پس نوشت
مضمون کی تکمیل کے بعد چند مزید چیزیں اور نظر سے گزریں یا علم میں آئیں، مناسب معلوم ہوتا ہے وہ بھی نذرِ قارئین کردی جائیں۔ ان میں سے ایک خود مولانا تقی عثمانی صاحب کا فرمودہ ہے کہ حیلے سے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، جب کہ حلالۂ ملعونہ کے جواز کی ساری بنیاد ہی حیلے پر ہے، تعجب ہے کہ محولہ فتوے کے باوجود موصوف حلالۂ ملعونہ کو حیلوں اور باطل تاویلوں سے حلال کرکے دین کو کیوں بازیچۂاطفال بنا رہے ہیں؟
دوسرا، ایک مضمون جو 'معارف' اعظم گڈھ(بھارت) میں آج سے چند سال قبل شائع ہوا تھا، ہمارے ایک فاضل دوست وحید احمد صاحب نے لا کر دکھایا جو پاک وہند سے شائع ہونے والے دینی وعلمی لٹریچر کے مطالعے کے بڑے شوقین ہیں اور کاروباری ہونے کے باوجود بہت اچھا علمی ذوق رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں حنفی(دیوبندی) ہونے کے باوجود اپنے حنفی علما کے تقلیدی جمود پرسخت شاکی ہیں۔ جب راقم نے ان سے'تفویض طلاق' اور'حلالے' والے مضمون کا ذکر کیا تو اُنھوں نے'معارف'کے دوشمارے اپنی لائبریری سے لاکر مجھے دیے جن میں سے ایک میں تفویض طلاق پر مضمون تھا اور دوسرے میں حلالہ مروّ جہ ملعونہ پر۔
راقم کو یہ دونوں مضامین دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور تعجب بھی۔ خوشی اس بات پر ہوئی کہ تفویض طلاق کے بارے میں راقم نے جو کچھ لکھا ہے، وہی موقف'معارف' میں چند سال قبل شائع شدہ مضمون میں اختیار کیا گیا ہے کہ یہ سراسر ناجائز ہے۔ اور تعجب اس پر ہوا کہ فاضل مضمون نگار جامعہ کراچی میں فقہ واسلامیات کے اُستاذ ہیں اور حنفی(بریلوی) مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اللّٰہ نے موصوف کو مذکورہ دونوں مسئلوں میں تقلیدی جمود سے نکل کر قرآن وحدیث میں بیان کردہ موقف کو اختیار کرنے کی توفیق سے نوازا۔ کَثَّرَ الله أَمْثَالَهُمْ فِیْنَا
بہر حال اب یہ سب چیزیں قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہیں۔ پہلے مولانا تقی عثمانی صاحب بالقابہ کا فتوی، اور پھر 'معارف'والا مضمون، اور بعد میں دیگر آراء...
1۔ حیلے سے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، مولانا تقی عثمانی صاحب کا فتویٰ
مولانا تقی عثمانی صاحب حیلۂ 'تملیک زکاۃ' کے بارے میں فرماتے ہیں:(یادرہے یہ حیلہ بھی احناف ہی میں رائج ہے اور انہی کے علما کا تجویز کردہ ہے)
''اور یہ جو تملیک کا حیلہ عام طور پر کیا جاتا ہے کہ کسی غریب کو زکاۃ دے دی اور اس سے کہا کہ تم فلاں کام پر خرچ کردو، وہ غریب بھی جانتا ہے کہ یہ میرے ساتھ کھیل ہو رہا ہے اور حقیقت میں مجھے اس زکاۃ کی رقم میں سے ایک پیسے کا بھی اختیار نہیں ہے تو یہ محض ایک حیلہ ہے اور اس کی وجہ سے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔''1
اس واضح فتوی کے باوجود کسی حنفی کے اندریہ جرأت نہیں ہے کہ وہ مولانا موصوف سے یہ پوچھ سکے کہ جب مسئلۂ زکاۃ میں حیلے سے حکم میں تبدیلی نہیں آتی تو نکاح جیسے مسئلے میں، جو اس سے کہیں زیادہ اہم ہے، حیلے سے نکاحِ حرام، نکاحِ حلال میں کس طرح تبدیل ہوجاتا ہے؟ اور زناکاری سے مطلقہ عورت زوج اوّل کے لیے کس طرح حلال ہوجاتی ہے؟
