عراق میں 'دولتِ خلافتِ اسلامیہ' کا اعلان!
'داعش' کا تعارف، اِمکانات،خوبیاں اور خامیاں اور قابل توجہ اُمور
عالم عرب بالخصوص مشرقِ وسطی میں صورتحال ہر روز بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ہر دو چار ہفتے کے بعد ایک نیا مسئلہ اور سانحہ پیش آتا ہے۔ سال 2014ء کے سات ماہ میں شام میں جاری بدترين قتل وغارت گری کے بعد، مصر میں اخوان المسلمون پر فوجی حکومت کے سرکاری مظالم میں شدید اضافہ ہوچکا ہے۔ مارچ میں سعودی حکومت نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا اورسعودی عرب و امارات نے قطر سے اپنے سفیر واپس بلا لیے، مئی جون میں 'دولتِ اسلامیہ عراق وشام'(داعش یا ISIS) کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوا، اور اُنہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے شام وعراق کے اہم شہر وں اور بڑے علاقے پر قبضہ مستحکم کرلیا۔ یکم رمضان کو داعش نے خلافتِ اسلامیہ کا اعلان کردیا۔ ابھی یہ صورتحال پوری طرح واضح نہ ہوئی تھی کہ وسطِ رمضان میں اسرائیل نے تیسری بار غزہ میں بدترین جارحیت وبربریت کا سلسلہ شروع کردیا۔ یوں تو تبدیلی اور جبروتشددکی یہ لہر صرف مشرقِ وسطی تک محدود نہیں بلکہ اُمتِ محمدیہ پر اس قتل وغارت گری کا سلسلہ برما، پاکستان، افغانستان، قفقاز، صومالیہ، لبنان، لیبیا اور چین تک پھیلا ہوا ہے، لیکن دنیائے عرب میں جاری حالیہ تغیرات فکر انگیز ، گہرے اور دور رَس ہیں۔ ان کا مطالعہ ایک مسلمان کے لیے چشم کشا اور بہت سی حقیقتوں کو آشکارا کرنے کا باعث ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان،عراق، شام، مصر اور فلسطین میں انہی دو تین ماہ میں قومی انتخابات کے ڈھونگ بھی رچائے گئے ہیں، جن میں اکثر وبیشتر پچھلی حکومتیں ہی نئے دعوؤں اور عزائم کے ساتھ سامنے آئی ہیں۔ ذیل میں ان میں سے اہم ترین واقعے، عراق وشام کے تناظر میں داعش کی صورت حال پر تفصیلات پیش کرکے، آخر میں اپنا تبصرہ وتجزیہ پیش کیا جائے گا۔
مستقبل کے دور رس اثرات کے لحاظ سے 'دولتِ اسلامیہ عراق وشام' کی پیش قدمی اور باقاعدہ خلافت اسلامیہ کا اعلان ایک غیرمعمولی واقعہ ہے۔ الدولة الاسلامیة في العراق والشام جس كا مخفف عربی میں داعش اور انگریزی میں ISIS ہے، عراق میں سنّی جہادیوں کی ایک 8،10 سال قدیم جماعت ہے جو صدام حکومت کے خاتمے کے بعد وجود میں آئی۔ اس کے پہلے رہنما ابو عمر بغدادی تھے، جو 19؍ اپریل 2010ء کو امریکی فوجوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے، اس کے موجودہ قائد ابوبکر ابراہیم بن عواد بدری حسینی قریشی بغدادی ہیں جو علم وفضل سے بڑھ کر ایک مردِ ميدان ہیں۔ اس تنظیم نے شام کے ضلع جات : حلب،رِقہ، ریف اور حمص وحماۃ و دمشق کے بعض حصوں کے علاوہ عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل، سنّی اکثریت کے چھ ضلع جات: شمال مغربی ضلع صلاح الدین (مرکز تکریت)، ضلع نینوا (مرکز موصل) ،مغربی عراق کے ضلع انبار(مرکز رمادی)اورشہروں فلوجہ ، عانہ، بیجی، قائم، رطبہ، تل عفر،دیالی وغیرہ پر اپنا قبضہ مستحکم کرلیا ہے۔ عراق کے سب سے بڑے موصل ڈیم اور آئل ریفارئنریز، حمص کے نیچرل گیس سنٹر کے علاوہ بغداد کے نواحی قصبہ جات تک اس کی قوت پھیل چکی ہے۔
داعش ماضی میں القاعدہ سے ہی علیحدہ ہونے والی تنظیم ہے۔ شام میں کامیاب عسکری جدوجہد کرنے والی جبهة النُّصرةنے بہت سے شہروں پر قبضہ کرلیا تو دونوں میں جنگیں ہوئیں ،اور آخر کار اتفاق کی صورت میں دونوں کا نام الدولة الاسلامیة في العراق سے والشام تک وسیع كرديا گيا۔ داعش کی حالیہ پیش قدمی جون کے آغاز میں سامنے آئی ہے، جسے اپنی قوت کے لحاظ سے مغربی میڈیا القاعدہ سے زیادہ مؤثر قرار دے رہا ہے۔ اس تنظیم کو درج ذیل عناصر پر مشتمل قرار دیا جاسکتا ہے :
1. بنیادی طور پر یہ عراق میں امریکی تسلط کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم ہے جو عراق میں امریکی جارحیت کا شکار ہونے والی صدام حکومت کے خاتمے کے بعد وجود میں آئی۔سلفی پس منظر سے وجود میں آنے والی القاعدہ سے ماضی میں منسلک ہونے کے ناطے عالمی جہادی نیٹ ورک اور شام میں جاری مزاحمت سے اس کا قریبی تعلق ہے، اس وقت القاعدہ سے بھی منحرف ہوکر'داعش' اکیلے پرواز کررہی ہے۔اس تنظیم کی قیادت اور مرکزی کنٹرول بنیادی طور پر یہی عنصر کررہا ہے۔چونکہ امریکہ نے عراق میں صدام حسین کی سنی سیکولر حکومت کا خاتمہ کرکے، وہاں اقتدار اپنے کٹھ پتلی حکمران وزیر اعظم نوری المالکی کے حوالے کردیا تھا جس نے اپنے دورِحکومت میں شیعہ نوازی اور بدترین تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئےسنی عناصر کو کچلنا شروع کردیا اور شیعہ برادری کو اپنی حمایت کے لیے اپنے پیچھے اکٹھا کرلیا ،اس لیے داعش کی جدوجہد میں سنّی رجحان غالب ہوگیا۔اس بنا پر داعش کو امریکہ اور اس کے حواریوں کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف جدوجہد کرنے والی سنی جہادی تنظیم قرار دیا جاسکتا ہے۔(تاہم اس تعارف میں بہت سی تفصیلات اور تحفظات آگے صفحہ نمبر 23پر ملاحظہ کیے جائیں)
2. اس کا دوسرا اہم حصّہ صدام حسین کی حکومت کی تجربہ کار فوجی قیادت اور انتظامی صلاحیت رکھنے والے افسران پر مشتمل ہے جو ظاہر ہے کہ امریکہ اور اس کی کٹھ پتلی نوری المالکی کی حکومت کے خاتمے کے لیے سرگرم ہے۔سابقہ عراقی حکومت کی یہ اسٹیبلشمنٹ ظاہرہے کہ بعث پارٹی کے عرب قوم پرستانہ خیالات سے متاثر ہے۔داعش نے بعض شہروں پر اپنا قبضہ راتوں رات قائم کیا ہے، اور ابھی تک اس کے اختیار میں آنے والا کوئی بھی شہردیگر فورسز واپس نہیں لے سکیں۔ فوجی حکمتِ عملی اور شہری انتظام کی یہ صلاحیت داعش کے اسی عنصر کے تجربے کی مرہونِ منت ہے۔
3. برطانیہ، فرانس، جرمنی سے آنے والے غیو ر نوجوان اورکوہ قاف، افغانستان اور یمن سے آنے والے مجاہدین بھی اس کی قوت ہیں۔ یہ تنظیم عالمی قوتوں کے خلاف ٹھوس مزاحمت کی خواہش رکھنے والوں میں کافی مقبول ہے۔ مغربی ممالک سے آنے والے یورپی نژاد مسلمانوں کی بنا پر برطانیہ ، فرانس حکومتوں میں بڑی بے چینی پائی جاتی ہے اور یورپی حکومتیں اپنے اپنے زیر اثر مسلم قائدین سے اس کے خلاف بیان بازی کراچکی ہیں۔
4. عراق میں قائم امریکی کٹھ پتلی مالکی حکومت کئی برسوں سے امن وامان اور شہری سہولیات بحال نہ کرسکی ہے، بدامنی اور ظلم وزیادتی کا عراق میں دور دورہ ہے۔ اس بنا پر عراق کے مظلوم اور مفلوک الحال شہری بھی اس تنظیم کی قوت ہیں اور یہ ان پر ہونیوالی زیادتیوں کا رد ّعمل ہے،بالخصوص مقامی قبائل اور جنگجووں کی حمایت اسے حاصل ہے۔عراقی صوبے 'الانبار' کے طاقتور قبیلے'الدلیام' کے سربراہ شیخ علی حاتم سلیمان کے داعش کے ساتھ عملی جدوجہد کے بیانات اور ویڈیوز عالمی میڈیا پر آچکے ہیں۔برطانوی اخبار 'ڈیلی ٹیلی گراف' کو انٹرویو دیتے ہوئے 'اسلامک آرمی آف عراق' کے رہنما شیخ احمد الدباش کا کہنا تھا کہ
''عراق کے تمام سنّی گروپ اب وزیرِاعظم نوری المالکی کے خلاف اکٹھے ہوگئے ہیں۔ 'اس میں عراقی فوج کا کچھ حصہ بھی شامل ہے، صدام حسین کے دور کے بعث پارٹی کے ارکان بھی اور کئی جہادی بھی۔ الغرض ہر وہ شخص باہر آ گیا ہے جس کو (نوری المالکی نے) دبایا ہوا تھا۔ داعش کی جدوجہد دراصل شمال مغربی عراق کی غریب آبادیوں کی محرومیوں اور عراقی حکومت کی بدعنوانی اور بُری پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔''1
ماضی میں یہ تنظیم امریکی وبرطانوی اَفواج کے خلاف سرگرم رہی ہے، اسی طرح عراق کی مسلح افواج، عراقی پولیس، شامی مسلّح افواج، مختلف شیعہ ملیشیا، ایرانی پاسدارانِ انقلاب، لبنان کی شیعہ تنظیم 'حزب اللّٰہ' سے اس کی کافی جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔داعش نے 2013ءمیں بیروت میں ایرانی سفارتخانے کو بم دھماکے سے تباہ کردیا تھا۔(اس کی بعض پیچیدہ کاروائیوں کی تفصیل آگے صفحہ نمبر 24پر ملاحظہ کریں)
داعش نے یکم رمضان المبارک 1435ھ بمطابق 29؍ جون2014ء کو خلافتِ اسلامیہ کا اعلان کرتے ہوئے، اپنا نام 'دولتِ اسلامیہ' یا ' دولتِ خلافت اسلامیہ' تک محدود کرلیا ہے، اور اس سے عراق وشام کے لفظ کو خارج کرکے، دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کو پہنچنے کادعویٰ کیا ہے۔شام کے ضلح حلب سے عراقی ضلع دیالی تک اس کی حدود پھیلی ہوئی ہیں۔ عراق وشام کا ایک تہائی علاقہ اس کے کنٹرول میں ہے۔ 6 جولائی کو 'دولتِ خلافتِ اسلامیہ'نے اپنا پاسپورٹ اور کرنسی وغیرہ شائع کرکے، اپنے زیر قبضہ علاقوں میں اس کا اجرا کردیا ۔6 رمضان المبارک 1435ھ کو موصل میں امیر نور الدین زنگی کے والد کی قائم کردہ مشہور مسجد جامع نوری الکبیر میں خطبہ جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے دولتِ اسلامی کے نامزد خلیفہ ابوبکر ابراہیم بن عواد قریشی بغدادی نے کہا :
