قاعد امام کی امامت میں نماز

بیٹھ کر نماز پڑھانے والےامام کی امامت میں مقتدی نماز کیسے پڑھیں ،بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر؟یہ مسئلہ اہل علم کے ہاں مختلف فیہ ہے۔ اختلاف کی وجہ ذخیرۂ احادیث میں بظاہر مختلف روایات کا موجود ہونا ہے۔ان روایات میں سےبعض ایسی ہیں جن میں رسولِ اکرمﷺ کابیٹھ کر جماعت کروانے کی بناپر صحابہ کرام کا آپ کی اقتدا میں بیٹھ کر نماز پڑھنا،آپ کاقاعد(بیٹھے) امام کی امامت میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کاحکم دینا اور کچھ صحابہ کرام کاآپ کی وفات کے بعد بھی اس پر عمل کرنا ہے ،جبکہ بعض روایات میں آپﷺ کے بیٹھ کر نماز پڑھانے پر مقتدی صحابہ کرام کاکھڑے ہوکر نماز ادا کرنے کاعمل بھی موجود ہے ،لہذااہل علم کا اس مسئلے میں اختلاف ہے۔

ان دونوں قسم کی روایات میں سے ایک قسم کی روایات میں امام کی اقتدا لازم ہے اور امام کی اقتدا کے لازمی ہونے کے باعث امام کسی عذر کی وجہ سے جماعت بیٹھ کر کروائے تو مقتدیوں کے لیے لا زم ہے کہ وہ بھی امام کی اقتدامیں بیٹھ کر نماز پڑھیں ۔ اس مفہوم کی احادیث مختلف مصادرِ حدیث میں موجود ہیں جوکہ درج ذیل ہیں:

1. سیدنا ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:

« وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ»1

'' اور جب وہ(امام) نماز بیٹھ کر پڑھائے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔''

2. سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ بیمار ہوئے تو آپﷺ کے پاس لوگ بیمار پرسی کے لیے حاضر ہوئے تو

فَصَلَّى رَسُولُ الله ﷺ جَالِسًا فَصَلُّوا بِصَلَاتِهِ قِيَامًا فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنِ اجْلِسُوا فَجَلَسُوا فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ «إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا»2

'' رسول اﷲﷺ نے اُنہیں بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ اوراُنہوں نے کھڑے ہوکرنماز پڑھنا شروع کی تو آپﷺ نے اُنہیں اشارہ کیا کہ تم بیٹھ جاؤ، پس وہ بیٹھ گئے۔ جب آپﷺ نے سلام پھیرا تو فرمایا: ''بے شک امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ پس جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو ،جب وہ (رکوع سے )سراٹھائے تو تم بھی اٹھاؤاور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم بھی (اس کی امامت میں) بیٹھ کر نماز پڑھو۔''

3. سیدنا جابر ؓسے مروی ہے کہ بے شک رسول اﷲﷺکو تکلیف ہوئی ...

فَصَلَّيْنَا وَرَاءَهُ وَهُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَكْرٍ يُسْمِعُ النَّاسَ تَكْبِيرَهُ فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا فَرَآنَا قِيَامًا فَأَشَارَ إِلَيْنَا الخ»3

'' ہم نے نبیﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ اس حال میں کہ آپ ﷺ بیٹھ کر نمازپڑھا رہے تھے اور سیدنا ابوبکر ؓ لوگوں کے لئے آپ ﷺ کی اتباع میں تکبیر کہہ رہے تھے ۔ آپﷺ نے ہمیں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے دیکھا تو بیٹھنے کااشارہ دیا ۔ ہم بیٹھ گئے اور ہم نے آپﷺ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔پس جب آپ ﷺ نے سلام پھیراتو فرمایا:''تم نے فارسیوں اور رومیوں کی طرح کیا، جب ان کے بادشاہ بیٹھے ہوں تو وہ کھڑے ہوتے ہیں،پس تم ایسا نہ کرو۔ تم اپنے ائمہ کی اقتدا کیا کرو ،پس اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم کھڑے ہو کر نماز پڑھواور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔''

4. سیدناعبد الله بن عمر سے مروی ہے کہ بے شک رسول اﷲﷺ اپنے صحابہ ؓ کی جماعت میں تھے کہ آپﷺ نے فرمایا :

«أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّيْ رَسُوْلُ اللهِ إِلَیْکُمْ». قَالُوا: بَلَى نَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللهِ قَالَ: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ الله وَمِنْ طَاعَةِ اللَّهِ طَاعَتِي؟» قَالُوا بَلَى، نَشْهَدُ أَنَّهُ مَنْ أَطَاعَكَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمِنْ طَاعَةِ اللَّهِ طَاعَتُكَ. قَالَ: «فَإِنَّ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ أَنْ تُطِيعُونِي وَمِنْ طَاعَتِي أَنْ تُطِيعُوا أمَرَاءكُم وإن صَلُّوا قعُودًا فَصَلُّوا قعودًا»4

'' کیا تم جانتے نہیں ہو کہ بے شک ميں تمہاری طرف اﷲ کا رسول بنا كر بھيجا گیا ہوں۔انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ اﷲ کے رسول ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : کیا تم جانتے نہیں ہو کہ جس نے میری اطاعت کی، تحقیق اس نے اﷲ کی اطاعت کی اور میری اطاعت اللّٰہ ہی کی اطاعت ہے؟انہوں نے کہا:کیوں نہیں! ہم گواہی دیتے ہیں کہ جس نے آپ کی اطاعت کی اس نے اﷲ کی اطاعت کی،اور اللّٰہ کی اطاعت میں سے ہی آپ کی اطاعت ہے۔آپ نے فرمایا:اللّٰہ کی اطاعت یہ ہے کہ تم میری اطاعت کرواور میری اطاعت یہ ہے کہ تم اپنے اُمرا کی اطاعت کرو۔پس اگر وہ بیٹھ كر نماز پڑھائیں تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔''

5. سیدنااُسید بن حضیر ؓسے مروی ہے کہ وہ لوگوں کی امامت کروایا کرتے تھے۔کہتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ ان کی بیمار پرسی کے لئے تشریف لائے...

