۵؍ جولائی کو، رات ایک بجے کے بعد پاکستان کی مسلم افواج نے بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا ہے اور مسٹر بھٹو کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ فوجی حکام کی حفاظت میں دے دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَتِلكَ الأَيّامُ نُداوِلُها بَينَ النّاسِ...١٤٠﴾... سورةآل عمران
''یہ وقت کا اتار چڑھاؤ ہے جسے ہم لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔
چیف آف آرمی سٹاف اور چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر جنرل محمد ضیاء الحق نے بدھ کے دن (۵؍جولائی کو) سات بجے شام ملک بھر میں مارشل لا نافذ کرنے اور قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں فوری طور پر توڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ:
مسٹر بھٹو کی حکومت ختم ہو گئی ہے۔ صوبائی گورنر اور وزیر ہٹا دیئے گئے ہیں البتہ آئین کو منسوخ نہیں کیا گیا تاکہ اس کے بعض حصوں پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے۔
نیز کہا کہ: صدر فضل الٰہی چوہدری حسبِ سابق سربراہ مملکت رہیں گے اور ملک کے تمام انتظامی امور ''ملٹری کونسل'' انجام دے گی۔ یہ ملٹری کونسل چیئرمین جائنٹ چیف آف سٹاف اور تینوں مسلح افواج کے سربراہوں پر مشتمل ہو گی۔
جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ: اسی سال اکتوبر میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوں گے اور ان کے بعد اقتدار میں عوام کے نمائندوں کو سونپ دوں گا اور اس لائحۂ عمل سے ہرگز انحراف نہیں کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ تین ماہ کے دوران انتخابات پر ہی توجہ مرکوز رکھوں گا۔
نیز یہ اعلان کیا کہ اخبارات جو آزادیٔ صحافت کے علمبردار ہیں انہیں مکمل آزادی ہو گی لیکن انہیں ضابطۂ اخلاق کی پابندی کرنا پڑے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ: ملک کی عدلیہ کا میرے دل میں بہت احترام ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ عدلیہ کے اختیارات محدود نہ ہوں، میں بعض ناگزیر حالات میں مارشل لاء کے ضابطے نافذ کروں گا۔ ان ضابوں کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔
جنرل موصوف نے یہ بھی اعلان کیا کہ:
میرے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں، میں نے جو کچھ کیا اسلام کے ایک سپاہی کے طور پر کیا، میں ملک میں منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخاب کرانے کے لئے اقدامات کروں گا۔ ہاں فی الحال تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد رہے گی۔ یہ پابندی سیاسی محاذ آرائی ختم کرنے اور جذبات کو فرد کرنے کے لئے ضروری ہے تاہم بعد میں سیاسی جماعتوں کو اپنی انتخابی مہم کی اجازت دی جائے گی۔
جنرل ضیاء الحق نے اپنے فوجی اقدام کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ:
