اکتوبر 1977ء

عید کا چاند

انگلینڈ سے ایک فاضل نے استفسار فرمایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:

یہاں پر حسب سابق اس دفعہ بھی عید پر مسلمانوں میں خاصا اختلاف پیدا ہوا اور تین مختلف دنوں میں عید کی گئی اور اس سلسلے میں تین گروہ بن گئے۔ اس مسئلے پر میں آپ کا نقطۂ نگاہ بھی معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ صورت حال کچھ اس طرح بنی۔

پہلا گروہ:

یہ کہتا ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار ہے اور انگلینڈ کا مطلع مراکش کے قریب ہے لہٰذا مراکش کی اطلاع کے مطابق روزہ رکھا جائے او عید کی جائے۔ اس گروہ کی قیادت دیو بندی علماء کے ہاتھ میں ہے۔

دوسرا گروہ:

کہتا ہے کہ پاکستان کی خبر کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ ان کے پاس کوئی خاص شرعی دلیل نہیں ہے۔ اس گروہ کی قیادت بریلوی پیرؤوں کے پاس ہے۔

تیسرا گروہ:

کہتا ہے کہ برطانیہ میں مطلع سال بھر ابر آلود رہتا ہے، اس لئے یہاں رؤیت کا ثبوت ممکن نہیں۔ اس لئے کسی دوسرے اسلامی ملک کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور جب مطلع کے اختلاف کے بارے میں کوئی واضح شرعی دلیل نہیں ہے تو یہاں کے مسلمانوں کو جہاں سے بھی پہلے خبر مل جائے اس کی تصدیق کر کے قبول کر لینا چاہئے اور یہ خبر اکثر سعودی عرب سے ہی آتی ہے۔ اس لئے سعودی عرب کی پیروی کرنی چاہئے۔ یا جس اسلامی ملک میں پہلے رؤیت ثابت ہو جائے۔ یہ سعودی عرب سے آئے ہوئے اہم دعاۃ کا موقف ہے، اس موقف کی تائید یہاں یو۔کے۔ اسلامک مشن (جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم) اور جمعیت اہل حدیث اور پڑھے لکھے حلقوں نے کی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ سعودی عرب میں شرعی نظام نافذ ہے اور وہ تمام مسلمانوں کا روحانی مرکز ہے۔ اس لئے برطانیہ کے مسلمانوں کو وہاں کی رؤیت غیر مشروط طور پر تسلیم کرلینی چاہئے۔

اس بارے میں آپ بھی اپنی علمی تحقیق سے مستفید فرمائیے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس موضوع پر خوب بحث کی بجائے اور یہاں کے مسلمانوں کو کسی ایک نکتے پر متحد کیا جائے۔ (لندن۔ برمنگھم نمبر 8-25ستمبر 1977ء)

الجواب

خط میں جس حد تک گنجائش تھی اس کی تفصیل عرض کر دی گئی ہے، جس کو یہاں مزید قدرے تفصیل سے پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہو الموفق والیہ انیب۔

اختلاف:

علمی اور تحقیقی امور میں اختلاف برا نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ شکست و ہار کا موضوع بن جائے تو ملتِ اسلامیہ کے لئے اس سے بڑھ کر اس کی عافیتوں کے لئے اور کوئی غارت گر شے بھی نہیں ہے۔

ہم جب اختلاف کی درازی عمر اور اس کے پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ علمی کی بجائے تقلیدی زیادہ نظر آتا ہے، جو بہرحال محمود نہیں ہے۔ فقہی مسائل میں اختلافات کا پس منظر بھی عموماً یہی رہا ہے۔ اگر علمی ہوتا تو آج تک جتنی ان مسائل پر لے دے ہوئی ہے تو وہ منقح ہو جاتا اور ملی وحدت کے لئے ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوتا۔ چونکہ اس اختلاف کے پس پردہ ''فرقہ وارانہ'' ذہنیت کا ہاتھ رہا ہے، اس سے اس اختلاف سے ''ائتلاف'' کے امکانات روشن ہونے کے بجائے اور ہی اختلافات بڑھے ہیں اور ایک فن بن کر بڑھے ہیں اس لئے ان کی تحقیق و تدقیق برکت سے محروم رہی ہے۔

پہلا گروہ:

دیو بندی علماء کرام نے جو موقف اختیار کیا ہے گو وہ صحیح ہے تاہم وہ ان کا نجی نکتۂ نظر ہے، ان کا سرکاری مسلک نہیں ہے کیونکہ حنفی فقہی نظریہ یہ ہے کہ: اختلاف مطالع کوئی شے نہیں ہے۔

ولا اعتبار باختلاف المطالع حتی قالوا لو، رای اهل المغرب هلال رمضان یجب برویتهم علی اهل المشرق اذا اثبت عندهم بطریق موجب (مجمع الانھار۔ مصری)

لیکن ''طریق موجب'' (یقین اور ساتفاضہ) کے لئے انہوں نے جو شرائط اختراع کی ہیں ان کے یہ معنی بنتے ہیں کہ ؎

نہ نومن تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی

اس کے بعد ''مراکش'' تو بڑی بات ہے، خود انگلینڈ اور اس کے مضافات کے لئے رؤیت ہلال کا ثبوت بھی جوئے شیر لانے والی بات بن جاتی ہے۔

