حلالۂ ملعونہ مروّجہ کا قرآنِ کریم سے جواز؟

مجوزین کے دلائل کا ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ

عمومِ قرآن کی تخصیص میں، حدیثِ رسولﷺ سے گریز کے نقصانات

بہرحال بات ہورہی تھی، قرآنِ کریم کے الفاظ ﴿حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَ‌هُ﴾ کی کہ حدیثِ رسول «لعن الله المحلل...» نے اس نکاح کو خاص کردیا ہے اس نکا ح کے ساتھ جو آباد رہنے کی نیت سے کیا جائے، کیونکہ شریعتِ اسلامیہ میں نکاح کا صرف یہی طریقہ رکھا گیا ہے۔ عارضی نکاح، چاہے وہ متعے کی صورت میں ہو، حلالۂ مروّجہ کی صورت میں ہو یا اب بعض متجددین نے ایک تیسرا طریقہ گھڑا ہے کہ کسی ملک میں تعلیم کے دوران کسی مقیم عور ت سے عارضی طور پر چند مہینوں یا چند سالوں کے لئے نکاح کرلیا جائے؛ یہ سارے ممنوع او ریکسر حرام ہیں۔ اسلام میں نکاح صرف وہی ہے جو ہمیشہ آباد رہنے کی نیت سے کیا جائے او رمذکورہ تینوں صورتوں میں یہ نیت نہیں پائی جاتی بلکہ اس کے برعکس سب میں اغراضِ فاسدہ ہی کارفرما ہیں۔ اسلام اغراضِ فاسدہ کی خاطر نکاح جیسے اہم فریضے کی تقدیس کو خاک میں ملانے کی اجازت کس طرح دے سکتا ہے؟ اس لئے عارضی نکاح کی مذکورہ تینوں صورتیں اسلام میں حرام ہیں اور ان کا ارتکاب کرنے والے ملعون ہیں اور اسی میں فراہی گروپ کی وہ چوتھی صورت بھی آجاتی ہے جوشریعت کے تجویز کردہ حلالے میں ہم بستری کو عمومِ قرآن کے خلاف قرار دیتا ہے۔ اس گمراہی کی بنیاد بھی حدیثِ رسول سے گریز ہی ہے۔ مولانا تقی عثمانی صاحب بھی فرماتے ہیں کہ ''تَنْكِحَ کے عموم کو ہم حدیث (خبر واحد)سے مخصوص نہیں کرسکتے، یہ قرآنِ کریم پر زیادتی ہے۔'' گویا حدیثِ رسول سے قرآن کریم کی تفسیر و توضیح اوراس کے عموم کی تخصیص، قرآن پر زیادتی ہے۔ نعوذ بالله من ذلك!

محترم ! اوّل تو یہ باتیں منکرین حدیث کی ہیں جو حدیث کو حجت نہیں مانتے۔ اگر آپ بھی صرف انہی حدیثوں کو مانتے ہیں جو خود ساختہ فقہ کے مطابق ہیں اور جو فقہ میں بیان کردہ مسائل کے خلاف ہیں، وہ (نعوذ بالله) قرآن پر زیادتی ہیں اور مردود ہیں، تو منکرین حدیث بھی تو ان حدیثوں کو مانتے ہیں جو ان کی عقولِ حیلہ ساز کے مطابق ہیں (بالکلیہ حدیث کے منکر تو وہ بھی نہیں)، تاہم ان حدیثوں کو وہ بھی قرآن پر زیادتی قرار دے کرردّ کردیتے ہیں جو اُن کے خود ساختہ نظریات کے خلاف ہوتی ہیں اور دلیل اُن کی بھی یہی ہوتی ہےکہ قرآن کے عموم کی تخصیص حدیثِ رسول سے نہیں ہوسکتی۔

جیسے رجم (سنگ ساری) کا مسئلہ ہے۔ منکرین حدیث کہتے ہیں قرآن کریم میں ﴿الزّانِيَةُ وَالزّانى فَاجلِدوا كُلَّ و‌ٰحِدٍ مِنهُما مِا۟ئَةَ جَلدَةٍ...٢﴾ ... سورة النور''زانی مرد اور زانی عورت، ہرایک کو سو سو کوڑے مارو۔'' عام ہے جس میں کنوارے اور شادی شدہ دونوں شامل ہیں، اس لئے دونوں کی سزا ایک ہی ہے:سو کوڑے۔(فراہی گروہ بھی یہی کہتا ہے جس کا ایک اور نام غامدی گروپ بھی ہے۔)

قرآن کے اس عام حکم کی بابت یہ کہنا کہ حدیثِ رسول کی رُو سے یہ سزا صرف غیر شادی شدہ مرد و عورت کے لئے ہے اور حدیث نے اسے صرف کنواروں کے لئے خاص کردیا ہے۔ کیونکہ رسول اللّٰہﷺ نے شادی شدہ زانیوں کو رجم کی سزا عملاً دی بھی ہے اور اپنے فرمان کے ذریعے سے شادی شدہ زانیوں کے لئے یہی سزا بیان بھی فرمائی ہے۔ لیکن منکرین حدیث اور فراہی گروہ کا پرنالہ وہیں کا وہیں ہے اور ان کا راگ یہی ہے کہ سزاے رجم کا اثبات قرآن کے عموم کے خلاف اور قرآن پر زیادتی ہے۔

بتلائیے! منکرین حدیث (قدیم و جدید) میں اور فقہ نوازوں میں فرق کیا ہے؟ قرآن کریم کی تفسیر اور حدیث کی حجیت میں دونوں کا طرزِ استدلال اور طرزِ عمل ایک ہے، فرق کہاں ہے؟

دوم:یہ کہنا کہ ہم 'خبر واحد'کے عموم سے قرآن کی تخصیص کے قائل نہیں اور صرف اسے ہی قرآن پر زیادتی قرار دیتے ہیں۔تو ہم کہتے ہیں کہ اوّل تو یہ ''دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔'' والی بات ہے ، یعنی اپنے دل کو مطمئن کرنے یا دل کو دھوکا دینے والی بات ہے کہ ہم حدیث کا انکار نہیں کررہے ہیں، حدیثِ آحاد کا انکار کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حدیث آحاد سے قرآن کے عموم کی تخصیص نہیں ہوسکتی، یہ اُصول کس نے بنایا، یا بتلایا ہے؟ کیا اللّٰہ نے نازل کیا ہے کہ میرا قرآن بہت مقدس ہے، اس کے عموم کی تخصیص حدیثِ آحاد سے نہیں کرنا، یہ میرے مقدس کلام کی توہین یا اس پر زیادتی ہے؟ یا امام ابوحنیفہ نے بنایا ہے جن کی تقلید کا دم آپ بھرتے ہیں کہ میرا قول خبر واحد (حدیثِ رسولؐ) سے زیادہ اہم ہے ، اس لئے جب خبر واحد سے اس کا ٹکراؤ ہو تو میرا قول اس پر مقدم ہے، اسی لئے آپ مسئلہ زیر بحث میں رسول اللّٰہﷺ کے ثابت شدہ صحیح فرمان کو خبر واحد کہہ کر ٹھکرا رہے ہیں، محض اس لئے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک حلالۂ ملعونہ کے ذریعے سے نکاح اگرچہ مکروہ ہے لیکن ہوجاتا ہے۔ تو کیا یہ اُصول امام صاحب یا ان کے تلامذہ صاحبین کا بنایا ہوا ہے؟آخر یہ اُصول کس نے بنایا ہے جو منکرین حدیث کی فکر سے ہم آہنگ اور رسول اللّٰہﷺ کے فرامین سے مجرمانہ حد تک بے اعتنائی کا مظہر ہے؟

پھر یہ 'اُصول' اگر اتنا ہی 'مقدس' ہے کہ رسول اللّٰہﷺ کا فرمان بھی اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو فقہ کے بہت سے مسائل بھی اس سے ٹکراتے ہیں تو وہاں اس اُصول کو کیوں استعمال نہیں کیا جاتا اور اس سے متصادم فقہ کےمسائل کو کیوں ردّ نہیں کیا جاتا؟

جیسے فقہ حنفی کا مسئلہ ہے کہ حق مہر دس درہم سے کم مقرر کرنا جائز نہیں ہے، حالانکہ قرآن کے عموم سے حق مہر کی کمی بیشی جائز ہے اوراحادیث میں تو بڑی صراحت سے اس کے ثبوت موجود ہیں۔ کیا کم از کم دس درہم حق مہرمقرر کرنے کو لازم قرار دینا، قرآن کے عموم کی تخصیص نہیں ہے؟ عمومِ قرآن کی اس تخصیص کے لئے علماے احناف کے پاس کون سی متواتر حدیث ہے؟ بلکہ ہمار دعویٰ ہے کہ اس فقہی مسئلے کے اثبات کے لئے، جو قرآن و حدیث کے خلاف ہے، علماے احناف کے پاس متواتر حدیث تو کجا کوئی صحیح خبر واحد بھی نہیں ہے۔ یہ فقہی مسئلہ سراسر ضعیف حدیث پر مبنی ہے جبکہ صحیح حدیث کی رُو سے کم سے کم مہر، حتیٰ کہ تعلیم قرآن یا قبولِ اسلام (کسی مرد کا) کوبھی حق مہر مقرر کیا جاسکتا ہے۔

