الجھاد
دنیا میں بہت سی اقوام پائی جاتی ہیں ان کے اپنے اپنے قواعد و ضوابط بھی ہیں اور بہت سے مذاہب ہیں جن کے اپنے اپنے اصول ہیں ان میں ایک اسلام بھی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ باقی تمام مذاہب دنیا سے یکے بعد دیگر نیست و نابود ہوتے جارہے ہیں اور ان کی جگہ دوسرے مذاہب جنم لے رہے ہیں؟ لیکن ایک اسلام ہے کہ 14 سو سال قبل سے لے کر آج تک جوں کا توں موجود ہے یہ کیوں؟ اس لیے کہ اس کے اصول ابدی ہیں جو کہ ہر زمانے میں موجود رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک جہاد ہے جو کہ اسلام کے رگ و ریشے میں سمایا ہوا ہے جس کے بغیر اسلام کا تصور ہی نامکمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز مورخ ڈاکٹر ہنٹر D.R Hantar لکھتا ہے کہ مسلمانوں کو جب جنگ پر ابھارنا مقصود ہو تو ان کے سامنے نعرہ جہاد بلند کردو۔ مسلمان جب نعرہ جہاد سنتا ہے تو پھر اس کو اپنی جان و مال اپنا نظر نہیں آتا وہ بے خوف و خطر جنگ کی آگ میں کُود پڑتا ہے، کہتے ہیں کہ لڑنا عقل مند آدمی کا کام نہیں ہے لیکن مسلمان باوجود اس کے کہ تمام دنیا سے افضل ہے جہاد میں لڑنے مرنے کو ہر وقت تیار رہتا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں اس وقت تک مسلمان نہیں کہلا سکتا جب تک اپنے آپ کو جہاد کے لیے ہر وقت تیار نہ پاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے ﴿إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ﴾خدا نے مومنوں سے ان کے جان و مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں تو پھر کیوں نہ مسلمان اپنے آپ کو ہر وقت جہاد کے لیے تیار پائے۔ آپ تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں آپ کو مسلمانوں سے بڑھ کر کوئی قوم جانیں پیش کرنے والی نظر نہیں آئے گی۔ مشہور روایت ہے کہ ایک دفعہ مسلمان میدان کارزار میں تھے کہ ان کے پاس دشمنوں کا جاسوس آیا اور واپس جا کر یہ کہا کہ آپ اس قوم سے کس طرح ٹکر لے سکتے ہیں جن کو موت اس قدر عزیز ہے جس قدر آپ کو شراب۔
صرف اسی کا نام ہی جہاد نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ اور بھی ہیں جن کو آپ کے سامنے لانا ضروری خیال کرتا ہوں علامہ ابن القیم جوزیہ، اپنی مایہ ناز تصنیف زاد المعاد میں رقم طراز ہیں الجھاد علی اربع مراتب جہاد چار قسم ہے۔
1۔ جهاد النفس نفس سے جہاد
2جهادالشيطان شیطان سے جہاد
3۔ جهاد الكفار والمنافقين کفار و منافقین سے جہاد
4۔ جهاد ارباب الظماواالمنكرات والبدع ارباب ظلم، منکرین اور بدعتیوں سے جہاد انہون نے جہاد النفس کے بھی چار مراتب بیان کیے ہیں۔
1ان يجاهد على تعلم الهدى علم سیکھنے کے لیے جہاد
2۔ على العمل به بعد علمه سیکھنے کے بعد اس پر عمل کرنا
3على الدعوة اليه اس کی طرف لوگوں کو بلانا
4۔ على الصبر على مشاق الدعوة لوگوں کو دعوت دیتے وقت مصائب پر صبر
اب ہم اس اجمال کی تفصیل علی حسب ترتیب پیش کرتے ہیں۔
1۔ حصول علم کے لیے جہاد