اور اب ملاحظہ فر مائیں'معارف' میں شائع شدہ مضمون۔ اس کا عنوان بھی فاضل مقالہ نگار، ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج صاحب استاذ الفقہ والتفسیر، شعبۂ علوم اسلامی، جامعہ کراچی، ہی کا تجویز کردہ ہے۔ (حال ہی میں فاضل مقالہ نگار کو کراچی میں دہشت گردی کا شکار کردیا گیا، اناللّٰہ وانا الیہ راجعون)
2۔حلالۂ مرو ّجہ اور قرآنی حلالہ کے درمیان فرق (از حافظ محمد شکیل اوج)
عارضی نکاح کو 'حلالہ' کہتے ہیں بشرطے کہ طلاق کو نکاح کی شرط نہ بنایا جائے، تاہم بہ وقت نکاح طلاق کا قصد وارادہ ہو تو کوئی حرج نہیں سمجھاجاتا، اس نکاح میں اوّل الذکر شکل کو ناجائز اور گناہ جب کہ مؤخر الذکر صورت کو جائز و روا قراردیا جاتا ہے۔ شرط وقصد کی تفصیل فقہی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے، مسئلہ زیر بحث یہ ہے کہ قرآن مجید نے ﴿فَلا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعدُ حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَهُ...٢٣٠﴾ ... سورة البقرة کے الفاظ میں جس نکاح کی بات کی ہے، وہ کون سا نکاح ہے مروّجہ حلالہ یا تحلیل شرعی؟
ہم سمجھتے ہیں کہ فقہی حلالہ قرآنی حلالہ سے بالکل الگ اور مختلف چیز ہے مگر افسوس کہ ہمارے غیر تحقیقی رویے اور قرآن سے ہمارے عدمِ تعلق اورعدمِ غوروفکر کے باعث قرآنی حلالہ، فقہی حلالہ میں گم ہوچکا ہے۔ زیر نظر مضمون میں اسی متاعِ گم شدہ کی تلاش وجستجو ہمارا مقصد ہے، اس سلسلے میں ہمیں چندباتوں پر غور کرنا ہوگا :
پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی رو سے نکاح کبھی عارضی نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ دائمی ہوتا ہے، اسی لئے تو 'طلاق' کا قانون بنایا گیا ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان کوئی ناقابل اصلاح نقص پیدا ہوگیا تو اسے طلاق کے ذریعے ختم کیا جاسکے لیکن اگر شرطِ طلاق یا پھر قصدِطلاق کے ساتھ نکاح منعقد ہو تو بتایا جائے کہ اپنے انجام کے اعتبار سے دونوں میں کیا جوہری فرق رہ جاتا ہے؟ مگر حیرت ہے کہ ہمارے فقہا نے قصدِ طلاق کے ساتھ ایسے نکاح کو نہ صرف جائز قرار دیا ہے بلکہ اسے باعثِ اجر وثواب بھی گرداناہے۔2
لیکن ہمارے نزدیک کسی نکاح میں اگر 'اِحصان' کا معنی نہ پایا جائے تو اسے ازروے قرآن نکاح کہنا محل نظر ہوگا، احصان 'حصن' سے بنا ہے اور حصن قلعہ کو کہتے ہیں، یعنی ایسی جگہ جو لوگوں کے لئے حفاظت کا کام انجام دے۔ شادی شدہ مرد کو محصن اور شادی عورت کو محصنہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ نکاح کے ذریعے وہ ایک دوسرے کو حفاظتِ نفس فراہم کرتے ہیں۔ گویا دونوں ایک قلعہ میں محفوظ ہوجاتے ہیں، مرد بہ ذریعۂ نکاح عورت کو اپنے حصن (حفاظت وحمایت) میں لیتا ہے، اس طرح عورت کی عفت وعصمت محفوظ ہوجاتی ہے اور خود مرد کی بے قابو جنسی خواہش کو بھی لگام لگ جاتی ہے، یوں وہ خود بھی نکاح کے حصار میں محفوظ ہوجاتا ہے، قرآن نے مرد کو محصن اور عورت کو محصنہ کہہ کر دراصل اسی حقیقت کی تذکیر کی ہے۔
