27۔ اکتوبر سال رواں علامہ عبدالعزیز میمن بھی عازم فردوس ہوگئے۔ اخبارات نے سخت بے اعتنائی برتی۔ آپ کے سانحہ ارتحال کی خبر چند سطروں میں او رایسے غیر معروف گوشہ میں دی جس کو اخبار بین عام طور پر نظر انداز کرجاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں نے تو او ربھی سہل انگاری کا ثبوت دیا۔ جامعہ پنجاب او رکراچی کے شعبہ ہائے عربی کے آپ کئی سال سربراہ رہے مگر کسی نے تعزیت میں ایک فقرہ بھی نہ کہا۔ غنیمت ہے کہ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر نے علامہ پر نوائے وقت میں ایک مضمون لکھ کر او رعصر حاضر کے مشہور شاعر جناب عبدالعزیز خالد نے ایک نظم کہہ کر حق شاگردی ادا کردیا۔ علامہ میمن مسلک اہلحدیث سے وابستہ تھے۔مگراہلحدیث کے ہفتہ روزہ جرائد نے آپ کا ذکر چند سطروں میں کیا۔ حالانکہ معمولی واعظوں کے سانحہ وفات کے تذکرے میں کئی کئی صفحے سیاہ کردیے جاتے ہیں۔میمن صاحب سید نذیر حسین محدث دہلوی کے غالباً آخری شاگرد تھے جو ہنوز بقید حیات تھے۔ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کی شاگردی کا فخر بھی آپ کو حاصل تھا۔
میرے خیال میں اس کی وجہ اس کے سواکچھ نہیں کہ اکثر لوگ حضرت علامہ عبدالعزیز میمن کے بارے میں یا تو کچھ نہیں جانتے یا بہت کم جانتے ہیں۔ اس کی دوسری وجہ عصر حاضر کی کورذوقی بھی ہے۔ آج شہرت عام عوامی واعظوں او راشتہاری علماء کو حاصل ہے جو چند تقاریر یاد کرکے کراچی سے پشاور تک سٹیج کی زینت بنتے ہیں اور عوام کے لیے تفریح طبع او رذہنی تعیش کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ علمی گہرائی،تحقیق و تدقیق اور ذوق تالیف و تصنیف خواص کا حصہ ہیں او رعام لوگوں کے لیے یہ بے کار مشاغل ہیں۔
ان سطور کا راقم آغاز شعور ہی سے عربی زبان و ادب کا طالب علم رہا ہے (جس میں بحمداللہ تا ہنوز کوئی فرق نہیں آیا) زمانہ طالب علمی ہی میں متداول کتب ادب تک محدود نہیں رہا۔ بلکہ قدیم و جدید ادب کی جو کتاب بھی میسر آئی پورے ذوق و شوق کے ساتھ پڑھ ڈالی۔ البتہ غیر درسی کتب ادب آسانی سے دستیاب نہ تھیں۔ ہمارے مدارس کی لائیریریوں میں معروف متداول کتب کے سوا دوسری کوئی کتاب عنقا کا حکم رکھتی تھی بلکہ سچی بات یہ ہےکہ ان حلقوں میں کیا اساتذہ او رکیاطلبہ، ان کتب کے ناموں سے بھی آشنا نہ تھے۔
خوش قسمتی سے کسی دوست کی معرفت مجھے علامہ میمن کی ایڈٹ کردہ کتاب ''سمط الدّرر واللآلي ''مل گئی۔ علامہ نے ''کتاب الأمالي للافاني'' کو بڑی محنت سے مرتب کیا او راس پر بڑے گراں قدر حواشی تحریر کئے ہیں۔ اسی طرح احقر کو ان کی کتاب ''أبوالعلاء و ماإلیه'' کے مطالعہ کی سعادت بھی حاصل ہوگئی۔ احقر قبل ازیں طہٰ حسین کی ''ذکر أبي العلاء'' بھی مطالعہ کرچکا تھا۔ مگر اس کتاب کا انداز ہی جداگانہ تھا اور سچی بات یہ ہے کہ ابوالعلاء کے تذکار و بیان میں ایک عجمی عربی سے گویا سبقت لے گیا۔
