ٹھوڑی پر اگتے ہیں۔ ابنِ حجر نے لکھا ہے: "وفروا" میں "ف" پر شد ہے جو کہ "توفیر" سے مشتق ہے اور اس کا معنی ہے "الابقاء" "باقی رکھنا" ۔۔۔ تو معنی ہو گا، "داڑھی کو بڑحنے کے لئے چھوڑ دو" ۔۔۔ اور "احفاء اللحية" سے مراد بھی یہی ہے، یعنی داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا۔

"مشرکین کی مخالفت" کی تشریح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ملتی ہے:

«ان اهل الشرك يعفون شواربهم ويحفون لحاهم فخالفوهم فاعفوا اللحى واحفوا الشوارب»

"بے شک مشرکین مونچھیں بڑھاتے اور داڑھیاں منڈواتے ہیں، تم ان کی مخالفت کرو۔۔۔ داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کٹواؤ" اسے بزاز نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے:

« قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:خَالِفُوا الْمَجُوسَ لِاَنَّهُم كَانُوا يُقَصِّرُونِ لِحَاهُمْ وَيُطَوِّلُونَ الشَّوَارِبَ»

"تم مجوسیوں کی مخالفت کرو، کیونکہ وہ اپنی داڑھیاں کٹواتے اور مونچھیں لمبی کرتے ہیں"

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجوسیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

«إِنَّهُمْ يُوفُونَ سِبَالَهُمْ، وَيَحْلِقُونَ لِحَاهُمْ، فَخَالِفُوهُمْ»

"کہ بے شک وہ اپنی مونچھیں بڑھاتے اور داڑھیاں منڈواتے ہیں، پس تم ان کی مخالفت کرو۔"

چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مونچھیں منڈوایا کرتے تھے۔ اس بارے میں ابن حبان میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بھی منقول ہے:

رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ فِطْرَةَ الْإِسْلَامِ وَأَخْذُ الشَّارِبِ وَإِعْفَاءُ اللِّحَى فَإِنَّ الْمَجُوسَ تُعْفِي شَوَارِبَهَا وَتُحْفِي لِحَاهَا، فَخَالِفُوهُمْ، خُذُوا شَوَارِبَكُمْ، وَاعْفُوا لِحَاكُمْ»

"رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مونچھیں کتروانا اور داڑھی بڑھانا اسلام کی فطرت میں سے ہے۔ بے شک مجوسی مونچھوں کو بڑھاتے اور داڑھیاں کٹواتے ہیں۔ پس تم ان کی مخالفت کرو، مونچھیں کتراؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ"

مسلم شریف میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

«أَمَرَ بِإِحْفَاءِ الشَّوَارِبِ، وَإِعْفَاءِ اللِّحْيَةِ»

"ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ مونچھیں کٹوائیں اور داڑھی بڑھائیں"

مسلم شریف میں ہی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَرْخُوا اللِّحَى »

" جُزُّوا " کے معنی ہیں کتروانا اور " وَأَرْخُوا " کے معنی ہیں لمبا کرنا ۔۔۔ اور ایک روایت میں " وَأَرْخُوا " کی بجائے " وَأَرْجُوا " بھی ہے، جس کا معنی ہے، "چھوڑ دو" ۔۔۔ اور لفظ "قصوا" "احفاء" کی نفی نہیں۔ کیونکہ "الاحفاء" صحیحین میں ہے اور مقصود کو واضح کرتا ہے۔۔۔ ایک روایت میں ہے:

"اَوفُوا للِّحٰى" یعنی "داڑھیوں کو پوری طرح چھوڑ دو"

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

«يَحْرُمُ حَلْقُ اللِّحْيَةِ»

"داڑھی کا منڈوانا حرام ہے۔"

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے:

«لَا يَجُوزُخَلْقُهَا وَلَا تَنْفُهَا وَلَا قَصُّهَا»

"(داڑھی کا) منڈوانا (Shave)موچنے سے بال اکھاڑنا اور اس کا کٹوانا، سب ناجائز ہے۔"

ابومحمد بن حزم نے لکھا ہے کہ اس بات پر اجماع امت ہے کہ مونچھوں کا کٹوانا اور داڑھی کا بڑھانا فرض ہے۔

انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے:

«خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ أَحْفُوا الشَّوَارِبَ، وَأَوْفُوا اللِّحَى»

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مرفوع حدیث میں مروی ہے:

«مَن لَّم يَاخُذُ شَارِبَهُ فَلَيْسَ مِنَّا»

کہ "جو آدمی مونچھیں نہیں کٹواتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے"