مُحصنین کے لفظ کے ساتھ ﴿غَيرَ مُسـٰفِحينَ وَلا مُتَّخِذى أَخدانٍ ﴾کے الفاظ اس لئے استعمال ہوئے ہیں، تاکہ معلوم ہو کہ شارع نے اپنے ماننے والوں کے لئے اِحصان سے ہٹ کر کھلے بندوں یا چوری چھپے ہر دو طریق سے قائم جنسی تعلقات پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ آپ قرآن مجید کے ان الفاظ کو پیش نظر رکھیے:﴿مُحصِنينَ غَيرَ مُسـٰفِحينَ وَلا مُتَّخِذى أَخدانٍ﴾ اور غور وخوض کے بعد انصافًا کہیے کہ کیا مروّجہ حلالہ، محصنین کی تعریف میں آتا ہے؟ یعنی کیا یہ حلالہ مرد کو عورت کی عزت وآبروکا محافظ وامین بناتا ہے؟ یا اس کے برعکس عورت کی عزت وناموس کو لوٹنے والا، جس کی مدت عام طور پر دو ایک راتوں پر مشتمل ہوتی ہے؟
دوسرے یہ کہ نکاح میں مرد عورت کی باہمی رضامندی بنیادی عامل کا کردار ادا کرتی ہے اور اس رضامندی کی اہمیت بلکہ ضرورت کاکوئی منکر نہیں ہے تو اب سوال یہ ہے کہ کیا حلالہ میں بھی فریقین کی آزادا نہ مرضی کا کوئی عمل دخل ہوتاہے؟
تیسری بات یہ ہے کہ حلالہ کرتے وقت استقرارِ حمل کی صورت میں آئندہ کے لائحۂ عمل کا کوئی شرعی منصوبہ مرد یا عورت کے ذہن میں ہوتا ہے؟ اور نکاحِ حلالہ کے دوران اگر کوئی فریق فوت ہوجائے تو کیا حقوقِ وراثت پیدا ہونے کا مسئلہ بھی کسی فریق کے ذہن میں ہوتا ہے؟ آپ کو ان سوالوں کا جواب شاید اثبات میں نہ ملے، جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ حلالہ خالصتاً عارضی ہوتا ہے جو ہنگامی صورتِ حال میں وجود پذیر ہوتا ہے اور یہ کہ حلالہ کی 'دائمی نکاح' کی طرح کوئی بنیاد نہیں ہوتی گویا یہ وہ بیج ہے جو درخت پیدا کرنے کے لئے نہیں بویا جاتا۔
چوتھے یہ کہ مرد وعورت جب رشتۂ ازدواج میں بندھ رہے ہوتے ہیں تو فریقین کے متعلقین ایک دوسرے کی معاشی، اخلاقی اور مذہبی حالات کی جانچ پڑتال اور چھان پھٹک میں مصروف ہوجاتے ہیں، پھر لمبی چوڑی تحقیق وتفتیش کے بعد نکاح کا مقدس رشتہ وجود میں آتا ہے، کیا حلالہ بھی اپنے پس منظر میں کسی ایسی ہی انکوائری کا طلب گار ہوتا ہے؟ اپنے ضمیر کی عدالت سے پوچھیے، اگر وہ حلالہ کو قرآن کا مطلوب نکاح قرار دے تو بے شک اسے اختیار کرلیجیے، وگرنہ خدارا اس غیر شرعی اور غیر قرآنی عمل کو تحلیل شرعی کا نام نہ دیجیے۔
﴿مُحصِنينَ غَيرَ مُسـٰفِحينَ وَلا مُتَّخِذى أَخدانٍ﴾سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن نے نکاح کو جہاں 'احصان' سے تعبیر کیا ہے، وہیں ان لفظوں سے نکاح کے مفہوم کا کامل احاطہ بھی کرلیا ہے،یعنی نکاح ایسا ہو کہ جو مُسافحت(شہوت رانی) کا غیرہو اور مُسافحت کا غیر وہی ہوسکتا ہے جس میں احصان کا قصد ہو اور جو نکاح قصدِ احصان سے خالی ہو، وہ مسافحت کا غیر نہیں بلکہ اس کا عین ہے۔ جو لوگ نکاح کی غرض وغایت ، فقط جنسی ملاپ کو قرار دیتے ہیں، اُنہیں اس آیت پر غور کرنا چاہیے۔ سچ کہیے، کیا مروّجہ حلالہ مردوعورت کے درمیان فقط شہوت رانی اور جنسی تعلقات سے عبارت نہیں ہے؟ اور کیا ایسے نکاح میں دورانِ حلالہ علیٰ الاعلان اور طلاق کے بعد چوری چھپے جنسی رابطے کا امکان نہیں ہے؟... کوئی ہے جو اس پر غور کرے؟