واقعی علم کو سیکھنا ایک جہاد ہے ایک طالب علم گھر کو چھوڑ کر جاتا ہے۔ سفر کی صعوبتیں برداشت کرتا ہے۔ اساتذہ کی جھڑکیاں و احباب بچھڑ جاتے ہیں۔ سفر میں کبھی بھوک، کبھی پیاس، کبھی دکھ، کبھی درد علی ہذا القیاس سبھی کچھ اگر برداشت کرتا ہے تو کیا یہ جہاد سے کم ہے اسی کی بدولت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب کوئی طالب علم گھر سے نکلتا ہے تو مچھلیاں سمندر میں، پرندے ہوا میں، درندے بن میں، اس کے لیے دست بدعا ہوتے ہیں اور فرشتے اس کے پاؤں تلے اپنے پَر بچھا دیتے ہیں۔ یہ صعوبتیں اور یہ خدا کی رحمتیں یہ سب کچھ کیا ہے؟ یہ سب کچھ جہاد کی بدولت ہے۔
2۔ علم پر عمل
کسبِ علم کے بعد اس پر عمل کرنا بھی جہاد ہے۔ کیونکہ وہ سب کچھ جانتا ہے اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ جہاں کہیں سے بھی گنجائش نکلتی ہو اس سے ضرور فائدہ اٹھاتا ہے کہتے ہیں کہ سوئے ہوئے کو بیدار کرنا آسان ہے جب کہ بیدار کو بیدار کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ کما قال صلی اللہ علیہ وسلم۔ کہ دنیا کے اچھے لوگ ہیں تو وہ عالم ہیں اور اگر برے ہیں تو وہ بھی عالم ہیں۔
کیونکہ عالم باعمل دوسروں کو بھی نیکی کی تلقین کرتا ہے اور اگر عالم خود ہی بے عمل ہو گا وہ خود تو ڈوبے گا لیکن دوسروں کو بھی لے ڈوبے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی مذہب کو کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے تو عالم ہے اور اگر تقویت کا باعث بن سکتا ہے تو وہ بھی عالم ہے۔ آج چونکہ عالم خود بے عمل ہیں (الا ماشاءاللہ) جس سے لوگ اور زیادہ بے راہ رو ہو گئے ہیں۔
3۔ تیسرا مرحلہ لوگوں کو حق کی طرف بلانا ہے یہ درست ہے کہ ہر عالم کے ذمے ہے لوگوں کو حق کی طرف بلانا لیکن یہ ایک عزیمت ہے یہ ہر ایک کو نصیب کہاں ہوتی ہے۔ مختلف اوقات میں مختلف لوگ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے برسرِ پیکار ہوئے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر فتنہ ارتداد نے سر اٹھایا ہے تو اس کو کیفر کردار تک پہنچانے کا سہرا صرف صدیق رضی اللہ عنہ کے سر پر ہی کیوں؟ جبکہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی کہہ دیا تھا كيف تقاتلهم وهم يقولون لاإله إلا الله آپ ان سے کس طرح جنگ کر سکتے ہیں حالانکہ وہ کلمہ پڑھتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا من قال لاإله إلا الله عصم مني أوكما قال کہ کلمہ گو کی حفاظت ہم پر لازم ہے، یہ وہ وقت ہے کہ جب اس تعریف کا حامل لوكان بعدى نبى لكان عمر بھی ساتھ دینے سے انکار ہی نہیں بلکہ روک رہا ہے اس وقت اگر عَلمِ جہاد لے کر کھڑے ہوئے ہیں تو وہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔ دراصل یہ اس تعلیم اور اس نیازِ خاص کا منطقی نتیجہ ہے جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ سے حاصل تھی جس کا حامل کوئی دوسرا نہ تھا۔
یہ رتبہ بلند بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
4۔ چوتھا مقام ہے اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے تکالیف برداشت کرنا اور تبلیغ دین کی راہ میں مصائب جھیلنا۔ یہ کام ہر کسی کے بس کا روگ نہیں اور ہر کوئی اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر حاکم مدینہ نے جبری طلاق کو جائز قرار دے دیا ہے تو اس کے سامنے سینہ سپر ہونے والے امام مالک تھے اور پھر اس راستے میں جو جو تکالیف انہوں نے اٹھائیں وہ محتاجِ تعارف نہیں ہیں۔ کیا وہ وقت بھلایا جا سکتا ہے جب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو گدھے پر بٹھا کر مدینۃ الرسول میں پھرایا جا رہا تھا اور وہ پکار پکار کر اعلان کر رہے تھے
