زکوٰۃ و ٹیکس کی شرعی حیثیت

شمارہ ہذا میں دو مقالے ''زکوٰۃ و ٹیکس کی شرعی حیثیت'' کے بارے میں شائع کیے جارہے ہیں جومحکمہ زراعت پنجاب کے شعبہ اطلاعات لاہورکے زیراہتمام مجلس مذاکرہ میں پڑھے گئے۔ اگرچہ دونوں مقالہ نگار پروفیسر منظور احسن عباسی اور ڈاکٹر عبدالرؤف صاحبان اسلام کے پُرخلوص شیدائی ہیں لیکن اپنے افکار میں زکوٰۃ و ٹیکس کو دو مختلف حیثیتوں سے دیکھ رہے ہیں۔ محدث کےمدیراعلیٰ نے اسی مذاکرہ میں اسلام کے معاشی نظام کے بعض پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئے دونوں حضرات کے خیالات کا جائزہ بھی لیاتھا۔جو محدث کی کسی قریبی اشاعت میں پیش خدمت ہوگا۔ انشاء اللہ!

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

جناب صدر و معزز حاضرین !

انسان کے اشرف المخلوقات ہونے سے کسی کو انکار نہیں بلکہ کوئی شخص انکار کر ہی نہیں سکتا کیونکہ ہم اپنی برہنہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ ملائکہ افلاک سے لے کر حشرات الارض تک ہر فرد اپنی بقائے شخصی و نوعی کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس سے ماورا ایک اور صلاحیت ، جسے ہم ارتقائی صلاحیت کہتے ہیں، بجزانسان کے کسی اور مخلوق میں نہیں ہے۔ اجرام و جمادات کا تو ذکر ہی کیا نہ کوئی فرشتہ اپنی صلاحیتوں میں ترقی کرسکا اور نہ کوئی جانور اپنے وظائف حیات میں کوئی تبدیلی لاسکا۔ چنانچہ ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے مثلاً بیا کا گھونسلا حیرتناک صناعی کے باوجود اب بھی وہی ہے جو ہزار سال پہلے تھا لیکن انسان پتھر اور دھات کے زمانے سے گزر کر اب برقی او رجوہری عہد سے گزر رہا ہے اور آئندہ نہیں...... معلوم، انسان ارتقائی منازل کا آخری زینہ کون سا ہو۔ ؎
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سےکیا ہوجائے گی!

انسان کی ارتقائی صلاحیتیں خواہ کسی نوعیت کی ہوں اپنی تقویت یا تکمیل کے لیے چار قوتوں کی محتاج ہیں یعنی تندہی، استقامت، ایثار ، عزم، عہد حاضر کے دانشمند اسے
1.SUBNAISSION.
2.PATIENCE.
3. SACREFICE.
4. RESOLUTION.

کہتے ہیں۔ ہماری دینی اصطلاح میں اسے خضوع ، صبر، صدقہ اور یکجہتی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ انسان کی تمام مادی او رروحانی ارتقا کا راز یا روح حیات ان ہی چار صلاحیتوں پر منحصر ہے او رہماری عبادتیں ان ہی محاسن کی مظاہر ہیں۔ چنانچہ نماز کی تکمیل خضوع و خشوع پر ، روزے کی تکمیل صبرو استقامت پر، زکوٰۃ کی تکمیل صدقہ و ایثار پر او رحج کی تکمیل عزم و اعتماد پر موقوف ہے۔اللہ تعالیٰ کے تمام ارشادات (یا قرآن حکیم) او ررسول اللہ ﷺ کی جملہ تعلیمات (یا احادیث) کا مرکز ثقل یہی ہے۔

