اسلام اور صرف اسلام

وہ قوم کہ جس کے ایوانوں کی رونق مدتِ مدید تک عالمِ اسلام کے علوم و فنون کی رہینِ منت رہی، جس کے دانشوروں نے ایک طرف مسلمانوں کی تضحیک کی، ان کے دین اور ان کی کتاب کو اعتراضات کا نشانہ بنایا، ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر رکیک اور پست حملے کئے۔۔۔ اور دوسری طرف اس نے انہی مسلمانوں کے عادات و خصائل، ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک اور انہی کی کتابِ ہدایت (قرآن مجید) کا بغور مطالعہ کیا اور اس کی بناء پر اقوامِ عالم میں ان کی برتری کے راز کو جان کر کے، انہی کی تعلیمات میں سے بعض کو جدید ناموں سے آراستہ کر کے خود اپنے سے نہ صرف منسوب کیا بلکہ انہیں اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ اس کوشش میں بھی مصروف رہی کہ مسلمانوں کو کس طرح ان کے دین و ایمان اور ان کی تعلیمات سے برگشتہ کر کے انہین اپنے مقابلہ میں نیچا دکھایا جا سکے (کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکتی تھی) ۔۔۔۔ آج وہی قوم یہ دیکھ کر کس قدر مسرور ہو گی کہ یہی مسلمان ذہنی وملی طور پر اس کا بندہ بے دام اور اس کی خواہشات کا اسیر بن چکا ہے اور اپنے لباس، شکل و صورت، رنگ ڈھنگ، علوم و فنون، تہذٰب و تمدن، معیشت و معاشرت اور سیاست و اقتصاد میں ہو بہو اس کی نقل اتارنا چاہتا ہے۔۔۔ حتی کہ اب اس کی کوئی چیز بھی اس کی اپنی نہیں رہی اور وہ ہر چیز کو مغرب سے درآمد کر رہا ہے۔۔۔ آہ، کسی قدر بے نصیب ہے وہ مسلمان کہ جس کے پاس اسلامی ایسی نعمتِ عظمیٰ ، قرآن ایسی دولت لازوال اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسا گوہر گرانمایہ موجود ہے لیکن اس کی قدر و قیمت کا اسے احساس تک نہیں اور اس کی ساری توانائیاں اور صلاحتین کافرانہ اور ملحدانہ نظریات کو مشرف بہ اسلام کرنے کے لیے وقف ہو کر رہ گئی ہیں۔۔۔ دوسروں کی یہ دریوزہ گری تو ان کو جچتی تھی جن کے اپنے جیب و داماں خالی تھے، لیکن جس کا اپنا دامن ایسے انمول ہیروں سے مالا مال ہو۔۔۔ اور جسے خدا نے اتنا کچھ دے دیا ہو کہ تنگی داماں کی شکایت ہونے لگے، وہ اگر اغیار کی طرف للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے لگے تو اس سے بڑھ کر بد نصیبی اور کیا ہو گی؟ کہیں یہ وہی صورت حال تو نہیں:

﴿وَمَن أَعرَ‌ضَ عَن ذِكر‌ى فَإِنَّ لَهُ مَعيشَةً ضَنكًا وَنَحشُرُ‌هُ يَومَ القِيـٰمَةِ أَعمىٰ ﴿١٢٤﴾ قالَ رَ‌بِّ لِمَ حَشَر‌تَنى أَعمىٰ وَقَد كُنتُ بَصيرً‌ا ﴿١٢٥﴾قالَ كَذ‌ٰلِكَ أَتَتكَ ءايـٰتُنا فَنَسيتَها ۖ وَكَذ‌ٰلِكَ اليَومَ تُنسىٰ ﴿١٢٦﴾... سورة طه

کہ "جس نے میرے ذکر سے منہ موڑا تو ہم (دنیا میں) اس کی گزران تنگ کر دیں گے اور قیامت کے دن اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے ۔۔۔ اس وقت وہ کہے گا کہ "اے میرے رب، تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا؟ میں تو آنکھیں رکھتا تھا" ۔۔۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، "جس طرح تو نے (دنیا میں) میری آیات کو بھلا دیا تھا، اسی طرح آج کے دن تجھے بھلا دیا جائے گا؟"