فَقَالُوا: يَا رَسُولَ الله! إِنَّ إِمَامَنَا مَرِيضٌ، فَقَالَ: «إِذَا صَلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا»5

'' تو لوگوں نے کہا کہ یا رسول اﷲﷺ! ہمارا امام بیمار ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''جب وہ (امام)بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم بھی (اس کی اقتدا میں) بیٹھ کر نماز پڑھو۔''

مندرجہ بالا روایات سے واضح ہوتا ہے کہ نماز میں امام کی اقتدا لازمی ہے اور امام کی متابعت وموافقت ضروری ہے اور اگر امام کسی بھی عذر کی بناپر بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی بھی امام کی اقتدا میں بیٹھ کر نماز پڑھیں لیکن مندرجہ بالا روایات کے بر عکس مصادرِ حدیث میں اس کے متضاد روایات بھی موجود ہیں جن سے ثابت ہو تاہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے اپنی مرض الموت میں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور سیدنا ابو بکر ؓ اور باقی صحابہ ؓنے آپ ﷺ کی اقتدا میں کھڑے ہو کر نما ز پڑھی، چنانچہ صحیح بخاری میں سیدہ عائشہ صدیقہ ؓسے مروی ہے :

1. قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ الله ﷺ جَاءَ بِلَالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ...» الخ6

'' جب رسول اﷲ ﷺ پر بیماری شدت اختیار کر گئی تو سیدنا بلال ؓ آپ کو نماز کی خبر دینے آئے تو رسول اﷲﷺ نے فرمایا: تم سیدنا ابوبکر ؓ سے کہو کہ وہ لوگوں کوجماعت کروائے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲﷺ! بے شک ابوبکر ایک نرم دل آدمی ہیں اور وہ آپ کے مقام (مصلیٰ) پر کھڑے نہیں ہوں گے اور لوگوں کو اُن کی آواز نہیں سنائی دے گی، اس لئے آپ سیدنا عمر کو کہتے تو بہتر ہوتا۔آپ نے فرمایا: تم سیدنا ابوبکر ؓ سے کہو کہ وہ لوگوں کوجماعت کروائے۔ میں نے سیدہ حفصہؓ کو کہا کہ وہ بھی نبی کریم ﷺسے کہیں، سو حفصہ نے بھی (یہ بات) نبی کریم ﷺکو کہی جس پر رسول اﷲﷺ نے فرمایا: تم یوسفؑ کی خواتین کی طرح ہو۔ پس جب نماز شروع ہوئی تو رسول اﷲﷺ نے اپنے نفس میں آسانی محسوس کی۔ پس آپﷺ دو آدمیوں کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے اور آپ کے پاؤں زمین پر نشان ڈال رہے تھے یہاں تک کہ آپﷺ مسجد (نبویﷺ)میں داخل ہوئے۔ جب سیدناابوبکر ؓ نے آپ ﷺ کی آہٹ پائی تو پیچھے ہٹنا شروع کیا تو رسول اﷲ ﷺ اُنہیں(ٹھہرنے کا)اشارہ کیا تو رسول اﷲﷺ آگے بڑھے یہاں تک کہ آپﷺ سیدنا ابوبکر ؓ کے بائیں جانب بیٹھ گئے۔چنانچہ سیدنا ابوبکر ؓ کھڑے ہو کر نماز پڑھ؍پڑھا رہے تھے جبکہ رسول اﷲﷺ بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے، سیدنا ابوبکر ؓ آپﷺ کی اقتدا کررہے تھے اور لوگ سیدنا ابوبکرؓ کی اقتدا کر رہے تھے۔''

2. عَنْ عُبَيْدِ الله بْنِ عَبْدِ الله قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ أَلَا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ الله ﷺ قَالَتْ: بَلَى ثَقُلَ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: أَصَلَّى النَّاسُ قُلْنَا لَا، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ... الخ7

'' عبیداﷲ بن عبداﷲ کہتے ہیں کہ میں سیدہ عائشہ ؓ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کاش آپؓ رسول اﷲﷺ کی مرض الموت کی حالت میرے سامنے بیان کریں تو سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: کیوں نہیں ضرور سنو، جب آپﷺ کی مرض شدت اختیار کر گئی تو آپﷺ نے دریافت کیا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کیا: جی نہیں یارسول اﷲ ﷺ وہ آپ کا انتظار کررہے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ میرے لئے مِخْضَب ( برتن ) میں پانی رکھ دو۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں: پس ہم نے پانی رکھ دیا اور آپﷺ نے غسل کیا پھر آپﷺ چلنے لگے ؍اٹھنے لگے تو آپﷺ پر پھر بے ہوشی طاری ہو گئی ۔(یہی مکالمہ مزید دو بار ہوا) آخر میں آپﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ کے پاس آدمی بھیجا اور حکم فرمایا کہ وہ نماز پڑھائیں۔ بھیجے ہوئے شخص نے آکر کہا کہ رسول اﷲﷺ نے آپ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ہے۔ سیدناابوبکرؓ بڑے نرم دل انسان تھے، انہوں نے سیدناعمر ؓ کو فرمایا کہ تم نماز پڑھاؤ لیکن سیدنا عمرؓ نے فرمایا کہ آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ آخر ( بیماری کے ) دنوں میں سیدنا ابوبکرؓ نماز پڑھاتے رہے پھر جب نبی کریمﷺ کو مزاج کچھ ہلکا معلوم ہوا تو آپﷺ دو آدمیوں کا سہارا لے کرجن میں سے ایک سیدنا عباس ؓ تھے، ظہر کی نماز کےلیے گھر سے باہر تشریف لائے اور ابوبکرؓ نماز پڑھا رہے تھے پس جب سیدنا ابوبکر ؓ نے آپ ﷺ کودیکھاتو پیچھے ہٹنا چاہاتو رسول اﷲﷺ نے اُنہیں اشارے سے اُنہیں روکاکہ پیچھے نہ ہٹو!پھر آپﷺ نے ان دونوں مردوں سے کہا مجھے ابوبکر ؓ کے بازوبٹھادو، چنانچہ دونوں نے آپ ﷺ کو حضرت ابوبکرؓ کے بازو میں بٹھا دیا۔ راوی نے کہا کہ پھر ابوبکر ؓ آپﷺکی پیروی کررہے تھے۔ نبی کریمﷺ بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ رہے تھے۔''

مذکورہ بالا دونوں قسم کی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل علم کےہاں اختلاف پایا جاتا ہے اوردرج ذیل چار آراءسامنے آتی ہیں:

1. قاعد امام کے اقتدا میں مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں گے ۔ اس قول کے قائلین میں سیدنا جابر بن عبداللّٰہ ،سیدنا اسید بن حضیر ، سیدنا ابو ہریرہ ، سیدنا قیس بن فہد وغیرہ اور امام احمد بن حنبل، اسحٰق اور امام اوزاعی وغیرہ شامل ہیں۔8

2. امام بیٹھ کر جماعت کر وا ہی نہیں سکتا، اگر امام کوکوئی عذر یا بیماری وغیرہ لا حق ہو تو وہ امامت کے لیے اپنا نائب بنائے ۔ یہ امام مالک ؒ کا موقف ہے۔9

