اسلام اور پاکستان کے خلاف گہری سازش

حدیث اور مولانا مودودی، تین جھوٹ، درود کے معنی

ایک صاحب لکھتے ہیں کہ:

طلوع اسلام کنوینشن منعقدہ اکتوبر 1976ء میں پرویز صاحب نے ایک مقالہ ''اسلام اور پاکستان کے خلاف گہری سازش'' کے عنوان سے پڑھا تھا۔ جو ارسال خدمت ہے۔ نام کے نیچے یہ عبارت درج ہے جو خاص طور پر کھٹکتی ہے:

''مودودی صاحب اور جماعت اسلامی کی چالیس سال کی تاریخ خود مودودی صاحب کے الفاظ میں۔''

اگر مودودی صاحب وہی ہیں جو اس مقالہ میں دکھائے گئے ہیں تو پھر ان کی سیاسی جدوجہد پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟

پرویزی کہتے ہیں کہ: اپنے مولویوں سے پوچھ لیجیے، مودودی صاحب کا بھی وہی خیال ہے جو حدیث کے بارے میں پرویز صاحب کا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟

پرویزی یہ بھی کہتے ہیں کہ: راویوں کے جھوٹ کو گوارا بنانے کے لئے تم پیغمبروں کو جھوٹا ثابت کرنے سے باز نہیں آتے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذمے تین جھوٹ تمہاری بخاری نے لگائے ہیں۔ یہ الزام کہاں تک درست ہے؟

ہم جو درود پڑھتے ہیں، پرویزی اس کا مذاق اُڑاتے ہیں: کہتے ہیں اس سے مراد نبی سے تعاون کرنا اور ان کی مدد کرنا ہے، مگر تم تسبیح لے کر ''صل علیٰ'' کی رٹ لگا کر گھر کو دوڑ جاتے ہو؟۔ (مختصراً)

الجواب

اسلام اور پاکستان کے خلاف گہری سازش:

مرسلہ رسالہ کو بغور پڑھا مگر جو بات جناب غلام احمد پرویز دکھانا چاہتے ہیں ہمیں ان کے کسی اقتباس میں نظر نہیں آئی۔ یہ ٹھیک ہے تحریک پاکستان چلانے والوں کے سلسلے میں مولانا نے بھرپور تنقید کی تھی، زیادہ سے زیادہ ایک سطحی آدمی اِسے قبول از وقت بد گمانی سے تعبیر کر سکتا ہےلیکن اسے پاکستان کے خلاف حملہ تصوّر کرنا زیادتی ہے۔ ہاںمودودی صاحب نے جو تنقید فرمائی تھی، اب اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ: جن حضرات کی وجہ سے پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الّا اللہ کے سلسلے میں انہوں نے اپنے اندیشوں کا ذِکر فرمایا تھا، کیا وہ صحیح ثابت ہوئے یا غلط ؟ اگر وہ سب صحیح ثابت ہوئے تو مولانا موصوف کی پیش بینی کی اصابت کا اعتراف کر لینا چاہئے۔ اگر غلط ثابت ہوئے تو اپنے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ مولانا کا اندیشہ صحیح ثابت نہ ہوا۔ لیکن اسے مولانا کی بد نیتی قرار دینا غلط ہے۔

حدیث اور مولانا مودودی:

مولانا مودودی کی فقہی درایت سے علماء نے ضرور اختلاف کیا ہے۔ لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ پرویز صاحب اور مولانا کا موقف ایک ہے، بہت بڑی زیادتی ہے۔ پرویز صاحب حدیثِ پاک کو سرے سے حجت تسلیم نہیں کرتے اور نہ اسے ماخذ شریعت تصور کرتے ہیںِ گو وہ روایت صحیح بھی ہو۔ مولانا مودودی حدیث کو حجت اور شرعی ماخذ تصور کرتے ہیں صرف بعض احادیث کے سلسلے میں اپنی مفروضہ بے اطمینانیوں کی وجہ سے اس کو ضعیف تصوّر کر لیتے ہیں۔ یہ بات بالکل ایسی ہے جیسی ایک محدث اپنے بعض تشخیص کردہ اصولوں کی بنا پر بعض احادیث کی صحت سے انکار کر دیتے ہیں، لیکن جزوی طور پر بعض احادیث کی صحت سے انکار دوسری بات ہے۔ اسے انکارِ حدیث وہی شخص قرار دے سکتا ہے جس کو اصولوِ حدیث سے کوئی واقفیت نہیں ہے۔

تین جھوٹ:

اس موضوع پر ہم اس سے پہلے محدث کے کسی شمارہ میں تفصیلی روشنی ڈال چکے ہیں، اس کا مطالعہ فرما لیں۔

درود شریف کا مطلب:

پرویز صاحب نے درود شریف کا جو مفہوم بیان کیا ہے۔ لغوی لحاظ سے اس کے لئے گنجائش نکل سکتی ہے لیکن شرعی زبان میں اس کے وہ معنی معروف نہیں ہیں۔ اعتبار شرعی اصطلاحات کا ہے لغوی کا نہیں۔ ہاں لغوی مناسبت سے اس کا دائرہ وسیع کیا جا سکتا ہے مگر اس کے شرعی معنوں پر پھیر کر نہیں۔ واللہ اعلم۔

منگنی اور منگیتر کو دیکھنا۔ حبل بالزنا

ماں باپ لڑکی لڑکے کی منگنی کر دیتے ہیں، بعد میں اگر وہ اسے توڑنا چاہیں تو کیا اِسے طلاق کہا جائے گا؟

کیا منگیتر کو شرعی نکاح سے پہلے دیکھا جا سکتا ہے؟

ایک زانی اپنی مزنیہ سے نکاح کر سکتا ہے جب کہ وہ حمل سے ہو (حبل بالزنا سے)؟

الجواب

منگنی:

منگنی تو فریقین کا ایک اخلاقی معاہدہ ہے، نکاح نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے فریقین کا ایجاب و قبول ضروری ہے۔ شہود کے سامنے۔ اگر کوئی توڑتا ہے تو وہ فسخ عہد ہے، طلاق نہیں ہے۔

منگیتر کو دیکھنا:

شرعاً جائز ہے بشرطیکہ نکاح کا ارادہ ہو اور لڑکی کے والدین اس کی اجازت دیں۔ آج کل عموماً سرپرستوں کا اطمینان ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ اگر بعض متضاد خبروں یا متوقع اندیشوں کی بناء پر ایک لڑکا واقعی اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے تو اس کو اس کا حق پہنچتا ہے۔

قال النبي ﷺ: فإن استطاع أن ینظر إلی ما یدعوه إلی نکاحها فلیفعل (ابو داؤد) فانظر إلیها فإنه أحریٰ أن یؤدم بینکما (رواه احمد) أن عمر خطب إلٰی عن ابنته أم کلثوم فذکر له صغرها... فقال (له علی) ابعث بما إلیك فإن رضیت نهی امرأتك، فأرسل بها فکشف عن ساقیها الخ (رواه عبد الرزاق) ولکن عند الحنفیة (الشافعیة أنه لا ینظر غیر الوجه والکفین وقال ابن قیم عن أحمد ثلث روایات والله أعلم۔

حبل بالزنا:

جمہور کے نزدیک زانی وضع حمل سے قبل اپنی مزنیہ حبل بالزنا سے نکاح کر سکتا ہے۔ لیکن قرآن حکیم نے نکاح زانی کے لئے وضع حمل کی قید لگائی ہے اور بغیر کسی استثناء کے۔

﴿وَأُولـٰتُ الأَحمالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعنَ حَملَهُنَّ...﴿٤﴾... سورة الطلاق

حضرت عمرؓ کے عہد میں بھی ایسا ایک واقعہ پیش آیا تھا تو آپ نے وضع حمل کے بعد اس کی پیشکش کی تھی۔

فأصاب ابن وهب ابنة المرأة فرفع ذلك إلی عمر بن الخطاب فحد عمر ابن وهبا وأخر المرأة حتی وضعت ثم حدها وحرص علی أن یجمع بینها فأبٰی ابن موهب (عبد الرزاق)

اگر شریعت میں ''اعتبارات'' کا اعتبار ہے تو پھر گویا مزنیہ کا حمل زانی کا ہی ہے۔ مگر وہ نطفہ حرام کا ہے۔ نکاح کے بعد جس نطفہ کے ذریعے آبیاری کی جائے گی وہ حلال ہو گا۔ اس لئے احتیاط اسی میں ہے وضع حمل کا انتظار کر لیا جائے۔ واللہ اعلم۔

ایک صاحب لکھتے ہیں کہ:

ایک صاحب اُٹھتے ہیں اور کہتے ہیں، یہ بھی بدعت ہے اور وہ بھی بدعت ہے، دوسرا اسے عین دین قرار دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ: بدعت کی صحیح پہچان کیا ہے اور اس کا دائرہ کیا ہے؟

ایک شخص کھانا وغیرہ پکا کر اس پر ختم پڑھ کر غریبوں کو کھلاتا ہے، وہ قرآن ہی تو ہوتا ہے۔ کھانے کے بعد قرآن خوانی کا ثواب بھی مل جاتا ہے۔ آخر اس میں کیا حرج ہے؟

مسلمانوں کے قبرستان میں جا کر دعا پڑھی جاتی ہے۔ اگر غیر مسلم کے گورستان میں گزر ہو تو کیا پڑھا جائے؟

الجواب

بدعت:

بدعت کی تعریفیں بڑی کی گئی ہیں مگر فقیر کے نزدیک زیادہ جامع اور واضح یہ تین تعریفیں ہیں۔ ایک علامہ شاطبیؒ کی، دوسری امام ابن تیمیہ کی اور تیسری امام ابنِ رجب حنبلی کی۔ ان تینوں کے مطالعہ سے بدعت متشکل ہو کر سامنے آجاتی ہے۔

علامہ شاطبیؒ:

حضرت امام شاطبیؒ مالکی (ف 790ھ) نے بدعت کے دو اسلوب بیان کیے ہیں۔ پہلے کی بہ نسبت دوسرے میں بڑی جامعیت ہے، کیونکہ وہ ''بندۂ مومن'' کے شب و روز سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ پہلی تعریف کا تعلق عبادت تک محدود ہے اور دوسری کا دائرہ عادات تک کو محیط اور وسیع ہے۔

عبادات:

وہ دین کے اندر ایک ایسا اختراع کیا ہوا طریقہ ہے جو تشریع کے مشابہ ہے اور جس پر عمل کرنے سے غرض عبادت میں مبالغہ ہوتا ہے۔

طریقة في الدین مخترعة تضاهي الشرعیة یقصد بالسلوك علیها المبالغة في التعبد الا سبحانه (الاعتصام نمبر۳ /۱)

عادات:

اس کا حاصل یہ ہے کہ دین کے اندر وہ ایک ایسا اختراع کیا ہوا طریقہ ہے جو تشریع کے مشابہ اور جس پر چلنے سے مقصود وہی کچھ ہوتا ہے جو تشریعی انداز سے مطلوب ہوتا ہے۔

البدعة طریقة في الدین مخترعة تضاهي الشریعة یقصد بالسلوك علیها ما یقصد بالطریقة الشرعیة (الاعتصام ص۳۱)

بعض افاضل نے تضاھی الشرعیۃ یا الشریعۃ کے معنی طریقہ جو شریعت کے مشابہ ہو، کیا ہے، لیکن صحیح مفہوم تشریع اور تشریعی انداز ہے۔ کیونکہ بدعت دراصل شریعت ''کے مشابہ والی بات سے زیادہ ''تشریعی'' اسلوب ہے۔ بدعتی تشریع کا ارتکاب کرتا ہے۔ گویا کہ بدعتی مشروع پر اضافہ کر کے مزید تشریع کرتا ہے، جس سے اس کی غرض ''مشروع عبادات یا عادات میں مبالۃ اور انتہا ہوتی ہے، گو اس میں نیک نیت ہوتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ: اس سے اس کی عبدیت اور تعلّق باللہ میں آب و تاب پیدا ہو۔ لیکن اس جائز خواہش کے باوجود اس کے لئے جو امور وہ تشخیص کرتا ہے، وہ ایجاد بندہ کی قسم ہوتی ہے، جس کا اس کو اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ کیونکہ تشریع خاصۂ خدا ہے اور بس!