طبرانی میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«مَنْ مَّثَلَ بِالشَّعْرِ لَيْسَ لَهُ عِنْدَاللهِ خَلَاقٌ»

"جس نے بالوں کا مثلہ کیا، اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس حصہ نہیں ہے۔"

زمخشری نے اس کی تصریح یوں کی ہے:

"مثلہ" سے مراد رخساروں سے بالوں کا موچنے سے اکھیڑنا یا استرے اور سیفٹی کے ذریعے منڈوانا یا ان کا سیاہ کرنا (سیاہ خضاب لگانا) ہے۔ "النہایۃ" میں بھی "مثل بالشعر" سے مراد رخساروں سے بالوں کا منڈوانا، اکھیڑنا اور سیاہ رنگ دینا لیا گیا ہے۔

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل کی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اعفوا اللحى وخذوا الشوارب وغيروا شيبكم ولا تشبهوا باليهود والنصارى"

"داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھوں کو ترشواؤ اور یہود و نصاریٰ کی مشابہت اختیار نہ کرو۔"

ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے بزاز نے مرفوعا نقل کیا ہے:

لا تشبهوا بالاعاجم اعفوا اللحى

"عجمیوں کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو، داڑھیاں بڑھاؤ۔"

ابو داؤد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ»

"جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی، وہ انہی میں سے ہے۔"

ابوداؤد میں ہی ہے ، عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا، لَا تَشَبَّهُوا بِاليَهُودِ وَلَا بِالنَّصَارَى»

"جس نے ہمارے علاوہ کسی غیر کی مشابہت اختیار کی وہ ہم میں سے نہیں۔ تم یہود و نصاریٰ کی مشابہت اختیار نہ کرو۔"

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، شارع کے نزدیک یہود و نصاریٰ کی مخالفت مقصود ہے اور طاہری (وضع قطع کی) مشابہت باطنی محبت اور الفت کی دلیل بن جاتی ہے۔ جس طرح کہ باطنی محبت اور الفت طاہری وضع قطع کی پیش خیمہ ہوتی ہے ۔۔۔ تجربہ اور جس اس اصول کے شاہد ہیں۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اگر ان معاملات میں، جو شریعت کا حصہ نہیں، یہود و نصاریٰ کی مشابہت اختیار کی جاتی ہے تو ان میں سے بعض کی تحریم کبیرہ گناہوں تک جا پہنچتی ہے، اور شرعی دلائل کی رو سے کفر کی نوبت آ جاتی ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ کتاب و سنت اور اجماع میں کفار کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے اور تمام امور میں مشابہت اختیار کرنے سے روکا گیا ہے۔۔۔ جو چیز خفیہ فساد کا پیش خیمہ ہو، غیر مستحکم ہو، اس پر تحریم کے حکم کا اطلاق ہوتا ہے اور ان کی ظاہری مشابہت دراصل ان کے مذموم اخلاق و افعال بلکہ آخر کار ان کے اعتقادات کی مشابہت کا بھی سبب بن جاتی ہے اور اس کی تاثیر بڑھتے بڑھتے آخر کار فساد اور زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔۔۔ اور وہ فساد جو غیر قوم کی مشابہت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، اسے ختم کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے، اس لیے ہر وہ سبب جو فساد امت کا سبب بنے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا ہے۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

من تشبه بهم حتى يموت حشرمعهم

"جو (یہود و نصاریٰ) کی مشابہت میں مر جائے وہ قیامت میں ان کے ساتھ اٹھے گا۔"

ترمذی میں ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا، لَا تَشَبَّهُوا بِاليَهُودِ وَلَا بِالنَّصَارَى، فَإِنَّ تَسْلِيمَ اليَهُودِ الإِشَارَةُ بِالأَصَابِعِ، وَتَسْلِيمَ النَّصَارَى الإِشَارَةُ بِالأَكُفِّ»

"جس نے ہمارے علاوہ کسی دوسرے کی مشابہت اختیار کی وہ ہم میں سے نہیں۔ تم یہود و نصاریٰ کی مشابہت اختیار نہ کرو۔ بے شک یہودیوں کا سلام (سلیوٹ) انگلیوں سے اشارہ کرنا ہے اور نصاریٰ کا سلام ہتھیلی سے اشارہ ہے۔"

اس حدیث میں طبرانی نے یہ الفاظ زائد لکھے ہیں:

"ولا تقصروا النواصى واحفوالشوارب واعفوا الحى"

"تم پیشانی کے بال نہ کاٹو، مونچھیں ترشواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ۔"

