ایک صاحب پوچھتے ہیں کہ:
(1) ایک شخص ایک سے زیادہ قربانی دےسکتا ہے یا نہیں؟
(2) اگر دے سکتا ہے تو سب ایک ہی دن کرے یا ایک آج، دوسری کل؟
(3) چار بھائی ہوں تو وہ باری باری اگر کرلیں تو جائز ہوگا یا نہ؟
(4) عید کا خطبہ بھی جمعہ کے خطبہ کی طرح پڑھا جاتا ہے یا صرف ایک ہی خطبہ ہوتا ہے؟ اس میں تکبیریں بھی پڑھنی چاہیئیں یا نہ؟
(5) شہر یا گاؤں سے باہر جاکر نماز عید پڑھنے کے بجائے اگر مسجد میں یا شہر میں پڑھ لے تو کیا حرج ہے؟ ( ملخصاً)
الجواب:
(1) ایک سے زیادہ قربانی:
ہاں دے سکتا ہے:
(الف) ''نحر النبي صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بیده سبعة بدن قیاما وضحی بالمدینة کبشین أملحین أقرنین'' (بخاری باب من نحر بیدہ)
(ب) ''قال علي: لما نحر النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدنه فنحر ثلاثین بیده و أمر ني فنحرت سائرھا '' (ابوداؤد)
(ج) ''ثم انصرف إلی المنحر فنحر ثلاثا و ستین بد نة بیده ثم أعطیٰ علیا فنحرماغبر'' (رواہ مسلم عن جابر بن عبداللہ باب حجة النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
ہاں اس میں اختلاف ہےکہ سات بکروں یا چھتروں کے عوض ایک گائے یا دس کے عوض ایک اونٹ کی قربانی دینا افضل ہے یا سات یا دس بکروں یاچھتروں کی قربانی بہتر ہے؟ ہمارے نزدیک افضل دوسرا قول ہے کیونکہ آج کے دن ''اہراق دم'' (خون بہانا) زیادہ محبوب ہے اس لیے جتنی تعداد زیادہ ہوگی اتنی زیادہ فضیلت ہوگی۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت میں قربانیاں اپنے سینگ، کُھر او ربالوں سمیت خدا کے حضور لائی جائیں گی۔ ظاہر ہے یہ تعداد ضرور رنگ لائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!
''ماعمل ابن آدم من عمل یوم النحر أحب إلی الله من إھراق الدم وإنه لیأتي یوم القیٰمة بقرونھا و أشعارھا وأظلافھا (الحدیث) (ترمذي عن عائشة وقال ھذا حدیث حسن غریب باب ماجاء في فضل الأضحیة)
(2) ایک آج دوسری کل:
یہ ایک رسم بن گئی ہے کہ جن کے پا س ایک زیادہ قربانیاں ہوتی ہیں وہ ان کو قربانی کے مقررہ دنوں پر تقسیم کرلیتے ہیں۔ نیتوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔مگر ظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا لیے کرتے ہیں، تاکہ کام و دہن کے کے چسکے کے لیے کچھ دن او رہاتھ آجائیں اور دو دن او ر تازہ گوشت مل جائے اس صورت میں ایسی قربانی کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے کیونکہ جب اس لالچ سے قربانی دی جاتی ہے تو وہ قربانی قربانی نہیں رہتا۔ عام گوشت والی بات بن جاتی ہے۔ اس لیے حضور ﷺ نے اس تمنا پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ نماز عید سے پہلے جو قربانی دی گئی ہے اس کے بدلے اب ایک اور قربانی دیجئے! کیونکہ پہلی صرف اہل و عیال کے لیے ہوئی ہے:
''عن البراء قال سمعت النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یخطب فقال إن أول ما نبد أمن یومنا ھٰذا أن نصلي ثم نرجع فننحر فمن فعل فقد أصاب سنتنا ومن نحر قبل الصلوٰة فإنما ھو لحم یقدمه لأھله لیس من النسك في شيء'' (بخاری باب الذبح بعد الصلوٰۃ)