3. جمہوراہل علم کا موقف ہے کہ امام کسی عذر وغیرہ کی بنا پر بیٹھ کرجماعت کرواسکتا ہے لیکن مقتدی قاعد امام کے پیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھیں گے ۔ اس نظریہ کے حاملین میں سے امام سفیان ثوری ، امام عبداللّٰہ بن مبارک ،امام ابوحنیفہ ، امام شافعی﷭ ،اہل الحدیث اور اصحاب الرائے وغیرہ شامل ہیں ۔10

4. بعض اہل علم ان دونوں قسم کی روایات میں تطبیق دیتے ہوئے یہ رائے رکھتے ہیں کہ اگرامام کھڑے ہوکر نماز کی ابتدا کرے اور اثناے نماز میں کسی عذر یا ضرورت کی بنا پر امام کو بیٹھنا پڑ جائے تو بیٹھ سکتا ہے لیکن مقتدی کھڑے رہیں گے اور اگر امام بیٹھ کر نماز کی ابتدا کرے تو مقتدی بھی امام کی اقتدا میں بیٹھ کر نماز پڑھیں گے، دوسری تطبیق کی یہ صورت بھی بتائی گئی ہے کہ قاعد امام کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھنا مستحب ہے اور کھڑے ہو کر نماز ادا کرنا بیانِ جواز کے لیے ہے یعنی کہ سیدنا ابو ہریرہ ؓ والی حدیث «إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ» 11وجوب پر دلالت کر تی ہے جبکہ دوسری حدیث (مرض الوفات والی نماز ) استجاب پر دلالت کر تی ہے اور وجوب كو منسوخ کر تی ہے ۔

یہ تطبیق امام احمد اور ان کے اصحاب نے دی ہے نیز امام ابن خزیمہ ، ابن حبان اورابن منذر بھی اسی موقف کے قائل ہیں۔12

اب اہل علم کی ان چار وں مختلف آرا کے دلائل کا تجزیہ کیا جاتا ہے:

1. جن اہل علم کا یہ موقف ہے کہ قاعد امام کے پیچھے مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں گے وہ آغاز میں سیدہ عائشہؓ سے مروی (حدیث نمبر 2) سے استدلال کرتے ہیں، جس میں امام کی اقتدا کا حکم دیا گیا ہے ۔ سو امام کی اقتدا کا تقاضا یہ ہے کہ مقتدی امام کی نماز کے تمام احوال میں متابعت کرے کیونکہ امام کی متابعت کرناواجب ہے اور مقارنت ، مسابقت اور مخالفت کرنا متابعت کی نفی ہو گا، لہٰذا اگر امام بیٹھ کر نمازپڑھائیں تو امام کی اتباع میں مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں چنانچہ نبیﷺ گھوڑے سے گرے تو آپ ﷺ نے زخمی ہونے کی بنا پر جب بیٹھ کر نماز پڑھی تو صحابہ کرام ؓ نے بھی آپ ﷺ کی اتباع میں بیٹھ کر نماز پڑھی اور نماز سے فراغت کے بعد آپ ﷺ نے واضح الفاظ میں مندرجہ بالاحکم دیا ۔

اس قول کے قائل آغاز میں مذکورسیدنااسید ؓ کے واقعہ (حدیث نمبر5) سے بھی استدلال کرتے ہیں جس میں نبی کریمﷺ نے بیٹھے ہوئے امام کی اقتدا میں بیٹھ کر نماز پڑھنےکا حکم دیا۔نیز اس قول کے دلائل میں سیدنا جابر کی حدیث (نمبر 3)، اور سیدنا ابوہریرہ کی حدیث (نمبر 1) بھی شامل ہیں۔

اس نظریہ کے حامی سیدنا جابر،سیدناابوہریره،سیدنا قیس بن فہد اور سیدنا اسید بن حضیر کے نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد بھی بیٹھ کر نماز پڑھنے کے موقف کو پیش کرتے ہوتے کہتے ہیں کہ اگر قاعدامام کی امامت میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کی ممانعت ہوتی یا پھر یہ روایات منسوخ ہوتیں تو مندرجہ بالا صحابہ کرام کیونکر نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد اس طرح نماز پڑھتے اور پڑھاتے اور صحابہ ؓ کا اس طرح نماز پڑھانا صحیح اسانید کے ساتھ ثابت ہو چکا ہے۔13

ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سیدنا ابوہریرہ ؓ کانبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد یہی فتویٰ تھا اور سیدنا جابر ؓ اور سیدنااسید ؓ نے بیماری کی حالت میں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور مقتدیوں کو بیٹھنے کا حکم دیا ۔14

امام ابن منذر کہتے ہیں کہ صحابی اپنی مروی عنہ کو زیادہ جانتا ہوتا ہے اور چار صحابہ ؓ کاان احادیث (نبی کریم ﷺ کی امامت میں مقتدیوں کا بیٹھ کر نماز پڑھنے والی)کو بیان کرنا،پھر اس کے مطابق آپﷺ کی وفات کے بعد عمل کرنا اور اس کے مطابق فتویٰ دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ قاعد امام کی اتباع میں مقتدیوں کو بھی بیٹھ کر نماز ادا کرنا ہوگی۔15

امام ابن حبان نے تو اس پر صحابہ ؓ کے اجماعِ سکوتی کا دعویٰ کیا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ چار صحابہ کرام ؓکا اس پر عمل اور کسی ایک صحابی ؓ سے بھی اس کے خلاف عمل یا فتویٰ کا ثابت نہ ہونا صحابہ کرام ؓ کے اجماع کی دلالت کرتا ہے ۔16

امام ابن حبان﷫ کی طرح امام ابن حزم﷫ نے بھی اجماع کا دعویٰ کیا ہے ۔17

2. اس مسئلہ میں دوسرا موقف امام مالک اور امام حسن بصری کا ہے جو قاعد امام کی امامت کے جواز کے ہی قائل نہیں ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ امام وقت جب بیمار ہو یا کسی عذر کی بنا پر جماعت کھڑے ہو کر نہ کرواسکے تو امام کو اپنا نائب بنانا چاہیے اور وہ خود جماعت نہ کروائے۔ 18آپ اپنے اس موقف کے حق میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب بیمار ہوئے تو آپ ﷺ نے خود نماز پڑھانے کے بجائے سیدنا ابوبکر ؓ کو اپنا خلیفہ بنایا اور حکم دیا کہ وہ ان کی جگہ امامت کا فریضہ سرانجام دیں اور وہ آخری مرض الموت والی حدیث پیش کرتے ہیں۔19

