بھلے کام کرنے کو کہو اور بُرے کاموں سے روکو

ورنہ ہمہ گیر عذاب کے لئے تیار رہو
عَنْ حُذَیْفَةَ رضي اللّٰه تعالٰی عنه أنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰه تعالٰی علیه وسلم قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهٖ لَتَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ أوْ لَیُوْشِکَنَّ اللّٰهُ أنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ عِنْدِهٖ ثُمَّ لَتَدْعُنَّهٗ وَلَا یُسْتَجَابَ لَکُمْ. (رواہُ الترمذی) 

''حضور ﷺ نے فرمایا مجھے اپنے مالک کی قسم ہے؟ تم بھلے کام کرنے کو کہو گے اور برے کاموں سے (لوگوں کو) روکو گے یا قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب مسلط کرے گا، پھر تم اسے پکارو گے مگر وہ تمہاری ایک نہیں سنے گا۔''

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سلسلہ جاری رہے تو نیکی کا پلہ بھاری رہتا ہے۔ اس لئے خدا کی طرف سے برکتوں کا نزول رہتا ہے، اگر اس فریضہ سے غفلت برتی جائے تو پھر بدی چھا جاتی ہے اور ملک میں بدوں کا غلبہ ہو جاتا ہے اس لئے اندیشہ ہوتا ہے کہ اب رحمتوں کے بجائے عذاب الٰہی کا ہنڑ حرکت میں آجائے اور پھر اس کے سامنے کسی کی فریاد سے بھی کام نہ چلے۔ دراصل عذاب دیکھنے کے بعد عموماً توبہ اور ایمان کا اظہار بے اثر اور بے معنی ہو جاتا ہے۔ اِلّا یہ کہ وہ عذاب محض جھنجھوڑنے کو آیا ہو، ان کا استیصال خدا کو ابھی منظور نہ ہو۔

عَنْ اَبِیْ بَکْرِنِ الصِّدِّیقَ رضي اللّٰه تعالٰی عنه قَالَ: یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ إنَّکُمْ تَقْرَءُوْنَ هٰذِهِ الْاٰیَةَ: یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْ فَإنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی اللّٰه تعالٰی علیه وسلم یَقُوْلُ إنَّ النَّاسَ إذَا رَاَوْا مُنْکَرًا فَلَمْ یُغَیِّرُوْهُ یُوْشِك أنْ یَّعُمَّهُمْ اللّٰهُ بِعِقَابِه(رواہ ابن ماجۃ والترمذی)

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو: اے مسلمانو! تم اپنی خبر رکھو، جب تم راہ راست پر ہو تو کوئی بھی گمراہ ہوا کرے، تمہیں (کچھ بھی) نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

(یقین کیجیے) میں نے رسولِ کریم ﷺ سے سنا فرماتے تھے کہ: جب لوگ خلاف شرع ایک کام دیکھ کر اس کو نہیں بدلیں گے (تو) قریب ہے کہ ان کو اللہ کا عذاب آگھیرے۔

مقصد یہ ہے کہ:

تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔ کا محاورہ غلط ہے۔ ایک اندھے شخص کو کنویں کی طرف بڑھتے دیکھتے رہنا اور اسے تھامنے کی کوشش نہ کرنا عقل کی بات نہیں ہے۔ بہرحال کوئی شخص خود خواہ کتنا ہی متقی ہو، اگر وہ خلاف شرع کام پر چپ رہے تو عذابِ دنیا سے وہ بھی بچ نہیں سکے گا۔

آیت کا مفہوم تو صرف اتنا ہے کہ: کسی کے گناہ کی باز پرس آپ سے نہیں ہو گی۔ جو کرے گا بھریگا۔ گو متقی گناہ سے پرہیز کرتا ہے تاہم اسے برداشت تو کرتا ہی ہے۔ غور فرمائیں کیا یہ کچھ کم گناہ ہے؟

عَنْ جَابِرٍ رضی اللّٰه عنه قَالَ رَسُولُ اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم أوْحَیْ اللّٰهُ عَزَّوَجَلَّ اِلٰی جِبْرَائِیْلَ عَلَیْهِ السَّلام اَنِ اقْلِبْ مَدِیْنَةْ کَذَا وَکَذَا فَقَالَ یَا رِبِّ اِنَّ فِیْهِمْ عَبْدِکَ فَلَانًا لَّمْ یَعْصِکَ طَرْفَةَ عَیْنٍ قَالَ فَقَالَ اَقْلِبْهَا عَلَیْهِ وَعَلَیْهِمْ فَاِنَّ وَجْهَهٗ لَمْ یَتَمَعَّرُ فِیَّ سَاعَة قَطُّ(مشکوٰۃ بحوالہ شعب الایمان بیہقی )

''حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ فلاں فلاں شہر کو شہر والوں پر الٹ دے تو عرض کی (حضور) ان میں آپ کا فلاں نیک بندہ ہے جس نے کسی لحظہ بھی آپ کی نافرمانی نہیں کی، حکم ہوا، بایں ہمہ ان سب پر شہر کو الٹ دو۔ کیونکہ میری خاطر ان کا چہرہ (ان کے کرتوتوں پر) کبھی بھی متغیر نہیں ہوا۔''

غرض تنہا تقویٰ و طہارت کافی نہیں ہے اس کے ساتھ ضروری ہے کہ ممکن حد تک نیکی کا پرچار اور بدی کی روک تھام بھی کی جائے۔ ورنہ وہی حشر ہو گا جو کبھی کسی صالح بندے کا ہوا کہ ہزار پرہیز گاری کے باوجود، خدا کی نافرمانیاں دیکھ کر اس نے کبھی اپنی ناراضگی کا اظہار نہ کیا اور نہ کبھی کسی کو گناہ سے روکا۔ اور بالآخر تباہ ہونے والوں کے ساتھ تباہ ہوا۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُودِ رَضِیَ اللّٰهُ تَعَالٰی عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ لَمَّا وَقَعَتْ بَنُوْ اِسْرَآئِیْلَ فِی الْمَعَاصِیْ نَهَتْهُمْ عَلَمَاؤهُمْ فَلَمْ یَنْتَهُوَا فَجَالِسُوْهُمْ فِیْ مَجَالِسِهِمْ وَاٰکَلُوْهُمْ وَشَارَبُوْهُمْ فَضَرَبَ اللّٰهُ قُلُوْبَ بَعْضِهِمْ بِبِعْضٍ فَلَعَنَهُمْ عَلٰی لِسَانِ دَاؤُودَ وَعِیْسَی ابنِ مَرْیَمَ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ(مشکوٰۃ)

''حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں، حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب بنی اسرائیل گناہوں میں پڑ گئے تو ان کے علماء نے ان کو روکا، مگر وہ باز نہ آئے (انہوں نے ان سے پرہیز نہ کیا بلکہ) اب ان کی مجلسوں میں شریک ہو گئے۔ اور ان کے ساتھ ملا دیا اور حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی زبان سے ان پر لعنت کی اور یہ بہ سبب ان کے گناہ کرنے اور حد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے ہوا۔''

دورِ حاضر کی یہ وہ سب سے بڑی بیماری ہے جس میں ہمارے عہد کے ریفارمر، مصلحین، مبلغین اور علماء کرام مبتلا ہیں، جلسوں، تقریروں اور تحریروں کے ذریعے سیاہ کاروں پر شدید برستے اور ان کو کوستے ہیں، لیکن جب موقع ملتا ہے تو ان کے ہمراہ بھی دیکھے جاتے ہیں۔ ان کی دعوتیں قبول کرتے ہیں، ان سے میل جول رکھتے اور اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم پیشہ اور خدا کے نافرمانوں کو کچھ زیادہ فکر نہیں رہتی، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم شاید کچھ زیادہ راندۂ درگاہ نہیں ہیں یا یہ کہ، یہ واعظ بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ پندو موعظت، ان کا پیشہ ہے کاروبار ہے۔ اللہ اللہ خیر سلّا۔ جو علماء اور ناصح قوم کے ناہنجاروں سے ربط و ضبط بھی حسبِ معمول رکھتے ہیں، وہ دراصل بنی اسرائیل کے بعد پیشہ علماء کا نمونہ ہیں اور اسی سزا کے مستحق اور سزا وار ہیں جس کے وہ تھے۔ جب تک یہ ناصح ان سے پرہیز نہیں کریں گے اور اپنی دینی غیرت کا ثبوت نہیں دیں گے ان کی تبلیغ بے اثر رہے گی۔

عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّاب رضی اللّٰه تعالٰی عنه قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰه ﷺ اَنَّهٗ تُصِیْبُ اُمَّتِیْ فِی اٰخِرِ الزَّمَانِ مِنْ سُلقطَانِهِمْ شَدَآئِدُ لَا یَنْجُوْ مِنْهُ اِلَّا رَجُلٌ عَرَفَ دِیْنَ اللّٰهِ فَجَاهَدَ عَلَیْهِ بِلِسَانِهٖ وَیَدِهٖ وَقَلْبِهٖ فَذٰلِکَ الَّذِیْ سَبَقَتْ لَهُ السَّوَابِقِ(مشکوٰۃ)

