پاکستان کو گذشتہ دنوں اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، بڑے پیمانے پرہلاکت وبربادی ہوئی اور بستیوں کی بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔انہی دنوں شمالی وزیر ستان میں اپنوں کی مسلط کردہ جنگ کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر اہل اسلام کو اپنے گھرچھوڑکر دربدر ٹھوکریں کھانا پڑیں۔ان اہم قومی مراحل پر ہمارے حکمرانوں کا کیا کردار رہا، اور اُنہوں نے اپنے فرائض کہاں تک نبھائے؟ ایسے مواقع پر اسلامی تاریخ اور خلافتِ راشدہ سے ہمیں کیا سبق ملتاہے؟ ماضی میں جب مسلم اقوام اس طرح قدرتی آفات اور مصائب کا شکار ہوئیں تو ان کے حکام کس طرح اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برا ہوا کرتے؟ اس سلسلے میں ایک نمایاں مثال دورِعمرفاروق میں حجاز کو پیش آنے والے بدترین قحط کی ہے جو 18 ہجری میں رونما ہوا۔ سیدنا عمر بن خطاب کی ذات بطورِ حکمران ومنتظم مسلم حکام کے لیے عظیم رہنما اور قائد کی ہے جن کی بارگاہِ نبوت میں خاص تربیت ہوئی تھی۔ ذیل میں اس واقعہ کی ضروری تفصیلات اور اس میں چھپے ہوئے قومی اور عوامی اسباق قارئین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔صوبہ خیبر پختونخواہ کے سابق وزیر جناب قاری روح اللّٰہ مدنی نے اس حوالے سے ایک اہم تحقیق کئی سال قبل اپنی کتاب مَعالم الريادة في مآلم الرّمادة میں پیش کی تھی جسے راقم نے حسبِ ضرورت اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ح م
سیدنا عمر بن خطاب کا حسب ونسب دنیا کو معلوم ہے۔ خاندانی شرافت اور سفارت کا اعتراف سب عرب کیا کرتے تھے۔ جرات، شجاعت اور بے باکی بے مثل تھی۔ علمیت اس درجے کی تھی کہ تائید میں بار بار وحی اُتری۔ خلفاے راشدین میں سب سے زیادہ فتوحات اور سب سے زیادہ اصلاحات انہی کے حصے میں آئیں۔ اقتدار نے ان کی قدم بوسی کی لیکن اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے کبھی تگ ودو میں ملوث نہیں ہوئے۔
بائیس لاکھ مربع میل ریاست کے بلاشرکتِ غیرے حکمران تھے لیکن غرور وتکبر کا نام ونشان نہ تھا۔ سر کے نیچے پتھر رکھ زمین پر سونا شاید ان کے بعد کسی حکمران کو نصیب نہیں ہو سکا۔ غلام کی موجودگی میں بوریاں اپنی پیٹھ پر لادنا انہی کا خاصّہ ہے۔ فاتح کی حیثیت سے بیت المقدس میں داخل ہوئے تو خود پیدل اور غلام اونٹ پر سوار،یہ منظر شاید دنیا پھر نہ دیکھ سکے۔ عدل وانصاف اتنا لا جواب کہ نہ اپنے بیٹے کو معاف کیا، نہ گورنر؍ فاتح مصر کے بیٹے کو۔ احتساب کا یہ عالم کہ برسرمنبر عام لوگ احتساب کر سکتے ہیں۔تواضع کی یہ کیفیت کہ راہ چلتے ہوئے ایک بوڑھی خاتون نے روکا تو گھنٹوں کھڑے رہے۔ ایک خاتون نے دلیل کی قوت سے بات کی تو ریاست کی قوت بے بس ہو گئی۔ ان کی اصلاحات اور اولیات پر کوئی لکھنے بیٹھے تو مواد کی کمی نہیں۔ دنیا کو انتظام وانصرام کے معانی ومعارف سے عملاً روشناس کرانے کے لیے پوری انسانیت ان کے احسان کی مرہون رہے گی۔
دورِ عمر ؓمیں آنے والی خشک سالی
امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق کے عہدِ خلافت کے دوران آنے والی خشک سالی کو 'رمادۃ' کہتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ جزیرہ نمائے عرب میں پورے 9؍ مہینے تک مینہ کے نام سے ایک بوند نہ پڑی۔ ادھر آتش فشاں پہاڑ پھٹنے لگے جس سے زمین کی سطح اور اس کی ساری روئیدگی جل گئی اور وہ سیاہ مٹی کا ڈھیر ہو کے رہ گئی۔ جب ہوا چلتی ساری فضا گرد آلود ہوجاتی۔ اس لیے لوگوں میں اس برس کا نام ہی 'عام الرمادۃ' یعنی راکھ والا برس1 پڑ گیا۔ بارش کے نہ ہونے آندھیوں کے چلنے اور کھیتوں کے جل جانے سے قحط کی صورت پیدا ہو گئی جس نے انسان اور جانوروں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ فنا ہو گئے اور جو بچ رہے اُنہیں سوکھا لگ گیا۔یہ قحط پورے حجاز پر پھیلا ہوا تھا،جیسے حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ
كان في عام الرمادة جدب عمّ أرض الحجاز2
بقول محمد حسین ہیکل: یہ وہ قحط تھا جس نے ملک عرب کو جنوب کے آخری کناروں سے لے کر شمال کی آخری سرحدوں تک گھیر لیا تھا۔3 ابن سعد کی روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ شام وعراق کی سرحدوں اور تہامہ تک پھیلا ہوا تھا4۔ یمن بھی اس کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔5
مؤرخین نےلکھا ہے کہ اس قحط کے باعث بھیڑ بکریوں کے ریوڑ فنا ہو گئے اور جو بچ رہے اُنہیں سوکھا لگ گیا،یہاں تک کہ ایک شخص بھیڑ کو ذبح کرتا اور اس کی بدہیئتی دیکھ کر بھوک اور مصیبت کے باوجود اسے چھوڑ کے کھڑا ہو جاتا۔ بازار سونے پڑے تھے اور ان میں خریدوفروخت کے لیے کچھ نہ تھا۔ لوگوں کے ہاتھ میں روپے تھے مگر ان کی کوئی قیمت نہ تھی اس لیے کہ بدلے میں کوئی چیز ایسی نہ ملتی تھی جس سے وہ پیٹ کی آگ بجھا سکتے۔ مصیبت طویل اور ابتلا شدید ہو گئی۔ لوگ جنگلی چوہوں کے بل کھودنے لگے کہ جو اس میں ملے، نکال کے کھا لیں۔ قحط کی ابتدا میں مدینہ والوں کی حالت دوسروں سے بہتر تھی جس کا سبب یہ تھا کہ مدینہ منورہ میں مدنیت کا شعور پیدا ہو چکا تھا اور مدینہ والوں نے آسودگی کے زمانے میں ضروریاتِ زندگی کا ذخیرہ فراہم کر لیا تھا جو متمدن لوگوں کی عادت ہے۔ چنانچہ قحط کا آغاز ہوا تو وہ اس ذخیرے کے سہارے زندگی بسر کرنے لگے لیکن بدویوں کے پاس کوئی اندوختہ نہ تھا۔ اس لیے وہ شروع ہی میں بھوکے مرنے لگے اور وہ دوڑ دوڑ کر مدینہ پہنچے کہ امیر المؤمنین سے فریاد کر کے اپنے اہل وعیال کی زندگی کےلیے روٹی کا ٹکڑا مانگیں۔ ہوتے ہوتےان پناہ گیروں کی اتنی کثر ت ہو گئی کہ مدینہ میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی۔ اب مدینہ والے بھی آزمائش میں پڑ گئے اور بدویوں کی طرح بھوک اور قحط نے ان پر بھی وار کر دیا۔اس پر مستزاد یہ کہ بیماری پھوٹ نکلی اور بہت سے لوگ اس کی نذر ہو گئے۔ حضرت عمر مریضوں کی عیادت کو جاتے اور جب کوئی مر جاتا تو اس کے لیے کفن بھیجتے6۔ ایک مرتبہ تو بیک وقت دس آدمیوں کی نماز جنازہ پڑھائی۔ قحط کی شدت کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ بقول طبری
جعلت الوحش تأوي إلى الإنس
یعنی ''یہاں تک کہ وحشی جانور انسانوں کے پاس آنے لگے 7(کہ شاید کچھ مل جائے)۔''
انتظامات اور فاروقی کردار
اس بحران سے نمٹنے کے لیے امیر المؤمنین نے کیا طریقہ اختیار کیا، کیسے انتظام کیا اور کونسے اقدامات اُٹھائے۔ بعض اقدامات تو خالصۃً انتظامی نوعیت کے تھے اور بعض امیر المؤمنین کے ذاتی کردار سے متعلق تھے لیکن جو چیز ان میں مشترک ہے، وہ ہے امیر المؤمنین کی حیرت انگیز اور عدیم المثال انتظامی صلاحیت، اپنی رعیت کے ساتھ پر خلوص محبت، خیر خواہی اور للہیت۔ تو آئیے ان کے اقدامات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں...