۔۔۔۔ ایک مغرب زدہ مسلمان کسی بھنگی کو، جبکہ وہ غلاظت کا ٹوکرا اپنے سر پر اٹھائے ہوئے ہو، دیکھ کر دل میں یقینا یہ خیال کرتا ہو گا کہ اسلام کی نعمتِ عظمیٰ سے محرومی نے اس کو کس قدر پستیوں مین دھکیل دیا ہے، اور وہ خود اس بناء پر کس قدر معزز ہے، لیکن یہ بھنگی زبان حال سے یہ ضرور کہتا ہو گا کہ دیکھ، میں اس قوم کا فرد ہوں جو تمہارے لیے مثالی حیثیت رکھتی ہے۔۔۔ جس کے گلے کی ٹائی تمہارے گلے کا ہار ہو کر رہ گئی ہے۔۔۔ جس کا لباس تیرے لئے باعث فخر ہے، جس کی شکل و صورت تجھے اتنی پسند ہے کہ اپنوں کی اسلامی شکل و صورت اب تیری نظروں میں جچتی ہی نہیں اور تو اسے حقارت کی نظر سے دیکھنے لگا ہے۔۔۔ حتی کہ میری قوم کی اندھی تقلید میں تیری قوم کی بہو بیٹیاں گھروں میں، کلبوں میں، اسٹیجوں پر رقص کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتیں بلکہ اسے قابل فخر خیال کرنے لگی ہیں ۔۔۔ ہم نے تجھے عیاشی اور فحاشی کا جو تحفہ دیا تھا، اب اسی کے سائے تلے تیری شامیں بسر ہوتی ہیں، تیری زندگی کے شب و روز اب اسی سے عبارت ہیں۔۔۔ تو اب قرآن نہیں پڑھتا، ناول پڑھتا ہے، کلامِ الہی تیرے کانوں کو فرحت نہیں بخشتا، تو فلمی گانوں سے دل بہلاتا ہے، ۔۔۔ دن رات، چوبیس گھنٹے، آٹھوں پہر، سفر میں، حضر میں، کھانے کے وقت، بستر میں، کام کاج کے وقت، دوکان پر، کمائی اور محنت مزدوری کے دوران، تیرا صرف ایک ہی کام ہے۔۔۔ ہم نے تیرے ذہن کو اس قدر مسموم کیا ہے کہ ان آوازوں کے سننےسے منع کرنے والوں کی آواز اب تجھے اجنبی محسوس ہوتی ہے۔۔۔یہ تیرے عوام کا حال ہے۔۔۔ اور تیرے خواص؟۔۔۔ سو ان پر ایک ہی دھن سوا ہے کہ کسی طرح ان تمام لغویات کے ساتھ "اصلاحی" اور "اسلامی" کا دم چھلا لگا کر اسے تیری نظروں میں پر فریب بنا دیں۔۔۔ اصلاحی فلمیں ۔۔۔ اصلاحی نغمے۔۔۔ اصلاحی ڈرامے۔۔۔ اصلاحی ناول۔۔۔ اصلاحی کہانیاں۔۔۔ اسلامی سوشلزم۔۔۔ اور اسلامی جمہوریت۔۔۔۔ لیکن ابھی ہم تجھ سے مزید انتقام لیں گے، حتی کہ تو "اصلاحی بے حیائی" ، "اسلامی سود" اور "اسلامی کفر" کا نعرہ بھی بلند کرنے لگے گا۔۔۔ اور اسی پر بس نہیں، تو انہیں حق ثابت کرنے کے لیے دلائل کے انبار لگا دے گا۔۔۔ تاکہ تو صرف دنیا میں ہی ذلیل و رسوا نہ ہو، قیامت کو بھی اندھا کر کے اٹھایا جائے، اور جس طرح تو اپنی کتابِ ہدی کی من مانی تاویلیں کرتا ہے، اس کی تمام تر تنبیہات و ترہیبات صرف تیرے لیے مختص ہو کر رہ جائین۔۔۔ پھر تو چلا اٹھے گا کہ:

﴿ رَ‌بِّ لِمَ حَشَر‌تَنى أَعمىٰ.......... وَقَد كُنتُ بَصيرً‌ا ﴿١٢٥﴾... سورة طه

وہ کہے گا "پروردگار، دُنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اُٹھایا؟"

﴿كَذ‌ٰلِكَ أَتَتكَ ءايـٰتُنا فَنَسيتَها ۖ وَكَذ‌ٰلِكَ اليَومَ تُنسىٰ ﴿١٢٦﴾... سورة طه