فوج اقتدار سنبھالے، یہ کوئی مستحسن اقدام نہیں ہے۔ حکومت کی باگ دوڑ عوام کے ہاتھوں میں رہنی چاہئے، ۷؍ مارچ کو انتخابات ہوئے۔ لیکن ایک فریق نے انتخابی نتائج کو قبول کرنے سے گریز کیا بلکہ دھاندلی کے الزامات لگائے اور یہ الزام احتجاج کی شکل اختیار کر گیا اور اس کے لئے تحریک چلائی گئی، تحریک کے دوران اشتعال انگیزی بھی ہوئی لیکن افواجِ پاکستان نے سیاسی دباؤ کے باوجود حالیہ ہنگاموں میں اقتدار سنبھالنے سے گریز کیا۔ اس اثناء میں اس امر کی کوشش کی جاتی رہی کہ سیاسی بحران کا سیاسی حل تلاش کر لیا جائے، افواج نے حکومت وقت پر کئی بار زور ڈالا کہ وہ سیاسی مخالفین سے تصفیہ کرے۔ مذاکرات کے لئے وقت درکار تھا چنانچہ افواج نے ملک میں نظم و نسق برقرار رکھ کر یہ وقت بھی فراہم کیا، بعض حلقوں میں افواج کے اس کردار پر نکتہ چینی بھی کی گئی لیکن اسے اس امید پر برداشت کیا گیا کہ جب قوم جذباتی دور سے گزر جائے گی تو تمام شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حالات جو رخ اختیار کر گئے تھے ان میں فوج کا تماشائی بن کر رہنا نا قابلِ تلافی جرم ہوتا۔ چنانچہ ان حالات میں فوج کو مجبوراً مداخلت کرنا پڑی اور یہ اقدام ملک کو بچانے کے لئے کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے فریقین میں سمجھوتے کا کوئی امکان نظر نہ آتا تھا، انہیں ایک دوسرے کے بارے میں بے اعتمادی اور بد گمانی انتہا کی تھی۔ ان حالات میں اندیشہ تھا کہ ملک میں ایک بار پھر افراتفری پیدا ہو جائے گی اور اس طرح ملک سنگین بحران کا شکار ہو جائے گا۔ یہ خطرہ مول لینا ملک کے مفادات میں نہ تھا۔ چنانچہ مجھے یہ فوجی کارروائی کرنا پڑی۔
انہوں نے کہا کہ:
پاکستان کی بقا جمہوریت اور صرف جمہوریت میں ہے اور انہوں نے اس دوران پاکستان قومی اتحاد کی طرف سے جاری کردہ حالیہ تحریک کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ:
اس تحریک کے دوران عوام نے جس اسلامی جذبے کا اظہار کیا وہ قابلِ تحسین ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں جو اسلام کے نام پر قائم کیا گیا اسلامی نظام ہی قائم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہا اسلامی نظام پاکستان کے لئے اشد ضروری ہے۔'' (مختصر او ملتقطا)
اس پر امن فوجی انقلاب کے بعد جب ہم ان معزول کجکلاہوں کے شاہی ایوانوں، گلستانوں جنت نظیر روشوں، محیرالعقل محلات، آرامگاہوں، طیّاروں، طنطنوں، جاہ و جلال، کرد فر، جاہ و حشم، خدام، فوج و سپاہ، سب کو آجان کے نوحہ خوا ں دیکھتے ہیں تو قرآن حکیم کا یہ تبصرہ ہمارے کانوں میں پھر سے گونجنے لگ جاتا ہے۔
فراعنہ مصر کا دبدیہ اور ان کے ''اَنَا وَلَا غَیْرِی'' کے نعرے سب کے سامنے ہیں۔ انہوں نے اللہ کےنبیوں سے بھی یہ مطالبہ کر ڈالا کہ وہ بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کریں اور ان کی خدائی کے سامنے سجدہ ریز ہو کے رہیں مگر حشر یہ ہوا کہ وہ ایک داستانِ پارینہ ہو کر رہ گئے اور اپنی کروفر کے سارے ساز و سامان اور طنطنوں کی یاد گارہیں چھوڑ چھاڑ کر چل دیئے۔
﴿وَلَقَد فَتَنّا قَبلَهُم قَومَ فِرعَونَ وَجاءَهُم رَسولٌ كَريمٌ ﴿١٧﴾ أَن أَدّوا إِلَىَّ عِبادَ اللَّـهِ ۖ إِنّى لَكُم رَسولٌ أَمينٌ ﴿١٨﴾وَأَن لا تَعلوا عَلَى اللَّـهِ ۖ إِنّى ءاتيكُم بِسُلطـٰنٍ مُبينٍ ﴿١٩﴾ وَإِنّى عُذتُ بِرَبّى وَرَبِّكُم أَن تَرجُمونِ ﴿٢٠﴾ وَإِن لَم تُؤمِنوا لى فَاعتَزِلونِ ﴿٢١﴾ فَدَعا رَبَّهُ أَنَّ هـٰؤُلاءِ قَومٌ مُجرِمونَ ﴿٢٢﴾ فَأَسرِ بِعِبادى لَيلًا إِنَّكُم مُتَّبَعونَ ﴿٢٣﴾ وَاترُكِ البَحرَ رَهوًا ۖ إِنَّهُم جُندٌ مُغرَقونَ ﴿٢٤﴾ كَم تَرَكوا مِن جَنّـٰتٍ وَعُيونٍ ﴿٢٥﴾ وَزُروعٍ وَمَقامٍ كَريمٍ ﴿٢٦﴾ وَنَعمَةٍ كانوا فيها فـٰكِهينَ ﴿٢٧﴾ كَذٰلِكَ ۖ وَأَورَثنـٰها قَومًا ءاخَرينَ ﴿٢٨﴾ فَما بَكَت عَلَيهِمُ السَّماءُ وَالأَرضُ وَما كانوا مُنظَرينَ ﴿٢٩﴾ وَلَقَد نَجَّينا بَنى إِسرٰءيلَ مِنَ العَذابِ المُهينِ ﴿٣٠﴾ مِن فِرعَونَ ۚ إِنَّهُ كانَ عالِيًا مِنَ المُسرِفينَ ﴿٣١﴾... سورةالدخان
