الہی اسماء و صفات میں تاویل و تحریف کے اسباب و علل..اثرات و نتائج حقائق کی روشنی میں

"زیر نظر مضمون عقائد کے موضوع پر حافظ ذھبی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "العلو للعلی العظیم" پر علامہ ناصر الدین البانی کا زور دار علمی مقدمہ ہے، جس میں الہی اسماء و صفات کی تاویل و تحریف کی پوری تاریخ سمونے کے علاوہ مختلف مکاتب فکر کے افکار و خیالات کا علمی اور تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے، ساتھ ہی تاویل و تحریف کے اسباب و وجوہ اور امت اسلامیہ پر اس کے خطرناک اور دور رس سنگین نتائج تلاش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ سب سے اہم چیز یہ کہ مقدمہ نگار نے، جو عصرِ حاضر کے عظیم ترین محقق و محدث ہونے کے ساتھ ایک زبردست داعی اسلام اور مفکر بھی ہیں، جن کی علمی اور دعوتی چھاپ عربی کالجز اور یونیورسٹیز میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے، عقائد کے باب میں دورِ حاضر کی بعض دینی تحریکوں اور نمایاں شخصیتوں کے تساہل آمیز برتاؤ پر حکیمانہ اسلوب میں گرفت کی ہے، جو فی نفسہ بڑی گراں مایہ چیز ہے، مواد کی اہمیت اور ضرورت کے پیش نظر افادہ عام کی غرض سے ہم اسے اردو زبان میں پیش کر رہے ہیں جس میں میرے خیال سے ۔۔۔ اگر ایک طرف توحید کے بادہ خواروں کے سرور و سرمستی کا سامان ہے تو دوسری جانب ترابِ توحید کی حقیقی لذت سے نا آشنا قلوب و اذھان کے لئے یہ شراب خالص پی کر سنبھلنے کا پیغام بھی۔۔ خدا کرے ہماری یہ حقیر کوشش مفید ثابت ہو۔ آمین

عبدالواحد عبدالقدوس

قارئین کرام! ۔۔۔ یقین کریں کہ زیر نظر کتاب میں عقائد سے متعلق ایک نہایت خطرناک اور سنگین مسئلہ کا حل پیش کیا گیا ہے۔ جس کے متعلق معتزلہ کے وجود سے لے کر آج تک مسلمان باہم اختلاف و افتراق کا شکار ہیں۔ وہ دراصل اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق سے برتر ہونے کا مسئلہ ہے۔ جو قرآن اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ ساتھ ہی فطرت سلیمہ بھی اس کی حقیقت کے ثبوت پر شاہد ہے اور اگر سنت سے برگشتہ بعض گروہ خود اپنوں اور غیروں پر تاویل و تحریف کا دروازہ نہ کھولتے تو اس قدر واضح اور ثابت شدہ حقیقت کا کوئی بھی کلمہ گو مسلمان منکر نہ ہوتا۔ یقینا شیطان نے بذریعہ تاویل اپنے ازلی دشمن بنی نوع انسان کو بری طرح سے دامِ فریب میں شکار کیا اور صراط مستقیم پر چلنے سے باز رکھا۔ کیوں نہیں جب کہ لوگ خود اس اصول پر متفق تھے کہ کسی بھی کلام میں اصل یہ ہے کہ اسے اس کی حقیقت پر محمول کیا جائے، کسی کلام کا مجازی معنی مراد نہیں لے سکتے تا وقتیکہ اس کا حقیقی معنی مراد لینا متعذر نہ ہو یا پھر جب تک کہ کوئی عقلی، عرفی یا لفظی قرینہ نہ موجود ہو جیسا کہ اس مسئلہ کی مفصل بحث دوسری کتابوں میں موجود ہے۔ مگر اس کے باوجود لوگ لغو اسباب اور ایسی چیزوں کی وجہ سے، جو حقیقی مومن کی عقل و خرد سے یکسر دور ہیں، اپنے اس خود ساختہ اور مسلم قاعدہ کی خلاف ورزی کرتے ہیں کہ دنیا کا کوئی انسان اس طرح کے مفہوم کو بلند کر سکتا ہے؟ مثلا کوئی شخص کہے "جاء الامیر" ، "سردار آیا" تو کوئی تاویل کرنے والا اس چھوٹے سے جملے کی تشریح یوں کرے کہ اس کا مطلب ہے "سردار کا غلام آیا" پھر اگر آپ اس مفہوم کی صحت سے اتفاق نہ کریں تو کہنے لگے کہ یہ اس جملہ کا مجازی مفہوم ہے مگر جب اعتراض کیا جائے کہ مجازی معنی اس وقت مراد ہوتا ہے جب حقیقی معنی مراد لینا متعذر ہو، لیکن یہاں تو حقیقی معنی پر جملہ کا محمول کرنا متعذر کے بجائے ممکن ہے۔ یا اس وقت مجازی معنی مراد ہوتا ہے جب کلام میں کوئی قرینہ پایا جائے، حالانکہ اس جملہ میں کوئی ایسا قرینہ نہیں ہے تب آپ کی اس لمبی تقریر کے بعد خاموشی اختیار کرے یا ناحق جدال پر آمادہ ہو جائے۔

ممکن ہے کوئی شخص حیرت سے سوال کر بیٹھے کہ کیا کوئی صاحبِ عقل و خرد اس انداز کی بات کر سکتا ہے؟ تو جوابا عرض ہے کہ اسماء و صفات، خداوندی میں تاویل کرنے والے تمام فرقوں نے صرف یہی کیا ہے، جو دراصل اللہ رب العالمین کے اسماء و صفات کے منکر ہیں، جیسے معتزلہ اور ان سے متاثر بعد کے فرقے ، مثالیں دے کر ہم آپ کو دور لے جانا نہیں چاہتے بلکہ قرآن پاک سے صرف دو مثالوں پر اکتفا کریں گے۔ جن میں ایک مثال تو مندرجہ بالا مثال کی مانند ہے، اور دوسری کا تعلق زیر نظر کتاب کے اصل موضوع سے ہے:

مثال نمبر 1: قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ وَجاءَ رَ‌بُّكَ وَالمَلَكُ صَفًّا صَفًّا ﴿٢٢﴾... سورة الفجر" ترجمہ: اور جب آپ کا پروردگار آئے گا اور فرشتے صف بستہ ہو کر" اسی طرح فرمان خداوندی "﴿هَل يَنظُر‌ونَ إِلّا أَن يَأتِيَهُمُ اللَّهُ فى ظُلَلٍ مِنَ الغَمامِ وَالمَلـٰئِكَةُ وَقُضِىَ الأَمرُ‌ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُر‌جَعُ الأُمورُ‌ ﴿٢١٠﴾... سورة البقرة" ترجمہ: انہیں بس اس کا انتظار ہے کہ اللہ ان کے پاس بادل کے سائے میں آئے اور فرشتے بھی، اور معاملہ کا فیصلہ ہو" اس کی تاویل بعض اہلِ کلام نے ﴿ يَأتِيَهُمُ اللَّهُ فى ظُلَلٍ﴾ سے کی، یعنی اللہ ان کے پاس بادل کے سایہ کو لائے۔ اس طرح سے تاویل کر کے اللہ تعالیٰ کی شایانِ شان صفتِ آمد کی حقیقت کی نفی کر دی گئی، بلکہ بعض ہوس پرستوں نے اس قدر غلو سے کام لیا کہ ﴿ هَل يَنظُر‌ونَ إِلّا أَن يَأتِيَهُمُ اللَّهُ ﴾ کو یہود سے متعلق حکایت قرار دے دیا یعنی یہ کہ ان ہوس پرستوں کے قول کے بموجب اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ یہود آپ صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کا دین نہیں قبول کرین گے جب تک اللہ بادلوں کے زیرِ سایہ نہ اتر آئے تاکہ یہ یہود کھلے عام اللہ کو دیکھ لیں، پھر ہوس پرستوں نے اس کا سبب بتلایا کہ یہود مشتبہ تھے اور اللہ کے لیے آمد و رفت کو جائز سمجھتے تھے، محمد زاہد کوثری نے "کتاب الاسماء والصفات للبیہقی" پر اپنی تعلیق و شرح میں فخر الدین رازی کے حوالہ سے یہ قول نقل کر کے پھر ثابت قرار دیا ہے، تو غور کرنے کا مقام ہے۔ خدا سب کو ہدایت دے کس طرح کوثری وغیرہ نے اللہ کی آمد کا انکار کر دیا جبکہ یہ دونوں مندرجہ بالا قرآنی آیات میں بصراحت مذکور ہے۔ خدا کی آمد دراصل بروز قیامت ہو گی جیسا کہ ﴿هَل يَنظُر‌ونَ إِلّا أَن يَأتِيَهُمُ اللَّهُ﴾ کی تفسیر میں ابن جریر نے لکھا ہے اور ﴿اَوْيَأْتِى رَبُّكَ﴾ کی تفسیر میں قتادہ اور ابن جریج سے "یوم القیامۃ" نقل کیا ہے، یعنی قیامت کے دن خدا آئے گا، اس طرح یہی تفسیر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ سے الدرالمنثور ج1 صفحہ 241 میں مروی ہے، اللہ کا عرش سے نیچے آنے سے متعلق ابن راہویہ کا قول بھی ہے جو اس کتاب کے قول نمبر 213 میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