من عرفني فقد عرفني ومن لم يعر غني فأنا مالك ابن أنس وطلاق المكره ليس بجائز(جس نے مجھے پہچان لیا سو پہچان لیا جس نے نہیں پہچانا تو جان لے کہ میں مالک بن انس ہوں اور جبری طلاق ہرگز جائز نہیں)
اور اگر اس کے بعد حجاج بن یوسف نے تلوارِ ستم بلند کی تو اس کے سامنے ڈٹ جانے والے سعید بن جبیر ہی تھے۔ کیا اس وقت علماء کی کمی تھی؟ نہیں ہرگز نہیں حق کی طرف بلانے والے خدا کی طرف بلانے والے اور بھی بہت تھے لیکن حق پر ڈٹ جانا مشقتیں برداشت کرنا صرف انہی کے حصہ میں تھا۔
نیزاگر ماموں نے قرآن کو مخلوق کہا تو اس سے ٹکرانے والے احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ہی کیوں تھے؟ درحقیقت یہ ایک عزیمت ہے جو کسی کسی کے حصہ مین آتی ہے۔ مصائب کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ آپ ایک دفعہ کہہ دیجئے (القران مخلوق) قرآن کلام اللہ نہیں بلکہ مخلوق ہے تو آپ کو معاف کر دیا جائے گا اور ساتھ ساتھ خلعت سے بھی نوازا جائے گا۔ یہاں ایک بات کہتا چلوں اسلام کی تبلیغ میں دو طرح کے مصائب پیش آتے ہیں۔ ایک کا تعلق جان سے ہے اور دوسرے کا تعلق ایمان سے ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو ان کو جان کی دھمکی دی جاتی ہے۔ طرح طرح سے تکلیفیں دی جاتی ہیں۔ جب وہ مرد آہن اس طرح قابو میں نہیں آتا تو اسے دولت کا لالچ دیا جاتا ہے۔ حکومت کی کرسی پیش کی جاتی ہے، یہ وہ حربہ ہے جس سے بچ نکلنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں، لیکن وہ جس نے اپنا سب کچھ خدا کے لیے وقت کر دیا ہوتا ہے اس پر نہ تو دنیا کا کوئی خوف اثر انداز ہو سکتا ہے اور نہ ہی لالچ اس کے پایہ ثبات کو متزلزل کر سکتا ہے اور وہ ہنسی خوشی تمام مصائب برداشت کر جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ پکارتا جاتا ہے۔
مصائب سے الجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے
اور وہ اس کے ساتھ اپنے مشن کی ناکامی دیکھ کر بھی نہیں گھبراتا بلکہ وہ کوشاں رہتا ہے اور کہتا ہے
مجھے ناکامیوں پر اشک برسانا نہیں آتا
کیونکہ اس کے سامنے یہ بات ہوتی ہے، وہ سمجھتا ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا، جب میری محنت پھل لائے گی۔ امام احمد بن حنبل پر سختیوں کے پہاڑ توڑے گئے، لالچ دیے گئے لیکن ان پر ان کے یہ تمام جال ناکام ہو کر رہ گئے۔ بظاہر ان کا مشن ناکام نظر آتا ہےلیکن ان کے یقین محکم اور عمل پیہم نے دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ جیت ہمیشہ حق کی ہی ہوتی ہے ذرا آدمی استقلال سے کام تو لے۔ ویسے تو امام احمد بن حنبل پہلے ہی کون سے کم ہمت تھے لیکن ایک واقعہ ان کی ہمت میں غیر معمولی طاقت کا باعث ہوا۔ وہ یہ کہ امام صاحب کو پابہ زنجیر لے جایا جا رہا تھا۔ راستے میں بغداد کا مشہور ڈاکوابن الہثیم ملتا ہے،وہ کہتا ہے ، اے ابن حنبل میں ایک ڈاکو ہوں اور ہوں بھی باطل پر۔ میرے جسم پر تقریبا اٹھارہ ہزار کوڑوں کے نشان ہیں لیکن میں نے ہار نہیں مانی۔ افسوس ہے تم پر کہ حق پر ہوتے ہوئے بھی تمہارے پاؤں لرز جائیں۔ امام صاحب فرماتے ہیں اس سے پہلے میری حالت گوں مگوں کی سی تھی کیونکہ مجھے بعض احباب نے مشورہ دیا تھا کہ آپ زبان سے اس کا اقرار کر لیں (کیونکہ اس کی اجازت ہے ﴿إِلّا مَن أُكرِهَ وَقَلبُهُ مُطمَئِنٌّ بِالإيمـٰنِ﴾ لیکن ابن الہثیم کے ملنے کے بعد میرے عزائم پختہ ہو گئے۔ اس کے بعد امام موصوف زندگی بھر ڈاکو کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہے۔
کیا یہ عزیمت ہرکس و ناکس کو سونپی جا سکتی تھی؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اس کے بعد اگر ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے لوگوں کو جادہ حق کی طرف بلایا تو ان پر کیا کچھ ستم نہیں ہوئے لیکن انہوں نے کس پامردی سے حالات کا مقابلہ کیا اس سے بڑھ کر اور کیا مقابلہ کرتے کہ موت بھی آئی تو زنداں میں؟
اسی طرح چلتے چلتے، جہانگیر کے دور میں اگر یہ عزیمت کا خلعت کسی کو نصیب ہوا ہے اور جس نے اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے تکالیف برداشت کی ہیں تو وہ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی ہیں۔ دوسری طرف جمال الدین افغانی، حسن البناء شہید، شاہ اسمعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ، شاہ احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ، امام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کوششیں کیں اور ہر اس مصیبت کا مقابلہ کیا جو اس راہ میں پیش آئی۔
اور اسی طرح علمی میدان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بعد محدثین عظام نے اگر تکالیف برداشت کی ہیں تو وہ انہی کا خاصہ تھا اور ہندوستان میں اگر شاہ ولی اللہ اور ان کا خاندان اس میں پیش پیش رہا ہے تو وہ ان ہی کے شایانِ شان تھا۔ کیا یہ وہی نہیں ہیں جنہوں نے سب سے پہلے قرآن مجید کا ترجمہ فارسی میں کیا تھا۔ جس کی وجہ سے ان پر کیا کچھ ستم نہیں ہوئے، کفر و ارتداد کے فتوے لگائے گئے تھے۔ طرح طرح سے تنگ کیا گیا آخر یہ کیوں؟ ابن حنبل نے کوڑے کھائے تو کیوں؟ بخاری کو ترکِ وطن کرنا پڑا تو کس لیے؟ شاہ اسمعیل کو شہید کیا گیا کس وجہ سے؟ سید عبداللہ غزنوی کو غزنی سے ہجرت پر کیوں مجبور کیا گیا؟ ان لوگوں کا کیا جرم تھا؟ صرف یہی ناکہ وہ اسلام کے بلند کرنے والوں میں سے تھے دراصل بات یہ ہے کہ مسلمان کا مقصدِ حیات ہی انہیں مصائب کو جھیلنا ہے کیونکہ اس کے بغیر خدا کی خوشنودی حاصل نہیں کی جا سکتی۔
یہ اس لیے کہ مسلمان کے لیے یہ عین حیات ہے۔ اس میں مسلمان کو راحت ملتی ہے۔ اس سے خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ اس سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوتی ہے۔ اس سے دنیا اور آخرت میں سرخروئی ملتی ہے۔ اس میں کمالِ زندگی ہے۔ یہ تو تھا جہاد النفس اس کے بعد جہاد الشیطان ہے، جس کے دو مراتب ہیں۔
1۔
"جهاده على دفع ما يلقي من الشبهات" (شیطان کے شکوک و شبہات سے بچنا)
2۔
" على دفع ما يلقي من الشهوات" (شہوات سے بچنا)