اس لئے کہ جنسی بے راہ روی صرف مرد میں نہیں ہوتی، عورت میں بھی ہوتی ہے۔ حلالہ کی صورت میں اگر ایک بار ہی سہی، کسی عورت نے اپنے مُحلِّل کا ذائقہ چکھ لیا اور اسے مزہ آگیا تو کیا طلاق کے بعد وہ دوبارہ اسی محلل سے جنسی رابطہ بحال رکھنے کی خواہش مند نہیں ہوسکتی؟ کیوں کہ جس طرح﴿مُحصِنينَ غَيرَ مُسـٰفِحينَ وَلا مُتَّخِذى أَخدانٍ﴾ کے الفاظ مرد کے تعلق سے آئے ہیں، اسی طرح ﴿مُحصَنـٰتٍ غَيرَ مُسـٰفِحـٰتٍ وَلا مُتَّخِذٰتِ أَخدانٍ﴾ کے الفاظ عورت کے تعلق سے بھی آئے ہیں، مطلب یہ کہ عورتیں بھی محصنہ بننے کے لیے قیدِ نکاح میں آئیں، کھلے بندوں شہوت رانیاں اور خفیہ آشنائیاں کرنے والی نہ بنیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حلالہ جہاں ایک طرف کھلے بندوں اور علیٰ الاعلان (بہ صورت نکاح) شہوت رانی کا ذریعہ بنتا ہے۔وہیں چوری چھپے (بہ صورت طلاق) جنسی ملاپ کی سبیل بھی پیدا کردیتا ہے۔
ہمارے نزدیک اس قرآنی فقرہ میں معانی کا ایک جہاں سمٹا ہوا ہے۔ اس فقرہ میں نکاح کی ایسی تعریف کی گئی ہے جس کی رو سے صرف متعہ ہی حرام نہیں ٹھہرتا بلکہ مروّجہ حلالہ بھی حرام ٹھہرتا ہے کیوں کہ یہ دونوں ہی احصان کی صفت سے خالی اور مسافحت کی شناعتوں سے پُر ہیں۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ایک دفعہ رسول اللّٰہﷺنے صحابہ سے فرمایا تھا:
«أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالتَّيْسِ الْـمُسْتَعَار» تو اُنھوں نے پوچھا: "من هو یا رسول الله؟" آپ نے فرمایا: «هُوَ الْـمُحَلِّلُ، لَعَنَ الله الْـمُحَلِّلَ وَالْـمُحَلَّلَ لَه »3
امام عبدالرزاق نے حضرت عمر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ
«لَا أُوتَى بِمُحَلِّلٍ وَلَا بِمُحَلَّلَةٍ إِلَّا رَجَمْتُهُمَا »4
''میرے پاس کوئی حلالہ کرنے والا مرد اور وہ عورت جس سے حلالہ کیا گیا، لائے گئے تو میں ضرور ان دونوں کو رجم کردوں گا۔''
سنن بیہقی میں حضرت عثمان کے تعلق سے یہ روایت آئی ہے:
رفع إلیه رجل تَزَوَّج امرأة لیحلله لزوجها ففرّق بینهما وقال لاترجع إلیه إلا بنکاح رغبة غیر دلسة5
یعنی ''ایک ایسا مقدمہ ان کے سامنے پیش ہوا جس میں ایک شخص نے کسی عورت سے اس کے سابق شوہر کے لئے حلالہ کے طور پر نکاح کیا تھا۔حضرت عثمان نے اپنے فیصلہ سے ان دونوں کو الگ کردیا اور فرمایا کہ وہ عورت اپنے پہلے خاوند سے رجوع نہیں کرسکتی، تاوقتے کہ اپنا مرغوب نکاح نہ کرے، یعنی ایسا نکاح جو (مروّجہ حلالہ کی) ملاوٹ سے پاک ہو۔''
آپ نے دیکھا کہ رسول اللّٰہﷺنے حلالہ کو ملعون قراردیا، حضرت عمر نے اسے قابلِ رجم فعل گردانا اور حضرت عثمان نے اسے وصف ِنکاح سے مجرد مانا ہے، ایسی صورت میں ان قطعی روایتوں کے باوجود مروّجہ حلالہ پر اصرار ناقابل فہم ہے۔
پیر محمد کرم شاہ ازہری نے ﴿ فَإِن طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعدُ حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَهُ﴾ کی جو تفسیر کی ہے، اس میں بھی حلالہ مروّجہ کا ردّ موجود ہے، اسے بھی ایک نظر دیکھ لیجئے۔ فرماتے ہیں:
''یہاں سے تیسری طلاق اور اس کے حکم کا بیان ہے، یعنی اگر تیسری طلاق بھی اس نے دے دی تو اب جب تک وہ کسی دوسرے خاوند سے بالکل اسی طرح بسنے کی نیت سے نکاح نہ کرے، جیسے اس نے پہلے خاوند کے ساتھ کیا تھا اور پھر وہ دوسرا خاوند ہم بستری کرنے کے بعد کچھ مدت گزرنے پر اپنی مرضی سے اسے طلاق نہ دے دے، اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے نکاح میں نہیں جاسکتی، یہ ہے قرآن کریم کا واضح ارشاد، جس میں تاویل کی گنجائش نہیں، آج کل اس کا حل حلالہ کی باعثِ صد نفریں صورت میں تلاش کرلیا گیا ہے، اس کے متعلق حضور نبی کریمﷺ کا یہ حکم پیش نظر رہے: «لعن الله المحلل والمحلل له»6
''حلالہ کرنے والے پر بھی اللّٰہ کی پھٹکار اور جس (بے غیرت) کے لئے حلالہ کیاجارہا ہے اس پر بھی اللّٰہ کی پھٹکار۔''
﴿فَإِن طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعدُ حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَهُ﴾ میں جس تحلیل شرعی کا بیان ہے، وہ عرفًا وہی ہے جو آپ نے پیر صاحب کے حوالہ سے اوپر ملاحظہ کیا، جسے میں اپنے لفظوں میں کچھ اس طرح بیان کروں گا کہ قرآنی حلالہ وہ ہے کہ جس میں بہ وقتِ نکاح، شرطِ طلاق پائی جائے نہ قصدِطلاق۔ فریقین کی باہمی رضامندی سے زندگی بھر کے سنجوگ کے ارادہ سے وہ عورت کسی اور سے نکاح کرے، پھر اگر قدرتی طور پر وہ نکاح کامیاب نہ ہوسکے اور طلاق واقع ہوجائے یا اس عورت کا دوسرا شوہر جہانِ فانی سے ہی رخصت ہوجائے تو اس صورت میں وہ عورت اپنے شوہر کے لیے بہ غرضِ نکاح حلال ہوجائے گی۔ غرض اس تحلیل شرعی میں کوئی سازش اور کوئی خفیہ ہاتھ ایسا نہیں کہ جو عورت کے لئے اس کے پہلے شوہر کو حلال کرنے کے لئے استعمال میں آیا ہو۔ یہ جو کچھ بھی ہوا محض اتفاق تھا اور بالکل فطری طورپر واقع ہوا، اسی اتفاق اور فطرت کے حسین امتزاج کو 'قرآنی حلالہ' کہا جاتا ہے اور قرآن نے ﴿فَإِن طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعدُ حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَهُ﴾ والی آیت میں اسی حلالہ کو بیان کیا ہے نہ کہ حلالۂ مروّ جہ کو۔7
3۔ حلالہ قرآن کے خلاف سازش ہے!
بھارت کے ایک حنفی عالم مولانا الطاف احمد اعظمی سابق پروفیسر جامعہ ہمدرد، نئی دہلی اپنے ایک فاضلانہ مقالے بعنوان 'اسلام کا قانونِ طلاق' میں لکھتے ہیں:
یاد رہے، ان کا یہ مقالہ اس مجموعہ مقالات میں شامل ہے، جو علی گڑھ میں منعقدہ ایک سیمینار میں پیش کیے گیے اور پھر کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ فرماتے ہیں:
''اس وقت مسلم سماج میں جو بہت سے ناپسندیدہ رسوم ورواج اسلام کا ظاہری لبادہ اوڑھ کر داخل ہو گئے اور ان کو قبول بھی کر لیا گیا ہے، ان میں سب سے برا رواج (بیک وقت) تین طلاقوں کا ہے اور پھر حلالے کی گندی رسم۔ بجائے اس کے کہ علما اس غلط رسم ورواج کو مٹاتے، ان کی طرف سے اس کو سندِ جواز مل گئی ہے۔''
اور 'گندی رسم' پر حاشیہ دے کر لکھتے ہیں:
''حلالے کا طریقہ یہ ہے کہ جس شخص کے ساتھ عورت کا نکاح کیا جاتا ہے اس سے پہلے سے طے ہوجاتا ہے کہ وہ نکاح کے بعد ... اس کو طلاق دے دے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ معاملہ قرآن کی ہدایت کے بالکل خلاف ایک سازش ہے۔ نبی ﷺ نے حلالہ کرنے اور کرانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔''8
4۔ حلالہ سراسر لغو اور لعنتیوں کا کام ہے!