1۔ بیت المال سے امداد
جیسے جیسے قحط میں شدت پیدا ہوتی گئی، لوگوں کی قوت جواب دیتی گئی۔ جو کچھ ان کے پاس محفوظ تھا، اسے کھا گئے حتیٰ کہ کچھ بھی باقی نہ رہا۔ چنانچہ آس پاس کے لوگ امیر المؤمنین کے پاس دار الخلافہ مدینہ منورہ آنے لگے۔ مدینہ منورہ میں بیت المال میں جو کچھ موجود تھا، امیر المؤمنین نے وہ سب کچھ تقسیم کر دیا۔حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں: "فأنفق فيهم من حواصل بيت المال مما فيه من الأطعمة والأموال حتى أنفده"8
''امیر المؤمنین کے پاس بیت المال میں جو کچھ غذائی مواد یا مال موجود تھا، وہ ان میں خرچ کر ڈالا حتیٰ کہ اسے ختم کر ڈالا۔''
2۔ خود احتسابی
بلاشبہ'رمادۃ'ایک بڑی آزمائش تھی۔ اس کے ظاہری اسباب کو موضوعِ سخن بنانے کی بجائے امیر المؤمنین نے مناسب سمجھا کہ اپنے اعمال کا جائزہ لیا جائے اور قوم کو بھی اس طرف متوجہ کیا جائے۔ اولیاء اللّٰہ کا طریقہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ آزمائش کے وقت اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کا جائزہ لیتے ہیں کہ کہیں کسی لغزش کے نتیجے میں تو یہ مصیبت نازل نہیں ہوئی؟
ابن سعد، سلیمان بن یسار سے روایت کرتے ہیں:
خطب عمر بن الخطّاب الناس عام الرمادة فقال: أيّها النّاس اتّقوا الله في أنفسكم وفيما غاب عن الناس من أمركم، فقد ابتُليت بكم وابتُليتُم بي. فما أدري ألسُّخْطةُ عليّ دونكم أو عليكم دوني؟ أو قد عمّتْني وعمّتكم، فهلمّوا فلندْعُ الله يُصْلِحْ قلوبنا وأن يرحمنا وأن يرفع عنّا المحل، قال فرُئي عمر يومئذٍ رافعًا يديه يدعو الله، ودعا الناس وبكىٰ وبكى الناس مَليًّا، ثمّ نزل9
''رماد ۃ کے زمانے میں سیدنا عمر بن خطاب نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگوں اپنے ربّ سے ڈرو، اپنے نفس کے بارے میں اور اپنے ان اعمال کے بارے میں جو لوگوں سے پوشیدہ ہیں۔ یقیناً تمہاری وجہ سے میری اور میری وجہ سے تمہاری آزمائش ہو رہی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اللّٰہ کی ناراضگی صرف میرے اوپر ہے یا صرف تمہارے اوپر اور یا عمومی طور پر میرے اوپر ہے اور تمہارے اوپر بھی۔ آئیے بارگاہِ الٰہی میں دعا کریں کہ وہ ہمارے دلوں کی اصلاح فرمائے، ہم پر رحم فرمائے اور ہم سے قحط وخشک سالی کو اُٹھا لے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر کو اس روز بارگاہِ الٰہی میں دونوں ہاتھ اُٹھائے ہوئے دعا مانگتے دیکھا گیا اور لوگوں نے بھی دعا مانگی۔ سیدنا عمر کافی دیر تک خود بھی روئے اور لوگ بھی رو دیے۔ پھر منبر سے اُترے۔''
زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے کہا:
سمعت عمر يقول: أيها الناس إني أخشى أن تكون سخطة، عمّتنا جميعا فأعتبوا ربكم وانزعوا وتوبوا إليه واحدا ثوا خيرًا10
''میں نے حضرت عمر کو فرماتے ہوئے سنا کہ لوگو مجھے ڈر ہے کہ (یہ قحط) ہم سب پر اللّٰہ تعالیٰ کی ناراضگی کا اظہار ہے۔ اس لیے اپنے رب کو راضی کر لو، اس کی ناراضگی سے ہاتھ کھینچ لو۔ اس کی بارگاہ میں توبہ کر لو اور اچھے اعمال کر کے دکھاؤ۔''
یہ ہے ایک ولی اللّٰہ کا کردار کہ مصیبت کی گھڑی میں شکوے شکایت کی بجائے خود احتسابی سے کام لیا، قوم کو بھی خود احتسابی کی طرف متوجہ کیا۔
3۔توجہ الیٰ اللّٰہ
خود احتسابی کے ساتھ ساتھ امیر المؤمنین حضرت عمر نے معمول سے بڑھ کر توجہ الیٰ اللّٰہ کا اہتمام فرمایا۔ عبد اللّٰہ بن ساعدہ کہتے ہیں کہ
رأيت عمر إذا صلّى المغرب نادى: "أيها الناس استغفروا ربكم ثم توبوا إليه وسلوه من فضله واستسقوا سقيا رحمة لا سقيا عذاب." فلم يزل كذلك حتى فرج الله ذلك11
'' میں نے دیکھا کہ حضرت عمر جب مغرب کی نماز پڑھ لیتے تو لوگوں کو مخاطب کرتے، فرماتے: لوگو اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو، اس کی بارگاہ میں توبہ کرو۔ یہی آپ کی عادت رہی حتیٰ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مصیبت دور فرما دی۔''
حضرت عبد اللّٰہ بن عمر فرماتے ہیں :
كان عمر بن الخطاب أحدث في عام الرمادة أمرًا ما كان يفعله ... وإني لأسمعه ليلة في السحر وهو يقول: "اللهم لا تجعل هلاك أمة محمد علىٰ يدي"12
''حضرت عمر نے 'رمادۃ' کے زمانے میں ایسا طریقہ اپنایا جو وہ اس سے پہلے نہیں کیا کرتے تھے۔ وہ لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھا کر مسجد سے نکل کر اپنے گھر تشریف لاتے اور مسلسل نماز پڑھتے۔ پھر رات کے آخری پہر نکلتے، گلیوں کا چکر لگاتے۔ میں نے بارہا رات کو سحر کے وقت اُن کو کہتے ہوئے سنا: الٰہی! امتِ محمد کو میرے ہاتھوں ہلاک نہ ہونے دے۔''
4۔ شبینہ گشت
حضرت عمر فاروق کی مبارک عادتوں میں سے ایک عادت یہ تھی کہ رعیت کے حالات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے رات کے وقت خود چل کر جائزہ لیا کرتے تھے اور جس کسی کو امداد کا مستحق خیال کرتے، رات کی تاریکی میں ہی ضرور مدد فراہم کر دیتے۔ یہ عادت رماده کے زمانے میں بھی جاری رہی بلکہ رمادہ کے زمانے میں وہ معاشرتی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھ رہے تھے اور ان کا تجزیہ بھی کیا کرتے۔ امام ابن کثیرنقل کرتے ہیں کہ رمادہ کے سال اُنہوں نے رات کے وقت مدینہ منورہ کی گلیوں میں گشت کیا تو کسی کو ہنستے نہیں پایا، نہ ہی لوگوں کو اپنے گھروں میں حسبِ عادت گفتگو کرتے سنا اور نہ کسی مانگنے والے کو مانگتے دیکھا۔ یہ صورت حال چونکہ خلافِ معمول تھی اس لیے اُنہوں نے فوراً محسوس کیا، چنانچہ اس کے سبب کے بارے میں دریافت کیا۔ اُنہیں بتایا گیا کہ اے امیر المؤمنین! سوال کرنے والے سوال کرتے رہے لیکن اُنہیں کچھ نہیں دیا گیا، اس لیے اُنہوں نے مانگنا اور سوال کرنا ہی چھوڑ دیا۔ اس کے علاوہ لوگ پریشانی اور تنگ دستی کا شکار ہیں، اس لیے نہ توحسبِ معمول گپ شپ لگاتے ہیں اور نہ ہی ہنستے ہنساتے ہیں۔ ایسے حالات میں عمر صرف سرکاری رپورٹوں پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ رات کے اندھیرے میں خود جا کر حالات معلوم کرنا ضروری سمجھتے تھے۔
5۔ امداد کی اپیل
کتبِ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کی کوشش یہ تھی کہ قحط سالی سے متاثرہ عوام کے دکھوں کا مداوا بیت المال سے کیا جائے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ بیت المال میں جو کچھ تھا، وہ اُنہوں نے خرچ کر دیا، یہ ان کا معمول تھا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری کے نام اپنے ایک مکتوب میں اُنہوں نے حکم دیا کہ سال میں ایک دن ایسا مقرر کرو جب خزانہ میں ایک درہم تک باقی نہ رہے اور وہاں جھاڑو لگا دی جائے تاکہ اللّٰہ تعالیٰ کو معلوم ہو کہ میں نے ہر حقدار کا حق ادا کردیا ہے۔13
صرف مقامی بیت المال سے امداد پر انحصار کی دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اُنہیں اُمید تھی کہ شاید قحط کا سلسلہ جلد ختم ہو جائے گا، مصیبت ٹل جائے گی اور باہر سے امداد منگوانے کی ضرورت نہ رہے گی لیکن خشک سالی جیسے جیسے طول پکڑتی گئی، عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا اور مدینہ منورہ کا بیت المال بھی خالی ہو گیا، تب حضرت عمر نے امداد بھجوانے کے لیے صوبوں کو خطوط لکھنے کا فیصلہ کیا۔تاریخی روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ا س سلسلے میں انہوں نے حضرت ابو عبیدہ عامر بن جراح کو خط لکھا۔ شام کے گورنر حضرت معاویہ اور عراق کے گورنر حضرت سعدبن ابی وقاص کو بھی لکھا۔ یہ خطوط انتہائی مختصر اور زور دار تھے۔
سب سے پہلے جس شخص کو مدد پہنچانے کی سعادت ملی، وہ حضرت ابو عبیدہ عامر بن جراح تھے۔ وہ امداد لے کر بنفس نفیس مدینہ منورہ پہنچے۔ حضرت ابو عبیدہ غذائی سامان سے لدے ہوئے چار ہزار اونٹ لے کر مدینہ منورہ پہنچے۔ حضرت عمر نے مدینہ منورہ کے اردگرد قیام پذیر قحط زدگان کے درمیان یہ غذائی سامان تقسیم کرنے کا کام ابو عبیدہ کے سپرد کیا۔ تقسیم کا کام حضرت ابوعبیدہ کے سپرد کرنے میں دو فائدے تھے۔ ایک تو یہ کہ دوسروں کے مقابلے میں وہ زیادہ جوش جذبے کے ساتھ یہ خدمت انجام دیں گے۔ دوسرے یہ کہ وہ خود اپنی آنکھوں سے حالات کا مشاہدہ کر لیں گے اور واپس جا کر اہل شام کو حالات سے آگاہ کر سکیں گے۔اسی طرح حضرت عمر نے حضرت معاویہ کو لکھا :
إذا جاءك كتابي هٰذا فابعث إلينا من الطعام بما يصلح من قبلنا فإنهم قد هلكوا إلا أن يرحمهم الله14
''جب تمہارے پاس میرا یہ خط پہنچے تو فوراً ہمارے پاس اتنا سامان بھیجو جو یہاں ہمارےلوگوں کی حالت سدھار سکے کیونکہ اگر اللّٰہ کی رحمت شامل حال نہ ہوئی تو لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔ چنانچہ حضرت معاویہ نے غذائی سامان سے لدے ہوئے تین ہزار اونٹ اور تین ہزار چغے روانہ کر دیے۔''
حضرت عمر نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو بھی لکھا، چنانچہ اُنہوں نے آٹے سے لدے ہوئے دوہزار اونٹ بھیجے۔15 حضرت عمرو بن العاص اس وقت حضرت عمر کی طرف سے ایک علاقے کے حاکم تھے اور حضرت عمر نے اُنہیں بھی خط لکھا، چنانچہ انہوں نے بری راستے سے بھی امداد روانہ کی اور بحری راستے سے بھی۔حضرت عمر نےلکھا:
بسم الله الرحمٰن الرحيم من عبد الله عمر أمير المؤمنين إلىٰ العاصی ابن العاص سلام عليك أما بعد: أفتراني هالكًا ومن قبلي وتعيش أنت ومن قبلك، فياغوثاه يا غوثاه يا غوثاه!
