﴿إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ﴾
"زمین اللہ ہی کی ہے"
کیونکہ وہ اس کا خالق اور مالک ہے اور پوری طرح وہ اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اس کی مرضی اور منشا کے سامنے عاجز اور تابع فرمان ہے۔
﴿فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ ﴿١١﴾... سورة فصلت
"تو اس (کہر) کو اور زمین کو حکیم دیا کہ تم دونوں (میرے حضور لگے) آؤ! خوشی خوشی یا زبردستی (بہرحال آنا ہو گا) دونوں نے عرض کیا کہ (حضور) ہم خوشی سے حاضر ہیں۔"
زمین اللہ کی ملکیت ہے، یہ قید احتراز نہیں، اتفاقی ہے، کیونکہ جو بھی شے ہے، سب اس کی ملکیت اور غلام ہے۔ "شے" کا مفہوم ہی یہ ہے کہ وہ چیز جس کا وجود اور ظہور کسی برتر ہستی کی مشیت کا تقاضا ہو۔
جو سوشلسٹ ٹالہ، خدا کی ہستی کا قائل نہیں ہے، وہی اس آیت کو پیش کر کے بندگانِ خدا کی "عدم ملکیت زمین" کا اثبات کرتا ہے۔ دراصل یہ وہ لالچی اور دوں ہمت اباحی ٹولہ ہے، جو چاہتا ہے کہ کسی روک ٹوک کے بغیر ہر شے کا مزہ چھکے، جو خود کمایا اس کا بھی اور جو کسی نے کمایا اس کا بھی ۔۔۔ انہوں نے فکر و نظر اور علم و ہوش سے معیارِ فضیلت چھین کر "ہتھورے اور رتھ کھینچنے والے ہاتھوں" کو تھما دیا ہے، گویا کہ ان کے نزدیک انسان سے حیوان افضل ہے، ہل چلانے والے کی بہ نسبت بیل برتر ہے۔
خدا کی ملکیت صرف مین تک محدود نہیں، ذرہ ذرہ پر اس کی حکومت حاوی ہے تو کیا کچھ بھی انسان کی ملک میں نہ رہے؟ تنور سے آپ جو روٹی لاتے ہیں اور دکان سے جو دال خرید کر کھاتے ہیں، آپ اگر اس کے پس منظر پر نظر ڈالیں تو آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں کہ روٹی اور دال بننے تک کتنی قدرتی اور غیر قدرتی طاقتوں نے اپنی توانائیاں کھپا کر ان کو جنم دیا تب جا کر کہیں وہ آپ کے منہ کا تر نوالہ بنیں۔ تو پھر محض دو ٹکے دے کر آپ ان کے مالک کیسے بن گئے۔ کوئی زور آور اگر آپ سے چھین کر اسے اڑا لے تو دوسرے کے لیے وہ آخر کیوں ناجائز قرار پائے؟ دراصل ایسی باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جن کا ہاتھ دوسرے کے مال میں ہوتا ہے، اگر وہی ہاتھ ان کے مال میں جا پڑیں تو یقینا وہ ایسی اباحی باتیں نہ کریں اور نی پھر کسی کی ملکیت کی حکمتیں اور فلسفے اگلنے لگیں۔
یہ زمین اللہ کی ملکیت ہے۔ اس نے خود ہی ابن آدم کو اس پر بسایا ہے اور اسے یہ حق دیا ہے کہ وہ اس سے استفادہ کرے۔
﴿وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ ﴿٣٦﴾... سورةالبقرة
"اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے۔"
یہ قیام اور برتنا جانوروں جیسا نہیں ہے کہ جہاں سے چاہا اور جتنا چاہا کھا پی لیا، کیونکہ اس طرح تو انسان کی زندگی "تصادم" سے عبارت بن جاتی، طاقتور کمزور کو بھٹکا کر چھا جاتا، اس سے جو طاقتور ہوتا وہ اسے مار بھگاتا، بس شب و روز اسی لتاڑ پچھاڑ میں گزر جاتے۔ یہ جیسا انسان کے لیے دو بھر ہو جاتا۔