جبکہ سیدنا ابوبکر ؓ نے آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں سترہ نمازوں کی امامت کروائی ہے۔ ان سترہ نمازوں میں سے ایک میں آپ ﷺ نے صرف ایک بار بیٹھ کر نماز پڑھائی ہے۔ امام مالک یہ روایت بھی پیش کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

فأما ماروي من قوله: «إذا صلى الإمام جالسا فصلوا جلوسا أجمعین» فقد روي ذلك وقد جاء ما قد نسخه20

آپﷺسے جو یہ مروی ہے «إذا صلى الإمام جالسا فصلوا جلوسا أجمعین» کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب بھی بیٹھ کر نماز پڑھو،تو اس کا نسخ بھی تو آ چکا ہے۔

امام حازمی لکھتے ہیں:

"فقالت طائفة: لا یؤم القاعد القائمین. فإن صلوا لم یجزهم وبه قال مالك و محمد بن الحسن21

''ایک جماعت کہتی ہے کہ قاعد امام کھڑے مقتدیوں کی امامت نہ کروائے،اگرانہوں نے قاعد امام کے پیچھے نماز پڑھ لی تو ان سے کافی نہیں ہوگی،امام مالک اور محمد بن حسن نے بھی یہی کہا ہے۔''

c اس سلسلہ میں تیسرا موقف جمہور اہل علم جن میں امام ابو حنیفہ ،امام شافعی ،عبداللّٰہ بن مبارک اور اصحاب ائمہ کے ساتھ اہل الحدیث کا ہے، ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:

1۔ جمہور اہل علم اپنے موقف کے حق میں رسول اکرم ﷺ کی مرض الموت والی آخری نماز کو بطورِ دلیل پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے جب یہ آخری نماز بیٹھ کر پڑھائی تو سیدنا ابوبکر ؓ اور تمام مقتدی صحابہ ؓ نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی۔ سیدہ عائشہؓ سے مروی اس حدیث کا متن وترجمہ پیچھے مضمون کے چوتھے صفحہ پر بیان ہوچکا ہے۔

2۔ اس موقف کے حاملین کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ قیام پر قادر نمازی بیٹھ کر نماز ادا کر ہی نہیں سکتا، رسول اللّٰہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ كَانَتْ بِي بَوَاسِيرُ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَنِ الصَّلَاةِ فَقَالَ:«صَلِّ قَائِمًا، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا. فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ، فَعَلَى جَنْبٍ»22

''سیدنا عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ مجھے بواسیر کی شکایت تھی،میں نے نبی کریم ﷺ سے اس بارے میں پوچھا:تو آپ نے فرمایا:کھڑے ہوکر نماز پڑھو،اگر اس کی طاقت نہ ہوتو بیٹھ کر پڑھ لو ،اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو پہلو پر لیٹ کر پڑھ لو۔

3۔ اگرقاعد امام کی اتباع میں مقتدیوں کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنے کا پہلا حکم بدستور جاری ہوتا تو رسول اکرم ﷺ اس نماز کے اعادہ کاحکم دیتے لیکن آپ ﷺ نے اعادہ کا حکم نہیں دیا جو اس بات کابین ثبوت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کا پہلا حکم (جو گھوڑے سے گرنے پر نماز پڑھائی یا گھر میں نماز پڑھائی) « فإذا صلى جالسا فصلوا» منسوخ ہے اور آپ ﷺ کی اقتدامیں صحابہ کرام کاکھڑے ہوکر نماز پڑھنا ناسخ ہے۔

d مسئلہ زیر بحث میں چوتھا موقف امام احمد بن حنبل کا ہے جنہوں نے دو نوں مختلف ومتضاد قسم کی روایات کو جمع کرنے کی کو شش کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ جن احادیث میں آپ ﷺ نے «فاذا صلی جالسا فصلّوا جلوسا» ارشاد فرمایا ہےوہ وجوب کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ امر برائے استحباب ہے۔ لہٰذا اگر امام کسی عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی بیٹھ کر اور کھڑے ہو کر دونوں طرح نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن قعود(کھڑے ہونے) کی صورت اولیٰ ہے۔23

امام احمد نے اس کے علاوہ اس طرح بھی تطبیق دینے کی کوشش کی ہے کہ اگر امام بیٹھ کر نماز کی ابتدا کرے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں لیکن اگر امام کھڑے ہو کر نماز کا آغاز کرتا ہے اور اثناے نماز کسی ضرورت یا عذر کی بنا پر اسے بیٹھنا پڑ گیا ہو تو مقتدی کھڑے ہو کر نماز ادا کریں گے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے سیدنا انس ؓ کی حدیث کے مطابق بیٹھ کر نماز پڑھائی تو صحابہ کرامؓ نے بھی بیٹھ کر پڑھی لیکن آخری نماز میں سیدنا ابوبکر ؓ نے کھڑے ہو کر شروع کی تو مقتدیوں نے بھی نبی کریم ﷺ کے بیٹھنے کے باوجود کھڑے ہو کر نماز پڑھی ۔

مذکورہ تمام آراء ودلائل نقل کرنے کے بعدراقم اس نتیجہ پر پہنچاہے کہ ان آرا میں جمہور اہل علم کی رائے و موقف درست اور حقیقت پر مبنی ہے کہ قاعد امام کی امامت میں قیام پر قادر مقتدی کھڑے ہو کر نماز ادا کریں گے کیونکہ نبی اکرمﷺ کی امامت میں صحابہ کرامؓ کا بیٹھ کر نماز پڑھنا اور نبی اکرم ﷺ کا اُنہیں «فإذا صلى فصلوا جلوسا أجمعین»کا حکم دینا منسوخ ہے۔اس حکم نبویﷺ کے منسوخ ہونے کی متعدد وجوہ ہیں جو درج ذیل ہیں۔:

1۔نماز میں قیام فرض ہے، چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ وَقوموا لِلَّـهِ قـٰنِتينَ ﴿٢٣٨﴾... سورةالبقرة

''اور اللّٰہ کے لئےفرمانبردار ہو کر کھڑے ہو جاؤ۔''

قیام پر قادرشخص کھڑے ہو کر ہی قیام کرے گا اور قیام پر قادر نمازی بیٹھ کر نماز ادا نہیں کرسکتا رسول اللّٰہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے جیسا کہ پیچھے عمران بن حصین کی مرض بواسیر والی حدیث گزر چکی ہے، جس میں نبی کریمﷺ کا صریح فرمان موجود ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے قیام پر قادر ہونے کےسبب کبھی بیٹھ کر نماز اد ا نہیں کی البتہ زندگی کے آخری سال نفل بیٹھ کر پڑھ لیتے تھے چنانچہ سیدہ حفصہ ؓ کی روایت ہے کہ