تاویل کی برکت کا یہ نتیجہ ہوا کہ تاویل کرنے والوں نے بروزِ قیامت میدانِ محشر میں اللہ کے آنے کا سراسر انکار کر دیا جو کہ متعدد آیاتِ قرآنیہ سے ثابت ہے، مزید برآں اس کے ثبوت میں بہت ساری صحیح احادیث بھی ہیں۔ اسی پر ان اہل کلام نے اکتفا نہ کیا بلکہ اللہ کے لئے آمد و رفت جائز ہونے کو یہود کی بات قرار دیا۔ اور اس آیت کو انہی سے متعلق نازل بتایا، یقینا یہ سراسر ضلالت اور دروغ گوئی ہے، گمراہی اس وجہ سے کہ یہ قرآنی آیات کی ایسی تحریف ہے جس سے ان پاکباز ائمہ اسلام پر طعن لازم آتا ہے جو بروز قیامت اللہ کی آمد پر ایمان رکھتے ہیں اور جھوٹ اس وجہ سے کہ کسی عالم نے اب تک اس آیت کو یہود سے متعلق نہیں بتایا ہے۔ بلکہ آیت کا سیاق خود اس کی تردید کرتا ہے، ارشاد ربانی ہے:﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا ادخُلوا فِى السِّلمِ كافَّةً وَلا تَتَّبِعوا خُطُو‌ٰتِ الشَّيطـٰنِ ۚ إِنَّهُ لَكُم عَدُوٌّ مُبينٌ ﴿٢٠٨﴾ فَإِن زَلَلتُم مِن بَعدِ ما جاءَتكُمُ البَيِّنـٰتُ فَاعلَموا أَنَّ اللَّهَ عَزيزٌ حَكيمٌ ﴿٢٠٩﴾ هَل يَنظُر‌ونَ إِلّا أَن يَأتِيَهُمُ اللَّهُ فى ظُلَلٍ مِنَ الغَمامِ ...﴿٢١٠﴾... سورةالبقرة ترجمہ: "اے مومنو! اسلام میں پورے طور پر داخل ہو جاؤ،شیطان کے نقشِ قدم کی پیروی نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے، پھر تم اگر واضح دلائل آ جانے کے بعد بھی بھٹک رہے ہو تو جان لو کہ اللہ غالب اور صاحب حکمت ہے۔ کیا یہ لوگ صرف اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ ان لوگوں کے پاس بادلوں کے سایہ میں آئے اور فرشتے، الخ۔

ناظرین ملاحظہ فرمائیں کہ آیت میں خطابِ خداوندی کا رخ مومنین کی طرف ہے، اس لئے علامہ ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ﴿ فَإِن زَلَلتُم﴾ کی تفسیر میں رقم طراز ہیں "اللہ تعالیٰ کی مراد اس سے یہ ہے کہ اگر تم حق کو غلط ٹھہرایا تو تم حق سے گمراہ شمار کئے جاؤ گے اور میرے واضح دلائل آ جانے کے بعد بھی اے مسلمانو، اگر تم نے اسلام اور اس کی تعلیمات کی مخالفت کی جب کہ تمہارے سامنے قطعی دلائل کا ذریعہ اسلام کا معاملہ واضح کر دیا گیا تو پھر سمجھ لو کہ اللہ بڑی طاقتوں کا حامل ہے (تفسیر ابن جریر طبری ج4 ص259)

البتہ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے ادخُلوا فِى السِّلمِ كافَّةً﴾ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کا ایک قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت ثعلبہ، عبداللہ بن سلام وغیرہ کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے اور یہ سب لوگ پہلے یہودی تھے، ان لوگوں نے دربار رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچ کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ہم پہلے سینچر کے دن کی تکریم و تعظیم کرتے تھے لہذا آپ ہمیں اجازت مرحمت فرمائیں تاکہ ہم سینچر منایا کرین اس موقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ایضا)

مگر باوجودیکہ یہ روایت ان لوگوں سے متعلق ہے جو یہودیت سے دست بردار ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہو چکے تھے، لیکن پھر بھی اس کی سند مرسل ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں اور اگر صحیح مان بھی لی جائے تو یہ کہنا کہ یہ آیت یہودیوں کے متعلق نازل ہوئی، صحیح نہیں۔ کیونکہ عرفِ عام میں مطلق یہود کے استعمال سے کافر یہودی مراد ہوتے ہیں، حالانکہ روایت مسلمان یہودیوں سے متعلق ہے، لہذا اس تلبیس و تدلیس کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ پھر اب ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ان قرآنی آیات میں، جو بروز قیامت میدان میں حشر میں اللہ کی آمد کے سلسلے میں صریح ہیں، کوئی ایسا قرینہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان آیات کا پڑھنے یا سننے والا ان آیات کو ان کے حقیقی معنی پر محمول کرنے کے بجائے مجازی معنی پر محمول کرے، جب ہم اس انداز سے غور کرتے ہیں تو قرآنی آیات ایسے قرائن سے یکسر خالی نظر آتی ہیں۔ لیکن جب اہلِ کلام نے قرآنی آیات میں مذکور اللہ کی آمد کو مخلوق کی آمد کے مترادف سمجھا، جو کہ یقینا خدا کی مخلوق سے تشبیہ ہے تو اس غلط فہمی کی وجہ سے انہیں مجبور ہونا پڑا کہ اس صفت ہی کا انکار کر دیں اور اس صفت کے ثبوت کی بات یہودیوں کی جانب منسوب کر دیں اور پھر ان آیات کی بے جا تاویلات کریں، حالانکہ یہ ممکن تھا کہ یہ حضرات اللہ کے لئے یہ صفت علماء سلف کی طرح تشبیہ کے بغیر ثابت مانتے جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے ﴿ لَيسَ كَمِثلِهِ شَىءٌ ۖ وَهُوَ السَّميعُ البَصيرُ‌ ﴿١١﴾... سورةالشورى" ترجمہ: (اللہ کے مثل کوئی چیز نہیں، اور وہ سننے دیکھنے والا ہے) ورنہ اس بنیاد پر ان حضرات کو سمع و بصر کی بھی تاویل کرنی پڑے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو سمع و بصر کی صفات سے نوازا ہے۔ جیسا کہ قرآن وغیرہ میں بھی صراحت ہے تو پھر یہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہم اللہ کے لئے سمع و بصر ثابت مانیں گے تو یہ اللہ کی مخلوق سے تشبیہ ہو جائے گی ۔۔۔ یہی کارنامہ معتزلہ حضرات نے انجام دیا ہے، بزھمِ خویش تشبیہ کے جرم سے بچاؤ کی خاطر انہوں نے خدا کے لئے قرآن و حدیث میں موجود صفت سمع و بصر کی تاویل علم سے کر ڈالی، اس طرح آیت کے ایک جزء «ليس كمثله شيئ» پر تو ایمان لائے مگر فی الواقع دوسرے حصے «وهو السميع البصير» کے انکارِ صریح کے مرتکب ہو گئے۔ رہے اشاعرہ وغیرہ تو یہ لوگ یہاں پوری آیت پر ایمان لائے اور تنزیہ و اثبات دونوں پہلو کو اپنے ہمراہ رکھا اور واضح طور پر کہا کہ اللہ کے پاس سمع و بصر کی صفت ہے مگر ہم مخلوقات کی سمع و بصر کی طرح نہیں، اور دراصل یہی حق بھی ہے۔ پھر ان اشاعرہ کو چاہئے تھا کہ اللہ نے اپنی ذات کو جن تمام اوصافِ حمیدہ سے متصف گردانا ہے، ان تمام صفات میں اثبات و تنزیہ کا یہی موقف اختیار کرتے جو سمع و بصر کے سلسلے میں اپنایا ہے اور اللہ کی آمد اور عرش سے آسمانِ دنیا پر نزول وغیرہ کے متعلق بھی کہتے کہ اللہ کا بروز قیامت میدان حشر میں آنا برحق ہے، ہاں اللہ کا وہ آنا اس کی مخلوق کے آنے جانے کی مانند نہ ہو گا، اسی طرح اشاعرہ گو کہنا چاہئے کہ چونکہ متواتر احادیث سے اللہ کا آسمانِ دنیا پر نصف شب میں اترنا ثابت ہے اس لیے وہ حق ہے لیکن اللہ کا یہ نزول انسانوں اور حیوانوں کے نزول سے مختلف ہے۔ اسی طرح اور دیگر صفات میں بھی یہی موقف اختیار کرنا چاہئے، مگر افسوس کہ اشاعرہ حضرات نے بہت سی صفات خداوندی میں یہ موقف نہیں اپنایا، انہی صفات کے ضمن میں اللہ کا استواء اور اتيان بھی داخل ہے جن کی اشاعرہ تاویل کرتے ہیں۔