یہ کتب پڑھ کر مولانا کے ساتھ عقیدت و محبت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ بظاہر ملاقات کی کوئی راہ دکھائی نہ دیتی تھی۔ اے ایس ٹرمیٹن پروفیسر آف عربک کے علی گڑھ یونیورسٹی سے چلے جانے کے بعد پروفیسر کی آسامی خالی ہوگئی تھی او رمولانا ان کی جگہ علی گڑھ یونیورسٹی میں صدر شعبہ عربی قرار پائے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایک طرف مولانا ایک بلند پایہ منصب پر فائز تھے او راحقر ایک ادنیٰ درجہ کا طالب علم ۔ایک عربی شاعر نے کہا ہے:
کیف الوصول إلیٰ سعاد و دونها
قلل الجبال ودونھن خیوف
شاعر کو شکوہ ہے کہ بلند و بالا پہاڑ محبوب کی راہ میں حائل ہیں۔ اس لیے ملاقات کا بظاہر کوئی امکان نہیں۔ مگر میرے سامنے مولانا کابلند پایہ منصب او راس کے ساتھ ساتھ مکانی بُعد ملاقات میں سدّراہ تھا۔ اسی طرح شب و روز گزرتے گئے ، اور مولانا مرورِ سمانہ سے میرا اشتیاق و اضطراب روُبہ ترقی رہا تاایں کہ مسبّب الاسباب حقیقی نے جس کے لیے کوئی بھی چیز انہونی نہیں، ملاقات کی ایک تقریب پیدا کردی۔ ہوا یہ کہ پنجاب یونیورسٹی نے دسمبر 1957ء کے اواخر اور جنوری 1958ء کے اوائل میں ایک بین الاقوامی مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا۔ ان دنوں میاں افضل حسین مرحوم پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر او رمولانا محمد شفیع مرحوم پرنسپل اورئنیٹل کالج مجلس مذاکرہ کے ناظم تھے۔ احقر ان دنوں اسلامیہ کالج لائل پور میں لیکچرار تھا۔ یونیورسٹی کو ایسے اہل علم مطلوب تھے جو بیرون ملک سے آمدہ مقالات کا انگریزی سے عربی اور عربی سے انگریزی میں ترجمہ کرسکیں۔ چنانچہ میاں صاحب نے ہمارے پرنسپل کو خط لکھ کر احقر کو اس مقصد کے لیے یونیورسٹی کے مہمان اور مندوب کی حیثیت سے لاہو ربلالیا۔ ہنوز مذاکرہ کے انعقاد میں ایک ماہ باقی تھا۔ اسی مقصد کے پیش نظر دو اور اصحاب بھی لاہور پہنچ چکے تھے۔ جن میں سے ایک عربی الاصل عبدالمنعم السعودی ایڈیٹر ''العرب'' کراچی اور دوسرے ڈاکٹر فضل الرحمٰن جو مرحوم صدر ایوب کے زمانہ میں اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ناظم مقرر ہوئے او راپنے ملحدانہ نظریات کی بناء پر وہاں سے نکالے گئے۔ اس وقت وہ انگلینڈ کی ڈرھم یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسر تھے۔ ہم تینوں کو لاہور کے پرنس ہوٹل میں ٹھہرا یا گیا او رہم مولانا محمد شفیع صاحب مرحوم کی زیرسرپرستی ترجمہ کا کام انجام دیتے رہے۔
چونکہ کمرے قریب قریب تھےاس لیے باہم ملاقات کے مواقع اکثر میسر آتے ۔ دوران گفتگو السعودی صاحب مولانا میمن کی مبالغہ آمیز حد تک تعریف کرتے۔ وہ خود فرماتے کہ ہم عرب لوگ عجمی نژاد لوگوں کی عربیت کو تسلیم نہیں کرتے البتہ علامہ میمن استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس سے میری آتش شوق میں مزید اضافہ ہوتا۔ مذاکرہ کے انعقاد سے ایک ہفتہ قبل بیرونی مندوبین آنا شروع ہوگئے میری مسرت کی انتہا تھی کہ مولانا میمن بھی تشریف لے آئے اور ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ کے یہاں فروکش ہوئے جو ان کے علی گڑھ کے تلامذہ میں سے ہیں او ران دنوں پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر آف عربک تھے۔ پھر کیا تھا روزانہ مولانا کے ساتھ گھنٹوں ملاقات رہتی او ران کے ادبی لطائف و ظرائف سے مستفید ہونےکاموقع ملتا۔میری دلچسپی کو دیکھ کر مولانابھی خصوصی شفقت فرمانے لگے ۔ دوران گفتگو میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں آپ کے ساتھ سلسلہ تلمذ وابستہ کرنا چاہتا ہوں۔ جس کی صورت یہ ہوگی کہ کتاب العمدہ لابن رشیق اور عقد الفرید لابن عبدریہ کے بعض مقامات جو دوران مطالعہ میری سمجھ میں نہیں آئے ، میں آپ سےسمجھنا چاہتا ہوں۔ آپ نے بخوشی اسے منظور فرمایا اور چند نشستوں میں سب مشکلات حل کردیں۔
مجلس مذاکرہ کا آغاز ہوا تو بیرونی ممالک کا اکابر و فضلاء دور دراز ممالک سے تشریف لاکر لاہور کی زینت بنے۔ مصری فضلاء میں شیخ ابوزہرہ عبدالوہاب عزام اور ڈاکٹر عبداللہ دراز (جنہوں نے لاہور ہی میں داعی اجل کو لبیک کہا) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔مشہور شامی محدث الشیخ بہجۃ البیطار سے بھی شرف ملاقات حاصل ہوا۔ لبنانی الاصل امریکی مستشرق ہٹّی سے بھی اکثر ملاقات رہتی۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ سب عرب علماء اور مستشرقین مولانا میمن کی وسعت علم، تحقیق وتدقیق اور زبردست قوت حافظہ کے مداح تھے۔ جب کسی اجلاس میں مولانا میمن موجود ہوتے تو عرب فضلاء کی موجودگی میں قرعہ صدارت مولانا میمن کے نام نکلتا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مولانا ایک اجلاس کی صدارت کررہے تھے جس میں مختلف موضوعات پر بارہ مقالات پڑھے گئے۔ اس مجلس میں احقر نے بھی حضرت حسانؓ بن ثابت اور ان کی شاعری پر ایک مقالہ پیش کیا۔مقالہ خوانوں میں عرب علماء بھی موجود تھے۔ جب مقالہ خوانی ختم ہوئی او رمولاناصدارتی تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ نے ایک ایک مقالہ پر ناقدانہ تبصرہ کیا۔ ''دیوان حسانؓ'' سے متعلق آپ نے آدھ گھنٹہ تقریر کی اور بتایا کہ کس کس ملک کی کس کس لائبریری میں اس کے مخطوطے موجود ہیں۔ عرب علماء کے مقالات پرواں دواں عربی میں اظہار خیال کیا او ران کی لسانی غلطیوں کی نشاندہی کی۔ ان اغلاط کو خود عربوں نے بھی تسلیم کیا۔ میمن صاحب کی صدارتی تقریر کیا تھی۔ نادر علمی معلومات کا بحر زخار تھی اور شیخ ابوزہرہ کے پایہ کے علماء دم بخود تھے۔ عربی علماء کے ساتھ کسی مسئلہ پر جب بھی نوک جھونک ہوتی، میمن صاحب کا پلّہ بھاری رہتا اور آپ ان کو اپنی بات منوا کر چھوڑتے۔ مجلس مذاکرہ میں اکثر بلاد عرب کے جیّدافاضل او رنادرہ روزگار علماء موجود تھے۔ مگر میمن صاحب سے وہ یوں جھک کر ملتے جیسے ادنیٰ شاگرد اپنے استاد کے سامنے آداب بجا لاتا ہے۔
مجھے ڈاکٹر ظہور احمد اظہر کی اس بات سے کامل اتفاق ہے کہ عرب دنیا بّرصغیر کے صرف تین علماء کو مانتی ہے۔ (1) مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (2)مولانا عبدالعزیز میمن (3) مولانا سید ابوالحسن علی ندوی۔