''یعنی بسم الله الرحمن الرحيم ۔ اللّٰہ کے بندے امیر المؤمنین عمر کی طرف سے عاص بن العاصی کے نام۔ امام بعد: کیا تم مجھے اور میرے پاس والوں کو ہلاک ہوتے دیکھو گے اور تم اور تمہارے پاس والے زندہ رہیں گے۔ مدد! مدد! مدد!''
حضرت عمرو بن العاص نے جواب میں لکھا :
سلام ہو آپ پر۔ میں آپ کے سامنے اس اللّٰہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ اما بعد! مدد آپ کے پاس پہنچنے والی ہے،آپ اطمینان رکھیں۔ میں ایسا قافلہ آپ کے پاس بھیج رہا ہوں جس کا اگلا سرا آپ کے پاس اور آخری سرا میرے پاس ہو گا۔''16
چنانچہ اُنہوں نے فوری طور پر بَری راستے سے آٹے سے لدے ہوئے ایک ہزار اونٹ اور پانچ ہزار کمبل بھیجے۔17 یہ امداد سمندر کے راستے جدہ اور جدہ سے مکہ مکرمہ پہنچی۔ 18لیکن کہاں سے روانہ ہوئی تو اس میں اختلاف ہے، محمد حسین ہیکل کی رائے میں ایلہ (موجودہ عقبہ) سے روانہ ہوئی تھی۔19 جبکہ ابن الاثیر اور ابن خلدون کی رائے میں یہ امدادی سامان بحر قلزم سے روانہ ہوا تھا20۔ صورت حال جو بھی ہو سمندری راستے سے امداد آنا تاریخی طور پر ثابت شدہ ہے اور اس کی تفصیلات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہیں۔بقول طبری حضرت عمر کے خط کے جواب میں حضرت عمرو بن العاص نےلکھا :
'' بعثتِ نبوی کے وقت بحر شامی سے ایک نہر کھود کر نکالی گئی جو بحیرہ عرب میں گرتی تھی جسے رومیوں اور قبطیوں نے بند کر دیا تھا۔ اگر آپ چاہیں کہ مدینہ منورہ میں غذائی مواد کی قیمت مصر کی قیمتوں کے برابر ہو تو میں دوبارہ نہر کی کھدائی کر لوں اور اس سے شاخیں نکلوا دوں، جواب میں حضرت عمر نے لکھا کہ یہ کام کر دو اور اس میں جلدی کرو۔ لیکن مصریوں نے حضرت عمرو بن العاص کی خدمت میں عرض کیا کہ خراج کے طور پر آپ کو کافی رقم ملی رہی ہے اور آپ کا امیربھی آپ سے راضی بھی ہے،(اس لیے نہر کھدوانے کی ضرورت نہیں) کیونکہ اگر یہ منصوبہ مکمل ہوا تو خراج میں کمی واقع ہو گی چنانچہ حضرت عمرو بن العاص نے حضرت عمر کو اس کے بارے میں لکھا کہ اس منصوبے سے مصر کے خراج میں کمی ہو گی اور معیشت خراب ہو جائے گی۔ جواب میں حضرت عمر نے پھر لکھا کہ منصوبہ پر عمل درآمد کرو اور عجلت سے کام لو۔ اگر اس سے مدینہ آباد اور سدھر سکتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ مصر کو برباد کرے۔ چنانچہ حضرت عمرو بن العاص نے بحر قلزم سے سے نہر نکالی۔ نتیجۃً مدینہ منورہ کا نرخ مصر کے نرخوں کے برابر رہا اور اس سے مصر کی خوشحالی میں بھی اضافہ ہوا۔''21
البتہ ابن الجوزی کی روایت میں "أخرب الله مصر" کی بجائے "أخرب الله خراج مصر" کے الفاظ ہیں یعنی اللّٰہ تعالیٰ مصر کے خراج کو غارت کر دے۔میرے خیال میں یہی الفاظ زیادہ مناسب ہیں۔غالباً اسی روایت کو بنیاد بنا کر ابن الاثیر اور ابن خلدون دونوں نےلکھا ہے کہ "وأصلح عمرو بن العاص بحر القلزم وأرسل فيه الطعام"
'' عمرو بن العاص نےبحر قلزم کی اصلاح کی اور اسی راستےغذائی سامان بھیجا۔''
لیکن ظاہر ہے کہ مصر اور مدینہ منورہ میں بار بار کی مراسلت اور درمیانی طویل فاصلہ وقت کا متقاضی ہے۔ اس لیے ایلہ (عقبہ) کی بندرگاہ اور بحر قلزم والی دونوں روایات کے درمیان تطبیق یوں کی جا سکتی ہے کہ ابتداءً انہوں نے فوری کاروائی کرتے ہوئے ایلہ سے غذائی سامان بھجوایا اور پھر نہر مذکور کی صفائی کھدائی کر کے اسے ٹھیک کیا اور بعد میں غلہ اسی راستے بھجواتے رہے۔
بعض مؤرخین نےلکھا ہے کہ مذکورہ نہر کی کھدائی صفائی تقریباً ایک سال میں مکمل ہوئی اور سال مکمل ہونے سے پہلے ہی اس میں کشتیوں کی آمدو رفت شروع ہو گئی۔ اس نہر کا نام خلیج امیر المؤمنین پڑ گیا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کے زمانے تک اسی ذریعے سے غلہ پہنچتا رہا لیکن بعد کے اُمرا نے اس پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔ اس میں ریت بھر گئی اور یوں یہ راستہ منقطع ہو گیا۔22
اس پورے واقعے سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ قلیل المدت یا فوری نوعیت کے اقدامات کے ساتھ ساتھ حضرت عمر فاروق نے طویل المدت اقدامات بھی کیے جس سے مدنی اور مصری معیشت پر دوررَس اثرات پڑے۔ مدینہ منورہ کے جنوب میں جار نامی حجاز کی بندرگاہ تھی۔ اس بحری راستے سے سامان جار پہنچتا اور جار سے پھر مکہ مدینہ اور یمن تک چلا جاتا23۔ چنانچہ طبری نے مذکورہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
"ولم ير أهل المدينة بعد الرمادة مثلها"24
یعنی'' اہل مدینہ نے رمادہ کے بعد پھراس جیسی صورتحال نہیں دیکھی۔''
لیکن امدادی سرگرمیاں صرف یہاں تک محدود نہ تھیں بلکہ اسلامی ریاست کے ہر علاقے سے امدادی سامان پہنچنا شروع ہوا۔ چنانچہ طبری اور ابن الاثیر دونوں نے یہ الفاظ نقل کیے کہ
"وتتابع الناس واستغنى أهل الحجاز"25
''پھر لوگ (امدادی سامان لے کر) پے درپے آنے لگے حتیٰ کہ اہل حجاز مستغنی ہو گئے۔''
6۔ امدادی سامان کی تقسیم کے لیے منتظمین کا تقرر
امدادی سامان مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد ایک مشکل کام باقی رہ گیا تھا اور وہ تھا امدادی سامان کی تقسیم۔ جن حضرات کو اس قسم کا کوئی تجربہ ہوا ہے، وہ جانتے ہیں کہ تقسیم انتہائی مشکل کام ہے۔ کم سامان اگر ترتیب اور نظم وضبط کے ساتھ تقسیم ہو تو بڑی مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن نظم وضبط کے فقدان کی صورت میں زیادہ وسائل کے باوجود مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے امیر المؤمنین حضرت عمر نے ایک لائحۂ عمل Working plan تیار کیا جس کے دو حصے تھے: ایک حصہ دار الخلافہ یعنی مدینہ منورہ کے لیے تھا جبکہ دوسرا حصہ دیگر علاقوں کے لیے تھا۔
مدینہ منورہ میں تقسیم
مدینہ منورہ مسلمانوں کا روحانی مرکز تو ہے ہی، البتہ اس کے ساتھ ساتھ دارالخلافہ بھی تھا۔ جب قحط شروع ہوا اور اس میں شدت پیدا ہوئی تو لوگ ہر طرف سے چل کر مدینہ منورہ آنے لگے۔چنانچہ امیر المؤمنین نے چند منتظمین کا تقرر کیا جو لوگوں کی خبر گیری کر سکیں اور غذائی سامان تقسیم کر سکیں۔ابن سعدکی روایت کے مطابق:
'' رمادۃ کے سال عرب لوگ ہر طرف سے چل کر مدینہ منورہ پہنچے۔ جہاں عمر بن خطاب نے چند لوگوں کو مقرر کیا جو ان کی خبر گیری کریں، ان کے درمیان طعام اور سالن تقسیم کر سکیں۔ان میں یزید بن اُخت النمر، مسور بن مخرمہ، عبد الرحمٰن بن عبد اور عبد اللّٰہ بن عتبہ بن مسعود وغیرہم شامل تھے۔ رات کو یہ لوگ حضرت عمر کے پاس جمع ہوتے اور اپنی ساری کارگزاری اُن کو بتاتے۔ ان میں سے ہر شخص مدینہ کے ایک مخصوص علاقے پر مقرر تھا۔ اس زمانے میں (باہر سے آئے ہوئے) لوگ ثنیۃ الوداع سے راتج، بنی حارثہ، بنی عبد الاشہل، بقیع اور بنی قریظہ کے علاقے تک پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔ جبکہ کچھ لوگ بنی سلمہ کے علاقے میں بھی تھے اور ان (مہاجرین) نے مدینہ منورہ کو گھیر رکھا تھا۔''26
جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے۔ سب سے پہلی امداد حضرت ابو عبیدہ نے لےکر آئے تھے جو اُنہوں نے خود تقسیم کی۔ بعد میں آنے والے امدادی سامان کی تقسیم مذکورہ بالا حضرات کے سپرد ہوئی اور سب سے بڑھ کر خود امیر المؤمنین ان مہاجرین کی خدمت کیا کرتے تھے۔ اپنی پیٹھ پر بوریاں لادتے ، ان کے لیے کھانا پکاتے اور رہائش کا بندوبست کرتے تھے۔ جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔مالک بن اوس کہتے ہیں کہ