مثال نمبر 2۔ فرمان خداوندی:

﴿ إِنَّ رَ‌بَّكُمُ اللَّهُ الَّذى خَلَقَ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضَ فى سِتَّةِ أَيّامٍ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَر‌شِ... ٥٤﴾... سورةالاعراف

ترجمہ: "بے شک تمہارا پالنہار ہے وہ جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا۔"

نیز:﴿ اللَّهُ الَّذى رَ‌فَعَ السَّمـٰو‌ٰتِ بِغَيرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌ونَها ۖ ثُمَّ استَوىٰ عَلَى العَر‌شِ ... ٢﴾... سورةالرعد

ترجمہ: "اللہ جس نے آسمان کو بغیر ستون کے کھڑا کر دیا اور پھر عرش پر مستوی ہوا"میں مذکور استواء خداوندی کی تاویل خلف نے استیلاء اور غلبہ سے کی ہے۔ اس تاویل کی صحت پر ان کے یہاں ایک شاعر کا مندرجہ ذیل شعر رائج ہے۔

قداستوىٰ بشر على العرش بغير سيف او دم مهراق

ترجمہ: بشر عراق پر تلوار سونتے اور خون بہائے بغیر غلبہ پا گیا۔

لیکن اس حقیقت سے غافل ہیں کہ تفسیر، حدیث اور لغت کے جلیل القدر ائمہ اس استدلال کے بطلان پر متفق ہیں۔ ساتھ ہی ان ائمہ کا اجماع ہے کہ عرش پر استواء سے مراد استعلاء اور اس پر ارتفاع ہے۔ جیسا کہ علامہ ذہبی کی اس کتاب میں ہر دور کے معتبر اور مستند ائمہ کے صحیح سند سے مروی اقوال ملاحظہ فرمائے جا سکتے ہیں، بلکہ بعض علماء جیسے امام اسحاق بن راہویہ اور حافظ ابن عبدالبر نے استواء کے معنی استعلاء و ارتفاع ہونے پر ائمہ و علماء اسلام کا اجماع نقل کیا ہے جب کہ مندرجہ بالا دونوں امام اس مسئلہ میں حجت کے لیے کافی ہیں۔

مگر اس کے باوجود اکثر و بیشتر علماء خلف استواء وغیرہ صفات پر مشتمل آیات کی تفسیر میں سلف کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ ممکن ہے بعض قارئین کرام اس مخالفت کا سبب دریافت کریں تو ہم جوابا عرض کرتے ہیں کہ اس کا سبب محض سلف کے مسلک کی اتباع سے روگردانی ہے اور دوسری وجہ قرآنی آیات یا احادیث میں مذکور استواء یا استعلاء کو مخلوق کے لیے مفہومِ استواء یا استعلاء کے مترادف سمجھنا ہے جو کج فہمی کا نتیجہ ہے اور جب یہ مفہوم اللہ رب العالمین کی ذاتِ اقدس کے لیے بالاتفاق لازمی تنزیہ کے منافی تھا تو لا محالہ اس مفہوم سے فرار اختیار کر کے ان لوگوں نے سابقہ تاویل کا رخ اختیار کیا۔ یہ سوچ کر کہ اس طرح شانِ خداوندی میں نازیبا بات کہنے سے بچ جائیں گے۔

اس دور میں تاویل کے قائلین میں اہلِ علم کا بھی ایک گروہ شامل تھا، جیسے امام ابوالحسن اشعری، جن کا تذکرہ ان شاءاللہ علامہ ذہبی کی اس کتاب میں آئندہ آئے گا۔

صفات کے سلسلے میں امام جوینی کا موقف:

اسی طرح امام محمد جوینی شافعی رحمۃ اللہ علیہ متوفی سئہ 438ھ جو امام الحرمین کے والد تھے، مگر پھر اللہ نے انہیں استواء و دیگر صفاتِ خداوندی کے سلسلے میں اسلاف کے نقش قدم کی پیروی کی توفیق بخشی اور اس سلسلے میں ایک مفید رسالہ تیار کیا اور اپنے مسلمان بھائیوں کے خیرخواہی کے جذبہ سے لوگوں کے درمیان اس کی اشاعت کی۔ امام موصوف نے اس رسالہ میں اپنی علمی زندگی کے کسی دور میں پیش آنے والے ذہنی شکوک و شہبات اور حیرت و تردد کی بڑی دقیق توصیف کی ہے جبکہ اسلاف کے اتباع اور اپنے دور کے علماء کلام ۔۔۔ جو کہ استواء کی تاویل استیلاء اور تسلط سے کرتے تھے۔۔۔کے اتباع کے مابین سخت تردد اور حیرت کے شکار تھے۔ اپنے رسالہ کے صفحہ 176-177 میں رقمطراز ہیں:

"معلوم ہونا چاہئے کہ میں چند دنوں تک تین مسائل میں سخت پریشان تھا۔"

1۔ صفات 2۔ خدا کا بلندی میں ہونا 3۔ قرآن سے متعلق حرف و صوت

معاصرین کی کتابوں میں ان مسائل کے سلسلے میں مختلف آراء و اقوال دیکھ کر میں سخت پریشان تھا۔ اس لیے کہ بعض کتابوں میں صفاتِ خداوندی کی تاویل و تحریف کا نظریہ نظر آتا تو کسی میں توقف کی راہ اختیار کرنے کا مشورہ ہوتا اور کسی میں تاویل و تعطیل اور تشبیہ سے احتراز کرتے ہوئے صفات کے اثبات کا مسلک دکھائی پڑتا مگر میں قرآن کریم اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسے نصوص پاتا ہوں جو ان صفات نیز علو خداوندی کے اثبات اور قرآن کے حرف و صوت کے حقائق سے متعلق کھلی شہادت دیتے ہیں۔