اگر یہ ذہن نہ بھی ہو تب بھی یہ طریقہ خلاف سنت ہے کیونکہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام اسی دن سب کی قربانی کردیتے تھے ، اگلے دن پر نہیں چھوڑتے تھے۔ دو چھوڑ، خواہ بیسیوں ہوتیں۔ امام نووی فرماتے ہیں:
''گویا یہ بات مساکین کے لیے تو خوب ہے مگر خلاف سنت ہے۔ کیونکہ حضورﷺ نےایک ہی دن میں سو قربانی دی تھی۔''
''وقلت ھٰذا الذي قاله (أي الرویا ني، وإن کان أرفق بالمساکین إلا إنه خلاف السنة فقد نحرالنبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم في یوم واحد مائة بدنة أھداھا فاالسنة: التعجیل والسارعةإلی الخیرات والمبادرة بالصالحات إلا ما ثبت خلافه'' (روضۃ الطالبین کتاب الضحایا ۔ فصل فی مسائل المنشورہ)
نیز وہ فرماتے ہیں کہ : یہ 63 وہ تھے جو مدینہ سے لائے گئے تھے او رمابقی وہ تھے جو یمن سے حضرت علیؓ کے ہمراہ پہنچے تھے (نووی شرح مسلم، حدیث جابر بن عبداللہ باب حجۃ النبیﷺ)
امام بخاری ن ےباب ہی بڑا معنی خیز تجویز فرمایا ہے جس نے سارے مسئلے حل کردیئے ہیں۔ باب یہ ہے : ''باب ما یشتہیٰ من اللحم یوم النحر'' یعنی ''قربانی کے دن گوشت کی خواہش کرنا'' یہ باب اس حدیث کے لیے مقرر فرمایا ہے جس میں عید کی نماز سے پہلے قربانی کردینے کا ذکر ہے کہ قربانی دینے میں اگر گوشت ہی کھانے کا جذبہ غالب ہے تو پھر وہ قربانی بےکار ہے کیونکہ یہاں مقصود بدل جاتا ہے۔ غرض: خدا کے حضور ''اہراق الدم''،''خون بہانا'' ہے اگر اس کے بجائے کھانے کی بے چینیاں مچلے لگی ہیں تو پھر سامنے پیٹ ہی آگیا خدا کے حضور نذرانہ نہ رہا۔
(3)چار بھائی باری باری دیں:
اس کی کیفیت بھی سوال (2) جیسی ہے ۔ یعنی بظاہر اس سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ اس ''باری باری'' کے پس پردہ بھی ''گوشت'' کھانے کا جذبہ ہے کہ چار دن اور سلسلہ جاری رہ سکے اور تازہ بتازہ ۔ اس لیے اس کا جواب بھی وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا ہے کہ اس میں قربانی کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہے ہاں انتظامی قسم کا تقاضا پیش ہوتو پھر او ربات ہے:
''إنما الأعمال بالنیات'' (حدیث)
بہتر ہے کہ حسب حال اپنے وقت پر ان سب کو ہوجانا چاہیے اس سے ایک تو گوشت غرباء تک زیادہ سے زیادہ پہنچ سکے گا او ردوسرا ''اہراق الدم'' (خون بہانے) سے جواصل مطلوب ہے وہ حاصل ہوجائے گا او روہ خون بہا کر راہ خدا میں نذرانہ عقیدت اور جذبات فدویت کا ہدیہ پیش کرنا ہے۔
لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ (پ17، الحج ع5)
''خدا تک نہ تو ان کے گوشت پہنچتے ہیں او رنہ ان کے خون بلکہ اس تک تمہاری طرف سے تمہارا تقویٰ ہی پہنچتا ہے۔''
