زمین اس کی جو کاشت کرے؟
ایک صاحب پوچھتے ہیں کہ:
متحدہ محاذ کے ذمہ دار لیڈروں نے بالخصوص امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد اور مولانا مفتی محمود نے واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کیا ہے کہ:
زمین اس کی جو کاشت کرے، کیا یہ صحیح ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
الجواب
سب سے پہلے اس کا ذکر "پاکستان قومی اتحاد" کے منشور میں ان الفاظ میں کیا گیا کہ:
مزارعت کا ہر طریقہ جو شریعت کے خلاف ہو ختم کر دیا جائے گا اور شرعی احکام کے مطابق "بالآخر" زمین اسی کی ہو گی جو اس کو کاشت کرے گا۔
اس کے بعد مفتی محمود نے اپنے ایک اخباری بیان میں اس کا ذکر کیا جو تمام اخبارات میں شائع ہوا، پھر یکے بعد دیگرے محاذ کے مختلف لیڈر مختلف اوقات میں اسے بیان کرتے رہے تا وقت تحریر آج (23/فروری سئہ 1977ء) ہی اس سلسلے کا جو ایک بیان اخبارات میں شائع ہوا ہے وہ میاں طفیل محمد کا بیان ہے۔ اس میں وہ فرماتے ہیں:
"اگر ہم برسراقتدار آگئے، تو مزارع اور مالک کا صدیوں پرانا نظام ختم کر دیا جائے گا اور جو شخص اپنی زمین کاشت کرے گا وہی مالک ہو گا۔ جو زمین خود کاشت نہیں کرے گا وہ اپنے کسی عزیز یا رشتہ دار کے نام کر سکے گا یا فروخت کر سکے گا۔ اسے یہ زمین اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ (نوائے وقت 23 فروری)
یہ ملحوظ رہے کہ متحدہ محاذ مندرجہ ذیل جماعتوں پر مشتمل ہے۔
آل جموں و کشمیر کانفرنس، پاکستان جمہوری پارٹی، پاکستان مسلم لیگ، تحریک استقلال، جماعت اسلامی، جمیعۃ علمائے اسلام، جمیعت علمائے پاکستان، پاکستان خاکسار تحریک، نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی (منشور پاکستان قومی اتحاد ص2)
ان میں صرف تین جماعتیں ایسی ہیں جن کو جماعتی حیثیت سے دین سے دلچسپی اور مَس ہے اور وہ دینی نزاکتوں سے واقف بھی ہو سکتی ہیں، ایک جماعت اسلامی، دوسری جمیعۃ علمائے اسلام اور تیسری جمیعۃ علمائے پاکستان، جہاں تک شرعی احکام اور علم کی بات ہے اس کی رو سے عالم دین صرف موخر الذکر دو جماعتوں کے قائدین ہیں۔ مفتی محمود اور احمد شاہ نورانی، اور یہ دونوں حنفی ہیں، محاذ میں باقی جماعتوں کے رہنما مسلمان ضرور ہیں مگر کتاب و سنت کے عالم نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ دور حاضر کی سوشلسٹ تحریکوں کے چرکوں سے محفوظ بھی نہیں ہیں گویا ان کے نزدیک یہ بھی ایک غریب نوازی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ دین نوازی کی یہ بھی کوئی ایک شکل ہے۔
فکر ہرکس بقدر ہمت اوست
اگر غور سے دیکھا جائے تو ان دنیا دار سیاسی جماعتوں کی یہ "غریب نوازی" دینی جذبہ پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ ان کی سیاسی مصلحت بینی اور حکمتِ عملی کا ایک سیاسی داعیہ ہے۔ ان میں جو تین سیاسی جماعتیں ہیں، دیندار ہونے کے باوجود آج کل وہ بھی ہوا کا رخ دیکھنے کی بیمار ہیں۔ اس لیے ان کی کسی بات کو دین پر مبنی قرار دینا ضروری نہیں ہے اور نہ ان کو کوئی بات حرف آخر تصور کی جائے۔
کیونکہ یہ لوگ ابھی کئی رخ بدلیں گے ۔۔۔ دین کی خدمت کے ساتھ ساتھ ہمیں ان کے بعض خام پہلوؤں کی بنا پر یہ اندیشہ ہے کہ بعض ایسی باتیں جو دین نہیں ہیں، دین کہلانے لگ جائیں۔ کیونکہ ان سیاسی دینداروں کے نزدیک وقت اور حالات کے ساتھ احکام بھی بدل جاتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ وہ یہ بھی دعوت کرتے ہیں کہ اساسی تصورات غیر متغیز ہیں، گویا کہ وہ یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ درخت کا تو وہی رہتا ہے لیکن اس کے برگ و بار رنگ بدلنا شروع کر دیتے ہیں، یعنی کیکر کا درخت تو کیکر ہی رہے گا لیکن اس کے پتے اور پھل کبھی انگوروں کے برگ و بار بھی بن سکتے ہیں۔ یا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کبھی غیر اسلامی دنیا کی باتیں بھی اسلام کا جزو بن سکتی ہیں۔ غالبا یہ حضرات حالات اور وقت کے شرعی اور قدرتی پیمانوں کو نہیں سمجھ سکے ۔۔۔ ورنہ "تغیر زمان و حالات" کے کدال سے مسائل کو حل کرنے کی تکلیف میں نہ پڑتے۔ افسوس اس امر کا ہے کہ سیاسی میدان میں ایسا میخانہ ہے کہ اس میں عالم زاہد بھی قدم رکھ لیں تو ان کی پگڑی بھی اچھلنے لگ جاتی ہے۔ دنیاداروں کو کوئی کہاں تک روئے؟ دراصل علماء اور زہاد کی اکسیر، سیاسی مصلحت کیشی کے ہاتھوں عموما پٹ جاتی ہے۔ ایسی میدانون میں احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور احمد بھی بن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ جیسی عظیم روحیں سلامت رہ سکتی ہیں، باقی رہے دوسرے لوگ؟ علم و زہد کے باوجود ان کے لیے یہ سیاسی کانیں ، کانِ نمک ہی ثابت ہوتی ہیں۔