تشریع کا یہ انداز متصوفہ کے ہاں ملتا ہے یا اہلِ سیاست کے ہاںَ دونوں اپنی اپنی اختراع (تشریع) کو ''شریعت'' کی روح اور خواہشات پر مبنی اپنے اضافوں کو شریعت کی جان تصور کرتے ہیں۔ متصوفہ کے اس خانہ ساز تصوف اور کتاب و سنت سے ان بے خیر ''سیاسین'' کے دم قدم سے ''اقلیم بدعت'' کی رونق قائم ہے۔ اگر یہ دونوں طبقے ہوش میں آجائیں یا صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں تو بدعت کا چمنستان اجڑ کر رہ جائے۔

علامہ ابن تیمیہ:

حضرت امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (ف ۷۲۸؁ھ) نے ایک اور انداز سے ''بدعتِ سیئہ'' کی تشریح فرمائی ہے، جو عام فہم اور سر زمینِ بدعت سے قریب تر ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔

حضور کے عہد میں مقتضی (داعیہ) موجود ہو، حالات کے ساتھ مانع بھی کوئی نہ ہو، لیکن اس کے باوجود نبی کریم ﷺ نے اسے اختیار نہ کیا ہو۔ ایسی صورت میں بعد میں اگر کوئی صاحب اسے دین اور کارِ ثواب سمجھ کر اختیار کرتا ہے تو وہ احداث ہے، بدعت ہے اور تغییر ہے۔

فکل أمر یکون المقتضي لفعله علی عهد رسول الله ﷺ موجودا لو کان مصلحة ولم یفعل یعلم أنه لیس بمصلحة (اقتضاء الصراط المستقیم ص ۱۳۴)

فَاَمَّا ما کان المقتضي لفعله موجوداً لو کان مصلحة وهو مع هذا لم یشرعه هو فوضعه تغییر لدین الله تعالٰی (ایضا)

فرمایا ایسی صورت میں یہ ''ترک'' بجائے خود سنت خاص ہے اور وہ دلیل کے ہر عموم اور قیاس پر مقدم ہو گا۔

فهذا مثال لما حدث مع قیام المقتضي له وزوال المانع لو کان خیرا فإن كل ما یبتديه المحدث لهذا المصلحة أو یستدل به من الأدلة قد کان ثابتًا علی عهد رسول الله ﷺ ومع هذا لم یفعله رسول اللہ ﷺ فهذا الترک سنة خاصة مقدمة علی کل عمومه وکل قیاس (اقتضاء الصراط المستقیم ص ۱۳۴)

فرمایا اس مرض میں حکمران، علماء (سوء) اور متصوفین مبتلا ہوتے ہیں:

وإنما دخل فیه من نسب إلی تغییر الدین من الملوك والعلماء والعباد (ایضاً)

فرمایا: حکمران اپنی سیاسی کوتاہیوں کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔

وأنت قصدك إقامة ریاستك ........ فهذہِ المعصیة منك لا تسبیح لك إحداث معصیة أخری (ایضا ص ۱۳۵)

ہاں آپ کے عہد میں داعیہ کے باوجود اگر کوئی مانع موجود تھا اس لئے آپ نہ کر سکے یا داعیہ پیدا ہی حضور کے بعد ہوا ہے تو اب اسے اختیار کیا جا سکتا ہے۔ یعنی عند الحاجۃ۔

فإن کان السبب المحوج إلیه أمر أحدث بعد النبي ﷺ لکن ترکه النبي ﷺ من غیر تفریط منافهنا قد یجوز إحداث ما تدعوا الحاجة إلیه وکذلك إن کان المقتضي لعقله قائمًا علی عهد رسول الله تعالٰی علیه وسلم لکن ترکه النبي ﷺ معارض زال بموته (ایضاً ص ۱۳۴)

لیکن ان حالات میں ائمہ دین نے دو طریقے اختیار کیے ہیں، ایک کا کہنا ہے کہ: جب تک کوئی نہی کی صورت سامنے نہ آئے، وہ کام کیا جا سکتا ہے، یہ ان کا قول ہے جو مصالح مرسلہ کے اصول کے قائل ہیں، دوسرا گروہ وہ ہے جو کہتا ہے کہ: جب تک کرنے کا حکم نہ ملے، اسے نہیں کرنا چاہئے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مصالح مرسلہ کے قائل نہیں ہیں۔

ثم هٰهنا للفقهاء طریقان أحدهما أن ذلك یفعل ما لم ینه عنه وهذا قول القائلین بالمصالح المرسلة والثاني إن ذٰلك لا یفعل ما لم یؤمر به وهو قول من لا یری إثبات الأحکام بالمصالح المرسلة (ایضاً نمبر ۱۳۴)

فرماتے ہیں، ان کے دو گروہ ہیں، ایک تو منکرین قیاس کا ہے جو اس وقت تک کوئی حکم ثابت نہیں مانتے ہیں جب تک اسی لفظ کے تحت وارد نہ ہو جس کو کلام شارع یا اس کے فعل یا تقریر نے نقل نہ کیا ہو، دوسرا وہ ہے جو لفظ شارع اور اس کے مفہوم کی روشنی میں احکام ثابت کرتا ہے۔ یہ اہلِ قیاس لوگ ہیں۔

وهو لاء ضربان قسم من لا یثبت الحکم إن لم یدخل في لفظ نقله کلام الشارع أو فعله أو تقریره وهم نفاق القیاس ومنهم من یثبته بلفظ الشارع أو بمعناه وهم القیاسیون (اقتضاء الصراط المستقیم ص ۱۳۴)

امام ابن رجب:

امام بن رجب (ف ۷۹۵؁ھ) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

اعمال دو قسم کے ہیں (۱) عبادات اور (۲) معاملات۔ جو عبادات اللہ اور اس کے رسول نے ذریعہ قرب نہیں بنایا جو ان کو قربت بنائے گا وہ مردود ہو گا۔

الأعمال قسمان، عبادات و معاملات فأما العبادات فما کان منها خارجا عن حکم اللہ ورسوله بالکلیه فهو مردود علی عامله ..... فمن تقرب إلی بعمل لم یجعله الله ورسوله قربة إلی الله فعمله باطل مردود (جوامع الکلم شرح خمسین ص ۴۲)