دنیا میں ایک گھپلا، علمی شاہراہ بن گیا ہے کہ ملک میں اگر چاند ہو تو اسے سارے ملک کے لئے ہلالِ عید تصور کیا جائے، اگر نہ ہو تو اسے اس کے کسی حصے کے لئے بھی ''ہونا'' تصور نہ کیا جائے۔ حالانکہ خدا نے ''چاند'' کو علاقائی بنیادوں پر نہیں پھیلایا بلکہ اسے دنیا پر دراز کیا ہے لیکن ''حصہ رسدی'' کے مطابق ''جہاں جہاں'' اس کا ظہور ہو، وہاں وہاں عید منا لی جائے۔ دوسرے اس کی آمد اور ظہور کے مطابق ''جہاں جہاں'' اس کا ظہور ہو، وہاں وہاں عید منا لی جائے۔ دوسرے اس کی آمد اور ظہور کا انتظار کریں۔ بالکل یوں جیسے نماز کے اوقاتِ کار کی بات ہوتی ہے کہ جب جہاں وقت ہو جائے، وہ وقت کے مناسب نماز ادا کر لیں، دوسرے اس کے آنے کا انتظار کریں۔ ایسا نہیں کہ حجاز میں مثلاً اگر نماز ظہر کا وقت ہمارے وقت کے مطابق دن کے دس بجے ہو گیا ہے تو ہم کو بھی دس بجے ہی نماز ادا کر لینی چاہئے۔ بات یہ ہے کہ جس طرح سورج سے ہمارے اوقات وابستہ ہیں اسی طرح چاند کا بھی معاملہ ہے:

یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّة؟ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ للناس (پ۲۔ بقرہ ع۲۴) اس لئے ہم کہتے ہیں کہ مثلاً اگر جدّہ اور کراچی کا مطلع ایک ہے تو ان دونوں کو چاند ہونے پر آج عید کر لینی چاہئے۔ دوسرے کو اگلے دن اس کا انتظار کرنا چاہئے۔ چاند پر علاقوں کو تقسیم کیجیے، چاند کو علاقوں پر تقسیم نہ کیجیے! کیونکہ یہ قلبِ موضوع کی مکروہ شکل ہے۔

دوسرا گروہ:

گو ان کے پاس دلیل نہیں ہے تاہم حنفی مسلک یہی ہے لیکن ان کا یہ بے تکا پن کہ: پاکستان کی خبر کے مطابق عمل کرنا چاہئے، ان کی روایتی بے ڈھنگی کے عین مطابق ہے کیونکہ جب مطالع کا اعتبار ساقط ہو گیا تو پھر پاکستان کی قید فضول ہے کیونکہ چاند کہیں ہو ان کے مسلک کے مطابق جب ''بطریق موجب'' اس کی اطلاع مل جائے تو سب کو ہر جگہ عید کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ خواہ وہ فاصلہ مشرق و مغرب کا فاصلہ ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ''طریق موجب کے ساتھ'' یہ خبر کس طرح موصول ہو سکتی ہے، ریڈیو، ٹیلی ویژن، ٹیلی فون، تار وغیرہ؟ مگر احناف کے نزدیک یہ ذرائع قابلِ اعتبار نہیں، اگر اس کا اعتبار کر بھی لیا جائے تو بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ عید کا مدار شہادت پر ہے جس میں ''اشہد'' (میں گواہی دیتا ہوں) کہنا شرط اور رکن ہے۔ اب اس کے لئے وحی الٰہی ایک ذریعہ رہ گیا ہے، بشرطیکہ ''عید'' کے اس مخمصہ سے نکلنے کے لئے کسی نئے نبی کا سلسلہ جاری کیا جائے۔

باقی رہا ان کے ہاں ''عدم دلیل'' کا رواج؟ سود ہی ان کی ''تقلید'' کی جان ہے۔ اگر دلیل آگئی تو یہ مارے گئے۔ تقلید دم توڑ دے گی اور عقل و ہوش سے عاری ان کی رسومات اور اوہام کا جنازہ نکل جائے گا۔ فقہاء کے نزدیک بھی ''عدم دلیل'' تقلید کا جزو ہے۔ باقی رہے کتاب و سنت کے ان کے نعرے؟ تو وہ گرمی محفل کے لئے ہیں یا محض جذباتی!

تیسرا گروہ:

جس کے وہاں کے اہلحدیث، جماعت اسلامی اور آپ نقیب ہیں، وہ بھی دلیل سے خالی ہیں۔ نہ ہی کسی فارمولے کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ ہاں جن اسلامی ممالک کا آپ نے نام لیا ہے اور جس سدا بہار ''ابرو باد'' کا آپ نے ذکر کیا ہے، اس سے مترشح ہوتا ہے کہ ان کے ہاں بھی مطالع کا اعتبار ہے نہ فان غُمَّ علیکم فاقدروا لہ (بخاری) کے لئے وہاں کوئی گنجائش محسوس کی جاتی ہے؟ اگر یہ صحیح ہے تو پھر ان کے موقف کی اساس اور کیا ہے؟

راقم الحروف کے نزدیک یہ موقف بھی محل نظر ہے، کیونکہ اختلاف مطالع کو نظر انداز کرنا دراصل حدیث ''صُوْمُوْا لرؤیته وأفطروا لرؤیته (بخاری)'' کے مصداق پر پانی پھیرنے والی بات ہے۔ حدیث میں جس رؤیت کا ذکر ہے اس سے مراد چاند کا وہ دائرہ ہے جہاں وہ نمودار ہو کر دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہو تو پھر ''لرؤیته'' کی قید ایک تکلف ہے جو ایک فرضی ہالہ کے گرد گھوم رہا ہے۔ حالانکہ اسلام اور اس کے عملی فرامین ''خیالی پلاؤ'' کا نام نہیں ہے۔ وہ ایک حقیقت ہے جس کا خارج میں مصداق محسوس اور مشہود ہونا چاہئے۔