''تقوے'' کا لفظ اپنے اندر بڑی گہری تلمیح رکھتا ہے یعنی اس دن''گوشت'' کے تصور کی مستی طاری نہیں ہونی چاہیے کیونکہ خدا کے حضور اپنی قربانی کا نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے ان پرخشیت کی جو کیفیت طاری ہوسکتی ہے خدا کی نگاہ صرف اس پر ہوتی ہے ۔ دراصل یہ قربانی اپنے اندر (1)ایک عظیم تاریخ (2) عظیم پس منظر اور (3) ایک عظیم پیش نظر رکھتی ہے۔ یعنی (1) یہ خلیل کا خدا کے حضور اپنی ''خلّت'' کا ثبوت پیش کرنا ہے (2) اب دل دھڑکتا ہے کہ کہیں قربانی رد نہ ہوجائے۔ نام و نمود یا مادی لالچ کی آمیزش سے وہ ضائع نہ ہوجائے (3) او ریہ مال، اولاد کی قربانی کا بدل ہے اب یہ صورت ادعا کی بن گئی ہے کہ مال و اولاد او رجان تک دینے کی ضرورت پڑی تو اے خدا، دریغ نہیں کیا جائے گا۔
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (162) لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ کا یہی مفہوم ہے۔
خصوصاً ''لا شريك له'' کے دعوے نے تو دوسری ان تمام تحریکات کی نفی کردی ہے جوکسی بھی درجہ میں''رضاء الہٰی، تہیا فددیت اور نذرانہ عقیدت کے جذبات میں مخلوط ہوسکتی ہے۔ اس لیے اگر قربانی کے جانور کو اس ''باری باری'' سے آزاد رکھا جائے تو یہ بات ''اخلاص اور احسان'' کے جذبے سےقریب تر ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ او ریہی مناسب ہے ۔سال بھر گوشت کھاتے رہتے ہیں|۔ آج اگر خدا کے حضور گوشت کے تصور کے بجائے پوری خشیت اور جذبہ حنیفیت کے ساتھ اس کی خوشنودی کو ہی ملحوظ رکھنے پراپنے جذبات کو انگیخت کیا جائے تو کیا ہی بہتر ہے۔کیونکہ ادھر سے کچھ اسی قسم کی آوازیں آرہی ہیں۔
''باری باری'' کےبجائے اگر اپنی ایک سے زیادہ قربانیوں کوایک ہی میں قربانی کردے، اسی طرح اگر چند بھائی باہم باری دینے کے بجائے سب بھائی ایک ہی دن میں قربانی دے دیں تو اس دن زیادہ سے زیادہ غرباء اور مساکین بھی استفادہ کرسکیں گے کیونکہ اس طرح ایک ہی گھر کے لیے گوشت کو سنبھالنا ویسےبھی مشکل ہوجائے گا۔ سنبھالنا ممکن ہو بھی جائے تو بھی اتنے وافر گوشت کی وجہ سے ضرور ہی دل بھر جائے گا اس سے غریبوں کوبہت کچھ مل جائے گا ۔ حضورﷺ نے پہلے ذخیرہ کرنےاو ربچا کررکھنے سے منع کردیا تھا کیونکہ غرباء رہ جاتے تھے، جب ان کو بھی وافر مل جانے لگا تو آپؐ نے فرمایا کہ اب بچا کر رکھ سکتے ہو۔
''عن سلمة بن أکوع رضی اللہ عنہ قال النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من ضحیٰ منکم فلا یصبحن بعد ثالثه وفي بیته منه شيء فلما کان العام المقبل قالوا یارسول اللہ نفعل کما فعلنا الماضي قال کلوا وأطعموا وادخروا فإن ذلك العام کان بالناس جھد فأردت أن تعینوا فبها'' (رواہ البخاري باب مایؤکل من لحوم الأضاحي فوق ثلاث لیتسع ذوي الطول علی من لاطول له ترمذی:1؍182)
ہمارے نزدیک وہ سب لوگ محتاج ہیں جو اس دن قربانی دینے کی سکت نہیں رکھتے، اگر اس دن بھی وہ گوشت سے محروم رہا یا ان کو کچہ ملے بھی تو ''حسرتوں'' کو مہمیز کرنے کے لیے تو اس دن قربانی دینے والے خدا کےہاں جواب ہوں گے۔ قرآن حکیم نے صاف اعلان کیا ہے کہ:
فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ(پ 17۔ الحج ع5)
''پھر جب وہ کسی پہلو پر گر پڑیں او رٹھنڈے ہوجائیں ،تو اس میں سے آپ بھی کھائیں اور سفید پوشوں اور منگتوں کوبھی کھلائیں۔''