(ترجمہ) اور ان سے پہلے ہم فرعون کی قوم کو (بھی) آزما چکے ہیں، اور ان کے پاس بڑے درجہ کے رسول آئے اور (انہوں نے آکر ان سے کہا کہ) اللہ کے (ان) بندوں کو میرے حوالے کرو، میں (خدا کا) امانتدار رسول ہوں اور یہ کہ تم خداسے سرکشی نہ کرو، میں تمہارے سامنے ایک واضح برہان پیش کرتا ہوں اور میں اپنے اور تمہارےرب کی پناہ چاہتا ہوں، اس سے کہ تم مجھے سنگسار کرو۔
اور اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے تم الگ ہی رہو، تب (حضرت موسیٰؑ نے) اپنے رب سے دعا کی کہ یہ (بہت ہی) جرائم پیشہ لوگ ہیں، تو (ہم نے موسیٰ کو حکم دیا کہ) میرے بندوں کو راتوں رات لے کر نکل جاؤ (اور یہ سمجھے رہنا کہ فرعون کی طرف سے) تمہارا تعاقب کیا جائے گا۔ اور دریا کو (اپنی جگہ) ٹھیرا ہوا چھوڑ (کر پار ہو) جانا کہ (اسی میں ان کا سارا لشکر غرق کر دیا جائے گا۔
یہ لوگ کتنے ہی باغ اور (کتنی ہی) نہریں اور (کتنی ہی) کھیتیاں اور (کتنے ہی) عمدہ عمدہ مکانات اور (کتنے ہی) آرام (و آسائش) کے سامان چھوڑ مرے جن میں مزے اُڑایا کرتے تھے (واقعے میں) ایسا ہی (ہوا) اور ہم نے دوسرے لوگوں کو اس (تمام ساز و سامان) کا وارث بنا دیا، تو ان پر نہ تو آسمان اور زمین روئے اور نہ انہیں مہلت ہی ملی۔
اور یقین کیجیے: ہم نے بنی اسرائیل کو فرعون کے رسوا کن عذاب سے نجات دی واقعی وہ (بڑا) سرکش اور حد سے باہر نکل گیا تھا۔
فرعون نہ سہی، فرعونیت تو اب بھی ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہے، اس لئے وہ نتائج جو فرعونیت کے نتیجے میں فرعون نے بھگتے اگر اب بھی کوئی ان کا حامل ہو گا تو فرعونیت کے ان قدرتی نتائج سے وہ بھی نہیں بچ سکے گا، جن سے خود پہلے فرعونی نہیں بچ سکے گا۔
فرعونیت، بندگانِ خدا کا استحصال کرنے والی قوت کا نام ہے، وہ روحانیت کے نام پر کیا جائے یا جمہوریت کے نام پر، عوام کو بے وقوف بنا کر کیا جائے یا جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی ملی بھگت سے کیا جائے۔ بہرحال خدا بن کر ''خلق خدا کی تذلیل'' کے سامان کرنا حق تعالیٰ کے غیظ و غضب کو دعوت دینے والی بات ہے اس لئے جو جتنا بڑا اونچا ہو کر بڑھتا ہے، خدا اسے اتنا ہی چھوٹا کر کے خوار کرتا ہے۔ مگر بعد میں ہر آنے والا اس سے عبرت پکڑنے کے بجائے غیر شعوری طور پر یہی محسوس کرتا ہے کہ: یہ ذلت اس جانے والے کے نام سے تعلق رکھتی تھی اور وہ اپنے کیے کی سزا بھگت گیا، میرا کوئی وہی نام ہے، جس نام پر یہ آفتیں آئیں، وہ ایوب تھا۔ میرا نام بھٹو ہے، وہ اکبر تھا، میرا نام یحییٰ ہے، اس کے دستر خوان کا خوشہ چین ملاں دو پیازہ تھا، میرے نام کے ساتھ مولانا نیازی لگتا ہے۔ بس یہ فریبِ نفس انسان کو لے ڈوبا ہے۔ وہ عبرت پکڑنے کے بجائے غیر شعوری طور پر خود ہی درسِ عبرت بننے لگ جاتے ہیں۔ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ.