ہم اس بات پر حیران ہیں کہ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ''جہت مغرب'' کے اقصیٰ میں جو ممالک آتے ہیں، وہاں ان ممالک سے پہلے چاند نمودار ہوتا ہے جو مشرق اقصیٰ میں ہیں تو پھر اس فارمولے کے مطابق ''رؤیت قمر'' کی سر دردی تو صرف ''جہت مغرب'' میں آباد ممالک کے لئے رہ جائے گی، ہمیں تو بنی بنائی عید ہاتھ لگ جایا کرے گی۔ کیونکہ ازل سے چاند کا یہ تعامل معروف ہے۔ اس میں قطعاً کوئی ریب اور شک نہیں ہے۔ نہ ایسے بدیہی حقائق کیلئے روایتی مثبت کی تلاش مناسب ہوتی ہے۔ کما جاء فی کتاب الاصول۔

جب جہت مغرب میں کسی جگہ عید یقینی ہو جاتی ہے تو آپ کو کیا پڑی ہے کہ آپ یہاں ''ہلال کمیٹیاں'' خلیق کرتے پھریں یا گواہ ڈھونڈھتے پھریں۔ اختلافِ مطالع سے صرف نظر ایک غیر فطری اور غیر عقلی گورکھ دھندا ہے جو ایک دانشمندانہ اقدام کی اساس نہیں بن سکتا۔ حیرت ان فقہاء پر ہے جنہوں نے چاند ہونے کی راہ کے تمام حجابات اُٹھا دیئے ہیں لیکن اس سے استفادہ کرنے کے لئے ''راہ میں'' شرائط کے حجابات کے وہ پہاڑ کھڑے کر ڈالے ہیں جن کو دیکھ کر یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ اگر خود چاند بھی یہاں سے گزرے گا تو یقیناً اس کو بھی بریک لگ جائے گی، وہ راستہ بند پا کر واپس پلٹ جائے گا۔

الغرض:

اختلاف مطالع کے سارے حجابات اٹھا کر چاند سے مصافحہ کرنے کے لئے راہ صاف کر دی لیکن شرائط کے حجابات کے پہاڑ کھڑے کر کے پھر اس راستہ کو پاٹ دیا ہے گویا کہ اس ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ سے واپس لے لیا۔

غور فرمائیے! وہ فرماتے ہیں کہ اس چاند کے لئے ''خبر'' بھی کافی نہیں شہادت ضروری ہے، پھر فرماتے ہیں۔ اس کے لئے ریڈیو، ٹیلیفون، ٹیلیویژن، تار اور کشف و رؤیا کی اطلاع بھی مفید نہیں کیونکہ وہ خبر دیتے ہیں، شہادت نہیں دیتے۔ شہادت کے لئے جو شرائط ہیں، ان کو پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے لئے کوئی شبلی اور جنید ہی ہو تو کام چلے گا ورنہ نہیں۔ پھر شہادت علی الشہادت یا شہادت علی قضاء القاضی کے جو چکر چلے ہیں، ان میں پڑ کر چاند کا ہوش کہاں، خود ہی انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ: دنیا میں آئے ہو اور یہاں رہنا ہے تو کچھ عقل و ہوش سے بھی کام لینے کی اجازت دی جائے۔

باقی رہا ''بادلوں'' کا سدا چھایا رہنا؟ اگر کبھی کسی مہینہ میں کوئی چاند نظر نہیں آتا تو یہ واقعی اضطرار ہے۔ راقم الحروف کے نزدیک اس کے حل کی یہ دو صورتیں ہیں۔

وہ علاقہ پاس کے جس ملک کے ساتھ ''مطالع'' میں وحدت رکھتا ہے وہ اس کے تابع رہے۔ مثلاً انگلینڈ کا سارا ملک تو نہیں لیکن اس کے بعض اضلاع کا مطلع اگر پڑوس کے ملک کے مطالع کا حصہ ہے تو اس میں جب عید ہو جائے، اگلے دِن انگلینڈ کے باقی ماندہ ان علاقوں کو عید منا لینی چاہئے جن کا مطلع ایک ہے اور پڑوس والے ملک سے متصل ہے۔

دوسرا یہ کہ وہ تقویم سے کام لیں، گو یہ عام حالت میں جائز نہیں ہے تاہم اب اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے کیونکہ یہ اضطراری صورت ہے۔ اگر فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ والی حدیث پر عمل کیا جائے تو یہاں کی ہجری تقویم کا تیا پانچہ ہو جائے کیونکہ ہر ماہ، ماہ کے تین دن شمار کرنا سال کے ڈھانچہ کو بھی متاثر کیے بغیر نہیں رہے گا۔

حدیث: أنا أمة أمیة لا نکتب ولا نحسب (بخاری) سے مراد، اہل عرب، بالخصوص قریش کی حالت واقعی کا ذکر ہے، یہ ایک خبر ہے، انشاء نہیں ہے۔ یعنی ہم جس حال میں ہیں اس سے زیادہ کے مکلف بھی نہیں ہیں۔ اور یہ دین فطرت کا خاصہ ہے کہ انسانی بساط جتنی اور جیسی کچھ ہوتی ہے، وہ انسان اسی حالت میں اسلامی نظام سے استفادہ کر سکتا ہے۔ اس کو جو حضرات ''حقائق جدیدہ'' سے ''جاہل'' یا ان سے ''دور'' رہنے کے لئے وجہ جواز بناتے ہیں۔ معاف کیجیے! وہ ''ملت اسلامیہ'' کے لئے کوئی قابلِ فخر ''دریافت'' نہیں پیش کر رہے بلکہ ہمیں ان سے استفادہ کرنا چاہئے اور پوری محنت سے منقح کر کے استفادہ کرنا ہے، اس کے باوجود اگر کوئی کمی رہ جاتی ہے تو ہم بری الذمہ ہیں۔ انشاء اللہ۔