کیا مشقِ ناز کے لئے احادیثِ رسول ہی رہ گئی ہیں؟ کیا فقہ کے بعض بے سروپا مسائل، احادیثِ رسول سے ثابت شدہ مسائل کے مقابلے میں زیادہ اہم ہیں کہ اُن کو تو صحیحِ احادیث کے باوجود خبر آحاد کہہ کر نہایت آسانی سے ردّ کردیا جاتا ہے، لیکن فقہی مسئلہ بے دلیل ہونے اور عموم قرآن کے خلاف ہونے کے باوجود محترم اور مقدس ہے۔یہ حدیثِ رسول کو ماننا ہے یا فقہ کوماننا ہے؟ ...قرآن کو ماننا ہے یا تقلیدی جمود کا مظاہرہ ہے؟

یہ تو بات واضح کرنے کے لئے ہم نے ایک مثال دی ہے، ورنہ فقہ حنفی کے متعدد مسائل ہیں جو عموم قرآن کی تخصیص پر مبنی ہیں او راُن کے لئے ان کے پاس متواتر احادیث تو کجا سرے سے کوئی خبر واحد بھی نہیں ہے جیسے نصابِ سرقہ کا مسئلہ ہے، نبیذِتمر سے وضو کرنے کا مسئلہ ہے وغیرہ۔ ان کے اثبات کے لئے ان کے پاس کون سی معقول دلیل ہے او رکس بنیاد پر اُنہوں نے ان کی وجہ سے قرآن کے عموم کی تخصیص کرکے قرآن پر زیادتی کی ہے؟

خبر واحد کی حجیت سے انکار صرف انہی مسائل میں کیوں جو فقہ کے خلاف ہیں اور جو مسائل فقہ حنفی میں ہیں اور وہ عموم قرآن کے خلاف ہیں، ان میں خبر واحد حجت کیوں ہے؟ بلکہ وہاں تو ضعیف حدیث بھی، جو سرے سے دلیل ہی نہیں ہے، وہ بھی حجت ہے۔ حدیثی مسائل اور فقہی مسائل کے اثبات میں یہ دو عملی بلکہ ایک کے ساتھ معاندانہ اور دوسرے کے ساتھ مفاہمانہ طرزِ عمل کیوں؟

سوم:پھر قرآن کے عموم سے اگرحلالۂ ملعونہ کے ذریعے سے نکاح کا جواز ثابت ہے تو پھر شیعوں کا نکاحِ متعہ بھی جائز ہونا چاہیے، کیونکہ قرآن کے عموم سے آپ اس کو کس طرح خارج کریں گے؟ حدیث کے ذریعے سے تو یقیناً نکاحِ متعہ خارج ہوسکتا اورحرام قرار پاسکتا ہے ، کیونکہ حدیث قرآن کی مُخصِّص ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ حدیثِ متواتر ہے یاخبر واحد، صرف اس کا صحیح ہونا شرط ہے۔ لیکن اگر حدیث کو عموم قرآن کا مخصّصنہیں مانا جائے گا تو صرف نکاحِ حلالہ ہی جائز نہیں ہوگا ،بلکہ نکاحِ متعہ بھی جائز ہوگا اور وہ عارضی نکاح بھی جائز ہوگا جسے آج کل بعض حضرات نے تعلیمی ضرورت پوری کرنے کے لئے جائز قرار دیا ہے۔

اسی طرح ہمارے پاک و ہند میں ایک فراہی گروپ ہے جس کو پاکستان میں غامدی گروپ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ گروپ بھی اپنے نظریات کے خلاف احادیث کو نہیں مانتا۔ اس لئے یہ گروپ بھی اس حدیث کو نہیں مانتا جس میں دوسرے خاوند کے لئے ہم بستری کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ گروہ 'تنکح'کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے صرف عقدِ نکاح کے بعد ہی (ہم بستری کے بغیر) طلاق دے دینے کے بعد زوجِ اوّل سے نکاح کو جائز قرار دیتا ہے،عموم کی مذکورہ منطق کی رُو سے انکارِ حدیث پر مبنی یہ گمراہانہ نظریہ بھی پھر صحیح ہونا چاہیے۔

چہارم:مآخذِ شرعیہ میں قرآنِ کریم کے بعد سب سے بڑا اور دوسرا ماخذ حدیثِ نبویؐ ہے اور احادیث کا بیشتر حصہ بلکہ 98 فیصد حصہ احادیثِ آحاد پر مشتمل ہے۔ اگر احادیثِ آحاد کی صحت و حجیت ... نعوذ بالله... مشکوک ہے تو دین کی بنیاد ہی منہدم ہوجاتی ہے ۔ اسی لئے فقیہ الامت ، امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری نے صحیح بخاری میں 'کتاب اخبار الآحاد' میں اس مسئلے، یعنی حجیتِ خبر واحد کو نہایت مدلل طریقے سے بیان کرکے اس کی خصوصی اہمیت کو اُجاگر اور ثابت کیا ہے اور بتلایا ہے کہ حدیث صحیح مطلقاً حجت ہے اوراس سے قرآن کے عموم کی تخصیص بھی بالکل صحیح ہے۔

6. مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:

''اس کے علاوہ حضرت ابن عمرؓ کے قول میں زنا کے ساتھ اس عمل کی تشبیہ صرف حرمت میں ہے،عدمِ انعقاد میں نہیں جس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت ابن عمرؓ نے اس معاملے میں زوجین کو تفریق کا کوئی حکم نہیں دیا۔''1

تبصرہ: اس کو کہتے ہیں: توجيه القول بما لا يرضٰي به القائل، یعنی ''کہنے والے کی بات کی اس طرح توجیہ کرنا کہ کہنے والا اس کو پسند نہ کرے۔'' کیونکہ وہ توجیہ یا تاویل اس کے مقصد اور منشا کے خلاف ہے۔ حضرت ابن عمرؓ کے قول کی توجیہ ِعثمانی بھی حضرت ابن عمرؓ کے مقصد و منشا کے یکسر خلاف ہے۔ حضرت ابن عمرؓ اپنے قول میں نکاحِ حلالہ کی بابت فرما رہے ہیں کہ ہم اسے رسول اللّٰہﷺ کے زمانے میں زنا کاری سمجھتے تھے اور موصوف اس کا مطلب یہ بیان فرما رہے ہیں کہ زنا کے ساتھ نکاحِ حلالہ کی تشبیہ صرف حرمت میں ہے، عدمِ انعقاد میں نہیں۔إنا لله وإنا إليه راجعون! گویا حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ کا مطلب یہ تھا کہ نکاح حلالہ والا عمل ہے تو یقیناً زنا لیکن نکاح منعقد ہوگیا۔

لیکن نکاح منعقد ہوگیا، والا مطلب حضرت ابن عمرؓ کے کن الفاظ سے نکلتا ہے؟ ہماری فہم سے تو بالا ہے۔ روایت میں تو ایسے کوئی الفاظ نہیں ہیں۔ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ جب حضرت ابن عمرؓ اس کو زنا کاری فرما رہے ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایسا نکاح حرام ہے، وہ نکاح ہے ہی نہیں۔ اگر ان کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہوتا تو پھر وہ اسے زنا کاری کیوں کہتے؟ اگر اس کا مطلب وہ لیا جائے جو مولانا عثمانی صاحب بیان فرما رہے ہیں کہ یہ تشبیہ صرف حرمت میں ہے، عدمِ انعقاد میں نہیں (اگرچہ یہ مطلب ان کے کسی لفظ سے نہیں نکلتا)تاہم اگر اس مطلب کو صحیح مان لیا جائے تو اس کے صاف معنیٰ یہ ہوں گے کہ حضرت ابن عمرؓ کے نزدیک نعوذ باللّٰہ زنا کاری بھی نکاح کے جواز کا ایک ذریعہ ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے اور زنا سے بھی انعقادِ نکاح صحیح ہے؟ اگر واقعی زنا سے بھی نکاح منعقد ہوجاتا ہے تو پھر باقاعدہ نکاح کرنے کی او راس کے انتظام میں لاکھوں روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر تو کسی عورت کو قابو کرکے اس سے زنا کرلو اور سمجھ لو نکاح ہوگیا او رپھر ساری عمر اس سے زنا کاری کرتے رہو۔ اگر حضرت ابن عمرؓ کے قول کی یہ حنفی توجیہ صحیح ہے تو پھر عملِ زنا بھی نکاح کا ایک ذریعہ ہے؟ سبحان اللّٰہ !کیا یہی وہ فقاہت ہے جس کی نبی کریم نے اپنی اُمت کوتلقین فرمائی ہے؟