پھر متاخرین اہلِ کلام کا مطالعہ کرتا ہوں تو دیکھنے میں آتا ہے کہ ان میں بہت سے لوگ استواء کی تاویل قہر و استیلاء اور نزول خداوندی کی تاویل اس کے احکام کے نزول سے کرتے ہیں اور خدا کے دونوں ہاتھ کی تاویل قدرت و نعمت سے کرتے ہیں اور قدم کی تاویل «قدم صدق عند ربهم» سے کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ، مگر اس کے باوجود یہ اہلِ کلام کلام اللہ کی جب تعریف کرتے ہیں تو اسے ایسا معنی بتلاتے ہیں جو آواز کے بغیر حروف سے قائم بالذات ہو اور پھر انہی حروف کو اس قائم معنی کی تعبیری صورت بتلاتے ہیں۔ اس طرح کی تاویلانہ رائے رکھنے والوں میں ایک گروہ ایس ابھی ہے جن کا وقار میرے سینے میں موجود ہے جیسے شوافع اشعری فقہاء کی جماعت، اس لیے کہ میں مذہبا شافعی ہوں اور اپنے دین کے احکام و فرائض سے یک گونہ واقفیت رکھتا ہوں، تو جب میں ان جلیل القدر بزرگوں کو دیکھتا ہوں کہ اس طرح کی تاویلانہ رائے کے حامل ہیں، حالانکہ میرے دل میں ان بزرگوں کے علم و فضل کی وجہ سے ان کے سلسلے میں ایک طرح کا اچھا اعتقاد موجود ہے، مگر پھر بھی میرا ضمیر ان تاویلات پر مطمئن نہیں ہوتا۔ بلکہ ان تاویلانہ خیالات میں پراگندگی اور ایک طرح کی تیرگی محسوس کرتا ہوں، چہ جائیکہ انشراحِ صدر نصیب ہو، تو میری مثال اس متحیر اور آشفتہ مزاج کی سی تھی جو اپنے دریائے حیرت کی موجوں کے تھپیڑے کھا رہا ہو۔

حال یہ تھا کہ علو، استواء اور نزول کے ثبوت و واقفیت کی بات بھی کہتے ہوئے خوف محسوس کرتا تھا کہ کہیں ذاتِ خداوندی کے لیے حصر یا تشبیہ بالخلق نہ لازم آ جائے لیکن پھر بھی جب اللہ کی کتاب اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن پاک کا مطالعہ کرتا تو یہی محسوس ہوتا کہ ان دونوں سرچشموں میں پائی جانے والی نصوص اپنے حقیقی معانی ہی کی طرف رہنمائی کرتی ہیں اور یہ بھی نظر آتا کہ خاتم الانبیاء والرسل نے اللہ تعالیٰ کی صفات کے ان معانی کی بصراحت خبر دی ہے اور اپنے رب کو ان معانی سے متصف کیا ہے اور یہ بات تو لازما معلوم ہی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسوں میں عالم، جاہل، ذہین و غبی سادہ لوح دیہاتی و سنگدل، ہر طرح کے لوگ شریک رہتے تھے، مگر ان حاضرین کی جانب سے کوئی ایسا استفامیہ یا معترضانہ تعاقب نصا یا ظاہرا ذخیرہ کتب احادیث و تاریخ میں نہیں ملتا جو ان نصوص پر کیا گیا ہو جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی توصیف کرتے تھے اور جس کی بنیاد پر ایسے نصوص کی ان کے حقیقی معنی سے ہٹا کر تاویل کی گئی ہو، جیسا کہ ہمارے فقہاء متکلمین کا رویہ ہے۔

اسی طرح ایسی بھی کوئی روایت نہیں ملتی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اللہ کی صفات جیسے فوقیت اور یدین وغیرہ کے سلسلے میں اپنے فرمودات و ارشادات کے ظاہری مفہوم پر ایمان لانے سے کبھی منع فرمایا ہو اور نہ اس معنی کی کوئی روایت پائی جاتی ہے کہ ان صفات الہیہ کے کچھ دوسرے پوشیدہ معانی بھی ہیں جو ان کے ظاہری مدلول کے منافی ہیں۔

اس طویل بحث کے بعد امام جوینی رحمۃ اللہ علیہ نے استواء اور فوقیت کے سلسلے میں بعض قرآنی آیات اور احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا ہے، بعد ازاں صفحہ 181 میں فرمایا ہے:

"جب مجھے اچھی طرح یہ بات معلوم ہو گئی تو تاویل و تعطیل اور تشبیہ و تمثیل کے شکوک و شبہات اور جہالت سے گلو خلاصی حاصل کر لی اور اپنے رب کی بلندی اور فوقیت نیز عرش پر اس کے استواء پر ایمان لے آیا۔ اس سلسلے میں حق اس طرح واضح ہے کہ سینہ اسے قبول کرنے کو پوری طرح آمادہ ہے اور عقلِ سلیم صفات کی تحریف بھی گوارا نہیں کرتی، اور صفاتِ الہیہ کے سلسلے میں توقف کا موقف اختیار کرنا تو سراسر جہالت اور نادانی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو ان صفات سے متصف قرار دیا ہے تاکہ ہم ان کے ذریعہ اس کی معرفت حاصل کر سکیں، تو صفاتِ الہیہ کے اثبات و نفی کے مسئلہ میں توقف اختیار کرنا دراصل ان صفات کے حقیقی مقصد (یعنی انسان کا ان صفات کی معرفت حاصل کرنا) کا ضائع کرنا ہے۔ اللہ نے تو اپنی ذات کو ان اوصاف سے محض اس لیے متصف قرار دیا ہے تاکہ ہم بھی ان صفات کو ثابت مانیں اور راہ توقف اختیار کرنے سے بچیں۔ اسی طرح تشبیہ و تمثیل بھی مرقعہ جہالت ہے اس لیے جسے تحریف و توقف نیز کیفیت صفات سے تعرف کیے بغیر اثباتِ صفات کی توفیق مل گئی وہ اللہ کے مطلوب طریقہ پر گامزن ہے۔"

پھر امام جوینی رحمۃ اللہ علیہ نے صفحہ 181-183 میں ان اسباب کا ذکر کیا ہے جن کے نتیجہ میں علماء کلام نے استواء کی استعلاء اور غلبہ سے تاویل کی ہے۔ ان کے سلسلے میں میرا اپنا خیال یہ ہے کہ ان لوگوں نے صفاتِ الہیہ کو صفاتِ مخلوق کے مترادف سمجھ لیا۔ جس کی وجہ سے اللہ کی عظمت اور بڑائی کے شایانِ شان استواء کا تصور ان کے ذہن سے اوجھل ہو گیا۔ اس کج فہمی کی وجہ سے انہیں کلامِ خداوندی کی تحریف بھی کرنی پڑی اور اوصافِ حمیدہ سے الگ کر کے خدا کی تعطیل کے بھی مجرم بنے۔