عمل مشروع اور قرب کا ذریعہ بھی ہو لیکن اس میں کچھ اور گھسیڑ دے یا اس سے کچھ کم کر دے، تو وہ عمل اسی قدر مردود ہو جاتا ہے۔

وأما من عمل عملاً أصله مشروع وقربة ثم أدخل فیه ما لیس بمشروع أو أدخل فیه بمشروع فهذا أیضاً مخالف الشریعة بقدر إدخاله بما أدخل وإدخاله ما أدخل فیه (ایضا ص ۴۳)

باقی رہے معاملات؟ سو جوان کی شرعی وضع اور شکل بدل دے مثلاً زنا کی حد مالی سزا میں تبدیل کرنا، وہ بھی مردود ہو گا۔

وأما المعاملات کالعقودوا الفسوخ ونحوهما فما کان منهما مغیر الأوضاع الشرعیة کجعل حد الزنا عقوبة مالیة وأما أشبه ذلك فإنه مردود من أصله لا ینتقل به الملك (ایضا ص ۴۳)

فرماتے ہیں کہ یہ کہنا کہ جو بات ایک جگہ کارِ ثواب ہے وہ دوسری جگہ بھی ضرور کارِ ثواب ہو گی، ضروری نہیں:

لیس کل ما کان قربة في موطن یکون قربة في کل المواطن دائما یتبع في ذلك کله ما وردت به الشریعة في مواضعها (ص ۴۲)

امام موصوف نے اس امر پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے کہ مشروع میں غیر مشروع کی آإیزش یا اس سے مشروع کم کر دینے کی صورت میں وہ عمل سارا مردود ہو جاتا ہے یا کم؟ فرماتے ہیں یہ حسبِ حال ہوتا ہے کبھی سارا کبھی بقدر آمیزش۔

وهل یکون عمله من أصله مردود علیه أم لا؟ فهذا لا یطلق القول فیه برد ولا قبول بل ینظر فیه (ص ۴۳)

امام ابن رجب نے یہ ساری تفصیل اربعین نووی کی پانچویں حدیث: من أحدث في أمرنا هذا ما لیس فیه فهو رد کے تحت ذکر کی ہے، جو قابلِ دید ہے۔

تینوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مشروع عبادات اور عادات میں کارِ ثواب سمجھ کر جو باتیں بطور مبالغہ بڑھائی جاتی ہیں، خاص کر وہ امور جو حضور کے عہد مبارک میں موجود تھے اور مانع بھی کوئی نہیں تھا مگر حضور نے اختیار نہیں فرمایا تھا اس کو اب کارِ ثواب سمجھ کر اختیار کرنا بدعت ہے خاص کر مشروع امور میں طبع زاد ٹانکے لگانا یا حسبِ مرضی ان میں کسی قدر کمی کرنا، عمل مشروع کو جزوی طور پر یا کلی طور پر باطل کر دیتا ہے۔

بدعت کے موضوع پر یہ وضاحت اگر ملحوظ رکھی جائے تو اس کے سمجھنے اور اس سے بچنے میں کسی کو کوئی دقت پیش نہیں آسکتی۔ بدعت کے سمجھنے کے لئے علامہ شاطبی کی کتاب الاعتصام اور امام ابن تیمیہ کی اقتضاد الصراط المستقیم اور امام ابن القیم کی اغاثۃ اللہفان کا مطالعہ بصیرت افروز ثابت ہوتا ہے۔

ختم پڑھنا:

اگر بدعت کی تعریف آپ کو سمجھ آگئی تو ''ختم مروجہ'' کے غیر مشروع ہونے میں آپ کو دیر نہیں لگے گی۔ انشاء اللہ۔ اصل کارِ ثواب یہ ہے کہ جہاں سے رسول کریم ﷺ شروع کرتے ہیں وہاں سے شروع کریں اور جہاں جا کر آپ رکے ہیں ہم بھی جا کر وہاں رُک جائیں۔ باقی رہی ''چونکہ چانچہ'' یہ اتنا طویل اور ہمہ گیر جال ہے کہ سانپ بچھو سب اس میں آجاتے ہیں۔ اس لئے سوچنے کے اس انداز کو بدلنا چاہئے۔ امام شاطبیؒ فرماتے ہیں کہ جو لوگ حدودِ رسول کی پابندی نہیں کرتے وہ دراصل اس امر کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ حضور سے بڑھ کر ہیں۔ اصل میں یہ حضور ﷺ کی بے ادبی ہے: إن الزیادةإظهار الاستظهار علی الشارع وقلته أدب (الاعتصام)

بسم اللہ:

بسم اللہ الرحمن الرحیم ایک عظیم ورد اور وظیفہ ہے۔ لیکن احناف کا نظریہ ہے کہ تشہد میں التحیات سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھنی چاہئے۔

قال محمد بن الحسن شیباني في آثاره: أخبرنا أبو حنیفة عن حمار عن إبراهیم قال کنت أقول بسم الله لي: قل التحیات للہ والصلوٰت والطیبات الخ قال محمد وبه نأخذ لا نری أن یتزاد في التشهد ولا ینقص منه حرف وهو قول أبي حنیفة (کتاب لاثار فی التشھد)

کیوں؟ صرف اس لئے کہ یہ سنت سے ثابت نہیں۔ حالانکہ بسم اللہ کا ورد عبادت ہے۔

قل هو الله أحد:

سورت اخلاص (قل ھو اللہ احد) کے فضائل کسی سے مخفی نہیں لیکن حضرت امام سفیان ثوری سے کسی نے پوچھا کہ اگر کوئی شخص اسی کی قرأت پر اکتفاء کرتا ہے اور سورت پڑھ سکنے کے باوجود نہیں پڑھتا تو یہ کیا ہے؟ آپ نے اس کو پسند نہیں فرمایا۔

سئل سفیان عن رجل یکثر قراءة ''قل هو الله أحد'' لا یقرأ غیرها فکرهه وقال إنما انتم متبعون فاتبعوا الأولین ولم یبلغنا عنهم نحو هذا (الاعتصام للشاطبی ص ۱۴۵/۲)

امام مالکؒ نے اسے بدعت قرار دیا ہے۔

أنه سئل عن قراءة قل هو اللہ أحد مرارا في الرکعة الواحدة فکره ذلك وقال هذا من محدثات الأمور التي أحدثوا (الاعتصام ص ۱۴۵/۲)