مَا رَأَيْتُ رَسُولَ الله ﷺ فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا حَتَّى كَانَ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِعَامٍ فَإِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا وَيَقْرَأُ بِالسُّورَةِ وَيُرَتِّلُهَا حَتَّى تَكُونَ أَطْوَلَ مِنْ أَطْوَلَ مِنْهَا24

''میں نے نبی کریم ﷺ کو کبھی بھی بیٹھ کرنفلی نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ،حتی کہ وفات سے ایک سال پہلےتک (ایسا ہی تھا ،پھرآخری سال)آپ بیٹھ کر نفلی نماز بیٹھ کر پڑھ لیتے تھے اور کوئی سورۃ پڑھتے تھے اور اسے ترتیل سے پڑھتے حتی کہ وہ اپنی اصل طوالت سے بھی زیادہ لمبی ہو جاتی۔''

امام بخاری نے سیدہ عائشہ ؓ کی روایت ان الفاظ سے بیان کی ہے:

عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا لَمْ تَرَ رَسُولَ الله ﷺ يُصَلِّي صَلَاةَ اللَّيْلِ قَاعِدًا قَطُّ حَتَّى أَسَنَّ فَكَانَ يَقْرَأُ قَاعِدًا حَتَّى إِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ فَقَرَأَ نَحْوًا مِنْ ثَلَاثِينَ آيَةً أَوْ أَرْبَعِينَ آيَةً ثُمَّ رَكَعَ25

''سیدہ عائشہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے راوی کو بتایا کہ انہوں نے رسول اللّٰہ کو رات کی نماز بیٹھ کر پڑھتے ہوئے کبھی بھی نہیں دیکھا ،حتی کہ آپ عمر رسیدہ ہو گئے،بڑھاپے میں آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے،حتی کہ جب رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہوجاتے اور تیس یا چالیس کے قریب آیات پڑھ کر رکوع کرلیتے۔''

رسول اکرمﷺ نے تو طاقت رکھنے والے نمازی کے نفل نماز میں کھڑے ہونے کے بجائے بیٹھ کر ادا کرنے کو نصف اجر کا حقدار قرار دیا ہے ۔26

اس حدیث کے الفاظ «فان لم تستطع»کے متعلق امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

"استدل به من قال لا ينتقل المريض إلى القعود إلا بعد عدم القدرة على القيام وقد حكاه عياض عن الشافعي وعن مالك وأحمد وإسحاق لا يشترط العدم بل وجود المشقة والمعروف عند الشافعية أن المراد بنفي الاستطاعة وجود المشقة الشديدة بالقيام أو خوف زيادة المرض أو الهلاك ولا يكتفى بأدنى مشقة..."27

''اس حدیث سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ مریض کو قیام پر قادر نہ ہونے کی صورت کے علاوہ بیٹھ کر نماز نہیں پڑھنی چاہئے۔قاضی عیاض نے امام شافعی،امام مالک ،امام احمد اور امام اسحاق سے یہی روایت کیا ہے کہ عدم قیام کی شرط نہیں ہے ،بلکہ مشقت کا وجود ہے،اور شافعیہ کے ہاں معروف ہے کہ عدم استطاعت سے مراد شدیدمشقت،مرض کی زیادتی کا اندیشہ یا ہلاکت ہے،ہلکی مشقت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔''

2۔سیدنا ابوھریرہ ؓ ، سیدنا انس ؓ اور سیدہ عائشہ ؓ وغیرہ کی وہ روایات،جن میں نبی اکرم ﷺ کا فرمان«فإذا صلى فصلوا جلوسا أجمعین» موجود ہے،آپ ﷺ کے گھوڑے سے گرنے کی بنا پر آپ ﷺ کے زخمی ہونے کی بنا، پر بیٹھ کر نماز پڑھانے اور مقتدیوں کو بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم ہے ۔یہ واقعہ ۵ھ کا ہے جبکہ حضرت عائشہ ؓ کی روایت

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ الله عَنْهَا أُمِّ الـْمُؤْمِنِينَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا لَمْ تَرَ رَسُولَ الله ﷺ يُصَلِّي صَلَاةَ اللَّيْلِ قَاعِدًا قَطُّ حَتَّى أَسَنَّ فَكَانَ يَقْرَأُ قَاعِدًا حَتَّى إِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ فَقَرَأَ نَحْوًا مِنْ ثَلَاثِينَ آيَةً أَوْ أَرْبَعِينَ آيَةً ثُمَّ رَكَعَ28

آپ ﷺ کی مرض الموت کا واقعہ ہے اور یہ11ھ میں آپ ﷺ کی آخری نماز ہے۔29

جس میں آپ ﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور آپ ﷺ کی اقتدا میں سیدنا ابوبکر اور باقی مقتدی صحابہ کرام ؓ کا کھڑے ہو کر نماز پڑھنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ۵ھ کا عمل اور آپ ﷺ کا ارشاد منسوخ ہے، اگر منسوخ تسلیم نہ کریں تو پھر لازم آتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ صحابہ کرامؓ سے نماز کا اعادہ کرواتے لیکن آپﷺنے صحابہ کرامؓ سے نماز کا اعادہ نہیں کروایا کیونکہ یہاں امام کی اتباع میں بیٹھنے کی بجائے مقتدیوں نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی ۔

3۔اگر قاعد امام کی اتباع میں مقتدیوں کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنے کا پہلا حکم بدستور جاری ہوتا تو رسول اکرم ﷺ اس نماز کے اعادہ کاحکم دیتے لیکن آپ ﷺ نے اعادہ کا حکم نہیں دیا جو اس بات کابین ثبوت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کا پہلا حکم (جو گھوڑے سے گرنے پر نماز پڑھائی یا گھر میں نماز پڑھائی) « فإذا صلى جالسا فصلوا » منسوخ ہے اور آپ ﷺ کی اقتدا میں صحابہ کرام ؓ کاکھڑے ہوکر نماز پڑھنا ناسخ ہے۔

4۔انہیں وجوہ کی بنا پر جمہور اہل علم نے اس حدیث کو منسوخ اور سیدہ عائشہ ؓ کی روایت کو ناسخ قرار دیا چنانچہ ان اہل علم میں سے چند ایک کاذکر کیا جاتا ہے:

قاعد امام کی اقتدا میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کا حکم منسوخ قرار دینے والے ائمہ

1. سیدنا ابوہریرہ ؓ کی مندرجہ بالا روایت کو جمہور اہل علم مثلاًامام شافعی ،امام ابوحنیفہ اورعبداللّٰہ بن مبارک وغیرہ نے منسوخ قرار دیا ہے۔30