''فرمایا: اخیر زمانہ میں میری امت کو اپنے بادشاہوں سے سختیوں کا سامنا ہو گا، صرف وہی شخص بچے گا جس نے دین کا عرفان حاصل کیا، پھر اس کے لئے جہاد کیا۔ اپنی زبان سے، اپنے ہاتھ سے اور اپنے دل سے، پس وہ شخص بازی لے گیا۔''

ہر دور میں حکمرانوں نے دین حق کے علمبرداروں پر ظلم ڈھائے اور سخت اذیتیں دیں۔ مگر علمائے حق نے ہمیشہ ان دکھوں سے بے نیاز ہو کر حق کا بول بالا کیا۔ خدا کے ہاں ایسے حکمران بہت بڑے غدّار اور عہد شکن ہوتے ہیں۔

عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ ن الْخُدْرِیِّ رَضِیَ اللّٰهُ تَعالٰی عَنْهُ قال: وَذَکَر اِنَّ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءً یَوْمَ الْقِیٰمَةِ بِقَدَرِ غَدْرَتِهٖ فِی الدُّنْیَا وَلَا غَدْرَ اَکْبَرَ مِنْ غَدْرِ اَمِیْرِ الْعَامَّةِ یُغْرَزُ لِوَاءُهٗ عِنْدَ اَسْتِه(مشکوٰۃ من حدیث طویل)

کہا: اور حضور نے ذکر فرمایا کہ: کسی نے دنیا میں جتنا غدر کیا ہو گا اتنا اس کے غدر کا جھنڈا (کھڑا) ہو گا، دنیا میں سربراہ کے غدر سے بڑھ کر اور کوئی غدر نہیں ہے۔ اس کی مقعد کے نزدیک اس کا جھنڈا گاڑا جائے گا۔

غدر، عہد شکنی کی ایک قبیح صورت ہے، جو لوگ ملک اور قوم کے غدار ہوتے ہیں۔ ان کو اس لئے غدار کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے ملک اور قوم کی خدمت کا جو عہد کیا تھا اس نے وہ توڑ دیا ہے۔ جو سربراہ مملکت، قوم، اس کے اونچے اخلاق اور اس کے دین کے سلسلے کی ذمہ داریوں کو دیانتداری سے پورا نہیں کرتا، وہ اصل میں اس ''حلف وفا داری'' کے عہد کی عہد شکنی کرتا ہے جو پہلے دن اس نے اُٹھایا ہوتا ہے اس لئے وہ سب سے بڑا غدار ٹھہرتا ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ہمیں واقعۃً ایسے ہی حکمرانوں سے سابقہ پڑا ہے۔ مگر افسوس! اس کو سمجھنے کی کم کوشش کی گئی ہے۔ اس سلسلے کی جو ذمہ داریاں ہم پر یعنی عوام پر عاید ہوتی ہیں ان میں ہم ناکام رہے ہیں۔ خاص طور پر ہم نے ایسے غدّاروں کو سب سے زیادہ جو کمک پہنچائی ہے اس سے ہماری آخرت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ دنیا ان رنگیلوں کی بنتی ہے، اپنی آخرت اور ایمان ہمارے عوام بیچتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر عوام کا خسارہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ دنیا بھی گنوائی اور آخرت بھی۔

خواص، یعنی ملکی اور قومی رہنماؤں اور سربراہوں کی بد اعمالی اور سیاہ کاریوں کے وبال سے عوام اس وقت بچ سکتے ہیں، جب حسبِ مقدور غلط کاریوںکو ٹوکنے میں وہ اپنا فریضہ ادا کرتے رہتے ہوں، اگر اس کے بجائے وہ خاموش رہیں، تماشا دیکھا کریں یا ان سیاہ کاریوں کے باوجود ان سے تعاون جاری رکھیں تو پھر جو عذاب ان خواص پر نازل ہو گا، وہ ان تماشائی یا معاون عوام پر بھی نازل ہو کر رہے گا۔

اِنَّ اللّٰهَ تَعَالٰی لَا یَعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلِ الْخَاصَّةِ حَتّٰی یَرَوُا الْمُنْکَرَ بَیْنَ ظَهْرَا یَنْهِمُ وَهُمْ قَادِرُوْنَ عَلٰی اَنْ یُّنْکروه فَلَا یُنْکِرُوْا فَاِذَا فَعَلُوا ذٰلِکَ عَذَّبَ اللّٰهُ الْعَامَّةَ وَالْخَاصَّةَ(مشکوٰۃ)