حضرت ابن عمرؓ کی حدیث کی اہمیت او راس کی بے بنیاد تاویل

حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ کی یہ حدیث، جو پہلے پوری بیان ہوچکی ہے، نہایت اہم ہے۔ اس میں وہ رسول اللّٰہﷺ کے زمانے کے اپنے سمیت تمام صحابہ کا یہ موقف بیان فرما رہے ہیں کہ ہم نکاحِ حلالہ کو زنا کاری سمجھتے تھے۔ ہمارے نزدیک اس سے نکاحِ حلالہ کا حرام ہونا ثابت ہوتا ہے نہ کہ انعقادِ نکاح کا۔ لیکن اس کے برعکس مولانا تقی عثمانی صاحب مسندِ حدیث پر بیٹھ کر فرما رہے ہیں کہ اس سےعدمِ انعقاد ثابت نہیں ہوتا، گویا بہ الفاظ دیگر جوازِ نکاح ثابت ہوتا ہے۔ ہم ان سےمطالبہ کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ کے کن الفاظ سے اُنہوں نے یہ مطلب اخذ کرکے اپنی حنفی فقہ اُن کے سرمنڈھ دی ہے، اس کی وہ وضاحت فرمائیں۔

اپنی بات کو مؤکد کرنے کے لئے آگے اُنہوں نے فرمایا ہے:

''جس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت ابن عمرؓ نے اس معاملے میں زوجین کو تفریق کا کوئی حکم نہیں دیا۔''

لیکن ہمارا یہاں بھی یہی سوال ہے کہ مذکورہ روایت کے کن الفاظ سے آپ نے یہ تأثر لے کراس سے اپنے موقف کی تائید کشید کی ہے۔ روایت میں تو سرے سے اس قسم کے قطعاً کوئی الفاظ ہی نہیں ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ نے تفریق کا کوئی حکم نہیں دیا۔ اس میں تفریق یا عدم تفریق کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے ، اس سے عدم تفریق کا تأثر لینا کس طرح درست ہوسکتا ہے؟

اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک سائل ایک مفتی صاحب سے پوچھتا ہے: میں نے فلاں طریقے سے ایک عورت سے نکاح کیا ہے، کیا یہ نکاح صحیح ہے؟ مفتی صاحب فرماتے ہیں: یہ تو زنا ہے، رسول اللّٰہﷺ کے زمانے میں اس کو زنا سمجھا جاتا تھا۔

فرمائیے ! کیا اس جواب سے یہ مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے کہ زنا کے ساتھ اس طریق نکاح کی تشبیہ صرف حرمت میں ہے، عدم انعقاد میں نہیں۔ یعنی مفتی صاحب کے قول سے اس کا زنا ہونا تو واضح ہے ،لیکن اس سے نکاح کا انعقاد ثابت ہوجاتا ہے۔ جب کہ مفتی صاحب نے نکاح کے منعقد ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا، اسے صرف زنا قرار دیا۔ کیا زنا قرار دینے کے باوجود اس سے انعقادِ نکاح کا اثبات کیا جاسکتا ہے؟ یا یہ فتویٰ زنا عدم انعقاد نکاح کے بارے میں بالکل واضح ہے، کیونکہ زنا قرار دینے کے بعد مزید کسی بات کی صراحت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ لیکن سائل اعلان کرنا شروع کردے کہ مفتی صاحب نے نکاح کو جائز قرار دے دیا ہے۔ کیا سائل کا ایسا سمجھنا صحیح ہے؟ یقیناً صحیح نہیں ہے۔ آپ حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ والی روایت دوبارہ پڑھ لیں، اس میں صرف یہ ہے کہ نکاحِ حلالہ زنا ہے، اس سے نکاح کا جواز کس طرح ثابت ہوجائے گا؟ آپ افتاء و درسِ حدیث کی نہایت اونچی مسند پر بیٹھ کر زنا کاری کے فتویٰ ابن عمر سے ، جو حرمتِ نکاح میں صریح ہے، جوازِ نکاح کا اثبات فرما رہے ہیں؟...﴿إِنَّ هـٰذا لَشَىءٌ عُجابٌ ﴿٥﴾... سورة ص

7. ساتویں اورآخری دلیل : مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں:

''نکاح بشرط التحلیل ناجائز ہونے کے باوجود منعقد ہوجاتا ہے، اس پر حنفیہ کی دلیل مصنف عبدالرزاق میں حضرت عمر کا ایک فتویٰ ہے:

عَنِ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ: أَرْسَلَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَجُلٍ فَزَوَّجَتْهُ نَفْسَهَا لِيُحِلَّهَا لِزَوْجِهَا، فَأَمَرَهُ عُمَرُ: «أَنْ يُقِيمَ عَلَيْهَا وَلَا يُطَلِّقَهَا، وَأَوْعَدَهُ بِعَاقِبَةٍ إِنْ طَلَّقَهَا»معلوم ہوا کہ اُنہوں نے اس نکاح کو منعقد شمار کیا۔ والله اعلم''2

تبصرہ: اس روایت کا ترجمہ بھی مولانا موصوف نے پیش نہیں کیا۔ پہلے اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔ ''ابن سیرینؒ نے بیان کیا کہ ایک عورت نے ایک مرد سے اس شرط کے ساتھ نکاح کیا کہ وہ اسے پہلے شوہر کے لئے حلال کردے (چنانچہ اس نے اس سے نکاح کرلیا، حضرت عمرؓ کو معلو م ہوا تو) حضرت عمر نے اس مرد کو حکم دیا کہ وہ اس عورت کواپنے پاس ہی رکھے اور اسے طلاق نہ دے بلکہ کہا: اگر اس نے طلاق دی تو مستوجبِ سزا ہوگا۔'' اس سے بقول مولانا عثمانی صاحب معلوم ہوا کہ حضرت عمر کے نزدیک نکاحِ حلالہ سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔

حالانکہ ابن سیرین تابعی، جو حضرت عمر کے دور کا یہ واقعہ بیان کررہے ہیں، حضرت عثمان کی خلافت کے بالکل آخری دور میں پیدا ہوئے، وہ حضرت عمر کے دورِ خلافت میں 5، 6 سال کے بچے ہوں گے۔ وہ حضرت عمر کا یہ فیصلہ بیان کررہے ہیں؟ اس اعتبار سے یہ روایت سخت منقطع ہے۔ اس کے برعکس حضرت عمر کا یہ فیصلہ صحیح سند سے ہم بیان کر آئے ہیں جس میں اُنہوں نے فرمایا کہ جوبھی حلالہ کرنے والا مرد اور وہ عورت جس سے حلالہ کیا گیا ہو، میرے پاس لائے جائیں گے تو میں اُن دونوں کو رجم کی سزا دوں گا۔

اب اہل انصاف، جن کے دل میں ذرا بھی اللّٰہ کا خوف ہے، فیصلہ کرلیں کہ ایک بے سروپا (سخت منقطع) روایت میں بیان کردہ بات صحیح ہے یا صحیح السند روایت میں بیان کردہ فیصلہ؟ اور جرح و تعدیل کی میزان میں حضرت عمرؓ کا کون سا فیصلہ صحیح ہے....

نکاح حلالہ کے زنا کاری ہونے کا یا نکاح حلالہ سے نکاح کے منعقد ہوجانے کا؟

یہ دونوں فیصلے ایک دوسرے کی نقیض او ریکسر متضاد ہیں۔ یہ تو قطعاً نہیں ہوسکتا کہ بیک وقت دونوں کی نسبت حضرت عمرؓ کی طرف صحیح ہو؟ ان میں سے یقیناً ایک ہی فیصلہ صحیح ہے، وہ کون سا ہے، صحیح السند والا یا منقطع السند والا؟......... ؏

صاحب ِ انصاف سے انصاف داد طلب ہے!

یہ سات 'دلیلیں' تھیں جو مولانا تقی عثمانی صاحب نے ایک صریح حرام کو حلال کرنے اور زنا کاری کو نکاح ثابت کرنےکے لئے پیش فرمائی ہیں اوریہ ان کی مطبوعہ کتاب 'درسِ ترمذی' میں موجود ہیں۔ الحمدللہ ہم نے اِن کی حقیقت واضح کردی ہے جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ احناف کا 'نکاحِ حلالہ'اور شیعوں کا 'نکاحِ متعہ'اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک ہی ہیں اور مذہب کے نام پر زنا کاری کے مترادف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی حنفی عالم اپنی بیوی، بیٹی یا بہن کو کبھی حلالہ کے لئے کسی مرد کے حوالے کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا او راسی طرح کوئی شیعہ ذاکر اور مجتہد، چاہے وہ متعہ کے کتنے بھی فضائل بیان کرے، اپنی بیٹی، بیوی یا بہن کو نکاحِ متعہ کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