آنچہ درکانِ نمک رفت نمک شد
اس تمہید کی ضرورت صرف اس لیے پڑی ہے کہ ان جماعتوں سے حسنِ ظن رکھنے کے باوجود ان کی سلامت روی کے لیے خدا سے دعا بھی کرتے رہنا چاہئے اور جو کچھ وہ کریں یا کہیں ان کو بہرحال کتاب و سنت کی ترازو میں تولنے کی ضرور کوشش کی جایا کرے۔ کیونکہ وہ نیک اور نیک نیت سہی، تاہم وہ نبی یا خلفاء راشدین نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ابھی وہ نووارد بھی ہیں اور وہ ماحول اور فضا ابھی غائب ہے جو احکام اور مسائل کی روح کو سمجھنے کے لیے مدد دے سکتی ہے۔
لعل الله يحدث بعد ذلك أمرامتحدہ محاذ میں چونکہ دینی نقطہ نظر کی حامل جماعت اسلامی یا صرف حنفی بزرگ ہیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اس سلسلے میں پہلے انہی کے افکار پیش کئے جائیں، ان کے بعد کتاب و سنت کی روشنی میں اس مسئلہ کی اصلی نوعیت واضح کی جائے۔
جماعت اسلامی کے بانی: مزارعت کے مسئلہ پر جماعت اسلامی کے داعی حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ جو خاصی بصیرت افروز ہے، یہاں پر اس کے کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔
"اس میں صریح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بٹائی پر زمین کاشت کے لیے دی، اپنی طرف سے بھی، حکومت کی طرف سے بھی اور ان پندرہ سو افراد کی طرف سے بھی جن کا حصہ خیبر میں تھا، اس طریقہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آخری لمحہ حیات تک عامل رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شیخین (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کا عمل بھی اسی پر رہا، کیا اس کے بعد بھی کسی کو گمان ہو سکتا ہے کہ اسلامی قانون میں بٹائی پر زمین کاشت کے لیے دینا ممنوع تھا؟ (مسئلہ ملکیت زمین ص48)
اسلام کے احکام اہل دوسرے کی ضد اور ایک دوسرے سے متناقض و متصادم نہیں ہیں ۔۔۔ یہ وہ خوبی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس دین کے منجانب اللہ ہونے کا ایک نمایاں ثبوت قرار دیا ہے لیکن اگر ہم یہ مان لیں کہ شریعت میں مزارعت ناجائز ہے اور یہ کہ شارع زمین کی ملکیت کو خود کاشتی تک محدود کرنا چاہتا ہے اور یہ کہ شارع آدمی کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ خود کاشتی کی حد سے زائد جتنی زمین اس کے پاس موجود ہو اسے یا تو دوسروں کو مفت دے دے یا بے کار ڈال رکھے تو ذرا سا غور کرنے پر ہمیں علانیہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ احکام اسلام کے دوسرے اصولوں اور قوانین سے مناسبت نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر تناقض کی چند نہایت صریح صورتیں ملاحظہ ہوں۔
1۔ اسلامی نظام میں ملکیت کے حقوق صرف ہٹے کٹے مردوں تک ہی محدود نہیں ہیں، بلکہ عورتوں ، بچوں، بیماروں اور بوڑھوں کو بھی یہ حقوق پہنچتے ہیں۔ اگر مزارعت ممنوع ہو تو ان سب کے لیے زرعی ملکیت بالکل بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔
2۔ اسلامی قانون وراثت کی رُو سے جس طرح ایک آدمی کی میراث اس کے مرنے پر بہت سے آدمیوں کے درمیان بٹ جاتی ہے، اسی طرح بسا اوقات بہت سے مرنے والوں کی میراث ایک آدمی کے پاس جمع ہو سکتی ہے، اب یہ کتنی عجیب سی بات ہے کہ اسلام کا قانون وراثت تو بیسیوں اور سینکڑوں ایکڑ تک زمین ایک شخص کے پاس سمیٹ لائے مگر اس کا قانون زراعت اس کے لئے ایک محدود زراعت اس کے لیے ایک محدود رقبے کے سوا باقی تمام ملکیت سے انتفاع کو حرام کر دے۔
3۔ اسلام نے کسی نوع کی ملکیت پر مقدار اور کمیت کے لحاظ سے کوئی حد نہیں لگائی ہے ۔۔۔ پھر آخر تنہا زرعی جائداد میں وہ کون سی خصوصیات ہے جس کی بنا پر صرف اس کے معاملہ میں شریعت کا میلان یہ ہو کہ اس کے حقوقِ ملکیت کے لحاظ سے محدود کر دیا جائے؟
4۔ فیاضانہ طریقہ سے مفت دے دینا اسلام پسند تو ضرور کرتا ہے مگر اسے فرض نہیں کرتا۔
5۔ اسلامی قانون نے تجارت، صنعت اور معاشی کاروبار کے تمام شعبوں میں آدمی کو اس بات کی کھلی اجازت دی ہے کہ وہ نفع و نقصان کی شرکت کے اصول پر دوسروں کے ساتھ مضاربت کا معاملہ کرے ۔۔۔ لیکن آخر اس بات کے لیے کون سے معقول وجوہ ہیں کہ ایک شخص اپنا سرمایہ زمین کی شکل میں دوسرے کو دے کر یہ نہ کہہ سکے کہ تو اس میں کاشت کر، پیداوار میں تہائی یا چوتھائی یا نصف کا میں شریک ہوں۔ (مسئلہ ملکیت زمین ص52 تا ص54 ملخصا)