''یقین کیجیے! اللہ تعالیٰ ساری قوم کو بعض لوگوں (خواص) کے عمل کی وجہ سے عذاب نہیں کرتا۔ الّا یہ کہ وہ اپنے سامنے خلاف شرع کام ہوتا دیکھیں اور وہ اس کو بدلنے اور روکنے پر قادر (بھی) ہوں مگر وہ اسے روکیں نہیں۔ تو اب جب ایسے کام ہوں گے تو اس وقت اللہ تعالیٰ عام اور خاص جمہور اور خواص سب کو دھر لے گا۔''

ہمارے نزدیک اس فتنے میں ہمارے ووٹر خاصے مبتلا ہیں اور جو عذاب ان خواص پر نازل ہونا تھا، اس کی لپیٹ میں یہ سب عوام بھی آرہے ہیں۔ خواص کی ناکردینوں میں عوام کا خاصا حصہ ہے، بلکہ ان کے تعاون اور ووٹوں کی مدد سے ہی وہ اس قابل ہوئے ہیں کہ وہ اپنی خدائی کے لئے خدا کی خدائی سے اعراض کریں۔ اس لئے ان ووٹروں کو سوچ لینا چاہئے کہ جب ان کے نمائندے غلط کام کریں گے تو اس گناہ میں سے ان کو بھی حصہ ملے گا تو اس وقت کیا کریں گے۔

عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ رضی اللّٰه تعالٰی عنه عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ قَالَ مَنْ رَأی مُنْکُرًا فَلْیُغیِّرْهُ بِیَدِهٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِه فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهٖ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ (رواہ مسلم)

فرمایا: جو شخص خلاف شرع کوئی بات دیکھے تو اسے اپنی طاقت سے مٹا دینا چاہئے اگر یہ اس کے لئے ممکن نہ ہو تو زبان کے ذریعے اس کو روکنے کی کوشش کرنا چاہئے، اگر یہ بھی اس کے لئے ممکن نہ ہو تو دل سے ہی (اسے برا جانے) اور یہ ایمان کا سب سے کمزور ترین درجہ ہے۔

پہلا فریضہ حکمران، ادارہ کے انچارج، والدین اور با اثر لوگوں کا ہے، کیونکہ وہ ایسا کر سکتے ہیں، اگر وہ نہیں کرتے تو اس کے دور میں، اس کے زیر سایہ جتنی سیاہ کاریاں ہوں گی، ان میں گناہ کا حصہ ان کو بھی ملے گا۔ ان کے سامنے جو جو قباحتیں آئیں اور جتنے مجرم ان کی نگاہ میں مجرم نکلیں۔ ان حالات میں یہ ان کے لئے قطعاً جائز نہیں ہو گا کہ وہ آنے والے نمائندوں کے لئے ان کو اُٹھا رکھیں، کیونکہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کل کیا ہو؟ اس لئے وہ ان کی بیخ کنی جتنی اور جیسی کچھ خود کر سکتے ہیں، کر ڈالیں۔ ورنہ خدا کے ہاں اس کی باز پرس ہو گی۔

دوسرا فریضہ عموماً مصلحین، علماء، مشائخ اور بزرگوں کا ہے کہ وہ مقدور بھر حکمتِ عملی کے ساتھ لوگوں کو فہمائش کریں اور سمجھائیں اور زبان کے ذریعے ان کو ٹوکیں۔ ورنہ یہ بھی گنہگار ہوں گے۔

تیسرا فریضہ ان کمزوروں کا ہے جو زبان تک سے بھی کسی سے بات نہیں کر سکتے، ان کو نقصان اور اذیت کا اندیشہ ہوتا ہے۔ تو ان کو یہ کمزوری اس وقت ہضم ہو سکے گی جب وہ کم از کم دل سے اس برائی سے نفرت کریں اور برائی کا ارتکاب کرنے والوں سے بیزار ہیں۔

اسلام نے یہ تین درجے مقرر کر کے دراصل ہر بہانے باز کا راستہ بند کر دیا ہے۔ کیونکہ دنیا میں ایسا کوئی انسان نہیں ہے جو تیسرے فریضہ کی بھی ہمت نہ رکھتا ہو اگر مسلم ان اصولوں پر کار بند ہو جائیں تو یقین کیجیے! برائی کو سر چھپانے کے لئے جگہ نہ ملے اور جو برائی باز ہیں وہ سر اونچا کر کے نہ چل سکیں۔ اللھم وفقنا لما تحب وترضی۔