دیگر حنفی علما کی تاویلات

(1) علامہ انور شاہ کشمیری کی بابت علماے احناف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک تو ان جیسا محدث اس دور میں پیدا نہیں ہوا، دوسرے: علومِ حدیث اور فنِ اسماء الرجال میں اُن کو اتنی مہارت حاصل تھی کہ انہوں نے احادیث میں جمع و تطبیق کا بے مثال کارنامہ سرانجام دیا اورہر ہر حدیث کو اس کا اصل مقام عطا کیا۔ تیسرے، ان کے درسِ حدیث کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ہر حدیث حنفی مذہب کی تائید کرتی نظر آتی تھی۔ خود ا ُن کا یہ مقولہ بڑے فخر سے نقل کیا جاتا ہے کہ ''میں نے حنفی مذہب کو اتنا مضبوط کردیا ہےکہ سو سال تک اس کو کوئی متزلزل نہیں کرسکتا۔''

مولانا کشمیری مرحوم کے ترمذی کے درسی افادات 'العرف الشذی' کے نام سے چھپے ہوئے ہیں۔ اس میں علامہ کشمیری نے بھی حنفیہ کے زیر بحث حلالہ کے جواز میں اسی ابن سیرین کی روایت سے استدلال کیا ہے ،3 حالانکہ یہ سخت منقطع روایت ہے۔

مسئلۂ زیر بحث میں علامہ کشمیری نے بھی حدیث لعن الله المحل... الحدیث میں وارد لعنت کو شرطِ تحلیل کے ساتھ خاص کرکے حلالۂ ملعونہ کوبہ نیتِ تحلیل نہ صرف جائز بلکہ باعثِ اجر ہی قرار دیا ہے۔ دوسرے، صحیح حدیث و آثار صحابہ کے مقابلے میں ایک منقطع اثر سے استدلال کیا ہے۔ ایسے شخص سے کیا یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ نصوصِ قرآن و حدیث کے ساتھ حق و انصاف کا معاملہ کرے گا؟ بالخصوص جب کہ وہ خود بھی امام ابوحنیفہ کی تقلیدِ محض پر فخر کرتا ہو۔ علامہ کشمیری کے صاحبزادے اُن کا مقولہ نقل فرماتے ہیں:

''میں کسی فن میں کسی کا مقلد نہیں ہوں خود اپنی رائے رکھتا ہوں... بجز فقہ کے (اس میں) ابوحنیفہ کی تقلیدِ محض کرتا ہوں۔''4

ان کے اس رویے اور اس مثال سے اوّل الذکر دو دعووں کی بابت آسانی سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ ان میں کچھ حقیقت بھی ہے یا محض غلوِ عقیدت کا مظاہرہ اور بے جا مبالغہ آرائی۔

البتہ تیسرا دعویٰ سو فیصد حقیقت پر مبنی ہے کہ ان کے تدریس حدیث کا انداز اور مقصد حنفی فقہ کا اثبات تھا اور اُس کے لئے یہ ضروری تھا کہ صحیح احادیث کو کسی نہ کسی طرح مجروح ومطعون اور ضعاف و مراسیل اور منقطع روایات کو قابل حجت ثابت کیا جائے۔ چنانچہ یہی کچھ اُنہوں نے بھی کیا، ان سے پہلے مولانا احمد علی سہارنپوری(محشی صحیح بخاری) مولانا محمود الحسن دیوبندی اور مولانا رشید احمد گنگوہی وغیرہ نے بھی یہی کیا او ران کے بعد ہر حنفی مدرسے کا شیخ الحدیث مسندِ درس پربیٹھ کر تدریس حدیث کے نام پر حنفیت ہی کی خدمت ، یعنی نصوصِ قرآن و حدیث کی تاویل اور دور از کار توجیہ کرکے حنفی فقہ کے بے سروپا مسائل کو صحیح باور کرا رہا ہے۔ جیسا کہ مولانا تقی عثمانی صاحب کے درسی افادات (درسِ ترمذی) بھی اسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مُلاحظہ فرمائیے !

(2) مولانا احمد علی سہارنپوری اسی حدیثِ محلل کے بارے میں فرماتے ہیں:

''پہلا لفظ محلِّل (اسم فاعل، حلالہ کرنے والا ) وہ شخص ہے جس کے ساتھ کسی عورت نے تحلیل کی غرض سے شادی کی۔ دوسرا لفظ مفعول (محلَّل له) وہ پہلا شوہر ہے جس کی خاطر تحلیل واقع ہورہی ہے۔پہلا شخص (محلل، حلالہ کرنے والا) اس لئے ملعون ہے کہ اس نے جدائی (طلاق) کے ارادے سےنکاح کیا ،حالانکہ نکاح تو (بیوی کو ) ہمیشہ رکھنے کے لئے مشروع کیا گیا ہے۔ پس اس کی حیثیت کرائے کے سانڈ کی مثل ہوگئی ،جیسا کہ دوسری حدیث میں آیا ہے اور دوسرا اس لئے ملعون ہے کہ وہ اس قسم کے نکاح کا سبب بنا ہے اور مراد (اس لعنت سے) ان دونوں افراد کی کمینگی (خساست) کا اظہار ہے، اس لئے کہ طبعِ سلیم ان دونوں کے فعلوں (بے غیرتی والے کاموں) سے نفرت کرتی ہے۔ لعنت کی حقیقت مراد نہیں ہے۔''

غور فرمائیے! کہ حدیث کے الفاط کی تشریح بھی خوب ہے اور دونوں کے فعل کو کمینگی اور طبعِ سلیم کے خلاف بھی تسلیم کررہے ہیں۔ لیکن پھر حنفیت کا رنگ غالب آجاتا ہے اور کہتے ہیں کہ لعنت کی حقیقت مراد نہیں ہے۔پتہ نہیں، لعنت کی حقیقت علماے احناف کے نزدیک کیا ہے؟ آگے فرماتے ہیں:

"وقيل المكروه اشتراط الزوج بالتحليل في القول لا في النية، بل قد قيل إنه ماجور بالنية لقصد الإصلاح"5

''او رکہا گیا ہے کہ زبان سے شادی کے وقت حلالے کی شرط کرنا مکروہ ہے، لیکن دل میں نیت ہو تو مکروہ نہیں۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیت کرکے حلالہ کرنے والا ماجور ہے، اس لیے کہ اس کا مقصد اصلاح ہے۔''

یہ وہی باتیں ہیں جن کا بے حقیقت اورخلاف منشاے شریعت ہونا ہم واضح کرآئے ہیں لیکن تقلید کی عینک کی وجہ سے ان کو نظر نہیں آرہی ہیں۔ بھلا ایک لعنتی او رحرام کام بھی اچھی سی نیت کرلینےسے حلال بلکہ باعثِ اجرہوسکتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ کوئی بھی لعنت والا کام نہ حلال ہوسکتا ہے اور نہ باعثِ اجر اور نہ اس کی کوئی قانونی و شرعی حیثیت ہے کہ اس سے شرعی مقاصد حاصل ہوسکیں، جیسا کہ اس لعنتی کام سے زوجِ اوّل کے لئے دوبارہ نکاح کا جواز ثابت کیا جارہا ہے۔ زوجِ اوّل کے لئے دوبارہ نکاح کے جواز کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ صرف اور صرف وہ حلالۂ شرعیہ ہے جس کی وضاحت قرآن و حدیث میں ملتی ہے۔ اس کے برعکس حلالۂ مروّجہ(فقہ حنفی والا) یہ زنا کاری ہے۔کرائے کے سانڈ کے پاس بھی وہ عورت جتنے دن رہے گی، دونوں عنداللّٰہ زنا کار رہیں گے، پھر زوجِ اوّل کے ساتھ اس عورت کے دوبارہ تعلق کی صحیح شرعی بنیاد چونکہ نہیں ہے، اس لئے یہ دونوں بھی عمر بھر زنا کار ہی رہیں گے۔أعاذ نا الله منها

(3) فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ایک سوال کے جواب میں حلالے کا شرعی طریقہ بتلایا گیا ہے اور شوہر ثانی سے شرطِ طلاق کو مکروہ تحریمی لکھا گیا ہے۔ لیکن پھر مفتی صاحب کی رگِ حنفیت پھڑکی اور دُرّ مختار (فقہ حنفی کی معتبر کتاب) کے حوالے سے یہ عربی عبارت نقل کردی جس کا مطلب وہی ہے کہ اگر دل میں دونوں کی نیت (عارضی نکاح کرکے چھوڑ دینے کی) ہے تو پھر یہ نکاح مکروہ نہیں ہے ،بلکہ آدمی قصدِ اصلاح کی وجہ سے ماجور ہوگا۔6

(4) مولانا رشیداحمد گنگوہی اس سوال کے جواب میں کہ اگر ایک ماہ بعد طلاق دینے کی شرط پرنکاح ہوا تو یہ نکاح صحیح ہے یا نہیں؟ فرماتے ہیں:

''نکاح بشرطِ طلاق بعد ایک ماہ تو بحکم متعہ کے حرام ہے،اگر زبان سے یہ شرط کی جاوے اور جو دل میں ارادہ ہے، عقد میں ذکر نہیں ہوا تو نکاح صحیح ہے۔''7