''رمادہ کےسال میری قوم کے سو گھرانے عمر کے پاس مدینہ آئے اور جبانہ کے مقام پر ٹھہرے، چنانچہ جو لوگ عمر کے پاس حاضر ہوئے وہ ان کو کھلاتے اور جو آ نہیں سکتے تھے، ان کے لیے آٹا کھجور اور سالن ان کے گھروں میں بھجواتے، چنانچہ آپ میری قوم کے لوگوں کے پاس ان کی ضرورت کا سامان ماہ بہ ماہ بھجواتے رہتے تھے۔''27
ایک اور روایت کے مطابق اُنہوں نے جبانہ میں کچھ لوگوں کو ٹھہرایا اور پھر بار باران کی اور دوسروں کی خبر گیری کیا کرتے تھے۔28
7۔ مدینہ میں ریاستی دسترخوان
مدینہ میں جو لوگ پہلے سے رہائش پذیر تھے اور جو پناہ گزیں بن کے آئے، ان میں مرد وخواتین بوڑھے اور بچے کمزور بیمار ہر قسم اور ہر عمر کے افراد موجود تھے۔ ہر ایک کے پاس نہ تو پکانے کا سامان تھا، نہ ہی ہر شخص پکانے کے قابل تھا۔ اس لیے حضرت عمر نے مدینہ منورہ میں بیت المال کی طرف سے خلافتی دسترخوان کی روایت قائم کی۔ وہ روٹی کو روغن زیتون میں بھگو کر ثرید بناتے تھے اور ایک دن چھوڑ کر جانور ذبح کر کے اس کا گوشت ثرید پر ڈالتے تھے۔ حضرت عمر نے بڑی بڑی دیگیں چڑھا کر رکھی تھیں جن پر کام کرنے والے لوگ صبح سویرے اٹھتے اور 'کرکور'29 تیار کرتے اور جب صبح ہوتی تو مریضوں کو کھانا کھلاتے، 'عصیدہ' 30تیار کرتے۔ حضرت عمر کے حکم سے ان دیگوں میں تیل ڈال کر گرم کیا جاتا ،جب اس کی تیزی اور گرمی ختم ہو جاتی تو روٹی کی چوری تیار کی جاتی اور اس پر یہی تیل ڈال دیا جاتا۔31
پھر آواز لگانے والا لوگوں کو بلاتا کہ من أحب أن يحضر طعامًا فيأكل فليفعل ومن أحبّ أن يأخذ ما يكفيه وأهله فليأت فليأخذه32
''جو شخص چاہے کہ حاضر ہو کر کھانے میں شریک ہو تو آ جائے اور جو کوئی چاہتا ہو کہ اپنے لیے اور اپنے اہل وعیال کے لیے ساتھ لے جائے تو وہ ساتھ لے جائے۔''
پھر جب حضرت عمرو بن العاص نے امدادی سامان بھیجا تو دسترخوان خلافت پر ہر روز بیس اونٹ ذبح ہوتے۔33
ایک مرتبہ جب لوگ عشاء کا کھانا کھا چکے تو حضرت عمر نے حکم دیا کہ جن لوگوں نے ہمارے دسترخوان پر کھانا کھایا، اُنہیں شمار کیا جائے۔ اگلے دن گنتی کی گئی تو وہ سات ہزار پائے گئے۔ پھر اُنہوں نے حکم دیا کہ جو لوگ حاضر نہیں ہو سکتے مثلاً خواتین مریض اور بچے وغیرہ ان کی گنتی کی جائے، گنتی ہوئی تو وہ چالیس ہزار نکلے، کچھ دن گزرے تو لوگوں کی تعداد بڑھ گئی اُنہوں پھر گنتی کا حکم دیا۔ تو معلوم ہوا کہ خود حاضر ہو کر کھانا کھانے والوں کی تعداد دس ہزار اور دوسروں کی تعداد پچاس ہزار تک پہنچ گئی۔بارش ہونے تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔34
اتنی بڑی تعداد کو کھانا کھلانا وسائل کے اعتبار سے تو خیر مشکل ہی ہے۔ البتہ انتظامی لحاظ سے بھی بڑا مشکل کام ہے کہ پچاس ہزار اَفراد کو مسلسل نوماہ تک صبح شام پکا پکایاکھانا ایک محدود علاقے کے اندر فراہم ہوتا رہے۔
حجاز میں غذائی سامان کی تقسیم
جیسا کہ پہلا عرض کیا جا چکا ہے کہ حضرت عمر کے لائحۂ عمل کے دو حصے تھے۔ ایک حصہ مدینہ منورہ کےلیے، دوسرا مدینہ منورہ سے باہر کے علاقوں کے لیے جس میں پورا حجاز شامل ہے۔ہمارے استاد شیخ محمد السید الوکیل فرماتے ہیں کہ اس لائحۂ عمل کی ترتیب میں حضرت عمر کے پیش نظر مقصد یہ تھا کہ لوگ اپنے اپنے علاقوں میں قیام رکھیں اور وہ اس بات پر اطمینان محسوس کریں کہ خلیفہ ان سے غافل نہیں اور یہ کہ طعام ان کے پاس ان کی قیام گاہ پر ہی پہنچے گا۔ در اصل حضرت عمر اس طرح لوگوں میں پھیلے ہوئے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے تھے کہ جس کے تحت لوگ مدینہ کی طرف ہجرت کر کے آ رہے تھے اور دار الخلافہ کی طرف بھاگ رہے تھے۔ اگر سب لوگ مدینے چلے آتے تو مدینہ میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہتی اور مصیبت دو چند ہو جاتی ۔ پہلے تو صرف غذائی سامان کی غیر موجودگی کا سامنا تھا، اب رہائش اور پناہ گاہ کی فراہمی بھی مسئلہ بن جاتی۔ شاید اس اقدام سے خلیفہ کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جو لوگ پہلے ہی دار الخلافہ میں پناہ لے چکے ہیں، ان کو واپس اپنے اصل مقامات پر واپس بھجوا دیا جائے۔ جب مسلمان دیکھیں گے کہ خلیفہ باہر کے علاقوں پر زیادہ توجہ دے رہا ہے اور ان علاقوں کو دار الخلافہ کے مقابلے میں اوّلیت دی جا رہی ہے اور ان کے آبائی علاقے مدینے کے مقابلے میں مقدم ہیں تو وہ خوشی خوشی ان علاقوں میں واپس جائیں گے، جہاں سے بھاگ کر اُنہوں نے ہجرت کی تھی۔35 اس لائحہ عمل کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہوا کہ لوگ خصوصاً عورتیں بچے اور بوڑھے صبر آزما سفر کی تکلیفوں اور اخراجات سے بچ گئے اور جو کچھ اُنہیں ملنا تھا،بغیر کسی اضافی خرچ اور سفر کے اُنہیں اپنے گھروں میں ہی مل گیا۔
حزام بن ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عمر کے نمائندے جار کی بندرگاہ سے غذائی سامان وصول کر کے لوگوں کو کھلاتے رہے۔ اسی طرح حضرت معاویہ نے شام سے سامان بھیجا، حضرت عمر نے اس کی وصولی کے لیے شام کی سرحدوں تک آدمی بھیجے، جو حضرت عمر کے دوسرے نمائندوں کی طرح لوگوں کو آٹا کھلاتے رہے۔ اونٹ ذبح کرتے رہے اور چغے لوگوں کو پہناتے رہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے ایسا ہی سامان عراق سے بھیجا، تو حضرت عمر نے اس کی وصولی کے لیے اپنے آدمیوں کو عراق کی سرحدوں کے قریب بھیجا، وہ انہی علاقوں میں اونٹ ذبح کرتے اور لوگوں کو آٹا کھلاتے رہے اور چغے پہناتے رہے۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہا حتیٰ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے یہ مصیبت رفع فرما دی۔36
امام ابن جوزینے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک دن جبکہ حضرت عمر سنگریزوں سے بھری چادر سر کے نیچے رکھ کر مسجد میں آرام فرما رہے تھے۔ اُن کے کان میں کسی پکارنے والے کی یہ آواز پڑی کہ ہائے عمر، ہائے عمر! حضرت عمر پریشان ہو کر بیدار ہوئے اور جہاں سے آواز آ رہی تھی، اس طرف چل دیے۔ دیکھا کہ ایک دیہاتی شخص اونٹ کی مہار تھامے کھڑا ہے۔ لوگ اس کے اردگرد جمع ہیں، حضرت عمر کو دیکھ کر لوگوں نے کہا، یہ ہیں امیر المؤمنین۔ حضرت عمر نے اسے مظلوم خیال کرتے ہوئے پوچھا کہ تمہیں کس نے تکلیف دی ہے؟ اس شخص نے جواب میں چند اشعار پڑھے جن میں قحط کی شکایت کی تھی۔ حضرت عمر نے اپنا دست ِمبارک اس کے سر پر رکھا۔ پھر ان کی چیخ نکلی: ہائے عمر ہائے عمر! کیا تمہیں معلوم ہے یہ شخص کیا کہہ رہا ہے؟ یہ قحط اور خشک سالی کا ذکر کر رہا ہے اور اس کا خیال ہے کہ عمر خود کھا پی رہا ہے اور مسلمان قحط وتنگ دستی میں مبتلا ہیں۔ کون ہے جوان کے پاس کھانے پینے کا سامان کھجور اور ان کی ضرورت کی چیزیں پہنچا دے۔ چنانچہ انصار میں سے دو آدمیوں کو روانہ کیا جن کے ساتھ غذائی سامان اور کھجور سے لدے بہت سارے اونٹ تھے جنہیں لے کر وہ دونوں یمن پہنچے اور سب کچھ تقسیم کر دیا، البتہ ایک اونٹ پر تھوڑا سامان بچ گیا۔ وہ انصاری بیان کرتے ہیں کہ واپسی پر جب ہم آ رہے تھے تو ہمارا گزر ایک ایسے شخص سے ہوا جس کی ٹانگیں بھوک سے سکڑ چکی تھیں لیکن اس حال میں بھی وہ کھڑے نماز پڑھ رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر اس نے سلام پھیرا اور پوچھا کیا تمہارے پاس کھانے کے لیے ہو گا؟ جو کچھ ہمارے پاس بچا تھا، ہم نے اس کے سامنے ڈال دیا اور اسے حضرت عمر کے بارے میں بتایا۔ اس نے کہا: واللّٰہ اگر ہمیں اللّٰہ نے عمر کے سپرد کیا ہے تب تو ہم ہلاک ہو جائیں گے؟ یعنی اللّٰہ ہی بچانے والا ہے۔ اس سامان کو چھوڑ کر وہ دوبارہ نماز میں مصروف ہوا اور اپنے ہاتھ دعا کے لیے اُٹھا دیے اور اس کے اُٹھے ہوئے ہاتھوں کے گرنے سے پہلے ہی اللّٰہ نے بارانِ رحمت نازل فرما دی۔37