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بات کب تک کہے جاتی رہے گی کہ پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر عمل آیا تھا ۔۔۔ لیکن یہاں کچھ آیا، پر اسلام نہ آ سکا۔۔۔ یہاں جمہوریت کا راگ تقریبا ہر دور مین الاپا گیا، لیکن اس راگ کی تانیں کبھی سوشلزم پو ٹوٹیں تو کبھی نیشلزم پر۔۔۔ اور پھر کیا اس حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ آدھا ملک اسی جمہوریت ہی کی بھینٹ چڑھا؟ اور آج پھر پاکستان کے سیاسی افق پر جمہوریت اور "اسلامی جمہوریت" کے ملگجے بادل منڈلا رہے ہیں۔۔۔ سوال یہ ہے کہ جمہوریت کو اسلام سے کیا تعلق ہے؟ دنیا کے کسی ملک میں "اسلامی جمہوریت" کا یہ معجونِ مرکب پایا بھی جاتا ہے یا نہیں؟ ۔۔۔ کیا کبھی کوے کو مور کے پر بھی لگے ہیں؟ ۔۔۔ اور کوا اگر ہنس کی چال چلنا شروع کر دے تو کیا وہ اپنی چال بھی نہ بھول جائے گا؟

۔۔۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے دانشور اور سیاستدان اس حقیقت کی نقاب کشائی پر چونک اٹھیں گے اور دل میں ضرور یہ کہیں گے کہ ہم نے تو ابِ جمہوریت کو مشرف بہ اسلام بھی کر ڈالا ہے، پھر بھی تمہیں اطمینان حاصل نہیں؟ لیکن ہم یہ کہیں گے کہ صرف ہمیں ہی نہیں، آپ کے اسلام اور آپ کے خدا کو بھی اس سے انکار ہے ۔۔۔ کیا آپ نے کبھی "اسلامی شرک" کا نام بھی سنا ہے؟ ۔۔۔ قرآن کہتا ہے:

﴿اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ!﴾

کہ "دیکھو، مخلوق خدا کی ہے اور ان پر حکم بھی خدا ہی کا چلے گا"

اور اگر مزید وضاحت درکار ہو تو:

﴿اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِله﴾

کہ "اللہ کے سوا کسی کا حکم بھی نہ چلے گا"

لیکن جمہوریت عوام پر عوام کی حکومت کی قائل ہے جبکہ حاکمیت صرف اللہ رب العزت کی ہے۔۔۔ اور عوام تو رہے ایک طرف کسی نبی کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں:

﴿ما كانَ لِبَشَرٍ‌ أَن يُؤتِيَهُ اللَّهُ الكِتـٰبَ وَالحُكمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقولَ لِلنّاسِ كونوا عِبادًا لى مِن دونِ اللَّهِ ...﴿٧٩﴾... سورة آل عمران

کہ "کسی انسان کو یہ لائق نہیں کہ اللہ اسے کتاب، حکم اور نبوت عطا کرے اور وہ لوگوں سے یہ کہنے لگ جائے کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ"

نیز فرمایا اللہ تعالیٰ نے:

﴿وَلا يُشرِ‌كُ فى حُكمِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾... سورة الكهف

کہ "اللہ تعالیٰ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔"

لیکن جب اللہ کی حاکمیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بندوں پر بندوں کی حکومت چلے گی تو کیا یہ عوام کو صفاتِ الہی میں شریک کرنا نہیں؟ ۔۔۔ اور اگر شرک یہ نہیں، تو شرک اور کس بلا کا نام ہے؟ ۔۔۔ پس جمہوریت شرک ہے، تو پھر اسلامی جمہوریت کیا ہوئی؟ ۔۔۔"اسلامی شرک"

بایں عقل و دانش بباید گریست

اور یہاں یہ دلیل بھی کارگر نہیں ہو سکتی کہ یہ تعریف تو جمہوریت کی ہے، اسلامی جمہوریت کا مطلب یہ ہو گا کہ حکم تو اللہ ہی کا چلے گا، لیکن اس کا نفاذ منتخب شدہ نمائندے کریں گے ۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ انتخاب، جسے آج دین و ایمان سمجھ لیا گیا ہے، اسلام میں ہے ہی کب؟ ۔۔۔ جب کہ جمہوریت اس کے بغیر نہ صرف بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے، بلکہ اس میں انتخاب کا فیصلہ بھی کثرت رائے پر ہوتا ہے۔۔۔اور قرآن مجید اس کے بھی خلاف ہے:

﴿وَإِن تُطِع أَكثَرَ‌ مَن فِى الأَر‌ضِ يُضِلّوكَ عَن سَبيلِ اللَّهِ....﴿١١٦﴾... سورةالانعام