ایک اور حنفی مفسر کی باطل تاویلیں اور اُن کی حقیقت

(5) اور زمانۂ حال کے ایک اور دیو بندی مفسر قرآن جن کی مفصل تفسیر'روح القرآن' کے نام سے مدیر جامعۃ البنوریہ العالمیہ( کراچی) کے زیر نگرانی چھپ رہی ہے، یہ صاحب اپنی تفسیر میں زیربحث آیت کی وضاحت میں بعنوان 'حلالۂ شرعیہ کی وضاحت' لکھتے ہیں:

''حلالہ کے معنی ہیں طلاق والی عورت کا (عارضی) نکاح کرنا تاکہ دوسرے شخص سے نکاح کے بعد وہ عورت اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرسکے۔

قرآنِ مجید کی صراحت و وضاحت کے بعد تین طلاق والی مطلقہ عورت کے اپنے سابقہ شوہر سے دوبارہ نکاح کی ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ عدت کے بعد اس عورت کا کسی دوسرے شخص سے نکاح ہو اورگھر بسانے کے بعد دوسرے شوہر کا انتقال ہو جائے یا دوسرا شوہر طلاق دے دے اور عدت کے بعد اگر سابقہ شوہر او ریہ عورت دوبارہ نکاح کرنے پر رضا مند ہوں تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔''

حلالۂ شرعیہ کی وضاحت موصوف نے صحیح کی ہے۔لیکن بریکٹ میں 'عارضی' کا اضافہ یہاں کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟ حلالۂ شرعیہ میں تو نکاح عارضی ہوتا ہی نہیں ہے، اس میں تو نکاح دوسرے شوہر سے بھی مستقل طور پر آباد رہنے ہی کی نیت سے ہوتا ہے۔ اگر یہ نیتِ دوام نہیں ہوگی تو وہ حلالۂ شرعیہ ہی نہیں ہوگا، وہ تو حلالۂ مروّجہ ملعونہ ہی ہوجائے گا۔

لیکن چونکہ تقلید کا حسین طوق اِن کے بھی زیبِ گلو ہے، اس لئے ذہن میں یہی سوچ کارفرما ہے کہ بالآخر حلالۂ مروّجہ کا بھی جواز پیش کرنا ہے، اس لئے موصوف نے حلالۂ شرعیہ کی تعریف میں بھی 'عارضی'کے لفظ کو بریکٹ میں لکھ دیا ہے تاکہ اگلے پیرے میں، جس میں حلالہ غیر شرعیہ کو ثابت کرنا ہے، کچھ سہارا مل جائے کیونکہ اصل مقصد تو اسی کا اثبات ہے، باقی وضاحتیں تو مجبوری ہے۔

بہرحال اگلے پیرے میں اصل مقصود سامنے آجاتا ہے اور فرماتے ہیں:

''اس شرعی اور قانونی ضرورت کو پورا کرنے کی ایک شکل یہ ہےکہ مطلقہ عورت کا دوسرے شخص سے اس شرط پر عارضی نکاح ہو کہ وہ شخص ہم بستری کے بعد اس عورت کو طلاق دے دے گا۔

حلالے کا شرعی اُصولوں کے تحت جائزہ لیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طلاق کی شرط پر نکاح کرنے سے نکاح تو ہوجاتا ہے اگرچہ ایسی شرط لگانا صحیح نہیں ہے۔ پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کے لئے شریعت نےدوسرے نکاح کی جو شرط لازمی قرار دی ہے وہ پوری ہوجاتی ہے، لہٰذا عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضا مندی سے پہلے شوہر سے نکاح میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں رہتی۔''

ہم فاضل مفسر یا مفسرین سے پوچھتے ہیں کہ پہلے حلالۂ شرعیہ کی جو تعریف آپ نے کی ہے، اگر وہ صحیح ہے اور یقیناً وہ صحیح ہے سوائے ایک لفظ عارضی کے۔ اورحلالے کا شرعی اصولوں کے تحت جائزہ لینے سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حلالۂ غیر شرعیہ یا حلالۂ ملعونہ سے بھی نکاح ہوجاتا ہے تو پھر حلالۂ شرعیہ اور حلالۂ غیر شرعیہ میں کوئی فرق تو نہ رہا اور وہ کون سے شرعی اُصول ہیں کہ ان سے حرام بھی حلال ہوجاتا ہے ؟ او رکیا حرام طریقے سےایک دوسرے جائز کام کے شرعی اور قانونی تقاضے پورے ہوجاتے ہیں؟

اگر ایسا ہے تو پھر حلالۂ مروّجہ کو لعنتی فعل کیوں قرار دیا گیا ہے؟ رسول اللّٰہﷺ کے اس لعنت والے فرمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایسا نکاح منعقد ہی نہ ہو۔اگر اس لعنتی طریقے سے بھی نکاح صحیح ہوجاتا ہے تو پھر اس کو لعنت والا کام ہی کیوں قرار دیا گیا ہے؟ اس کا مطلب تو پھر یہ ہوگا کہ رسول اللّٰہﷺ نے (نعوذ باللّٰہ) ایک نہایت آسان طریقے پرخوامخواہ بند باندھ دیاہے گو اُمتی کہلانے والوں نے بہ لطائف الِحیَل اس بند کو فقہی موشگافیوں کے ذریعے سے توڑ دیا ہے۔

اُمّت کے خیر خواہ تو یہ حیلہ ساز فقہا او ران کے پیروکار اصحابِ جبہ و دستار مفتیانِ کرام اور شیوخ الحدیث ہوئے نہ کہ رسول اللّٰہﷺ۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے تو اس بے غیرتی والے کام پر اس کو لعنتی قرار دے کر، بند باندھا۔لیکن کہنے والوں نےکہا: چند راتوں کی بے غیرتی سے بھی شرعی اور قانونی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔آہ! علامہ اقبال نے سچ کہا تھا

اَحکام ترے حق ہیں مگر اپنےمفسّر
تاویل سے قرآن کو بنا سکتے ہیں پازند8

صاحبِ تفسیر مزید فرماتے ہیں:

''رسول اللّٰہ ﷺ نے حلالہ کرنےوالے او رکرانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے جو لعنت فرمائی ہے،وہ طلاق کی شرط کی وجہ سے ہے۔اگربلا شرط کے یہ کام ہو تو لعنت بھی نہیں ہے۔ شرط کے ساتھ ہو تو بھی قانونی ضرورت پوری ہوجاتی ہے ،مگر گناہ کےساتھ اور بغیر شرط کے ہو تو لعنت و گناہ کا کوئی عنصر(Element) پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود حلالے کی تحسین کی گنجائش قطعاً نہیں ہے۔''9

اس عبارت میں صاحب تفسیر کی ژولیدہ خیالی، پریشاں فکری اور حرام کو حلال ثابت کرنے کی سعئ مذموم میں ضمیر کی کشمکش کو آسانی سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ذرا ملاحظہ فرمائیے !

پہلے موصوف نے فرمانِ رسولﷺ کی از خود ایک علّت (وجہ) وضع کی۔

دوسرے نمبر پر فرمایا: وہ علت (شرطِ طلاق) نہ ہو تو لعنت بھی نہیں۔

تیسرے نمبر پر فرمایا: شرط کے ساتھ ہو تو بھی قانونی ضرورت پوری ہوجاتی ہے مگر گناہ کے ساتھ

چوتھے نمبر پر فرمایا: اس کے باوجود حلالے کی تحسین کی قطعاً گنجائش نہیں۔

سوال یہ ہے کہ جب آپ نے پورے شرحِ صدر کے ساتھ حدیثِ رسول کی ایک علّت خود ہی گھڑ کر یہ فیصلہ کردیا کہ بہ نیت تحلیل نکاح میں یہ علت (شرط طلاق) چونکہ نہیں ہوتی اس لئے سرے سے یہ لعنت والا کام ہی نہیں ہے اورمزید رعایت دیتے ہوئے فرما دیا کہ شرط طلاق کےساتھ بھی نکاح ہو تو قانونی ضرورت تو پوری ہو ہی جاتی ہے، گو گناہ کے ساتھ ہی سہی۔

اس طرح حدیثِ رسول کی ساری اہمیت کوختم اور اس کے اصل مقصد و غایت کو غت ربود کرکے حلالۂ ملعونہ کا مکمل طور پر جواز فراہم کردیا۔ اس کے بعد تو سارا مسئلہ ہی ختم اور ساری بحث ہی تمام ہوجاتی ہے۔

لیکن مفسر موصوف اس ساری کدو کاوش اور فکری جانکاہی کے باوجود اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے میں ناکام ہی رہے اور دل و دماغ کو اس کشمکش سے پاک نہ کرسکے کہ جس کام پر اللّٰہ کےرسول نے لعنت فرمائی ہے، اس لعنت کا تقاضا تو اس کام کی حرمت و ممانعت ہے، نہ کہ اس کی حلت ا وراس کا جواز؟ چنانچہ سب کچھ کرنے او رسارے پاپڑ بیلنے کے باوجود ضمیر کی خلش نے ان کے قلم سے بالآخر یہ الفاظ بھی لکھوا دیئے:

''اس کے باوجود حلالے کی تحسین کی گنجائش قطعاً نہیں ہے۔''

