بعض آیات ِقرآنی کاجواب

چونکہ مسئلہ ہذا فتویٰ، تعلیق، تعاقب، تبصرہ او رجواب تبصرہ کی صورت میں کئی رسالوں میں پھیل گیا ہے۔ لہٰذا ہم محدث میں پوری بحث جمع کررہے ہیں، تاکہ قارئین ایک ہی جگہ سے مکمل استفادہ کرسکیں۔ (مدیر)

محترمي و مکرمي....... استادي المکرم ! السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاته

بعد از آداب و تسلیم یہاں سب خیریت ہے اور خداوند کریم سے دُعاگو ہوں کہ آپکا سایہ شفقت ناچیز پر ہمیشہ کیلئے باخیریت طور پر رکھے۔ آمین

دیگر احوال آنکہ ایک مسئلہ آپ کی خدمت میں ارسال کررہا ہوں وضاحت فرما کر جواب سے نوازیں۔

وہ یہ ہےکہ ہم سورۃ الاعلیٰ کی پہلی آیت یا دیگر ایسی سورتیں جن میں سوالیہ قسم کی آیات ہیں مثلاً سورۃ غاشیہ اور والتین کے آخر میں جو جوابی کلمات کہتے ہیں کیا یہ حضور علیہ السلام سے بحالت نماز ثابت ہیں یا نہیں یا صحابہ کرام کو حکم دیا ہے؟ وضاحت فرمائیں!

فقط والسلام !خدا حافظ۔ آپ کا تلمیذ ، طالب خیرمسعود الرحمٰن جانباز

خطیب جامع مسجد اہلحدیث ایبٹ آباد

۔۔۔۔۔۔۔۔

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الوھاب :

سنن ابی داؤد میں حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے :أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ إِذَا قَرَأَ: سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، قَالَ: «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى»

اس حدیث میں کلمہ ''إذا قرأ''عام ہے اس کے عموم میں حالت نماز وغیر حالت نماز سب داخل ہیں، اسی طرح اپنے عموم کے اعتبار سے یہ روایت فرضی او رنفلی سب نمازوں کو شامل ہے۔اس کی تائید صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے افعال سے بھی ہوتی ہے، چنانچہ سنن کبریٰ بیہقی میں ہے: ''أنه قرأ في الصبح بسبح اسم ربك الأعلیٰ فقال سبحان ربي الأعلیٰ''

یعنی حضرت علیؓ نے صبح کی نماز میں آیت ''سبح اسم ربك الأعلیٰ ''پڑھی پھر ''سبحان ربي الأعلیٰ'' کہا، سعید ؓ بن جبیرؓ کا بیان ہے کہ میں نے ابن عمر کو سنا ''سبح اسم ربك الأعلیٰ'' پڑھا پھر ''سبحان ربي الأعلیٰ'' کہا، اس کی مثل حضرت عمرؓ سے بھی منقول ہے۔ ابن زبیرؓ سے ماثور ہے کہ ''أنه قرأ سبح اسم ربك الأعلیٰ فقال سبحان ربي الأعلیٰ وھو في الصلوٰة'' حضرت علیؓ سے یوں بھی منقول ہے۔ قرأ سبح اسم ربك الأعلیٰ فقال سبحان ربي الأعلی وھو في الصلوٰة فقیل له أتزید في القرآن لا إنما أمرنا بشيء  فعلته''

حدیث مذکور میں عزیزی نے صحت کا حکم لگایا ہے ۔ ابوداؤد میں ہے :خولف ابن وکیع في هذا الحدیث رواہ أبووکیع و شعبة عن أبي إسحاق عن سعید بن جبیر عن ابن عباس مرفوعاً۔

اسی طرح سورۃ والتین اور ''لا أقسم'' اور ''والمرسلات'' کے بارے میں لفظ ''من قرأ'' وارد ہوا ہے جو عموم کا متقاضی ہے، حالت نماز وغیر حالت میں شامل ہے۔اسی بناء پر صاحب مشکوٰۃ حدیث ابن عباسؓ مذکور او راس حدیث کو ''باب القراءة والصلوٰة'' کے تحت لائے ہیں، لیکن حدیث ہذا کی سند میں راوی مجہول ہے مرعاۃ المصابیح ص628 جلد اوّل میں ہے۔''في إسناده رجل مجهول فالحدیث ضعیف۔''

نیز فتح القدر للشوکانی ص343 جز 5 میں ہے: ''وفي إسناده رجل مجهول '' اور ابن کثیر جز 4 صفحہ 158 پر ہے ''وقد رواه شعبة عن إسماعیل بن أمیة قال قلت من حدثك قال رجل صدق عن أبي هریرة۔''