کہ "اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! اگر آپ اکثریت کے پیچھے لگیں گے تو یہ آپ کو اللہ کی راہ سے دور لے جائیں گے"

بلکہ قرآن مجید نے تو اکثریت کو جھوٹا قرار دیا ہے:

﴿وَاَكْثَرُهُمْ...اَلْكَاذِبُونَ﴾

اور فاسق بھی:

﴿وَأَكثَرُ‌هُم فـٰسِقونَ ﴿٨﴾... سورةالتوبة

اور یہاں معیارِ حق و باطل ہی اکثریت ہے

گریز از طرز جمہوری غلامِ پختہ کارے شو

کہ از مغزِ دو صدخر فکرِ انسانی نمی آید

۔۔۔۔ اب ذرا عقلی طور پر بھی اس کا جائزہ لے ڈالیے:

جمہوریت میں ہر ووٹ کی قیمت یکساں ہے، ایک متقی، صالح اور خدا رسیدہ بزرگ کے ووٹ کی تعداد بھی ایک ہے اور اس کے برعکس ایک زانی، شرابی اور پاپی کا ووٹ بھی ایک ہی شمار ہو گا ۔۔۔ اب آپ یہ دیکھئے کہ آپ کی اکثریت نمازی ہے یا بے نماز؟۔۔۔یہ مسلمانوں کا ملک ہے اور نماز کی فرضیت کا ہر مسلمان قائل ہے۔۔۔ لیکن آپ پاکستان کے کسی بھی شہر کے باشندوں میں یہ اعلان کریں کہ "ہم چاہتے ہیں کہ آئندہ ہر جوان، بوڑھے، مرد اور عورت پر نماز کی پابندی لازمی ہو گی"۔۔۔ اس کے ساتھ ہی آپ بے نماز کے لیے کسی سزا کا تعین بھی کر دیں تاکہ اس فیصلہ کی اہمیت کا انہیں احساس ہو جائے، اب آپ ووٹنگ کرائیں اور اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ کر لیں۔۔۔ آپ لا محالہ اس حکم کے عدمِ نفاذ پر مجبور ہوں گے ۔۔۔ تو کیا ملک میں نماز کی پابندی لازمی قرار نہ دی جائے گی؟ ۔۔۔ یہ تسلیم کہ ہم نے صرف جمہوریت کی بات کی ہے، لیکن "اسلامی جمہوریت" اس سلسلہ میں کیا کردار ادا کرے گی؟ ۔۔۔ کثرتِ رائے کے اصول کو تو آپ چھوڑنے سے رہے، تو پھر کیا یہ "اسلامی" بے معنی ہو کر نہ رہ جائے گا؟ ۔۔۔ اور اگر آپ یہ کہیں کہ نماز کا مسئلہ تو طے شدہ ہے، ضرورت تو صرف اس حکم کی پابندی کروانے کی ہے، تو پھر اسلام میں کیا قباحت ہے، جس کا الگ نام لینا آپ کو گوارا نہیں؟ ۔۔۔ نماز جس کا ایک رکن ہی نہیں؟ یہ «الصلوٰة عماد الدين»کہہ کر اسے دین کا ستون قرار دیتا ہے ۔۔۔ نیز یہ کہ «من هدمها فقد هدم الدين» کہ "جس نے اس ستون کو گرا دیا، گویا اس نے پورے دین ہی کو منہدم کر ڈالا" ظاہر ہے کہ اسلام ہی اس کا بطریق اولیٰ نفاذ کر سکے گا، نہ کہ آپ کی جمہوریت۔۔۔ اور اگر بات یہی ہے تو پھر جمہوریت کی ضرورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے؟ ۔۔۔ آپ کھل کر یہ کیوں نہیں کہتے کہ جمہوریت کی ضرورت ہمیں صرف اس لیے ہے کہ "ہماری باری کب آئے گی؟" ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ اسلام کے ہاتھوں بھی مجبور ہیں، لیکن اسلام کی فطرت یہ حکمیے برداشت نہیں کرنے کی، ۔۔۔ جمہوریت ایک الگ نظام ہے اور اسلام ایک بالکل الگ ضابطہ حیات اور آپ کو اگر انتخاب ہی زیادہ عزیز ہے تو اسلام یا جمہوریت میں سے کسی ایک کا انتخاب کر ڈالیے ۔۔۔ باقی رہا اسلام اور جمہوریت کا ملغوبہ، تو یہ جن ممالک میں بھی استعمال ہوا، اس کی حیثیت ایک نعرہ سے زیادہ نہیں رہی، ترکی اور مصر کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں، بلکہ خود آپ کے ملک کے شب و روز اس پر شاہد عدل ہیں کہ یہاں نہ تو خالص جمہوریت رائج ہو سکی اور نہ ہی خالص اسلام، بلکہ دونوں کا حلیہ ہی بگڑ کر رہ گیا۔۔۔ ان حالات میں یہی مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ

دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا

سراسر موم ہو یا سنگ ہو جا

"اسلامی جمہوریت" یا "غیر اسلامی جمہوریت" یہ اصطلاحات ہی غلط ہیں، جمہوریت جمہوریت ہی ہے اور یہ کفر ہے ۔۔۔ جبکہ اسلام اسلام ہے اور سراپا سلامتی، نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی۔۔۔ پس یا تو العیاذباللہ اسلام کا نام لینا چھوڑ دیجئے اور یا جمہوریت سے جان چھڑا کر صرف اسلام کے ہو رہئے اور حکم ربانی پر عمل کیجئے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا ادخُلوا فِى السِّلمِ كافَّةً وَلا تَتَّبِعوا خُطُو‌ٰتِ الشَّيطـٰنِ...﴿٢٠٨﴾... سورة البقرة

کہ "اے ایمان والو! دین میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کی اتباع (میں حیلوں بہانوں سے کام) نہ لو"

۔۔۔۔۔۔ یاد رکھیے کہ حق و باطل کا فیصلہ آپ کو کتاب و سنت ہی کی بنیاد پر کرنا ہے، خدا تعالیٰ خود آسمانوں سے اتر کر آپ کو یہ بتانے نہیں آئیں گے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا؟ ۔۔۔

﴿هَل يَنظُر‌ونَ إِلّا أَن يَأتِيَهُمُ اللَّهُ فى ظُلَلٍ مِنَ الغَمامِ وَالمَلـٰئِكَةُ وَقُضِىَ الأَمرُ‌ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُر‌جَعُ الأُمورُ‌ ﴿٢١٠﴾... سورةالبقرة

کہ "کیا یہ لوگ اس انتظار میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے بادلوں کے سائے میں ان کے پاس آئیں گے اور پھر (کسی) کام کا فیصلہ ہو گا ۔۔۔(نہیں، یہ بات نہیں، دین تو مکمل ہو چکا، اب آخرت کی فکر کیجئے کہ) تمہارے تمام کام اسی اللہ رب العزت کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں"

۔۔۔ اور اس سے اگلی دو آیات کا مطالعہ بھی یقینا آپ کے لیے مفید ثابت ہو گا:

﴿سَل بَنى إِسر‌ٰ‌ءيلَ كَم ءاتَينـٰهُم مِن ءايَةٍ بَيِّنَةٍ ۗ وَمَن يُبَدِّل نِعمَةَ اللَّهِ مِن بَعدِ ما جاءَتهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ ﴿٢١١﴾ زُيِّنَ لِلَّذينَ كَفَرُ‌وا الحَيو‌ٰةُ الدُّنيا وَيَسخَر‌ونَ مِنَ الَّذينَ ءامَنوا ۘ وَالَّذينَ اتَّقَوا فَوقَهُم يَومَ القِيـٰمَةِ ۗ وَاللَّهُ يَر‌زُقُ مَن يَشاءُ بِغَيرِ‌ حِسابٍ ﴿٢١٢﴾... سورةالبقرة

کہ "ذرا بنی اسرائیل ہی سے پوچھ لیجئے کہ ہم نے انہیں کتنی واضح نشانیاں دی تھیں، ۔۔۔ اور جو کوئی اللہ کی نعمت آ جانے کے بعد اسے بدل ڈالے، تو اللہ تعالیٰ شدید عذاب والے ہیں۔۔۔ یہ دنیا کی زندگی تو کفار کے لیے زینت ہے، جو کہ ایمان والوں سے تمسخر کرتے ہیں، لیکن روزِ قیامت متقیوں ہی کو فوقیت حاصل ہو گی، اور اللہ جسے دینا چاہیں، بغیر حساب کے ہی دے دیتے ہیں۔"

اسلام بلاشبہ ایک عظیم نعمت ہے۔۔۔ اگر آپ "اسلام" کو "اسلامی جمہوریت" میں بدلنے کی سوچیں گے تو قرآن مجید کی یہ تنبیہ بھی آپ کے پیش نظر رہنی چاہیے:

﴿فَبَدَّلَ الَّذينَ ظَلَموا قَولًا غَيرَ‌ الَّذى قيلَ لَهُم فَأَنزَلنا عَلَى الَّذينَ ظَلَموا رِ‌جزًا مِنَ السَّماءِ بِما كانوا يَفسُقونَ ﴿٥٩﴾... سورةالبقرة