اس سے پہلے ایک انتخابی منشور میں جماعت اسلامی یہ اعلان کیا تھا کہ:
6۔ مالکانِ اراضی اور کاشتکاروں کے درمیان انصاف قائم کرنے کے لیے حسب ذیل اصلاحات کا نفاذ۔
(ا)کاشتکار کو کم از کم اتنا قطعہ زمین اور اتنا حصہ پیداوار لازما دیا جائے جو بلحاظ اوسط اس کی بنیادی ضرورت کے لیے کفایت کر سکے۔
(ب) پیداوار کے مقرر حصہ یا طے شدہ لگان کے سوا مالکانِ زمین کو کاشتکاروں سے کوئی ٹیکس یا کوئی بلا معاوضہ خدمت لینے کا حق نہ ہو۔
(ج)مخصوص قانونی وجوہ کے سوا کسی کاشتکار کو زمین سے بے دخل نہ کیا جا سکے۔
(د)مالکوں اور کاشتکاروں کی باہمی شکایات رفع کرنے کے لیے ان کی مشترک پنچایتیں قائم کی جائیں۔ (ترجمان القرآن ص48-49 جلد45، عدد3،4)
لیکن حالیہ انتخابات کے منشور میں اس کے خلاف کہا گیا ہے۔ یہ منشور تنہا جماعت اسلامی کا نہ سہی، بہرحال ان کے بیان کی حیثیت تو ایک جماعتی حیثیت رکھتی ہے۔
مولانا کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ بٹائی کا طریقہ جائز ہے، ملاحظہ ہوں رسال و مسائل 2 ص 329)
احناف: حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک زمین کاشتکاری کے لیے دینا جائز نہیں ہے۔
قال ابو حنيفة المزارعة بالثلث والربع (قدوري) وهى فاسدة عند ابى حنيفة(هدايه)
امام محمد اور امام ابویوسف کے نزدیک، کاشتکاری کا سلسلہ جائز ہے۔ وقالا جائزۃ (ھدایہ)
اور اسی پر فتویٰ بھی ہے۔
ألا إن الفتوى على قولها لحاجة الناس إليها(هدايه)
ولاتصح عند الإمام لأنها كفقير الطحان وعند هما تصح وبه يفتى للحاجة وقياسا على المضاربة (درمختار مع شرح تنوير الأبصار)قال أبو يوسف :وكذلك الأرض عندي هي بمنزلة مال المضاربة (كتاب الخراج)
قال محمد: وبهذانأخذ لابأس بمعاملة النخل على الشطروالثلث والرابع ومزارعة الأرض البيضاء على الشطر والثلث والرابع وكان أبو حنيفة يكره(مؤطا)
وقال:عبدالحى:وبجوازه قال الجمهور روي عند ابي شيبه وغيره عن علي وابن مسعود سعد وجماعة من التابعين فمن بعدهم (التعليق الممجد علي مؤطا)
جماعت اسلامی کے راہ نماؤں اور احناف کے ائمہ اور فقہاء کی ان تصریحات کے بعد یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ میاں طفیل محمد صاحب اور مفتی محمود صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے، وہ جماعت اسلامی کے منشور، اس کے اولین داعی کی تصریحات اور فقہ حنفی کے فتوؤں کے بالکل خلاف ہے۔ اس لیے اگر وہ اپنے موقف پر نظرثانی فرما سکیں تو زیادہ مناسب رہے گا، ان کی جماعتی اور مسلکی روح کا اقتضا بھی یہی ہے۔ اس سلسلے میں جو بات دیکھنے کے قابل ہے وہ زاویہ نگاہ کی بات ہے، یعنی یہ کہ مزارعت ایک شراکت ہے۔ ان کے درمیان "آقا اور غلام" کی نسبت نہیں ہے۔ جہاں ایسی فرسودہ ذہنیت پیدا ہو جائے، وہاں بے شک اس کو سختی کے ساتھ دبا دینا چاہئے۔
مزارعت کے خلاف روایات : بعض روایات سے مترشح ہوتا ہے کہ کاشتکاری سسٹم جائز نہیں ہے۔ ان روایات کے راویوں کے سرخیل حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ یہ انصاری ہیں او ر زمیندار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس سلسلے کی بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خود نہیں سنی بلکہ اپنے دو چچاؤں سے سنی ہے۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت (کاشتکاری) سے منع فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مالک زمین خود کاشت کرے یا خود کاشت سے زائد زمین دوسرے بھائیوں کو دے دے۔
فَقَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا، وَطَوَاعِيَةُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ أَنْفَعُ لَنَا، وَأَنْفَعُ، قَالَ: قُلْنَا وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، أَوْ فَلْيُزْرِعْهَا أَخَاهُ، وَلَا يُكَارِيهَا بِثُلُثٍ وَلَا بِرُبُعٍ وَلَا بِطَعَامٍ مُسَمًّى»،(ابى داود:حديث3395) من كانت له فضول اوضين(ابن ماجه)
حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ نے بھی انہی کی روایت پر بھروسہ کیا تھا ورنہ ان کی معلومات اس سے مختلف تھیں۔
ثم خشي عبد الله أن يكون النبي صلى الله عليه وسلم قد أحدث في ذلك شيئا لم يكن يعلمه، «فترك كراء الأرض»(بخاري باب ماكان أصحاب النبي)حضرت جابر رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حصے پر زمین کاشت کے لیے دینے سے منع فرمایا تھا یعنی خود کاشت کیجئے یا دوسرے بھائی کو بخششیں کیجئے!