حضرت حسن بصری جو تمام صوفیاء کے مرشد ہیں، ان سے کسی نے پوچھا کہ: اے ابو سعید! ہماری اِس مجلس کے بارے میں آپ کا کیا حال ہے، یعنی سنیوں کی ایک جماعت ہے جو کسی پر طعن اور طنز نہیں کرتی، ہم ایک دن اس گھر میں جمع ہوتے ہیں، دوسرے دن دوسرے گھر میں، جمع ہو کر قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اپنے اور مسلمان بھائیوں کے لئے دعا مانگتے ہیں؟ راوی کہتا ہے کہ حضرت حسن بصری نے سختی سے اس سے منع کر دیا تھا۔

قال للحسن یا أبا سعید ما تری في مجلسنا هذا؟ قوم من أهل السنة والجماعة لا یطعنون علی أحد نجتمع في بیت هذا یوما وفي بیت هذا یوماً لنقرأ کتاب الله وتدعو الأ نفسنا ومعاملة المسلمین؟ قال فنهی الحسن عن ذٰلك أشد النبي (الاعتصام ص ۱۶۶/۲)

اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ حضور ﷺ کی سنت پر اکتفاء نہیں کرتے بدعات کے لئے تازہ دم رہتے ہیں وہ اس امر کا دروازہ کھولتے ہیں کہ لوگ تشریع اور تقنین کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس کے بعد خدا اور رسول کے پیش کردہ نظامِ حیات سے بتدریج پیچھا چھڑانے میں بدنیت لوگ بھی کامیاب ہو سکتے ہیں، بدعت کی وجہ سے اتباع کا جذبہ کمزور پڑتا اور بو الہوس سیاستدانوں کے لئے اس کی آڑ میں خلق خدا کے لئے پرویزی دامِ تزویر کے جال میں بچھانا ممکن ہو جاتا ہے۔ پاپائیت ہو یا فسطائیت، یہ سب بدعات کی تخلیقات ہیں، اگر آپ ان سے بچیں گے تو کتاب و سنت سے آپ کو ایک گونہ مناسبت پیدا ہو جائے گی۔ ورنہ ایک ایسے جدید اور روشن خیال بن جائیں گے جس کو اپنے ماضی سے کوئی واسطہ رہے گا نہ ربط۔ بس آپ ہی اپنے خدا ہوں گے اور آپ ہی اپنے رہنما۔

غیر مسلم کے قبرستان میں:

اس سلسلے میں کوئی معروف طریقہ متداول نہیں ہے۔ تاہم اگر کوئی چاہے تو ان کو دوزخ کی بشارت دے سکتا ہے۔ گو یہ خوشی کی بات نہیں ہے تاہم غیرت دینی اور ایک واقعہ کے اظہار کی ایک سبیل ضرور ہے۔

عن عامر بن سعد عن أبیه قال جاء أعرابی إلی النبي ﷺ فقال إن أبي کان یصل الرحم وکان فأین هذا؟ قال: في النار! فکان الأعرابی وجد من ذلك فقال یا رسول الله فأین أبوك قال فذکره قال فأسلم الأعرابي بعدہ فقال لقد کلفني رسول اللہ ﷺ تعبا ما مررت بقبر کافر إلا بشره بالنار ؛(رواہ الطبرانی وسندہ صحیح)

حضرت سعد فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی حضور کے پاس آیا اور کہا کہ میرا باپ صلہ رحمی کیا کرتا تھا اور اس میں یہ یہ باتیں بھی تھیں۔ وہ کہاں ہو گا؟ فرمایا؟ دوزخ میں۔ دیہاتی نے اس سے کچھ محسوس کیا، پھر اس نے کہا؟ اے اللہ کے رسول! آپ کے والد کہاں ہیں، آپ نے اس کا بھی ذکر کیا۔ راوی کہتا ہے کہ بعد میں وہ دیہاتی مسلمان ہو گیا اور بتایا کہ: حضور نے مجھے ایک مشقت کے اٹھانے کی تکلیف دی۔ میں کسی بھی کافر کی قبر سے نہیں گزرتا مگر میں اسے دوزخ کی بشارت ضرور دیتا ہوں۔

اگر کوئی چاہے تو ان الفاظ میں ان کو مخاطب کر سکتا ہے جن الفاظ میں حضور ﷺ نے غزوۂ بدر کے مردہ کفار سے خطاب فرمایا تھا۔

ھَلْ وَجَدْتُّمْ مَا وَعَدَکُمْ رَبُّکُمْ حَقًّا

تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا، کیا تم نے وہس ب کچھ سچ پا لیا۔

أن ابن عمر أخبره قال اطلع النبي ﷺ علی أهل القلیب فقال: هل وجدتم ما وعدکم ربکم حقا فقیل له تدعواأمواتا قال ما أنتم بأسمع منهم ولکن لا یجیبون (بخاری ص ۱۸۳ کناب الجنائز باب ما جا فی عذاب القبر)

ایک صاحب لکھتے ہیں کہ:

ایک سوشلسٹ نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ: جس اسلام کو تم لیے پھرتے ہو، وہ تو ناقابلِ عمل ہے، مثلاً ایک شخص اپنی بیوی کو ناشائستہ حالت میں غیر کے ساتھ دیکھتا ہے، اب اس کو حکم ہے کہ چار گواہ لاؤ اور وہ یوں کہیں کہ ہم نے مخصوص رنگ میں ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، کیا یہ مکن ہے؟ اگر نا ممکن ہے تو اس کے معنی ہوئے کہ، فریقین گل چھرے اڑائیں، نہ نومن تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی، گویا کہ آپ کے اسلام نے مجرموں کو جرائم کے لئے سہولتیں مہیا کی ہیں۔

بات صرف عورت اور مرد کی نہیں بلکہ دو عورتیں بھی باہم مل کر اس طرح منہ کالا کرتی، چپٹی لڑاتی ہیں یا جعلی آلات سے کام لیتی ہیں۔ ان کا کیا کرو گے اور کہاں سے چار گواہ لاؤ گے، مل جائیں تو ان کی سزا کیا ہو گی؟

محدث کے ذریعے جواب کا انتظار کروں گا تاکہ دوسرے بھی جواب سن لیں!