''لوگو! اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کا دین اللّٰہ کی شریعت کو نافذ کرنے، اور اس کے مطابق فیصلے کرنے اور حدود کو قائم کئے بغیر قائم نہیں ہو سکتا اوروہ مقصد پورا نہیں ہوسکتاجس کے لئے اُس نے ہمیں پیدا کیا۔اور یہ سب کچھ کرنے کے لیے طاقت اورحکومت ضروری ہیں۔ پس دین کو قائم کرنے والا اُصول ہے کہ''کتاب(قرآنِ کریم) رہنمائی کرتی اورتلوار مددفراہم کرتی ہے۔''
تمہارے مجاہدین بھائیوں پر اللّٰہ تعالیٰ نے احسان فرما تے ہوئے اُنہیں فتح ونصرت سے نوازا اور اُنہیں اقتدار عطا کیاہے۔بعداس کے کہ اُنہوں نے کئی برس صبر و جہاد کیا اور اللّٰہ کے دشمنوں کے ساتھ جنگیں کرتے رہے۔
بے شک مجھے اس عظیم معاملہ میں ایک بہت ہی بڑی آزمائش میں مبتلا کردیا گیا ہے، ایک بہت بھاری امانت میرے سپرد کی گئی ہے کہ مجھے تم پر امیر مقرر کیا گیا ہے۔میں تم سے بہتر اور تم سے افضل نہیں ہوں۔ پس اگر تم مجھے حق پر دیکھو تو میری مددکرو۔ اور اگر تم مجھے باطل پر دیکھو تو مجھے نصیحت کرو اور مجھے سیدھا کرو۔میری اطاعت کرو جب تک میں تمہارے معاملے میں اللّٰہ کی اطاعت کرتاہوں۔ پس اگر میں اللّٰہ کی نافرمانی کروں تو تم پر میری کوئی اطاعت نہیں۔''
پھر 'ملتِ اسلامیہ کے نام رمضان کا پیغام' نامی تقریر میں ابوبکر بغدادی کہتے ہیں:
''اے اُمتِ اسلام! یقیناً آج دنیا دو کیمپوں اور دو خندقوں میں بٹ گئی ہے، اب تیسرا کوئی کیمپ موجود نہیں۔ ایک کیمپ اسلام اور ایمان کا ہے اور دوسرا کفر اور منافقت کا کیمپ ۔ایک دنیا بھر کے مسلمانوں اور مجاہدوں کا کیمپ ہے اور دوسرا کیمپ یہودیوں، صلیبیوں، ان کے اتحادیوں اور باقی کافر قوموں ، ملتوں کا کیمپ ہے، جن کی قیادت امریکہ اور روس کررہے ہیں جبکہ یہود اُن کو چلارہے ہیں۔یقیناً خلافت کے سقوط اور مسلمانوں کے غلبہ کے ختم ہوجانے کے بعد مسلمان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے تھے تو تب یہ کافر اس قابل ہوئے کہ مسلمانوں کو ذلیل کرکے کمزور کریں، ہر جگہ پر ان پر حاوی ہوجائیں، اُن کی دولت و وسائل کو لوٹیں اور ان کے حقوق پر ڈاکا ڈال سکیں۔ یہ سب کچھ کافروں نے مسلمانوں کےعلاقوں پر حملہ کرکے، ان کے ملکوں پر قبضہ کرکے وہاں دنیا پرست حکمرانوں کو مقرر کرکے کیا جو مسلمانوں پر آگ اور لوہے کے ساتھ حکمرانی کرتے، اور جو چمکتے ہوئے پرفریب نعروں کو بلند کرتے ہیں جیسے: تہذیب، امن، بقائے باہمی، آزادی، جمہوریت، سیکولرازم، بعث ازم، قومیت اور وطنیت جیسے دوسرے جعلی نعرے۔
دور حاضر میں 'دہشت گردی' کا مطلب یہ بنا دیا گیا ہے کہ ان (پر فریب) نعروں کا انکار کرکے ایک اللّٰہ پر ایمان رکھنا۔دہشت گردی یہ ہے کہ اللّٰہ کی شریعت کی حکمرانی قائم کرنا۔ دہشت گردی یہ ہے کہ اللّٰہ کی عبادت اس طرح کرنا جس طرح اللّٰہ نے حکم دیا ہے۔دہشت گردی یہ ہے کہ تم (کافروں کے نظاموں کے سامنے) ذلت کے ساتھ جھکنے، غلامی اور تابعداری سے انکار کردو۔ دہشت گردی یہ ہے کہ مسلمان آزاد، باعزت اور وقار کے ساتھ ایک مسلمان کی طرح زندگی بسر کرے۔ دہشت گردی یہ ہے کہ تم اپنے حقوق کا مطالبہ کرو اور اس سے دستبردار ہونا قبول نہ کرو۔
لیکن برما میں مسلمانوں کو قتل کرنا اور ان کے گھروں کو نذرِآتش کرنا دہشت گردی نہیں ہے۔فلپائن، انڈونیشیا اور کشمیر میں مسلمانوں کے جسموں کے ٹکڑے کرکے آنتیں نکالنا اور ان کے پیٹ چاک کرنا دہشت گردی نہیں ہے۔قفقاز میں مسلمانوں کو مارنا اور بے گھر کرنا دہشت گردی نہیں ہے۔بوسنیا اور ہر زیگوینا میں مسلمانوں کی اجتماعی قبریں بنانا اور ان کے بچوں کو عیسائی بنانا دہشت گردی نہیں۔فلسطین میں مسلمانوں کے گھروں کو منہدم کرنا، ان کی زمینوں کو سلب کرنا، ان کی عزتوں کو لوٹنا اور ان کی حرمات کو پامال کرنا دہشت گردی نہیں۔مصر میں مساجد کو جلانا، مسلمانوں کے گھروں کو منہدم کرنا، پاکباز خواتین کی عزتیں لوٹنا اور سینا ودیگر علاقوں میں مجاہدین کا قلع قمع کرنا دہشت گردی نہیں ۔مشرقی ترکستان اور ایران میں مسلمانوں پر بدترین تشدد کرنا، اُنہیں (زمین میں) دھنسانا، اُنہیں ذلیل ورسوا کرکے انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا دہشت گردی نہیں ہے۔ہر جگہ پر جیلوں کو مسلمانوں سے بھرنا دہشت گردی نہیں ہے۔فرانس اور تیونس وغیرہ میں پاکبازی کے خلاف جنگ برپا کرنا اور حجاب سے روکنا، فحاشی، بدکاری اور زنا کو پھیلانا دہشت گردی نہیں ہے۔ربّ العزت کو برا بھلا کہنا، دین کو گالی دینا اور ہمارے نبیﷺ کا مذاق اُڑانا دہشت گردی نہیں ہے۔وسطی افریقہ میں مسلمانوں کو ذبح کرنا اور بھیڑ بکریوں کی طرح اُن کے گلے کاٹنا دہشت گردی نہیں ہے۔ ان سارے (مظالم) پر نہ کوئی رونے والا اور نہ ہی کوئی مذمت کرنے والا ہے۔ یہ سب کچھ دہشت گردی نہیں ہے بلکہ یہ تو آزادی، جمہوریت، امن اور بقائے باہم ہے!! سو ہمارے لیے اللّٰہ ہی کافی ہے، اور وہ ہی تمام اُمور کا بہترین کارساز ہے۔
اے دنیا بھر کے مسلمانو! آج اللّٰہ کے فضل سے تمہاری ایک مملکت اور خلافت ہے جو کہ تمہاری عزت وکرامت کو، تمہارے حقوق اور تمہاری سیادت کو واپس دلائے گی۔ یہ ایک ایسی 'ریاست'ہے جہاں عرب وعجم، سفید فام اور سیاہ فام، مشرقی اور مغربی سب بھائی بھائی ہیں۔ یہ ایک ایسی خلافت ہے جس نے قوقازی، ہندوستانی، چینی، شامی، عراقی، یمنی، مصری، مراکشی، امریکی، فرانسیسی، جرمنی اورآسٹریلوی سب (مسلمانوں) کو یکجا کردیا ہے اور اللّٰہ نے ان کے دلوں کو ملا دیا ہے۔ وہ سب اللّٰہ کی نعمت سے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے والے بھائی بھائی بن گئے ہیں اور ایک خندق میں کھڑے ہیں، جہاں وہ ایک دوسرے کا دفاع کرتے ہوئے ایک دوسرے کی حفاظت کررہے ہیں اور ایک دوسرے پر اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ ان کا خون ایک جھنڈے اور ایک مقصد تلے، ایک کیمپ میں مل کر ایک ہو رہا ہے۔ وہ ایمانی اخوت کی نعمت سے لطف اندوز ہوکر زندگی بسر کررہے ہیں۔ اگر بادشاہ لوگ اس نعمت کا ذائقہ چکھ لیں تو اپنی بادشاہی ترک کرکے اس (نعمت کو پانے کے لیے اس) پر لڑنا شروع کردیں۔ پس تمام بڑائی اور شکر اللّٰہ کے لیے ہیں۔تو پھر اے مسلمانو! اپنی مملکت کی طرف جلدی بڑھو۔ ہاں یہ تمہاری مملکت ہے، اس کی طرف لپکو کیونکہ شام شامیوں کے لیے نہیں اور عراق عراقیوں کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ تو اللّٰہ کی زمین ہے اور وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے، اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ اور نتیجہ تو پرہیزگاروں کے لیے ہے۔
یہ ریاست مسلمانوں کی ریاست ہے اور یہ زمین مسلمانوں کی سرزمین ہے، سارے مسلمانوں کی ہے۔سو دنیا بھر کے مسلمانو! پس جو کوئی بھی دولتِ اسلامیہ کی طرف ہجرت کرنے کی استطاعت رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ہجرت کرے کیونکہ دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا واجب ہےجیساکہ قرآن کریم میں اللّٰہ کا حکم ہے۔
سو اے مسلمانو! اپنے دین کے ساتھ ہجرت کرتے ہوئے اللّٰہ کی طرف دوڑتے ہوئے جلدی کرو۔
ہم خصوصی طور پر طلباے علم، فقہا اور داعیان، جن میں سرفہرست قاضیوں؛ فوجی، انتظامی، اور (شہری) خدمات میں اعلیٰ صلاحیت رکھنے والوں؛ مختلف شعبوں میں اور کسی بھی قسم کے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں اور انجینئروں کو بلاتے ہیں اور اُنہیں یاد دلاتے ہیں کہ اللّٰہ سے ڈریں۔ پس ان پر (اس وقت) ہجرت کرنا واجب ہوچکی ہے، اس وجہ سے کہ مسلمانوں کو ان کی شدید ضرورت ہے۔''
امارت کے مرکزی ترجمان شیخ ابو محمد عدنانی نے ''یہ اللّٰہ کا وعدہ ہے '' نامی پیغام میں کہا:
''اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اقتدار دینے، زمین میں استحکام بخشنے اور امن فراہم کرنے کا وعدہ کررکھا ہے، لیکن ایک شرط کے ساتھ کہ﴿يَعبُدونَنى لا يُشرِكونَ بى شَيـًٔا﴾النور:55 ''وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی بھی چیز کا شرک نہیں کریں گے۔ اس شرط کو پورا کیے بغیر حکمران محض بادشاہ کہلاتے اور ان کے اقتدار وحکمرانی کے ساتھ تباہی، فساد، ظلم، قہر، خوف پیدا ہوتا اور جانوروں کے رہن سہن کی طرح انسانی انحطاط واقع ہوتا ہے۔''
پھر جنگِ قادسیہ کے حوالے سے ملتِ اسلامیہ کے تمام مسائل کے خاتمے کا بعثت نبویؐ پر ایمان اور دین اسلام پر عمل کرنے کے ساتھ اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 25 سالوں میں مسلمانوں نے دو سپر طاقتوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔
''مسلمانو! اپنی عزت اور اپنی نصرت کی طرف بڑھو۔اللّٰہ کی قسم! اگر تم جمہوریت، سیکولر ازم، قومیت پرستی اور مغرب وامریکہ کے دیگر گھٹیا نظریات کے ساتھ کفر کرو اور اپنے دین وعقیدہ کی طرف لوٹ جاؤ توتم زمین کے مالک بن جاؤگے اور مشرق ومغرب تمہارا ماتحت ہوگا۔ یہ اللّٰہ کا تم سے وعدہ ہے!