جیسا کہ جنرل ضیاء الحق نے اعتراف کیا ہے کہ:
''فوج اقتدار سنبھالے کوئی مستحسن اقدام نہیں ہے۔''
ہم کہتے ہیں کہ: اگر کوئی راج دلارا ایسے سامان کر دے کہ فوجی کار روائی کے بغیر بندگانِ خدا کی جان نہیں چھوٹتی تو کون کہہ سکتا ہے کہ اب فوجی اقدام مستحسن نہیں ہے۔ لیکن اب ہم چاہتے ہیں کہ قوم کے ان شکاریوں کا محاسبہ بھی ہو جیسا کہ حنیف رامے نے کہا ہے کہ: جو شخص جمہوریت کش ہے اس پر مقدمہ چلانا چاہئے، ورنہ اسے جب بھی موقع ملے گا ملک اور قوم کے لئے فتنہ ثابت ہو گا۔
ویسے بھی ہم چاہتے ہیں کہ ہر نئے الیکشن سے پہلے، سبکدوش کر کے سپریم کورٹ کے فل بنچ کے سامنے ملک کے سربراہ اور اس کی ذمہ دار ٹیم کا جائزہ لیا جائے۔ اگر غلط کار ثابت ہوں تو آئندہ کے لئے ان پر انتخاب لرنے کے دروازے بند کر دیئے جائیں۔ اس کے دو فائدے ہوں گے کہ:
ایک تو لوگ محتاط رہیں گے دوسرا یہ کہ اگر غیر محتاط رہے تو آئندہ قوم تو ہمیشہ کے لئے ان کے چنگل سے محفوظ ہو جائے گی۔
اس کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخاب کے لئے کچھ شرائط عائد کرنا چاہئیں تاکہ ہم نتھو پھتو قوم کی قیادت کی عظیم مسند پر فائز نہ ہونے پائے۔ مثلاً یہ کہ ہر امیدوار اہلِ علم ہو۔
ملک و ملت کے سلسلے میں ان کی خدمات معروف ہوں۔
تیسرا یہ کہ دیانتدار اور بیداغ کیریکٹر کے مالک ہوں۔
اسی طرح ملک کے زیرِ اعظیم کے لئے بھی کچھ شرائط کا پورا کرنا ضروری ہو۔ مثلاً
یہ کہ وہ کتاب و سنت اور دین سے باخبر ہو۔
دینی علم و عمل کا حامل ہو۔
صالح ہو، تھوڑی ہو یا بہت، شراب کی تہمت سے پاک ہو۔
اور پچپن سال کی عمر سے پہلے اس مسند کے قابل تصوّر نہ کیا جائے۔
اسی طرح صوبائی اور وفاقی وزراء کے لئے یہ شرط لازمی ہو کہ وہ دیندار ہوں اور اسے شعبہ صرف وہ دیا جائے، جس کے بارے میں اس کے پاس سرٹیفکیٹ اور سند ہو، یا کم از کم اس سلسلے میں اسے نیک شہرت حاصل ہو۔
صوبائی وزیر اعلیٰ وہ ہو جو پچاس سال کی عمر سے متجاوز ہو۔
اہلِ علم ہو۔
کیریکٹر کے لحاظ سے پاکیزہ اور اونچا ہو۔
دیانتدار ہو۔
اور جب وزراء کی یہ ٹیم اپنی باری بھگت لے تو اسے روک کر اس کا عدالتی محاسبہ کر کے اسے دیکھ لیا جائے، اگر اس نے اپنے منصب کا ناجائز استعمال کیا ہے تو اسے آئندہ کے لئے نا اہل قرار دیا جائے۔
صوبائی اور قومی ممبران میں سے جس ممبر کے خؒاف اس کے اپنے حلقے یا ملک کے کسی گوشہ سے دھاندلی، بے انصافی اور منصب کے غلط استعمال کی کوئی شکایت موصول ہو اور عدالت میں وہ ثابت ہو جائے تو اسے کم از کم آئندہ پانچ سال کے لئے انتخاب کے نا اہل قرار دیا جائے۔