منکرِ خدا سوشلسٹ کے لیے بھی آج اس فلسفہ کو قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایسے فلسفے پر زندگی کی تخریب تو ممکن ہے تعمیر ناممکن ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جس کو ہر انسان محسوس کر سکتا ہے۔ لیکن سیاسی شاطروں نے عوام کو گرما کر ان کی مقید محنتوں کی بنیادوں پر اپنی بے قید عشرتوں کے محل اور عشرت کدے تیار کر ڈالے ہیں مگر عوام ان جیب کترے شاطروں کو سمجھنے سے اب بھی قاصر ہیں ۔۔۔ آج جو ان کے خواص کو آرام، چین اور وسائل زیست مہیا ہیں اور مزدوروں کے خون پسینہ کی کمائی کے نتیجے میں مہیا ہیں وہ ان عوام اور مزدوروں کو خوابوں میں بھی نظر نہیں آ سکتے ۔۔۔ عوام کالانعام ہوتے ہیں جو موہوم امیدوں پر نقد بھی ہار بیٹھتے ہیں۔ آج وہ سبز باغوں کے افسانے سن سن کر دل کو بہلاتے ہیں، مگر افسوس پہلے سے زیادہ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں، جو آتا ہے انہیں استعمال کرتا ہے اور یہ استعمال ہوتے آ رہے ہیں اور استعمال ہو کر شیخ چلی کی طرح سوچنے لگ جاتے ہیں کہ کل جب اٹھیں گے تو اس کے عوض صبح کو ان کے دروازے پر ایک کار کھڑی ہو گی، ایک محل میں آنکھیں کھلیں گی، عیش و عشرت کے سامان دست بستہ کھڑے ہوں گے اور یہ راج دلارے شاہزادوں جیسی زندگی گزاریں گے ۔۔۔ مگر جب آنکھ کھلی تو یار دوستوں نے کہا کہ چلیے صاحب! یہ دانتری اور یہ پھاؤڑا اور کدال پکڑیے! اور اتنے گھنٹے جت کر کام کیجئے۔ تنہا تم نہیں، اپنی بیوی، معصوم بچی بوڑھے ماں باپ کو بھی ہانک کر لے جائیے! اگر ان کو کھانا ہے تو کمانا بھی چاہئے! ہاں شیرخوار بچوں کو ہسپتال چھوڑ جائیے وہاں ان کی دیکھ بھال ہو گی ۔۔۔ یہ وہ حیوانیت ہے جو حیوانوں کے لیے، بھی قابلِ برداشت نہیں۔ جو کتیا بچے دیتی ہے وہ بھی یہ برداشت نہیں کرتی کہ کوئی اس کے بچے اس سے چھین کر لے جائے، چہ جائیکہ وہ جا کر اس کے حوالے بھی کر آئے۔
بہرحال یہ اللہ کی زمین ہے جس سے استفادہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے نیچے بچھا دیا ہے۔ چنانچہ انسانوں نے حسبِ صلاحیت اس سے کام لیا ہے، لے رہے ہیں اور لیتے جائیں گے۔ اس سے پانی نکالا، تیل کشید کیا، کوئلہ، چاندی، سونا اور دوسری مختلف دھاتیں اور کیسیں برآمد کیں۔ کسی نے خوشگوار حصے پر ڈیرے ڈالے، بعض نے زرخیز زمینوں کو حاصل کیا۔ کسی جگہ کسی نے جھونپڑا بنایا، کسی نے کوٹھا اور کسی نے ایوانِ شاہی اور فلک بوس محلات تعمیر کیے۔