تباہی ہو، ایسے حکام کے لیے اور تباہی اس اُمت کے لیے، جسے یہ جمع کرنا چاہتے ہیں، جو سیکولروں، جمہوریت پسندوں اور وطن پرستوں کی اُمت ہے۔ جو مرجئہ، اخوان اور سروریوں کی اُمت ہے۔
پھر اس خلافت پر بعض اعتراضات کا تذکرہ کرکے ان کے جواب دیتے ہیں کہ لوگ ضرور کہیں گے کہ اس امارت کو اُمتِ اسلامیہ ، اتحادی کونسلوں ، افواج، جماعتوں ، تنظیموں اور تحریکوں نے تسلیم نہیں کیا۔ اور یہ بھی کہ یہ خارجیوں کی ریاست ہے۔ ایسےالزامات کے غلط اور جھوٹے ہونے کی دلیل وہ شہرہیں جو دولت کے ماتحت آچکے ہیں۔ اور یہ بھی شبہ کہ یہ ایک چنگاری ہے جو کبھی بجھ سکتی ہے اور کافر اَقوام اسے باقی رہنے نہیں دیں گی۔''
دولتِ اسلامی کا اپنے زیر قبضہ شہروں میں کیا رویہ ہے، بالخصوص شام کے صوبہ رَقہ میں جہاں دولت کا اقتدار 14 ماہ (مئی 2013ء) سے موجود ہے کہ
1. وہاں خواتین کو شرعی حجاب کی پابندی اور مردوں کو ڈاڑھی رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے اور اس کی تلقین کے پوسٹر ز، آیات سے مزین سٹرکوں پر موجو دہیں۔
2. بی بی سی کے مطابق داعش ایسا نظام چاہتی ہے جو محمدﷺاور ان کے صحابہ کے دور کا ہے اور قرآنِ کریم کے الفاظ کی پابندی کرنے کی داعی ہے۔
3. وہ عراقی یا شامی شہریت کو ترجیح دینےکے بجائے تجربہ کار اور پختہ فکر مسلمانوں کو نظام حکومت میں ترجیح دیتی ہے۔
4. اپنی باضابطہ فوج میں شامل ہونے سے پہلے باقاعدہ دوہفتے کی دینی تعلیم اور ایک ہفتے کی عسکری ٹریننگ دیتی ہے۔
5. بعض ذرائع کے مطابق، دولت کے زیر نظم شہروں میں غیرمسلموں کو امتیازی لباس وشناخت دے کر، اُن کے شہری حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے۔
6. ہرشہر میں غلبہ ہونےکے ساتھ ہی امن وامان کی صورتحال پر فوری توجہ دی جاتی اور شرعی عدالتیں قائم کردی جاتی ہیں۔
7. جہاں تک سماجی انصاف اور نظم ونسق کی بات ہے تو دولت اسلامی نے اپنے شہروں میں صفائی اور راستوں کی حفاظت کے علاوہ فوری انصاف کا مضبوط نظام بھی قائم کیا ہے۔
دولت نے حال ہی میں رَقہ میں اپنی عسکری طاقت اور فوجی پریڈ کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور ہر کارکن کو 500 ڈالر ماہانہ پر بھرتی کرکے، اپنے شہروں میں ہر ہر چیز کی قیمت نصف کردی ہے۔ اس کے لیے اس کے پاس عراق وشام کے تیل کے اہم کنووں پر قبضہ کرلینا اہم کامیابی ہے۔ شام کا تیل سے مالا مال علاقہ 'دیر الزور' اور عراق کی سب سے بڑی آئل ریفائنری اُن کے قبضے میں ہیں جہاں سے وہ شام اور دیگر حکومتوں کو تیل فروخت کررہے ہیں۔ اسی طرح عراق کا سب سے بڑا پانی کا ڈیم: موصل ڈیم، فلوجہ ڈیم اور شام کا 'طبقہ ڈیم ' جو اسد جھیل پر ہے، بھی ان کے کنٹرول میں ہیں۔اس لحاظ سے تیل اور پانی ،دونوں بڑے وسائل، وافر تعداد میں اُنہیں حاصل ہیں اور وہ کسی بھی وقت پورے عراق کو ابتری سے دوچار کرسکتے ہیں۔
داعش نے بڑی منصوبہ بندی سے تیل اور پانی کے مراکز کے علاوہ ، زرعی دولت سے مالامال سرزمین کو ہدف بنایا ہے، جہاں زیادہ تر اہل السنّہ عقائد کے حامل مسلمان آباد ہیں۔اسے دنیا کی سب سے مال دار اور اسلحہ کی طاقت رکھنے والے تنظیم سمجھا جاتا ہے۔ قابل ذِکر امریہ ہے کہ 22؍ اپریل کو یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ اتحاد کے اجلاس میں 27؍ ارکان نے یہ طے کیا تھا کہ شام میں مزاحمتی تحریک سے تیل کی خرید کا آزادانہ سلسلہ شروع کیا جائے، اس کے نتیجے میں داعش اور کرد تحریکات کے لیے تیل فروخت کرنے کے امکانات وسیع ہوگئے۔اور یوں مالی وسائل فراہم کرنا ان کے لیے ممکن ہوا۔
داعش کے خلاف عالمی مزاحمت
عراقی حکومت اور افواج دولتِ اسلامی کے مقابلے میں بے بس نظر آرہی ہیں۔4 جولائی کو امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف آرمی سٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی نے کہا کہ عراقی فوجیں ، دولتِ اسلامی کا مختلف شہروں سے قبضہ واپس نہیں لے سکتیں۔عراق نے اقوام متحدہ اور سپر طاقتوں کو اپنی جنگ میں جھونکنےکے لیے دولتِ اسلامی پر موصل کی یونیورسٹی سے ایٹمی مواد کے حصول کا الزام عائد کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹر ی جنرل کو لکھے گئے ایک خط میں 'مثنی کمپلیکس' نامی ایک فیکٹری کے بھی دولتِ اسلامی کے ہاتھ لگ جانے کی شکایت کی گئی ہے ، جس میں صدام دور میں کیمیائی ہتھیار بنائے جانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ امریکہ نے اس سلسلے میں 300 فوجی اپنی کٹھ پتلی مالکی حکومت کی مدد کے لیے بھیجے ہیں، لیکن اس کا اصرار ہے کہ یہ فوجی انٹیلی جنس اور رہنمائی کے عمل تک محدود رہیں گے، میدانِ جنگ میں اُنہیں نہیں بھیجا جائے گا۔امریکی ہیل فائر میزائل بھی عراقی فوج کو دیے گئے ہیں،ساتھ ہی امریکی طیارہ بردار جنگی جہاز جارج ایچ ڈبلیو بش دو ماہ سے قریبی سمندر میں پہنچ چکا ہے۔
اقوام متحدہ نے بھی انسانی حقوق کی صورتحال کے نام پر روزانہ بنیادوں پر رپورٹ جاری کرنا شروع کی ہے، جس کی مدد سے دولت اسلامی کے خلاف یورپی ممالک کی ممکنہ ومشترکہ جارحیت کو بنیاد فراہم کی جائے گی۔اس کا کہنا ہے کہ صرف ماہ جون میں 2417 شہری عراق میں 'تشدد اور انتہاپسندی' کی نذر ہوگئے ہیں جن میں سے 1531 عام شہری ہیں۔ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی سربراہ نوی پیلے نے داعش کے عراقی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے پر کڑی تنقید کی ہے۔شام میں جنگی جرائم کی تفتیش کرنے والے اقوام متحدہ کے چیف تفتیش کار پاؤلو پنہیرو کا کہنا ہے کہ ''داعش کے جنگجوؤں کو مبینہ طور پر جنگی جرائم میں ملوث افراد کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے اورداعش کے جنگجو کے خلاف کیس کافی مضبوط ہے۔''
داعش کے خلاف ایرانی جدوجہد
دولتِ اسلامی کے اس جہادومزاحمت میں ایران کا چہرہ کھل کر سامنے آگیا ہے جو ہر جگہ وحدت ِاسلامی کا نعرہ لگاتا ہے، وہ عراقی حکومت کی مدد کے لیے نہ صرف اپنے جنگی طیارے Sukhoi Su-25 بھیج چکا ہے جسے ایرانی پائلٹ ہی اُڑا سکتے ہیں، کیونکہ عراقی فضائیہ کے پاس تمام جنگی طیارے تباہ ہوچکے ہیں۔ بلکہ جو ن کے پہلے خطبہ جمعہ کے بعد عراق کے سب سے سینئر شیعہ رہنما آیت اللّٰہ العظمیٰ علی سیستانی کی جانب سے سنّی شدت پسندوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے شہریوں سے ہتھیار اُٹھانے اور سکیورٹی فورسز کا ساتھ دینے کی باضابطہ اپیل کی جا چکی ہے۔نامور عراقی شیعہ رہنما اور 'مہدی آرمی' کےبانی مقتدیٰ الصدر کی قیادت میں بغداد میں شیعہ عوام نے داعش کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔ ایران کی 'سپاہ پاسدارانِ انقلاب ' پہلے ہی عراق میں موجود ہے جس کی خبر امریکی وال سٹریٹ جنرل اور سی این این مصدقہ ذرائع سے دے چکے ہیں، لیکن ایران اس کو تسلیم نہیں کرتا رہا۔ایرانی پاسداران انقلاب کی 'القدس فورس' ، ایرانی بریگیڈیر جنرل قاسم سلیمانی کی قیادت میں داعش کے خلاف مزاحمت میں سرگرمِ عمل ہے۔بغداد میں پستولوں اور گولیوں کی قیمتیں تگنی ہو چکی ہیں اور کلاشنکوف تو شاید ہی مل پائے۔ یہ قیمتیں اس لیے نہیں چڑھیں کہ لوگ خود کو داعش کے ممکنہ حملے کے لیے مسلح کر رہے ہیں بلکہ اس لیے چڑھی ہیں کہ شیعہ رضاکاروں میں ان کی مانگ زیادہ ہو گئی ہے۔شیعہ رضا کاروں کی ایک بڑی تعداد ہمسایہ ملک ایران سے بغداد پہنچی ہے۔بغداد کے نواح میں سنی آبادیاں موجود ہیں اور بغداد کے اندر بھی امیریہ اور خدرا کے سنّی اکثریتی علاقے ہیں، لیکن مجموعی طور پر بغداد میں شیعہ کی اکثریت ہے۔بی بی سی کے مطابق
''اگر آپ وائٹ ہاؤس اور برطانوی دفترِ خارجہ کے بیانات کو سنیں تو آپ ضرور سوچیں کہ وہ موجودہ بحران میں ایران کو ایک چھوٹا سا کردار ادا کرنے کی منصفانہ اجازت دے رہے ہیں...لڑائی میں شیعہ رضاکاروں کی جوابی شرکت نے یہ خطرہ پیدا کر دیا ہے کہ یہی سنّی یہ سوچنے لگیں کہ شیعہ عام سنیّوں سے انتقام لیں گے۔ اسی کے نتیجے میں وہ یہ بھی محسوس کرنے لگیں کہ داعش ہی وہ واحد گروہ ہے جو اُن کی حفاظت کر سکتا ہے۔''2
بی بی سی کا بغداد ایڈیٹر جان سمپسن لکھتا ہے:
''[بغداد کے نواحی علاقہ ]بعقوبہ کی لڑائی میں معاملہ تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ فوجی جو داعش کو شہر کے مرکز سے باہر دھکیل رہے ہیں جزوی طور پر ان شیعہ رضاکاروں پر مشتمل ہیں جو اس جنگ میں سنّی دشمنوں سے لڑنے کے لیے آئے ہیں۔''
روسی فضائیہ بھی عراقی حکومت کی پشت پر ہے کیونکہ قفقاز میں جاری جہادی تحریک اور داعش میں نظریاتی قرب وتعلق پایا جاتا ہے، دونوں کا دشمن مشترکہ ہے یعنی جہاد کی عالمی تحریک۔ گویا دولتِ اسلامیہ کو حالیہ طور پر امریکہ، عراق، ایران اور روس کی مشترکہ فوجی قوت کا سامنا ہے۔عراقی افواج میں، ایران سے آنے والے دستے اور جنگی سازوسامان براہِ راست شریک ہیں۔نیزامریکہ عراقی کٹھ پتلی حکومت کے تحفظ کے مسئلہ پر ایران سے براہِ راست بات چیت اور مشاورت کررہا ہے۔ان تفصیلات سے علم ہوتاہے کہ عالم اسلام سے امریکہ کے مقابلے اور ٹکڑ لینے کی حمایت حاصل کرنے اور وحدتِ اسلامی کے فلک بوس نعرے لگانے والا ایران کا چہرہ ، داعش کے معاملے میں کھل کر سامنے آگیا ہے، اور یہاں وہ مغرب کے متحرک آلہ کارکا کردار ادا کررہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ وبرطانیہ کی اہل اسلام کو کچلنے کی مہم میں سفارتی پشت پناہی اور عالمی تائید ایران کو حاصل ہے اور یہاں ایرانی حکومت اور شیعہ رضا کار عملاً مغربی اقوام کے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں۔
یہ امریکہ ہی تھا جس نے عراق میں صدام حسین کی حکومت کو جھوٹے الزامات لگا کر تباہ کیا اور اس کی جگہ متعصّب شیعہ نور ی المالکی کو وزیر اعظم بنا کر عراق کو فرقہ واریت کی جنگ میں جھونک دیا، اب اس فرقہ واریت اور تشدد جس کو ماضی میں خود ہوا دی، کی مذمت کرتے ہوئے امن وسلامتی کے قیام کے نام پر اپنی کٹھ پتلی حکومت کی مددکو دوبارہ پلٹ آیا ہے۔
ïیہاں ایک چیز خصوصیت سے توجہ طلب ہے کہ عراق میں امریکی جارحیت کے خلاف مزاحمت سنّی جدوجہد کا فرقہ وارانہ رنگ لیے ہوئے کیوں ہے؟ اسی سوال کو یوں بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ داعش کے اس جہاد کو سنّی جہاد کیوں قرار نہ دیا جائے جو وہ شیعہ کے خلاف کررہے ہیں اور شیعہ کو ہی کیوں فرقہ واریت کا داعی اور استعمارکاحاشیہ نشین قرار دیا جاتا ہے؟