اسی طرح مملکت کے دوسرے سرکاری ملازم اگر قانون اور آئین سے ہٹ کر کسی ممبر یا وزیر کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں تو پانچ سال کے لئے ان کی سالانہ ترقی روک دی جائے گی اگر اس کی نوعیت سنگین ہو تو انہیں ملازمت سے برطرف کر دیا جائے۔
اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ: ہر ممبر اپنے اس علاقہ سے منتخب ہونے کی کوشش کرے جہاں وہ پیدا ہوا اور بستا ہے اور پہلے سے اس کی سماجی خدمات اور سیاسی بصیرت معروف ہو۔ ایسا شخص جس کے پاس تعلیم ہے نہ خدمات، سیاسی سوجھ بوجھ ہے نہ نیک شہرت، اسے قومی قیادت کا حق دینا قوم کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہے۔ جب زندگی کے دوسرے ہر شعبہ سے متعلق مناسب سرٹیفکیٹ مہیا کرنا ضروری ہوا ہے تو قوم کا نمائندہ جو اتنا بڑا منصب ہے، اس کے لئے کوئی بھی سرٹیفکیٹ نہ ہو، ایک عجیب سی بات ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ: ایسے آدمی کو قوم مسترد کر دے یا قبول کر لے یہی اس کے لئے سرٹیفکیٹ ہے تو یہ بات اس وقت قابلِ قبول ہو سکتی ہے جب اسے پارٹی سپورٹ حاصل نہ ہو اور اپنے اثر و رسوخ اور سرمایہ کے ذریعے قوم کی جیب سے ووٹ حاصل کرنے کے دروازے اس پر بند کر دیئے جائیں۔ اگر ووٹ کو جنس بازار تصور کر کے کوئی شخص ووٹ کی بولی دے کر ووٹ حاصل کرتا ہے۔ یا سماج دشمن عناصر کی دھونس اور طاقت کے ذریعے ووٹوں پر بوجھ بنتا ہے تو اسے کوئی کیسے تصور کرے کہ اس نے شایانِ شان کام کیا ہے۔ اس کی تو یہ ابتداء ہی غلط ہے۔ انتہاء کیا ہو گی؟ آپ خود سوچ لیں۔
امیدوار کو عوام کے استحصال کی اجازت نہ ہو، اس کو صرف اتنی اجازت ہو کہ: وہ اپنے تعارف اپنی خدمات اور آئندہ پروگرام کے لئے ایک اشتہار شائع کر دے، پھر معاملہ حلقے کے عوام پر چھوڑ دیا جائے۔ اگر واقعی وہ اپنی نیک شہرت کی بناء پر کم از کم اپنے حلقے کے لئے قابلِ قبول ہو گا تو اسے قابلِ ذکر تائید حاصل ہو جائے گی ورنہ نہیں۔ یہ بات نہیں کہ جب کسی امیدوار کی درخواست قبول ہو جاتی ہے تو اسے انتخابی مہم چلانے کا حق حاصل ہو جاتا ہے، یہ دراصل حقائق کو مسخ کرنے اور صورتِ حال کی بے ساختہ پن کو مصنوعی بنانے کی ایک غیر معقول اور مکروہ شکل ہے۔ انتخاب اسے بہرحال کہنا غلط ہے۔
جو گروہ بر سر اقتدار رہا ہے، مجموعی لحاظ سے اس کا جائزہ لیا جائے، اگر اس کے دورِ اقتدار میں تین ماہ سے زیادہ ہنگامی حالت نافذ رہی، یا اتنا ہی عرصہ ملکی اخبارات پر سنسر اور پابندی عائد رہی اور اتنا ہی عرصہ بنیادی حقوق معطل رہے یا نجی مصالح کی آئینہ دار ترامیم کے ذریعے ملکی آئین کی روح کو مسخ کرنے کی وہ کوشش کرے اور تین ترامیم سے زیادہ ترامیم کا ارتکاب کرے۔ اسی طرح سرکاری خزانہ، سرکاری حکام اور سرکاری وسائل کے استحصال کی کوئی کوشش عدالتی تحقیقات میں ثابت ہو گئی تو اس میں شریک ساری مشینری کو اگلے پانچ سالوں کے لئے انتخاب کے ناہل قرار دیا جائے۔