بے شک ہم (اہلِ سنت) اور اہلِ کلام اشاعرہ اللہ کے لیے حیات، سمع و بصر، علم و قدرت اور ارادہ و کلام صفات کے قائل ہیں۔ حالانکہ صفتِ حیات کے تصور سے وہی عرض والا مفہوم ہمارے ذہن میں آتا ہے جو ہمارے جسم میں قائم ہے، اسی طرح سمع وبصر کے مفہوم میں وہی اعراض ہمارے ذہن میں آتے ہیں جو ہمارے اعضاء پر قائم ہیں تو جس طرح متکلمین اشاعرہ ان صفات کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ اللہ کی صفات، حیات و سمع و بصر اعراض نہیں ہیں، بلکہ یہ سب اللہ کی عظمت و جلال کے شایانِ شان صفات ہیں جو ہم مخلوقات کی صفات سے یکسر مختلف ہیں، ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ کی حیات ایک معلوم حقیقت ہے مگر اس کی کیفیت کا علم ہمیں نہیں۔ اللہ کے علم کی ایک معلوم حقیقت ہے مگر اس علم کی کیفیات کا ادراک ہمارے بس کا نہیں۔ اس طرح اللہ کے کان و آنکھ کی معلوم حقیقت ہے لیکن یہ سب وہ اعراض نہیں ہیں جو مخلوق میں پائے جاتے ہیں مگر ان کی کیفیات سے ہم نابلد ہیں۔ بعینہ یہی صورت اللہ کی فوقیت، استواء، اور نزول کے مسئلہ میں بھی ہے یعنی اللہ کا فوق میں ہونا معلوم ہے۔ بالفاظِ دیگر فوقیت کی صفت ایسے ہی ثابت ہے جس طرح سمع و بصر کو آپ ثابت مانتے ہیں کہ دونوں کی حقیقت معلوم مگر کیفیت معلوم نہیں۔ اسی طرح اللہ کا فوق اور بلندی میں ہونا بھی معلوم اور اس کی شان کے مطابق ثابت ہے لیکن اس فوقیت کی کیفیت ہمارے علم میں نہیں۔ عرش پر اللہ کا مستوی ہونا معلوم ہے مگر اس کی کیفیت ہم نہیں بتلا سکتے کہ اس کا استواء محض حرکت یا نقل و انتقال کے ذریعہ ہوا ہے جو کہ دراصل مخلوق کے شایانِ شان ہے۔ اس لیے کہ اللہ کا استواء تو اسی کے جلال و عظمت کے مطابق ہے۔ یہی حال خدا کی تمام صفات کا ہے۔ یعنی ثبوت اور وجود کی حد تک تو معلوم ہیں مگر ان کی کیفیات و حدود غیر معلوم ہیں۔ تو صفات کے معاملہ میں یہ موقف اختیار کرنے والا ایک ناصیہ (اثبات و وجود) سے تو صاحبِ بصیرت ہو گا مگر دوسرے ناصیہ (کیفت و حدود) سے وہ بھی مطلق نابلد ہو گا۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ کے خود اپنے بتائے گئے اوصاف کا اثبات اور تحریف و تشبیہ اور توقف کی نفی دونوں چیزیں بیک وقت حاصل ہو جاتی ہیں اور یہی اللہ کا اپنی صفات کے ابراز و اظہار کے سلسلے میں انسانوں سے مطالبہ ہے تاکہ ہم ان ثابت صفات کی روشنی میں اللہ کی شراب معرفت کے جام پیتے رہیں اور ان صفات کے حقائق پر ایمان کامل رکھیں۔ ساتھ ہی تشبیہ کی تردید بھی کریں اور تحریف و تاویل کی ڈگر پر چل کر ان کی تعطیل بھی نہ کریں، استواء م سمع و بصر اور نزول وغیرہ صفات میں کوئی فرق و امتیاز نہیں، اس لیے کہ ہر صفت کے سلسلہ میں نصوص موجود ہیں۔

اور اگر متکلمین اشاعرہ استواء کے اثبات پر ہم (اہل سنت) کو تشبیہ بالخلف کا طعنہ دیں تو ہم عرض کریں گے کہ سمع کی صفت ثابت مان کر آپ بھی اسی طعن کے مستحق قرار پائیں گے، پھر اگر کہیں کہ ہم سمع کو عرض نہیں مانتے بلکہ اللہ کے شایانِ شان سمع ثابت مانتے ہیں جو مخلوق کی قوت سامعہ سے بالکل مختلف ہے تو ہم بھی جواب دیں گے کہ بھائی صاحب! ہم اللہ کے لیے استواء اور فوقیت کی صفت کے اثبات سے اللہ کا کسی محدود جگہ میں حصر نہیں کرتے جیسا کہ آپ کا خیال ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کے شایان شان استواء اور فوقیت ثابت مانتے ہیں جس کی کیفیت کا علم ہمیں نہیں، اس طرح سے استواء، نزول ، ید، وجہ، قدم اور ضحک و تعجب وغیرہ صفات کے ثبوت پر متکلمین ہمیں جس تشبیہ کا مورد الزام ٹھہرائیں گے ہم وہی الزام تشبیہ، حیات و سمع و بصر و علم کے اثبات پر انہیں بھی دیں گے تو جس طرح یہ لوگ اپنی ثابت کردہ صفات کو اعراض کے ضمن میں نہیں شمار کرتے۔ اسی طرح ہم (اہل سنت) بھی خدا کے لیے ثابت ہاتھ اور چہرہ وغیرہ کو اعضاء و جوارح نہیں مانتے اور نہ انہیں وہ صفات قرار دیتے ہیں جن کی حامل مخلوق ہو سکے اور یہ کہاں کا انصاف ہے کہ یہ متکلمین استواء، نزول، وجہ اور ید وغیرہ کو صفاتِ مخلوق کی مانند سمجھ کر بزعم خویش تشبیہ سے بچاؤ کی خاطر تاویل و تحریف کی روش اپنا لیں، جبکہ خود بعض دیگر صفاتِ خداوندی کو ثابت ٹھہرائے اور تحریف کی درانتی سے ان کے برادے نہیں نکالتے ہیں۔ ہر وہ شخص جس میں انصاف پروری، عدل گستری کی خُو بُو پائی جائے گی وہ یقینا ہماری معروضات ہی کا قائل ہو گا اور اللہ کی تمام صفات کو بلا تفریق و امتیاز ثابت ماننے کے سلسلے میں ہماری خیرخواہی قبول کرے گا اور کسی بھی صفت میں تشبیہ و تعطیل اور توقف کی راہ نہیں اپنائے گا جو کہ اللہ کا ہم انسانوں سے مطالبہ تھا۔ اس لیے کہ یہ صفات (جن کی متکلمین اشاعرہ تاویل کرتے ہیں) اور وہ (جن کو ثابت مانتے ہیں) سب کے سب ایک ہی جگہ یعنی قرآن و حدیث میں پائی جاتی ہیں۔ تو اگر ہم بعض صفاتِ خداوندی کو بلا تاویل ثابت مانیں اور بعض صفات پر تحریف و تاویل کی درانتی چلائیں تو یہ دور خارویہ اس شخص کی مانند ہو گا جو قرآن پاک کے بعض اجزاء پر تو ایمان رکھتا ہو۔ مگر بعض اجزاء کا کفر کرتا ہو ، اتنی بحث ان شاءاللہ کافی شافی ہو گی۔

امام جوینی کی مندرجہ بالا بحث سے یہ واضح ہو گیا کہ آیات استواء کی تفسیر میں متکلمین، اسلاف کی خلاف ورزی کیوں کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن پاک میں مذکور استواء الہی کو غلطی سے یہ لوگ وہ استواء سمجھ رہے ہیں جو مخلوق ہی کی صفت بن سکتا ہو اور جو یقینا تشبیہ ہو گا۔ اس لیے یہ حضرات اس کی استیلاء اور غلبہ سے تاویل کر کے استواء ہی کا انکار کر بیٹھے۔

اور مقامِ تعجب تو یہ ہے کہ تاویل کے ذریعہ جس چیز (تشبیہ) سے جان بچانا پیشِ نظر تھا، اس سے بھی زیادہ خطرناک خرابی میں پڑ گئے جس کی تعیین مندرجہ ذیل امور سے کی جا سکتی ہے۔

تاویل کے سنگین نتائج

1۔ تعطیل۔ یعنی اللہ کا اپنی مخلوق سے اوپر ہونے کا جو وصف ہے اس کا انکار۔

2۔ اللہ کی ایک مخلوق (عرش) کو اس کا شریک گرداننا اس طرح سے کہ وہ امرِ الہی میں اللہ کا مقابل ہو، کیوں کہ استیلاء اور غلبہ لغت میں دو چیزوں کے درمیان مقابلہ کے بعد ہی ہو سکتا ہے جیسا کہ عربی زبان کے مشہور امام ابن الاعرابی کی سوانح حیات کے ضمن میں مذکور ہے کہ:

"ایک آدمی نے ابن الاعرابی کے سامنے استواء کی تفسیر استلاء سے کی تو امام موصوف نے کہا، چپ رہو، پھر فرمایا کہ عربوں کے یہاں "استولى على العرش" (فلاں چیز پر غالب آ گیا)، جب تک کوئی مدِ مقابل نہ ہو مستعمل ہی نہیں ہے، ہاں اگر مدِ مقابل ہو اور ان دونوں مقابل میں کوئی ایک غلبہ پا لے تو اسی صورت میں کہا جائے گا "استولی" یعنی غالب آ گیا یا غلبہ پا گیا لیکن اللہ کا تو کوئی مدِ مقابل نہیں ہے۔"