مصیبت زدوں کو یاد رکھنا
آپ نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ خشک سالی کتنے وسیع علاقے پر پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ کس حد تک مفلوک الحال ہو چکے تھے اور کتنی بڑی تعداد مدینہ منورہ میں پناہ گزین ہو چکی تھی لیکن اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے دونوں ہاتھ بلا اختیار خلیفہ عمر کی عظمت کو سلام کرنے اُٹھ جاتے ہیں،جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قبائل تودرکنار وہ کسی ایک گھر کو بھی اس دوران بھول نہ پائے۔ ہر مصیبت زدہ ہر وقت ان کےذ ہن میں موجود رہتا تھا۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ حضرت عمر صائم الدہر تھے۔ رمادہ کے زمانے میں افطار کے وقت روٹی اور روغن زیتون کا ثرید بنا کر اُن کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ کئی اُونٹ ذبح کیے گئے اور لوگوں کو گوشت کھلایا گیا اور چند اچھی اچھی بوٹیاں ان کےلیے رکھی گئیں۔ جب کھانا پیش کیا گیا تو اُنہوں نے دیکھا کہ کوہان اور کلیجی کی اچھی اچھی بوٹیاں برتن میں موجود ہیں۔ فرمایا: یہ کہاں سے؟ خادم نے عرض کی: امیر المؤمنین! یہ ان اونٹوں کی چند بوٹیاں ہیں جو ہم نے آج ذبح کئے تھے۔ فرمایا:
بخ بخ بئس الوالي أنا إن أكلت طيبها وأطعمت الناس كراديسها38
''ہائے افسوس ہائے افسوس! میں بہت برا حکمران ہوں گا، اگر اچھی چیز خود کھا لوں اور ہڈیاں لوگوں کو کھلا دوں ۔ اُٹھاؤ یہ برتن، کوئی اور کھانا میرے لیے لے آؤ۔ چنانچہ روٹی اور روغن زیتون لایا گیا۔ چنانچہ خود روٹی توڑ توڑ کر ثرید بنانے لگے۔ پھر فرمایا: اے یرفا! افسوس تمہارے اوپر۔ یہ برتن اُٹھا کر ثَمغ نامی مقام پر ٹھہرے ہوئے گھرانے کو لوگوں کے سامنے رکھ دو۔ کیونکہ تین دن ہوئے میں ان کے پاس نہیں جا سکا ہوں، میرا خیال ہے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔''
مریضوں کی عیادت اور اَموات کی تدفین
حضرت عمر نے حسبِ استطاعت سب لوگوں کا اتنا خیال رکھا لیکن اس کے باوجود ان میں بیماری پھوٹ پڑی اور بہت سےلوگ اس کی نذر ہو گئے۔ حضرت عمر کے غلام اسلم کہتے ہیں کہ موت نے وبائی شکل اختیار کر لی اور میرا خیال ہے کہ پناہ گزینوں میں سے تقریباً دو تہائی لوگ موت کا شکار ہوئے اور ایک تہائی باقی رہ گئے۔ حضرت عمر خود مریضوں کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے اور جب کوئی مر جاتا تو اس کے لیے کفن بھیجتے اور اس کی نماز جناہ پڑھتے تھے۔ مالک بن اوس کہتے ہیں کہ
وكان يتعاهد مرضاهم وأكفن من مات منهم. لقد رأيت الموت وقع فيهم حين أكلوا الشُّفل وكان عمر يأتي بنفسه، يصلّي عليهم. لقد رأيته صلّٰى على عشرة جميعًا39
''حضرت عمر مریضوں کی خبر گیری کیا کرتے تھے۔ مرنے والوں کے لیے کفن کا بندوبست کرتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ گھاس پھوس کھا کھا کر لوگ موت کا شکار ہونے لگے۔ حضرت عمر خود جا کر ان کی نماز جنازہ پڑھاتے اور میں نے تو یہ بھی دیکھا کہ ایک مرتبہ دس آدمیوں کی اجتماعی نماز جنازہ پڑھائی۔''
راشن بندی
پہلے یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ جو لوگ خود حاضر ہونے کے قابل ہوتے، وہ بذاتِ خود آ کر دسترخوانِ خلافت پر کھانا کھا لیتے اور جو حاضری سے معذور تھے جیسے خواتین، بچے بوڑھے وغیرہ ان کے لیے کھانا گھروں پر بھجوا دیا جاتا تھا اور بعض صورتوں میں تو ہر مہینہ یکمشت ان کا راشن بھجوا دیا جاتا تھا۔40
یہ سامان لوگوں میں اس طرح تقسیم کیا جاتا تھا کہ بقول محمد حسین ہیکل اسے زمانۂ جنگ کی تقسیم غذا کے جدید نظام سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔زیادہ ہوا تو زیادہ تقسیم کر دیا گیا اور کم ہوا تو کم41۔ راشن کی تقسیم اور لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے حضرت فاروق کے ذہن میں ایک اور تجویز بھی تھی جس کا اظہار اُنہوں نے رمادہ کے دوران بھی فرمایا اور رمادہ کے بعد بھی۔ یہ تجویز دراصل مؤاخات کے اُصول پر تیار کی گئی تھی لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پر عمل درآمد کا موقع ہی نہیں آیا اور اللّٰہ تعالیٰ نے بارانِ رحمت کے ذریعے مصیبت ٹال دی۔ رمادہ کے زمانے میں راشن تقسیم کرتے ہوئے حضرت عمر نے فرمایا:
نطعم ما وجدنا أن نطعم فإن أعوزنا جعلنا مع أهل كل بيت ممن يجد عدتهم ممن لا يجد أن يأتي الله بالحيا42
''جو کچھ ہمارے پاس موجود ہے وہ تو ہم کھلا دیں گے۔ پھر اگر ہم نے کمی محسوس کی تو کچھ رکھنے والے ہر گھرانے کے ساتھ ان کی تعداد کے برابر ایسے لوگ شامل کر دیں گے جو کچھ نہیں رکھتے یہاں تک کہ اللّٰہ تعالیٰ بارش نازل کر دے۔''
خلیفہ کا اپنی ذات کے بارے میں رویّہ
اوپر مذکور انتظامی اقدامات وہ ہیں جن کا زیادہ تعلق حکومتی مشینری کے ساتھ ہے لیکن رمادہ کے دوران حضرت عمر نے اپنی ذات کے بارے میں بہت سے اقدامات اُٹھائے ۔ انہوں نے اپنے مزاج کے عین موافق رخصت کو چھوڑ کر عزیمت اختیار کی۔ اگرچہ شرعاً وہ اس بات کے مکلف نہ تھے تاہم عزیمت چھوڑ کر رخصت پر عمل کرنا ان کی نظر میں ایک مثالی قائد کے شایانِ شان نہ تھا۔ بلکہ ان کی فاروقیت تو اس وقت اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ رمادہ کے دوران انہوں نے اپنے اہل وعیال اوربچوں کے معاملے میں بھی عزیمت اختیار کی۔
گھی سے پرہیز
خوراک کے سلسلے میں سيدناعمر کی عادت یہ تھی کہ دودھ اور گھی میں روٹی ڈال کر کھایا کرتے تھے۔ جب قحط شروع ہوا تو پھر روغن زیتون اور سر کے میں روٹی بھگو کر تناول فرمایا کرتے تھے43۔ زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ لوگ قحط سالی کا شکار ہوئے تو گھی کی قیمت بڑھ گئی۔ آپؓ عموماً گھی استعمال کرتے تھے لیکن جب قلت پیدا ہوئی تو فرمایا:لا آكله حتى يأكله الناس44 ''جب تک لوگوں کو کھانے کےلیے نہیں ملتا میں بھی نہیں کھاؤں گا۔''
اس کا فوری سبب غالباً وہ واقعہ تھا جسے ابن سعد نے طبقات میں ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
''رمادہ کے سال حضرت عمر کے سامنے گھی میں چوری کی ہوئی روٹی پیش کی گئی۔ آپ نے ایک بدوی کو بھی شریکِ طعام ہونے کے لیے کہا، چنانچہ بدوی کھانے میں شریک ہوا اور جس طرف گھی تھا وہ بدوی اس طرف سے لقمے لینے لگا۔ حضرت عمر نے فرمایا: لگتا ہے تم نے کبھی گھی نہیں کھایا۔ اس شخص نے جواب دیا: ہاں میں نے فلاں فلاں دن سے آج تک نہ تو گھی یا تیل خود کھایا ہے، نہ کسی اور کو کھاتے دیکھا ہے ؟ یہ سن کر حضرت عمر نے قسم کھائی کہ جب تک لوگ قحط میں مبتلا ہیں، وہ گھی اور گوشت کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔''45
یحییٰ بن سعد روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر کی اہلیہ نے ان کے لیے گھی کا ایک کنستر ساٹھ درہم میں خریدا۔ حضرت عمر نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا: یہ میرے ذاتی مال میں سے خریدا گیا ہے،آپ کے دیے گئے نفقہ سے نہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر نے فرمایا: ما أنا بذائقه حتى يحيا الناس46
'' جب تک لوگ بارانِ رحمت سے فیض یاب نہیں ہوتے، میں اسے چکھنے والا نہیں۔''
گوشت سے پرہیز
زید بن اسلم اپنے والد کے حوالے سے کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے رمادہ کے سال گوشت کو اپنے اوپرحرام کر دیا تھا،جب تک کہ لوگوں کو نہ ملے۔ ایک اور روایت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے اس عزم پر قائم رہے...