دراصل دنیا بھر کے شیعہ حکام، اگر اپنے عوام پر غصب اور جبر وتشدد کریں، یا عالمی طاقتوں کے کٹھ پتلی بن کر حکومتوں پر قابض ہوجائیں تو ایرانی حکومت ، اس شیعہ تسلط کی مذمت کے بجائے، اس کی حمایت پرکمربستہ ہوجاتی ہے۔ شام میں گذشتہ تین برسوں میں یہی سانحہ رونما ہورہا ہے کہ بشار الاسد اور اور اس کے باپ کی حکومتیں ، مصر کے حکمرانوں حسنی مبارک اور صدرقذافی کی طرح غاصب وجابر حکومتیں تھیں جنہوں نے اپنے عوام پر بدترین تشدد روا رکھا ہوا تھا۔جب مصر میں عوام ایسے حکمرانوں کے سامنے کھڑے ہوئے تو اُن کا سنّی ہونا تو ان حکمرانوں کےکوئی کام نہ آسکا، جبکہ شام میں بشار الاسد کی غاصب حکومت کے تحفظ کے لیے ایران، لبنان اور عراق کے سب شیعہ ایرانی قیادت میں متحد ہوگئے۔ایسے ہی افغانستان میں کرزئی کی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف جب مزاحمت کی جاتی ہے تو اس کا سنّی ہونا اس کو چنداں فائدہ نہیں دیتا، بلکہ اس کو امریکہ کا حاشیہ بردار سمجھ کرقابل مذمت گردانا جاتا ہے۔ دوسری طرف جب عراق میں امریکہ نوری المالکی کو زما م ِاقتدار سونپتا ہے تو ایسے میں اس کٹھ پتلی وزیر اعظم کی تائید کے لیے ایران میدان میں کود جاتا ہے۔ گویا شیعہ حکمران چاہے غاصب ہوں یا امریکہ کے حاشیہ بردار، ہر صورت میں شیعہ اقتدار کی حمایت کرنا اور اس کو توسیع دینا ایران کا مطمع نظر ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسی صورت میں یہ جنگ ظلم وجبر یا امریکی غصب وبربریت کے خاتمے کی بجائے، شیعیت اور سنیت کی جنگ بن جاتی ہےاور اس حقیقت کو عالمی سامراج بخوبی سمجھتا ہے اور یوں اہل اسلام کو باہم لڑا کر، اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتا چلا جاتا ہے۔ سنی مزاحمت کا رنگ اس لیے بھی مزید واضح ہوجاتا ہے کہ جب سب شیعہ اپنے تعصّب میں ایک طرف مجتمع ہوجاتے ہیں، جیسے کہ عراق میں نور ی المالکی شیعہ تعصب کا مرکز اور نمائندہ ہے تو ایسے حالات میں مزاحمت کرنے والے عناصر میں صرف سنّی ہی باقی رہ جاتے ہیں یا ان کے ساتھ بعض سیکولر آزادی پسند لوگ مثلاً صدام حکومت کی باقیات اور اسٹیبلشمنٹ بھی کھڑی ہوجاتی ہے،یا مظلوم عوام بھی ساتھ آجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عراق میں امریکی تسلط کے خاتمے کی جدوجہد، دیگر خطوں کے بالمقابل شیعہ سنّی مخاصمت کا رنگ لیے ہوئے ہے، جبکہ اس میں داعش کے ساتھ دیگر عناصر بھی موجود ہیں جو امریکی کٹھ پتلی نظام جبر کے مخالف ہیں۔
مغرب کی ایران نوازی
ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام کے بعدماضی قریب میں ایران میں شیعہ انقلاب آیا، افغانستان میں حنفی رجحانات کے حامل طالبان نے 'امارتِ اسلامیہ' قائم کی اور مصر میں اخوان المسلمون اور فلسطین والجزائر میں اخوان کی ہم خیال جماعتوں کی حکومتیں جمہوریت کے ذریعے برسر اقتدار آئیں۔ ان میں سے ہر حکومت کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا اور اس کے خلاف عالمی طاقتیں یکسو ہوگئیں، جبکہ ایرانی انقلاب کو راہ دی گئی اور وہ آج تک اُمتِ اسلامیہ میں اپنے بد اَثرات پھیلا رہا ہے۔شیعیت کو ایسی کیا خصوصیت حاصل ہے کہ اسلام کے دعوے کے باوجود، عالمی کفریہ طاقتیں اس کو گوارا کرتی ہیں؟آج عالمی طاقتوں کی یہی سیاسی تدبیر، مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں میں شیعیت اور سنیت کی کشمکش کی ایک خطرناک تصویر اُبھاررہی ہے۔ ایرانی انقلاب نے روزِ اوّل سے حرمین پرقبضہ کی مذموم کوشش، طویل ایران عراق جنگ، پاکستان میں شیعہ سنّی فسادات جس کے دفاع میں سپاہ صحابہؓ بنی،افغانستان میں طالبان حکومت کے 2001ء میں خاتمے کی امریکی کوشش میں ایرانی وحدتِ اسلامی کا شمالی اتحاد کا ساتھ دینا،عراق میں نوری المالکی کے تسلط کے ذریعے سنیّوں کو کچلنا اور شام میں سنّیوں کی نسل کشی، اور اسی سال افغانستان کو تباہ کرنے والی امریکی افواج او رنیٹو کو واپسی کا محفوظ راستہ دینا وغیرہ کے بدنتائج دیے ہیں۔ دراصل شیعہ انتقامی سیاست کے علم بردار ہیں، اور وہ اہل السنّہ کو سیدنا علی اور ان کے خانوادے کو خلافت نہ دینے کا مجرم خیال کرتے ہیں۔اس انتقامی نظریہ کی بنا پر ، ان کی جدوجہد کا محور عالم کفر کی بجائے عالم اسلام بنتا ہے کیونکہ وہ انہی کو غاصب سمجھتے ہیں۔یہ انتقامی نظریہ ہی ہے جس نے سقوطِ بغداد اور برصغیر میں سراج الدولہ اور سلطان ٹیپوکی حکومت گرانے میں شیعہ کو سازشی کردار اور عالمی استعمار کا ساتھ دینے پر آمادہ کیا۔
ïداعش کی خبروں کے ساتھ ہی ایران میں انہی دنوں ایک نیا قانون منظور ہوا ہے کہ ''ایران میں کوئی تنظیم اس وقت تک رجسٹرنہیں کی جائے گی، جب تک وہ ایران کے روحانی پیشوا، آیت اللّٰہ خامنہ ای کے افکار کی غیر مشروط اتباع کا دم نہ بھرے۔'' 20 سال سے ایران کے روحانی پیشوا آیت اللّٰہ خامنہ ای کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ''وہ امام مہدی کے نائب ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کسی کو جوابدہ نہیں۔'' 'اسلامی جمہوریہ ایران' کے ان اقدامات کا مطلب بدترین فکری جبر کے سوا اور کیا ہے؟ یہ فکری جبر نہ تو اس کے دعواے جمہوریت کے مطابق ہے اور نہ ہی 'اسلامی'کےسابقہ کے مصداق ہے، جس میں مخصوص شیعی فکر کے علاوہ کوئی اور نظریہ اختیار کرنا اور پھیلانا قانوناً ممنوع ہے۔ایسی ہی ایک اور چبھتی ہوئی خبر یہ بھی ہے کہ
''8؍شوال 1435ھ بمطابق 5؍اگست 2014ء کو دنیا بھر میں شیعہ برادری نے 'یوم انہدامِ جنت البقیع' منایا۔یورپی ممالک اور واشنگٹن میں سعودی سفارتخانے کے سامنےشیعہ مظاہرین نے احتجاج کیا۔ کراچی میں شیعہ رہنما مختار امامی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج فلسطین میں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام اس لئے جاری ہے کہ ہم نے ماضی میں سعودی حکمرانوں کے مظالم پرمجرمانہ خاموشی اختیار کی۔ پاکستان میں تحریکِ نفاذ فقہ جعفریہ کے قائد سید حامد علی شاہ موسوی نے کہا کہ 1926ء میں اس دن خاتم الانبیا کی ازواج اور اصحابِ اہل بیتِ اطہار کے روضے مسمار کردیے گئے جس پر شیعہ مسلمان دنیا بھر میں احتجاج کرتے اور نوحہ کناں ہیں۔اسلام آباد میں احتجاجی ماتمی جلوس امام بارگاہ دربارسخی محمود بادشاہ سے برآمد ہوا، لاہورمیں پریس کلب کےباہر احتجاجی ریلی ہوئی۔ پاکستان،بھارت اور دنیا کے مختلف شہروں میں اس موقع پر ماتمی جلوس اور مجالس عزا کا انعقاد کیا گیا۔ اُنہوں نے مسلم حکمرانوں او رعوام سے شکوہ کیا کہ وہ سعودی حکومت سے خائف کیوں ہیں ، احتجاج کیوں نہیں کرتے؟ یہ روح فرسا واقعہ ایک گھناؤنی سازش ہے جس کے خلاف شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ''3
ïایک طرف ایران اور اس کے زیرقیادت شیعہ قوم کا یہ رویہ ہے تو دوسری طرف یہ ایرانی وحدتِ اسلامی کا ٹائٹل بھی تھامے ہوئے ہیں۔ مشرقِ وسطی کا اصل المیہ اسرائیل ہے، لیکن اس کی طرف کوئی توجہ کرنے کے بجائے صرف زبانی بیان بازی پر اکتفا کیا جاتاہے حتی کہ 'القدس فورس' سنیوں کے خلاف کاروائی کے لیے عراق میں بھیجی جاتی ہے۔اسرائیل کے خلاف ایران کا یہ زبانی جمع خرچ ، اس کے 'وحدتِ اسلامی' یا امریکہ کے 'انسانی حقوق' کے کھوکھلے نعرے کی طرح ، کوئی زمینی وزن نہیں رکھتا۔ کیونکہ عملاً پورےے عالم اسلام میں ایران میں سب سے زیادہ یہودیوں سے ہمدردی پائی جاتی ہے اور کسی بھی مسلم ملک سے زیادہ یہودی ایران میں بستے ہیں۔ بی بی سی کی خبر ملاحظہ کریں:
''اینٹی ڈیفی میشن لیگ (اے ڈی ایل) یا 'ہتکِ عزت مخالف لیگ' نامی تنظیم کے اس جائزے کے مطابق صرف 56 فیصدایرانی یہودیوں کے خلاف رائے رکھتے ہیں جب کہ ترکی میں اس رائے کاتناسب 69 فیصد اور فلسطینی علاقوں میں 93 فیصد ہے۔
ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن اور ذرائع ابلاغ کے دوسرے روایت پسند ادارے 'مرگِ انبوہ' یا 'ہولوکاسٹ' کو گھٹا کر ہی پیش کرتے ہیں۔دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازیوں کے ہاتھوں 60 لاکھ یہودیوں کو ہلاک کیا گیا، اسی بنا پر اسے ہولوکاسٹ یا مرگِ انبوہ کہا جاتا ہے۔6مئی 2014ء کو ایران میں سخت گیر موقف رکھنے والے ارکانِ پارلیمنٹ نے ایرانی وزیرِ خارجہ جاوید ظریف کو اس بنا پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا کہ انھوں نے جرمنی کے ایک ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے مرگِ انبوہ کو ایک'سانحہ'قرار دیا تھا۔''4
داعش اور عالم اسلام
'دولت ِخلافت اسلامیہ ' کی مخالفت کرنے والوں میں اخوان کے بزرگ رہنما علامہ یوسف قرضاوی، اخوان المسلمون اور اس کی حامی جماعتیں وغیرہ شامل ہیں۔عراق، اُردن، مراکش کےعلاوہ یورپی ممالک کی علما کونسلیں بھی اس کی مذمت میں پیش پیش ہیں ۔بعض کا کہنا ہےکہ یہ اعلان قبل از وقت ہے اور بعض اسے مقامی سنّی قبائل کی جدوجہد کمزور کرنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔دوسری طرف افغانستان، پاکستان کے طالبان اور نائیجریا کی جہادی تنظیم بوکوحرام وغیرہ دولتِ اسلامی کی تائید کررہی ہیں۔
7 مارچ کو جب سعودی حکومت نے اخوان المسلمون کو باضابطہ دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا تو ا س کے ساتھ ہی داعش اور جبہۃ النصرۃ کو بھی دہشت گرد تنظیمیں ڈکلیئر کیا گیا تھا۔ جولائی کے وسط میں عراق ؍سعودی بارڈر پر 30 ہزار فوجیوں کو بھی تعینات کردیا گیا ۔
جیساکہ پیچھے گزر چکا ہے کہ داعش ، مختلف رجحانات والے عناصر کے مجموعے پر مشتمل ہے، جن میں عالمی جارحیت و قبضے کے خلاف عسکری جدوجہد کا مرکزی نظریہ کارفرما ہے۔ ایک طرف مغربی قوتیں ، جاسوسی کے ذریعے ان مختلف الخیال قوتوں کے انتشار کا انتظار کررہی ہیں اور دوسری طرف اپنے مہرے ڈھونڈ رہی ہیں تاکہ ان کو تقسیم کرکے، اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جائیں۔ مسلم عرب حکومتوں کو بھی ڈرایا جارہا ہے کہ اگر خلیجی ریاستوں ، اُردن اورسعودی عرب نے مل کر داعش کا راستہ نہ روکا، تو مستقبل میں خلافت کے مقدس نظریے تلے علاقائی حکومتیں ختم ہوکر رہ جائیں گی۔