ابن الاعرابی سے منقول یہ واقعہ سند کے اعتبار سے صحیح ہے، جیسا کہ اس کتاب کی تعلیق نمبر 102 میں مذکور ہے۔ اسی طرح علامہ نفطویہ نحوی نے بھی "الرد على الجهميه" میں یہی لغوی دلیل دی ہے۔

ارباب تاویل اہلِ کلام سے ہم با ادب گذارش کریں گے کہ بھلا بتلائیے اللہ کے مد مقابل کون سی چیز تھی جس پر اللہ نے مقابلہ کے بعد غلبہ و اقتدار حاصل کیا ہے؟

ہمارے خیال سے یہ ایسا الزامی جواب ہے جس کے بعد بجز اس کے کوئی چارہ ہی نہیں کہ یہ حضرات اپنی تاویلات و تحریفات سے باز آ کر اسلاف کرام کی بیان کردہ تفسیر کی جانب رجوع کر لیں۔ بعض متکلمین کو جب اس پیچیدگی کا علم ہوا تو ایک دوسرا ہی گندا حیلہ تراش لیا، وہ یہ کہ استواء سے مراد جو استیلاء اور غلبہ ان کے پیشِ نظر ہے وہ مقابلہ اور مغالبہ کے مفہوم سے عاری ہے۔

مگر یہ تو عربی زبان کی مخالفت کے علاوہ تاویل کی بھی تاویل ہو گئی، حیرت ہے کہ آخر کیوں انہیں یہ سب پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں، کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ استواء کی تفسیر "تشبیہ سے خالی استعلاء" سے کر دیتے، "تشبیہ سے خالی" کی ضرورت تو اس وقت تھی جب استعلاء بھی تشبیہ و تمثیل کے مفہوم کو مستلزم ہوتا، چہ جائیکہ مستلزم نہیں ہے، کیونکہ لغت کے علاوہ خود قرآن میں استواء کی نسبت اللہ رب العالمین کی جانب کی گئی ہے۔ جیسا کہ گذشتہ صفحات میں اس طرح کی بعض قرآنی آیات کا تذکرہ آ چکا ہے۔ اسی طرح قرآن میں غیراللہ کی طرف بھی استواء کی نسبت موجود ہے، مثلا کشتی نوح کی بابت ارشاد خداوندی ہے«استوت على الجودى» یعنی کشتی جودی پر ٹھہر گئی اسی طرح نباتات کے بارے میں ارشاد ربانی ہے «استوىٰ على سوقه» یعنی اپنے تنے پر کھڑا ہو گیا اور معلوم ہونا چاہئے کہ کشتی کا استواء نباتات کے استواء سے دگرگوں ہے۔ اسی طرح چوپایوں کی پشت پر انسان کا استواء پرندے کا انسان کے سر اور سطحِ ارضی پر استواء وغیرہ۔ یہ سارے کے سارے استواء ہی کے قبیل سے ہیں، مگر ہر چیز کے استواء کا مفہوم اس کی حیثیت کے اعتبار سے ہو گا، یعنی لفظ استواء تو ہر جگہ ایک ہی ہوتا ہے مگر فاعل کے اختلاف سے اس کے مفہوم میں بھی اختلاف ہوتا رہے گا، اس لیے اللہ کے لیے مخصوص استواء کا مفہوم وہ استعلاء اور بلندی ہو گا جو اس کی شایانِ شان ہے کیونکہ اس کا مثیل و نظیر کوئی نہیں ہے۔

رہا استیلاء اور غلبہ تو اللہ کی ذات پر اطلاق متکلمین کے علاوہ کسی سے ثابت نہیں۔ دیکھا علمِ کلام نے خود متکلمین کے ساتھ کیسا گھناؤنا برتاؤ کیا؟ ذاتِ خداوندی کو مخلوق کے اوصاف و خصائص سے متصف کرنے کو ان کی نظر میں ایک بہتر کام کی شکل دے دی، جس کی وجہ سے متکلمین اس پر آمادہ نہ ہو سکے کہ خدا کو ایسے استعلاء اور بلندی میں ہونے سے موصوف کر دیں جس بلندی میں اس کا ہمسر کوئی نہ ہو۔ ساتھ ہی اسے علماء سلف کی حمایت بھی حاصل ہو۔ پھر کچھ جائے تعجب نہیں اگر یہی متکلمین علمِ کلام کی مذمت پر اتر آئیں۔ ہم عنقریب انہی کی کتابوں سے علم کلام کی مذمت میں چند ایسے اقتبساسات پیش کریں گے جن کی تائید خلف نے بھی کی ہے۔

سبکی نے "السیف الصیقل" کے مقدمہ میں لکھا ہے:

"عقائد کے لیے دو چیزیں سب سے زیادہ مضر ثابت ہوئی ہیں۔ علم کلام اور یونانی حکمت و فلسفہ، ۔۔۔ اور تینوں گروہ کے علم کلام میں خطرات اور نقصانات میں یا تو اس کے بعض حصے غلط ہیں، پھر اس میں کوئی عرب و ہیبت نہیں، اور سب سے محفوظ اور صحیح و سالم وہ مسلک ہے جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم و تابعینِ عظام رحمۃ اللہ علیھم اور فطرتِ سلیمہ پر باقی رہنے والے عوام چلتے رہے۔" (ص12)

تاویل نے جس قدر ارباب تاویل کو نقصان پہنچایا ہے اور جتنا انہیں شریعت سے برگشتہ کیا ہے، میری نگاہ میں اس کی کوئی حد و انتہا نہیں، اگر تاویل نہ ہوتی تو وحدت الوجود کا فاسد نظریہ رکھنے والے آج ہوتے اور نہ ماضی میں ان کے ہم مشرب باطنیہ اور قرامطہ ہی کا ناپاک وجود عمل میں آتا جنہوں نے شریعت میں پائی جانے والی جنت و جہنم، نماز و روزہ، حج و زکوۃ وغیرہ حقیقتوں کا یکسر انکار کر دیا اور ان تمام شرعی حقائق پر بھی تاویل کی آری چلانے سے گریز نہ کیا۔

علامہ مرتضی یمانی "ایثار الحق علی الخلق" کے صفحہ نمبر 135 میں تاویل کی قباحت پر بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

"معتزلہ اور اشاعرہ اگر اسماء حسنیٰ اور جنت و دوزخ کے انکار کی بنیاد پر فرقۃ باطنیہ کی تکفیر کا فتویٰ صادر فرمائیں گے تو باطنیہ ایسے مفتیانِ تکفیر سے کہیں گے کہ ہم اسماء حسنیٰ وغیرہ کے منکر نہیں ہیں، بلکہ ہم ان سب چیزوں کو مجاز پر محمول کرتے ہیں۔ جس طرح آپ حضرات، رحمن و رحیم و حکیم وغیرہ کے منکر نہیں ہیں، مگر انہیں مجاز پر محمول کرتے ہیں۔"

پھر آخر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ رحمن و رحیم پر ایمان لانے کے لیے مجاز آپ لوگوں کے حق میں کافی شافی ثابت ہو جو کہ مشہور ترین اسماء صفات میں سے ہیں مگر ہمارے لیے تمام اسماء حسنیٰ اور جنت و جہنم پر ایمان لانے کے معاملہ میں مجاز کافی نہ ہو، جبکہ جنت و دوزخ مخلوقات کے ضمن سے ہیں اور ان کا درجہ اسماء حسنیٰ سے کہیں زیادہ فروتر ہے اور اللہ نیز اس کے اسماء حسنیٰ پر ایمان لانے اور اس کی مخلوقات (جیسے جنت و دوزخ) پر ایمان لانے میں بڑا فرق پایا جاتاہے۔ اس لیے جب آپ لوگوں کے لیے مشہور ترین اسماء حسنیٰ (رحمن و رحیم) پر مجازی ایمان کافی ہے تو پھر ہمیں جنت و جہنم اور آخرت وغیرہ پر ایمان مجازی کیوں نہ کافی ہو گا؟