عن جابر رضي الله عنه، قال: كانوا يزرعونها بالثلث والربع والنصف، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «من كانت له أرض، فليزرعها أو ليمنحها، فإن لم يفعل، فليمسك أرضه»(صحيح البخاري:حديث 2340)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بھی یہی کہنا ہے:
عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كانت له أرض، فليزرعها أو ليمنحها أخاه، فإن أبى، فليمسك أرضه»(صحيح البخارى 2341)
صحیح صورتِ حال: ان روایات کے مجموعی مطالعہ سے جو بات سامنے آتی ہے، وہ اس سے مختلف ہے جو روایات کے الفاظ سے مترشح ہوتی ہے۔
ملکیت کی نفی نہیں: سب سے پہلی بات جو سمجھ لینی چاہئے، وہ یہ ہے کہ جن روایات میں آیا ہے کہ خود کاشت کرو، ورنہ کسی کو دے دو فليزرعها أو ليمنحها اس میں صرف یہ سفارش کی گئی ہے کہ اگر کسی کو دینی ہے تو پھر زائد زمین کسی ضرورت مند کو دے دی جائے تاکہ اور کوئی فائدہ اٹھا لے اس سے غرض ملکیت کی نفی نہیں ہے، اس لیے فرمایا ورنہ زمین اپنے گھر رکھ لیجئے۔
فإن لم يفعل، فليمسك أرضه»(صحيح البخارى)فإن لم يمنحها أخاه فليمسكها(مسلم) فان ابي فليمسك (مسلم)ایسا کیوں فرمایا؟ کسی کو استفادہ کے لیے دے دیجئے، یا پھر گھر رکھ لیجئے! یہ بات کیوں اور کس موقعہ پر فرمائی؟ بات دراصل یہ ہوئی کہ مالک زمین اور کاشتکار، آپس میں لڑ پڑے تھے، آپ نے فرمایا کہ دینی ہے تو پھر لڑئیے نہیں، اگر لڑنا ہے تو پھر زمین گھر رکھیے! حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ بخدا میں رافع بن خدیج سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو جانات ہوں، خدا اس کو معاف کرے اصل یہ بات ہوئی کہ دو انصاری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور لڑپڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر زمین ٹھیکے پر دو ہی نہیں۔
قال زيد بن ثابت:يغفر الله لرافع بن خديج أنا والله أعلم بالحديث منه إنما أتاه رجلان وقال مسدد:من قال الأنصار ثم أنفقا قد اقتتلا رسول اللهﷺ إن كان هذا شأنكم فلاتكرو المزارع(زاد مسدد) فسمع قوله :لاتكروالمزرع(رواه ابو داود باب في المزرعة) وأمر رب الأرض أن يزرعها أويزرعها كره كراءها(مسلم)
لڑے کیوں؟ لڑے کیوں؟ صرف اس لیے کہ مالک زمین، زمین کا زرخیز حصہ اپنے لیے مخصوص کر لیتا تھا۔ اب نوبت یہاں تک پہنچتی کہ کبھی کاشتکار کے حصے میں پیداوار ہو جاتی اور مالک خالی ہاتھ رہتا، کبھی اس کے برعکس صورت بن جاتی، ظاہر ہے جو گھاٹے میں رہتا اسے دوسرے سے الجھنے کی نوبت آ ہی جاتی۔
«لَا بَأْسَ بِهَا إِنَّمَا كَانَ النَّاسُ يُؤَاجِرُونَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا عَلَى الْمَاذِيَانَاتِ وَأَقْبَالِ الْجَدَاوِلِ، وَأَشْيَاءَ مِنَ الزَّرْعِ فَيَهْلَكُ هَذَا، وَيَسْلَمُ هَذَا، وَيَسْلَمُ هَذَا، وَيَهْلَكُ هَذَا، وَلَمْ يَكُنْ لِلنَّاسِ كِرَاءٌ إِلَّا هَذَا، فَلِذَلِكَ زَجَرَ عَنْهُ،(رواه ابوداؤد مسلم)«كُنَّا نُكْرِي الْأَرْضَ بِمَا عَلَى السَّوَاقِي مِنَ الزَّرْعِ وَمَا سَعِدَ بِالْمَاءِ مِنْهَا، فَنَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ،(ابوداؤد)قال: دعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «ما تصنعون بمحاقلكم؟»، قلت: نؤاجرها على الربع، وعلى الأوسق من التمر والشعير، قال: «لا تفعلوا، ازرعوها، أو أزرعوها، أو أمسكوها» قال رافع: قلت: سمعا وطاعة(رواه مسلم)
سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، يَقُولُ: كُنَّا فِي زَمَانِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَأْخُذُ الْأَرْضَ بِالثُّلُثِ أَوِ الرُّبُعِ بِالْمَاذِيَانَاتِ، فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ فَقَالَ: «مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، فَإِنْ لَمْ يَزْرَعْهَا فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ، فَإِنْ لَمْ يَمْنَحْهَا أَخَاهُ فَلْيُمْسِكْهَا»حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے اس ناگواز صورت کا خود بھی ذکر کیا ہے۔