ترمذی میں ہے''إنما یرویٰ بھذا الإسناد عن ھذا الأعرابي عن أبي هریرة ولایسمیٰ'' فتح الودود میں ہے ''ھذاالأعرابي لا یعرف ففي الإسناد جھالة''

اس روایت میں لفظ ''فلیقل'' استعمال ہوا ہے او راحکام القرآن لابن العربی میں ''وفي روایة غیره إذا قرأ أو سمع'' ہے جومقتدی کو بھی شامل ہے لیکن ساتھ ہی فرماتے ہیں''وهذه أخبار ضعیفة'' ملاحظہ ہو۔ ص1941 جز 4۔

بہرصورت یہ حدیث ضعیف ہے کما عرفت باقی رہا معاملہ سورۃ غاشیہ کا تو اس بارے میں مجھے کوئی نص نہیں معلوم، ہوسکتا ہے کہ آپ نے اس سورت کے اختتام پر ''اللهم حاسبني '' پڑھا ہو، البتہ مشکوٰۃ جز ثانی صفحہ 487 پر ایک روایت بحوالہ مسند احمد بایں الفاظ موجود ہے۔ ''یقول في بعض صلوٰته اللهم حاسبني حسابا یسیرا۔''

تفسیر ابن کثیر جز4 صفحہ 489 پر ہے''صحیح علیٰ شرط مسلم'' یعنی یہ حدیث صحیح اور امام مسلم کی شرط کے مطابق ہے لیکن اس میں سورہ غاشیہ کا تعین کرنا امر مشکل ہے ، حاصل خلاصہ یہ ہے کہ سورۃ الاعلیٰ میں قاری کے لیےجواب کی رخصت ہے ۔ اس بیان میں وارد باقی احادیث قریباً ضعیف اور ناقابل حجت ہیں، باقی رہا معاملہ سامع مقتدی یا غیر مقتدی کے جواب کا، تو یہ کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہوسکا۔

نیز قاری کے لیے مزید گنجائش بھی ثابت ہے چنانچہ صحیح مسلم احمد او رنسائی میں حضرت حذیفہؓ کی حدیث میں ہے)''إذا  مر بآیة فیها تسبیح سبح  وإذا مر بسؤال سأل وإذا مربتعوذ تعوذ'' یعنی'' نبی ﷺ کا گزر تسبیح کی آیت سے ہوتا تو آپؐ تسبیح پڑھتے او رجب سوال سے ہوتا سوال کرتے اور جب تعوذ سے گزر ہوتا تو تعوذ پڑھتے۔''

نیز تلخیص العبیر طبع انصاری کے صفحہ 90 میں ہے: ''ویستحب للقارئ في الصلوٰة و خارجها أن یسأل الرحمة إذا مر بآیة الرحمة وأن یتعوذ إذا مربآیة العذاب''

سنن ابی داؤد بمع عون المعبود جز اوّل صفحہ 330 پر امام ابوداؤد نے امام احمد سے نقل کیا ہے :

''یعجبني في الفریضة أن یدعو بما في القرآن'' صاحب عون المعبود اس جملہ کی تشریحات کرتے ہوئے رقم طراز ہے۔ ''فالإمام أحمد یخص هذا في النوافل بل یستحبه في الفرائض أیضا و به قال الشافعي۔''

لیکن مسند احمد کی روایت میں ساتھ یہ قید بھی موجود ہے ''یقرأه  في صلوٰة لیست بفریضة'' اور بعض روایات میں ''صلوٰۃ اللیل'' کی صراحت ہے۔

نیل الاوطار صفحہ 237 جز 2 میں ہے: ''والظاهر استحباب هذہ الأمور لکل قارئ من غیر فرق بین المصلي وغیره و بین الإمام و المنفرد والمأموم وإلیٰ ذٰلك ذهبت الشافعیة'' لیکن میری نظر میں اولیٰ یہ ہے کہ اس حکم کو صرف قاری پر محصور کیا جائے جیسا کہ حدیث مین نص موجود ہے واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب (حافظ ثناء اللہ مدنی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تعلیق از حافظ محمد ابراہیم کمیرپوری

قارئین کرام نے محترم حافظ ثناء اللہ صاحب کا جواب اور اس کے دلائل ملاحظہ فرمائے، حافظ صاحب نے اپنا رجحان یہ ظاہر کیا ہے کہ یہ جوابی کلمات امام کہے مقتدی نہ کہے۔لیکن ہمارے نزدیک اولیٰ اور اقرب الی الصواب بات وہ ہے جو حافظ صاحب نےنیل الاوطار کے حوالہ سے پیش کی ہے، یعنی امام شوکانی کے نزدیک یہ کلمات امام اور مقتدی دونوں کے لیے مستحب ہیں۔