قرآن حکیم میں یہ کہیں نہیں ہے کہ برابر حصے کرو۔ بلکہ یہ ہے کہ ان سے تین لوگ فائدہ اٹھائیں، (1) قربانی دینے والے (2) غیر مستطیع، سفید پوش اور (3) سوالی لوگ|۔ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ گھر کے دو تین افرا دمحلہ بھر کے سفید پوشوں او رسوالی حضرات کی اتنی بھیڑ کے مقابلے میں برابر کے حصہ دار بن جاویں، کیونکہ یہ قربانیاں اب خدا کی ہیں، قربانی دینے والے کی نہیں ہیں، ان کا تعلق ان سے صرف اتنا ہے کہ انہوں نے قربانی دی ہے۔ جیسے زکوٰۃ ، کہ اد اکرنے کے بعد وہ اب خدا کی بن جاتی ہے، ان کا نام صرف اتنا رہ جاتا ہے کہ انہوں نے زکوٰۃ دی ہے۔ آیت میں صرف اتنا ہے کہ آپ بھی کھا سکتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ ضرورت مند کی موجودگی میں آپ سارا ہڑپ کرسکتے ہیں یا ان کے مساوی آپ بھی برابر کے تین حصے کرسکتے ہیں حاشا وکلا۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ آپ کے لیے اس سے استفادہ ممنوع نہیں ہے۔ اگر متعلقہ حلقہ میں ضرورت مندوں میں تقسیم کرنے پر صرف ایک ہی دن اورایک ہی ٹائم کے لیے آپ کے لیے سالن بن سکتا ہے تو پھر اتنے ہی پر اکتفا کیا جائے اور اتنا اتنا گوشت جتنے ضرورت مندوں تک آپ پہنچا سکتے ہیں آپ ضرور پہنچائیں اگر اب بھی کچھ لوگ بچ جائیں تو پھر آپ کی ذمہ داری ختم۔ ہاں یہ بات یاد رہے کہ ہمارے نزدیک گوشت سے غرباء کی تواضح ایک ضمنی ضرورت ہے اصل بات یہ ہ ےکہ وہ ایک فریضہ ہے اور وہ خدا کے حضور قربانی کے جانور کا خون بہانا ہے۔ ورنہ حج کے دنوں میں جہاں اکثر قربانیاں ''دفن کردی جاتی ہیں'' تو وہاں قربانی بالکل نہ کی جاتیں حالانکہ منکرین حدیث کے سوا اس کا اور کوئی شخص قائل نہیں ہے اس لیے بنیادی طور پر ہو یا ضمنی حیثیت سے، بھلا اسی میں ہے کہ ''باری باری '' دینے سے پرہیز کیا جائے تاکہ نذرانہ بے داغ رہے۔ واللہ اعلم!
(4) عید کے دو خطبے:
اس کا بھی وہی مسئلہ ہے جو جمعہ کے خطبے کا ہے۔ درمیان میں قدرے بیٹھ کر پھر دوبارہ خطبہ دیا جائے ۔ مندرجہ ذیل حدیث سے یہی بات مترشح ہوتی ہے:
''عن سعد بن أبی وقاص أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی العید بغیر أذان ولا إقامة وکان یخطب خطبتین قائما یفصل بینها بجلسة (مسند بزار) وقال النسائي في کتاب العیدین: الجلوس بین الخطبتین والسکوت فيه عن جابر بن سمرة قال رأیت النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یخطب قائما ثم یقعد قعدة لا یتکلم فیها ثم قام فخطب خطبة أخریٰ الحدیث (1؍188) وقال القراءة في الخطبة الثانیة والذکر فیها: عن جابر بن سمرۃ قال کان النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یخطب قائما ثم یجلس ثم یقوم و یقرأ '' (1؍189)
گویا کہ امام نسائی ان روایات سے عیدین کے لیے بھی دو خطبے مستنبط فرماتے ہیں:
''عن جابر قال خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوم فطر او أضحٰی فخطب قائما ثم قعد قعدة ثم قام '' (ابن ماجہ باب ماجاء في الخطبة في العیدین)
اس کا ایک راوی اسماعیل بن مسلم مکی خولانی ہے ، جو ضعیف ہے اس پر اعتراض ہے کہ اس کے حافظہ میں خرابی پیدا ہوگئی تھی۔