لَا یُکَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا

سعودی عرب کا روحانی مرکز ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جس میں دورائیں نہیں ہو سکتیں۔ لیکن یہ روحانی مرکزیت اس امر کی تو متقاضی ہے کہ سعودی عرب کا فرمانروا عالمِ اسلام کا خلیفہ ہو اور یہ علاقہ دار الخلافہ قرار پائے، اور باقی عالمِ اسلام اس کے ذیلی صوبے اور انتظامی اکائیاں رہیں۔ اس سے ملی شیرازہ بندی زندہ رہے گی اور اخوت اسلامی مشہود ہو کر عالمِ اسلام کی طاقت کا سرچشمہ ثابت ہو گی۔ لیکن یہ بات کہ یہ علاقہ ''ماخذ شریعت'' بھی قرار پائے؟ غلط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن ائمہ دین نے اہل حرمین یا اہلِ مدینہ کے تعامل کو دینی ماخذ قرار دیا تھا، جمہور ائمہ نے ان سے اتفاق نہیں کیا۔ اور جن ائمہ نے ان کے تعامل پر نگاہ رکھی تھی وہ بھی صحابہ اور تابعین کے دور کی بات کرتے ہیں۔ بعد کے عہد اور دور کا ذکر نہیں کرتے۔

اختلاف مطالع کی حد کیا ہونی چاہئے؟ یہ ماہرین کے حل کرنے کا مسئلہ ہے اور وہ اس کو آسانی سے حل کر سکتے ہیں، یہاں پر غلبہ ظن کی حد تک اطمینان کی ضرورت ہے اور وہ ان علوم کے ماہرین کے لئے کچھ مشکل نہیں ہے۔ باقی رہیں اس سلسلہ کی فقہاء کرام کی احتیاطی تدابیر؟ گو وہ اپنے اخلاص اور جذبۂ خیر کی بناء پر عند اللہ انشاء اللہ ماجور ہی ہوں گے۔ تاہم وہ مصنوعات جدیدہ جن کی افادیت اور ضرورت ایک مسلمہ حقیقت ثابت ہو گئی ہے، ان سے استفادہ کی راہ میں ان احتیاطی تدابیر کو اب حائل نہیں ہونے دینا چاہئے، اور نہ حائل کر کے اضحو کہ روزگار بننے کے لئے اپنی سادہ لوحی کو نمایاں کرنا چاہئے۔

رؤیت ہلال کمیٹیاں پاکستان میں بھی بنتی ہیں مگر یہ مجھے معلوم نہیں کہ ان کے سامنے فارمولا کیا رہتا ہے۔ اب کے رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین کی تبدیلی سے تو اور ہی ذہنی الجھاؤ بڑھے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے تنقیح معاملہ سے زیادہ اس کے نمٹانے پر سارا زور صرف کر ڈالا ہے اور بالکل یوں محسوس ہوا کہ انہوں نے یوں جلدی مچائی جیسے انہیں یہ اندیشہ ہو کہ چاند کے ہونے کی کوئی خبر نہ آجائے۔ بہرحال ہم شروع سے ان کمیٹیوں سے کوئی حسن ظن نہیں رکھتے اور جو مکاتیب فکر شرائطہائے کج کے ذریعے اس سلسلے کی سرکاری خبروں پر چیں بجیں رہتے تھے، وہ بھی اس سارے سفر میں ''منقار زیر پر اور دم بخود رہے ہیں۔ خدا جانے کیوں؟

2. جمعہ کے دن عید

مولانا عبد الستار گوندل لاہور سے لکھتے ہیں کہ:

اگر عید جمعہ کے دن آجائے تو کیا عید کے بعد جمعہ کے خطبے میں بھی حاضری ضروری ہوتی ہے یا بعض کی حاضری سے کام بن جائے گا؟ (مختصراً)

الجوا ب

اگر جمعہ کے دن عید آجائے تو نماز عید ادا کرنے پر جمعہ کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ اب جو چاہے جمعہ پڑھے جو نہ چاہے نہ پڑھے۔ جب جمعہ نہ رہا تو خطبہ میں حاضری کیسی؟

عن وهب بن کیسان رضي اللّٰه تعالٰی عنه قال اجتمع عیدان علٰی عهد بن زبیر فأخر الخروج حتی تعال النهار ثم خرج فخطب ثم نزل فصلی ولم یصل الناس الجمعة فذکرت ذلك ابن عباس فقال أصاب السنة رواه النسائی وأبو داود و رجاله رجال الصحیح۔

بعض روایات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ حضرت ابن زبیرؓ نے صرف جمعہ نہیں ترک کیا تھا بلکہ ظہر کی نماز بھی ترک کر دی تھی مگر مندرجہ ذیل روایت سے اس کی تردید ہو جاتی ہے۔

عن عطا قال اجتمع عیدان في عهد ابن الزبیر فصلی بهم العید ثم صلی بهم الجمعة صلٰوة الظهر أربعًا (مصنف ابن ابی شیبۃ)

حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ پر جب یہ لے دے ہوئی کہ انہوں نے عید تو پڑھی جمعہ نہیں پڑھا تو ابنِ زبیرؓ نے کہا کہ حضرت عمرؓ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔

فبلغ ابن الزبیر فقال شهدت العید مع عمر فصنع کما صنعت۔ (ابن ابی شیبۃ)

حضرت ابنِ عباسؓ نے سن کر کہا تھا، ابن زبیرؓ نے سنت پر عمل کیا ہے۔

کان ابن عباس بالطائف فلما قدم ذکرنا ذلك له فقال: أصاب السنة (ابو داؤد)

مرفوع روایات میں بھی یہی حکم ملتا ہے گو علی الانفراد ان روایات میں کلام ہے مگر مجموعی لحاظ سے قابل استدلال ہیں۔

حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت زیدؓ بن ارقم سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ہاں میں نے اس کا مشاہدہ کیا تھا۔ آپ نے عید پڑھ لی تھی جمعہ کی چھٹی دے دی تھی۔