الجواب

جرم زنا اور جان انسان کا ضیاع:

سوشلسٹ حضرات:﴿الَّذى يُوَسوِسُ فى صُدورِ‌ النّاسِ ﴿٥﴾ مِنَ الجِنَّةِ وَالنّاسِ ﴿٦﴾... سورةالناس" کی دنیا سے بولتے اور اُٹھتے ہیں۔ ایسے موقع پر صحیح علاج یہ ہے کہ قرآن حکیم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ''اعوذ'' پڑھی جائے۔ کیونکہ ان کے سوالات ''وضوح حق'' کے لئے نہیں ہوتے بلکہ صرف حق سے بدگمان کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔

اسلام نے تو اس مخمصہ سے نکالنے کے لئے ایک معقول اور غیرتمندانہ راہ کھولی ہے مگر سوشلسٹ کا معاملہ تو اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان کے ہاں تو یہ اصول ہے کہ مفت ہاتھ آجائے تو مال اچھا ہے۔

میری طالب علمی کے زمانہ کی بات ہے، جبکہ راقم الحروف ملتان میں مشہور درس گاہ ''قاسم العلوم'' میں زیر تعلیم تھا، وہاں ہمارے محلہ میں ایک ہندو نوجوان رہتا تھا۔ اس کے اپنی ہمشیرہ سے ناجائز مراسم تھے اور وہ بڑی بے شرمی سے کہتا تھا کہ اپنی بہن اپنے ہاتھ سے غیر کے حوالے کرنے میں اگر آپ کو شرم نہیں آتی تو خود رکھ لینے میں کیا حرج ہے؟ ؎ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

بات صرف جرم زنا کی سنگینی کی نہیں، اس سے بڑھ کر انسانی جان کے ضیاع کا احساس بھی سامنے ہے۔ زنا کی حد انتہائی سنگین اور حوصلہ شکن حد ہے، اسے یونہی راہ چلتے نافذ کر دینا دانشمندانہ بات نہیں ہے۔ بہرحال اسلام چاہتا ہے کہ جرائم کا انسداد ضرور ہو مگر صرف کسی ٹھوس اور یقینی شہادت کے بغیر کسی کی جان لینے سے پرہیز کیا جائے، اس لئے حضور کا ارشاد ہے، معاف کرنے میں سہو ہو جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن سزا کے معاملے میں کوتاہی نہ ہونے پائے۔

إن الإمام أن یخطئ في العفو خیر من أن یخطئ في العقوبة (أخرجه الترمذي وقد أعل الحدیث بالوقف)ا درأ والحدود بالشبھات (بیھقی عن علیؓ)

اگر مرد کو اس سلسلہ میں واقعی یقین ہے کہ ایسا ہوا ہے تو یہ اس کی ذاتی بات ہے۔ قانون کے تقاضوں کو مطمئن کرنے کے لئے اپنے ذاتی اطمینان کا واسطہ دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ مناسب گواہ مہیا کیے جائیں کیونکہ یہ صرف کسی کی جان لینے کی بات نہیں ہے بلکہ خاندانی روایات اور مستقبل کے لئے بھی اس کے نتائج نہایت دور رس ہو سکتے ہیں۔ اور یہ صرف اسلامی نظامِ سیاست کا اقتضا نہیں، دنیا کے ہر نظام میں اس کے لئے کچھ شرائط پائی جاتی ہیں۔

ہاں ایسی صورت میں جب کہ مرد اپنی بیوی کے سلسلے میں غیر مطمئن ہے اور اپنے مشاہدہ کی بنا پر اپنی غیرت کے چرکوں سے نڈھال ہو رہا ہے تو اس مخمصہ سے نکالنے کے لئے اسلام نے یہ راہ کھولی ہے کہ وہ لعان کرے (بخاری) طعان یہ ہے کہ: یہ کیس حاکم کے پاس لے جائے، اور وہ ان سے قسم لے کہ بخدا! میں نے ان کو بدکاری کرتے دیکھا ہے۔ چار دفعہ ایسا کرے، پانچویں بار کہے کہ: اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر خدا کی لعنت۔ اگر عورت اس کے لف کو قبول کر لے تو اسے رجم کیا جائے گا۔ اگر وہ انکار کرے تو اس سے اسی طرح چار دفعہ حلف لیا جائے گا کہ: میں خدا کو گواہ کر کے کہتی ہوں کہ اس نےمجھے زنا کرتے نہیں دیکھا۔ پانچویں بار یوں کہے کہ: اگر مرد دعوے میں سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب۔ اس کے بعد ان میں لا زوال تفریق ہو جائے گی۔ ان کا مرتے دم تک پھر نکاح نہیں ہو سکے گا۔ لعان کا ذکر سورۂ نور میں آیا ہے۔

باقی رہی مرد کے دل کی بھڑ اس کی بات؟ سو گو وہ تکلیف وہ ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عورت اپنے شوہر کی بیوی ہے، مرغی نہیں ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس کے گلے میں خود چھری بھی پھیر دے۔ یہ ایک معاشرتی عقد اور عہد ہے، مال مویشی کی بیع نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ: اب اس عقد کو فسخ کر دیا جائے، ایسا تو نہیں کہ وہ اس کی جان لینے کا بھی حقدار ہے۔ جہاں تک اس سلسلےمیں ''رجم، سنگساری'' کی بات ہے وہ تو صرف اسلامی حدود کی خلاف ورزی کی سزا ہے۔ اس لئے ان کو ''حدود اللہ'' کہا گیا ہے۔ شوہر کے جذبات سے قطع نظر، اگر اسلام اس سلسلے کا نصاب شہادت یا نصابِ لعان سے مطمئن ہو جاتا ہے تو وہ اس کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کا حکم دیتا ہے، ورنہ نہیں۔ اگر اس کے باوجود کوئی صاحب اپنی صوابدید یا اطمینان کی بنا پر اپنا حکم چلا لیتا ہے۔ اسے سرکاری قانون میں دست درازی تصور کیا جاتا ہے۔ ہاں مناسب شہادت یا اعتراف کے فقدان کی وجہ سے صرف ان کو سنگسار نہیں کر سکتے، لیکن یہ کہ حکمران مناسب اطمینان کے باوجود ان کے خلاف اور کوئی تادیبی کارروائی بھی نہیں کر سکتا ہے۔ غلط ہے۔ حکومت تطہیر اور سد ذرائع کے لئے اور سبھی کچھ شرعی حدود کے اندر رہ کر کر سکتی ہے۔ صرف ان کی جان نہیں لے سکتی۔