اس ساری جدوجہد کا خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر داعش کی یہ حکومت مستحکم ہوجاتی ہے توایران کی عجمی شیعہ ریاست کے ساتھ ساتھ ، موجودہ باقی ماندہ عراقی ریاست کی صورت میں ایک اور شیعہ عرب ریاست وجود میں لائی جائے، اس لیے ایران کو عراقی حکومت کا ساتھ دینے کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے،کیونکہ دوسری طرف جب سارے سنی عناصر داعش کے زیرقیادت متحد ویکجا ہوگئے اوراس سے قبل کردستان کے نام سے عراق میں ایک آزاد ریاست پہلے سے قائم ہوچکی ہے ،امریکہ وترکی اس کو قبول کرچکے ہیں ، تو باقی ماندہ عراق میں شیعہ اکثریت پر شیعہ عرب ریاست قائم کرنے کی دیرینہ سازش از خود پوری ہو جائے گی ۔ ایران وشام کی شیعہ حکومتیں ، امریکہ کی قیادت میں اسی سمت پیش قدمی کررہی ہیں۔
شیعہ ریاست کے قیام کے ساتھ ، دولت اسلامیہ کے قیام کے ذریعے سنی سلفی اجتماعیت کو بھی تقسیم اور باہم متحارب کرایا جائے گا۔اور داعش کے بارے میں یہ خطرات موجود ہیں کہ وہ سعودی عرب کی طرف پیش قدمی کرےجیسا کہ اس کی تفصیلات آگے آرہی ہیں۔
تبصرہ و تجزیہ
خلافتِ اسلامیہ اور ملّی میڈیا کی غیرموجودگی: دنیا بھر میں ساٹھ کے قریب مسلم ممالک اور غیرمسلم ملکوں میں بھاری مسلم اقلیتوں کی موجودگی، دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کے مسلمان ہونے، عظیم ترین دینی نظریہ وعمل اور آخری الٰہی دین اسلام کے وارث ہونے ، بھرپور دنیوی وسائل سے مالا مال ہونے کی عظیم حقیقتوں کے ساتھ یہ ایک تلخ صورت حال ہے کہ اس تمام نظریاتی اور مذہبی تشخص کو باہم جوڑنے والا کوئی مرکزِخلافت موجود نہیں، جو نبی کریمﷺ کی سیاسی جانشینی کے فرض سے عہدہ برا ہوتا ہو۔ ممالک کے دفاتر اور سفارتیں تو ہیں لیکن دین اسلام کی عیسائی پوپ ویٹی کن کی طرح کی سفارت بھی نہیں۔دو دہائیوں سے مسلمانوں پر دنیا بھر میں بدترین مظالم تو ہورہے ہیں، ملتِ کفر ان کے خلاف متحد ومجتمع ہے لیکن مسلمان اس کے بالمقابل کسی نظم اجتماعی کی تشکیل کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ان سالوں میں اسلام اور اہل اسلام سے کفر براہِ راست نبرد آزما ہے، لیکن ان بدترین حالات میں بھی مسلمان ایک دوسرے سے متحد ہونےکے بجائے ، کفر کی سازشوں پر عمل پیرا ہوکر ایک دوسرے کے خلاف ہی برسرپیکار ہیں۔ پاکستان میں جاری دہشت گردی کی جنگ ہو، افغانستان میں طالبان اور کرزئی حکومت کا مسئلہ ہو یا عراق میں نوری المالکی، شام میں بشار الاسد وغیرہ کی حکومتیں، مصر میں فوجی آمریت اور لیبیا میں جہادی مزاحمت، ہرجگہ مسلمان اپنے ہی ہم عقیدہ وہم نظریہ سے ظلم وتشدد سہہ رہے ہیں۔
مشرقِ وسطی کا المیہ دراصل کفر واسلام کا معرکہ ہے جہاں برطانیہ کے خفیہ معاہدے (سایکو پیکٹ) کے تحت خلافتِ عثمانیہ کے ماتحت علاقوں کو ریت پر لکیریں کھینچ کرمستقل ریاستیں قرار دیتے ہوئے، ان میں اسرائیل کا خنجر گھونپ دیا گیا تھا۔کفر واسلام کا یہ ازلی معرکہ، پہلے عرب اور صہیونیت کا معرکہ بنا۔ روس وامریکہ کی سرد جنگ کے دور میں اس کی یہی کیفیت رہی، لیکن ایرانی انقلاب کے بعدسے عالم عرب یا مشر قِ وسطیٰ کا یہ المیہ ، آہستہ آہستہ شیعہ سنی مخاصمت کے محور کی طرف مرکوز ہوتا گیا۔ ایران عراق جنگ اور ایران سعودی عرب مخاصمت پروان چڑھی، پھر اب کچھ عرصہ سے یہ معرکہ اس سے بھی نیچے آتے ہوئے سعودی عرب اور مصر کی اصل جمہوری حکومت میں اختلاف کا روپ دھار رہا ہے۔ اور شیعہ سنی اختلاف کا ہوا دکھا کر، سلفی اور اخوانی نظریات کی آپس میں لڑائی کو ہوا دی جارہی ہے۔ اس سے اگلا منظر نامہ سلفی اور خارجی کی مخاصمت کی طرف بڑھتا نظر آتا ہے۔
گویا ادارہ خلافت موجود نہ ہونے کی بنا پر ، اس بدترین مظلومیت کے دور میں بھی مسلمان ہی مسلمان کے خون کا پیاسا ہے اور قرآنی الفاظ میں باہمی اختلاف کی اذیت اور عذاب کا شکار ہے۔ اس المناک صورتحال کی وجہ ایک ہی ہے کہ خلافت کے مقدس تصورسے مسلمانوں نے صرفِ نظر کیا۔ خلافت کانام اوردعویٰ اگر اجنبی نظر آتا ہے تو اس کے احکام ونظریات سے واقفیت تو بالکل خال خال ہے۔ پوری مسلم دنیا جمہوریت، ملوکیت کے سحر اور آمریت کے دباؤ میں جکڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ہر مسلم ملک کو وطنیت کے بت نے اس طرح اپنے سحر میں لے رکھا ہےکہ وہ اپنے مفادسے بڑھ کر، ملت اسلامیہ کی بات کرنا بھی گناہ سمجھتا ہے۔ صورتحال یہاں تک پہنچی ہے کہ 'سب سے پہلے پاکستان' اور 'سب سے پہلے عرب' کے نعروں تلے ، اپنے ہی مسلمان ہمسایہ بھائیوں کے خون سے ہاتھ رنگے جاتے اور اسے ایک مقدس جہاد باور کرایا جاتا ہے۔پھر یہ بھی ایک دن چڑھی حقیقت ہے کہ کفر اکیلا ملتِ اسلامیہ کاسامنا نہیں کررہا۔ امریکہ52 ریاستوں پر مشتمل ایک مکمل براعظم ہونے کے باوجود،اپنے ہراقدام کے لیے اقوام متحدہ کی چھتری استعمال کرتا ہے، اسی پر اکتفا نہیں بلکہ یورپی یونین اور نیٹوجس میں بعض مسلم ممالک بھی شامل ہیں، کی افواج کو ساتھ لاتا ہے۔اسرائیل کے ظلم وستم کا دفاع اکیلا امریکہ نہیں، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی مشترکہ ووٹنگ سے کرتے ہیں۔اس کے باوجود ملت اسلامیہ کے حکمرانوں کو ہوش نہیں آتی۔ دینی قیادت کو فرقہ واریت کے تو آئے روز طعنے دیے جاتے ہیں، لیکن سیاسی قیادت اورحکمرانوں کی مفاد پرستانہ گروہ بندی اور ملی مفاد سے غفلت کو ہدفِ تنقید نہیں بنایا جاتاکہ یہ سب مسلمان حکمران کس طرح اپنے اپنے مفاد کے اسیر ہیں۔ کیونکہ وطنیت کے نظریے کا تقاضا یہی نیشنل ازم ہے جو دنیا کا سکہ رائج الوقت ہے۔ جمہوریت کی طاقت اورمحور یہی وطنیت کا نظریہ ہے جسے مسلم دنیا میں مسیحائی اور اُمید کی علامت سمجھاجاتا ہے۔
مسلم دنیا اگر خلافت کے نظریےسے عاری ہے تو وہ مسلم دنیا کو ایک جسد میں پرو دینے والے ذرائع ابلاغ سے بھی بالکل تہی دست ہے۔ مسلمانوں کی خبریں دشمنوں کے توسط سے ٹوٹی پھوٹی اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی چھلنیوں میں چھن کر ، صہیونی خبررساں ایجنسیوں کے توسط سے ہم تک پہنچتی ہیں۔ ان میں سچ اور جھوٹ کی آمیزش کا کوئی پیمانہ ہمارے پاس نہیں۔مختلف حکومتوں کے زیر نگرانی چلنے والے ابلاغی ادارے اُن کے سرکاری مفادات کے زیر اثر خبروں کو عوام میں فلوٹ کرتے ہیں۔مسلم یا ملی میڈیا جو جسد ملی کالازمہ اور اوّلین تقاضا ہے، اس کا کوئی مصداق مسلم دنیا میں نہیں پایا جاتا ۔ حکومتیں اس تصور سے ہی جان چراتی ہیں کہ اس طرح ان کے شہریوں کی نظر آفاقی ہوگی اور اُنہیں مسلم دنیا کے ساتھ مختلف معاملات میں شراکت کو پروان چڑھانا ہوگا۔ اسی کی قیمت یہ ہے کہ یہ مسلم حکمران ، مغرب کے دریوزہ گر اور ان کے معاشی اداروں کے بھکاری بنے رہتے ہیں اور محمدﷺ کا اُمتی ذلت وہلاکت کا تن تنہاسامنا کرتا ہے۔
مسلمانوں پر ظلم وستم کا خاتمہ اور کلمۃ اللّٰہ کی سربلندی احیاے خلافت کے بغیر ممکن نہیں۔ اور خلافت کا قیام شریعتِ مطہرہ کا بنیادی تقاضا ہے، اس فرض کو ترک کرنے کی بنا پر دنیا بھر کے مسلمان گناہ کے مرتکب ہیں۔بعثتِ نبویؐ کے بعدسے کسی مرکز امارت کے بغیر مسلمان کبھی نہیں رہے،اسلام تو مختصر سفر کے لیے بھی امیرکے تقرر کو لازمی قرار دیتا ہے۔کوئی تحریک اورمرکزاس عظیم مقصد کے لیے یکسو ہوکر کام نہیں کررہی ، اندریں حالات دولتِ خلافت اسلامیہ کا اس عظیم ہدف کو لے کر آگے بڑھنا ایک مبارک مشن ا ور نیک مقصد ہے۔تاہم خلافت جتنا مقدس ومبارک نظریہ ہے، اس کا قیام اور اس کا تحفظ وبقا اس سے بھی زیادہ ذمہ داری اور اہمیت کا معاملہ ہے۔اسی احساسِ ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ماضی میں طالبان نے خلافت کی بجائے 'امارتِ اسلامیہ' تک اکتفا کرنے کو ترجیح دی تھی۔دولتِ خلافت اسلامیہ کا یہ قدم بہرحال قابل تحسین ہے کہ اُنہوں نے اپنے سیاسی ڈھانچے کے لیے مغرب سے کوئی نظام مستعار لینے کی بجائے، خالص اسلامی نظام اور اصطلاحات کی طرف پیش قدمی کی ہے،جب اُنہوں نے اعلان کرلیاہے تو اللّٰہ اُنہیں اس کے تقاضے پورے کرنے کی بھی توفیق مرحمت فرمائے، اور اُن کو کامیابی وکامرانی سے نوازے۔ تاہم کیا یہ وہی شرعی خلافت ہے جس کی اطاعت اور اس کے سائے تلے چلے آنا ہر مسلمان پر فرض ہے، اس کا تعین قبل از وقت ہے اور علما کی باضابطہ رہنمائی اور وسیع تر فتویٰ کا محتاج ہے ۔
خلافتِ اسلامیہ کا جب بھی آغاز ہوگا، ابتدائی طور پر تو کسی ایک چھوٹے خطے سے اس کا سلسلہ شروع ہوگا، جیساکہ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کا آغاز کس قدر مختصر طور پر ہوا، اور بعد میں نبی کریم ﷺکی قائم کردہ یہ خلافت چودہ صدیوں تک کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی، تاآنکہ مصطفیٰ کمال اتاترک نے اسے غیروں کے ساتھ ملی بھگت کرکے خاتمے سے دوچارکردیا۔ موجودہ صورتحال بھی کوئی زیادہ پریشان کن نہیں، بلکہ آج اگرشام وعراق کے نقشے کو دیکھا جائے تو چالیس فیصد تک علاقہ داعش کے زیر حکومت آچکا ہے، اور باقی علاقوں میں ان کی نقل وحرکت اور بڑی قوت موجود ہے۔اس خلافت کا اصل جوہر شریعتِ الٰہیہ کا نفاذ ، اور اسلام کے نظامِ سیاست'خلافت وامارت' کا قیام ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی عالمی خلافتوں کی طرح اس کا دائرہ عمل بھی وسیع ہوتا جائے گا۔ اس لیے دولت خلافت اسلامیہ کو اس وقت آگے بڑھنے سے پہلے اپنی بنیادوں کو پختہ کرنے اور حکومت کو مستحکم کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
'دولتِ خلافتِ اسلامیہ' کی تائید اور حمایت کےاسباب [Strengths]1. سامراج کی ہزیمت:ملتِ اسلامیہ ایک طویل عرصہ سے ذلّت وپستی اور ہلاکت وبربریت کا سامنا کررہی ہے جس میں 1990ء کے بعد سے واضح اضافہ ہوچکا ہے۔ان سالوں میں مسلمانوں نے بےشمار ہلاکتوں، مظالم، جبر وتشدد، ظلم وستم، عصمت وآبرو کی قربانیوں ، اوراسلام و شعائرِ اسلام کے خلاف ہرزہ سرائیوں کے زخم سہے ہیں۔ ان حالات میں کوئی بھی طاقت کفریہ استعمار کو براہِ راست چیلنج کرتی اور اس سلسلے میں معمولی کامیابی بھی دکھاتی ہے تو مظالم سے چور اُمتِ مسلمہ اس کی طرف لپکی چلی آتی ہے۔
2. شیعی سازشوں کا جواب:مسلم وعرب دنیا میں شیعہ مظالم ایک کھلی حقیقت بنتے جارہے ہیں۔ شیعہ کے انحرافی نظریات اور سازشی اقدامات جسے ایرانی انقلاب نے مہمیز دی ہے، کا دفاع کرنا بھی اہل السنّہ کی دلی خواہش ہے۔ یہ وقت اُمتِ مسلمہ میں اتحاد کا ہے، اور جو اس اتحاد کو پارہ پارہ کرتا ہے، ملت کا اجتماعی شعور اس سے نفرت کرتا ہے۔ایران اسی ملی شعور کے استحصال کے لیے وحدتِ اسلامی کا نعرہ اور اسرائیل مخالف جذبات کو کیش کراتا ہے لیکن اس کا اندرونی چہرہ اس سے بالکل مختلف ہے۔داعش کا ظاہری پہلو بھی شیعیت اور سامراجیت کے خلاف مزاحمت کا ہے،یہ چیز ان کی حمایت کا باعث ہے۔