شیطان انسان پر دو طرح کے حملے کرتا ہے، پہلا حملہ یہ ہوتا ہے کہ اسلام کے بارے میں متذبذب کرتا ہے، آدمی کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ حملہ اس کا اتنا سخت ہوتا ہے کہ بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اس سے بچنے کے لیے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہ ہے یقینِ کامل جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معراج سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ سے اپنے آسمان پر جانے اور راتوں رات واپس آنے کا واقعہ بیان کیا تو اس وقت ابوجہل نے منصوبہ سوچا کہ یہ بہت اچھا وقت ہے جس سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدظن کیا جا سکتا ہے تو اس وقت اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ شیطان صفت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا اے سردار کیا آپ کی عقل تسلیم کرتی ہے کہ ایک آدمی رات ہی رات میں بیت المقدس جائے اور واپس بھی آ جائے؟ انہوں نے کہا، نہیں۔
پھر اس نے کہا جو آدمی یہ دعویٰ کرے اس کے بارے میں کیا خیال ہے۔ آپ نے فرمایا میں اس کی بات ہرگز تسلیم نہیں کروں گا تو جھٹ سے ابوجہل بولا وہی جس کو آپ اپنا رہبر مانتے ہیں اس نے یہ دعویٰ کیا ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کیا واقعی؟ اس نے کہا ہاں واقعی۔ تو آپ نے فرمایا پھر یہ سچ ہے۔
﴿فبهت الذي كفر﴾ (کافر ذلیل ہو گیا)
یہ کیا تھا یہ یقین کامل ہی تھا جو ابلیس کے اس حنلے کو روکنے کا سبب بنا۔ یہ شیطانی حملہ ہی تو ہوتا ہے جو کہ انسان کو اس بات پر اکساتا ہے کہ وہ خدا کا انکار کرے۔ انسان کے دل میں یہ وسوسہ پیدا کرتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی ذات تمام دنیا کی صانع ہو اور وہ بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جس کا شکار آج کل کا ماڈرن طبقہ ہے۔
شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ ایک دفعہ کہیں جا رہے تھے کہ ہاتف سے آواز آئی۔ "عبدالقادر میں نے تیرے تمام گناہ معاف کر دیے ہیں اب تجھے عبادت کی ضرورت نہیں۔" یہ ایک ایسا شبہ تھا اگر خدا پر یقین کامل نہ ہو تو اس سے بچ نکلنا بہت مشکل ہے۔ شیخ صاحب نے سوچا کہ خدا نے تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عبادت سے منع نہ کیا (کیونکہ عبادت میں ہی اللہ کی خوشی ہے) توفورا لا حول پڑھا۔ شیطان بھاگ کھڑا ہوا ۔۔۔ اور جاتے جاتے ایک اور حملہ کر دیا کہنے لگا۔ "عبدالقادر تجھے تیرے علم نے بچا لیا ہے۔"
آپ نے فورا جواب دیا نہیں بلکہ مجھے میرے خدا نے تیرے شر سے محفوظ رکھا ہے۔ یہ تھا یقین کامل کہ اللہ تعالیٰ کا وطیرہ ہی یہ نہیں ہے کہ کسی کو عمل سے منع کرے اور یہی یقین کاملِ شیخ کو شیطان کے حملے سے محفوظ رکھنے کا سبب بنا۔ شیطان کا دوسرا حملہ انسان کو خواہش پرست بنانا ہوتا ہے۔ جس سے بچنے کے لیے صبر کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ خدا نے قرآن میں فرمایا:
﴿ وَجَعَلنا مِنهُم أَئِمَّةً يَهدونَ بِأَمرِنا لَمّا صَبَروا ۖ وَكانوا بِـٔايـٰتِنا يوقِنونَ ﴿٢٤﴾ چونکہ انبیاء دنیا کے رہبر بن کر آتے ہیں جن پر شیطان کے حملے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے تو خدا نے اسی لیے ان میں صبر کا مادہ زیادہ رکھا ہوتا ہے اور پھر اس میں تفاوت ہوتا ہے۔ جس قدر کسی نبی کا مقام و مرتبہ بلند ہوتا ہے اسی قدر اس میں یہ مادہ زیادہ ہوتا ہے۔ خدا نے قرآن میں حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا
﴿انه اوّاب﴾ خدا کی طرف رجوع کرنے والا۔ یعنی جس میں جس قدر صبر ہے وہ اسی قدر ہی خدا کی طرف مراجعت کرتا ہے۔ الحاصل خدا کی طرف رجوع کرنے والے پر شیطان کا حملہ کارگر نہیں ہو سکتا اور خدا کی طرف رجوع صبر کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ کیا صبر کے بغیر انسان دنیا کی رنگینیوں سے باز رہ سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ صبر کے بغیر انسان نہ تو دنیا کے لہو و لعب سے باز رہ سکتا ہے اور نہ ہی شیطان کے حملوں سے بچ سکتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ صبر اور یقین سے مسلح ہو کر ہی انسان شیطان کے حملوں سے محفوظ رہ سکتا ہے اور اس سے جہاد کر سکتا ہے اس کے بغیر یہ ناممکنات میں سے ہے کیونکہ وہ قانونِ قدرت ہے جس سے مفر انسان کے بس کا روگ نہیں۔
3۔ تیسرا جہاد کفار و منافقین سے ہے جس کے چار مراتب ہیں:
دل و زبان، مال و جان
دل کے ساتھ جہاد سے مراد یہ ہے کہ کسی میں برائی دیکھی لیکن روکنے کی طاقت نہیں تو دل ہی دل میں البغض فی اللہ کے تحت اس سے دشمنی رکھنا جہاد مع القلب کہلاتا ہے۔ زبان کے ساتھ جہاد سے مراد یہ ہے کہ جب کسی میں برائی دیکھے تو اسے منع کر دے۔
مال کے ساتھ جہاد ۔۔۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ مال کے بغیر دنیا کا کوئی کام بھی پائی تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا اور انسان کے کام ادھورے رہ جاتے ہیں۔ اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے مال کی ہی طلب ہوتی ہے۔ اگر کوئی دنیا میں عزت کا متلاشی ہے تو اسے بھی مال ہی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ مال انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے۔ اسی مال کے لیے انسان اپنا ضمیر تک فروخت کرنے سے گریز نہیں کرتا اور یہی مال ہے جس کے لیے انسان انسان کے خون کا پیاسا ہے۔ لیکن یہی مال انسان کو خدا کے ہاں سرخرو کرنے میں معاون بنتا ہے گویا کہ یہ مال انسان کے لیے کبھی تو جنت کا سامان مہیا کرتا ہے اور کبھی جہنم کا ایندھن بنا دیتا ہے۔
جہاد مع المال فرض ہونے کا فلسفہ یہ ہے کہ پیاری دینے سے انسان عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے چونکہ مال انسان کو بہت عزیز ہے اس لیے اس کو دینے کا حکم ہوا۔
جہاد مع النفس، تو اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
کیونکہ جب کوئی شخص کلمہ پکارتا ہے تو اس کا مال و جان سب خدا کے ہو جاتے ہیں تو خدا کی چیز خدا کو دی جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟ جب کہ اس کے بدلے میں جنت کا ٹکٹ بھی مل رہا ہو۔
میرے خیال میں یہ سودا کچھ مہنگا نہیں۔
4۔ المرتبۃ الرابعہ: چوتھا درجہ جہاد کا یہ ہے کہ آمر وقت کے سامنے کلمہ حق کہا جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