اسی طرح صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران کی کار گزاری کا بھی جائزہ لیا جائے کہ انہوں نے اپنے اقتدار کے اس پیریڈ میں اسمبلی میں کونسی قالِ ذکر رہنمائی مہیا کی، ان کی رہنمائی کا انداز صرف ہاتھ کھڑے کرنا رہا یا ان کے انداز سے واقعی رہنمائی ٹپکتی تھی، اور اسمبلی کے ہر اجلاس میں انہوں نے کونسی قابلِ ذکر باتیں کیں اور قوم کی قیادت کا فریضۃ انجام دیا؟ اگر کوئی مٹی کا مادھو رہا یا اسمبلی ہال میں اونگھتا، گپ شپ، چائے سگریٹ کا شوق فرماتا رہا تو اسے اب چلتا کیجیے۔ ایسے شخص کو قوم کی قیادت کے عظیم منصب پر فائز کر کے قوم کی توہین نہ کیجئے۔
ہر ممبر کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اور اپنے متعلقین کی جائیداد کے گوشوارے داخل کرے اور بعد میں اس کے مطابق اگر ضرورت پڑے تو اسے چیک بھی کر لیا جائے۔
ان ممبران کو ماہوار تنخواہ نہیں دینا چاہئے الا یہ کہ اس کو سرکاری کام کے لئے فارغ کر دیا جائے یا جتنے دن اجلاس رہا، اس ماہ کا اتنا معاوضہ اس کو دیا جائے جس سے اس کی ضروریات کا دھندا چلتا رہے۔
ہم ان پابندیوں سے چاہتے ہیں کہ: بے لوث خدمات کا سلسلہ چل پڑے، قومی قیادت جنسِ بازار یا کاروبار نہیں ہے بلکہ یہ ایک ذمہ داری کا نام ہے، وہی اس کے لئے آگے بڑھے جس کے دل میں واقعی قومی خیر خواہی کا جذبہ اور اہلیت ہو، تاکہ ملک و ملت کی قسمت جاگ اُٹھے اور سیاسی کاروباریوں سے قوم کو نجات ملے۔ اور ملت کی بے عزتی نہ ہو۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر آپ نے ان اقدار کے احیاء کی کوشش کی تو عالمِ انسانی کی قیادت اور امامت کے عظیم مقام پر آپ فائز ہو جائیں گے۔ دنیا آپ کے نقشِ قدم پر چلے گی اور نوعِ انسانی فلاح و صلاح کی دولت سے ہمکنار ہو گی۔ ان شاء اللہ! فی الحال یہ باتیں آپ کو اس لئے اجنبی محسوس ہوں گی کہ آپ نے اس طرح رُخ نہیں کیا۔ جب آپ نے اس کا پھل چکھ لیا تو پھر ان پیریڈیوں کو یاد کر کے آنسو بہائیں گے جو آپ نے اب تک یونہی ضائع کیے۔