حیات انسانی کی ان چہارگانہ صلاحیتون کی صحت کا دارومدار ایک اور شے پر ہے جسے وحدانیت و تصور آخرت کہا جاتاہے۔ یعنی جب تک کہ ان اعمال صالحہ کے ساتھ توحید الہٰی کا تصور نہ ہو۔نماز، روزہ، زکوٰۃ او رحج سب بے معنی او ربے اثر ہیں۔ قرآن حکیم میں ''ریاء'' کی مذمت نہایت شدت سے آتی ہے کیونکہ ریاء توحید الہٰی کے منافی ہے۔ ریاء اللہ کے تصور کو مٹا کر غیر اللہ کے تصور کو ابھارتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اہل ریاء کی عبادتوں کا مقصد، عبادت الہٰی کے مفہوم سے بالکل جداگانہ ہے۔ عبادات میں اگر محض طاعت حق پیش نظر نہ ہو بلکہ کوئی اور مقصد ہوتو وہی مقصد انسان کا معبود بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسلام کے ارکان خمسہ میں تصور توحید کو سب پرمقدم رکھا ہے۔مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اعمال صلوٰۃ کونہایت خوش اسلوبی سے انجام دے لیکن پیش نظر مقصد صبح خیزی کی عادت ڈالنا، پابندی وقت ، پاکیزگی جسم، ہلکی ورزش، مسجد تک چہل قدمی او راہل محلہ یا اہل شہر سے ملنا جلنا، باہمی ہمدردی او رمحبت و اخلاص او رنیک نیتی کے ساتھ جذبہ ہمدردی کو فروغ دینا ہو تب بھی اس سے نماز کے مادی فوائد تو حاصل ہوسکتے ہیں لیکن روحانی برکات، جو نماز کا اصل مقصد ہے، وہ ہرگز حاصل نہ ہوگا۔ کیونکہ نماز کا حکم ان مقاصد میں سے کسی مقصد کے لیے نہیں ہے۔کسی دینی عمل کے مادی نتیجے کو مقصد قرار دینا اسلامی نظریہ کے منافی ہے نماز ہم صرف اس لیے پڑھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہر حکم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی مادی فلاح بھی ملحوظ رکھی ہو۔ جیسا کہ قرآن حکیم کی متعدد آیتوں سے مترشح ہوتا ہے ۔ یہی حال دوسری عبادات کا بھی ہے۔

ملت اسلامیہ پاکستان کے ستر دانش مندوں نے جن میں بعض مستند علماء و رہنما بھی شامل ہیں اسلامی عبادات کی برکات و فیوض کی تفصیلات بیان کی ہیں او ران کو موجودہ وقت کے تقاضوں کا قطعی او رمکمل حل بتایا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن حکیم کے حکم اقامت صلوٰۃ کے معنی نظام زکوٰۃ کا قائم کرنا بتایا گیا اور اس نظام صلوٰۃ کے قیام کو جملہ امور معاشی، معاشرتی، اقتصادی او رسیاسی اداروں کی بنیاد قرار دیا او راسی کے ساتھ ہی حفظان صحت کے محکموں....... کارخانوں او ربہم رسائی آب کے وسائل کومنسلک فرمایا۔ جس سے ان اصحاب کی عقیدت مندی او رنیک نیتی کا اظہار تو ضرور ہوتا ہے لیکن یہ یقین کرنا مشکل ہوگا کہ فی الواقع نماز پڑھنے سے یہ مسائل حل ہوجائیں گے۔ اگر فی الواقع نماز کا اعجاز ان مسائل کو حل کر بھی دے تو یہ تصور قطعاً ناروا خوشی فہمی ہے کہ نماز کے سوا کوئی اور ذریعہ ان مقاصد کا حل نہیں ہے۔ اگر اس کے دوسرے ذرائع بھی ہیں تو اللہ کے حکم اور خود ساختہ مادی وسائل میں فرق کرنے کی کیا ضرورت رہے گی؟

معزز جناب صدر و حاضرین1 اب تک جو کچھ میں نے عرض کیا، اس کی بظاہر عنوان مدعا سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ مجھے یہاں اسلامی حکم زکوٰۃ پر کچھ عرض کرنا تھا لیکن اس طوالت تمہید سے میری غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جملہ احکام کو اس کی معبودیت کی روشنی میں دیکھنا ہی اصل بندگی و عبادت ہے اس کے علاوہ کسی اور جہت سے احکام الٰہی کی اہمیت کم تو نہیں ہوتی لیکن اصل مقصد سے دور کردیتی ہے۔