محترم ! کیوں نہیں؟ ... جب آپ کی فقہی نکتہ سنجیوں اور تقلیدی موشگافیوں سے وہ کام حرام ہی نہیں رہا، بلکہ حلال ہوگیا او رحلال ہی نہیں ہوگیا بلکہ اجر و ثواب کا باعث ہوگیا، تو اس کی تحسین کیوں نہیں کی جاسکتی؟ کیا اجر و ثواب والے کام کی بابت یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ قابل تحسین نہیں؟ اب دو ہی باتیں ہیں، یا تو حلالۂ ملعونہ کو حلال کرنے کی کوشش قابلِ تحسین نہیں۔ اور اگر یہ کوشش قابلِ تحسین ہے تو پھر یہ فرمان غلط ہے کہ حلالۂ ملعونہ کی تحسین کی قطعاً گنجائش نہیں۔ دونوں باتیں بیک وقت صحیح نہیں ہوسکتیں۔

احکام شرعیہ میں علّت کا مسئلہ

احکام شرعیہ میں علّت کا مسئلہ اپنی جگہ ایک اہمیت کا حامل ضرور ہے، لیکن اس کی اصل حیثیت کیا ہے؟ اس سے اکثر لوگ بے خبر ہیں۔ علاوہ ازیں اس دور میں شریعت کے اصل احکام سے انحراف کرنے والے (منکرینِ حدیث، مغرب زدہ مستغربین اور مشککین) نے اس کو اپنی فکری گمراہی اور استشراقی فکر کے اثبات کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اور شریعت کے جس مسئلے سے جان چھڑانی ہو، وہاں وہ یہی ذریعہ اختیار کرتے ہوئے اپنی طرف سے ایک علت گھڑ کے کہتے ہیں کہ اس کی اصل علت یہ تھی۔ اب چونکہ یہ علت باقی نہیں رہی ،اس لیے یہ حکم بھی باقی نہیں رہا۔ اس طرح عورتوں کے بارےمیں اسلام نے عورت کی عصمت و تقدس کے تحفظ کے لیے جواحکام دیے ہیں (مثلاً پردہ، صرف گھریلو اُمور کی ذمہ داری وغیرہ) وہ ان سب کو ختم کرکے مغرب کی طرح عورت کے لیے ہر طرح کی آزادی کو اسلام کا حکم باور کرانا چاہتے ہیں۔

'روح القرآن'کے فاضل مؤلف یا مؤلفین نے اپنے حلالۂ ملعونہ کے اثبات کے لیے اس علّت کے ہتھیار کو بھی استعمال کیاہے اور مذکورہ ضالّ اور مُضِلّ گروہوں کی طرح اپنی طرف سے ایک علت گھڑ کے اس لعنت والےکام سے لعنت والا عنصر ختم کرکے اس کو ملعون کےبجائے مأجور (باعثِ اجر) قرار دے دیا ہے،جیسا کہ ان کے فقہائے متقدمین و متأخرین کا موقف چلا آرہا ہے۔ اُنہوں نے اس کی کیاعلت بیان کی ہے؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ ان شاء اللّٰہ اس پرگفتگو ہوگی۔ اس سے پہلے آپ علت کے مسئلے کی اصل حیثیت سمجھ لیں۔

احکامِ شرعیہ میں اصل چیز اطاعت ہے۔ جو بھی اللّٰہ رسول کا حکم ہو، اس کی علت کیا ہے؟ اس بحث میں پڑے بغیر، اس کا ماننا، اس پربلا چون و چراعمل کرنا فرض ہے۔ اس لیے کہ مسلمان وحئ الٰہی کا پابند ہے، اس کی عقل میں آئے یا نہ آئے۔ ہر شخص کی عقل الگ الگ ہے، اگر عمل کرنے کے لیے عقل میں آنا ضروری ہوتاتو حکم الٰہی اور احکام شرعیہ بازیچۂ اطفال بن کر رہ جاتے، کوئی کہتا: یہ عمل معقول ہے۔ کوئی کہتا: میری عقل میں یہ بات نہیں آتی۔ کوئی کہتا: یہ حکم اس طرح ہوتا تو زیادہ صحیح ہوتا۔ اس لیے اسلام میں عقل کو یہ مقام نہیں دیاگیا ہے کہ وہ حکمِ الٰہی کو اپنی عقل کے پیمانے سے جانچے پرکھے، بلکہ اپنی عقل کو حکم الٰہی کا پابند بنا کر رکھے۔کیونکہ ہر حکم الٰہی کی حکمت، علت اور غایت تک ہر شخص کی عقل کی رسائی نہیں ہوسکتی۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ کو جب ابوجہل نے جاکربتلایا کہ تیراپیغمبر(ﷺ) تو اب یہ کہہ رہا ہےکہ وہ راتوں رات بیت المقدس سے ہوکر واپس آگیا ہے، کیا تو اب بھی اس کی بات مانے گا؟ ابوجہل کو یقین تھاکہ ابوبکر اس کےماننے میں یقیناً تأمل کرے گا۔ لیکن ابوبکر صدیق نے فرمایا: اگر واقعی میرے پیغمبر نے یہ کہا ہے تو سچ کہا ہے ، کیونکہ میرے پیغمبر پر وحی آتی ہے تو جب میں اپنے پیغمبر کی وحی پرمبنی تمام باتیں تسلیم کرتا ہوں تو پیغمبر کی زبان سے اقرار کردہ واقعۂ اِسرا کا انکار میں کس طرح کرسکتا ہوں؟

یہ ہے ایک مسلمان کا طرزِ عمل، وہ حکم الٰہی اور فرمانِ پیغمبر کے مقابلے میں اپنی عقل کو استعمال نہیں کرتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ احکامِ الٰہیہ عقل کے خلاف ہیں ،اس لیے عقل کے استعمال کی اجازت نہیں ،بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر حکم الٰہی کی حکمت و غایت تک ہرعقل کی رسائی ممکن نہیں، تو جس چیز کی حکمت انسان کی عقل میں نہ آئے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ خلافِ عقل ہے ،بلکہ وہ اس کی عقل و فہم سے ماورا ہے۔ انسانی عقل محدود ہے، ضروری نہیں کہ ہر بات کی حقیقت تک اس کی رسائی ہوجائے۔ اسی لئےکہا جاتا ہے کہ احکام الٰہیہ میں عقل و قیاس کے استعمال کی اجازت نہیں ہے، حضرت علی کا مشہور مقولہ ہے:

لَوْ كَانَ الدِّينُ بِالرَّأْىِ لَكَانَ أَسْفَلُ الْخُفِّ أَوْلَى بِالْمَسْحِ مِنْ أَعْلاَهُ10

''اگر دین میں عقل و رائے کا دخل ہوتا توموزوں پر مسح اوپر والے حصے کے بجائے نچلے حصہ پر کرنے کا حکم ہوتا۔''

دین کے بہت سے احکام ہیں جن کی حکمت و مصلحت آسانی سے سمجھ (عقل) میں آجاتی ہے،لیکن متعدد احکام ایسے بھی ہیں جن کی حکمت صرف اللّٰہ ہی جانتا ہے، انسانی عقل کی رسائی وہاں تک ممکن نہیں۔ لیکن ہر دو کا ماننا مسلمان کے لئے ضروری ہے۔

یہی مسئلہ احکام شرعیہ کی علت کا ہے۔ ہر حکم کی علت بیان نہیں کی گئی ہے، اکثر احکام علت کے بغیر ہی بیان کیے گئے ہیں۔ ان کی علّت سمجھے بغیر اِن پرعمل کرنا ضروری ہے۔ البتہ بعض احکام ایسے ہیں کہ ان کی علت بیان کی گئی ہے یا ان کی علت آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔

جن کی علت بیان ہوئی ہے یا اُن کی علت آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے ، اُن میں بھی ضروری نہیں کہ ارتفاعِ علت سے حکم کا ارتفاع ہوجائے۔ بعض احکام میں ارتفاعِ علت کے باوجود خود شریعت نے حکم باقی رکھا ہے، جیسے حج کے طواف میں 'رمل' کا حکم ہے۔ یہ حکم ایک خاص پس منظر کی وجہ سے دیا گیا تھا، لیکن اس علت کے مرتفع ہوجانے کے باوجود رسول اللّٰہﷺ نے حجۃ الوداع میں رمل کرکے واضح کردیا کہ اس حکم کی علت اگرچہ ختم ہوگئی، لیکن چونکہ اس علت کا ایک تاریخی پس منظر تھا، اس لئے اس پس منظر کی یادگار کے طور پر علت کے خاتمے کے باوجود رمل کے حکم کو باقی رکھا گیا۔

اسی طرح جمعے کے دن کے غسل کی وجہ (علّت) بعض احادیث میں یہ بیان کی گئی ہے کہ عدمِ وسائل او رپانی کی کم یابی کی وجہ سے پرانے کپڑوں ہی میں اور نہائے بغیر جمعہ پڑھنے کے لئے آجاتے تھے جس سے دوسرے لوگوں کو (بالخصوص موسم گرما میں) تکلیف ہوتی تھی جس کی وجہ سے غسل کرنے اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر، خوشبو اور تیل لگا کر آنے کا حکم دیا گیا۔ اب یہ علت تو نہیں رہی، لیکن غسل کی فرضیت (یا استحباب بہ اختلاف قولَین) باقی ہے۔