مولانا عبد الحلیم قاسمی (بانی جامعہ حنفیہ ،گلبرگ، لاہور) اپنے ایک مکتوب میں تحریر کرتے ہیں:
''اب اس معاملے کو حلالے کے نام سے مشروط نکاح کسی شہوت پرست مرد سے کر دیا جاتا ہے اور صبح اس عورت کو پہلے خاوند کے حوالے کر کے ﴿حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَهُ﴾ پر عمل ظاہر کر دیا جاتا ہے جو سراسر لغو اور لعنـتیوں کا کام ہے۔ کوئی غیرت مند آدمی اپنی عورت کو گائے، بھینس اور بکری بنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا، لیکن یہ جو کچھ ہو رہا ہے۔ اللّٰہ کی پناہ مختلف علاقوں میں حلالہ نکالنے کے لیے خاص آدمی ہر وقت تیار رہتے ہیں۔''
آگے 'ایک مجلس کی تین 'طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرنے کو عہدِ نبویﷺ اور ابو بکر صدیق کے دورِ مبارک اور فاروق اعظم کے دور میں دو سال تک کا عمل قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
''حضرت فاروق نے سیاسۃً ایک مجلس میں تین طلاقوں کو تین تسلیم کر لیا تھا، یہ آپ کی سیاست تھی جس میں تبدیلی کا امکان ہے۔ چنانچہ اکثر جلیل القدر صحابہ نے اس معاملے میں اختلاف فرمایا ہے جو کتبِ احادیث میں بادلائل موجود ہے۔ آج تک کسی مفتی کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ یہ لکھ کر دے کہ یہ فیصلہ حضورﷺ کا نہیں؟ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ لکیر کے فقیر بن کر غلط راستے پر گامزن ہیں اور ایک ایسے قبیح فعل کا ارتکاب کرتے ہیں جو سراسر سفاح (بدکاری) ہے۔ اس لیے حضور پاکﷺ نے واضح الفاظ میں لعنتی قرار دیا ہے اور مانگا ہوا بکرا اس کو فرمایا جو زنا کا ارتکاب کرتا ہے۔''9
5۔ اسلام (حلالے کے جواز جیسی)ستم ظریفی پر چیخ اُٹھتا ہو گا !!
پیر کرم شاہ ازہری جج سپریم اپلیٹ شریعت بنچ، بریلوی مکتبِ فکر کی ایک نمایاں شخصیت گزری ہے۔ یہ جب جامعہ ازہر (مصر) سے پڑھ کر آئے تو 'دعوتِ فکر ونظر' کے نام سے ایک کتاب تحریر فرمائی جس میں اُنہوں نے نہایت پر زور انداز میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے پر زور دیا اور حضرت عمر کے فیصلے کو ایک تعزیری اقدام قرار دیا اور فرمایا کہ اب یہ تعزیری اقدام حلالے جیسی بےغیرتی اور ارتداد کا باعث بنا ہوا ہے، اس لیے علما ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرنے کا فتویٰ دے کر اُمّت پر رحمت کا دروازہ کھول دیں۔ ان کے فرمان کو انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