زکوٰۃ کے بارے میں صرف ایک نکتہ کو بہرحال پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ زکوٰۃ کا حکم بھی نماز کی طرح ایک عبادت ہے۔ اس عبادت کی بجاآوری خواہ ہمارے تمام معاشرتی مسائل کو حل کردے یا کسی حیثیت سے کہیں اس میں خلا رہ جائے، تب بھی یہ بہرحال واجب العمل ہے۔ اس کے بعد وہ تمام بحث کہ آیا نظام زکوٰۃ قوم کی غربت و افلاس کے مسائل کو کہاں تک حل کرسکتا ہے، عبث ہے۔ پھر اس سلسلہ میں اس امر پراظہار اطمینان کرنا کہ زکوٰۃ کی رقم موجودہ ٹیکسز کی رقم سے کئی گنا زیادہ ہوگی اسی طرح بیجا ہے جس طرح اقامت صلوٰۃ کے بعد ٹیکسٹائل ملز کو فروغ حاصل ہونے کی توقع بیجا ہے۔ آیا کوئی مسلمان ادائیگی زکوٰۃ کرتے ہوئے یہ کیوں سوچے کہ اس کے بعد کہاں تک ملک کا افلاس دو رہوجائے گا اگر بالفرض وصول زکات کے بعد بھی ملک افلاس کا شکا ررہے تو کیا حکومت کے لیے روا ہوگا کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے گی کہ کہین سے زکوٰۃ آئے، تب ہی یہ مسئلہ حل ہو۔ صدر مملکت نے اپنے بیان میں جویہ کہا ہے کہ زکوٰۃ کے ساتھ دوسرے ٹیکسز بھی عائد رہیں گے اس کا یہی مطلب ہے۔ ادائیگی زکات کے لیے حکومت کے نظام کا یہ مقصد ہے کہ ہر شخص نماز کی طرح زکوٰۃ بھی ادا کرے او روصول شدہ زکوٰۃ صرف مستحقین تک پہنچائے یا اس امر کا اطمینان کرے کہ صاحب نصاب نے خود زکوٰۃ مستحق شخص کو ادا کردی ہے۔

فریضہ زکوٰۃ کے متعلقہ مسائل کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔ تاہم چنداہم نکات کا ذکر مناسب ہوگا۔ مثلاً:

1۔ کن اشخاص پر زکوٰۃ واجب ہے؟

2۔ کن اشیاء (مال) پر او رکس قدر واجب ہے؟

3۔ کن اشخاص کو زکوٰۃ لینے کا حق ہے؟

زکوٰۃ ہر اس مکلف مسلمان پر واجب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مال کا مالک بنایا ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَمِمّا رَ‌زَقنـهُم يُنفِقونَ ﴿٣﴾... سورة البقرة" کے یہ معنی ہیں۔ آنحضرتﷺ نے اپنے حجۃ الوداع کے شہرہ آفاق خطبہ میں واشگاف الفاظ میں فرمایا:«أدوا زکوٰة أموالکم» (یعنی لوگو! اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کیا کرو۔)

اموال زکوٰۃ میں یہ اشیاء داخل ہیں:

1۔ سونا، چاندی او ران کی مصنوعات۔

2۔ ہرگونہ اموال تجارت۔

3۔ پالتو جانور۔

زراعت اور درختوں سے پیدا ہونے والی اجناس او رپھل، شریعت اسلامیہ میں ان جملہ اشیاء زکوٰۃ کی وہ مقدار محدود بتا دی گئی ہے جس پر زکوٰۃ واجب ہے۔ اس طرح وہ وقت بھی متعین فرمایا گیا جب کہ زکوٰۃ واجب الادا ہوجاتی ہے۔

مثلاً سونے کی مقدار ساڑھے سات تولہ یا چاندی کی مقدار ساڑھے باون تولہ ہے۔ یہ مقدار یا اس سے زیادہ سال بھر تک مالک کے قبضہ میں رہی ہو، تو اس کا 1؍40 حصہ زکوٰۃ میں دیا جائے گا او راس قیمت کے مال تجارت پربھی اس عرصہ کے بعد زکوٰۃ عائد ہوگی اس مقدار کو نصاب کہتے ہیں۔ اونٹ کانصاب کم سے کم 5، گائے بیل وغیرہ کا 30 او ربھیڑ بکریوں کا 40 ہے۔