3. اعلانِ خلافت اور اس کے زمینی امکانات:مسلم حکمرانوں کی مفاد پرستی اور مغربی نظریات واہداف کی آبیاری ان سالوں میں واضح ہوچکی ہے۔ نفاذ شریعت کے دیرینہ مطالبے کے باوجود کسی حکمران کو نہ تو اس کے تقاضوں سے عہدہ برا ہونے کی توفیق ہوتی ہے اور نہ مسلمانوں اور ان کے شعائر پر ہونے والے حملوں کے خلاف مزاحمت کا حوصلہ ملتا ہے۔نفاذِ شریعت ، خلافت، مسلم مفادات اور اقلیتوں کا تحفظ اور اسلامی حمیت وغیرت کا احیا، دولتِ خلافت اسلامیہ کی تائید کے رجحانات ہیں۔یہ جہادی عناصر عرصہ دراز سے ایک خطہ ارضی کی تلاش میں ہیں جہاں وہ عملاً اسلام نافذ کرکے، اپنے اس موقف اور الزامات کو ثابت کردیں جو مسلم حکمرانوں پر لگائے جاتے ہیں۔ اندریں حالات داعش کو وسیع تر خطہ ارضی مل جانا، بڑی جہادی قوت کا اجتماع او ر دنیوی اموال ووسائل سے بھی مالا مال ہوجانا، بہت سے مسلمانوں کے لیے اُمید کی روشن کرن ہے۔
دولتِ اسلامیہ پر کئے جانے والے اعتراضات [Weaknesses]1. جولوگ دو دہائیوں کے جہادی منظر نامے سے آگاہ ہیں ، بخوبی جانتے ہیں کہ القاعدہ کی شکل میں ہونے والی جہادی مزاحمت، ایک طرف دینی علوم اور اس کی تفقہ و بصیرت سے تہی دامن ہے۔ اس کی قیادت ان نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے جو ملت پر ہونے والے مظالم میں رنجیدہ ہیں اور اپنے حکام (سیاسی قیادت )کے ساتھ ، علما ے کرام (دینی قیادت )سے بھی ناراض ہیں۔ القاعدہ اور اس کے شجرہ نسب سے تعلق رکھنے والی جہادی جماعتیں، اگرچہ سلفی پس منظر سے تاریخی تعلق رکھیں لیکن سلفی علما ان کے منہج واستدلال کی مذمت کرتے ہیں اور ان کےموقف کو شرعی تائید سے عاری قرار دیتے ہیں۔ القاعدہ اور داعش کی قیادت مظالم کفار کے دفاع سے غفلت یا عاجز ی ظاہر کرنے والے مسلم حکام پر کڑی تنقید کرتی اورردّعمل میں آکر مسلم حکام کو کفار ، طاغوت اور مرتد قرار دیتی ہے۔اسی پر اکتفا نہیں بلکہ ان کی حمایت کرنے والے سرکاری افسران اور اَفواج کو بھی مرتدوطواغیت بنا کر مباح الدم سمجھتی ہے
5۔ان سے اتفاق نہ کرنے والے پہلے تکفیر اورپھر تفجیر(بم دھماکوں) کا سامنا کرتے ہیں۔ اس بنا پر ایسی جہادی تحریکیں ، جہادی کے بجائے فسادی رویے کی حامل بن کرمسلمانوں سے ہی جہاد شروع کردیتی ہیں۔ یہ لوگ علما کو مرجئہ (تساہل پسند)قرار دے کران کی بھی تکفیر کرتے اور اپنے سوا کسی دوسرے کو مسلمان نہیں سمجھتے۔اس طرح حکام وعلما کی اپنے تئیں بعض اغلاط کے سبب اُن کو کافر قراردے کر ان کے خلاف جہاد پر کمربستہ ہوجانا، خوارج کے منہج سے اُنہیں ملا دیتا ہے۔ خوارج دین کے نام پر غلو او رانتہاپسندی کی تحریک ہے،سوان جہادیوں کو ان کے رویے کی بنا پر جہاد ی سے زیادہ فسادی اور مجاہدین سے زیادہ خوارج العصر قرار دیا جاتا ہے۔ داعش پر سب سے بڑا اعتراض یہی ہے کہ اگر وہ بھی اپنے پس منظر اور ماضی کے مطابق اسی رویے پرکاربند رہتی ہے تو ان کے جہاد کا نشانہ کفار سے زیادہ مسلمان قرار پائیں گے۔
عجب بات یہ ہے کہ القاعدہ کے زیر اثر یہ جہادی، کسی مسلم ملک کے حکام کے بارے میں کوئی امتیاز نہیں کرتے۔ پاکستان میں امریکی تائید اور فنڈوسپورٹ سے جنگ جاری ہو، عراق اور افغانستان میں کٹھ پتلی حکومتیں سامراجی ایجنڈے کو پورا کررہی ہوں ، یا سعودی عرب کے حکمران، ان کی توقع کے مطابق دینی اقدام نہ کریں، لیکن اپنے شہریوں کے جا ن ومال اور دین کےقیام میں کامیاب واقع ہوں تو یہ سب حکمران بلا امتیاز القاعدہ کے جہادیوں کی نظر میں طاغوت ہیں۔ جبکہ ہر علاقے اور اسکے حکام کے رویوں کے نتیجے میں شرعی حکم مختلف ہوتا ہے، لیکن جہادیوں کے ہاں ایسا کوئی نظریہ نہیں جو شاہ عبد اللّٰہ اور نوری المالکی میں کوئی فرق کرے۔
القاعدہ کی جوابی اور کمزور مزاحمت نے عالمی قوتوں کو مسلمانوں پر مظالم شدید تر کرنے اور ان میں گھسنے کا جواز بھی فراہم کیا ہے، نائن الیون کا واقعہ کیا مسلم اُمہ کے لیے مفید رہا یا مسائل کی جڑ بن گیا، یہ جہاد تھا یا فساد؟اس پر بہت کچھ بولا اور لکھا جا چکا ہے۔اس بنا پر ان جہادی تحریکوں سے ہمدردی رکھنے کے باوجود ان کے عملی مسائل ، گہرے غور وفکر کا تقاضا کرتے ہیں۔
2. داعش کے اس انتہاپسند رویے کی تائید اس امر سے ہوتی ہے کہ انہوں نے حالیہ جہاد ی کامیابی سے قبل اپنے سابقہ سب جہادی حلیفوں سے علیحدگی اور جدائی اختیار کی، حتی کہ القاعدہ جو اس کا مرکزی نظریہ تھا اور جس سے بقول کسے ، داعش کی قیادت بیعت تھی، اس کے حلقہ اطاعت کو ترک کرکے، اچانک اپنی جداگانہ خلافت کا اعلان کردیا۔ اعلانِ خلافت کے ساتھ ہی یہ مسئلہ سامنے آتاہے کہ جن علاقوں میں داعش کی حکومت ہے، وہاں کوئی اگر خلیفہ داعش کی بیعت نہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟بعض علما مثلاً سلفی شامی مجاہد عالم مثلاً شیخ عدنان عرعور نے کہا کہ ہم خلیفہ کی اطاعت کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ خلیفہ تو مجہول اور غیردستیاب ہے، ہم اظہارِ اعتماد کے لیے کیسے اس کے خیالات کا جائزہ لیں؟ اس عدم دستیابی کے الزام کے خاتمےکے لیے ابو بکر بغدادی نے 6 رمضان کو موصل میں خطبہ جمعہ میں اپنے آپ کو عوام الناس میں ظاہر کیا۔ لیکن یہ اعتراض تاحال باقی ہے کیونکہ خلیفہ کی بیعت میں عامۃ المسلمین کا اعتماد بھی ایک شرط ہےاور اعتماد کے لیے معرفت ضروری ہے۔خلیفہ پر یہ اعتراض بھی ہوا کہ اسلامی خلافت کے لیے قوت کے ساتھ علم وفضل بھی درکار ہیں،﴿زَادَهٗ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ﴾ کا یہی تقاضا ہے۔ اس کے جواب میں اچانک 10؍اگست کو میڈیا پر یہ آنا شروع ہوگیا کہ جناب خلیفہ محترم علومِ شریعہ میں پی ایچ ڈی کے سند یافتہ ہیں۔ کہا جاتاہے کہ دولت کے زیر اثر شہروں میں ایسے لوگوں اور علما کو قتل کردیا جاتا ہے جو خلیفہ کی بیعت نہ کریں۔ یہ قتل شرعی دلیل کا متقاضی ہے کیونکہ خلیفہ کی بیعت سے تاخیراس کے قتل کو واجب نہیں کرتی، جیساکہ دورصحابہ میں اس کی مثالیں موجودہیں۔ داعش پر بہت بڑا اعتراض دیگر جہادی تحریکوں سے قتل وغارت گری کا بھی ہے۔ ماضی میں جبهة النُّصرةسے ان کی لڑائی مسلمہ حقیقت ہے۔ان کے اسی رویے کی بنا پر شامی اَفواج نے داعش کو شام میں داخلے کے لیے کھلا راستہ دیا، اور داعش نے دیگر غیر جہادی تنظیموں کی قیادت کو ہلاکت سے دوچار کیا۔ القاعدہ رہنما ڈاکٹر ایمن ظواہری نے اسی بنا پر داعش کو شام میں داخلہ سے روک دیا لیکن داعش نے ان کے حکم کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔سلفی علما، داعش سے شرعی عدالتوں کا مطالبہ کرتے اور ان قتلوں کے واضح اور نامزد ملزموں کے قصاص کا مطالبہ کرتے ہیں اور داعش کے خودساختہ نظام عدل پر شرعاً مطمئن نہیں ہیں۔جبهة النُّصرةاس وقت پھر داعش سے علیحدہ ہے ، وہ نہ تو خلافت کی داعی ہے اور نہ تكفیر کی۔شیخ عرعور کے بقول ہم جاننا چاہتے ہیں کہ یہ رویے جو بکثرت داعش سے صادر ہورہے ہیں، ان کی قیادت کے نزدیک اس کا جواز کیا ہے؟ کیا وہ اس کی مذمت کرتے ہیں یا اصلاح کے لیے سرگرم ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ ان میں اکثر باتوں سے داعش نے رجوع کرلیاہے، تاہم ماضی کی کوتاہیوں کا مداوا کیا ہے اور کیا ضمانت ہے کہ دوبارہ ایسا نہ ہو؟
3. داعش کی سیاسی تشکیل پر بھی بہت سے اعتراضات ہیں۔ کئی لوگ اسے 1997ء کے افغانی طالبان کی طرح امریکی چالبازی کا مظہر سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عراق کی موجودہ حکومت پر عدم اطمینان کے بعد، داعش کو اوپر کی سطح پر اختیار سونپنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ داعش کو ملنے والی کامیابی اس کے زمینی وجود سے بہت بڑی ہے اور مقابل فوجیوں نے مقابلہ کی بجائے وردیاں چھوڑ کر بھاگنے اور عوا م میں گھل مل جانے کو ترجیح دی۔شام میں سنی مزاحمت کامیاب ہونے کے دنوں میں داعش کو شام میں راستہ دیا گیا تھا کہ وہ ان جہادی گروہوں پر ہی حملے کرکے، جہاد کی قوت کو کمزور کرے۔دولتِ خلافت اسلامیہ کی صورت میں دنیا بھر کے جہادیوں کو جمع کرکے، ان کے خلاف امریکی بمباری ان کی اجتماعی ہلاکت کی تدبیر ہےجس کے بعد امریکہ کوعراق پر براہِ راست قبضہ رکھنے کا جواز حاصل ہوجائے گا۔ کہا جاتاہے کہ داعش کا مقصد سنی سلفی طاقت کو منقسم کرنا اور باہم لڑانا ہے، اس لئے داعش کا اگلا ہدف لبنان کی سنّی حریری حکومت ہے جس کے دفاع کے لیے سعودی عرب نے ایک اَرب ڈالر کی امداد ہفتہ قبل جاری کی ہےاور داعش عنقریب سعودی حکومت کو بھی نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔داعش کبھی اسرائیل کی طرف پیش قدمی نہیں کرے گی بلکہ اس کانشانہ مسلمان ہی ہوں گے اور یہی خوارج کی علامت ہے ۔
4. اگر یہی معیار مان دے لیا جائے کہ جو بھی گروہ بعض علاقوں پر قبضہ حاصل کرلے اور وہاں خلافت کا اعلان کرکے ، باقی جہادی گروہوں او رعوام کو مرتد بنا کر قتل کرنا شروع کردے تو پھر اس قتل وغارت او رانتشار کا سلسلہ کہاں تک جائے گا۔اس کی بجائے باہمی مشاورت اور اتفاقِ رائے سے اس قدر عظیم امور انجام دیے جائیں تبھی خلافت صحیح معنوں میں قائم ہوسکتی ہے۔
دولت خلافتِ اسلامیہ کے لیے قابل توجہ اُمورداعش پر کئے جانے والے اعتراضات کا خلاصہ وہ ہے جو اوپر پیش کردیا گیا۔ دراصل مزاحمت اور دفاع میں جب کئی ایک گروہ کارفرما ہوں، اور ان میں ہر ایک اپنے حصے کی جدوجہد کررہا ہو تو اس میں اتباع کے باہمی نظام کا قیام اور ترجیحات کا متفقہ تعین ایک بڑا مشکل امر ہے۔ ماضی میں یہی باتیں افغانی طالبان کے بارے میں بھی سامنے آئیں ،اور اُنہو ں نے دیگر گروہوں حتی کہ کنٹر ونورستان کے سلفیوں کے خلاف بھی جہاد کیا جس پر اُنہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور آج تک اہل حدیث ان کے اس جرم کو معاف نہیں کرسکے کیونکہ ایک مسلمان کا بھی ناورا قتل ناقابل معافی ہے۔ تاہم آخر اس منتشر ومتحارب جہاد سے آخر کار اللّٰہ تعالیٰ نے خیر نکالی اور طالبان کے نام سے ایک حکومت قائم ہوگئی۔ مذکورہ بالا اُمور بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی اصلاح جتنی جلد ہوجائے گی، اتنا ہی اسلام اور مسلمانوں کے لیے بہتر ہوگا۔تاہم داعش کو انتہاپسندانہ رویے کو لازماً ترک کرنا ہوگا، اگر وہ مسلمانوں کی طرف ہی اپنی بندوقوں کا رخ کرلیں گے اور تکفیر وارتداد کی زبان بولیں گے تو پھر اس جہاد کو فساد سمجھنے میں کوئی اَمر مانع نہ ہوگا اور یہ ایک عظیم فتنہ ہوگا۔ داعش کے باضابطہ ترجمان شیخ عدنانی کا پیچھے بیان گزر چکاہے کہ خارجیت کے سلسلے میں ناقدین کو ان کے زیر حکومت شہروں کے ماحول کا مشاہدہ کرنا چاہیے۔اگر وہاں وہ خارجیت کو پاتے ہیں تو یہ الزام درست ، بصورتِ دیگرداعش کا حال ہی اس کا اصل موقف ہے۔