''قال یحییٰ کان لم یزل مختلطا'' (میزان)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
''کان فقیها ضعیف الحدیث من الخامسة '' (تقریب)
محشی، صاحب تقعیب التقریب اس پر لکھتے ہیں:
''ضعیف الحدیث أي في حفظه'' (تقعیب)
اس کا دوسرا راوی ابوبحر ہے جس کا نام عبدالرحمٰن ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
''ضعیف من التاسعة'' (تقریب) لیکن علماء نے اس سے اتفاق نہیں کیا، ان کا کہنا ہے کہ ایک فقہی نظریہ کی بنا پر اس پر طعن کیا گیا ہے۔ ورنہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے:
أقول لأنه روی حدیث النبیذ وأھل البصرة تدینوا بتحریم النبیذ...... فظهر أن من تکلم فيه إنما تکلم لحدیث النبیذ فالصواب أنه لابأس به'' (تقعیب التقریب)
اب اعتراض صرف اسماعیل بن مسلم کا رہ جاتا ہے لیکن دوسرے شواہد سے اس کی بھی تلافی ہوجاتی ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں، عیدین کے دن دو خطبہ مسنون ہیں:
''عن ابن مسعود أنه قال السنة أن یخطب في العیدین خطبتین فیفصل بینھما لجلوس'' (نصب الرایہ: 2؍221)
امام نووی فرماتے ہیں، یہ منقطع روایت ہے۔ ''ضعیف غیر متصل'' (نصب الرایہ:2؍221) جیسا کہ عنقریب تفصیل آئے گی ، مرسل ضعیف بھی ہو توبھی تقویت کے لیے کافی ہوتی ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ کے خاندان کے ایک فرد حضرت عبیداللہ بن عتبہ فرماتے ہیں، عیدین کے لیے مسنون دو خطبے ہیں:
''السنة أن یخطب الإمام في العیدین خطبتین یفصل بینهما بجلوس'' ( مسند الشافعی)
اس میں امام شافعی کے استاذ ابن ابی یحییٰ ہیں جوبہت ہی ضعیف ہیں۔
مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ عید کے دن منبر پر تکبیر کہنا سنت ہے۔نو تکبیریں کہنے پر خطبہ شروع کرے پھر دوسرا خطبہ سات تکبیروں سے شروع کرے:
''السنة التکبیر علی المنبر یوم العید یبدأ خطبة الأولیٰ بتسع تکبیرات قبل أن یخطب و یبدأ الآخرة بسبع'' (مصنف عبدالرزاق باب التکبیر فی الخطبۃ: 3؍291)
لیکن اس میں بھی وہی ابراہیم بن یحییٰ ہیں اس لیے یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ ہاں ابن ابی شیبہ میں جو روایت آئی ہے وہ اس .....؟؟..... ہے اس میں ہے۔
حدثنا أبوبکر قال حدثنا وکیع عن سفیان عن محمد بن عبدالرحمٰن القاری عن عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبة قال من السنة أن یکبر الإمام علی المنبر علی العیدین تسعا قبل الخطبة و سبعاً بعدھا (مصنف ابن ابی شیبة:3؍190 باب فی التکبیر علی المنبر )قال الشوکاني : ولیس قول التابعي ''من السنة'' ظاهراً في سنة النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (نیل:2؍259) ولکن قال الحافظ و نقل ابن عبدالبر، فيه الاتفاق قال وإذا قالها غیرالصحابي فکذلك (أی فھو مرفوع نزھة النظر صفحہ 79) وقال في الفتح، وأجیب باب قول عروة وھوتا بعي ''السنة کذا'' وإن قلنا أنه مرسل علی الصحیح'' (فتح الباري باب خطبة الإمام في الکسوف :4؍562)
بیہقی کی روایت کے یہ الفاظ ہیں:
''السنة أن تفتح الخطبة بتسع تکبیرات تترے والثمانیة بسبع تکبیرات تترے (بیہقی) ابن ابی شیبہ اور بیہقی کے اسانید مختلف ہیں۔
