نفاذ شریعت محمد مسجدی قیادت کا عملی کردار

نفاذ شریعت میں متعدد عملی اقدامات کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ عملی اقدامات سےمراد ایسی موزوں تدبیریں ہیں جن سے شرعی احکام کی تعمیل میں سہولت ہوتی ہے اور ان کی خلاف ورزی کے امکانات کا قبل از وقت سدباب ہوتا ہے۔موثر عملی اقدامات کے بغیر نفاذ شریعت کی انقلابی تحریک کا ثمر آور ہونا محال ہے۔

عملی اقدامات کے دو واضح مقاصد: نفاذ شریعت کے لیے بنیادی عملی اقدامات کے دو واضح مقاصد یہ ہیں:

اوّل: زندگی کے جملہ چھوٹے بڑے شعبوں میں م|ختلف عملی طریقوں سے شرعی احکام کو اس خوش اسلوبی سے نافذ کرنا کہ اتباع شریعت کی ضرورت او رافادیت کو ہر خاص و عام کی دلی تائید حاصل ہوجائے یعنی ہرفرد انہیں اپنی روزمرہ زندگی میں برضا و رغبت اپناتا چلا جائے۔

دوم: ایسے مؤثر اور جچے تلے عملی اقدام اٹھانا کہ احکام شریعت سے خواہ مخواہ خائف یا بدگماں ہونے والوں کے تمام شکوک و شبہات کا مناسب مداوا ہوتاچلا جائے۔

مجوزہ اقدامات کے لیے سائنسی تیاری: عملی اقدامات کی منصوبہ بندی او ران کی موثر تعمیل کے لیے ہر سطح پر باضابطہ تیاری ناگزیر ہے۔ یہ تیاری قانونی اور غیر قانونی ، چھوٹی اور بڑی سطوح پر لازمی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تیاری کا یہ سارا سلسلہ یوں انجام پذیر ہو کہ ہر خاص و عام میں نفاذ شریعت کے لیے صحیح جذبہ، صحیح رجحان او رصحیح عمل خاطر خواہ طریق سے فروغ پائے اور اتباع شریعت فکروعمل کا فطری لازمہ بنتا چلا جائے۔

مسجدی قیادت کے بنیادی فرائض : نفاذ شریعت کے ہر پہلو میں مسجدی قیادت کو محوری اور مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ مسجدی قیادت کے کردار کو دو شعبوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

اوّل: معالجاتی کردار

دوم: احتیاطی کردار

معالجاتی کردا رکا دائرہ اختیار: شرعی احکام کے مؤثر نفاذ اور غیر شرعی افعال کے علاج و استیصال کو مسجدی قیادت کا معالجاتی کردار کہا جاسکتا ہے۔ اس کردار کی مؤثر ادائیگی کے لیے سب سے پہلے یہ امر ضروری ہے کہ ملک کی تمام مساجد کے متعلقہ دائرہ ہائے اختیار متین کردیئے جائیں یعنی اس امر کا حتمی فیصلہ کرلیا جائے کہ وطن کی ہر مسجد کا حلقہ اثر کس گاؤں، کتنے گلی بازار یا محلے کے کتنے مکانوں کی کتنی آبادی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس طرح سارے ملک کو باضابطہ طور پر مسجدی علاقوں میں شمار کرلینے کے بعد ہر مسجد کو اپنے مخصوص حلقہ میں مندرجہ ذیل اختیارات استعمال کرنے کا آئینی طور پرمجاز قرار دے دیا جائے۔

(الف) اپنے حلقہ اختیار کے چھوٹے موٹے مقدموں ، تنازعوں، معاملوں وغیرہ کے لیے کسی مقامی عدالت خفیفہ کا کردار۔

(ب) مسجدی علاقے میں ہونے والی خوشی او رغمی کی مجالس کا انعقاد ، یعنی نکاح او رانتقال وغیرہ کی مجالس کو احکام شریعت کے مطابق انجام پذیر ہونے کا اہتمام کرنا۔

(ج) مسجدی علاقہ میں امن برقرار رکھنے اور ہنگامی حالات سے پیدا شدہ مسائل سے نمٹنے کامرکز وغیرہ۔

ان معالجاتی اقدام سے لوگوں کواپنی قریبی مسجد میں سستا اور فوری انصاف اور اپنے روزمرہ مسائل کا موثر علاج میسر آجائے گا۔ اس کےساتھ ہی مسجدی علاقے میں امن و امان کی صورت حال بھی سدھر جائے گی۔

احتیاطی کردا رکے چند پہلو: بجاطو رپر کہا گیا ہے کہ ''پرہیز علاج سے بدرجہا بہتر ہے'' اس لیے شرعی احکام کی خلاف ورزی کے بعد ہی حرکت میں آنے کی بجائے مسجدی قیادت کو ایسے احتیاطی اقدام اٹھانے پرخصوصی توجہ دینا چاہیے جن سےشریعت کی خلاف ورزی کے مواقع پیدا ہی نہ ہوں یا ان میں خاطر خواہ کمی واقع ہو۔ چنانچہ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل احتیاطی اقدام مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں۔