2. امیر المومنین فی الحدیث امام محمد بن اسماعیل بخاری اور ان کے استاد گرامی شیخ حمیدی نے بھی منسوخ قرار دیا ہے چنانچہ جامع صحیح بخاری میں سیدنا انس بن مالک ؓ کی حدیث «فإذا صلى فصلوا جلوسا أجمعین» لکھنے کے بعد فرماتے ہیں:

قال الحميدي: قوله: «إذا صلى جالسا فصلوا جلوسا» هو في مرضه القديم، ثم صلى بعد ذلك النبي صلى الله عليه وسلم جالسا، والناس خلفه قياما، لم يأمرهم بالقعود، وإنما يؤخذ بالآخر فالآخر من فعل النبي ﷺ31

''امام حمیدی فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان «إذا صلى جالسا فصلوا جلوسا» آپ کی قدیم بیماری کی حالت میں تھا ،پھر اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے بیٹھ کرنماز پڑھائی اور لوگوں نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی،آپ نے انہیں بیٹھنے کا حکم نہیں دیا ۔اور (اصول یہی ہے کہ ) نبی کریم ﷺ کے آخری سے آخری عمل کو لیا جاتا ہے۔''

3. امام جعفراحمد بن طحاوی حنفی لکھتے ہیں:

''نظر صحیح کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اگرمقتدی کو عذر نہ ہو تو اس سے قیام ساقط نہیں ہوگا کیونکہ جب مقتدی امام کی نماز میں داخل ہو تو جو چیز مقتدی پر فرض ہو ، وہ امام کی نماز میں داخل ہونے سے ساقط نہیں ہوتی،جب مقیم مثلاً ظہر کی نماز مسافر امام کی اقتدا میں پڑھے تو اس پر چار رکعت نماز پڑھنی چاہئے اور مسافر دو رکعت نماز پڑھ کر سلام پھیر دیتا ہے اور اس کی اقتدا کرنے سے مقیم پر یہ لازم نہیں آتا کہ وہ بھی دو رکعت پڑھنے کے بعدسلام پھیر سے بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ دو رکعت نماز اور پڑھے اور اس پر جو چار رکعت نماز ظہر فرض تھی، اس کو پورا کرے اس سے یہ واضح ہوگیا کہ مقتدی پر وہ چیز فرض ہے، وہ امام کی اقتدا کی وجہ سے ساقط نہیں ہوتی پس جو مقتدی تندرست ہو اس پر نماز میں قیام فرض ہے اور بیمار امام جو قیام پر قادر نہ ہو، اس کی اقتدا کرنے کی وجہ سے سیدنا ابوبکر ؓ اور دوسرے نمازیوں سے قیام ساقط نہیں ہوا۔ رسول اﷲ ﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اورسیدنا ابوبکر ؓ نے اور باقی نمازیوں نے کھڑے ہوکر پڑھی۔''32

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام طحاوی کے نزدیک بھی سیدنا ابوہریرہ ؓاور سیدنا انس ؓ والی حدیث منسوخ ہیں اور سیدہ عائشہ کی مذکورہ حدیث ان کی ناسخ ہے۔

4. علامہ ابن حجر عسقلانی نے بھی ابوہریرہ ؓوالی حدیث منسوخ اور سیدہ عائشہ ؓ کی حدیث کو ناسخ قرار دیا ہے اور تمام مذکورہ آرا بیان کرنے کے بعد ان کے دلائل کا رد کیا ہے۔33

5. صحیح مسلم کے ابواب کی تبویب میں امام نووی نے سیدنا ابوہریرہ وغیرہ والی قاعد امام کی امامت میں بیٹھ کر نماز پڑھنے والی احادیث کومنسوخ سمجھتے ہوئے ہی ان الفاظ میں باب قائم کیا ہے:

باب استخلاف الإمام إذا عرض له عذر من مرض وسفر وغیرهما من یصلي بالناس وأن من صلى خلف إمام جالس لعجزه عن القیام لزمه القیام إذا قدر علیه ونسخ القعود خلف القاعد في حق من قدر على القیام34

''امام کے نائب بنانے کا باب جو لوگوں کو نماز پڑھائے جب امام کو مرض ،سفر وغیرہ جیسے عوارض لاحق ہوں،اور جو شخص کسی معذور قاعد امام کے پیچھے نماز پڑھے اگر وہ قدرت رکھتا ہوتواس پر لازم ہے کہ وہ کھڑے ہو کر نماز ادا کرے،قاعد امام کے پیچھے کھڑے ہونے کی قدرت رکھنے والے کے لئے بیٹھنا منسوخ ہے۔''

اس باب میں سیدہ عائشہ ؓ کی روایت بیان کی گئی ہے جس میں آپ ﷺ کی مرض الموت والی نماز کاذکر کیا ہے اور اس میں واضح الفاظ ہیں کہ

وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي وَهُوَ قَائِمٌ بِصَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ35

''سیدنا ابو بکر نبی کریم ﷺ کی امامت میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ،اور لوگ سیدنا ابو بکر کی امامت میں نماز ادا کر رہے تھے،جبکہ نبی کریم ﷺ بیٹھے ہوئے تھے۔''

امام نووی نے لکھا ہے کہ امام مالک کی ایک روایت کے مطابق''جو شخص کھڑا ہو نے پر قادر ہو، اس کی نماز بیٹھنے والے امام کے پیچھے صرف اس صورت میں جائز ہے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے ۔''36

6. امام خطابی بھی بیٹھ کر نماز پڑھنے والی احادیث کو منسوخ تصور کرتے ہیں:

وفي اقامة رسول اﷲ ﷺ ابابکرعن یمینه وهو مقام المأموم وفي تکبیره بالناس وتکبیره أبي بکر بتکبیره بیان واضح أن الإمام في هذه الصلوة رسول اﷲﷺ وقد صلى قاعدا والناس من خلفه قیام وهي آخر صلوة صلاها بالناس الخ37

''نبی کریم ﷺ کا سیدنا ابو بکر کو اپنے دائیں جانب کھڑا کرنا جو مقتدی کا مقام ہے،اور سیدنا ابو بکر کا آپ کی تکبیرات پر تکبیرات کہنا ایک واضح امر ہے۔ اس نماز میں امام نبی کریم ﷺ تھے اور آپ نے یہ نماز بیٹھ کر پڑھی تھی ،جبکہ سیدنا ابو بکر اور باقی لوگوں نے کھڑے ہو کر پڑھی تھی،اور یہ نبی کریم ﷺ کی آخری نماز تھی۔''

7. علامہ محمود بن احمد عیسیٰ نے بھی قاعد امام کی امامت میں بیٹھ کر نماز پڑھنے والے حکم کو منسوخ کہا ہے اور دلائل دیتے ہوئے اس طرح رقم طراز ہیں :