سئاله معاویة هل شهدت مع رسول اللّٰه ﷺ عیدین اجتمعا؟ قال نعم صلی العید أول النهار ثم رخص في الجمعة فقال من شاء أن یجتمع فلیجمَّع (ابو داؤد)

اس میں ایاس بن ابی رملہ ہے مگر اس کے باوجود امام علی بن المدینی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ غالباً شواہد کی بناء پر۔ محلی کے حاشیہ پر ہے:

والحدیث رواه الحاکم وصححه هو والذهبي (محلی جلد خاص)

ایک اور روایت میں ہے، ہاں ہم جمعہ پڑھیں گے:

فمن شاء أجزأہ من الجمعة إنا مُجَّمِعُوْنَ (ابو داؤد) وفی سنده بقیة وقد صحح أحمد بن حنبل والدار قطني إرساله (نیل الاوطار)

عن عبد الأعلی عن أبي عبد الرحمان قال اجتمع عیدان علی عهد علی فصلى بالناس ثم خطب علی راحلته فقال یٰایها الناس من شهد منکم العید فقد قضی جمعة إن شاء اللّٰه تعالٰی (ابن ابی شیبة)

حضرت عمر بن عبد العزیز کا معمول بھی یہی بیان کیا گیا ہے۔

حدثت عن عمر بن عبد العزیز وعن أبي صالح الزیات أن النبي ﷺ اجتمع في زمانه یوم جمعة ویوم فطر فقال إن هذا الیوم یوم قد اجتمع فیه عیدان فمن أحب فلینقلب ومن أحب (أن ینتظر) فلینتظر (عبد الرزاق) ولکن فیه من لم یسم۔

حضرت امام احمد﷫بن حنبل بھی یہی فرمات ہیں کہ ایسے موقع پر جمعہ کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے۔

قال أحمد لا تجب الجمعة  علی أهل القریٰ ولا علی أهل البلد بل یسقط فرض الجمعة بصلٰو ةالعید ویصلون الظهر (عون المعبود)

حافظ امام ابن القیم﷫ فرماتے ہیں ایسے موقع پر حضور ﷺ نے نماز عید پر اکتفاء کرنے کی اجازت دی ہے۔

ورخص لهم إذا وقع العید یوم الجمعة أن یجتزئوا بصلوة العید عن حضور الجمعة (زاد المعاد)

لیکن رخصت ان کے لئے ہے جنہوں نے نماز عید ادا کی ہو، دوسرے کے لئے اجازت نہیں ہے۔

والحدیث دلیل علی أن صلوٰة الجمعة بعد صلٰوة العید تصیر رخصته یجوز فعلها وترکها، وهو خاص بمن صلی العید دون من لم یصلها (عون المعبود)

امام ابو الحسن محمد بن عبد الہادی حنفی نزیل مدینہ منورہ متوفی ۱۱۳۸؁ھ فرماتے ہیں کہ حدیث سے ایسا ہی ثابت ہوتا ہے، ہاں حنفی مذہب اس کا مخالف ہے مگر حدیث کہتی ہے کہ جمعہ ساقط ہوجاتا ہے۔

فیه أنه یجزي حضور العید عن حضور الجمعة لٰکن لا یسقط به الظهر..... ومذهب علمائنا لزوم الحضور للجمعة ولا یخفی أن أحادیث دالة علی سقوط لزوم حضور الجمعة (حا شیۃ السندهی علی النسائی)

بالخصوص دیہاتیوں کے لئے تو حنفی بھی یہی کہتے ہیں کہ جمعہ کی فرضیت ان سے ساقط ہو جاتی ہے۔

وإنما رخص عثمان في الجمعة لأهل الحالیة لأنهم لیسوا من أهل المصر وهو قول أبي حنیفة رحمه اللّٰه تعالٰی (موطا محمد)

الغرض! عید پڑھنے کے بعد جمعہ کی چھٹی ہو جاتی ہے خاص کر دیہات والوں کو۔ ہاں پڑھ لیں تو بہتر ہے۔ (ابن ماجہ)

3. مسجد کے لئے کنواں اور مال زکوٰۃ

مسجد کے کنویں کی صفائی کرائی گئی ہے۔ کیا مال زکوٰۃ سے اس کی اجرت ادا کی جا سکتی ہے؟ (فقیر اللہ۔ واربرٹن)

الجواب

اکثر علماء کے نزدیک اس قسم کی چیزیں قرآن حکیم کے بیان کدہ مصارف زکوٰۃ میں داخل نہیں ہیں۔ فی سبیل اللہ سے وہ صرف ''جہاد'' مراد لیتے ہیں۔ شیخ الکل حضرت مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا عبد الرحمان مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمہما اللہ تعالیٰ کا بھی یہی نظریہ ہے۔

وأما في سبیل اللّٰه فقال مالك سبیل اللّٰه مواضع الجهاد والرباط وبه قال أبو حنیفة۔ (بدایۃ المجتھد)

وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہاں ''تملیک'' کی صورت ناپید ہے۔

لا یصرت مال الزکٰوة إلی بناء نحو مسجد وفي الشامیة کبناء القناطر واسقایات وإصلاح الطرقات وکري الأنهار والحج والجهاد وکل ما لا تملیك فیه (رد المحتار جلد 2)