"لم يأكل عمربن الخطاب سمنا ولا سمينا حتى أحيا الناس"47
''یعنی عمر بن خطاب نے نہ تو گھی کھایا، نہ گوشت یہاں تک کہ بارش ہوئی۔''
دو سالن ایک ساتھ دستر خوان پر نہیں کھاتے
قحط کے زمانے میں حضرت عمر نے کبھی ایک دستر خوان پر دو سالن نہیں کھائے، وہ اسےفضول خرچی سمجھتے رہے کیونکہ یہ چیزیں اس طرح دوسرے لوگوں کو میسر نہ تھیں۔ ایک دفعہ ان کے سامنے گوشت پیش کیا گیا جس میں گھی بھی تھا۔ اُنہوں نے دونوں کے کھانے سے انکار کر دیا اور فرمایا: "كل واحد منهما أدم"
''ان دونوں میں سے ہر ایک (بجائے خود) ایک (مستقل) سالن ہے۔''
ابو حازم نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر اپنی صاحبزادی اُمّ المؤمنین حضرت حفصہؓ کے گھر تشریف لے گئے تو اُنہوں نے ٹھنڈا شوربا اور روٹی پیش کی اور شوربے میں تیل بھی ڈال دیا۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر نے فرمایا:
"أدما في إناء واحد لا أذوقه حتى ألقى الله" 48''دوسالن ایک ہی برتن میں،میں اسے نہ چکھوں گا یہاں تک کہ اپنے اللّٰہ کے سامنے پیش ہو جاؤں۔''
چھنے ہوا آٹے سے گریز
قحط کے زمانے میں حضرت عمر کی یہ کوشش رہی کہ موٹا پسا ہوا آٹا کھائیں اور چھنے ہوئے آٹے سے گریز کرتے رہے۔بلکہ خادم کو ہدایت دے رکھی تھیں کہ آٹا نہ چھانا جائے، یسار بن عمیر کہتے ہیں کہ "والله ما نخلت لعمر الدقيق قط إلا وأنا له عاص"49
''واللّٰہ میں نے جب کبھی عمر کے لیے آٹا چھانا تو میں نے اس معاملے میں ان کی ہدایات کی خلاف ورزی کی۔''
شہد کا شربت
قحط کے زمانے میں حضرت عمر کھانے کے معاملے میں تو احتیاط کرتے ہی رہے۔ گھی، گوشت الگ الگ یا ایک ساتھ کبھی نہیں کھایا۔ نہ اپنے گھر میں نہ اپنی صاحبزادی کے گھر میں لیکن اس سے بھی بڑھ کر حیران کن بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر کو سخت پیاس لگی، ایک شخص کے گھر میں اسی حالت میں داخل ہو کر اس سے پانی مانگا تو اُنہوں نےشہد پیش کیا۔ آپ نے فرمایا: "والله لايكون فيما أحاسب به يوم القيامة"
''اُمید ہے قیامت کے روز جن چیزوں پر میرا محاسبہ ہو گا،یہ ان میں شامل نہیں ہو گا۔''50
ردّی کھجوریں
رمادہ کے واقعات کے ضمن میں ابن سعد نے تین روایتیں ایسی بیان کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے بےکار اور ردی کھجوریں کھانے میں بھی عار محسوس نہیں کی۔ اگر ایک جانب قحط کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے تو دوسری طرف حضرت عمر کی قناعت اور تواضع کا نظارہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ کھجوروں کے وطن میں بیٹھ کر کوئی ردی کھجوریں کھائے اور وہ بھی امیر المؤمنین۔ بائیس لاکھ مربع میل کا حکمران!!51
ٹڈی کی خواہش
قحط اور خشک سالی جیسے حالات کا سامنا بہت سے ملکوں کو کرنا پڑتا ہے لیکن عموماً نچلے یا متوسط طبقے کے لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں، اَشرافیہ اور حکمران طبقہ شاذ ونادر ہی متاثر ہوتا ہے۔ یا تو اپنے مال ودولت کی وجہ سے اور یا اثر ورسوخ اور حکومت کی وجہ سے۔جب ہم رمادہ پر نظر ڈالتے ہیں تو حاکم ومحکوم دونوں متاثر ہوئے اور دونوں میں کوئی فرق نظر نہیں آیا ۔حضرت عبد اللّٰہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب کو دیکھا کہ ان کے منہ سے پانی ٹپک رہا ہے، میں نے عرض کی کہ آپ کا کیا حال ہے؟ تو فرمایا: بھنے ہوئے ٹڈی کی خواہش ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق آپ کی مجلس میں کسی نے ذکر کیا کہ 'ربذہ '(نامی مقام) میں ٹڈی موجود ہے یہ سن کر آپ نے فرمایا: میرا دل چاہتا ہے کہ ٹڈی کی ایک دو ٹوکریاں ہمارے پاس ہوں تو ہم بھی کھا سکیں۔اس خواہش کی شدت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر نے بر سرمنبر اس کاذ کر کیا اور فرمایا: کاش ہمارے پاس ٹڈی بھرے ایک یا دو ٹوکرے ہوتے اور ہم بھی اس میں سے کچھ کھا لیتے۔52
قصر خلافت کا دستر خوان
مؤرخین نے لکھا ہے کہ رمادہ کے دوران حضرت عمر نے کبھی گھر کے اندر بھی کوئی پسندیدہ کھانا تناول نہیں کیا، اس دوران آپ ہمیشہ وہی کھانا تناول فرماتے جو عام لوگوں کے میسر تھا۔ چنانچہ بعض روایات میں نقل کیا گیا کہ
"وما أكل عمر في بيت أحد من ولده ولا بيت أحد من نسائه ذواقا زمان الرمادة إلا ما يتعشى مع الناس"
''حضرت عمر نے رمادہ کے زمانے میں نہ تو اپنے بیٹوں میں سے کسی کے گھر اور نہ ہی اپنی بیویوں میں سے کسی کے گھر کوئی پسندیدہ کھانا تناول فرمایا، سوائے اس کھانے کے جو وہ رات کے وقت عام لوگوں کے ساتھ مل کر کھاتے تھے۔''53
عوام کے ساتھ بیٹھ کر کھانا
قحط کے دوران لوگوں کو تسلی دینے اور ان میں صبر کا مادہ پیدا کرنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کی خاطر اُنہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ عام لوگوں کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھتے اور وہی کھانا تناول فرماتے جو عام لوگ کھاتے:"و كان عمر يأكل مع القوم كما يأكلون"54
''حضرت عمر لوگوں کے ساتھ مل کر انہی کی طرح کھاتے۔''
پیٹ گڑگڑانا
حضرت عمر نے رمادہ کے زمانے میں جس قسم کی غذا کا استعمال شروع کیا، وہ ان کے مزاج کے موافق نہ تھا۔اس لیے اس کے اندرونی وخارجی اثرات ان کی صحت پر مرتب ہونا شروع ہوئے اور یہ اثرات اتنے واضح تھے کہ دیکھنے اور پاس بیٹھنے والوں نے بھی محسوس کیا۔
رمادہ کے زمانے میں انہوں نے اپنے لیے گھی کو ممنوع قرار دیا تھا اور روغن زیتون پر گزارہ کرتے تھے جس کی وجہ سے پیٹ سے گڑگڑاہٹ سنائی دیتی تھی۔ آپ نے انگلی سے پیٹ کو دبایا اور پیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمانے لگے۔ خوب گڑ گڑاؤ! ہمارے پاس تمہارے لیے اس کے علاوہ کوئی اور چیز ہے ہی نہیں جب تک کہ لوگوں سے یہ مصیبت ٹل نہیں جاتی۔55
ایک اور موقع پر اپنے پیٹ کو مخاطب کر کے فرمایا: اے پیٹ! جب تک گھی چاندی کے مول بکتا رہے گا تجھے اسی تیل کی عادت ڈالنی پڑے گی۔ آپ کے غلام اسلم کہتے ہیں کہ لوگ جب قحط کا شکار ہوئے تو گھی مہنگا ہو گیا۔ حضرت عمر گھی کھایا کرتے تھے جب اس کی قلت پیدا ہوئی تو فرمایا: "لا أكله حتى يأكله الناس" جب تک لوگوں کو کھانے کےلیے گھی نہیں ملے گا میں بھی نہیں کھاؤں گا۔ چنانچہ زیتون کا تیل استعمال کرنے لگے اور فرمایا: اے اسلم! اس کو آگ پر گرم کر کے اس کی حدت ختم کر دو۔ چنانچہ میں ان کے لیے تیل پکایا کرتا تھا اور وہ استعمال فرماتے لیکن پیٹ میں گڑگڑاہٹ ہوتی۔ آپ فرماتے: اے پیٹ خوب گڑ گڑا ! اللّٰہ کی قسم تمہیں گھی اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک عام لوگ کھا نہ لیں۔56
رنگ بدل گیا
قحط اور عزیمت پر مبنی اس کردار نے جلد ہی امیر المؤمنین کی صحت کو متاثر کرنا شروع کیا اور ہوتے ہوتے یہ اثرات اتنے واضح انداز میں ظاہر ہوئے کہ دوسرے لوگ بھی ان کا مشاہدہ کرنے لگے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ
"فأسود لونُ عمر رضي الله عنه وتَغيَّر جسمه"57
''حضرت عمر کا رنگ سیاہ پڑ گیا اور جسم کمزور ہونے لگا۔''
ابن سعد کی روایت کے مطابق حضرت عمر کا رنگ گندمی تھا۔ البتہ رمادہ کے سال میں دیکھا گیا کہ تیل کھانے سے ان کا رنگ متغیر ہوا۔ایک اورروایت کے مطابق عیاض بن خلیفہ کہتے ہیں کہ رمادہ کے سال میں نے دیکھا کہ حضرت عمر کا رنگ سیاہ پڑ گیا ہے حالانکہ پہلے ان کا رنگ سفید تھا۔ ان سے پوچھا جاتا کہ کہ یہ کس وجہ سے ہے؟ آپ فرماتے کہ عمر ایک عربی شخص تھا،گھی اور دودھ استعمال کیا کرتا تھا ۔جب لوگ قحط کا شکار ہوئے تو اس نے یہ دونوں چیزیں اپنے اوپر حرام کر دیں۔ جس کی وجہ سے اس کا رنگ بدل گیا ، اس نے فاقے شروع کر دیے اور یہ سلسلہ بڑھتا گیا۔58
خود حضرت عمر کی اولاد میں سے بعضوں کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا کہ حضرت عمر کا رنگ سفید تھا۔ جب رمادہ کا سال آیا جو کہ بھوک کا سال تھا تو اُنہوں نے گوشت اور گھی چھوڑ کر مسلسل روغن زیتون استعمال کرنا شروع کیا۔ جس سے ان کا رنگ بدل گیا۔ وہ سرخ وسفید تھے لیکن اب سیاہ لاغر ہو گئے۔ 59امام ابن کثیر نے تصریح کی ہے کہ رمادہ کے ایام میں اس غذا سے وہ سیر نہیں ہوتے تھے۔60