2. چپٹی لڑانا:

حضرت امام زہری فرماتے ہیں کہ علماء کا یہی فتویٰ ہے کہ جو عورتیں اس کا ارتکاب کریں ان کو سو درے لگائے جائیں۔ علماء سے مراد صحابہؓ ہیں۔

قال ابن جریج أخبرني ابن شهاب قال أدرکت علمائنا یقولون في المرأة تأتي المرأة بالرفغة وأشباهها تجلدان مائة مائة، الفاعلة والمفعولة بها۔ (عبد الرزاق)

باقی رہا ان کو پکڑنے کا معاملہ۔ سو ہم پر یہ ایسا فریضہ نہیں ہے کہ اگر مناسب شہادت میسر نہ ہو سکے تو ضرور ہی پکڑا جائے۔ جو یہاں شرعی شہادتوں کے نہ ملنے کی وجہ سے بچ جاتے ہیں، وہ خدا کی اخروی پکڑ سے کہاں بچ کر جا سکیں گے۔ اس کے علاوہ شہادتوں کا یہ نصاب شرعی حدود کے نفاذ کے لئے ہے۔ اگر اس سے کم تر شہادتوں کے باوجود حکمران اس سلسلے میں کسی نتیجے پر پہنچ پاتے ہیں تو وہ ان کے بارے میں دوسرے مناسب اقدام کر سکتے ہیں۔ جن کے ذریعے ان مجرمات کو راہ پر لانا ممکن ہو سکتا ہے۔ یہی بات ان دوسرے مجرموں کی ہے جو غلط راہ پر چل رہے ہیں لیکن شرعی نصابِ شہادت کے فقدان کی وجہ سے ''حد شرعی'' کی زد سے بچ بچ جاتے ہیں۔ حکومت ان کو اس سے باز رکھنے کے لئے دوسرے ایسے اقدامات (زواجر، تنبیہیں) اختیار کر سکتی ہے جو فضا کو پاکیزہ رکھنے اور جرائم پیشہ افراد کی راہ روکنے کے لئے مناسب ہو سکتے ہیں۔ شہادت کا کورس ادھورا ہونے کی وجہ سے ''شرعی حد'' جاری نہ ہونے کے یہ معنی نہیں، کہ دوسرے قابلِ ذکر قرائن، شواہد اور ناقص شہادتوں کے ہوتے حکمران ان کو ''قید'' بھی نہیں کر سکتا یا ان کو تاوان اور دوسری تادیبی کارروائی کے ذریعے ان کی حوصلہ شکنی بھی نہیں کر سکتا۔ شہادتوں کی کمی کا صرف اتنا ان کو فائدہ ہوتا ہے کہ وہ سنگساری سے بچ جاتے ہیں نہ یہ کہ ان کے خلاف اور کوئی تادیبی اقدام بھی نہیں کیا جا سکتا۔

نابالغ لڑکی کا نکاح۔ نابالغ لڑکے کے طلاق

مہمو والی (شیخو پورہ) سے ایک مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ:

ایک باپ نے کسی سے اپنی کم سن نابالغ لڑکی کا نکاح کر دیا۔ لیکن تا بلوغ وہ لڑکی والدین کے پاس ہی رہی اور جب بالغ ہوئی تو اس نے بچپن کے اس نکاح کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ کیا اسے اس کا حق پہنچتا ہے اور وہ اس کو رد کر سکتی ہے؟ اور بعد میں عدت گزارے بغیر وہ کسی دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

نابالغ لڑکی کو طلاق ہو جائے تو اس کے لئے عدت ہے یا نہیں؟

کیا نابالغ لڑکا طلاق دے سکتا ہے؟

الجواب

حق فسخ:

نابالغ لڑکی، بالغ ہونے پر اگر وہ چاہے تو بچپن کے نکاح کو قبول کرنے سے انکار کر سکتی ہے اور یہ حق رسول کریم ﷺ نے اسے عطا کیا ہے۔

عَنِ ابنِ عَبَّاسٍ رضي اللہ تعالٰی عنهما اَنَّ جَارِیَةً بِكرًا أتَتَ النبي ﷺ فَذَکَرَتْ أنَّ أبَاَھَا زَوَّجَھَا وَھِي کارهةً فَخَیَّرَھَا النَّبِي ﷺ رواہ أبو داود وقال حدثنا محمد بن عُبیدنا حماد بن زید عن أیوب عن عکرمة عن النبي ﷺ بهذا الحدیث قال أبو داود: لم یذکر ابن عباس وهکذا رواه مرسلا معروف۔ ولهذا قال الحافظ رواه أحمد وأبو داود وابن ماجة وأعَل بإرسال ولکن ردہ صاحب سبل السلام وقال الحافظ ابن القیم في زاد المعاد: ولیس روایة هذا الحدیث مرسلة بعلة فیه فإنه قد روي مسنداً ومرسلا فإن قلنا یقول الفقهاء إن الاتصال زیادة ومن وصله مقدم علٰی من أرسله فظاهر..... وأن حکمنا بإرسال کقول کثیر من المحدثین فهذا مرسل قوي قد عضدته الآثار الصحیحة الصریحة والقیاس والقواعد الشبوع انتهی۔

ترجمہ حدیث:

حضرت ابن عباس (رسولِ کریم کے چچا زاد بھائی) فرماتے ہیں کہ ایک کنواری لڑکی رسول کریم ﷺ کے پاس آئی اور شکایت کی کہ اس کے والد نے اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح کر دیا ہے، آپ ﷺ نے (یہ سن کر) اس کو اس کا اختیار دے دیا (کہ فسخ کرے یا رہنے دے)

اس حدث پر بعض بزرگوں نے اعتراض کیا ہے کہ یہ واقعہ ایک تابعی نے بیان کیا ہے۔ صحابی نے نہیں، مگر محدثین نے اس اعتراض کو رد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے۔