زرعی پیداوار کا نصاب میرے حساب کے بموجب کم و بیش 20من ہے او ربموجب آیت قرآنی ''واٰتو احقہ یوم حصادہ'' یہ زکوٰۃ،جسے عشر کہتے ہیں، اسی روز واجب الادا ہوجاتی ہے جس روز فصل کاٹی جائے۔ شریعت اسلامیہ نے ان تمام احکام کے عملی اقدامات کی ہر امکانی مشکل کو حل کردیا ہے او راب یہ صورت ہے کہ کتاب و سنت کی روشنی اور فقہائے ملت کی رہنمائی میں اس پر عمل پیرا ہونے کے دستور العمل کو قانونی شکل دی جاسکتی ہے۔

اسلامی نظام عشر وزکوٰۃ کو عہد حاصر کی اصطلاح میں اسلام کے اقتصادی نظام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس عاجز کو اس اصطلاح سے چڑ نہیں ہے لیکن میں اس کو عبادت الہٰی کے خالص دینی مفہوم سے کم درجہ کی حیثیت میں سمجھتا ہوں کیونکہ اسلامی نظام اقتصاد کے مفہوم میں وہ عظمت پس منظر میں چلی جاتی ہے جو عبادت زکوٰۃ کے مفہوم میں ہے۔

معزز حضرات! آپ اسے کم فہمی کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن بری بدگمانی دیکھئے کہ ملک کے دانشور حکم زکوٰۃ کو ایک بہترین اقتصادی نظام قرار دے کر اس کی جس قدر زیادہ تعریف کرتے ہیں، مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی آئینی یا جمہوری مملکت کے اقتصادی نظام کا قصیدہ مدحیہ پڑھ رہے ہوں۔ نظام زکوٰۃ کے مداحوں کی تقریر او رمضامین اکثر نہایت شوق سے سنتا اور پڑھتا ہوں او ربے ساختہ سبحان اللہ بھی کہہ دیتا ہوں کیونکہ یہ اصحاب نہایت وضاحت سے یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ نظام زکوٰۃ انسانی ہمدردی اور بنی نوع انسان کی بہبود کا ضامن ہے، جہالت اور غربت کا علاج ہے۔ سرمایہ داری اور ذخیرہ اندوزی کا دشمن ہے اور انسان کے بنیادی حقوق کا محافظ ہے ، وغیرہ۔ لیکن محاسن زکوٰۃ کی اس فہرست میں اس عاجز کی نظر سے زکوٰۃ کی وہ صفت کہیں نہیں گزری کہ یہ عمل خیر سب سے زیادہ خود زکوٰۃ گزار کو ہلاکت سے بچاتا ہے۔ حالانکہ قرآن حکیم میں زکوٰۃ کی یہی صفت آئی ہے کہ ﴿وَأَنفِقوا فى سَبيلِ اللَّهِ وَلا تُلقوا بِأَيديكُم إِلَى التَّهلُكَةِ وَأَحسِنوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُحسِنينَ ﴿١٩٥﴾... سورة البقرة'' کہ ''راہ خدا میں خرچ کرو او راپنی ہستی کو ہلاک ہونے سے بچاؤ، احسان کرو، اللہ احسان کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔''

﴿وَما تُنفِقوا مِن خَيرٍ‌ فَلِأَنفُسِكُم...٢٧٢﴾... سورة البقرة

''یعنی وہ خیرات جوتم دو گے اس میں تمہارا اپنا ہی فائدہ ہے۔''

﴿خُذ مِن أَمولِهِم صَدَقَةً تُطَهِّرُ‌هُم وَتُزَكّيهِم بِها...١٠٣﴾... سورة التوبة'' یعنی لوگوں کےمال میں سے خیرات وصول کیجئے اس سے آپ انہیں پاک او رپاکیزہ صفت بنا دیں گے۔''