رسول اللّٰہﷺ کے زمانے میں عورتیں ایک ہی ہال (مسجدِ نبوی) میں رسول اللّٰہ ﷺکے ساتھ فرض نمازیں پڑھا کرتی تھیں، مردوں کی صفیں آگے اور عورتوں کی صفیں پیچھے ہوتی تھیں، اس لئے رسول اللّٰہ ﷺ نے صحابہ کو سلام پھرتے ہی مسجد سے باہر نکلنے سے روک دیا تاکہ پہلے عورتیں نکل جائیں اور ان کا مردوں سے اختلا ط نہ ہو۔اب یہ علت واضح ہے ،اس لئے اب یہ حکم نہیں دیا جاسکتا کہ مرد حضرات سلام پھرتے ہی مسجد سے باہر نہ نکلیں۔ یہ ارتفاعِ علت سے ارتفاعِ حکم کی ایک واضح مثال ہے۔

مقصود ان مثالوں سے اس امر کو واضح کرنا ہے کہ اس بارے میں ایک تو کوئی قاعدۂ کلیہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ دوسرے، جس حکم کی نفی ارتفاعِ علت کی وجہ سے کی جائے، وہ علت واضح اور صریح ہو، اس میں کوئی اشتباہ نہ ہو۔بنا بریں جس مسئلے میں ارتفاع علت کا حکم لگا کر ارتفاع حکم کا اثبات کیا جائے ، اس کے لئے دو چیزیں ضروری ہوں گی۔

ایک یہ کہ جو علت بیان کی جارہی ہے ، وہ شرعی دلائل سے ثابت اور واضح ہو کہ واقعی اس حکم کی یہی علت تھی جس کی بنا پر حکم دیا گیا تھا، جیسے پچھلی صفوں میں عورتوں کے نماز پڑھنے کی وجہ سے مردوں کو حکم دیا گیا تھا۔

دوسری یہ کہ ا س حکم کی اس کے سوا کوئی اور علت نہیں ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ اس حکم میں کئی علتیں مضمر ہوں ، ایسی صورت میں کسی ایک علت کے ارتفاع سے وہ حکم ختم نہیں ہوگا بلکہ باقی رہے گا۔

حکمِ لعنت میں بیان کردہ علّت کی حقیقت

اس بنیادی وضاحت کی روشنی میں ہم حنفی مفسر کی بیان کردہ علت کا جائزہ لیتے ہیں تو صاف واضح ہوجاتا ہے کہ ان کی بیان کردہ علت کے لئے ان کے پاس کوئی واضح شرعی دلیل اور قرینہ نہیں ہے، بلکہ منحرفین کی طرح ایک خود ساختہ علت ہے جس کی بنا پر وہ رسول اللّٰہﷺ کے ایک فرمان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔

وہ حدیث «لعن الله المحل» میں لعنت کی علت طلاق کی شرط كو قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ حدیث کے الفاظ یا دیگر شرعی قرائن سےان کی بات کی قطعاً تائیدنہیں ہوتی' بلکہ اوّل تو دیگر احکامِ شرعیہ کی طرح یہ حکم بھی بغیر کسی علت کے بیان ہوا ہے، اس لئے ہم اپنی طرف سے اس کی علت گھڑ کر اس حکم کو کالعدم نہیں کرسکتے، یہ حکم شریعت کے مقابلے میں ایک نہایت شوخ چشمانہ جسارت ہے۔ ثانیاً اس حکم لعنت پر غور کیا جائے ،جیسا کہ مفسرِ مذکور نے غور کیا ،لیکن اُنہوں نےچونکہ تقلیدی عینک چڑھائی ہوئی ہے تو اس میں وہی رنگ نظر آیا جو ان کی عینک پرلگے ہوئے تقلیدی شیشے کا رنگ تھا، لیکن نظر حقیقت اور صاف شفاف عینک سے دیکھا جائے تو اس میں کارفرما علت اگر کوئی ہوسکتی ہے تو وہ ایک نہیں، چار علتیں ہیں: غیرت کا تحفظ، دوسری علت: انصاف کی عَلم برداری، تیسری علت : نسب اور خاندانی نظام کا تحفظ، چوتھی علت : اسلامی معاشرے سے کرائے کےسانڈوں ( زنا کاروں)کا خاتمہ۔

اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

1. چند راتوں کے لئے طلاق کی شرط کرکے ایک خوبرونوجوان لڑکی کو کسی کےسپرد کردینا، غیرت کے خلاف ہے، کوئی غیرت مند مرد اس کو برداشت کرسکتا ہے نہ کوئی غیرت مند عورت، بالخصوص جب کہ وہ جوان بھی ہو او رحسن و جمال میں بھی یکتا۔ اس حکم لعنت میں کارفرما علت اس بے غیرتی کا سدّ باب ہے۔ جو دین حیا و عفت کی اعلیٰ تعلیمات کا حامل ہو، وہ حلالۂ ملعونہ جیسی بے غیرتی کو کب برداشت کرسکتا ہے؟

2. تیسری طلاق دینے کا مجرم مرد ہے نہ کہ عورت۔ عدل و انصاف کا تقاضا ہےکہ جرم کی سزا مجرم (مرد) کو ملے نہ کہ عورت کو، جو یکسر بے قصور ہے۔ لیکن حلالۂ ملعونہ میں سزا عورت کو بھگتنی پڑتی ہے اور اس کو چند راتیں چار و ناچار کسی بوالہوس کے پاس گزارنی پڑتی ہیں اور اگر اس کی نیت خراب ہوجائے اور وہ طلاق دینے سےانکار کردے ، تو وہ عورت تو پھرعمر بھر اس روگ اور غم میں مبتلا رہے گی کہ اس کی راتیں اس کے پسندیدہ شوہر کے بجائے اس سانڈ کے پہلو میں گزر رہی ہیں جسے وہ پسند نہیں کرتی اور اس کی تو خدمات عارضی طور پر ایک کرائے دار کی حیثیت سے حاصل کی گئی تھیں، لیکن وہ میرا مالک بن بیٹھا۔ ذرا تصور کیجئے! ایک غیرت مند عورت کے لئے یہ تصور کس طرح روح فرسااور اعصاب شکن رہے گا۔ کیا اسلام اس بے انصافی کا علم بردار ہوسکتا ہے؟

علاوہ ازیں اسلام کا حکم ہے کہ عورت کی شادی کرتے وقت اس کی رضا مندی بھی حاصل کرو، اور جو شخص اس کو ناپسند ہو، وہاں بالجبر اس کا عقد مت کرو۔ حلالۂ ملعونہ میں جو نکاح کا ناٹک رچایاجاتا ہے، کیاوہاں اسلام کی اس تعلیم کا کوئی معمولی سا بھی اہتمام کیاجاتاہے؟ وہاں تو صرف اپنی خود ساختہ شرط منوا کر آنکھیں بند کرکے ایک عورت کو ایک مرد کےحوالے کردیا جاتا ہے، چاہے وہ اس کو پسند ہو یا نہ ہو۔

3. تیسری علت، نسب اورخاندانی نظام کا تحفظ ہے۔ حلالۂ ملعونہ اس کے یکسر خلاف ہے۔ اگر چند راتوں کی ہم بستری سے عورت کو حمل قرار پاجائے تو فی الحال اس بحث کو چھوڑ دیجئے کہ یہ اولاد صحیح النسب ہوگی یا ولد الزنا؟ (حالانکہ حدیث اور آثارِ صحابہ کی روشنی میں یہ ولد الزنا ہے) تاہم زوجِ اوّل کے لئے، جس کےساتھ دوبارہ نکاح کرنے کے لئے یہ حلالۂ ملعونہ ایجاد کیا گیا ہے ، یہ اولاد ناقابل برداشت ہوگی، بالخصوص جب کہ اس کی پہلے بھی اولاد ہو۔ اس کی وجہ سےخاندانی نظم میں جو دراڑیں پڑیں گی ، وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ کیا اسلام، جو صحیح النسبی اور خاندانی نظام کے تحفظ کا سب سےبڑا علم بردار ہے، اس مذاق کو برداشت کرسکتا ہے؟

4. چوتھی علت، کرائے کے سانڈوں کاخاتمہ ہے۔ اسلام نےاسلامی معاشرے کو زنا کاری سے بچانے کےلئے دور دور تک بند باندھ دیئے ہیں۔ علاوہ ازیں اس کی نہایت کڑی سزائیں مقرر کی ہیں تاکہ کوئی اس کا ارتکاب کرنےکی جسارت نہ کرے۔ لیکن حلالۂ ملعونہ کے ذریعے سے تقدس مآبی کے نام پر زنا کاری کا ایک آسان راستہ کھول دیا گیا ہے۔ بھلا اسلام اس کو کس طرح پسند کرسکتا ہے؟