یہی حال عصر حاضر کی پیداوار قادیانی جماعت کا ہے جنہوں نے تاویل کے راستے سے بہت ایسے شرعی حقائق کا انکار کر دیا جن کے ثبوت پر پوری امتِ اسلامیہ کا اجماع ہے، مثلا قادیانی لوگ اپنے خود ساختہ نبی مرزا غلام احمد قادیانی اور اس سے پہلے ابنِ عربی کی پیروی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی سلسلہ نبوت باقی ہے۔ اس سلسلے میں﴿وَلـٰكِن رَ‌سولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّـۧنَ﴾ یعنی آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں) میں "خاتم" کی تاویل زینت سے کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی نہیں ہیں، اسی طرح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم «لا نبي بعدي» یعنی میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا، کی تاویل "نبی معی" یعنی میرے دور میں کوئی نبی نہ ہو گا، سے کرتے ہیں، ذخیرہ احادیث کے علاوہ خود قرآن پاک میں جنوں سے متعلق متعدد بیانات نیز کتاب و سنت میں ان کے مختلف اوصاف پائے جانے کے باوجود ان قادیانیوں نے جنوں کے وجود کا انکار کر دیا اور جنوں کے سلسلے میں پائی جانے والی نصوص کی تاویل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنوں سے بنی نوعِ انسان ہی کا ایک طبقہ مراد ہے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے گندے خیالات ہیں اور اسی طرح کے تمام کے تمام نظریات و خیالات تاویل ہی کا کرشمہ ہیں۔ جس کا استعمال استواء وغیرہ صفاتِ خداوندی کے انکار کی غرض سے خلف نے کیا ہے۔

خود عاشقانِ تاویل کے حق میں تاویل کی ضرررسانی کی سب سے زور دار دلیل اور واضح ثبوت ان کا وہ معروف و مستند مقولہ ہے جو صفات کے سلسلے میں بحث و گفتگو کے وقت بسا اوقات ان کی زبانوں سے بے خوف و خطر نکلتا رہتا ہے۔ یعنی:

«مذهب السلف اسلم ومذهب الخلف اعلم واحكم»

"یعنی سلف کا مسلک زیادہ صحیح سالم ہے مگر خلف کا مذہب زیادہ پائیدار اور علم و معرفت پر مبنی ہے۔ آج کی نئی نسل جس کی دینی و مذہبی ثقافت کو علم کلام کی ہوا بھی نہ لگی ہو۔ شاید یہ باور کرنے پر آمادہ نہ ہو کہ خلف میں کوئی اس طرح کی بات بھی کہہ سکتا ہے ۔۔۔ اور ہماری نئی نسل کا اس مقولہ اور نظریہ کی سنگینی نیز شفاعت کے پیش نظر باور نہ کرنا حق بجانب بھی ہے۔ مگر صد افسوس کہ طلبہ دین کی نظر میں اسے ایک معروف حقیقت کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں ہم اس طرح کا گندہ خیال رکھنے والوں میں سے ایک صاحب کو بطورِ مثال پیش کر رہے ہیں۔

باجوری نے "الجوہرۃ" کے مؤلف کے مندرجہ ذیل شعر

" وكل نص اوهم الشبيها اوله او فوض ورم تنزيها

"ہر وہ نص جس سے تشبیہ کا وہم پیدا ہو، اس کی تاویل کرو یا تفویض اور تنزیہ کا مقصدِ پیشِ نظر رکھو"

کے ضمن میں اپنی تعلیق کے ص55 میں لکھا ہے۔

"خلف کے مسلک میں علم و حکمت کا حصہ زیادہ ہے۔ کیونکہ اس میں وضاحت ہونے کے ساتھ ساتھ مخالف گروہ کی تردید بھی ہے اور یہی مسلک زیادہ راجح ہے، رہا سلف کا مسلک، تو اس میں سلامتی کا پہلو غالب ہے۔ کیوں کہ اس میں کسی مفہوم کی تعیین سے گریز کیا گیا ہے، اس لیے کہ ممکن ہے وہ مفہوم اللہ کی مراد کے خلاف پڑ جائے۔"

محدثین دشمنی میں معروف و مشہور جناب کوثری صاحب کی ساری طول کلامی خلف کے مسلک کی ترجیح کے اردگرد گھومتی ہے۔

"السیف الصیقل" کی تعلیق کے صفحہ 132 میں کوثری صاحب نے باقاعدہ مذہب خلف کے راجح ہونے کی تصریح کی ہے۔

حالانکہ اگر آدمی اس نظریہ پر تھوڑا سا غور کرے تو محسوس کرے گا کہ یہ نظریہ انتہائی جہالت آمیز اور گمراہی پر مبنی ہے، شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مشہور رسالہ "العقیدہ المحمدیہ" میں لکھا ہے:

"آخر کیسے یہ متاخرین، بالخصوص جبکہ خلف سے متکلمین کا طبقہ مراد ہے جن کے یہاں دین کے معاملہ میں ااضطراب اور طرح طرح کا الجھاؤ پایا جاتا ہے اور جو معرفتِ خداوندی سے بالکل کورے ہیں، ان لوگوں کی جراءت و اقدام سے واقف کار نے ان کی عقلی موشگافیوں کا انجام یوں بتلایا ہے:

لعمرى لقد طفت المعاهد كلها وسيرت طرفى بين تلك المعالم

ترجمہ: میرے دین کی قسم! میں نے تمام عقلی مکاتب فکر کا جائزہ لیا اور ان کے ہر علوم میں نگاہ دوڑائی

فلم ارىٰ الا واضعا كف حائر على ذقن اوقار عاسن نادم

ترجمہ: لیکن مجھے صرف ٹھوڑی پر کفِ افسوس رکھے ہوئے یا دندانِ ندامت بجاتے ہوئے لوگ نظر آئے۔

ان پرستاران عقل و خرد نے خود اپنی مندرجہ بالا نفسیاتی کیفیات کا بشکلِ تمثیل یا اپنی مصنفہ کتابوں میں تحریر کر کے اعتراف کیا ہے۔

مثلا بعض اکابر اہل کلام کا قول ہے:

نهاية اقدام العقول عقال واكثر سعى العالمين ضلال

ترجمہ: عقلی گھوڑا دوڑانے کا نتیجہ بندش ہے اور دنیا والوں کی اکثر جدوجہد رائیگاں اور بیکار ہے۔

وارواحنا فى وحشت من جسومنا وحاصل دنيانا اذى ووبال

ہماری روحیں ہمارے جسم سے وحشت محسوس کرتی ہیں،ہماری دنیا کا کل سرمایہ تکلیف و مصیبت ہے۔

ولم نستعذمن بحثنا طول عمرنا سوىٰ ان جمعنا فيه قيل وقال

زندگی بھر کی بحث کا فائدہ اس کے سوا کچھ نہیں ملا کہ بہت سی قیل و قال اکٹھی ہو گئی ہیں۔

متکلمین میں ایک صاحب کا قول ہے:

"جانکنی کے عالم میں متکلمین سب سے زیادہ تکلیف میں ہوتے ہیں۔"

پھر اگر معاملہ کی حقیقت کی تہ تک رسائی حاصل کی جائے تو اللہ تعالیٰ کے سلسلے میں واقعی علم اور حقیقی معرفت کی کوئی چیز بھی ان متکلمین کے یہاں ملے گی اور نہ کسی مشاہدہ یا اثر تک ان کی رسائی کا سراغ لگے گا۔ ایسی صورت میں کیسے یہ کم عقل، معرفت خداوندی سے محروم ، کمزور، پریشان حضرات، اللہ اور اس کی آیات کا علم رکھنے میں سابقین اولین یعنی مہاجرین و انصار سے آگے نکل جائیں گے، جن کی مخلصانہ پیروی انبیاء و رسل کے ورثاء و خلفاء، بڑے بڑے رہنماؤں اور تاریکیوں میں چراغ کا کام دینے والوں نے کی، جن کے ہاتھوں قرآن کی تنفیذ ہوئی اور جو قرآن کی وجہ سے ابھرے، اور جنہیں اللہ تعالیٰ نے علم و حکمت کا اتنا وافر حصہ عطا کیا تھا کہ تمام انبیاء علیھم السلام کے اتباع پر چھا گئے، اور معارف و حقائق میں جنہیں اس قدر درک حاصل تھا کہ اگر اس کے مقابلہ میں دوسروں کے علوم و مصارف پیش کئے جائیں تو موازنہ کرنے والا بھی شرما جائے۔