ہمیں قوم کے لئے واقعۃً ایک اہل، دیانت دار اور قابلِ اعتماد قیادت درکار ہے۔ ہمیں ایسے مقلد اور کند ذہن، بے سمجھ اور نادان قائد نہیں چاہئیں، جو لوگ اسمبلی کے اجلاس میں صرف ہاتھ کھڑے کرنا یا انتخاب کے لئے صرف پارٹی ٹکٹ یا جاگیر اور سرمایہ کے سرٹیفکیٹ کے سوا اور کوئی قابلِ ذکر اور معروف صلاحیت کا نمونہ نہ رکھتے ہوں۔ ان سے قومی قیادت کی توہین ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اسمبلیوں میں جانے کے لئے جو کوشش کرتے ہیں، ہمارے نزدیک اتنی سی بات کی وجہ سے ہی وہ صوبائی یا قومی اسمبلی کے بجائے جیل خانہ میں جانے کے مستوجب ہوتے ہیں۔ سرکاری سطح پر کی گئی بات یا کسی جماعتی پلیٹ فارم سے، ہمارے نزدیک قومی اور ملی قیادت کی اتنی ارزانی بہت بڑا عذاب اور بہت بڑی بے دانشی کی بات ہے۔ ہم اپنی قوم سے پوچھتے ہیں کہ: آپ اس قدر ارزاں قوم کو کیوں فروخت کرتے ہیں۔ اور ملی قیادت کے لئے ''دو صد خروں'' کا انتخاب کر کے اپنے آپ کو سر بلند کیوں تصور کر لیتے ہیں؟
اس ملک میں اس نعرہ کو ممنوع اور انتخابی مہم لڑنے کے لئے نا اہلی کا ثبوت قرار دیا جائے جو پاکستان کے نظریہ اور مقاصد سے مختلف ہو بلکہ ایسے نعرہ لگانے والوں کے لئے مقام قومی اسمبلی نہیں ہونا چاہئے بلکہ قید خانہ ہونا چاہئے۔
دراصل ان معاملات کے سلسلے میں ملی غیرت کا ثبوت دینے کے بجائے جس عالی ظرفی، رواداری اور آزادی کا ڈھونگ رچانے کا سراہا جانے لگا ہے۔ وہ کسی بے غیرت، دشمنِ ملت اور ملت اسلامیہ کے کسی بد خواہ ٹولے یا فرد کی بھڑکائی ہوئی باتیں ہیں۔ اصل میں یہ عالی ظرفی یا آزاد روی کی باتیں نہیں ہوتیں بلکہ ایک مسلم کے لئے یہ سب چالیں، بے حسی، بے غیرتی، بے دانشی اور بے شرمی کی باتیں ہیں اگر اپنی ملتِ اسلامیہ کے ساتھ اس قسم کی بد فعلی کوئی مستحسن فعل ہو سکتا ہے تو ہم پوچھتے ہیں کہ آپ اپنے نجی دائرہ میں اس بد فعلی کو کہاں کہاں برداشت کرتے یا کر سکتے ہیں۔
غور فرمائیے! رسولِ کریم ﷺ نے تو صرف اتنی سی بات کو بھی ایک معمولی سے سرکاری عہدہ کے لئے بھی اس کی نا اہلیت کی دلیل قرار دیا تھا جو خود اس کا متلاشی ہو کر اس کے لئے قوم سے درخواست کرتا ہے۔ یہاں ہر بڑ بونگ انتخابی نشان، ہر دھاندلی انتخابات ضرورت، ہر حربہ انتخابی تقاضا،آخر نوعِ انسان کو اس قدر ذلیل کرنے کی کیوں ٹھان رکھی ہے؟
ہرحال اگر دنیا بہ تو نسازد توبہ دنیا بساز کی حامی ہے۔ ہم تو اس مرحلے پر ''بہ ستیز'' کے اصول کے حامی ہیں۔ اسلام آیا ہی صرف اس لئے کہ وہ زندگی کی غلط اقدار کے خلاف جہاد کرے۔ اگر اسلام کی تشریف آوری کاحاصل یہی ہوتا کہ: چلو تم ادھر کو جدھر کی ہوا ہو، تو پھر وہ کام تو پہلے بھی جاری تھے، ان کی تشریف آوری کے بغیر بھی چل رہے تھے۔ اس لئے دنیا کے غلط دھاروں کے رخ بدلنے کے لئے دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جہاد کیجیے! اور ایمانداری سے اپنے ایمانی فریضہ کا حق ادا کیجیے! یا مسلم کہلانا چھوڑ دیجئے۔