داعش کو مزید درج ذیل اُمور کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہیے:
1. تعلیم وتربیت کی طرف توجہ: داعش مختلف الخیال لوگوں کا مجموعہ ہے جنہیں مختلف ضرورتوں اور ترغیبات نے مجتمع کردیا ہے۔ دراصل یہ اللّٰہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ ہے جس نے اس قدر وسیع الجہت عناصر کو متحد ہوکر جہادکےنظریے تلے مشترکہ جدوجہد کی توفیق دی ۔ ان مختلف الخیال لوگوں کو پختہ نظریہ اورعقیدہ ہی دائمی طور پر متحد کرسکتا ہے۔ ان کا اللّٰہ تعالیٰ سے گہرا تعلق اور خلوص وللہیت ہی اُنہیں بڑے عظیم چیلنجوں سے عہدہ برا کرسکتی ہے۔ اس لیے داعش کو فوری طور پر تعلیم وتعلّم اور عبادت وعمل کی طرف متوجہ ہونا ہوگا۔ مسلمانوں میں مرکز ومحور صرف کتاب وسنت ہی ہیں، کتاب وسنت کی تعلیم ودعوت کو اس قدر بڑے پیمانے اور قوت سے پھیلایاجائے کہ دیگر شخصی آرا اور رجحانات کو پنپنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔ دعوت وتعلیم کو فرقہ وارانہ رجحانات اور فقہی نکتہ رسیوں سے نکال کر، شعائر اور مسلماتِ اسلام کے فروغ اور ان پر زیادہ سے زیاہ عمل کی طرف لانا چاہیے۔ اگر نظریہ وعقیدہ واضح نہ ہو یا بدعملی کی آفت سوار ہو تو ہر دوصورت میں داعش کی وقت منتشر ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔افراد کی اصلاح ہی معاشرے کی حقیقی اصلاح پر منتج ہوتی ہے۔ اسلام نرے حکومتی جبری اقدامات کے بجائے ترغیب وآمادگی کے ذریعے نافذہوتا ہے جو زمینوں کی بجائے دلوں پر حکومت کا داعی ہے اور یہ تمام کام تعلیم وتربیت کے بغیر ممکن نہیں۔
2. پابندیوں کی بجائے سہولتوں سے آغاز: خلافت کا نعرہ بڑا عظیم اور مبارک ہے اور اس کے تقاضے بھی بڑے بلند ہیں۔ ہر مسلمان خلافت کا نام سن کر فوراً خلافتِ راشدہ کا تصور اور اسلام کا فلاحی کردار ذہن میں لے آتا ہے۔ فلاح اسلامی کو پیش نظر رکھتے ہوئے، داعش کو معاشرے کی سہولت اور نظم وضبط ، امن وامان کے قیام سے اپنی ترجیحات کا آغاز کرنا چاہیے۔ بڑا مبارک ہے کہ اُنہوں نے قیمتوں کو نصف کرنے، شہری نظام کی بحالی پر فوری توجہ دی ہے۔ انہیں پابندیوں اور سختیوں کو ، سہولتوں کے پہلو بہ پہلو بلکہ ایک قدم پیچھے چلانا چاہیے۔نبی کریم ﷺنے اسلام کی دعوت کو غریبوں کے کام آنے اورمسافروں ، محروموں کی نگہداشت کرنے سے تقویت بخشی۔ مدینہ میں مؤاخات اور امن وامان کے قیام سے آپ نے اپنی مبارک سیاست کا آغاز کیا۔ آپ نظام عبادات اور نظام عدل وانصاف کو بھی بڑی حکمت ودانائی سے ساتھ ساتھ لے کر چلے۔ پوری دنیا کے میڈیا کی نظریں اُن پرہیں اور ملتِ اسلامیہ کے لیے وہ اُمید کی ایک روشن کرن بن سکتے ہیں۔
3. افتراق سے گریز اور حلیفوں کی تلاش: داعش کی قوت مسلم اتحاد واتفاق کی قوت ہے جس کا مرکز قرآن وسنت ہے۔ دولتِ خلافت اسلامیہ جہادی نظریات کی علم بردار ہے۔اور اُسے اپنے اس مرکزی نظریے پر کاربند رہنا چاہیے کہ وہ ملتِ کفر کی مسلم ممالک پر جارحیت اور ان پر غاصبانہ قبضے کے خلاف ایک توانا آواز بنی رہے۔جو ملتِ کفر کا حاشیہ نشین بنے، اور ان کے غصب کو طول دے، چاہے وہ کرزئی کی شکل میں ہو، یا نوری المالکی کی کٹھ پتلی حکومتوں کی صورت میں ، داعش کی صورت میں اُن کا محاسبہ ہونا چاہیے ۔ ملتِ محمدیہ پر ہونے والے مظالم میں وہ اپنے بھائیوں کی ہم نوا اور مؤید ہو۔ اللّٰہ تعالیٰ نے جہاد کی صورت میں ملتِ اسلام کو متحد رہنے کا ایک عظیم آلہ عنایت کیا ہے او رتاریخ شاہد ہے کہ جب تک جہاد مسلمانوں میں جاری رہا، باہمی آویزشیں سر نہ اُٹھاسکیں۔داعش کو چاہیے کہ مسلمانوں میں باہمی اختلاف سے ہر صورت گریز کرے۔ماضی میں افغانستان میں طالبان کی امارت نے کتاب وسنت کی بجائے، حنفیت کے فروغ کوترجیح دی جس کے نتیجے میں افغانستان کے سلفی حلقے کو کنٹر ونورستان میں ان کی طرف سے تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس چیز نے طالبان کی مقبولیت کو ان کے خیرخواہوں میں بہت نقصان پہنچایا۔ داعش کو بھی کتاب وسنت میں موجود نظریات پر کاربند ہوتے ہوئے ان فرقہ بندیوں سے گریز کرنا ہوگا، وگرنہ اہل اسلام کے باہمی اختلافات کی بے برکتی ان کی قوت کو منتشر کردے گی۔ داعش کی حکومت ایک نظریاتی حکومت ہے، اس لیے اپنی نظریاتی بنیادوں کو مستحکم کرکے اُنہیں ہرصورت واضح کرنا ہوگا۔ اس کے قائدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان نظریات کی درجہ بند ی کریں، جن پر کوئی مفاہمت نہیں ہوسکتی۔ اور جن نظریات میں گنجائش ہے اور اُنہیں گوارا کیا جاسکتا ہو، ان میں سہولت اور تدریج کا رویہ اختیار کریں۔اکیسویں صدی خالص اسلام کے لیے بہت اجنبی ہے، اس دنیا میں داعش کو حلیف قوتوں اور معاہدوں کا بھی راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ داعش کا موقف ہے کہ وہ کفر کی عالمی غاصب برادری سے مفاہمت اور اُن سے ماتحتی پر مبنی معاہدات نہ کرے گی،اس صورت میں اہل اسلام میں اپنی جڑیں مضبوط کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
4. سعودی عرب اور داعش کی نظریاتی وحدتیں: داعش کے نظریات کا مطالعہ کریں تو ان میں عقیدہ توحیدکا فروغ، شرک وبدعات کی بیخ کنی، وضعی قانون کی بجائے اللّٰہ کی شریعت پر فیصلے کرنا، جمہوریت، انسانی حقوق، سیکولرزم ،نام نہاد امن، وطنیت اور آزادی رائے جیسے مغربی کھوکھلے نعروں کی مذمت کرنا وغیرہ سرفہرست ہیں۔ عملی طور پر اُنہوں نے شعائر اسلام کے فروغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے قیام کو ترجیح دی ہے۔ان کے خطبات کا تجزیہ کیا جائے تو وہاں عرب قوم پرستی، عراقیت نواز ی کے بجائے ملتِ اسلام کی بات کرکے وطنیت کی عملاً مذمت کی گئی ہے۔ یہاں مسلم ممالک کے حکمرانوں کو ایجنٹ قرار دے کر، کفر کو ملتِ اسلام کے خزانوں کو لوٹنے والا اور دنیا کو ان کے خلاف ظلم وتشدد کا مجرم بتایا گیا ہے۔اسلامی وسائل اور ملتِ اسلام کے مفادات کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔
داعش تاریخی لحاظ سے سلفی مکتبِ فکر سے نکلا ہوا گروہ ہے۔ اس بنا پر سعودی عرب کی حکومت وعوام او ران میں بہت سی مشترک قدریں پائی جاتی ہیں۔ بالخصوص عقیدہ توحید کی بنا پر معاشرے کی اصلاح اور اس سے مظاہر شرک وبدعت کا خاتمہ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا قیام، شرعی عدالتوں کا قیام ، سیکولرزم، جمہوریت وانسانی حقوق کے مغربی نعروں کی مذمت جیسے کئی چیزیں ان میں قدرِ مشترک ہیں۔ اور دونوں میں وجوہاتِ اختلاف کو دیکھیں تو خلافت اور ملوکیت،عالمی کفر سے معاندت یا مفاہمت بھرے تعلقات، ملتِ اسلامیہ کے مفادات کی فکر اور اس سے مبیّنہ غفلت وغیرہ کو پیش کیا جاسکتا ہے اور یہی جہادی تنظیموں کے سعودی حکومت پر اعتراضات ہیں۔ اس لحاظ سے دنیا کی کسی بھی ریاست سے بڑھ کر داعش نظریاتی طور پر سعودی عرب کے قریب ہے، یا مستقبل قریب میں اگر طالبان کو افغانستان میں حکومت مل جائے،جس کے روشن امکانات ہیں تو اُن سے بھی ان کی فکری قربتیں ہوسکتی ہیں۔
داعش کے بارے میں اکثر حلقوں میں جو اعترا ض کیا جاتا ہے، وہ خارجیت کا ہےجس کی تفصیل پیچھے گزرچکی ہے۔داعش جیسی جہادی تحریکوں کے لیے تشدد وانتہاپسندی سے گریز ایک بڑا ہی اہم مسئلہ ہے۔ دین کے فروغ کے ساتھ ہی ، ظواہر پرشدت اور مقاصد ومصالح شرع کی پروا نہ کرنے کا مسئلہ ماضی میں بھی پیش آتا رہاہے۔ خیرالقرون ، خلافتِ راشدہ میں بھی اسلام کو پہلا چیلنج اسی فتنہ خارجیت سے پیش آیا تھا جو دین داری میں غلو کا نتیجہ تھا، موجودہ سعودی حکومت کے لیے بھی القاعدہ اور جہادی نوجوانوں کے رجحانات ہی اہم ترین مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔اس غلو وتشدد کو علمی رسوخ ، تقویٰ، عمل اور تحمل سے ہی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ یہ غلو جہادی میدانوں کی تیز تر حرکت کی بجائے ٹھنڈے دل اور تحمل سے مسائل کے حل کی طرف متوجہ ہونے سے ہی ختم ہوسکتاہے۔
داعش کے قائد ین کے بیانات ابھی محض دعوے ہی ہیں، میدانِ عمل میں ان کو اختیار کرکے، جب عملاً ان پر کاربند ہوں گے، تب ہی اُن کی پختگی کا علم ہوگا۔ آج کی پیچیدہ عالمی سیاست میں حکومتیں عالمی دباؤ کے سامنے مجبور ہوجاتی ہیں اور بیشتر دعوے خواہشات سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔کفر کے اس عالمی دباؤ کو گہری تدبیر اور مشترکہ قوت کے ساتھ ہی ختم کیا جاسکتاہے۔
5. حرمین کی بجائے اسرائیل کی طرف: خارجیت پرور رجحانات کے تناظر میں 4؍اگست کے اخبارات میں روسی میڈیا اور برطانوی اخبار 'ٹائمز 'کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ
''داعش نے سعودی عرب بالخصوص مکہ مکرمہ کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے، ان دھمکیوں سے گھبر ا کر سعودی حکومت نے اپنی 500 میل لمبی عراقی سرحد پر 30 ہزار فوج متعین کردی ہے۔ کہا جاتاہے کہ اس فوج کا بیشتر حصہ پاکستان او رمصر کی حکومتوں سے طلب کیا گیا ہے۔ اس سال سعودی عرب کے دفاعی اخراجات 35 بلین پونڈ تک پہنچ گئے ہیں جو برطانیہ سے بھی زیادہ ہیں۔''
مشرقِ وسطیٰ بالخصوص عراق وشام میں جاری یہ جنگ سعودی عرب کے ہمسائیگی میں دو دہائیوں سے جاری ہے۔ اور جنگ میں میدانِ جنگ سے زیادہ اہمیت درست خبروں کی ہوتی ہے۔ 30 ہزار فوج کی تعیناتی کی خبر مغربی میڈیا پر ایک ماہ قبل شائع ہوچکی ہے، لیکن اس کی حقیقت آئندہ دنوں میں واضح ہوگی۔ اور یہ داعش کا امتحان ہےکہ اس کے ساتھ سب سے زیادہ نظریاتی قرب سعودی حکومت کا ہی ہے۔ اگر داعش عالمی طاقتوں اور ان کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے بجائے، ملت اسلامیہ کو ہی اپنا ہدف بنانا شروع کردیتی ہے تو یہ ایک طرف آغاز میں ہی اپنی طاقت کو کمزور کرلینے، مسلمانوں میں اپنی جڑیں کمزور اور آخرکار اپنے خاتمے کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا تو دوسری طرف یہ الزام بھی یقینی ہوجائیگاکہ داعش بنیادی طور پر خارجی گروہ ہے جو کسی بھی گناہ یا کوتاہی کے مرتکب شخص یا حکومت کے خارج از اسلام ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے۔