الغرض جو جس سے بن پڑا کیا، اور دنیا نے اس کی تخلیقات کا احترام کیا اور اعتراف کیا۔ اب کچھ عرصہ سے زمین کے سلسلے میں تو باتیں چل نکلی ہیں لیکن دوسرے دائروں میں پوری طرح خاموشی طاری ہے۔ یہ کبھی سوال نہیں اٹھایا گیا کہ بعض لوگوں کے پاس وسیع اور عریض کوٹھیاں کیوں ہیں، جس کوٹھی میں پندرہ کنبے سر چھپا سکتے ہیں، وہ کسی فردِ واحد کے پاس کیوں ہے؟کوسچن اتنی بڑی عمارت کو کیا کرے گا، جہاں ایک شخص کو زہرہ گداز محنت کرنے کے بعد قوت لا یموت حاصل ہوتی ہے وہاں فلاں حکمران کو ہزاروں شاہی نخروں کے علاوہ انواع و اقسام کے کھانے، کپڑے، سواری اور دوسرے سامان عیش کیوں میسر ہیں ۔۔۔؟ ہاں جب بات یہ چلی کہ فلاں شخص حکومت کرتا ہے اور ہم اس کی نوکری کرتے ہیں، تو قومی نمائندوں کا فریب دے کر جمہوریت کی شراب سے لوگوں کو بے خود کر ڈالیے، اب وہ سمجھنے لگے کہ گویا ہم بھی حکمران ہیں۔ حالانکہ وہ حکمران ہے وہی حکمران ہے، دوسرے سو کہیں کہ ہم بھی حکمران ہیں مجذوب کی بڑ سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔
ہمارے نقطہ نظر سے جس طرح زندگی کی دوسری کمائیوں کا مالک کمانے والا آپ ہوتا ہے، وہ کمائی اس کی ضروریات سے وافر ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح زمین بھی اگر جائز طریقے سے حاصل کردہ ہے تو وہ بھی خواہ کتنی ہو، اس کا وہ جائز مالک ہے، خود کاشت کرے یاکسی سے کرائے۔ وہ ہر طرح کا اختیار رکھتا ہے۔
﴿وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا ﴿٣٢﴾ كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ آتَتْ أُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِم مِّنْهُ شَيْئًا ۚ وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا نَهَرًا ﴿٣٣﴾ وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ...٣٤﴾... سورة الكهف
" (اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں میں سے ان دو شخصوں کی مثال بیان کریں، جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دے رکھے تھے اور ہم نے ان کے گردا گرد کھجور کے درخت لگا رکھے تھے اور ہم نے دونوں (باغوں) کے بیچ بیچ میں کھیتی (بھی) لگا رکھی تھی، دونوں باغ اپنے پھل (خوب) لائے اور پھل (لانے) میں کسی طرح کی کمی نہ کی اور دونون باغوں کے درمیان ہم نے نہر بھی جاری کر رکھی تھی، تو باغوں کے مالک کے پاس (ہمہ وقت طرح طرح کی) پیداوار موجود رہتی تھی۔"
ان آیات میں جن دو باغوں کا ذکر ہے، ظاہر ہے کہ وہ کوئی چھوٹی سی مرلے مرلے کی کوئی کیاری نہیں ہو گی، کیونکہ دونوں کے درمیان قابلِ زراعت زمین بھی باقی تھی، اور ان کے درمیان نہر بھی چلتی تھی ۔۔۔ درمیان میں نہر کے جاری ہونے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کافی اور وافر رقبہ تھا جو فردِواحد کی خود کاشت سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ ایسے رقبہ کے متعلق فرمایا کہ یہ خدا نے ان کو عطا فرمایا تھا۔ گویا کہ وہ اس کی جائز ملکیت تھی، قابلِ زعارت وہ رقبہ گو ذاتی ضروریات سے زیادہ تھا تاہم اس کا مالک فردِ واحد تھا اور اسے جائز مالک تصور کیا گیا ہے۔