کہ "(بنی اسرائیلی) ظالموں نے اس بات کو، جو ان سے کہی گئی تھی، ایک دوسری بات سے بدل دیا، لہذا ہم نے ان کے اس فسق کے سبب آسمانوں سے عذاب نازل کیا"

انہوں نے اللہ کے احکام کو بدلا اور ان کی تاویلات کرنا شروع کیں تو اللہ رب العزت نے ان کی شکلیں ہی مسخ کر دین:

﴿فَقُلنا لَهُم كونوا قِرَ‌دَةً خـٰسِـٔينَ ﴿٦٥﴾... سورةالبقرة

"پس ہم نے ان کو حکم دیا کہ (انسانوں کی بجائے) بندر بن جاؤ"

۔۔۔ یہ جمہوریت وغیرہ قسم کی چیزیں تو کفار کو زیب دیتی ہیں، لیکن روزِ جزا کو آپ کے کام اسلام اور صرف اسلام آئے گا ۔﴿وَمَن يَبتَغِ غَيرَ‌ الإِسلـٰمِ دينًا فَلَن يُقبَلَ مِنهُ ...﴿٨٥﴾... سورةآل عمران۔ جبکہ اسلام کی بناء پر آپ کو وہ کچھ حاصل ہو گا جس کا آج آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس جمہوریت ۔۔۔ کہ چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر" کی مصداق ہے اور جس کی محبت آج ہمارے دین و ایمان کی دشمن بن چکی ہے، کے رخ زیبا سے بھی تھوڑا سا پردہ سر کا دیا جائے۔۔۔ جمہوریوں کے نزدیک جمہوریت کی تعریف یہ ہے:

"Government of the People for the People, By the People"

یعنی "عوام کی حکومت، عوام کے لئے، عوام کی طرف سے"

بالفاظِ دیگر، حاکم بھی عوام ہیں اور محکوم بھی عوام ۔۔۔ یا زیادہ واضح لفظوں میں جو حاکم نہیں ہو سکتا۔۔۔ لیکن داد دیجئے چاند تک رسائی حاصل کرنے والوں کی عقل و دانش کی کہ اس نے اس تماشے کو مسلمان قوم کی نظروں میں بھی پر فریب بنا دیا ہے۔۔۔ کہنے کو عوام حاکم ہیں، لیکن اپنا "قیمتی ووٹ" بیلٹ بکس کی نذر کر دینے کی حد تک، اس کے بعد ان کی حیثیت اس قدر بھی باقی نہیں رہ جاتی کہ اگر غلطی کا احساس ہو جائے تو دیا ہوا ووٹ واپس ہی لے سکیں۔۔۔ کس قدر مجبور محض اور بے کس ہے وہ انسان، کہ خود اپنے ہاتھوں اپنی قسمت کی پرچی پورے پانچ سال کے لیے اپنے ہی جیسے کسی دوسرے انسان کے حوالے کر آتا ہے۔۔۔ اور اس کے برعکس کس قدر خوش نصیب ہے وہ مسلمان، جو اسلام کا پیروکار ہے، کہ جس میں راعی اور رعایا دونوں نہ صرف برابر ہیں بلکہ دونوں ہی ایک ایسے نظام کے پابند ہیں جو رب العالمین نے ان کے لیے تجویز کیا ہے ۔۔۔ وہ رب العالمین، کہ صرف اپنے ماننے والوں کا ہی رب نہیں، اپنا انکار کرنے والوں کا بھی رب ہے ۔۔۔ جو صرف راعی کو اپنی ذمہ داری کے لیے مسئولیت کا احساس ہی نہیں دلاتا، رعایا کو راعی کے کسی غلط اقدام پر ٹوک دینے کا حق بھی دیتا ہے ۔۔۔ آپ کہیں گے جمہوریت میں حزبِ اختلاف کا کام بھی یہی ہوتا ہے ۔۔۔ ہمیں بھی یہ تسلیم ہے کہ حزب اختلاف کا کام صرف حزب اختلاف اقتدار کی پالیسیوں پر تنقید برائے تنقید اور اگلے الیکشن تک اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنا ہوتا ہے، جبکہ حزب اقتدار اپنی من مانی کرتا ہے۔۔۔ تنقید برائے تنقید اور من مانی۔۔۔ یہ چکر مسلسل چلتا رہتا ہے اور یہی وہ چکی کے دو پاٹ ہیں، جن کے درمیان مظلوم عوام پستے رہتے ہیں ۔۔۔ ہاں ہر پانچ سال کے بعد ووٹ کا کھلونا ان کے ہاتھوں میں تھما دیا جاتا ہے، لیکن اس کھلونے سے وہ بیچارے دل تو کیا بہلائیں گے، یہ الٹا ان کی جان کا وبال بن جاتا ہے، اقتدار کے گاہک رائے دہندہ کی راتوں کی نیند بھی حرام کر دیتے ہیں، ایک پارٹی اٹھ کر گئی تو دوسری آ موجود ہوئی۔۔۔ ہر پارٹ صرف اپنے حق میں ووٹ کا وعدہ لے کر ہی نہیں جاتی، اس کی دولت ایمان بھی لوٹ کر لے جاتی ہے، اسے مجبورا سب سے جھوٹا وعدہ کرنا پڑتا ہے، سب سے غلط بیانی کرنی پڑتی ہے۔۔۔ اپنے ضمیر تک کو کچلنا پڑتا ہے۔۔۔ اور اگر اس میں کچھ جراءت موجود ہے تو سچ بول کر اس کھلونے سے چند دن تک کھیلے گا، لیکن اگر وہ پارٹی برسر اقتدار نہ آ سکی جس کو اس نے ووٹ دیا ہے تو آئندہ پانچ سال اس کے لیے عذاب بن جائیں گے، اور اگر قسمت نے یاوری کی اور سودا اسی گاہک کے ہاتھ جا لگا جس کو کثرت رائے کے بل بوتے نے تین یا پانچ سال کے لیے ملک کے مجبورا عوام کے جذبات سے کھیلنے کا حق دے دیا ہے، تو یا تو ووٹر آئندہ اس کی شکل دیکھنے کو بھی ترس جائے گا اور یا، اگر وہ احسان فراموش ثابت نہ ہوا تو، یہ خود بھی اقتدار کے محل کی کسی دیوار کے سہارے بیٹھ کر مظلوم عوام پر ظلم کے تیر برسائے گا ۔۔۔ اس صورت میں وہ دنیا کمانے کی حد تک تو اپنی پشتیں تک سنوار جائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ انہیں﴿ذُق إِنَّكَ أَنتَ العَزيزُ الكَر‌يمُ ﴿٤٩﴾... سورة الدخان کا جہنمی سرٹیفیکیٹ بھی عطا کر جائے گا۔