پھر امت محمدیہ کا سب سے عمدہ اور بہترین دور علم و حکمت کے میدان میں، بالخصوص اللہ اور اس کے اسماء و صفات اور آیات وغیرہ کے علم میں، ان اصاغر کے مقابلے میں کیوں پیچھے رہے گا، یا بالفاظِ دیگر فلاسفہ اور ہندی و یونانی حکمت و منطق کے علماء کی زلہ ربائی کرنے والے معرفتِ خداوندی میں، انبیاء علیھم السلام کے حقیقی ورثاء اور قرآن پر صحیح معنی میں ایمان رکھنے والوں سے کیوں کر پیش پیش ہو سکتے ہیں؟

علامہ اسفراینی رحمۃ اللہ علیہ "شرح العقیدہ" میں رقم طراز ہیں:

"ناممکن ہے کہ خلف کا علم سلف سے زیادہ ہو، جیسا کہ بعض حقیقت نا آشنا، سلف کے ناقدر دان، اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کی معرفتِ سے بے بہرہ لوگوں کا خیال ہے کہ (سلف کے مسلک میں سلامتی و حفاظت زیادہ ہے، اور خلف کے مسلک میں علم و حکمت زیادہ ہے) یہ لوگ دراصل ایسا اس لئے کہتے ہیں کہ ان کے خیال کے مطابق سلف کا مسلک یہ ہے کہ جاہلوں کی مانند قرآن و حدیث کے الفاظ پر ان کے معانی و مفاہیم سمجھے بغیر محض ایمان لے آیا جائے اور خلف کا مسلک یہ ہے کہ نصوص کو حقیقی معنی سے ہٹا کر مختلف مجازات اور نادر لغات کے تعاون سے ان کے مفاہیم و مطالب کا استخراج و استنباط کیا جائے۔

یہ بات مذکورہ بالا اسی گندے خیال کا لازمی نتیجہ ہے جس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ اسلام کو پسِ پشت ڈال دیا جائے، حالانکہ ان لوگوں نے سلف کا مسلک بتانے میں زبردست غلط بیانی اور تہمت طرازی سے کام لیا ہے اور خلف کے مسلک کی تصحیح و تصویب کر کے کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلاء ہو گئے ہیں اس طرح گویا یہ لوگ دو خرابی کے شکار ہوئے، نمبر ایک مسلکِ سلف بتانے میں دروغ گوئی سے کام لے کر اپنی جہالت کا ثبوت دیا۔ نمبر دوم، مسلکِ خلف کی تصویب کر کے نادانی اور گمراہی میں مبتلا ہوئے۔"

بعد ازاں علامہ اسفرائینی رحمۃ اللہ علیہ نے "فضل علم السلف علی علم الخلف" سے ابنِ رجب کا قول بطور استشہاد نقل کیا ہے۔

خلف جس ظنِ فاسد کا شکار تھے، اس دور میں بھی مذہبِ خلف کو ترجیح دینے والے بعض حضرات اس کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ اقوالِ سلف سے نابلد بعض مسلمان اہلِ قلم بھی اسی وہم میں مبتلا ہیں اور سلف کے مسلک کو تفویض کا نام دیتے ہیں "السیف الصیقل" کی تعلیق ص13 میں لکھتے ہیں:

"قرآن و حدیث میں وارد شدہ صفاتِ الہی کا تنزیہہ کے ساتھ معانی سے تعرض اور مراد کی تعیین کیے بغیر زبان سے یوں ہی اعتراف کر لینا سلف کا مسلک ہے۔"

موصوف نے "السیف الصیقل" کے دوسرے مقامات (ص131،140) پر بھی اس انداز کی چیز لکھی ہے۔

حافظ بیہقی کی شہرہ آفاق "کتاب الاسماء والصفات" کے نصوص کی تحریف میں کوثری کے معاون اور رفیق کار بھی اس معاملہ میں کوثری کے پیروکار ہیں۔ کوثری نے اگر اپنی تعلیقات میں یہ کارستانی دکھائی ہے تو ان کے رفیق کار سلامۃ القضاعی صاحب نے "فرقان القرآن بین صفات الخالق وصفات الاکوان" نامی کتاب کے مقدمہ میں یہی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کتاب میں مختلف مقامات پر موصوف نے یہی کام کیا ہے، انہوں نے صفحہ 94 میں لکھا ہے:

"اللہ کے شایانِ شان مقصود معنیٰ کے بیان سے گریز پائی اکثر سلف کا شیوہ ہے۔"

اس انداز کا خیال صفحہ 581 میں بھی ظاہر فرمایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سلف نے یہ طریقِ کار معرفتِ خداوندی سے محرومی کی بنیاد پر اختیار کیا یا انہیں اللہ کی معرفت و علم حاصل تھا مگر اس کا کتمان اور اخفاء مقصود تھا؟ اس سوال کے جواب میں حضرت جو بھی کہیں گے بڑی سنگین، خطرناک اور تلخ بات ہو گی۔ سچ فرمایا ہے اللہ رب العالمین نے ﴿ ذ‌ٰلِكَ مَبلَغُهُم مِنَ العِلمِ﴾ یعنی ان کی علمی رسائی یہیں تک ہے۔

خلف کے تاویلانہ موقف کے خلاصہ میں ہم حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا وہ قول پیش کریں گے جو آپ نے اپنے بہترین قصیدہ بعنوان "الكافية الشافية فى الانتصار للفرقة الناجية" میں فرمایا ہے، جو کہ "قصيده نونية" سے مشہور ہے۔ اسی قصیدہ میں آپ کا یہ شعر ہے:

هذا، واصل بلية الاسلام من تأويل ذى التحريف والبطلان

یہ اور اسلام کی اصل بلاء باطل پرست اہلِ تحریف کی تاویل ہے۔

پھر حافظ موصوف نے اپنی اس نظم میں تاویل کے نقصانات کا بیان ایسے اچھے انداز میں کیا ہے کہ دوسری جگہ نثر میں بھی یکجا اتنی چیزیں نہیں مل سکیں گی۔ یہ قصیدہ احمدبن عیسی رحمۃ اللہ علیہ کی شرح کے ساتھ پڑھنا چاہئے، اسی کا نام "توضيح المقاصد وتصحيح القواعد بشرح قصيدة ابن القيم" ہے۔

تعجب تو کوثری وغیرہ پر ہے جو صفاتِ الہی میں "مسلک تفویض" سلف کی جانب منسوب کرتے ہوئے ڈرتے نہیں، اگر ان کے دل سلف کی تکریم و تقدیر کے نیک جذبات سے عاری ہیں، جو انہیں شانِ اسلاف میں نازیبا باتیں کہنے سے باز رکھتے، تو کیا انہیں اسلاف سے علماء کی نقل کردہ وہ عبارتیں بھی دیکھنے کو نہ مل سکی تھیں جو صرف ایک ہی نقطہ (منکرینِ صفات معطلہ اور مشبہہ کے نقطہ ہائے نظر کی تردید کے ساتھ صفاتِ الہی کا کما حقہ اثبات) کے ارد گرد گھومتی ہیں۔


حواشی

مومنوں کے لیے ان کے رب کے پاس بہترین اجر ہے۔

محمد زاہد کوثری نے "الاسماء والصفات للبیہقی" کے صفحہ 406 میں ابن المعلم سے یہ حیلہ نقل کیا ہے۔

شرح العقیدہ ج1 ص21