«أفضل الجهاد كلمة حق عند سلطان»جس کی مثال اگر دیکھنا مقصود ہو تو سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ، مالک بن انس رضی اللہ عنہ، احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ، ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ، جمال الدین افغانی، مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ، شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ، سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ، شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ، اور دورِ حاضر کی کئی مذہبی و سیاسی نامور شخصیتوں کی سوانح حیات اٹھا کر دیکھ لو۔
یہ لوگ اپنے اپنے زمانے کے جابر کے سامنے کلمہ حق کہتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ان میں سے کئی تو وہ ہیں جنہوں نے اربابِ ظلم سے مقابلہ کیا اور بعض وہ ہیں جنہوں نے منکرین اور مبتدعین سے ٹکر لی اور اس طرح کلمہ حق سنا کر جہاد کا حق ادا کیا۔
ابنِ جبیر رحمۃ اللہ علیہ کو حجاج کے سامنے لایا جاتا ہے، حجاج سوال کرتا ہے۔
تیرا میرے بارے میں کیا خیال ہے؟
جواب ملتا ہے، انت العادل القاسط، لوگ خوش ہوتے ہیں کہ ابن جبیر رحمۃ اللہ علیہ نے حجاج کی تعریف کر دی ہے شاید اس کی جان بچ نکلے۔ لیکن حجاج سوچتا ہے اور حاضرین سے سوال کرتا ہے کہ اس نے میرے متعلق کیا کہا ہے؟ حاضرین جواب میں کہتے ہیں، سرکار اس نے آپ کی تعریف کی ہے۔ حجاج غصے سے بھر جاتا ہے اور کہتا ہے تف ہے تمہاری عقل پر اس نے تو مجھے جہنمی کہا ہے کیونکہ عادل کے یہ معنی بھی ہیں کہ خدا کی حدود پامال کرنے والا اور قاسط کے معنی ہیں جہنم کا ایندھن، کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن میں کہا ہے ﴿ وَأَمَّا القـٰسِطونَ فَكانوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا ﴿١٥ ﴾ کہ قاسط جہنم کا ایندھن ہیں۔
اسی طرح شاہ بخاری کے پاس انگریز حکومت کا سیکرٹری آتا ہے اور پوچھتا ہے کوئی خدمت میرے لائق ہو تو فرمائیے۔
سید عطاءاللہ فرماتے ہیں خدا کے سوا کسی سے کچھ مانگنا میرے مسلک میں کفر ہے۔ پھر وہ سوال کرتا ہے تمہیں محبت کس چیز سے ہے؟ جواب ملتا ہے قرآن سے، پھر وہ سوال کرتا ہے اور دشمنی کس سے ہے؟ جواب آتا ہے ، انگریز سے۔
﴿فبهت الذي...........﴾اگر شورش کو پیشاب کے گڑھے میں غوطے دئیے گئے تو کس وجہ سے؟ اس کی کیا خطا تھی؟ یہی ناکہ اس نے باطل کے سامنے کلمہ حق کہا تھا۔ اس نے انگریز کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا تھا اور اگر زندگی بھر زنداں میں رہنا پڑا تو کیوں؟ اس لیے کہ اس نے ہر جابر کے سامنے کلمہ حق بلند کیا تھا۔
یہ ہے افضل الجہاد، خدا ہمیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین، تاکہ ہم بھی خدا کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔ (آمین ثم آمین)
حوالہ جات1.بہتر یہ ہے کہ غیر مسلم مؤرخ یا مفکروں کے اقوال اسلام کی تائید میں پیش کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ اب یہ مرعوبیت ختم ہونی چاہئے ان کو "سند" کے طور پر پیش کرنا نئی نسل کو ذہنی غلامی کے لیے زنجیریں مہیا کرنے کے مترادف ہے (زبیدی)
2. احادیث بحوالہ بیان کرنا چاہئیں 120 (زبیدی)