قرآن حکیم میں جابجا زکوٰۃ کی تحسین فرمائی گئی ہے لیکن اس کے فوائد و برکات کا کہیں بھی وہ ذکر نہیں ہے جو عہد حاضر کے دانشمند بیان کرتے ہیں اور عجیب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی صفات کا ذکر نہیں فرماتے۔ سورہ بقرہ کے سترہویں رکوع میں مال مکسوبہ کی زکوٰۃ اور پیداوار کے عشر کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد ہےکہ : ﴿الشَّيطـنُ يَعِدُكُمُ الفَقرَ‌ وَيَأمُرُ‌كُم بِالفَحشاءِ وَاللَّهُ يَعِدُكُم مَغفِرَ‌ةً مِنهُ وَفَضلًا...٢٦٨﴾... سورة البقرة"یعنی ''شیطان بہترین اشیاء کی خیرات کرنے والے کو بہکاتا ہے کہ تم محتاج ہوکر رہ جاؤ گے حالانکہ اللہ کا وعدہ یہ ہےکہ اس سے تمہارے گناہوں کی مغفرت ہوگی اور اللہ کا فضل شامل حال ہوگا۔''یعنی اس آیت میں بھی عوام کی بہبود سے قطع نظر خود خیرات کرنے والے کو مغفرت و فضل کی بشارت دی گئی ہے۔

الغرض قرآن حکیم میں اس مفہوم کی متعدد آیات ہیں۔ جن میں زکوٰۃ دینے والے کی اپنی بہبود کا ذکر ہے او ران برکات و فوائد کا ذکر کہیں بھی نہیں ہے جو عہد حاضر کے دانشمند بیان کرتے ہیں۔

محترم حضرات! اس سلسلہ میں سورہ بقرہ کی ابتدائی دو تین آیات پر بھی غور کرنا مناسب ہے۔ ﴿الم ﴿١﴾ ذلِكَ الكِتـبُ لا رَ‌يبَ فيهِ هُدًى لِلمُتَّقينَ ﴿٢﴾ الَّذينَ يُؤمِنونَ بِالغَيبِ وَيُقيمونَ الصَّلوةَ وَمِمّا رَ‌زَقنـهُم يُنفِقونَ ﴿٣﴾... سورة البقرة'' یعنی '' یہ وہ کتاب ہے جس کی صداقت میں مطلقاً شائبہ و شک نہیں کہ یہ ان احتیاط سے قدم اٹھانے والوں کے لیے راہ عمل دکھاتی ہے جنہیں امور غیبی پر ایمان ہے، جو خوش اسلوبی سے نماز پڑھتے اور ہمارے عطا کردہ رزق میں سے کچھ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔''

یہاں نماز پڑھنے او رزکوٰۃ دینے والون کو متقی کے خطاب سے یاد فرمایا ہے۔ ممکن ہے کہ ایک منطقی ذہن میری گزارشات پر مطمئن نہ ہو۔ یہ سوال ہوسکتا ہے کہ بہرحال زکوٰۃ کے جو فوائد دانشمند حضرات بتاتے ہیں وہ بجائے خود شریعت اسلامیہ کے حکم زکوٰۃ کے موئید ہیں، منافی تو نہیں ہیں۔ ہر چند کہ میں اس سوال کا جواب نہ دے سکوں لیکن میرا ذہن اس اضطراب سےمحفوظ نہیں رہ سکا کہ یہ تمام فوائد نظام زکوٰۃ کےعلاوہ کسی اور اقتصادی نظام سے بھی حل ہوسکتے ہیں چنانچہ ایک طبقہ کا خیال یہ ہے کہ یہ فوائد بعض لا دینی نظام میں بھی مشاہدہ کیے جاتے ہیں بلکہ اہل عقل کا ایک طبقہ شریعت کی متعین موجودہ زکوٰۃ کو اشتراکی نظام سے ہم آہنگ کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے یہاں تک کہ ایک صاحب نے قرآن حکیم کی آیت ﴿وَيَسـَٔلونَكَ ماذا يُنفِقونَ قُلِ العَفوَ...٢١٩﴾... سورة البقرة" اس آیت میں ''عفو'' کا یہ مطلب بیان کیا کہ عفو کو راہ خدا میں خرچ کرنےکا حکم ہے اور عفو کے معنے یہ ہیں کہ جو کچھ بنیادی ضروریات (جس سے مراد بالعموم روٹی۔کپڑا او رمکان ہے) سے بچ رہے، وہ سب راہ خدا میں دے دیا جائے اور اس کی تائید میں یہ فلسفہ بیان کیا جاتا ہے کہ بندہ کسی مال کا مالک نہیں ہے! سوشلزم یا اشتراکیت کے نظام اقتصادی کی بنا یہی ہے۔ اگر زکوٰۃ کے حامیوں کا یہ رجحان نہ ہو تو پھر اضطراب کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