باقی رہی یہ بات کہ تملیک کی دلیل کیا ہے؟ کہتے ہیں۔ إنما الصدقات للفقراء والمساکین میں لام، ''لام تملیک'' ہے۔ لیکن یہ بات کہ للفقراء کا لام تملیک کے لئے ہے؟ متفق علیہ نہیں ہے۔ صحیح یہ ہے کہ یہ لام استحقاق ہے۔ دوسری ان کی دلیل ''اجماع'' ہے مگر یہ بات صرف ''ادعا'' ہے اس کے علاوہ لام تملیک قرار دینے سے زکوٰۃ کی افادی حیثیت اور غرض و غایت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ خاص طور پر اس کی اجتماعی حیثیت بالکل بیکار ہو جاتی ہے۔ بلکہ گورنمنٹ کے لئے اِس کی وصولی بھی ناجائز قرار پا جائے گی، کیونکہ عامل، زکوٰۃ کے مصارف میں سے ایک مصرف تو ہے مگر صرف بطور تنخواہ اور معاوضہ کے، اس لئے نہیں کہ وہ اپنی مالی کمزوری کی بنا پر اس کا حقدار ہے پھر وہ وصول بحق سرکار وصول کرنے کا اختیار رکھتا ہے، بطور ''ذات زید'' نہیں۔ اس لئے یہاں ''تملیک فقہی'' حقیقی نہیں رہے گی بلکہ وہ ''تملیک حکمی'' ہو گی اور یہ بات ہمارے منافی نہیں ہے۔ بلکہ مفید رہے گی۔

اس کے علاوہ آٹھ مصارف میں سے ایک مصرف ''فی سبیل اللہ'' بھی ہے۔ فی سبیل اللہ سے مراد صرف جہاد لینا، ناحق اس کے عموم پر قدغن عائد کرنا ہے۔ صرف جہاد تو اس لئے نہیں کہ حج اور عمرہ کو بھی حدیث میں ''فی سبیل اللہ'' میں شمار کیا گیا ہے اور صرف حج و عمرہ مع جہاد اس لئے نہیں کہ، احادیث نے آیت کے عموم کے محمل سے استدلال کیا ہے، اسے محدود نہیں کیا۔ کیونکہ حدیث نے حج اور عمرہ کو آیت ''فی سبیل اللہ'' کے عموم سے اخذ کیا ہے۔ اس لئے آیت کے عموم کی فقہی تخصیص بلاوجہ ہے۔ بہرحال راقم الحروف کے نزدیک فی سبیل اللہ عام ہے اور حدیث نے اس کے عموم سے ہی ''حج اور عمرہ'' کو اخذ کیا ہے۔

یہ اعتراض کہ: اگر فی سبیل اللہ اپنے عموم پر ہے تو پھر ''للفقراء والمساکین'' کے علیحدہ ذکر کا کیا فائدہ؟ جواب یہ ہے کہ علیحدہ ذکر سے، ان کی بالخصوص اہمیت واضح کرنا مقصود ہے۔ ورنہ حضور ﷺ ''حج اور عمرہ'' کے لئے ''فی سبیل اللہ'' کے عموم سے استدلال نہ کرتے۔ واللہ اعلم۔

4. اذان اور قرآن میں ذِکر رسولؐ پر درود۔ کتاب و سنت کا پیرایہ بیان

ضلع گوجرانوالہ سے جناب رشید عراقی صاحب لکھتے ہیں کہ:

میں نے لوگوں کو اذان اور تکبیروں میں ''أشهد أن محمداً رسول اللّٰه'' کے موقع پر ﷺ کہتے سنا ہے۔ اشهد کے جواب میں وہی کلمہ کہا جائے یا ﷺ؟ علامہ گوندلوی مدّظلہ العالی کا ارشاد ہے کہ جواب میں صرف وہی کلمہ کہا جائے جو مؤذن کہے، بعض کہتے ہیں چونکہ حضور ﷺ کے نام کے ساتھ درود شریف پڑھنے کا حکم آیا ہے لہٰذا اب ﷺ کہنا چاہئے۔ صحیح کیا ہے؟

کتابچہ ''مولانا مودودیؔ کے غلط نظریات مع ضمیمہ'' پر آپ کا تبصرہ پڑھا جس پر حافظ صاحب کے اختلافی نوٹ بھی نظر سے گزرے۔ کیا آپ محدّث کے ذریعے کتاب و سنت سے یہ وضاحت پیش فرمائیں گے جس میں کسی پیش آمدہ صورتِ حال کے لئے ایسا پیرایۂ بیان اختیار کیا گیا ہو؟ (مختصراً)

الجواب

صلی اللہ علیہ وسلم:

صحیح یہ ہے کہ: ''أشهد أن محمداً رسول اللّٰه'' کے جواب میں ''أشهد أن محمداً رسول اللّٰه'' ہی کہا جائے کیونکہ حضور ﷺ کا یہی حکم ہے۔

عن عبد اللّٰه بن عمرو أنه سمع رسول اللّٰه ﷺ یقول إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول (رواه مسلم)

جس حدیث میں حضور ﷺ کا نام سن کر درود پڑھنے کا ذِکر آیا ہے، اس کا یہاں اطلاق صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس مقام پر خود رسول کریم ﷺ نے تصریح فرما دی ہے کہ: کلمہ کے جواب میں کلمہ ہی پڑھا جائے۔ کما مر. اس لئے حکم عام سے یہ حکم خاص ہو گیا ہے۔ قال الشوکانی:

إنه یقدم ما کان فیه التصریح بالحکم علٰی ما لم یکن کذلك (ارشاد الفحول) کیونکہ استنباط کا درجہ صراحت سے کم ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کا نام سن کر درود پڑھنے کا حکم عام ہے، لیکن ''اشهد'' میں خاص ہے۔ اگر اپنے مقام پر یہ خاص حکم وارد نہ ہوتا تو پھر وہی بات رہتی جو کہی جا رہی ہے یعنی أشهد أن محمداً رسول اللّٰه سن کر ﷺ ہی ہم کہتے۔