1۔ شرعی قوانین و ضوابط کی مؤثر تفہیم و اشاعت

2۔ مسجد سے ملحق مفید اداروں کا قیام۔

3۔ اندرون مسجد تعمیری مشاغل کی ترویج۔

4۔ مسجدکے گردو نواح میں تعمیری مشاغل کی تنظیم۔

1۔ شرعی قوانین و ضوابط کی مؤثر تفہیم و اشاعت: اس غرض کے حصول کے لیے خطبات جمعہ میں اختلافی مسائل اور فضل جذباتیت سے اجتناب پر زور دیا جائے او را س کی بجائے روزہ مرہ زندگی سنوارنے کے لیے اسلامی اصولوں کی موثر نشرواشاعت کی جائے۔ اس کے علاوہ مسجد میں گاہے گاہے خصوصی مجالس منعقد کی جائیں جن میں کسی نہ کسی رنگ میں اسلامی انداز حیات کو اپنانے کی ضرورت او رافادیت ذہن نشین کرائی جائے۔

2۔ مسجد سے ملحق مفید اداروں کا قیام : مسجد کو نمازوں کی ادائیگی تک ہی محدود کردینا بہت بڑی زیادتی ہے۔ سنہری تاریخ میں مسجد نے ہمیشہ زندگی کے تمام شعبوں میں تیاری کے سامان فراہم کیے ہیں||۔ مسجد کے اس کردار کے احیاء کی ضرورت ملّت اسلامیہ کو آج شاید پہلے سے کہیں زیادہ ہے او ریہ بات تبھی ممکن ہے جب مسجد کے ساتھ یا ارد گرد اس قسم کے تعمیری اداروں کی بنا بھی ڈال دی جائے۔مثلاً کتب خانہ، شفاخانہ، بیکاروں اور ناداروں کی فنی تربیت کاادارہ وغیرہ ۔ مسجد سے ملحق تعمیر سے یہ ادارے ملی ضرورتوں کومو ثر طریقے سے پورا کرکے عامۃ الناس میں احکام شریعت کے اتباع او رخلاف ورزی سے اجتناب کے صحت مند رجحان کو فروغ دینے میں مفید ثابت ہوں گے۔

3۔ اندرون مسجد تعمیری مشاغل کی ترویج : متعدد مساجد میں فرض نمازوں کے علاوہ اکے دکے تعمیری مشاغل کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ مگر اکثر حساس مسلمانوں کویہ شکایت بھی ہے کہ کئی مساجد میں یاتو فرض نمازوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا یا پھر اختلافی مسائل پر جارحانہ بحثیں اور مخالف مسلک پرکیچڑ اچھالنے دور دورہ رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مسجد میں اس قسم کی حرکات کا ارتکاب نہایت غیرمستحسن ہے۔ اس کی بجائے مساجد میں تعمیری مشاغل کو فروغ دینا ضروری ہے۔مثلاً قرأت کی تربیت او رمقابلے، خطابت کی تربیت، حمد و نعت کی مجالس، تعلیم بالغاں کی جماعتیں ، محلہ کی اصلاحی مجلس کے اجلاس وغیرہ۔ اس قسم کے تعمیری مشاغل میں مشاغل میں شمولیت سے اسفل جذبات کی تصعید ہوتی ہے او ریوں انسان احکام شرعی کی خلاف ورزی کی ترغیب یاارتکاب سےمحفوظ رہتا ہے۔

4۔ مسجد کے گردونواح میں تعمیری مشاغل کی تنظیم: تعمیری مشاغل کا دائرہ تنظیم مسجد کی چار دیواری ہی نہیں بلکہ مسجد کا گردو نواح بھی ہونا چاہیے۔ چنانچہ مسجد کے ارد گرد کے علاقہ میں اس قسم کے تعمیری مشاغل کااہتمام ہوسکتا ہے۔

(الف) امام مسجد کی زیر قیادت او رمسجدی مجلس کے تعاون سے صحت و صفائی کی منظم مہمیں|۔

(ب) بچوں اور نوجوانوں کے لیے متوازن تفریحات کا اہتمام۔

(ج) تمباکو نوشی او ردیگر قبیح عادات و رجحانات کے سدباب کے عملی منصوبے۔

(د) بیکاری اور افلاس کے علاج کے لیے مؤثر اقدام وغیرہ وغیرہ۔

یہ تمام تعمیری مشاغل مسجدی قیادت کے زیر اہتمام ہوں گے۔مجوزہ اقدامات سے مسجدی علاقہ میں نئی زندگی، نیا ولولہ جنم لے گا۔ جس سے جرم و عصیاں کی جڑیں کٹتی چلی جائیں گی اور مسجدی علاقہ کے عوام میں اتباع شریعت کا رجحان خود بخود راسخ ہوتا چلا جائے گا۔

اجتہاد اور تخلیقیت ناگزیرہے: ظاہر ہے کہ جب تک مسجدی قیادت ان نئی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے پوری طرح تیارنہیں ہوتی اس وقت تک نفاذ شریعت کے خواب کاشرمندہ تعبیر ہونا محال ہے۔ اب جب کہ نفاذ شریعت کی امید افزا اعلان کیا جاچکا ہے او رہرچھوٹا بڑا اتباع شریعت پر آمادہ نظر آتا ہے۔ اس امر کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ مسجد اس سلسلہ میں اپنا مرکزی کردار خوش اسلوبی سے ادا کرے۔ اس کی واحد صورت موثر او ربامقصد عمل ہے جس کےلیے تعمیر سیرت و کردار کے جدید طریقوں کا دانشمندانہ استعمال ناگزیر ہے۔

الغرض نفاذ شریعت کے لیے اجتہاد اور تخلیقیت کے بغیر کسی قسم کی کامیابی قطعی ناممکن ہے۔ ویسے بھی دنیا کے تہی دست افراد کی حیثیت سے ہم دقیانوسی طریقوں کے مسموم عواقب کے مزید متحمل نہیں ہوسکتے۔