قال الحافظ ورواہ ابن ابی شیبة من وجه آخر عن عبیداللہ (تلخیص الحبیر صفحہ 145)
صحابی یا تابعی کا ''من السنة'' کہنا، حدیث مرفوع کے حکم میں ہوتا ہے۔ قال الزیلعي ''واعلم أن لفظة السنة یدخل في المرفوع عندھم قال ابن عبدالبر في التقصي: واعلم أن الصحابي إذا أطلق اسم السنة فالمراد به ''سنة النبي'' صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و کذٰلك إذا أطلق غیرہ مالم یضعف إلی صاحبھا کقولھم ''سنة العمرین'' و ما أشبه ذٰلك'' (نصب الرایۃ:1؍314)
یہ وہ روایات اور آثار ہیں جو مجموعی لحاظ سے حسن لغیرہ کے درجہ میں ہیں کیونکہ ابن ماجہ والی روایت میں اسماعیل بن مسلم پر جو جرح کی گئی ہے، وہ ان کے حافظہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اصول حدیث میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ اگر ایسی روایت کی تائید کسی دوسری روایت سے بھی ہوجائے تو وہ حسن (لغیرہ) ہو جاتی ہے مثلاً ایک دیانت دار اور صدوق راوی کا حافظ کمزور ہو تو ایک اور طریقے سے ایک اور روایت آجائے۔
''بل ماکان ضعفه لضعف حفظ راويه الصدوق الأمین زال لمجیئه من وجه آخر و صارحسنا (تقریب النواوی صفحہ 103) حدیث الضعیف للفسق لا یرتقي بتعدد الطرق إلی الحجیة ولغیره یرتقي'' (التحریر صفحہ 318)
خواہ وہ دوسری روایت ضعیف بھی ہو۔
''إذا وجدله طریق آخرفيه ضعف قریب محتمل ارتقی لمجموع ذالك إلی درجة الحسن (تدریب صفحہ 104) وکان دون الحسن لذاته'' (تدریب)
او رحسن لغیرہ حجت ہوتی ہے:
''قال السخاوي في فتح المخیث: ''من الحسن لغیره یلحق فیما یحتج به لکن فیما تکثر طرقه (قواعد التحدیث صفحہ 90) ولووجها واحد اکما یشیر إليه تعلیل ابن الصلاح''(تدریب)
اگر ضعیف تدلیس یا جہات او رارسال کی بنا پر تو وہ اگر دوسری سند سےآجائے خواہ وہ ویسی ہی ہو تو بھی ضعف منجبر ہوجاتا ہے۔
''وکذا إذا کان ضعفه الإرسال زال بمجیئه من وجه آخر'' (تقریب للنواوی)
امام سخاوی فرماتے ہیں کہ اس کے یہ معنے نہیں کہ یہ ''ضعیف روایت'' سے حجت پکڑی گئی ہے۔بلکہ یہاں احتجاج مجموعی حیثیت سے ہے۔یسے ایک مرسل، دوسری مرسل سے خواہ وہ ضعیف بھی ہو، تائید ہوجائے تو وہ قابل احتجاج ہوجاتی ہے:
''ولا یقتضي ذلك الاحتجاج بالضعیف فإن الاحتجاج إنماھوبا لھیئة المجموعة ما کالمرسل حیث اعتضد بمرسل آخر ولو کان ضعیفا کما قاله الشافعي والجمهور'' (قواعد التحدیث صفحہ 90)
کیونکہ اس سے یہ ظن قوی ہوجاتا ہے کہ اب راوی کے حافظہ نے خطا نہیں کی:
''وعرفنا بذٰلك أنه قد حفظه ولم بختل فيه ضبطه'' (تدریب الراوی صفحہ 103) وقال ابن الھمام بخلافه بسوء الحفظ لأنه لوھم الغلط والتعدد یرجع أنه أجادفيه فیرتفع المانع (التحریر فی اصول الفقہ لابن الھمام صفحہ 318) فاذا روینا مارواہ قدجاء من وجه آخر عرفنا أنه مما قد حفطه ولم یختل فيه ضبطه له وکذٰلك إذا کان ضعفه من حیث الإرسال زال بنحوذٰلك(علوم المحدیث لابن الصلاح صفحہ 14)