رسولِ پاک ﷺ کا اسم گرامی سن کر اور پڑھ کر درود پڑھنا ویسے بھی اپنے عموم پر نہیں رہا اور نہ اس عموم کو اسلاف نے اپنایا ہے کیونکہ کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں یہ مشروع ہی نہیں ہے۔ مثلاً خود مؤذن کو بھی أشهدأن محمداً رسول اللّٰه کے ساتھ ''ﷺ'' ضرور کہنا چاہئے تھا حالانکہ یہ یہاں مشروع نہیں ہے۔ امام ابن القیمؒ لکھتے ہیں۔

الرابع أنه لو وجبت الصلٰوة علیه عند ذکره دائما لوجب علی المؤذن أن یقول أشهد أن محمد رسول اللّٰه ﷺ وهذا لا یشرع له في الأذان فضلا أن یجب علیه (جلاء الافھام ص ۳۲۹)

ہاں اذان کے بعد درود پڑھنا مشروع ہے، حضور ﷺ کا یہی ارشاد ہے:

یقول إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول ثم صلوا علي (مسلم)

ہاں بعض روایات میں ''جب مؤذّن اذان کہے'' کے الفاظ آئے ہیں کہ مؤذّن اذان دے تو تم یوں کہو۔۔۔۔ صل علی محمد الحدیث رواه احمد وغیرہ لیکن اس کی سند میں ابن لہیعہ ہے جو ضعیف ہے۔ چونکہ یہ روایت مجمل ہے، اس لئے اسے بھی محدثین نے پہلی حدیث پر محمول کیا ہے کہ اذان کے خاتمہ پر درود پڑھا جائے۔

قال السخاوي: لکن یحتمل أن یکون المراد من النداء إتمامه إذا المطلق یحمل علی الکامل ویؤیده الحدیث الذي قبله (القول البدیع ص ۱۴)

بات یہاں محل و موقع کی ہے، جس چیز کا جو محل اور موقع رسولِ کریم ﷺ نے متعین کر دیا ہے اس سے انحراف کارِ ثواب نہیں ہو سکتا۔ ظہر کی نماز ظہر کے وقت ہی پڑھی جائے تو قبول ہوتی ہے۔ صبح کے وقت پڑھی جائے تو قبول نہیں ہو گی حالانکہ کہا جا سکتا ہے کہ نماز ہی تو ہے، کسی وقت بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ مگر ایک ہوشمند ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ اس لئے یوں سوچنا کہ یہ کارِ ثواب ہی تو ہے۔ پڑھ لیا جائے تو کیا حرج ہے؟ کیونکہ یہ کام رسولِ خدا کا ہے کہ وہ بتائیں کہ یہ کارِ ثواب کس طرح اور کس موقع پر ہو سکتا ہے؟

خاص اسلوب بیان:

مثلاً

وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ(پ۔ حشرع۱)

''جو بھی اپنی طبیعت کے بخل سے بچا لیا جائے، تو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔''

یہ انداز طبعی بخل کی سنگینی اور اس سے بچ جانے کی اہمیت کے لئے اختیار کیا گیا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ اتنی سی بات نجات کے لئے کافی نہیں۔ کیونکہ قرآن و حدیث سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔

حضور ﷺ کا ارشاد ہے:

مَنْ یَّضْمَنْ مَا بَیْنَ لِحْیَتَیْهِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْهِ اَضْمَنُ لَهُ الْجَنَّةَ (بخاری)

''یعنی جو شخص اس چیز کی نگہداشت کرے گا جو اس کے دونوں جبڑوں کے درمیان ہے (یعنی زبان) اور جو اس کی دونوں ٹانگوں میں ہے، میں اس کے لئے بہشت کا ضامن ہوں۔''

کیا اتنی سی بات بہشت کے لئے کافی ہے؟ یہی کہنا پڑے گا کہ یہ ان دونوں کی مضرت اور منفعت کی اہمیت اور ضرورت کے بیان کرنے کے لئے ایک اسلوب بیان ہے۔ اور سنیے!

اَنَّ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه تعالٰی علیه وسلم قَالَ: مَقَامُ الرَّجُلِ بِالصَّمْتِ اَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ سِتِّیْنَ سَنَةً (مشکوٰۃ)

آپ کا کیا خیال ہے کہ: واقعی کم گوئی کا مقام اتنا ہی اونچا ہے؟

ایک شخص نے پوچھا کہ مجھے ایسا عمل بتائیں کہ بہشت مل جائے اور دوزخ ٹل جائے۔ آپ ﷺ نے پہلے توحید، عبادت، نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج کا نسخہ بتایا۔ پھر فرمایا اس سے بھی جامع نسخہ نہ بتاؤں؟ پھر آپ ﷺ نے روزہ، صدقہ، تہجد کا عمل بتایا۔ پھر فرمایا آپ کو، دین کی جڑ، اس کا سون اور اس کی کوہان (اونچی چوٹی) کی راہ نہ دکھاؤں، پھر فرمایا، وہ اسلام نماز اور جہاد ہے، پھر فرمایا کہ: کیا ان سب سے بھی جامع بات نہ بتاؤں؟ پھر بتایا کہ: بس زبان کی حفاظت کر! ثُمَّ قَالَ ألا أخبرك ملاك ذلك کله ........ فأخذ بلسانه وقال کُفّ علیك (ترمذی)

کیا واقعی یہی بات ہے؟ بلکہ اس اندازِ بیان سے حضور ﷺ نے زبان کے مقام اور اہمیت کو اجاگر فرمایا ہے۔ اور یہ وہ عام روایات اور آیات ہیں، جو عموماً سامنے رہتی ہیں۔ اگر اس انداز کی آیات اور روایات کا استقصاء کیا جائے تو ایک ڈھیر لگ جائے۔

قال رسول اللّٰه ﷺ: ألا أخبرکم بأفضل من درجة الصیام والصدقة والصلٰوة قال قلته بلا قال، إصلاح ذات البین (رواہ الترمذی)