''اس قاعدہ پر سب کا اتفاق ہےکہ جب مقتدی امام کی نماز میں داخل ہو تو جو چیز اس پر پہلے فرض نہ ہو تو امام کی نماز میں داخل ہونے سے وہ چیز اس پر فرض ہو جاتی ہے جیسے مسافر مثلاًمقیم امام کی اقتدا میں ظہر کی نماز پڑھے تو پہلے اس پر چار رکعت نماز پڑھنی فرض نہیں تھی مگر اب مقیم امام کی اقتدا کرنے کی وجہ سے اس پر بھی چار رکعت پڑھنا فرض ہو گئی۔ اس طرح جو چیز اس پر پہلے فرض تھی اب امام کی اقتدا سے وہ فرض اس سے ساقط نہیں ہو گا مثلاً مقیم نے مسافر امام کی اقتدا میں ظہر کی نماز پڑھی تو پہلے اس پر چار رکعت نماز فرض تھی اور مسافر امام نے دو رکعت پڑھنے کے بعد سلام پھیر دیا تو مقیم مقتدی سے دو رکعت پڑھنے کی فرضیت ساقط نہیں ہو گی، اسی طرح جب صحت مند شخص بیمار کی اقتدا میں نماز پڑھے گا تو امام کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی وجہ سے صحت مند شخص سے قیام کی فرضیت ساقط نہیں ہو گی۔''38

بعض اعتراضات اور ان کی وضاحت

اعتراض نمبر 1: نماز کے احوال میں امام کی متابعت ضروری ہے اور اگر امام نماز بیٹھ کر پڑھائے تو مقتدی بھی نماز بیٹھ کر پڑھیں؟

وضاحت :یہ درست ہے کہ نماز کے تمام احوال میں امام کی متابعت ضروری ہے، البتہ کسی شرعی دلیل کی بناپر امام کی مخالفت ہو سکتی ہے جیسے امام قیام کھڑے ہونے کی صورت میں کرتا ہے لیکن کوئی مقتدی امام کے پیچھے کسی عذر کی بنا پر اس کی اقتدا میں بیٹھ کر 'قیام' کرسکتا ہے اور اسی طرح رکوع وسجود بھی اشاروں سے کر سکتا ہے ۔

سیدنا ابوہریرہ ؓ ،سیدنا انس ؓ اور سیدہ عائشہ ؓ کی روایات۵ ھ کی ہیں جبکہ سیدہ عائشہ ؓ کی نبی مکرمﷺ کی مرض الموت والی روایت 11ھ کی ہے جو نبی مکرم ﷺ کی آخری نماز ہے جس میں سیدناابوبکر ؓ اور دیگر مقتدی صحابہ کرام ؓنےآپ ﷺ کے بیٹھنے کے باوجود کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔ یہ اس بات پر دلالت کرتی کہ یہاں شرعی دلیل (نبی اکرمﷺکی موجودگی میں آپ ﷺ کی امامت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنا اور آپ ﷺ کا ان کو اعادہ دکرنے کا حکم نہ دینا)ہے لہذا یہاں متابعت ضروری نہ تھی کیونکہ امام کسی عذر کی بنا پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں جیساکہ پیچھے عمران بن حصین کی بواسیر کے مرض والی روایت گزر چکی ہے۔

اس کی مثال اس طرح ہے کہ تیمم کرنے والے کی امامت میں متوضی نماز پڑھ سکتا ہے تو یہاں متابعت نہیں ہوئی، اس لئے امام نے پانی دستیاب نہ ہونے کی بناپر یاکسی اورعذر کی بنا پر تیمم کیا تھا جبکہ مقتدی بغیر کسی عذر کے کس طرح تیمم کرسکتے ہیں۔ اسی طرح اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جرابوں؍عمامہ پر مسح کرنے والے امام کی اقتدا میں پاؤں دھونے والے اور ننگے سر کامسح کرنے والے مقتدی نماز کی ہوجاتی ہے۔

پس ثابت ہوا کہ اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں ہے اورسیدناابوہریرہ ؓکی روایت منسوخ اور سیدہ عائشہ ؓ کی روایت ناسخ ہے۔

اعتراض نمبر 2: بیٹھ کر نماز پڑھانا نبی کریمﷺ کا خاصّہ تھا۔نبی کریمﷺ کے بعد کسی کو بیٹھ کو نماز پڑھانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ آپﷺ کا فرمان ہے:«لَایَؤُمَّنَّ بعدي جالسا»

وضاحت:نبی اکرم ﷺ کا خاصہ ہونے کے لئے شرعی دلیل ضروری ہے جبکہ یہاں کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور نبی کریمﷺ کا ارشاد «لَایَؤُمَّنَّ بعدي جالسا» ثابت نہیں ہے کیونکہ یہ روایت ضعیف ہونے کی بنا پر دلیل نہیں بن سکتی،اس روایت میں جابر جعفی راوی کذاب ہے ۔39 نیز ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ یہ روایت مرسل بھی ہے اور مرسل تابعی حجت نہیں ہے40۔ اس روایت کے متعلق ابن بزیزہ لکھتے ہیں:

"لوصحّ لم یکن فیه حجة لأنه یحتمل أن یکون المراد وضع الصلوة بالجالس أی یعرب قوله جالسا مفعولا لأجله"41

''اگر یہ روایت صحیح بھی ثابت ہوجائے تو حجت نہیں ہے کیونکہ یہ احتمال رکھتی ہے کہ اس کی مراد یہ ہو کہ بیٹھنے کی وجہ نماز کو ترک کردینا...''

اعتراض نمبر 3: بعض اہل علم نے کہا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی آخری نماز جس میں آپؐ جماعت کے دوران ملے تھے، اس میں آپﷺامام نہیں تھے بلکہ سیدنا ابوبکرؓ نے امامت کافریضہ سرانجام دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ مسروق نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی امامت میں بیٹھ کرنماز ادا کی۔42

وضاحت : یہ اعتراض غلط ہے کیونکہ امام نبی اکرم ﷺ ہی تھے، نہ کہ سیدنا ابوبکرصدیقؓ چنانچہ سیدہ عائشہ ؓ کی روایت میں یہ وضاحت ہے کہ

فَجَاءَ رَسُولُ الله ﷺ حَتَّى جَلَسَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا وَكَانَ رَسُولُ الله ﷺ يُصَلِّي قَاعِدًا يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِصَلَاةِ رَسُولِ الله ﷺ وَالنَّاسُ مُقْتَدُونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ الله عَنْهُ43