محترم ! حلالۂ ملعونہ کی علت 'شرطِ طلاق' ہرگز نہیں ہے، بلکہ مذکورہ چارعلتیں ہیں، ان میں سے ہرایک علت اتنی اہم ہے کہ اس کی حرمت و ممانعت کےلئےوہی کافی ہے چہ جائیکہ چار علتیں حرمت کی جمع ہوجائیں، پھر بھی حلالۂ ملعونہ جائز رہے؟ ﴿إِنَّ هـٰذا لَشَىءٌ عُجابٌ ﴿٥﴾... سورة ص

اللّٰہ تعالیٰ ان فقیہانِ حرم کو یہ توفیق دے کہ وہ تقلیدی جمود میں قرآن و حدیث کی اصل تعلیمات کو مسخ نہ کریں اور دین کو اس طرح کھیل کود نہ بنائیں جس طرح یہود کےعلما نے بنا لیا تھا جس کی بابت اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لا تَتَّخِذُوا الَّذينَ اتَّخَذوا دينَكُم هُزُوًا وَلَعِبًا...٥٧﴾... سورة المائدة

حلالے کی بابت صاحب'المنار' کی وضاحت

مضمون کی تکمیل کے بعد تفسیر 'المنار ' دیکھنے کااتفاق ہوا، یہ تفسیر الازہر (مصر) کے شیخ محمد عبدہ (مشہور مصری مُصلح) کے تفسیری افادات ہیں جو ان کے تلمیذِ رشید علامہ رشید رِضا مصری، مدیر'المنار'نےمرتب کیے ہیں اور تفسیر'المنار'کےنام سے شائع ہوئے ہیں۔

اس تفسیر میں شیخ محمد عبدہ آیت ﴿فَلا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعدُ حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَ‌هُ﴾ کے تحت لکھتے ہیں۔ ہم اختصار کےپیش نظر اس کا اُردو ترجمہ پیش کررہے ہیں:

''ہرمسلمان کو جاننا چاہیے کہ یہ آیت اس امر میں بالکل واضح ہے کہ وہ نکاح جس کے ذریعے سے مطلقۂ ثلاثہ (زوجِ اوّ ل کے لئے) حلال ہوتی ہے، وہ صحیح (باقاعدہ) نکاح ہے جو رغبت سےکیا جائے (نہ کہ شرط کرکے بہ جبر) اور جس سےنکاح کا وہ مقصود حاصل ہوجائے جو نکاح سے مطلوب ہوتا ہے۔ پس جس نے مطلقہ ٔ ثلاثہ عورت سے اس نیت سے نکاح کیا کہ وہ عورت زوجِ اوّل کے لئے حلال ہوجائے تو یہ نکاح صورتاً تو نکاح ہے لیکن غیر صحیح نکاح ہے اور اس سے وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی ،بلکہ یہ ایسی معصیت ہے جس کے مرتکب پر شارع نے لعنت فرمائی ہے اور شارع کسی ایسے فعل پر لعنت نہیں کرتا جو جائز (مشروع) ہو۔ بلکہ ایسے فعل پر بھی لعنت نہیں کرتے جو صرف مکروہ ہی ہو (حرام نہ ہو) جمہور علما کے نزدیک مشہور یہی ہے کہ لعنت انہی گناہوں پر آئی ہے جو کبیرہ ہوں۔ اگر اس کا دوبارہ اعادہ کیا جائے تو وہ حرام ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص خون کو پیشاب سے پاک کرے حالانکہ وہ پلیدی پر پلیدی ہے (وہ پاک کس طرح ہوگا؟)

اما م مالک، امام احمد، امام ثوری﷭، اہل ظاہر اور ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد اہل حدیث واہل فقہ میں سے اسی موقف کی قائل ہے۔''

علامہ رشید رضا مصری مرتب ِافادات مزید لکھتے ہیں:

''الاستاذ الامام (شیخ عبدہ) نے فرمایا: حلالے والانکاح، نکاحِ متعہ سے بھی بدتر ہے اور فساد و عار کے اعتبار سےبھی بہت شدید ہے او رکچھ دوسرے فقہا جو کہتے ہیں کہ یہ کراہت کے ساتھ جائز ہے جب تک اس میں شرط نہ ہو، اس لئے کہ فیصلہ ظاہر پرہوتا ہے، اس میں کار فرما مقاصد اور پوشیدہ باتوں کو نہیں دیکھا جاتا۔ تو ہم کہتے ہیں: ٹھیک ہے، لیکن دین قیم (اسلام) تو یہ ہے کہ ظاہر باطن کا آئینہ دار ہو، ورنہ وہ نفاق ہوگا۔علاوہ ازیں حلالے کی نیت سے نکاح کرنے والا وہ نکاحِ حقیقی نہیں کرتا جو اللّٰہ نے مشروع کیا (حکم دیا) ہے اور اسے بیان کیا ہے۔ یہ ایسا معاملہ نہیں ہے جسے خود انسان جس طرح چاہے کرلے اور نہ اس شخص کی مرضی پر ہے جوبغرضِ حلالہ یہ کام کرواتا ہے اور اس پر اس کےساتھ تعاون کرتا ہے۔ اگر قاضی لا علمی کی وجہ سے ظاہر کو دیکھتے ہوئے ایسے نکاح کےنفاذ کا فیصلہ دیتا ہے، وہ تو معذور گردانا جاسکتا ہے، لیکن اس کا علم رکھنے والا اوراس کا ارتکاب کرنے والا معذور قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حافظ ابن قیم نےاس حلالے پر 'اعلام الموقعین' میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔''11

اس کے بعد امام عبدہ نے لعنت والی حدیث اور کرائے کے سانڈ والی حدیث ذکر کرکے وہ آثارِ صحابہ نقل کیے ہیں جن میں اس فعلِ حرام کو زنا اور قابلِ رجم قرار دیاگیا ہےجن کو ہم نے بھی پہلی قسط میں بیان کیا ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں:

''حلالہ کی اس رذالت (کمینگی و خساست) کے باوجود یہ فعل اُن اَشرار میں عام ہے جنہوں نے طلاق کی اجازت کو ایک عادت اور مذاق بنا لیا ہے، بالخصوص اس فتویٰ اورحکم کی وجہ سے کہ ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دینے سے تینوں ہی واقع ہوجاتی ہیں، مسلمانوں کی اکثریت نے اپنے دین کو مذا ق اور تماشا بنا لیا ہے جس کی وجہ سے خود اسلام بدنام ہورہا ہے،حالانکہ اسلام میں ایسی کوئی بات نہیں ہے سوائے ان لوگوں کے جواسلام کے نام پر اس کو عیب ناک کررہے ہیں۔

میں نےلبنان میں ایک عیسائی کو دیکھا جو اسلامی کتابوں وغیرہ کی خریداری اوران کے مطالعے کا بڑا شوقین تھا، بالآخر اس کو ہدایت نصیب ہوگئی اور وہ مسلمان ہوگیا تاہم تصوف کی طرف اس کارجحان رہا۔ مجھے اس نےکہا:اسلام میں مجھے تین عیبوں کے سوا اور کوئی عیب نظر نہیں آیا، اوریہ ممکن نہیں کہ یہ عیب اللّٰہ کی طرف سے ہوں (یعنی لوگوں نے اُن کو اسلام کے نام پر گھڑ لیا ہے، اللّٰہ کے نازل کردہ دین اسلام میں یہ نہیں ہوسکتے۔)

ان میں سب سےبدتر عیب حلالہ ہے۔ لیکن جب میں نے اس حلالے کی حقیقت اس پرواضح کی کہ یہ اسلام میں نہیں ہے ،بلکہ لوگوں کا اپنا ایجاد شدہ طریقہ ہے تو وہ مطمئن ہوگیا۔''12
حوالہ جات

1.درسِ ترمذی:3؍401

2.در سِ ترمذی: 3؍398 تا401 از مولانا تقی عثمانی ، کراچی

3.العرف الشذی: ص263، مکتبہ رحیمیہ ، دیوبند

4.رسالہ سہ ماہی' حسن تدبیر 'دہلی... امام العصر نمبر، فروری 2010ء ،ص450

5.الحواشی المفیدۃ علی الجامع الترمذی:ص 341، طبع مکتبہ رحمانیہ ،اُردو بازار، لاہور

6.فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، عزیز الفتاوی، ج1؍ص512، دارالاشاعت کراچی، 1976ء

7.تالیفاتِ رشیدیہ مع فتاویٰ، ص383، اداراہ اسلامیات لاہور ، 1992ء

8.بالِ جبریل :ص 20

9.تفسیر روح القرآن:1؍589،590، زیر نگرانی شیخ الحدیث مفتی محمد نعیم، مدیر جامعۃ البنوریہ العالمیہ، کراچی

10.سنن ابو داود:۱۲۶

11.اعلام الموقعین از امام ابن قیم:4؍46، طبع الکلیات الازہریہ، قاہرہ

12.تفسیر المنار:2؍294،295، طبع دار المعرفۃ، مصر، 1934ء