قال موسٰی بن عمران علیه السلام یا رب من أعز عبادك عندك قال من قدر غفر (مشکوٰۃ)

کیا واقعی اصلاح ذات البین اور معاف کر دینے کا مقام ایسا ہی ہے جیسا الفاظ سے ظاہر ہے؟ بہرحال یہ ایک ایسا اسلوبِ بیان ہے جو ہر زبان میں مستعمل ہے۔

5. ارذل عمر

جہلم (اقبال لائبریری) سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ:

قرآن مجید میں ارذل عمر سے کیا مراد ہے، کتنے سال؟ چالیس سال یا کچھ اور؟

کیا حضرت نوح علیہ السلام بھی اس حد کو پہنچ گئے تھے؟

وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ (الاحقاف ع2)

سے بھی کیا یہی ارذل العمر مراد ہے؟

کیا اسلام امیری اور غریبی کو تسلیم کرتا ہے؟ (مختصراً)

الجواب

ارذل عمر:

اس سے مراد سال نہیں، کیفیت ہے۔ خود اس آیت میں اس کا ذکر موجود ہے۔

لِكَى لَا يَعْلَمُ مِنْ بِعْدِ عِلْمٍ شيئًا (پ۱۴۔ النحل ع۹۔ الحج ع۱)

کہ سمجھنے کے پیچھے اب کچھ نہ سمجھے۔

یعنی دماغ ساتھ دے نہ اعضاء، بس یوں سمجھیے ایک زندہ لاش، اور یہ کیفیت مختلف لوگوں میں مختلف ہوتی ہے، ایسے لوگوں کو ''سترے بہترے'' بھی کہتے ہیں۔ وہ ایک زندہ لاش ہو، جس کو جوں توں کر کے رکھا جائے۔

حضرت نوح علیہ السلام اس کیفیت سے دو چار نہیں ہوئے تھے، کیونکہ نبی تھے، مقتدا تھے۔ تا آخر ان کا باہوش رہنا ایک دینی ضرورت تھی۔ بلکہ بے ہوشوں کو ہوش میں لانے کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔ ان کا ''سترے بہترے'' جانا حکمتِ الٰہی کے منافی تھا۔

چالیس سال ''ارزل عمر'' نہیں، پختہ اور سنجیدہ عمر کا سن ہوتا ہے۔ سورۂ احقاف کی اِسی آیت میں اس کا ذکر موجود ہے۔

حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً(احقاف ع2)

یہاں تک کہ جب (آدمی) اپنی پوری قوت کو پہنچتا ہے یعنی چالیس برس (کی عمر) کو پہنچتا ہے۔

1امیری اور غریبی:

معاش میں یہ فرق مراتب، معلوم اور مشہود ہے اور یہ بالکل قدرتی ہے جس کا اسلام انکار نہیں کرتا۔ (سورۂ زخرف ع۳)

نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا (زخرف)

''سو اس (دنیا کی) زندگی میں تو ان کی روزی ان میں ہم تقسیم کرتے ہیں اور ہم نے (دنیوی) درجوں کے اعتبار سے ان میں ایک کو ایک پر ترجیح دی ہے تاکہ ایک دوسرے کو خدمتگار (اور تابعدار) بنائے۔''

مقصد یہ ہے کہ کام اسی فرق مراتب کے ذریعے چلتا ہے، حاجتمند دوسرے کی خدمت کر کے اپنی حاجت پوری کرتا ہے اور اہلِ ثروت پیسہ دے کر اپنا کام چلاتا ہے۔ اگر سارے ہی شاہزادے ہوتے تو کون کسی کو پوچھتا ہے اور سارے ہی نادار ہوتے تو کون کسی کے کام آتا۔ یہ ایک قدرتی انداز ہے جو ان ملکوں میں بھی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے جنہوں نے معاشی مساوات کا ڈھنڈورا پیٹ کر لوگوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔

تسلیم کرنے کے یہ معنی نہیں کہ خدا کسی کو بہ جبر غریب رکھتا ہے اور کسی کو بہ جبر امیر بناتا ہے بلکہ یہ ہے کہ: انسان اپنی استعداد اور صلاحیتوں کی وجہ سے مختلف درجات پر پہنچتے ہیں۔ جس کو خدا بہ جبر تبدیل نہیں کیا کرتا گویا کہ ان کی استعداد کے یہ اپنے اپنے مظاہر اور نتائج ہیں۔

ہاں اسلامی حکومت اس کی ذمہ دار ضرور ہوتی ہے کہ جو لوگ اس قدرتی اختلاف کی زد میں آگئے ہیں وہ ان کی مدد کرے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں اور ان میں سے کوئی بھی شخص بنیادی ضرورت سے محروم نہ رہے۔

اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسَاكِينَ (توبہ)

صدقات فقراء اور مساکین کے لئے ہی ہیں۔ الخ

بہرحال یہ وہ امتیازات ہیں جو ہر زمانے میں قائم رہے ہیں، جنہوں نے ان قدرتی فرقِ مراتب کو مٹانے کے وعدے کیے ہیں، انہوں نے دراصل عوام کا استحصال کرنے کے لئے نعرے ہی ایجاد کئے ہیں۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ جہاں ان مدعیوں نے اپنے جہان آباد کر رکھے ہیں، وہاں بھی سب کو یکساں روزی میسر نہیں ہے۔ ان کی رہائش، کپڑے، علاج، رسائی اور عزت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

دنیا میں امیر و غریب موجود ہیں، رہیں گے، اسلام ان واقعات کا انکار نہیں کرتا، ہاں وہ مسلمانوں اور اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ضرور قرار دیتا ہے کہ وہ محتاجوں کو بے یار و مددگار نہ چھوڑیں اور نہ وہ بنیادی ضروریات سے ان کو محروم رکھیں۔