بہرحال ضعاف کی تائید مرسل سے ہوتی ہے او رمرسل کی ضعیف ہے، اس کے علاوہ تعدد طرق او رعموم کی تائید بھی اس کو حاصل ہے۔ امام نسائی کے صینع سے معلوم ہوتا ہے کہ دو خطبہ حضورﷺ کے خطبوں کے معمولات میں سے تھے۔''کما مر'' باقی رہیں خطبہ کے دوران یا پہلے یا آخر میں تکبیریں؟ ہمارے نزدیک ''اقرب الی الصواب'' ان کا پڑھنا ہی ہے۔ دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھنا، برائے فصل ہے یا استراحت؟ اس میں اختلاف ہے صحیح پہلا قول ہے۔
''واختلف في حکمتھا فقیل للفصل بین الخطبتین وقیل للراحة..... (والأول) ھو أظهر'' (فتح :4؍399)
گاؤں یا اس سے باہر عیدین:
حافظ ابن حجر نے امام شافعی کے ایک قول سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شہر یا مسجد سےباہر جاکر نماز عید پڑھنا محض جگہ کی تنگی کی وجہ سے تھا۔اگر سمائی ہوسکے تو یہ شہر او رمسجد میں پڑھی جائے تو اولیٰ ہے۔
''ثم أشار (أي الشافعي أن سبب ذٰلك سعة المسجد و ضیق أطراف مکة قال ....... في الأعیادلم أرأن یخرجه أمة فإن کان لا یسعھم کرھت الصلوٰة فيه وإلا إعادة و مقتضي ھذا أن العلة تدور علی الضیق والسعة لا لذات الخروج إلی الصحراء لأن المطلوب حصول عموم الاجتماع فإذا حصل في المسجد مع أفضلیته کان أولیٰ'' (فتح الباری:ج4ص521)
لیکن اس پس منظر اور فلسفہ کےلیےروایات میں کوئی لفظ نہیں ملتا او رنہ ہی سیاق کلام سے ایسی کوئی بات مترشح ہوتی ہے۔ اس کے بجائے اگر یہ کہا جائے کہ چار دیواری سے نکل کر جنگلوں، فضاؤں اور صحراؤں کو بھر دینے سے شوکت اسلام او راہل اسلام کی نمائش بھی مقصود ہے، اس کے علاوہ عبادت او رذکر الٰہی سے بےکراں فضاؤں کومعمور کرنے کے لیے ایک مناسب تقریب بھی ہے، توبہتر ہے۔
بہرحال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور بعد میں خلفائے راشدین نے اس طرز عمل پر مداومت کرکے اس کی اس ''انتطامی ضرورت'' کی نفی کردی ہے جس کی فتح الباری میں نشاندہی کی گئی ہے۔ حکمت یہ ہے کہ صحراؤں میں جاکر حضورﷺ نماز عید پڑھا کرتے تھے۔ آپؐ کا یہ اسوہ حسنہ ہمارے نزدیک تمام حکمتوں سے بالاتر ہے۔
''واستدل به علیٰ استجاب الخروج إلی الصحراء لصلوٰة العیدوإن ذلك أفضل من صلاتھا في المسجد لمواظبة النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علیٰ ذلك مع فضل مسجده ''(فتح الباری صفحہ 521)
صحیح اور اصلی حکمت یہی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰ|ۃ والسلام کا یہی تعامل رہا ہے ۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ بات جگہ کی تنگی داماں کانتیجہ تھی یا فرض و واجب ؟ ہم تو وہی بات کہیں گے جو حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ایک سائل کے اس جواب میں کہی تھی : ''کیا قربانی فرض ہے؟'' تو آپؐ نے جواب دیاکہ: ''حضورؐ نے قربانی دی او رسب مسلمانوں نے بھی'' اس نے پھر بتکرار یہ سوال کیا تو آپؐ نے پھر یہی جواب دیا۔
''أَوَاجِبَةٌ هِيَ؟ فَقَالَ: ضَحَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمُسْلِمُونَ، فَأَعَادَهَا عَلَيْهِ، فَقَالَ: أَتَعْقِلُ؟ ضَحَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمُسْلِمُونَ.'' (رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث حسن صفحہ 182)