عَنْ بُرِیْدَة قَال: جَاءَتْ فَتَاة إلی النَّبِیِّ ﷺ: فَقَالَتْ اِنّ أبي زَوَّجْنِي ابْنَ اَخِیْه یَرْفَعَ بِیْ خَسِیْسَتَه، قَالَ فَجَعَلَ الْأمْرَ اِلَیْها فَقَالَتْ قَدْ أجَزْتُ مَا صَنْعَ أبِي وَلٰکِنْ أرَدْتُّ أنْ تَعْلَمَ النِّسَآءُ أنْ لَّیْسَ إلَی الْاٰبَآءِ من الْأمْرِ شيء (رواہ ابن ماجہ قال السندی: وفی الزوائد اسنادہ صحیح انتھی)

حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں کہ ایک نوجوان لڑکی حضور کے پاس آئی اور کہا کہ میرے باپ نے اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لئے اپنے بھتیجے سے میرا نکاح کر دیا، اس پر حضور نے اس کو اس کا اختیار دیا (کہ جس طرح چاہے کر لے) پھر وہ بولی کہ میرے باپ نے جو کیا ہے میں نے اس کی اجازت دی ہے لیکن (آپ سے شکایت ہےسے غرض یہ تھی کہ) عورتیں جان لیں کہ باپ اس کا حق نہیں رکھتے۔

یہ صورت دراصل ''ولی سیٔ الاختیار'' کی ہے کہ وہ اپنے کسی خفیہ لالچ اور غرض کے لئے یہ اقدام کرتا ہے۔ ایسی صورت میں احناف کے نزدیک بھی یہ نکاح جائز نہیں ہے۔ حنفیوں کی معتبر کتاب در مختار میں ہے۔

''(إن کان الولي) المزوج بنفسه بغبن (أبا أو جدا) وکذا المولی وابن الجنونة (لم یعرف منهما سوء الاختیار) مجانة او فسقا (وان عرف، لا) ''

رد المحتار میں ہے:

وفی شرح المجمع: حتّٰی لو عرف من الأب سوء الاختیار لسفهه أو لطمعه لا یجوز عقدہ إجماعا اھ (رد المحتار)

اس لئے لڑکی کو فسخ نکاح کا حق حاصل ہے اور وہ مقامی یونین کونسل کے ذریعے فسخ نکاح کا حکم حاصل کر کے بغیر کسی عدت کے دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔ کیونکہ فسخ نکاح خلوت صحیحہ سے پہلے حاصل کیا گیا ہے۔﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا نَكَحتُمُ المُؤمِنـٰتِ ثُمَّ طَلَّقتُموهُنَّ مِن قَبلِ أَن تَمَسّوهُنَّ فَما لَكُم عَلَيهِنَّ مِن عِدَّةٍ تَعتَدّونَها...٤٩﴾... سورةالاحزاب

اے مسلمانو! جب تم مسلمان عورتوں کو (اپنے) نکاح میں لاؤ، پھر ان کو ہاتھ لگانے (خلوت صحیحہ) سے پہلے طلاق دے دو تو عدت (میں بٹھانے) کا تم کو ان پر کوئی (حق) نہیں کہ لگو عدت کی گنتی پوری کرانے۔

امام ابن قدامۃ حنبلی (ف ۶۶۰؁ھ) بھی یہی لکھتے ہیں:

فأما غیر المدخول بها والحامل التي تبین حملها والآئسة والتي لم تحض فلا سنة لطلاقها ولا بدعة۔ فمتی قال لها أنت طالق للسنة أو للبدعة في الحال (عمدۃ الفقہ کتاب الطلاق)

اصل اصول یہ ہے کہ: بالکلیہ اولاد خود مختار ہے نہ والدین، اولاد کے لئے اپنے والدین کو مطمئن کرنا اور والدین کے لئے اپنی اولاد کو اعتماد میں لینا شرعاً نہایت ضروری ہے، اس کے بغیر نکاح مشکل ہے۔ والدین کو ٹھکرا کر اگر لڑکی خود ہی جا کر نکاح رچاتی ہے یا لڑکی کو مطمئن کیے بغیر والدین جہاں چاہیں اسے جھونک دیتے ہیں تو شرعاً جائز نہیں ہے نہ شرعاً یہ بیل منڈھے چڑھے گی۔

نابالغ لڑکی کی عدت:

اگر طلاق خلوت صحیحہ سے پہلے ہ گئی ہے تو عدت نہیں ہے۔ جیسا کہ اوپر مذکورا ہوا۔ اگر خلوت صحیحہ کے بعد ہوئی ہے تو اسے تین ماہ عدت گزارنا ہو گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَالّـٰـٔى يَئِسنَ مِنَ المَحيضِ مِن نِسائِكُم إِنِ ار‌تَبتُم فَعِدَّتُهُنَّ ثَلـٰثَةُ أَشهُرٍ‌ وَالّـٰـٔى لَم يَحِضنَ...٤﴾... سورة الطلاق

اور تمہاری بیویوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہو گئیں، اگر تم کو شبہ رہ گیا تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ایسے ہی (ان کے لئے ہے) جن کو حیض نہیں آیا۔

یعنی جن کو حیض آیا ہی نہیں یا کبر سنی کی وجہ سے اب بالکل موقوف ہو گیا ہے اور ان کے بارے میں تم فکر مند ہو کہ ان کی عدت کیا ہونی چاہئے تو آپ کو بتا دیا کہ تین ماہ اور صرف تین ماہ۔

کیا نابالغ لڑکا طلاق دے سکتا ہے؟

نابالغ لڑکا اور لڑکی کے ولی ان کے ماں باپ ہوتے ہیں، اس لئے نکاح کے وقت ان نا بالغوں کی طرف سے والدین ہی ہوتے ہیں۔ یہ ایک متفقہ مسئلہ ہے۔ اسی پر طلاق کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں۔

وأما کونه من مکلفٍ مختار، فلان أمر الصغیر إلی ولیه (الدراری المضیئۃ کتاب الطلاق)

کیونکہ نابالغ لڑکے کو طلاق کا اختیار ہی نہیں ہے: یہی نظریہ حضرت علیؓ اور امام زہری شعبی، امام نخعی کا ہے۔

عن الزهري في الصبي قالا: لا یجوز طلاقه ولا عتاقه ولا يقام علیه الحدود حتی یحتلم (مصنف عبد الرزاق)