غنچے غنچے کی زباں پر ہے حکایت تیری
آنکھ کے سامنے ہر سمت ہے قدرت تیری
دل میں عظمت ہے، تری آنکھ میں حسرت تیری
بحر و بر، برگ و سجر، کوہ و حجر، دشت و چمن
سب کا خلاق ہے تو اور یہ خلقت تیری
یہ بدلتے ہوئے موسم یہ غروب اور طلوع
اہلِ دل کے لیے یہ بھی تو ہیں حجت تیری
کوئی مخدوم ہے دنیا میں کوئی خادم ہے
ترے ہر کام میں پوشیدہ ہے حکمت تیری
برق و باد دمہ و خورشید و سحاب و انجم
ترے شہکار ہیں دیتے ہیں شہادت تیری
تیرے محکوم ہیں ہم، تو ہے ہمارا حاکم
فرش تو فرش، سرِ عرش حکومت تیری
خواب و بیداری شب و روز کا آنا جانا
چشمِ بینا کے لیے یہ بھی ہے نعمت تیری
بے شبہ ہر خاک کا ذرہ ہے اعجاز تر
اور ہر قطرہ باراں ہے کرامت تیری
لہلہاتے ہوئے کھیتوں کا یہ دلکش منظر
ایک ناظر کی نظر میں ہے علامت تیری
چشمہ آب سرِ کوِ رواں تو نے کیا
موجِ دریا سے عیاں شانِ جلالت تیری
تیرے ہی دم سے دمِ دورِ بہاراں کا وجود
باغ میں حسن ترا گل میں ہے نگہت تیری
رزق تیرا ہی تو کھاتے ہیں تری منکر بھی
اللہ اللہ مرے اللہ سخاوت تیری
دور دل سے ہوا جاتا ہے تعیش کا فتور
راحتِ روھ ہوئی جاتی ہے قربت تیری
تیرے نغمات میں سرمست ہیں مرغان چمن
غنچے غنچے کی زباں پر ہے حکایت تیری
چند اشعار تری حمد میں لب پر آئے
یہ ترا لطف ہے عاجز پہ عنایت تیری