زندگی خطرے میں پڑ گئی
یہاں یہ تصور کر لینا بالکل غلط ہو گا کہ تبدیلی صرف ان کے رنگ تک محدود تھی۔ بلکہ اکثر مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ ان کی صحت مسلسل گررہی تھی اور اگر قحط کا یہ سلسلہ جاری رہتا تو شاید امیر المؤمنین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔
اسامہ بن زید بن اسلم اپنے دادا اسلم کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ
"كنا نقول لو لم يرفع الله المحل عام الرمادة لظننا أن عمر يموت همًّا بأمر المسلمين"61
''یعنی رمادہ کے سال ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ نے یہ قحط ختم نہ کیا تو حضرت عمر یقیناً مسلمانوں کے غم میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔''
سواری چھوڑ دی
بات صرف کھانے پینے کے معاملے میں عزیمت تک محدود نہ تھی بلکہ اب تو زندگی کے ہر معاملے میں وہ عزیمت کی انتہائی حدوں کے قریب پہنچ گئے تھے۔ یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہ ہو گا کہ قحط نے سب سے زیادہ امیر المؤمنین کو متاثر کیا۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ رمادہ کے ایام میں وہ ہر چھوٹے بڑے واقعے بلکہ معمول کی چیزوں کا بھی غیر معمولی انداز میں جائزہ لیا کرتے تھے اور جو بھی قدم اُٹھانا ہوتا تھا ،اس کا آغاز اپنی ذات سے کرتے تھے۔
سائب بن یزید نقل کرتے ہیں کہ رمادہ کے سال حضرت عمر ایک سواری پر سوار تھے جانور نےلید کی جس میں جَو کے دانے تھے۔ اسے دیکھ کر حضرت عمر نے فرمانے لگے:
"المسلمون يموتون هزلا وهذه الدابة تأكل الشعير لا والله لا أركبها حتى يحيا الناس"62
''مسلمان بھوکوں سے مر رہے ہیں اور یہ جانور جَو کھا رہا ہے۔ نہیں اللّٰہ کی قسم جب تک لوگ بارش سے فیض یاب نہیں ہوتے میں اس جانور پر سواری نہیں کروں گا۔''
خلیفہ وقت کا لباس
قحط کی شدت امیر المؤمنین کے لباس پر بھی اثر انداز ہوئی۔ سائب ابن یزید فرماتے ہیں کہ رمادہ کے سال میں نے حضرت عمر کے جسم پر تہبند دیکھا جس میں سولہ پیوند لگے ہوئے تھے۔اور اس حال میں بھی وہ یہ دعا فرما رہے تھے:
اللهم لا تجعل هلكة أمة محمد على رجلي63
''الٰہی میری وجہ سے محمدﷺ کی امت کو ہلاک نہ فرما۔''
صاحبزادگان (خانوادۂ خلافت)
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق نے جو عزیمت اختیار کی، وہ صرف ان کی ذات محدود نہ تھی بلکہ ان کے اہل وعیال کو بھی عزیمت کے اس امتحان سے گزرنا پڑا۔ اس سلسلے میں بطورِ مثال دو واقعات پیش کرنے پر اکتفا کروں گا۔
امیر المؤمنین حضرت عمر کے خادم خاص اسلم کا کہنا ہے کہ
رمادہ کے سال حضرت عمر نے عام لوگوں کو گوشت ملنے تک اسے اپنے اوپر حرام کر دیا تھا۔ ان کے صاحبزادے عبید اللّٰہ کے پاس بھیڑیا بکری کا بچہ تھا۔ جسے ذبح کرنے کےبعد بھوننے کے لیے تنور میں رکھا گیا۔ حضرت عمر کو اس کی خوشبو محسوس ہوئی، وہ اس وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ فرمانےلگے: میرا خیال نہیں کہ میرے گھر میں کوئی شخص یہ حرکت کرے گا۔ جا کر دیکھ آؤ، میں نے جا کر دیکھا تو اس (جانور) کو تنور میں پایا۔ عبید اللّٰہ کہنے لگے: میرا پردہ رکھو ، اللّٰہ تعالیٰ تمہاری پردہ پوشی فرمائیں گے۔ اسلم نے کہا: امیر المؤمنین نے یہ جانتے ہوئے ہی مجھے بھیجا تھا کہ میں ان کے سامنے جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اس کے بعد اُنہوں نے وہ ذبیحہ تنور سے نکلوایا اور لا کر حضرت عمر کے سامنے یہ کہتے ہوئے رکھ دیا کہ اُنہیں اس کا علم نہیں تھا۔ عبید اللّٰہ نے بتایا کہ یہ بچہ درحقیقت ان کے بیٹے کا تھا، پھر میں نے خریدا۔ مجھے گوشت کی خواہش ہوی تو میں نے ذبح کر دیا۔64
عیسیٰ بن معمر کہتے ہیں کہ رمادہ کے سال حضرت عمر نے اپنے بچوں میں سے کسی کے ہاتھ میں خربوزہ دیکھا تو فرمایا: واہ واہ امیر المؤمنین( ) کے صاحبزادے! محمد ﷺ کی اُمت تو بھوک سے نڈھال ہو رہی ہے اور تم پھل کھا رہے ہو؟ یہ سن کر بچہ بھاگ نکلا اور رونے لگا۔ حضرت عمر اس وقت مطمئن ہوئے جب اُنہیں بتایا گیا: یہ خربوزہ اس بچے نے مٹھی بھر گٹھلیوں کے عوض خریدا تھا۔65
بیویوں سے کنارہ کشی
ویسے تو رمادہ کے دوران امیر المؤمنین کا مکمل کردار عدیم المثال ہے لیکن جو واقعہ بیان کیا جا رہا ہے اس کی مثال شاید انسانی تاریخ آئندہ زمانے میں بھی پیش نہ کر سکے۔صفیہ بنت ابی عبید نقل کرتی ہیں کہ حضرت عمر کے گھر کی بعض خواتین نے مجھے بتایا کہ رمادہ کے زمانے میں غم اور پریشانی کی وجہ سے حضرت عمر اپنی کسی بیوی کے قریب نہیں گئے۔66
خود سامان اُٹھانا اور کھانا پکانا
اس عظیم آزمائش کے دوران حضرت عمر نے ریاستی مشینری کو تو متحرک کر ہی دیا تھا لیکن خود بھی اس دوران ایک عام مزدور کی طرح بلکہ مزدور سےبڑھ کر کام کیا۔ بجائے اس کے کہ متاثرین قحط کو اپنے پاس بلاتے، خود ان کے پاس چل کر تشریف لے جاتے۔ ان کے کندھوں پر بوریاں لادنے کی بجائے خود اُٹھا کر لے جاتے رہے اور باورچی بن کر فاقہ زدوں کے لیے کھانا پکاتے رہے۔ صحابی رسولﷺ حضرت ابو ہریرہ ایسا ہی ایک واقعہ نقل فرماتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
اللّٰہ تعالیٰ ابن حَنـتمه(عمر کی والدہ کا نام) پر رحم فرمائے۔ رمادہ کے سال میں نے دیکھا کہ ہاتھ میں گھی کا برتن اور پشت پر دو بوریاں لادے جا رہے ہیں۔ وہ اور اسلم اپنی اپنی باری لے رہے ہیں۔مجھے دیکھ کر اُنہوں نے فرمایا: ابو ہریرہ کہاں سے آ رہے ہو؟ میں نے عرض کیا: یہاں قریب ہی سے، پھر میں نے بھی ان کی مدد کی حتیٰ کہ ہم صرار(جگہ کا نام)پہنچے،وہاں تقریباً بیس گھرانوں پر مشتمل ایک گروہ تھا۔ جن کا تعلق محارب (قبیلہ) سے تھا۔ حضرت عمر نے پوچھا: تم لوگ کیسے یہاں آئے۔ انہوں نے کہا: مصیبت کی وجہ سے، اس کےبعد اُنہوں نے جانور کا بھنا ہوا چمڑا ہمارے سامنے نکال کر رکھا جسے وہ کھایا کرتے اور اس کے ساتھ پسی ہوئی ہڈیوں کا سفوف پھانک لیا کرتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ حضرت عمر نے اپنی چادر پھینک دی اور تہبند کس لیا اور ان کے لیے کھانا پکاتے رہے یہاں تک کہ وہ سب سیر ہو گئے۔ پھر اسلم کو مدینہ منورہ کی طرف بھیجا ،وہ وہاں سے اونٹ لے کر گئے۔ حضرت عمر نے ان سب کو اونٹوں پر سوار کرا کر 'جبانہ' نامی مقام میں بسایا، ان کو کپڑے مہیا کیے۔ اس کے بعد وہ کبھی کبھی ان کی اور دوسرے لوگوں کی خبر گیری تشریف لے جایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اللّٰہ تعالیٰ نے وہ مصیبت دور فرما دی۔67
پکانے کی تربیت دینا
رمادہ کے زمانے میں ایک مرتبہ حضرت عمر ایک عورت کے پاس سے گزرے جو کہ عصیده68 پکا رہی تھی آپ نے فرمایا: عصیدہ ایسے نہیں بنایا جاتا۔ پھر مسوط69 اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کو سمجھا کر فرمایا: ایسے۔
ہشام بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تک پانی خوب گرم نہ ہو جائے تم خواتین میں سے کوئی اس میں آٹا نہ ڈالے، پھر پانی گرم ہو جانے کے بعد تھوڑا تھوڑا کر کے آٹا اس میں ڈالا جائے اور مسوط کے ذریعے اس کو ہلاتی جائے اس طرح کھانا زیادہ گاڑا ہو گا اور آٹے کے ٹکڑے بھی نہیں جمیں گے۔70
نمازِ استسقاء اور بارانِ رحمت کا نزول
رزم ہو یا بزم، بھوک ہو یا بیماری، ہر حالت میں باب رحمت کی کشادگی کے لیے مسلمانوں کی نظریں نبی کریمﷺکی طرف ہی اٹھتی تھیں: استشفاء اور استسقاء کے لیے مسلمانوں نے ہمیشہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں التجا کی۔ بلکہ عہدِ نبوی میں جب ایک مرتبہ خشک سالی ہوئی تو کفار نے بھی بارگاہِ نبوت میں دعا کے لیے درخواست کی۔
