فغاں مظلوم کی ظالم کےحق میں تیر ہوتی ہے
برے انسان کی ہر ایک جا تحقیر ہوتی ہے
تو نیکی کوکہ نیکور کار کی توقیر ہوتی ہے
یقین تقدیر پر رکھتا ہوں اورتدبیر کرتا ہوں
مری تدبیر بھی تابع تقدیر ہوتی ہے
زباں پربات لانے سے یہ پہلے سوچ لیں دل میں
نکلتی ہے زباں سےبات تحریر ہوتی ہے
مخالف جس قدر گفتار کےکردار ہوتا ہے
اسی مقدار سےگفتار بے تاثیر ہوتی ہے
ترے درپر پہنچ کرزباں کھلتی نہیں میری
تجھے معلوم ہےکیوں شرم دامنگیر ہوتی ہے
کسی پر ظلم کرنااپنے اوراوپر ظلم کرنا ہے
فغاں مظلوم کےظالم کےحق میں تدبیر ہوتی ہے
جسے سن کرہر اک سامع کی کل دنیا بدل جائے
اسے تقریر کہتے ہیں وہی تقریر ہوتی ہے
تقاضا ہے یہی حق کا وہاں بات کہہ ڈالو
جہاں حق بات کہہ دینا پڑی تقصیر ہوتی ہے
جو اہل عقل ہوتے ہیں خطا کرتے نہیں قصدا
خطا قصدا کوئی قابل تعزیر ہوتی ہے
خلاف اسلام کےاس کے قدم اٹھتے نہیں عاجز
کہ جس کےپاؤں میں اسلام کی زنجیر ہوتی ہے