أَنَّهُ سَمِعَ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ، يَقُولُ: كُنَّا أَكْثَرَ الْأَنْصَارِ حَقْلًا، قَالَ: «كُنَّا نُكْرِي الْأَرْضَ عَلَى أَنَّ لَنَا هَذِهِ، وَلَهُمْ هَذِهِ، فَرُبَّمَا أَخْرَجَتْ هَذِهِ، وَلَمْ تُخْرِجْ هَذِهِ، فَنَهَانَا عَنْ ذَلِكَ،(رواه مسلم)حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ اپنے دو چچاؤں سے بھی یہی استثنائی صورت بیان کرتے ہیں۔
عن رافع بن خديج، قال: حدثني عماي، أنهم كانوا يكرون الأرض على عهد النبي صلى الله عليه وسلم بما ينبت على الأربعاء أو شيء يستثنيه صاحب الأرض «فنهى النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك»(رواه البخاري)
ابن ماجہ میں روایت اور واضح آئی ہے۔
عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: كَانَ أَحَدُنَا إِذَا اسْتَغْنَى عَنْ أَرْضِهِ أَعْطَاهَا بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَالنِّصْفِ، وَيَشْتَرِطُ ثَلَاثَ جَدَاوِلَ، وَالْقُصَارَةَ، وَمَا سَقَى الرَّبِيعُ، وَكَانَ الْعَيْشُ إِذْ ذَاكَ شَدِيدًا، وَكَانَ يَعْمَلُ فِيهَا بِالْحَدِيدِ، وَبِمَا شَاءَ اللَّه(ابن ماجه)
عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ قَيْسٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ الْبَيْضَاءِ، فَقَالَ: «حَلَالٌ لَا بَأْسَ بِهِ، إِنَّمَا نُهِيَ عَنِ الْإِرْمَاثِ، أَنْ يُعْطِيَ الرَّجُلُ الْأَرْضَ، وَيُسْتَثْنِيَ بَعْضُهَا، وَنَحْوِ ذَلِكَ(باب كراء الأرض بالذهب والفضة)عَنْ نَافِعٍ قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ يُكْرِي أَرْضَهُ، فَأُخْبِرَ بِحَدِيثِ، رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: «قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ أَهْلَ الْأَرْضِ، يُعْطُونَ أَرَضِيَهُمْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَشْتَرِطُ صَاحِبُ الْأَرْضِ أَنَّ لِي الْمَاذِيَانَاتِ، وَمَا سَقَى الرَّبِيعُ، وَيَشْتَرِطُ مِنَ الْجَرِينِ شَيْئًا مَعْلُومًا» قَالَ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَظُنُّ أَنَّ النَّهِيَ لِمَا كَانُوا يَشْتَرِطُونَ(عبدالرزاق)اگر یہ بات نہ ہوتی اور بعض حضرات کے حسبِ ارشاد اس سے غرض زائد زمین کا چھین لینا ملحوظ ہوتا تو پھر اسے ٹھیکے پر دینے کی بھی اجازت نہ ہوتی، حالانکہ ٹھیکے پر دینے کی آپ نے اجازت دی تھی اور یہ بات خود حضرت رافع نے بیان فرمائی ہے۔
قال حنظلة بن قيس :فقلت لرافع: فكيف هي بالدينار والدرهم؟ فقال رافع: «ليس بها بأس بالدينار والدرهم»،(بخاري)
قال سعد: وأمرنا نكريها بذهب أوفضة(رواه ابو داؤد)
قال فقلت أمابالذهب والورق قال(أي رافع) أمابالذهب والورق فلاباس به(رواه مسلم)وأما الورق فلم ينهنا(مسلم)ولم ينه أن نكري الأرض بالورق (ابن حاجه) ورخص لنا أن نكريها بالذهب والورق (ابن حبان)
اگر زائد زمین کو گھر سے اٹھا کر پھینک دینے کی بات ہوتی تو پھر ٹھیکے پر دینے کی بھی اجازت نہ ہوتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ صرف ایک پیش آمدہ مفسدہ کی روک تھام کے لیے مزارعت سے روکا گیا تھا۔ کیونکہ اس وقت جو مزارعت رائج تھی وہ حق تلفی اور ظلم و زیادتی پر مبنی تھی۔ چنانچہ اس سے جھگڑے بھی پیدا ہوئے، جیسا کہ اوپر مذکور ہوا، مزارعت سے روکنے کی اس وقت اصل صورت صرف یہ تھی کہ اگر یہ بات ہے تو پھر کاشت پر نہ دو گھر میں رکھو! یہ اندازِ گفتگو دراصل اس امر کا غماز ہے کہ مزارعت ٹھیک ہے لیکن تمہاری فلاں حرکت ناجائز ہے اور جب تک یہ باقی ہے، کاشت پر نہ دو۔
ہم اس بات کے سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حصے پر نہ دینے کے حکم سے یہ بات کیسے نکل آئی کہ زائد زمین رکھنا ہی جائز نہیں؟ اگر کاشت پر دینے میں حق تلفی یا جھگڑے کی کوئی صورت پیدا ہو جاتی ہے تو پھر ٹھیکے پر دے دیجئے! ۔۔۔ بہرحال کاشت پر دینے سے ممانعت کا لازمی نتیجہ یہ نہیں کہ زائد زمین اس سے چھین لی جائے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے دوسرے ہمنوا بزرگوں کے موقف سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ وہ زائد زمین رکھنے کے حق میں نہیں ہیں، یہ دوستوں کی اختراع ہے، ان بزرگوں کا مسلک نہیں ہے۔ بلکہ احناف نے تصریح کی ہے۔
کہ امام ابوحنیفہ کی بات تقویٰ پر مبنی ہے ان کا فتوی نہیں ہے کہ وہ حرام ہے:
إنما غايته أنه كومهاتودعا كما تركه ابن عمر تودعا وتبعه إبراهيم(اعلااء السنن)
حصے پر زمین دیتے وقت اگر حصے کا تعین نہ کیا جائے تو پھر مزارعت بھی جائز نہ ہو گی، اگر ضمانت حاصل کر کے حصے کی بات طے کر لی گئی ہے کہ 3/1 یا 4/1 یا 2/1 مثلا تو پھر یہ ممنوع بھی نہیں، چنانچہ حضرت رافع نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔
وأماشيء معلوم مضمون فلابأس به(مسلم)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ منع کی اصل وجہ "زمین کا زائد اور فالتو" ہونا نہیں ہے بلکہ حصے کی (1) جہالت ہے (2) یا معلوم تو ہو مگر قابل وثوق ضمانت اور اطمینان کی صورت نہ رہے۔ (3) یا فریقین میں سے کسی ایک کے نقصان اور حق تلفی کا اندیشہ ہو (4) یا پہلے ہی دن باہمی نزاع اور جھگڑے کے لیے کوئی گنجائش رکھ لی جائے۔
اگر ان میں سے کوئی چیز نہ ہو تو ممانعت کی وجہ اور کوئی باقی نہیں رہتی، کیونکہ بنیادی طور پر اسلام ذاتی ملکیت کا منکر نہیں ہے اور نہ اس کی غیر قدرتی تحدید پر وہ اصرار کرتا ہے، ہاں میراث اور صدقات جیسے مؤثر اور قدرتی ذرائع کے ذریعے، قارون اور جاگیردار بننے کے امکانات کا خاتمہ ضرور کرتا رہتا ہے، تاکہ کوئی جاگیردار بندگانِ خدا کو، جنسِ بازار تصور کر کے اس کی بولی دینے کے قابل نہ رہے، اگر اس خوئے بد کے امکانات معدوم ہو جائیں تو پھر جاگیردار اور دولت کی فراوانی، سلیماتی ہوتی ہے ورنہ وہ قارونیت بھی ہو گی اور فرعونیت بھی، ہمارے نزدیک اس ذہن اور کردار کے لوگ عموما غیر صالح حکمرانوں اور غیر اسلامی نظام حکومت کی پیداوار ہوتے ہیں، خودرو جھاڑیاں نہیں ہوتے، مگر ان کے بدلنے کی کیجئے۔ سبب باقی رہے اور مسبب کو دورکرتے رہنا انتہائی بے تکی بات معلوم ہوتی ہے۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعامل: حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا تعامل مزارعت کے جواز کا موید ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ سلم نے خیبر کی زمین یہود خیبر کو حصے پر دے دی تھی۔
إن رسول الله ﷺ أعطى خيبر اليهود على أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ماخرج منها(بخاري باب المزارعة مع اليهود)بعض بزرگوں نے اس روایت کو منسوخ کہا ہے مگر یہ بات محلِ نظر ہے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تعامل آخری تعامل ہے، اور کچھ اور حضرات نے اسے سرے سے مزارعت ہی قرار نہیں دیا مگر یہ علمی دریافت ہے بلکہ بزرگانہ باتیں ہیں۔
یہ معاملہ صرف یہودِ خیبر سے نہیں کیا گیا بلکہ دوسرے علاقے کے بارے میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دستور کے نفاذ کی سفارش فرمائی تھی۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: «بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قُرَى عَرَبَةَ فَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ حَظَّ الْأَرْضِ» قَالَ سُفْيَانُ: " وَحَظُّهَا: الثُّلُثُ وَالرُّبْعُ فَلَمْ يَرَ بِهِ بَأْسًا "(عبدالرزاق)
خلفاء راشدین کا تعامل: یہ دستور خلفائے راشدین کا بھی تھا۔
فمضى على ذلك رسول اللهﷺ وأبوبكر وستين من خلافة عمر حتى أجلاهم عمرمنها(عبدالرزاق)
فقال الرجل: أخذتها بالنصف أكري انهارها وأصلحها وأعمر هافقال على لابأس به(عبدالرزاق)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو جاگیریں عطا کیں، جاگیر عموما فردِ واحد سے زائد شے ہوتی ہے۔
«أَقْطَعَ عُثْمَانُ لِخَمْسَةٍ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ اللَّهِ، وَلِسَعْدٍ، وَلِلزُّبَيْرِ، وَلِخَبَّابٍ، وَلِأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، فَكَانَ جَارَايَ، عَبْدُ اللَّهِ وَسَعْدٌ يُعْطَيْانِ أَرْضَهُمَا بِالثُّلُثِ»(عبدالرزاق)
كَتَبَ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي سُوَيْدٍ: «أَنْ يَبِيعَ بَيْاضَ الْأَرْضِ بِالذَّهَبِ، وَأَنْ يُخَابِرَ عَلَى أَصْلِ الْأَرْضِ»»(عبدالرزاق)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاجزادے کا بھی یہی نظریہ تھا۔
سئل ابن عمر كراء الأرض فقال أرضي وبعيري سواء(عدالرزاق)
قال انس بن مالك :أرضي ومالي سواء (عبدالرزاق)
حضرت امام بخاری نے ان صحابہ اور آئمہ تابعین سے مزارعت کا جواز نقل کیا ہے۔