رمادہ کا دورِ ابتلا نو مہینے جاری رہا۔ مسلمانوں نے صابر ہونے کاثبوت دیا ، اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی۔ بقول حافظ ابن کثیر گھروں تک پہنچنے سے بھی پہلے ایسی بارش ہوئی کہ وادیاں بہہ نکلیں۔71 سورۃ الشوریٰ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَهُوَ الَّذى يُنَزِّلُ الغَيثَ مِن بَعدِ ما قَنَطوا وَيَنشُرُ رَحمَتَهُ ۚ وَهُوَ الوَلِىُّ الحَميدُ ﴿٢٨﴾... سورة الشورىٰ
''وہی تو ہے جولوگوں کے مایوس ہو جانے کے بعد بارانِ رحمت برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے۔ وہی کارساز اور قابل ستائش ہے۔''
نو ماہ کے ابتلا و آزمائش کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور صلوٰۃ استسقا کی طرف مسلمانوں کی توجہ دلائی گئی، یہ سب کچھ خواب کے ذریعے ہوا۔ البتہ واقعات مختلف ہیں، مؤرخین نے اس سلسلے میں خواب کے دو واقعات کا تذکرہ کیا ہے۔ اگرچہ مذکورہ خواب دیکھنے والے اشخاص الگ الگ ہیں تاہم ان خوابوں کا مفاد ومراد ایک ہے۔
مہاجرین کی واپسی
بقول محمد حسین ہیکل: اللّٰہ تعالیٰ نے اپنےبندوں کی دعا قبول فرمائی اور دھواں دار بارش کے ذریعےآسمان کے دروازے کھول دیے، پیاسی زمین دیکھتے دیکھتے سیراب ہو گئی اور اس نے اپنا خاکستری لباس اتار کر دھانی پوشاک پہن لی۔ اب ان تمام عربوں کے لیے جو چاروں طرف سے آ کر مدینہ میں جمع ہو گئے تھے، وہاں ٹھہرنے کی کوئی وجہ نہ رہی۔چنانچہ حضرت عمر خود ان میں جاتے اور فرماتے: جاؤ، اپنے وطن کو واپس جاؤ۔ انہیں اندیشہ تھا کہ کہیں لوگ مدینہ کی زندگی کو عیش و آرام کی زندگی سمجھ کر وہیں نہ رہ پڑیں۔
بقول ابن سعد: فلما أحيوا قال أخرجوا من القرية إلى كنتم اعتدتم من البرية فجعل عمر يحمل الضعيف منهم حتى لحقوا ببلادهم72
''یعنی جب بارش ہوئی تو حضرت عمر نے لوگوں سے کہا ، اس گاؤں سے نکلو اور صحرا جہاں رہنے کے تم عادی تھے ، چلے جاؤ۔ حضرت عمر ان میں سے ضعیفوں کو خود اُٹھاتے یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے علاقوں میں چلے گئے۔''
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقصد کے لیے امیر المؤمنین نے چند لوگوں کو ذمہ داری سونپی تھی۔ واپس جانے والوں کو امداد اور سواری بھی مہیا کی جاتی تھی۔قحط کے بعد یہ ایک انتہائی اہم قدم تھا جو انہوں نے اٹھایا، اگر حضرت عمر ایسا نہ کرتے تو ایک جانب مدینہ منورہ میں ان مہاجرین کی آبادکاری حکومت کے لیے گھمبیر صورت اختیار کر جاتی اور دوسری طرف عرب کا صحرائی نظامِ زندگی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا اور ساتھ ہی بارش کے بعد زمینوں کی دوبارہ بحالی کا کام بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچتا۔
زکاۃ کی وصولی میں تاخیر
رمادہ کے زمانے میں حضرت عمر نے زکاۃ وعشر کی وصولی کے بارے میں انتہائی بروقت اور جرأت مندانہ فیصلے کیے۔ایک اہم فیصلہ یہ کیا کہ قحط کے زمانے میں انہوں نے کسی آدمی کو زکاۃ کی وصول کے لیے متاثرہ علاقے میں نہیں بھیجا بلکہ جب تک قحط دور نہ ہو گیا، ان کو روکے رکھا۔ جب بارش ہوئی اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اور معیشت بحال ہونے لگی تو کارندوں کو وصولی کے لیے بھیجا۔ ابن سعد کی روایت کے مطابق
أن عمر أخر الصدقة عام الرمادة فلم يبعث السعاة. فلما كان قابل ورفع الله ذلك الجدب أمرهم أن يخرجوا فأخذوا عقالين فأمرهم أن يقسموا عقالا ويقدموا عليه بعقال73
'' رمادہ کے سال حضرت عمر نے زکاۃ کی وصولی مؤخر فرما دی، چنانچہ کسی کو وصولی کے لیے نہیں بھیجا۔ اگلے سال جب اللّٰہ تعالیٰ نے خشک سالی رفع فرمائی تو محصلین کو حکم دیا کہ وہ وصولی کے لیے نکلیں۔ چنانچہ اُنہوں نے دو دو حصّے وصول کیے۔ آپ نے اُنہیں حکم دیا کہ ایک حصہ مقامی طور پر تقسیم کیا جائے اور دوسرا حصہ اپنے ساتھ (بیت المال کے لیے) لے کر آئیں۔ اس کے ساتھ ہی اُنہوں نے وصولی اور تقسیم کے لیے مفصّل ہدایات جاری کیں۔''
ان اقدامات کے تین فوائد حاصل ہوئے:
1. رمادہ کے ایام میں لوگوں کی سہولت، مہلت اور رعایت حاصل ہوئی اور حکومتیں کارندوں یعنی محصلین کی توجہ امدادی کاموں پر مرکوز رہی۔
2. مقامی تقسیم میں ان لوگوں کو ترجیح دی گئی جو سب سے زیادہ متأثر ہوئے تھے ان کو مقامی طور پر امداد مہیا کر دی گئی اس طرح حکومت اور عوام دونوں کا وقت اور ان کے وسائل ضائع ہونے سے بچ گئے کیونکہ اموال صدقہ کی مدینہ منورہ منتقلی اور پھر مقررہ حصہ کی واپسی ان علاقوں میں منتقلی پر وقت اور سرمایہ دونوں خرچ ہوتے۔
3. چونکہ بیت المال بالکل خالی ہو چکا تھا اور ایک بڑے اقتصادی بحران کا خطرہ موجود تھا، اس لیے اُنہوں نے زکاۃ کی وصولی ساقط نہیں کی بلکہ مؤخر کر دی اور اگلے سال مکمل وصولی کی وجہ سے عوام کی داد رسی بھی ہوئی اور بیت المال بھی آئندہ کسی اور بحران سے نمٹنے کے قابل ہوا۔
قارئین کرام !حضرت عمر کی سیاست کو دیکھیں جو اس قحط کے زمانے میں جس سے اُنہیں اور ان کی قوم کو سابقہ پڑا ،ان کی خدمات سے ظاہر ہوئی ہے۔ اس سے ہماری مراد استعجاب واحترام کے ان جذبات کا احترام نہیں ہے جو ان خدمات کے پیش نظر حضرت عمر کے لیے دل میں پیدا ہوئے ہیں بلکہ ہم ان خدمات کے آئینے میں حکومت کی اس تصویر کو اجمالی خطوط دیکھنا چاہتے ہیں جو رسول اللّٰہﷺ کے تربیت یافتہ اس مسلم حکمران کے ذہن میں مرتسم تھی۔ جسے اللّٰہ جل جلالہ کی حکمتِ بالغہ نے اس مقصد کےلیے مخصوص فرمایا تھا کہ وہ اسلامی معاشرے میں نظام حکومت کو تفصیلی رنگ دینے کا آغاز کرے۔ ان خدمات واعمال میں جو چیز سب سے زیادہ نظر کو اپنی طرف کھینچتی ہے وہ حضرت عمر کا ذمہ داریاں قبول کرنا اور اپنی جان کو موردِستم بنانا ہے۔ اُنہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں سے روگرداں ہونے کے لیے اپنے اوپر یہ بوجھ نہیں لادا تھا کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ وہ اس لیے کرتے تھے کہ ان کا شعور غریبوں، کمزوروں اور محتاجوں کے شعور سے ہم آہنگ ہو جائے۔ فرماتے: ''جب تک میں خود لوگوں کی مصیبت میں شریک نہ ہوں گا مجھے ان کی تکلیف کا کیسے اندازہ ہو گا؟ ''
اس لیے وہ اپنے آپ کو ان محتاجوں کی سطح پر لے آئے تھے جنہیں زندگی برقرار رکھنے کے لیے صرف انہی کا دستر خواں میسر آتا تھا جس پر وہ دوسرے ہزاروں بھوکوں کے ساتھ بیٹھتے تھے چنانچہ حضرت عمر ان کے ہمراہ کھانا کھاتے تھے اور اپنے گھر میں کھانا کھانے پر رضا مند نہ ہوتے تھے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ اپنے لیے ایسی چیز پسند کرتے ہیں جو ان کی قوم کے فاقہ زدوں کو میسر نہیں۔ اپنے اس عمل سے ان کے دو اہم مقصد تھے: ایک تو یہ کہ انہیں لوگوں کے دکھ درد کا احساس ہو جائے تاکہ وہ ان سے ہمدردی اور ان کی تکلیفیں دور کرنے کے سلسلے میں سعی وعمل کی رفتار تیز کر دیں اور دوسرا یہ کہ عوام کو اطمینان حاصل ہو جائے کہ امیر المؤمنین مصائب وشدائد میں ہمارے برابر کے شریک ہیں اور ان کے جذبات مشتعل نہ ہوں بلکہ وہ ہر تکلیف واذیت پر راضی بہ رضا رہیں کہ خلافت کا سب سے بڑا آدمی اس ابتلا میں ان کا ساتھ دے رہا ہے اور ان دونوں مقاصد میں حضرت عمر اتنے کامیاب رہے کہ کسی قوم کا کوئی فرمانروا اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔74
یہ ہے اسلام کی عظمت کہ چودہ سو برس قبل بھی خلافت راشدہ نے ایسی شاندار روایات قائم کیں کہ آج تک دنیااس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ خداخوفی اور احساسِ ذمہ داری کے ساتھ مسلم حکمران اپنی رعایا کی فلاح کا بھرپور خیال رکھا کرتے۔ آج بھی ملتِ اسلامیہ کا اصل مسئلہ مال ودولت، قدرتی وسائل اور سائنس وٹیکنالوجی سے بڑھ کر، اپنی رعایا کی فلاح کی فکر، احساسِ ذمہ داری، خدا خوفی، للہیت اور دیانت وامانت ہے، اور اس کے لیے مغرب کی طرف دیکھنے کی بجائے ، اپنی تاریخ سے سنہری مثالیں نکال کر اُنہیں اپنانا ہوگا۔ اور جب بھی مسلمانوں کا کوئی طبقہ، ان اوصاف کا خوگر ہوجائے گا، چاہے وہ سیاسی قیادت ہو یا دینی قیادت، ملتِ اسلامیہ کا زوال پلٹ جائے گا۔آج کا دور ایسے ہی ذمّہ دار اور خداترس مسلم قیادت کی راہ تک رہا ہے۔