سچ کہا تھا علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے:

الیکشن ، ممبری، کونسل صدارت بنائے خوب آزادی کے پھندے

میاں نجار بھی چھیلے گئے تھے نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور:

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

۔۔۔۔اور یہ اکثریت کا چکر بھی خوب ہے۔۔۔۔ اکیاون (51) اکثریت ہے اور انچاس (49) اقلیت۔۔۔ اکثریت تو صرف دو ہیں جو اکیاون (51) اور انچاس (49) کے درمیان واقع ہیں ۔۔۔ اور اگر دونوں طرف پچاس پچاس ہوں، تو اس انتخاب کی سردردی کی ضرورت ہی کیا تھی؟ ۔۔۔ اور طرفہ تماشا یہ کہ دو پرٹیوں نے 55=20+30فیصد ووٹ حاصل کیے اور ایک نے 45 فیصد۔۔۔ اب کثرت رائے کی بناء پر 45 فیصد والی حکمران ہے اور 55 فیصد والی محکوم۔۔۔ بلکہ 45 فیصد اکثریت ہے اور 55 فیصد اقلیت

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

کسی ملک کے سیاستدان اس کا ایک بہت بڑا سرمایہ ہوتے ہیں، جن کی بناء پر ملک نہ صرف ترقی کی منازل طے کرتا ہے بلکہ یہ قوم کی رہنمائی کا فریضہ بھی سر انجام دیتے ہیں ۔۔۔ لیکن ہمارے ملک کے سیاستدان نے قوم کو جو سب سے بڑا تحفہ دیا ہے، وہ نقلی جمہوریت اور اس کے اصلی لوازمات انتشار، بدامنی، جھوٹ، دجل و فریب، ریاکاری، تصنع، غیبت۔۔۔اور بھرے مجمعوں میں صرف غیبت ہی نہیں، ننگی گالیاں ۔۔۔ بددیانتی، بے اصولی اور بے ایمانی کا تحفہ ہے۔۔۔ اقتدار، طلب اقتدار، دنیا کی محبت اور آخرت کی بے سروسامانی کا تحفہ۔۔۔ اپنے ملک کا کوئی بھی اور کسی بھی دن کا اخبار اٹھا کر دیکھ لیجئے، آپ کو سیاسی گٹھ جوڑ، سیاسی حربوں اور سیاسی چکموں کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والا طویل اور دلخراش سلسلہ نظر آئے گا ۔۔۔"اتحاد" بنے اور بن بن کر ٹوٹے ۔۔۔ اور آج پھر اتحاد کے خوشنما مناظر سامنے لائے جا رہے ہیں ۔۔۔ اتحاد کی ضد انتشار ہے اور اگر آج سیاسی اتھاد کی ضرورت پر پھر سے زور دیا جا رہا ہے تو یہ تسلیم کیجئے کہ اس وقت سیاسی انتشار موجود ہے ۔۔۔ لیکن یہ انتشار کب ختم ہو گا؟ ۔۔۔ آدھا ملک تو اسی انتشار کی نذر ہو گیا، اب خدارا بچے کھچے پر تو رحم کرو۔۔۔ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس فساد کی جڑ یہی جمہوری نظام ہے، لیکن بات سمجھ میں نہیں آ رہی اور اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کی توفیق میسر نہیں تو صرف سیاستدانوں کو ۔۔۔ قوم نے تو تھوڑا ہی عرصہ قبل اسلام اور صرف اسلام کی خاطر اپنی جانیں تک لٹا ڈالی تھیں۔۔۔ لیکن اقتدار کی ہوس سیاسیوں اور جمہوریوں کو کسی کل چین نہیں لینے دیتی اور اسلام کے سلسلہ میں جو تھوڑی بہت پیش رفت ہوئی ہے وہ ان کی نگاہوں میں خار بن کے کھٹک رہی ہے ۔۔۔ موجودہ حالات میں ہمیں سب سے بڑا خدشہ یہی ہے کہ ملک کی نیا اب جمہوریت کی بجائے "اسلامی جمہوریت" کے دلفریب اور خوشنما مگر انتہائی مہلک گرداب میں پھنس کر نہ رہ جائے ۔۔۔ ہم خدا کے نام پر یہ اپیل کریں گے کہ اس ملک کی سلامتی صرف اور صرف اسلام سے وابستہ ہے، جس راستے پر پیش رفت ہو رہی ہے، یہی ٹھیک ہے، لیکن خدارا اس کو مستقبل کے جمہوری مناظر سے آراستہ نہ کیجئے۔۔۔ ہمیں اس جمہوریت کی قطعا کوئی ضرورت نہیں جو اپنی آلودگیوں سے اب پاکستان میں اسلام کے کورشیدِ جہانتاب کو بھی گہنا ڈالنے کی مذموم اور سعی نا تمام میں مصروف ہونے والی ہے۔۔۔ جمہوریت تو صرف ایک سیاسی نظام ہے جس میں ظلمتیں کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہیں، لیکن اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، ایک کامل دین۔۔۔ اللہ رب العزت کے یہاں صرف یہی مقبول:

﴿إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلـٰمُ... ١٩﴾... سورة آل عمران

اسے جمہوریت کی پر فریب روشنی میں دیکھنے کی بجائے کتاب و سنت کے واضح اجالوں میں دیکھنے کی کوشش کیجئے، کہ کتاب و سنت اور اسلام کا ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے:

﴿هُوَ الَّذى أَر‌سَلَ رَ‌سولَهُ بِالهُدىٰ وَدينِ الحَقِّ لِيُظهِرَ‌هُ عَلَى الدّينِ كُلِّهِ وَلَو كَرِ‌هَ المُشرِ‌كونَ ﴿٣٣﴾... سورة التوبة

۔۔۔۔ جی ہاں، آپ کو اسی دین کے غلبہ کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔۔۔ مستقبل کا مؤرخ آپ کے اسی کارنامے کو آپ کی آئندہ نسلوں کے سامنے فخریہ انداز میں پیش کر سکے گا۔۔۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود خدا آپ کا حامی و ناصر ہو گا۔۔۔ رہی بات حریصانِ اقتدار کی، تو ان کی پرواہ نہ کیجئے، خدا نے انہیں بے شمار مواقع دیے ہیں، لیکن ہر بات انہوں نے قوم کو مایوس ہی کیا ہے ۔۔۔ یہی سوچنے پر مجبور کیا ہے

یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا


 

حواشی

[1] "اب جہنم کا عذاب چکھ، کہ تو دنیا میں بڑا عزت والا تھا"