سعودی عرب کے سفر میں مجھے اس کا عملی تجربہ بھی ہوا۔ہاں علامہ میمن کا اثر بہت کم ہے۔ مقابلۃً علمائے مصر و شام علامہ میمن کے نام او رکام سے زیادہ باخبر او ران کی مدح و توصیف میں رطب اللسان ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہنوز سعودی عرب میں علم و ادب کا وہ چرچا نہیں جو مصر و شام کاطرہ امتیاز ہے اگرچہ سعودی حکومت کی مساعی جمیلہ اشاعت علم و ادب کے سلسلہ میں لائق مدح و ستائش ہیں۔ ہمارے ملک کے وہ اصحاب جبّہ و دستار جوجگہ جگہ اپنے علم کا ڈھنڈورہ پیٹتے پھرتے ہیں۔ عالم عرب ان کے نام تک سے آگاہ نہیں۔آخر انہوں نے کون سا تحقیقی کام کیا ہے جو ان کے لیے زندگی جاوید کا ضامن ہوسکے؟ اشتہاروں کی زینت بننے سے تو کوئی شخص حقیقی عالمی نہیں بن سکتا۔اس کے لیے علم کی سچی لگن اور جگر کاوی کی ضرورت ہے جوعلامہ میمن کی خصوصیت تھی۔
بہر کیف مولانا میمن چلے گئے اور ہر کسی کو اس دنیائے فانی سے جانا ہے۔ ؎
ہر آنکہ زاد بنا چار بایدش نوشید
زجام دہر مئے کل من علیھا فان
بقول عبدہ بن الطیب مولانا اس شعر کے مصداق تھے۔ ؎
فما کان قیس هلكه هلك واحد
وٰلکنه بنیان قوم تهدما
ابوالطیب المتبنّی نے تعزیت کا یہ بہترین انداز اختیار کیا ہے کہ ؎
ألاإنما كانت وفاة محمد
دلیلا علی أن لیس لله غالب
مگر افسوس اس بات کا ہےکہ مولانا جو نادر علمی معلومات اپنے ساتھ قبر میں لے گئے، اب ان کے کشف و اظہار کا کوئی ذریعہ نہیں۔ علامہ میمن نے پوری دنیائے علم کی سیاحت کی اور جی بھر کر لائبریریوں سے استفادہ کیا تھا۔ وہ اقصائے عالم میں طلب علم میں گھومتے پھرے تھے اور بخوبی جانتے تھے کہ کون سا علمی مخطوطہ کس لائبریری میں محفوظ ہے۔ وہ عربی زبان و ادب کے اعتبار سے برّصغیر کے ''طہٰ حسین'' تھے۔ وہ اپنے عدیم الن|ظیر حافظہ کی بناء پرحفاظ حدیث اور علمائے سلف کی تابندہ مثال تھے۔ انہوں نے جو بے نظیر ادبی کام کیا وہ ان کو زندہ جاوید بنانے کے لیے کچھ کم نہیں۔ مگر انہوں نے اپنی یادداشتوں کو ضبط تحریر میں لانے کا اہتمام نہیں کیا۔ افسوس کہ ان کے لائق شاگرد ڈاکٹر محمد یوسف سابق پروفیسر آف عربک کراچی یونیورسٹی بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ورنہ وہ کسی حد تک اس کی تلافی کرتے۔میرے خیال میں اب ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ صاحب سابق پروفیسر آف پنجاب یونیورسٹی کی ذات سے یہ امید وابستہ کی جاسکتی ہے کہ آپ اپنے دور طالب علمی کی یادداشتوں او رمولانا کی شاگردی کے ایام کے واقعات کو کتابی صورت میں علمی دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔
خلاصہ یہ کہ مولانا میمن کے بعد عربی زبان و ادب کے اس خلاء کو پُر کرنے والی شخصیت برصغیر میں اگر کوئی ہے تو وہ مولانا ابوالحسن علی ندوی کی ذات گرامی ہے۔ ورنہ مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم کے بعد پاکستان میں یہ خانہ خالی نظر آتا ہے۔ ضرورت ہے کہ ہمارے نوجوان ادیب اُٹھیں اور اس عظیم علمی نقصان کی تلافی کریں۔
مولانا میمن کی یاد میں یہ چند افکار پریشان تھے جن کو اس معذرت کے ساتھ حوالہ قرطاس کررہا ہوں کہ ؎
میرے قلم میں ادیبوں کی آب و تاب نہیں
متاع دیدہ خونناب لے کر آیا ہوں