اسرائیل کی غزہ پر تباہ کن بمباری، اس کی مکمل تباہی اور اسرائیلی فضائی حملوں میں فلسطینی بچوں کے براہ راست قتل عام نے دنیا بھر کے لوگوں کو شدید صدمے سے دوچار کردیا ہے۔ بمباری میں بچوں کے چیتھڑوں اور مسخ شدہ لاشوں، مساجد اور گرجا گھروں کی تباہی نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی ہے لیکن ایسا مین سٹریم میڈیا کے ذریعے نہیں ہوا ہے بلکہ یہ شعور تصاویر ٹویٹر اور فیس بُک کے ذریعے بیدار ہوا ہے ۔
سوشل میڈیا نے فلسطینی المیے اور انسانی مصائب کو اُجاگر کیا ہے، ایسے لوگوں کے ہولوکاسٹ اور مکمل نسل کشی کو منظرعام پر لایا ہے جن کی واحد درخواست یہ ہے کہ انھِیں آزادی، امن اور وقار سے جینے دیا جائے۔لیکن امریکا کے مین سٹریم میڈیا نے مکمل طور پر ایک سنگ دلانہ حکمتِ عملی اختیار کی ہے، قریب قریب تمام اخبارات ،سی این این، سی سپین ، فاکس اور ان سے وابستہ ادارے حماس کو اسرائیل پر حملہ آور ہونے کا الزام دے رہے ہیں، اس کو موجودہ صورت حال کا ذمے دار اور اسرائیل کی سکیورٹی اور استحکام کے لیے خطرے کا موجب قرار دے رہے ہیں۔
بعض اینکروں نے تو جھوٹ تراشنے سے بھی گریز نہیں کیا ہے۔ بعض دوسروں نے فلسطینیوں کو بالکل نظرانداز کردیا اور اپنی توجہ خیالی سرنگوں اور راکٹوں پر مرکوز کیے رکھی ہے۔اُنھوں نے جان بوجھ کر ہرکسی کی توجہ اس جانب مرکوز نہیں کی ہے کہ امریکا کی جانب سے آزادانہ طور پر مہیا کیے جانے والے ہتھیاروں، بموں اور راکٹوں نے بچوں کو زندہ جلا دیا، اسپتالوں میں بیماروں اور ضعیفوں کو مار دیا اور رمضان المبارک کی مقدس راتوں کے دوران عبادت کرنے والوں کو تہس نہس کردیا ہے، اُن کے حُلیے بگاڑ دیے ہیں۔
یہ جنگ نہیں تھی۔ یہ ایک قتل عام تھا جس کو امریکا میں میڈیا نے مہمیز دی۔ ایسا میڈیا جو ننگے ہوکر تعصّب کا مظاہرہ کررہا تھا،اس نے بالواسطہ طور پر حملوں کو نظر انداز کرکے اور ان کو نہ دکھا کر اُن کی حوصلہ افزائی کی ہے اور ہسٹریائی کیفیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
میڈیا اس وقت اپنی غیراخلاقی پن کی حدوں کو چھورہا تھا جب اس نے براہِ راست نشر کیے جانے والے پروگراموں کو بھی سنسر کرنا شروع کر دیا۔ ماضی میں موقر سمجھے جانے والے ادارے سی سپین نے بھی ایسے ہی کیا۔نسل کشی کے مخالف ماہرین کو نشریات میں بلانے سے گریز کیا گیا یا اُن کو بولنے کا وقت ہی نہیں دیا گیا۔
لیکن لاطینی امریکا کے ممالک اُٹھ کھڑے ہوئے اور وہ فلسطینیوں کے ہولوکاسٹ کے خلاف بولے ہیں حالانکہ وہ خود امریکا کی خارجہ پالیسی کا شکار رہے ہیں مگر کسی یورپی یا مغربی لیڈر کو چیخنے،چلانے کی توفیق نہیں ہوئی ہے۔
امریکی حکومت اور اس کے قانون سازوں کا میڈیا سے اتنا تعلق رہا ہے کہ وہ اس کے ذریعے حماس سے یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ وہ اپنی جارحیت کو روکے۔ اس معاملے میں کینیڈا سب سے بڑا مجرم بن کر سامنے آیا ہے اور میں عرب کاروباری حضرات سے یہ کہنا چاہوں گا کہ وہ کسی کینیڈین وفد سے ہر قسم کا میل ملاقات بند کردیں بالکل ایسے جس طرح انھوں نے ماضی میں روس کے ساتھ کیا تھا۔ اس تحریک کا یورپی یونین کے رکن ممالک اور امریکا پر بھی اطلاق کیا جانا چاہیے اور امریکا تو سب سے زیادہ جارحیت پسند ثابت ہوا ہے۔
صدر اوباما نے اس دوران اسرائیل کے 'آئرن ڈوم پروگرام' کے لیے اضافی فنڈز کی منظوری دی ہے اور اسرائیل کے ہتھیاروں کے ذخیروں میں اضافے کے لیے لیزر گائِیڈڈ بموں اور راکٹوں کی بھاری کھیپ روانہ کی ہے۔ان یورپی ممالک اور امریکا کے نزدیک فلسطینیوں کی زندگیوں کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے۔ ان کے لیے ہم عرب محض ایک مارکیٹ ہیں، گیس اسٹیشنز ہیں اور ان کے لیے ایسے لوگ ہیں جنھیں 'آپ ہمارے اتحادی اور کاروباری شراکت دار ہیں' ایسے الفاظ سے بہلایا پھسلایا جا سکتا ہے۔
ممکن ہے پہلے یہی معاملہ رہا ہو لیکن اب عرب عوام اس حقیقت کو جان گئے ہیں اور وہ جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ ان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ وہ اب اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ برابری کا برتاؤ کیا جائے۔
اب ایسے تجارتی وفود کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے جن میں کٹڑ صہیونی شامل ہوں جو اپنی چیزیں بیچنے اور دھوکا دہی سے جیبیں بھرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں،ایسے صحافیوں کو بھی خوش آمدید نہیں کیا جانا چاہیے جو یہاں کے داخلی مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے آتے ہیں اور ان سے کسی قسم کی کوئی ہمدردی ظاہر نہیں کی جانی چاہیے۔
مغرب کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ ہم بعض پہلوؤں میں اگرچہ ناکام ہوگئَے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔اس مقصد کے لیے ہمیں امن درکار ہے اور آپ انصاف اور فلسطینی عوام کو ان کا حق دیے بغیر امن نہیں دے سکتے ہیں۔آپ وہاں امن قائم نہیں کرسکتے جہاں عوام کی خواہشات اور امنگوں کو جبری دبا دیا جائے۔اگر مغرب انسانی حقوق کے ایشو کو مکمل طور پر نظرانداز کرتا اور اپنے اقتصادی مفاد کے لیے مطلق العنان حکومتوں کو مضبوط کرتا ہے تو پھر امن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔
ان تمام سازشی کھیلوں کو فوری طور پر بند کرنا ہوگا۔دوسری صورت میں مغرب دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذریعے اس کا خمیازہ بھگتے گا۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ دہشت گردی ان کی ناانصافیوں سے ہی پروان چڑھے گی کیونکہ جن لوگوں کے پاس کوئی قانونی راستہ نہیں بچے گا تو وہ پھر دہشت گردی کے ذریعے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ مغرب کو ہمارے ساتھ برابری کی بنیاد پر معاملہ کرنا چاہیے۔ہمیں دوست چاہئیں، آقا نہیں۔
('العربیۃ نیوز'میں شائع ہونے والی خبر کا متن ... پیر ،11؍اگست 2014ء)