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذمیوں سے یہ شرط طے کر رکھی تھی کہ وہ اپنے سروں کے اگلے حصے کے بال کٹوائیں گے تاکہ مسلمانوں سے ان کی پہچان الگ ہو، تو جواب ان کی طرح پیشانیوں کے بال کٹوائے گئے گویا کہ اس نے ان کی مشابہت اختیار کی۔ صحیحین میں ہے: "انه صلى الله عليه وسلم نهى عن القرع" کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے "قرع" سے منع کیا۔ "قرع" سے مراد سر کے بعض حصے کا منڈوانا اور بعض کا چھوڑ دینا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بالوں میں فرماتے تھے:

"فى الرأس احلقه كله او دعه"

یا سارا سر مونڈو یا سارے کو چھوڑ دو۔"

اور گردن (گدی) سے بالوں کا کاٹنا اس شخص کے لیے جائز نہیں جو سارے سر کے بالوں کو نہیں مونڈتا۔ یہ مجوسیوں کا عمل ہے اور جو آدمی جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ ان میں سے ہے۔

ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ سر کی پوری حجامت کے بغیر صرف گردن سے بالوں کا منڈوانا مجوسیوں کا فعل ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بھی یہود و نصاریٰ کی خواہشات کی اتباع سے منع فرمایا ہے، فرمایا:

﴿ وَلا تَتَّبِعوا أَهواءَ قَومٍ قَد ضَلّوا مِن قَبلُ وَأَضَلّوا كَثيرً‌ا وَضَلّوا عَن سَواءِ السَّبيلِ ﴿٧٧﴾...سورة المائدة

"تم (یہود و نصاریٰ) کی خواہشات (طور طریقے) کی اتباع نہ کرو، یہ خود پہلے ہی گمراہ ہیں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کر چکے ہیں اور سیدھی راہ سے بھٹک گئے ہیں۔"

اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرمایا:

﴿وَلَئِنِ اتَّبَعتَ أَهواءَهُم مِن بَعدِ ما جاءَكَ مِنَ العِلمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَمِنَ الظّـٰلِمينَ ﴿١٤٥﴾... سورةالبقرة

"اگر آپ نے علم آ جانے کے بعد ان کی خواہشات کی اتباع کی تو آپ ظالموں میں سے ہوں گے۔"

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "اتباع لاهوائهم" سے مراد ان کے دین اور ان کے دین کی رسم و رواج کی اتباع ہے۔

ابن شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کی ہے کہ ایک مجوسی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس نے اپنی داڑھی مونڈی اور مونچھیں بڑھائی ہوئی تھیں، اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ما هذا؟" یہ کیا ہئیت کذائی ہے؟" اس نے کہا: "هذا ديننا" یہ ہمارا دین ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لكن فى ديننا ان نحفى الشوارب وان نعفى اللحية" "لیکن ہمارے دین میں ہے کہ ہم مونچھیں کٹوائیں اور داڑھی بڑھائیں۔"

حارث بن ابی اسامہ رضی اللہ عنہ نے یحییٰ بن کثیر سے ذکر کیا ہے، کہتے ہیں، ایک عجمی مسجدِ نبوی میں آیا جس کی مونچھیں بڑھی ہوئی اور داڑھی کٹی ہوئی تھی، اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ماحملك على هذا" تمہیں ایسا کرنے پر کس نے مجبور کیا"؟ اس نے کہا "میرے رب نے مجھے اس کا حکم دیا ہے" تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«ان الله امرنى اوفرا لحيتى واحفى شاربى»

"بے شک میرے اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنی داڑھی بڑھاؤں اور اپنی مونچھیں کٹواؤں۔"

ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے زید بن حبیب سے کسریٰ کے دو قاصدوں کا واقعہ نقل کیا ہے کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور دونوں کی داڑھیاں مونڈی اور مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی ہئیت کذائی کچھ اچھی نہ لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«ويلكما من امركما بهذا»

"افسوس ہے تم پر! تمہیں ایسا کرنے کا حکم کس نے دیا"؟ ان دونوں نے کہا "ہمارے آقا نے یعنی (کسریٰ) ایران نے ہمیں کرنے کا حکم دیا ہے۔" رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لكن ربى امرنى باعفاء لحيتى واحفى شاربى»

"لیکن میرے پروردگار نے مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم دیا ہے۔"

مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم "كان كثير شعر اللحية" کی داڑھی کے بال بہت زیادہ تھے۔ ترمذی شریف میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے "كث اللحية" کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی بہت گھنی تھی۔ ایک روایت میں ہے "كثيف اللحية" گھنی داڑھی تھی۔ ایک روایت میں ہے: "عظيم اللحية" آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی بہت بڑی تھی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

«كانت لحيته قد ملات من ههنا الى ههنا وامريده على عارضيه»

کہ "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی یہاں سے یہاں تک بھرپور تھی اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اپنے دونوں رخساروں پر پھیرا۔"

قبضہ سے زائد داڑھی کٹوانا

بعض اہل علم نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ ایک قبضہ (ہاتھ کی مٹھی) سے داڑھی کا زائد حصہ کاٹا جا سکتا ہے اور وہ اس کی بنیاد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے اس فعل کو قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اکثر علماء اس کو ناپسند کرتے ہیں اور اس کی وجہ گزشتہ احادیث سے واضح ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ افضل اور ممتاز یہی ہے کہ داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اسے ذرا سا بھی نہ کتروایا جائے۔ خطیب بغدادی نے ابوسعید سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لا ياخذ احدكم من طول لحيته»

تم میں سے کوئی اپنی داڑھی کی لمبائی میں سے نہ کاٹے۔"

در مختار میں ہے:

"وأما الاخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة، ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد"

"داڑھی کے قبضہ سے زائد حصہ کاٹنے کا مسئلہ جیسا بعض مغربی اور مخنث کرتے ہیں اس کی کسی نے اجازت نہیں دی۔"

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَر‌جُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ‌ ...﴿٢١﴾... سورةالاحزاب

"کہ تمہارے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی اسوہ حسنہ ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔

پھر فرمایا:

﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّ‌سولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا...﴿٧﴾... سورة الحشر

"جو تمہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دیتے ہیں اس پر عمل کرو اور جس سے منع کرتے ہیں اس سے باز آ جاؤ۔"

پھر فرماتا ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَرَ‌سولَهُ وَلا تَوَلَّوا عَنهُ وَأَنتُم تَسمَعونَ ﴿٢٠﴾ وَلا تَكونوا كَالَّذينَ قالوا سَمِعنا وَهُم لا يَسمَعونَ ﴿٢١﴾... سورةالانفال

"اے ایمان لانے والو! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور ان سے روگردانی نہ کرو (خلاف ورزی نہ کرو) حالانکہ تم سنتے ہو، اور ان لوگوں کی مانند نہ بنو جنہوں نے کہا، ہم نے سن لیا اور وہ نہیں سنتے (یعنی سننے کے بعد بات نہیں مانتے)"

پھر فرمایا:

﴿فَليَحذَرِ‌ الَّذينَ يُخالِفونَ عَن أَمرِ‌هِ أَن تُصيبَهُم فِتنَةٌ أَو يُصيبَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿٦٣﴾... سورةالنور

"جو لوگ اللہ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں انہیں کوئی آزمائش نہ آ جائے یا انہیں درد ناک عذاب آ لے۔"

نیز فرمایا:

﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّ‌سولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ‌ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَساءَت مَصيرً‌ا ﴿١١٥﴾... سورة النساء

"اور جو ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی کرتا ہے اور مومنین کے رستے کو چھوڑ کر دوسرے رستے کی پیروی کرتا ہے تو ہم اسے اسی طرف، جدھر وہ پھرے گا پھیر دیں گے اور اسے جہنم رسید کریں گے اور وہ لوٹنے کی بہت بری جگہ ہے۔"

اللہ تعالیٰ نے مردوں کو داڑھی کا حسن عطا کیا ہے۔ یہ بھی روایت ہے کہ ملائکہ کی تسبیح میں ایک کلمہ یہ بھی ہے ۔۔۔ "سبحان من زين الرجال باللحىٰ" پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو داڑھیوں کا حسن عطا کیا۔"

ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ داڑھی کا منڈوانا (Shave) حرام ہے۔

پس داڑھی مردوں کے لیے زینت ہے اور مرد کی تخلیق کا حسن و کمال بھی، اسی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں سے ممیز کیا ہے۔ جب داڑھی کے بال اُگنے شروع ہوں تو انہیں اکھیڑنا، امرد (چھوکروں) سے مشابہت کرانے کے مترادف ہے اور بڑے مکروہ افعال میں سے ہے (جیسا کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کا یہی خیال ہے) اسی طرح داڑھی کا منڈانا یا کٹوانا یا پاؤڈر وغیرہ کے ذریعے اس کا زائل کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی واضح نافرمانی اور مخالفت ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے "احیاء العلوم" میں لکھا ہے کہ الفنیکین (جبڑوں کے ملنے کی جگہ) کا اکھیڑنا بدعت ہے اور فنیکین سے مراد عنفقۃ ٹھوڑی کے دونوں اطراف ہیں۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک آدمی آیا جو اپنے رخساروں کے بال اکھاڑتا تھا تو انہوں نے اس کی گواہی رد کر دی۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اور ابن ابی یعلی رضی اللہ عنہ، مدینہ طیبہ کے قاضی، نے بھی داڑھی کے بال اکھاڑنے والے شخص کی گواہی قبول نہ کی۔