''لوگوں میں شرعی احکام کے علم کا فقدان ہے۔ اُنہیں یہ پتہ ہی نہیں کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا کتنا بڑا جرم ہے اور تلعّب بکتاب الله کے مترادف ہے۔ وہ غیظ وغضب کے حالت میں منہ سے بک جاتے ہیں، اُنہیں تب ہوش آتا ہے جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ اُنہوں نے ایک جنبش لب سے اپنے گھر کو برباد کر دیا ہے۔ اس کی رفیقہ حیات اور اس کے ننھے بچوں کی ماں اس پر قطعی حرام ہو گئی ہے۔ اس کی نظروں میں دنیا تاریک ہو جاتی ہے۔ یہ ناگہانی مصیبت اس کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے، پھر وہ علما صاحبان کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں جو باستثناے چند حضرات، بڑی معصومیت سے اُنہیں حلالے کا دروازہ دکھاتے ہیں۔ اس وقت اُنہیں اپنے غیور رسول کی وہ حدیث فراموش ہو جاتی ہے: «لعن الله المحلل والمحلل له»
''حلالہ کرنے والے پر بھی اللّٰہ کی لعنت اور جس (بےغیرت) کے لیے حلالہ کیا جائے، اس پر بھی اللّٰہ کی لعنت۔''
اس سلسلے میں ایک اور حدیث بھی سن لیں، رسول اکرمﷺ نے فرمایا:
''کیا میں تمہیں کرائے کے سانڈ کی خبر نہ دوں؟ ہم نے کہا: ضرور اے اللّٰہ کے رسول! آپ نے فرمایا: وہ حلالہ کرنے والا ہے، اللّٰہ کی لعنت ہو، حلالہ کرنے والے پر بھی اور اس پر بھی جس کے لیے حلالہ کیا جائے۔''
ان علماے ذی شان کے بتائے ہوئے حل کو اگر کوئی بدنصیب قبول کر لیتا ہو گا تو اسلام اپنے کرم فرماؤں کی ستم ظریفی پر چیخ اٹھتا ہو گا اور دین سبز گنبد کے مکین کی دہائی دیتا ہو گا۔
اب حالات دن بدن بدتر ہو رہے ہیں۔ جب بعض طبیعتیں اس غیر اسلامی اور غیر انسانی حل کو قبول نہیں کرتیں اور اپنے گوشۂ عافیت کی ویرانی بھی ان سے دیکھی نہیں جاتی تو وہ پریشان اور سراسیمہ ہو کر ہر دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ اس وقت باطل اور گمراہ فرقے اپنا آہنی پنجہ اُن کی طرف بڑھاتے ہیں اور انہیں اپنے دامِ تزویر میں بھی پھنسا لیتے ہیں۔ اس کی بیوی تو اسے مل جاتی ہے لیکن دولتِ ایمان لوٹ لی جاتی ہے۔ میرے یہ چشم دید واقعات ہیں کہ کنبے کے کنبے مرزائی اور رافضی ہو گئے۔ جب حالات کی سنگینی کا یہ عالم ہو، جب یہ تعزیر (بیک وقت تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے کی رائے) بے غیرتی کی مہر ہو بلکہ اس کی موجودگی سے ارتداد کا دروازہ کھل گیا ہو۔ ان حالات میں علماے اسلام کا یہ فرض نہیں کہ اُمّتِ مصطفیٰﷺ پر درِرحمت کشادہ کریں (یعنی ایک مجلس کی تین طلاقوں کے ایک طلاق ہونے کا فتویٰ دیں) (دعوتِ فکر ونظر)
پیر صاحب موصوف کا یہ مقالہ حضرت الاستاذ مولانا محمد عطاء اللّٰہ حنیف بھوجیانی کے حکم پر اس کتاب میں شامل کیا گیا تھا جو احمدآباد(بھارت) میں منعقدہ سیمینار کے مقالات کے مجموعے پر مشتمل تھی۔ ان سب کا موضوع مسئلۂ طلاقِ ثلاثہ ہی تھا۔ پیر صاحب کے مقالے کی بیشتر عربی عبارتوں کا ترجمہ بھی راقم ہی نے کیا تھا، یہ 1979ء کی بات ہے۔ جب سے یہ فاضلانہ مقالہ 'مجموعہ مقالاتِ علمیہ' دربارہ 'ایک مجلس کی تین طلاقیں' نامی کتاب کا حصہ ہے اور نعمانی کتب خانہ اُردو بازار لاہور کی شائع کردہ ہے۔ پیر صاحب کا مذکورہ اقتباس ، اس کتاب کے صفحہ 342، 343 پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
6۔ نکاح بشرطِ تحلیل حرام اور موجبِ لعنت ہے!