زکوٰۃ کے اخلاقیاور معاشی فائدوں کے علاوہ ایک اور فاودہ بھی ہے جس کی طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے اور وہ معاشرتی فائدہ ہے یعنی صاحب مال پر زکوٰۃ کا عائد کرنا ایک قسم کا جرمانہ ہے جو اس جرم کی پاداش میں کیا جاتاہے کہ صاحب مال سال بھر تک اپنی دولت کو بند رکھ کر ان فوائد سے معاشرہ کو محروم رکھتا ہے جو اس مال کو کاروبار میں لگانے سے عوام کو حاصل ہوتا ۔ اس عاجز کے نزدیک تمام مک او رملت کی یہ سب سے بڑی خدمت ہے کہ اس کی ہمہ جہتی ضروریات مہیا ہوتی رہیں۔ ارتکاز دولت ملک و ملت کو ان فوائد سے محروم کردیتا ہے جو صنعت و حرفت اور تجارت سے حاصل ہوتے ہیں اوراس کا انسداد اس صورت میں ہوسکتا ہے جب کہ ''سرمایہ بکار نیا وردن'' کی پاداش میں کوئی نیا جرمانہ عاید کیا جائے۔ مال فئے کی تقسیم کے بارے میں قرآن حکیم نے جو حکمت بیان فرمائی ہے ﴿كَى لا يَكونَ دولَةً بَينَ الأَغنِياءِ مِنكُم...٧﴾ ... سورة الحشر" یعنی مبادا کہ دولت تمہارے امیروں ہی کے ہاتھوں میں گھومتی رہے۔ او راس کا عوام کو کوئی فائدہ نہ ہو وہ یہاں بھی عائد ہوتی ہے پس اگر صاحب مال دولت کو کام میں نہیں لاتا تو جرم کرتا ہے اور زکوٰۃ اس کی سزا ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ اسلام میں زکات کو ایک فریضہ الہٰی قرار دیا گیاہے او راس کا تارک مستوجب عذاب ہے۔قطع نظر اس سے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی بے شمار فوائد پر منتج ہو۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ وہ فلاح و بہبود ہے جو انجام کار خود زکوٰۃ ادا کرنے والے کو حاصل ہوگا۔لہٰذا یہ ضروری ہے کہ فریضہ زکوٰۃ کی بجا آوری میں صرف خدا اور رسولﷺ کے حکم کی اطاعت پیش نظر ہو اور اسے محض عبادت تصور کیا جائے یعنی عبادت زکوٰۃ کی شرائط و ارکان کا پورا پورا خیال رکھا جائے اور ضیابط زکوٰۃ کی اصطلاحات کو انہی حکموں میں تصور کیا جائے جو شریعت اسلامیہ کے پیش نظر ہے۔مثلاً صاحب مال، نصاب زکوٰۃ نقدی و مال تجارت پیداواری اراضی، اجناس عُشری اور مصارف و مستحقین زکوٰۃ کی تعیین و تعریف اور زکوٰۃ کی شرائط و ارکان وغیرہ فقط التشکر والسلام۔ (پروفیسر منظور احسن عباسی)

اسلامی ٹیکسوں کی تحریم و تعمیل کی ضرورت و افادیت

دیرینہ خواہش کی تکمیل:

مقام مسرت ہےکہ اسلامی قوانین کےنفاذ سے قیام پاکستان کی اصل غرض و غایت کی تکمیل کے انقلابی سفر کا آغاز ہوچکا ہے ۔ یوں دکھائی پڑتا ہے جیسےاسلام او روطن سے کھوکھلی عقیدت او رجذباتی نعرہ بازی کا غلغلہ ختم ہوگیا ہے او رقرآن و سنت سے تعمیری لگن اور تخلیقی عمل کا دور شروع ہوا چاہتا ہے۔

معیشت و معاشرت کے اونٹ کا سیدھا رُوپ:

ہماری معیشت و معاشرت میں مغربیت ، سطحیت او رمغایرت کے مسلسل غلبہ سے ملی زندگی اونٹ کی سی شکل اختیار کرگئی تھی جس کی کوئی کل سیدھی نہ رہی تھی۔ نتیجتاً ہم سیاسی عدم استحکام، اقتصادی بدحالی، متنوع ضیاع او رمکرر التواء کے بھنور ہی میں چکر کاٹتے رہے۔ اسلامی آئین زندگی کے نفاذ کے بعد ہماری معیشت و معاشرت کو نیا روپ ملنے کے امکانات روشن نظر آنے لگے ہیں او ریوں ملت کا بھٹکا ہوا کارواں اصلاح و ارتقاء کی طرف از سر نو جادہ پیما دکھائی دیتا ہے۔

ملت اسلامیہ کے قومی اور آفاقی مقاصد:

کس قدر باعث تاسف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو اسلامی ممالک کو متنوع و سائیلی نعمتوں سے خوب نوازا ہے۔مگر دنیائے اسلام اس کے باوجود پسماندگی کی دلولوں میں دھنسی ہوئی ہے اس امر کی وضاحت قطعی ضروری نہیں کہ پسماندگی او راسلامی دو متضاد و متحارب تصورات ہیں۔ایک اشرف الامم کی زبوں حالی فہم و منطق سے ماوریٰ ہے۔

ملت اسلامیہ کے سامنے دو بڑے مقاصد یہ ہیں:

1۔ قومی مقصد: ملکی استحکام و ترقی، جس ک ےلیے قوت افراد کی اصلاح و ارتقاء او ردستیاب وسائل کے بہترین استعمال کے لیے جامع منصوبہ بندی سے کام لیاجاتا ہے۔

2۔ آفاقی مقصد: جس کا مطلب ہے، ساری کائنات میں زندگی کے تمام شعبوں میں غلبہ اسلام ، یعنی صحت و توازن کی راہ ہموار کرنا۔

اسلامی معیشت کاایک بنیادی پہلو:

ان ہر دو اغراض کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔ ہردو کے حصول کے لیے تمام اسلامی ممالک کی قومی معیشت میں استحکام، تخلیقیت او رارتقاء کی واضح چھاپ ناگزیر ہے۔

اسلامی معیشت ایک متوازن و مفرح طرز حیات ہے۔یہ ایک ایسا منظم لائحہ عمل ہے جس میں حقوق و فرائض کا حسین امتزاج کارفرماہے۔ معقول ٹیکسوں کا نظام بھی اسلامی معیشت کا ایک تعمیری پہلو ہے۔ اسلامی ٹیکسوں کے نظام میں زکوٰۃ او رعشر بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔ قرآن حکیم میں ان ٹیکسوں کے تعمیری مصرف کے باضابطہ طریقے وضع کردیئے گئے ہیں جن کی وجہ سے ان میں خرد بُرد، غلط استعمال یا ضیاع کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں|۔

اسلامی ٹیکسوں کی ضروریات او رافادیت:

ایک ٹیکس کی ادائیگی ہزار مصائب سے نجات کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ اگ رہم سب اسلامی ٹیکس باقاعدگی سے ادا کریں او رپھر جمع شدہ رقوم کو جائز سمتوں میں فہم و فراست سے خرچ کریں تو تمام اقتصادی ناہمواریوں کا علاج بالعموم اور مندرجہ ذیل قباحتوں کا استیصال بالخصوص یقینی ہے۔

(الف) مال و دولت کا غیر منصفانہ ارتکاز او راس سے جنم لینےوالے خرابے۔

(ب) غربت و افلاس او رمتنوع اقتصادی محرومیاں۔

(ج) بخل، حرص، سرد مہری، خود غرضی وغیرہ

(د) تنگ دستی سے فروغ پانے والے جرائم ، قبیح عادات اور علتیں|۔

|(ر) ہماری روز مرہ معیشت میں عموماً او رٹیکسوں کےمروجہ نظام میں خصوصاً بڑھتی ہوئی گڑ بڑا اورعدم نظم و نسق۔

(ہ) عمومی زندگی میں پژمردگی، بےمقصدیت ، مود او رپیوست کا غلغلہ۔ غرض ٹیکسوں کی باضابطہ ادائیگی او ران کےمصرف میں حکمت عملی سے ہماری ملی زندگی میں مسرت، خوشحالی، توازن او رمقصدیت کے عنادر کے فروغ کی قوی توقع ہے۔ جس سے اسلامی معیشت کے قومی تقاضے بطریقاحسن پورے ہونے لگیں گے۔

یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ پاکستان کے جن جن علاقوں میں زکوٰۃ او ربیت المال کا طریق کار چھوٹے پیمانے پر آزمایا جاتا رہا ہے (مثلاً ڈنڈوت کا تجربہ، وہاں اس کے واضح ، مثبت اور انقلابی نتائج ہم سب کےلیے مشعل راہ ہیں۔ یہ تمام تجربات اس امر کی مؤثق ضمانت فراہم کرتے ہیں کہ اگر اس معقول اقتصادی نظام کوباضابطہ طریق کار کے طور پراپنا لیا جائے تو قومی معیشت او رروزمرہ معاشرت میں تعمیری انقلاب حتمی ہے۔

خلاف ورزی کے چند بھیانک عواقب:

کڑے سرکاری احتساب، رائے عامہ کے سیل اور ذاتی ضمیر کی وجہ سے ٹیکس کی خلاف ورزی کا شائد امکان ہی باقی نہ رہے۔ تاہم غلط فہمی،کم فہمی یا عیارانہ انحراف سے خلاف ورزی کسی حد تک ممکن بھی ہوسکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بات کی وسیع تر تبلیغ و اشاعت کی جائے کہ اسلامی ٹیکسوں سے انحراف سے ایسی صورت حال کے پیدا ہونے کا خدشہ ہے جو ہر فرد اور سارے معاشرے کےلیے باعث زحمت ہوسکتی ہے۔

یہ کہ خلاف ورزی کے مرتکب کو آخرت میں سزا بھگتنا پڑے گی، بڑی دو رکی بات ہے ۔ کئی لوگ اسے شائد اچھی طرح سمجھ بھی نہ سکیں۔مگریہ بات تو بہت جلداور بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ ٹیکسوں کی خلاف ورزی سے افراد اور معاشرے کی زندگی میں ہی مندرجہ ذیل تلخ نتائج فوراً مرتب ہوجائیں گے:

(الف) انفرادی او راجتماعی زندگی میں جمود و تنزل کا تسلسل،

(ب‌) حریت و حیات کا انقطاع، ہمیں اسلامی آئین حیات اپنانے کا چونکہ یہ پہلا اور آخری موقع نصیب ہوا ہے اس لیے اگر اب بھی اسلامی ٹیکسوں کی خلاف ورزی ہوئی تو آزادی او رزندگی کا سلسلہ ہہی منقطع ہوسکتا ہے اس بھیانک ضرورت کے امکانات مندرجہ ذیل اسباب کی وجہ سے خصوصی طو رپر باعث تشویش ہیں:

اوّل: ہمارے دشمن ہمسایہ نے ایٹم بم بنا لیا ہے اورہندی معیشت بڑی سرعت سے ترقی کررہی ہے۔

دوم: ارد گرد کی مخالف طاقتیں ہمارے احیاء سے خائف ہوکر ہمیں نیست و نابود کرنے کے رنگا رنگ منصوبوں میں منہمک ہیں۔

سوم: دنیائے اسلام کو ہم سے بجاطور پر کئی ایک توقعات وابستہ ہیں جن پر پورا اترنے کے لیے اسلامی آئین حیات کی دل و جان سے تعظیم و تعمیل ناگزیر ہے۔

ظاہر ہے کہ ایسے میں اسلامی ٹیکسوں سے انحراف ہمارے لیے باعث زیاں ہوگا ۔ اپنی نیم مردہ معیشت کو یوں مزید ضعف پہنچانا انفرادی خود کشی اور اجتماعی قبر کھودنے کے مترادف ہوگا۔

بقا اور احیاء کے لیے ناگزیر:

الغرض اسلامی ٹیکسوں کانفاذ ہماری انفرادی او رملی زندگی کے احیاء اور ارتقاء ک لیے ایک خوش آئند اقدام ہے۔ ہماری ذاتی اور اجتماعی خوشحالی ان ٹیکسوں کی تحریم و تعمیل پر موقوف ہے۔ اس لیے انفرادی مسرت اور ملی خوشحالی کا تقاضا ہے کہ ہم اس سلسلہ میں تعمیلی مشینری سے عملی تعاون کریں کیونکہ بصورت دیگر ہماری ذلت و رسوائی میں دوام یقینی ہے۔