امام ابو شامہ رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں کچھ لوگ اپنی داڑھیاں کٹواتے تھے۔ امام صاحب انہیں مجوسی گردانتے تھے۔ یہ تو امام صاحب کے زمانے کی بات ہے، اللہ ان پر رحم کرے۔ پس اگر وہ اس دور میں داڑھی منڈوانے والوں کی کثرت کو دیکھتے تو ان کی کیا حالت ہوتی؟

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کا حکم دیا ہے مگر انہوں نے اس کی مخالفت اور نافرمانی کی اور یہود و نصاریٰ اور کافروں کی اقتداء کی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "اعفوا اللحى، اوفو اللحى، ارجوا اللحى، وفروا اللحى" داڑھیاں بڑھاؤ مگر انہوں نے ان کی نافرمانی کی اور اپنی داڑھیوں کو منڈوایا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مونچھیں کٹوانے کا حکم دیا مگر انہوں نے انہیں لمبا کیا، انہوں نے فیصلے کا بالکل الٹ کیا اور صریحا نافرمانی کے مرتکب ہوئے۔ اس خوبصورتی اور حسن کو بگاڑ کر، جو اللہ نے انہیں دیا، اور ابن آدم کو جو افضل ترین اور اللہ کی سب سے زیادہ خوبصورت چیز (داڑھی) عطا ہوئی، اس کا حلیہ بگاڑ کر لکھ دیا:

﴿أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ سوءُ عَمَلِهِ فَرَ‌ءاهُ حَسَنًا ۖ فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَن يَشاءُ وَيَهدى مَن يَشاءُ...﴿٨﴾... سورةالفاطر

"پس وہ کہ جس کا برا عمل اس کے لیے مزین کر دیا جائے اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگے (وہ کیا عقلمند ہے) جان لو اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔"

اے اللہ، ہم دلوں کے اندھے ہونے، گناہوں کی کشش اور زیبائش، دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے تیری پناہ میں آتے ہیں:

﴿إِنَّ شَرَّ‌ الدَّوابِّ عِندَ اللَّهِ الصُّمُّ البُكمُ الَّذينَ لا يَعقِلونَ ﴿٢٢﴾ وَلَو عَلِمَ اللَّهُ فيهِم خَيرً‌ا لَأَسمَعَهُم ۖ وَلَو أَسمَعَهُم لَتَوَلَّوا وَهُم مُعرِ‌ضونَ ﴿٢٣﴾... سورة الانفال

"اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ شر انگیز چوپائے وہ ہیں جو گونگے اور بہرے ہیں جنہیں کچھ عقل نہیں۔ اگر اللہ ان میں کوئی بھلائی دیکھتا تو انہیں بات قابلِ قبول ہو جاتی، بات سنوا دیتا، یا اگر انہیں سنوا بھی دیتا تو وہ منہ پھیر لیتے۔ بات نہ مانتے اور وہ اعراض کر رہے ہیں۔"

اس آدمی کے لیے ﴿لِمَن كانَ لَهُ قَلبٌ أَو أَلقَى السَّمعَ وَهُوَ شَهيدٌ ﴿٣٧﴾... سورةق"۔ جو اپنے پہلو میں دل رکھتا ہے (تسلیم کرنے والا) یا جس نے گوشِ ہوش وا کیے اور وہ حاضر و موجود ہو، اتنی سی بات ہی کافی ہے۔

﴿مَن يَهدِ اللَّهُ فَهُوَ المُهتَدِ ۖ وَمَن يُضلِل فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُر‌شِدًا ﴿١٧﴾... سورةالكهف

"جسے اللہ ہدایت دے، وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے اللہ گمراہ کر دے، تو اس کا کوئی دوست اور راہنما نہیں دیکھے گا۔"


حاشیہ

حجت ان کی روایت کے بارے میں ہے نہ ان کی رائے کے بارے میں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل زیادہ افضل بھی ہے اور اتباع کا بہت زیادہ مستحق بھی۔