وزارع علي، وسعد بن مالك، وعبد الله بن مسعود وعمر بن عبد العزيز، والقاسم، وعروة، وآل أبي بكر، وآل عمر، وآل علي، وابن سيرين وقال عبد الرحمن بن الأسود: «كنت أشارك عبد الرحمن بن يزيد في الزرع» وعامل عمر، «الناس على إن جاء عمر بالبذر من عنده فله الشطر، وإن جاءوا بالبذر فلهم كذا» وقال الحسن: «لا بأس أن تكون الأرض لأحدهما، فينفقان جميعا، فما خرج فهو بينهما» ورأى ذلك الزهري وقال الحسن: «لا بأس أن يجتنى القطن على النصف» وقال إبراهيم، وابن سيرين، وعطاء، والحكم، والزهري، وقتادة: «لا بأس أن يعطي الثوب بالثلث أو الربع» ونحوه وقال معمر: «لا بأس أن تكون الماشية على الثلث، والربع إلى أجل مسمى»حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اس کا رواج رہا بلکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں بھی۔
«كان يكري مزارعه على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، وعمر، وعثمان، وصدرا من إمارة معاوية»(بخارى) إن عبدالله بن عمر قال كنت أعلم في عهد رسول اللهﷺ أن الأرض تکري(بخاری)حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مزاعت سے منع نہیں فرمایا تھا بلکہ سفارش کی تھی کہ وسعتِ ظرف کا ثبوت دیا جائے۔
ابن عباس رضي الله عنهما: أن النبي صلى الله عليه وسلم لم ينه عنه ولكن، قال: «أن يمنح أحدكم أخاه خير له من أن يأخذ عليه خرجا معلوما»(بخاری)مزارعت کی قسمیں: جن بزرگوں نے مزارعت کی ممانعت کی ہے، اس سے یہ تصور کرنا کہ انہوں نے مطلقا اور ہر قسم کی مزارعت کی ممانعت کی ہے، محلِ نظر ہے۔
امام زیلعی فرماتے ہیں کہ:
مزارعت تین طرح پر ہوتی ہے (1) نقد ٹھیکے پر دینا، یہ بالاتفاق جائز ہے۔ یعنی حنفی ائمہ (امام ابوحنیفہ اور صاحبین) کے نزدیک (2) پیداوار میں سے متعین حصہ مقرر کر لینا۔ زمین کا کوئی ایک حصہ یا کسی خارجی متعین چیز پر مثلا وسق یہ بالاتفاق ناجائز ہے (3) تیسرا یہ کہ زمین کی پیداوار کا نصف یا ثلث (مثلا) یہ وہ بات ہے جس میں صاحبین اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان اختلاف ہے۔
واعلم أن المزارعة على ثلثة الخاء :كراء الأرض بالنفقد وهذا جائز بالاتفاق والثاني المزارعة على ماخرج من الأرض فان عين نفسه حصة مصينة من الأرض لم يجز بالاتفاق وكذا إذا اشترط حصة معينة من الخارج كخمسة أوسق اولحوهالما فيه من المخاطرة فجاز ان لاتنتبت هذه ونتبت تلك وأما إذا زارعه على وهو الثالث كالنصف والثلث فهذامورد الخلاف ونهى عنها أبوحنيفة وأجازها صاحبا (نصب الراية باب المزارعة بالشطر)
امام ابویوسف فرماتے ہیں ہمارے نزدیک مزارعت کئی طرح پر ہے۔
1۔ زمین عاریۃ دے اور کاشتکار اپنے خرچہ اور محنت سے کاشت کرے، اس صورت میں سب کچھ مزارع کا ہو گا۔ امام صاحب کے نزدیک بھی یہ جائز ہے۔
2۔ مالک زمین اور کاشتکار مشترکہ محنت اور مشترکہ خرچہ سے کاشت کریں۔ اب پیداوار بھی مشترک ہو گی۔
3۔ یہ کہ ٹھیکے پر دی جائے سال دو سال کے لیے مثلا، یہ بھی جائز ہے۔
4۔ بٹائی پر زمین دی جائے، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ فاسد ہے۔ مستاجر کوشل اجرت ملے گا۔ امام ابویوسف کے نزدیک یہ جائز صورت ہے۔
5۔ زمین، بیل اور بیج مالک کے اور محنت کاشتکار کی، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ بھی فاسد ہے۔ امام ابویوسف کے نزدیک طے شدہ شروط کے مطابق یہ بھی جائز ہے۔
قَالَ أَبُو يُوسُف: وَالْمُزَارَعَةُ1 عِنْدَنَا عَلَى وُجُوهٍ: مِنْهَا عَارِية لَيْسَ فِيهَا إِجَارَةٌ، وَهُوَ الرَّجُلُ يُعِيرُ أَخَاهُ أَرْضًا يَزْرَعُهَا، وَلا يَشْتَرِطُ عَلَيْهِ إِجَارَةً فَيَزْرَعَهَا الْمُسْتَعِيرُ بِبِذْرِهِ وَبَقَرِهِ وَنَفَقَتِهِ فَالزَّرْعُ لَهُ وَالْخَرَاجُ عَلَى رَبِّ الأَرْضِ؛ ........... يَقُولُ أَبُو حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ.وَوَجْهٌ آخَرُ: تَكُونُ الأَرْضُ لِلرَّجُلِ فَيَدْعُو الرَّجُلَ إِلَى أَنْ يَزْرَعَهَا جَمِيعًا وَالنَّفَقَةُ وَالْبِذْرُ عَلَيْهِمَا نِصْفَانِ؛ فَهَذَا مِثْلُ الأَوَّلِ الزَّرْعُ بَيْنَهُمَا......... وَوَجْهٌ آخَرُ: إِجَارَةُ أَرْضٍ بَيْضَاءَ بِدَرَاهِمَ مُسَمَّاةٍ سَنَةً أَوْ سَنَتَيْنِ؛ فَهَذَا جَائِزٌ وَالْخَرَاجُ عَلَى رَبِّ الأَرْضِ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ......... وَوَجْهٌ آخَرُ: الْمُزَارَعَةُ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ؛ فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ فِي هَذَا: أَنَّه فَاسِدٌ، وَعَلَى الْمُسْتَأْجِرِ أَجْرُ مِثْلِهَا......... وَقَالَ أَبُو يُوسُف: وَهُوَ عِنْدِي جَائِزٌ عَلَى مَا اشترطهاوَوَجْهٌ آخَرُ: أَنْ يَكُونَ لِلرَّجُلِ أَرْضٌ وَبَقَرٌ وَبِذْرٌ؛ فَيَدْعُو أَكَّارًا1 فَيُدْخِلَهُ فِيهَا فَيَعْمَلُ ذَلِكَ، وَيَكُونُ لَهُ السُّدُسُ أَوِ السُّبُعُ؛ فَهَذَا فَاسِدٌ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ وَمَنْ وَاقعَة وَالزَّرْعُ فِي قَوْلِهِمْ لِرَبِّ الأَرْضِ وَلِلأَكَّارِ أَجْرُ مِثْلِهِ وَالْخَرَاجُ عَلَى رَبِّ الأَرْضِ وَالْعُشْرُ فِي الطَّعَامِ.وَقَالَ أَبُو يُوسُف: وَهُوَ عِنْدِي جَائِزٌ عَلَى مَا اشترطها عَلَيْهِ على مَا جَاءَت بِهِ الْآثَار.(كتاب الخراج فصل فى الاجارة الارض البيضاء اوذات)
کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعہ میں ہے کہ زمین مالک کی ہو اور محنت کاشتکار کی لیکن بیج اور آلات زراعت مشترکہ تو طے شدہ نسبتوں کے ساتھ یہ بھی جائز ہے۔ امام ابوحنیفہ اور تمام فقہاء احناف اور حنبلی فقہ میں بھی یہ جائز ہے۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعہ)
الغرض: مزارعت جائز ہے مگر منصفانہ طریقے پر جس میں نزاع یا جہالت اور کسی کے خسارے کا غالب اندیشہ نہ ہو۔ جن بزرگوں نے اسے ناجائز کہا ہے، صرف بعض خامیوں کی بنا پر کہا ہے، اس لیے نہیں کہ زمین اس کے پاس فالتو ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہی معاملہ کیا، جیسا کہ خیبر کی زمین کے بارے میں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں صحابہ رضی اللہ عنہ بھی کرتے رہے۔ بعد میں خلفاء راشدین کا تعامل بھی اسی پر رہا اور صحابہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں جمہور تابعین کا اسی پر عمل رہا۔ اس لیے اسے زائد زمین کہہ کر مالک کے لیے اس کو کاشت پر دینے کو کہنا کسی صحیح دلیل سے ثابت نہیں ہے۔ جہاں ممانعت آئی ہے وہاں رائج فساد کے ازالہ کے لیے آئی ہے۔ ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء اس کو کسی صورت میں برداشت نہ کرتے۔ کہتے ہیں خیبر والا معاملہ مزارعت کا معاملہ نہیں تھا، مقاسمہ (سرکاری لگان) کی بات تھی، ہم کہتے ہیں، اگر یہ مان بھی لیں تو جو صحابہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایسا کرتے رہے تھے، وہ تو مقاسمہ کی بات نہیں تھی؟
کہتے ہیں، خدا کہتا ہے، زمین اللہ کی ہے، اس کے معنی ہیں حسبِ ضرورت اس سے انتفاع کیا جا سکتا ہے، زائد نہیں، لیکن یہ بات صرف زمین تک محدود نہیں رہے گی، کیونکہ ارض و سماء اور ما بینہما بھی اللہ کا ہے۔ اب اور بھی کوئی چیز کسی کے پاس زائد نہیں ہونی چاہئے ۔ فما ھو جوابکم فھو جوابنا
صحیح یہ ہے کہ سب کچھ اللہ کا ہے لیکن اس سے کسبِ فیض اس کے قوانین کے تحت کیا جائے تو اسے جائز ہونا چاہئے، ورنہ انسان کے فکری اور عملی قوتوں اور استعداد میں جو تفاوت ہے، ان کے نتائج بے کار جائیں گے، خدا کے ہاں بہرحال یہ اندھیر نہیں ہے۔
حوالہ جات1.نوائے وقت مورخہ 27 فروری سئہ 1977ء میں "میاں طفیل محمد کی وضاحت" کے عنوان سے یہ خبر شائع ہوئی ہے۔
لاہور 27 فروری (سٹاف رپورٹر) امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد نے ایک بیان میں یہ وضاحت کی ہے کہ قائد آباد کے جلسہ میں کچھ اَن کہی باتیں ان سے منسوب کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زرعی پالیسی کے بارے میں میں نے یہ کہا تھا کہ زمین ہو، صنعت، تجارت یا کوئی اور شے، تمام امور شریعت الہی کے مطابق طے کیے جائیں گے اور کسی کو بھی کسی کے حق پر دست درازی کا حق نہ ہو گا، جس کی ملکیت جائز ہو گی وہ اپنی زمین مزارعت پر بھی کاشت کرا سکتا ہے خود بھی کاشت کر سکتا ہے اور ملازم رکھ کر بھی کاشت کر سکتا ہے، جو صورت ہر دوسرے کاروبار میں جائز اور حلال ہے۔ اسے زمین کے معاملے میں حرام اور ناجائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ قائد آباد کے جلسہ میں مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا عبدالستار نیازی موجود نہیں تھے۔