اس طرح نبی اکرم ﷺ کے امام ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے وہاں سے قرات شروع کی جہاں حضرت ابوبکر ؓ نے چھوڑی تھی۔اور اس لئے بھی یہ بات درست نہیں ہے کہ قرآن مجید میں خالق کائنات نے نبی اکرم ﷺ سے آگے بڑھنے کو منع کردیا ہے۔ارشاد ہے کہ ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تُقَدِّموا بَينَ يَدَىِ اللَّـهِ وَرَ‌سولِهِ...﴿١﴾ سورة الحجرات

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آپﷺ نے ایک بار حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ اور ایک بار حضرت ابوبکر ؓ کی امامت میں اس نمازیں ادا کی تھیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓکی امامت میں اس لئے نمازیں پڑھی تھیں کہ جب نبی اکرم ﷺ ان نمازوں کو ملے تو ایک رکعت اداکی جا چکی تھی لیکن اس آخری نماز میں ابھی پہلی رکعت کے قیام پرہی تھے کہ آپ ﷺ تشریف لے آئے اور جماعت کروائی۔44

اعتراض نمبر 4: چار صحابہ کرامؓ :حضرت ابوہریرہؓ، حضرت انس ؓ ،حضرت اسیدبن حضیر ؓ اور حضرت قیس بن فہد ؓ کافتویٰ اور ان کا عمل قاعد امام کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھنے کاہے اور یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرامؓ آپ ﷺ کے عمل کی مخالفت کرتے؟

وضاحت :یہ اعتراض اس لئے اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ نبی اکرم ﷺ کے عمل اور ان کی موجودگی میں تمام موجو دصحابہ کرامؓ کاعمل ان چاروں صحابہ ؓ کے خلاف ہے، اس لئے کہ نبی اکرمﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور حضرت ابوبکر ؓ سمیت تمام مقتدی صحابہ کرامؓ نے کھڑے ہوکر نمازادا کی(حوالہ مذکورہ) اور نبی اکرمﷺ نے انہیں اعادہ کاحکم نہیں دیا ۔صحابہ کرامﷺ کا عمل اس وقت حجت ہوتا ہے جب قرآن مجید اور رسول اللّٰہﷺ سے کوئی مسئلہ ثابت نہ ہو،قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ وَأُولِى الأَمرِ‌ مِنكُم ۖ فَإِن تَنـٰزَعتُم...٥٩﴾... سورة النساء

لہٰذا صحابہ کرام ؓ کے عمل وفتویٰ کو ملحوظ رکھتے ہوئے امام ابن حبان کا اس مسئلہ پر اجماعِ صحابہ ؓ کادعویٰ باطل ہے، ویسے بھی حضرت ابن عباس ؓ نے حضرت عائشہ ؓ کی روایت (جس میں آپ ﷺ کی مرض الموت کی آخری نماز کاذکر ہے )سن کر نبی اکرم ﷺ کے بیٹھے ہونے اور مقتدیوں کے کھڑے ہونے کے متعلق کوئی انکار نہیں کیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس ؓاس حدیث کو ناسخ سمجھتے تھے تواجماعِ صحابہ ؓ کیسے ہوگیا۔

اعتراض نمبر 5: امام احمد ان دونوں قسم کی احادیث میں تطبیق دینے کی کوشش اس لئے قابل تسلیم نہیں ہے کہ آپﷺ کے بیٹھ کرنماز پڑھانے اور صحابہؓ کو بیٹھ کر نماز پڑھنے کاحکم دینا5ھ کا واقعہ ہے جبکہ آپ ﷺ کا بیٹھ کرنماز پڑھنا اور صحابہ کرام ؓ کاکھڑے ہوکر نماز پڑھنا 11ھ کا واقعہ اور آپﷺ کی آخری نماز کا واقعہ ہے اور یہ کہ کھڑے ہونے کی طاقت رکھنے والے کی بیٹھ کر نماز نہ ہونے پر نبی اکرم ﷺکادرج ذیل فرمان موجود ہے:

عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ كَانَتْ بِي بَوَاسِيرُ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَنْ الصَّلَاةِ فَقَالَ صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ45

لہٰذا یہ تمام اعتراضات مسترد ہیں اور سیدنا ابوہریرہ کی روایت منسوخ اور سیدہ عائشہ ؓ کی روایت ناسخ ہے۔


حوالہ جات

1.صحیح مسلم:930

2.صحیح مسلم: 412

3.صحیح لمسلم:928 ؛ صحیح ابن حبان:2109 ؛ سنن ا بی داؤد:602

4.صحیح ابن حبان: 2109

5.سنن ا بی داؤد: 607 ... قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهٰذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ

6.صحیح بخاری:713 ؛صحیح مسلم: 936

7.صحیح بخاری : 687

8.شرح مسلم از امام نووی2؍1589

9.صحیفہ ہمام بن منبہ: ص149

10.شرح مسلم از امام نووی: 2؍1589

11.صحیح بخاری:722

12.صحیفہ ہمام بن منبہ:ص150 ؛ المغنی از ابن قدامہ:2؍ 48-49

13.فتح الباری: 2؍229

14.ایضاً

15.ایضاً

16.فتح الباری : 2؍229

17.فتح الباری: 2؍229

18.صحیفہ ہمام بن منبہ ص : 149

19.صحیح بخاری:713؛ صحیح مسلم: 936

20.موطا امام محمدشیبانی: ص117

21.حازمی ، الاعتبار ، ص :109

22.صحیح بخاری:1117

23.فتح الباری:2؍ 228-229

24.جامع ترمذی:373

25.صحیح بخاری: 1118

26.جامع ترمذی:371

27.فتح الباری : 2؍ 758-759

28.صحیح بخاری: 1118

29.فتح الباری ، ص : 227

30.فتح الباری:2؍ 227-230

31.صحیح بخاری:689

32.نعمۃ الباری:2؍ 568-569 ؛ شرح معانی الآثار از امام طحاوی:1؍525

33.فتح الباری:2؍ 224-231

34.صحیح مسلم:744

35.ایضاً،ح:936،ص:744

36.شرح مسلم للنووی :2؍ 1589

37.عون المبعود شرح سنن ابی داؤد:1؍ 234

38.نخب الافکار فی تنقیح حبانی الاخبار فی شرح شرح معافی الآثار:2؍15،قدیمی کتب خانہ ،کراچی

39.فتح الباری : 2؍ 227

40.ابن حجر عسقلانی ، فتح نزہۃ النظر شرح نخبۃ الفقہ ، ص : 63-64، وفاقی وزارت تعلیم حکومت پاکستان، 1987ء

41.فتح الباری :2؍ 227

42.مسروق نے کہا : ابوبکر کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ (فتح الباری )

43.صحیح بخاری: 713

44.صحیح مسلم: 105

45.صحیح بخاری:1117