داعش مشرقِ وسطیٰ میں جن قوتوں کے خلاف سرگرم عمل ہے یعنی امریکہ اور اس کے کٹھ پتلی عراقی حکمران اور اس کی پشت پر موجود ایرانی حکومت، ان کے اہداف بھی اس نکتہ پر مرکوزہیں کہ سعودی عرب کو سیاسی انتشار کا نشانہ بنا کر، حرمین شریفین میں بدامنی اور فتنہ بازی کو عام کیا جائے۔ ایران اپنے قیام کے پہلے روز سے اسی جدوجہد میں ہے، داعش اگر سعودی عرب کو اپنا ہدف بنانے کی طرف پیش قدمی کرتی ہے تو یہ غلط حکمتِ عملی کےساتھ اپنے اصل حریفوں کی بھی ہم نوائی اور ان کی تائید ہوگی۔اس کے بالمقابل داعش اگر فلسطین وغزہ کے مظلوموں کی مدد کے لیے بڑھتی اور دباؤ ڈالتی ہے تو پورا عالم اسلام اس کی پشت پر ہوگا اور یہی ابوبکر بغدادی کا نعرہ ہے کہ وہ مظلوموں کی مدد کو بڑھیں گے، دنیا میں سب سے زیادہ ظلم ملت اسلامیہ پر کہاں ہورہا ہے، اس کا جواب غزہ وفلسطین کے سوا اور کیا ہے؟
سعودی عرب کی حکومت ایک طرف قبلہ اسلام کی خادم اور حجاج کی میزبان ہے، یہاں موجو د اسلامی نظام کی دنیا بھر میں کوئی اور نظیر نہیں ملتی، یہ عقیدہ توحید کی دنیا بھر میں سب سے توانا آواز ہے، دنیا بھر کے مسلمان علوم اسلامیہ میں رسوخ کے لیے یہاں رجوع کرتے ہیں اور سعودی عرب عالم اسلام کی مدد میں کبھی پیچھے نہیں رہتا۔ دنیا میں دارالاسلام کا اگر کوئی ممکنہ مصداق موجود ہے تو اس وقت تک یہ اعزاز صرف سعودی عرب کے پاس ہے، یہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ اللّٰہ کی عبادت کی جاتی اور یہاں کی ثقافت ونظام دنیا بھر سے مختلف ہے۔ دوسری طرف عجب پریشان کن امر یہ ہے کہ القاعدہ کی جہادی تحریک ہو، اخوان المسلمون کی غلبہ اسلام کی تحریک ہو یا داعش کی صورت میں نیا جہادی محاذ، ان سب کے مطالبے اور شکوے بھی سعودی حکومت سے ہیں جس کے نتیجے میں سعودی حکومت ان کو دہشت گرد قرار دے کر اپنے تئیں محفوظ ہونے کی کوشش کرتی ہے۔
اسلامیان عالم کے لیے یہ امر کس قدر اندوہ ناک ہے کہ مغربی غلبہ واستیلا کے اس دور میں سعودی عرب کا سب سے بڑا مخالف ایران ہو ، جبکہ انہی دو ممالک میں ہی اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق اسلامی حکومتیں پائی جاتی ہیں۔سعودی عرب ، مصر کی اخوانی حکومت کی معزولی پر اس کا ساتھ دینے کی بجائے مخالف کیمپ میں کھڑا نظر آتا ہے جبکہ سلفی اور اخوانی ، دونوں اسلام کے ہی کام کرنے والی دو مخلص تحریکیں ہیں، سید قطب اور حسن البنا کے منہج سے اختلاف کے باوجود ان کے خلوص وجذبہ کی تائید ماضی میں سلفیہ کے قائد شیخ عبد العزیز بن باز کرچکے ہیں اور سعودی عرب میں اخوان کو ہمیشہ سے دینی جدوجہد کی بڑی آزادی اور تائید حاصل رہی ہے۔ پھر اس پر کیوں افسوس نہ ہو کہ سلفی نظریات پر پروان چڑھنے والی داعش کی جہادی تحریک، سعودی عرب کو ہی اپنے نشانے پررکھ لے۔گویا عالم موجود کے چار عظیم اور طاقتور رجحانات آپس میں ہر ایک دوسرے کے درپے ہیں: سعودی عرب، ایران، مصر اور دولتِ خلافت اسلامیہ۔مسائل اور وجوہات کیا ہیں، یہ ایک علیحدہ موضوع ہے لیکن یہ نتیجہ ہر مسلمان کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے، بالخصو ص ان حالات میں جبکہ ملتِ کفر ، ان سب کو کچا چباجانے اور مچھر کی طرح مسل دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔
دنیا میں جو بھی اسلامی تحریک اُٹھتی ہے، حرمین شریفین کے مقدس مقامات کی محافظ اور خادم ہونے کی بنا پر سعودی حکومت کو اپنے نشانے پر رکھ لیتی ہے۔ایران اپنے روزِ قیام سے حرمین میں اپنی مداخلت کے لیے ہرطرح کی جدوجہد کررہا ہے، اور داعش بھی اسی سمت پیش قدمی کرسکتی ہے، لیکن واضح رہنا چاہیے کہ کسی بھی اسلامی حکومت کا حرمین پر تسلط اس کے اسلامی ہونے کا بنیادی تقاضا نہیں بلکہ اس کے مقبولِ عوام ہونے کی بچگانہ خواہش ہے۔ حرمین کی جس طرح سعودی حکومت نے فرقہ واریت سے بالا تر ہو کر خدمت کی ہے، اسلامی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اور مستقبل قریب میں اس کے امکانات بھی نہیں کہ کوئی اور حکومت یہاں ایسے پرسکون انتظامات کرسکے۔آل سعود کی حکومت کا یہ طرۂ امتیاز ہے۔ ماضی کی خلافتیں حرمین پر غلبہ کے باوجود قائم رہی ہیں، افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت نے حرمین پر غلبہ کو کبھی اپنی خواہش نہیں بنایا ، پھر ایران کی یہ خواہش سراسر ہٹ دھرمی اور مسلمانوں کو منتشر کرنے کی سازش ہے۔ داعش بھی اگر اسی روش کو اختیار کرتی ہے تو یہ خارجیت پر مبنی رویہ ہوگا، شرعاً اور مصلحتاً بھی اس کا جواز نہیں ہے اور دنیا بھر میں وہ اپنا مقام اور وقار دنوں میں کھو دے گی۔
میڈیا میں آنے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ، داعش نے سعودی عرب کی بجائے، ترکی وشام کی سرحد کی طرف ،کوہ سنجار کی سمت پیش قدمی کرتے ہوئے وہاں یزیدی فرقے کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ یہ یزیدی فرقہ ، یزد یعنی خدا کے نام پر آگ کا بچاری ہے اورحیران کن طور پردن میں پانچ وقت شیطان کی عبادت کرتا ہے، جسے خدا کےساتھی 'ملک طاؤس' کانام دیتا ہے ۔ اسے فرقے کی عبادت کی رسومات زیادہ ترعیسائیوں اور کچھ مجوسیوں سے ملتی ہیں۔عیسائی چرچ میں راہب کے ذریعے ان کی شادی کی رسومات منعقد ہوتی ہیں اس بنا پر انہیں عیسائی بھی کہا جاتا ہے۔یزیدی ملعون گروہ کے افراد جونہی پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تو امریکہ نے پہلی بار عملاً اپنی فضائیہ کے ذریعے داعش پر حملے شروع کردیے ہیں اور ان عیسائی مجوسی یزیدیوں کو بچانے کے لیے کھانے کے سامان جہازوں کے ذریعے گرائے ہیں۔اوباما نے یہ بیان جاری کیا ہے کہ ''ہم جہادیوں کو اسلامی خلافت قائم نہیں کرنے دیں گے۔''
یہی داعش کا اصل کام ہے کہ وہ خالص گمراہی پر کاربندلوگوں یا حکومتوں کی طرف اپنا رخ کرے جو عالمی طاقتوں کے آلہ کار بن سکتےہیں، اور اپنی قوت زیادہ سے زیادہ واضح اہداف کی طرف مرکوز کرے۔ اسلام اور اہل اسلام سے گریز کرکے، ان کو کفر کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ نبی کریمﷺ نے اسلام کے ازلی دشمنوں سے آغاز میں ہی میثاقِ مدینہ کے معاہدے کئے، صلح حدیبیہ کی پیچیدہ شرائط کو قبول کیا تاکہ نوزائیدہ اسلامی ریاست کوکچھ وقت مل سکے۔ بیت اللّٰہ میں شرکیہ بتوں کو فتح مکہ تک گوارا کیا، جب تک لوگوں میں اس کے خلاف واضح ذہن تشکیل نہ دے لیا اور پورا کنٹرول حاصل نہ کرلیا۔دعوتی وفود، معاہدوں، خطوط اور جہادی پیش قدمی کو درجہ بدرجہ پروان چڑھایا۔ سیرتِ نبوی سے یہ رہنمائی شرعی احکام کے ساتھ حالات کی بہترین واقفیت اور عظیم سیاسی بصیرت کی متقاضی ہے۔داعش انہی نقوش سیرت سے رہنمائی حاصل کرکے، آہستہ آہستہ کامیابی کی طرف بڑھ سکتی ہے۔
6. نظریاتی اتفاق :یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ دنیا بھر کی جہادی تحریکوں میں چند اہداف کے بارے میں واضح اتفاقِ رائے سامنے آرہا ہے۔ایک تو مغربی تہذیب اور اس کے نعروں کے بارے میں ان کا موقف واضح تر ہوتاجارہاہے، جن میں جمہوریت، انسانی حقوق، اقوامِ متحدہ، دہشت گردی اوروطنیت کی مذمت سرفہرست ہیں۔ اسی طرح یہ تحریکیں چاہے مشرق وسطیٰ میں ہوں یا افغانستان وپاکستان میں، شیعیت کے بارے میں بھی ان کے موقف میں بھی واضح اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ وہ شیعہ کو اسلام دوست سمجھنے کی بجائے، کفریہ طاقتوں کا آلہ کار سمجھتے ہیں۔پھر مسلم حکمرانوں اور مسلم ممالک میں جاری سرکاری نظاموں کے بارے میں بھی ان کا موقف واضح طو ر پر نکھر چکا ہے۔ جبکہ دوسری طرف بیسیوں صدی کی معروف احیائی تحریکیں ابھی تک مغربی نعروں اور نظاموں کے بارے میں پوری طرح واضح نہیں ہوسکیں، اور وہ انہی حکومتوں اورنظاموں کے تحت غلبہ اسلام کی طرف پیش قدمی کو ممکن سمجھتی اور اسی کی جدوجہد کررہی ہیں۔ یہی وہ فکری اختلاف ہے جس کی بنا پر علامہ یوسف قرضاوی، اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی وغیرہ، داعش اور جہادی تحریکوں کے موقف کے قائل اور حامی نہیں ہیں۔ جہادی تحریکوں کے بارے میں ایک موقف سلفی علما کا بھی ہے جو کفر کے مقابلے میں ان کے دفاعی جہاد کو تو خالص جہاد سمجھتے ہیں، جیسا ماضی کا افغان جہاد یا امریکہ کے خلاف افغان یا عراق میں دفاعی جہاد اور داعش کا حالیہ جہاد، البتہ اسلامی حکومتوں کے خلاف تشدد آمیز کاروائیوں کو فتنہ انگیزی اورحکمت کے منافی قرار دیتے ہیں اور اقدامی جہاد کے لیے بھی جہادی تنظیموں کو بہت سی شرائط کا پابند کرتے ہیں، جیسا کہ اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
اللّٰہ جل جلالہ سے دعاہے کہ اہل اسلام کو دین اور دنیا کے مسائل کی بصیرت عطا کرے، افتراق وانتشار اور تعصّب وتحزب کی آفت سے بچائے، شرعی اور ملی مقاصد کے لیے خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کو سمجھنے اور مل کر چلنے کی توفیق دے۔ خیر القرون میں بھی اسلام کا احیا اور اس کاغلبہ خاص انعاماتِ الٰہیہ اور ان تمام تدابیر کے بغیرنہ ہوا تھا۔ شریعت کا گہر ا علم اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، عبادت وعمل کے بغیر اس میں تاثیر پیدا نہیں ہوسکتی اور حالات کی صحیح سمجھ بوجھ یعنی فقہ الواقع کے بغیر درست فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ فراستِ مؤمنانہ سے ہی ان پیچیدہ مسائل اور اہم ملی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہواجاسکتا ہے۔ اللّٰہ اُمتِ اسلام کا حامی وناصر ہو!
حوالہ جات1.http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/06/140623_what_constitutes _isis_sq.shtml
2.مذکورہ بالا تینوں بیانات کے اہم اقتباسات، داعش کے باضابطہ ترجمان عربی مجلہ 'دابق' کے پہلے شمارے بابت رمضان 1435ھ میں صفحہ 6 تا 11 شائع ہوچکے ہیں، جبکہ راقم نے اُنہیں اصل عربی تقاریر سے اَخذ کیا ہے۔
3.http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/06/140618_iraq_fiting_sen.shtml
4.روزنامہ جنگ ونواے وقت:5؍اگست 2014ء
5.عنوان خبر 'یہودیوں کی مخالفت میں ایرانی سب سے پیچھے': بی بی سی، 17 مئی 2014ء
6.داعش کے باضابطہ ترجمان 'دابق' میں 'طاغوت' اور 'مرتدین' کی مخصوص اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں اور پیچھے شیخ عدنانی کے خطاب میں 'مرجئہ' کی مذمت ، القاعدہ کے روایتی موقف سے اتفاق ظاہر کرتی ہے۔