مولانا کفایت اللّٰہ دہلوی مرحوم کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں، علماے احناف (دیوبند) میں وہ مفتی اعظم ہند مانے اور سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے فتاوٰے 9 جلدوں میں 'کفایت المفتی' کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔اس مجموعہ فتاویٰ میں درج ایک سوال،جواب ملاحظہ فرمائیں:
''سوال: شرع شریف میں حلالہ کس کو کہتے ہیں؟ بعض علاقوں میں مروّجہ حلالہ عمل میں لاتے ہیں، کسی کے لیے حلالہ کرتے ہیں، بعض مفتی اس پر جواز کا فتویٰ دیتے ہیں۔ آیا یہ جائز ہے یا نہیں، اگر جائز ہے تو حدیث شریف لعن رسول الله المحلل والمحللکا کیا مطلب ہے؟
(359) جواب: مطلقہ عورت کسی دوسرے خاوند سے نکاح کر لے اور پھر اس سے طلاق یا موتِ زوج کی وجہ سے علیحدہ ہو کر پہلے زوجِ مطلق کے لیے حلال ہو جاتی ہے، اس کا نام حلالہ ہے۔ لیکن زوج اوّل یا زوجہ کے کسی ولی کی طرف سے زوجِ ثانی سے یہ شرط کرنا کہ وہ طلاق دے دے اور زوجِ ثانی کا اس شرط کو قبول کر کے نکاح کرنا، یہ حرام ہے۔ اس میں فریقین پر لعنت کی گئی ہے۔ حدیث جو سوال میں مذکور ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ تحلیل کی شرط کر کے نکاح کرنا موجبِ لعنت ہے۔10
7۔حلالے کی رائج شکل بالکل متعہ کی طرح ہے!
ایک اور حنفی عالم مولانا محفوظ الرحمن قاسمی فاضل دیوبند، مدرّس مدرسہ بیت العلوم مالیگاؤں (بھارت) مجلس واحد کی تین طلاقوں کی خرابیوں کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
''جب لوگ دینی ناواقفیت اور جذبات کی شدت سے مجبور ہو کر (اکٹھی) تین طلاق دیتے ہیں تو صحیح حکم کے ظاہر ہونے کے بعد سخت نادم ہوتے ہیں اور دنیا بھر کی حیلہ جوئی اور چارہ گری تلاش کرتے ہیں، ایسی غلط تدبیر اختیار کرتے ہیں کہ پھر وہ عورت اس کے نکاح میں بغیر تحلیل (شرعی) کے آ جائے یا باقی رہ جائے۔
اس سے متعدد خرابیاں رونما ہوتی ہیں۔ اگر طلاق دینے والا حنفی مسلک رکھتا ہے اور اسی پر قائم رہنا چاہتا ہے تو لامحالہ تحلیل کی شکل اختیار کرتا ہے، شرط باندھ کر دوسرے سے نکاح کراتا ہے کہ تم کل طلاق دے دینا اس طرح وہ شریعت کے نزدیک مجرم ٹھہرتا ہے۔
اس کے بعد موصوف نے حلالے کے لعنتی اور زناکاری ہونے کی بابت احادیث وآثار نقل فرمائے ہیں، پھر لکھتے ہیں:
''اب آپ غور کر کے دیکھیے کہ ہمارے معاشرے میں کون سی شکل رائج ہے؟ بالکل متعۃ النساء کی طرح مشروط نکاح کیا جاتا ہے اور اگلے دن نکاح کرنے والے سے طلاق لے لی جاتی ہے۔ اس شکل میں بعض ایسے شرم ناک اور حیاسوز قصے سننے میں آتے ہیں کہ کسی طرح شریعت کا مزاج اس کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، جب ہی تو حضرت عمر نے فرمایا: ایسے لوگوں کو میں سنگ سار کروں گا۔''11
اس کے بعد موصوف نے ایسے بعض واقعات کا ذکر کیا ہے جن میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کر کے رجوع کا حق دینے کے بجائے، تین ہی طلاقیں شمار کر کے صلح اور رجوع کا راستہ بالکل بند کر دیا تو دونوں میاں بیوی کس طرح نہایت عبرت ناک انجام سے دو چار ہوئے۔ اہل علم محولہ کتاب میں یہ واقعات ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ آخر میں فاضل مضمون نگار نے ایسے عبرت ناک انجام سے یا حلالے جیسے لعنتی کام سے بچنے کا حل یہی بتلایا ہے کہ مجلس واحد کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق سمجھا جائے۔12