ہم مسئلہ زیر استفتاء کی مزید وضاحت کے لیے مفتی جماعت حضرت محدث روپڑی کی تحقیق ہدیہ قارئین کرنا چاہتے ہیں۔

آپ کا علمی و تحقیقی مقام بلانزاع مسلم ہے۔ قیام پاکستان سےقبل ہمارے جماعت میں اساطین علم، شیوخ الحدیث ، ارباب تحقیق اور اصحاب فتوے کثیر اور معقول تعداد میں موجود تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پورے ہندوستان میں محدث روپڑی کے فتوےٰ کو جس عزت و احترام سے دیکھا جاتاتھا وہ مقام کسی دو سرے اہل علم کے فتوےٰ کو حاصل نہ ہوسکا۔ ہمارےلیے مزید وجہ اطمینان یہ ہے کہ ہمیں تو ہر لحاظ سے محدث روپڑی سے نسبت ہے لیکن مذکورۃ الصدر استفتاء کے مفتی عزیز مکرم مولانا حافظ ثناء اللہ صاحب کو بھی انہیں سے شرف تلمذ حاصل ہے اور وہ بھی اپنے تمام اساتذہ سے زیادہ حضرت مرحوم کی تحقیق کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس سلسلہ میں ہم حضرت حافظ صاحب (محدث روپڑی) رحمۃ اللہ علیہ کے اپنے اخبار ''تنظیم اہل حدیث'' (12 جمادی الاوّل 1382ھ) سے اسی مضمون کا ایک سوال اور خاص ان کے قلم سے اس کا جواب نقل کرنا کافی سمجھتے ہیں۔

قرآن مجید کی جن سورتوں کے جوابات حدیثوں میں آگئے ہیں وہ جس طرح امام کے لیے جائز اور مستحب ہیں اسی طرح مقتدی کے لیےبھی جائز اورمستحب ہیں بلکہ مندرجہ ذیل واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو سامعین کا جواب دینا بہت محبوب تھا چنانچہ مشکوٰۃ باب القرأۃ میں ہے:

عَنْ جَابِرٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَصْحَابِهِ، فَقَرَأَ عَلَيْهِمْ سُورَةَ الرَّحْمَنِ مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا فَسَكَتُوا، فَقَالَ: لَقَدْ قَرَأْتُهَا عَلَى الجِنِّ لَيْلَةَ الجِنِّ فَكَانُوا أَحْسَنَ مَرْدُودًا مِنْكُمْ، كُنْتُ كُلَّمَا أَتَيْتُ عَلَى قَوْلِهِ {فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ} قَالُوا: لاَ بِشَيْءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ فَلَكَ الحَمْدُ(رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث غریب)

یعنی ''ایک روز رسول اللہ ﷺ صحابہؓ کے پاس آئے اور سورۃ رحمٰن ساری پڑھی صحابہؓ خاموش سنتے رہے، آپؓ نے فرمایا: میں نے یہ سورت جنوں پر پڑھی تھی جب بھی میں آیت فَبِأَيِّ آلاَءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ پر پہنچتا تو وہ نہایت اچھا جواب دیتے، وہ کہتے لا بشيء من نعمك ربنا نكذب فلك الحمد'' یعنی ''اے ہمارے رب، تیری کوئی ایسی نعمت نہیں جس کو ہم جھٹلا سکیں، پس تیرے لیے حمد ہے۔''

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ بات بہت پیاری لگتی تھی کہ سامعین بھی جواب دیں لہٰذا مقتدی کو جواب دینا چاہیے۔ یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے مگر امام شافعی نے اس سے استدلال کیا ہے کہ سامع بھی جواب دے۔ امام شافعی کے استدلال سےمعلوم ہوتا ہے کہ حدیث قابل عم ہے خاص کر فضائل اعمال میں! رہی یہ بات کہ نماز غیر نماز میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بظاہر کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا۔ یہ ایسا ہی سمجھ لینا چاہیے جیسے امام کی آمین کے ساتھ آمین کہی جاتی ہے کیونکہ سماع قراء ت کو مخل نہیں، پس اس کا آمین پر قیاس صحیح ہے۔'' (بحوالہ ''فتاویٰ اہل حدیث'' جلد2 ص154،155)

حضرت میاں صاحب دہلوی کی تحقیق انیق و تائید !

مزید اطمینان کے لیے ہم حضرت شیخ الکل فی الکل مولانا و سیدنا نذیر حسین محدث دہلوی  المعروف بڑے میاں صاحب کی تحقیق پیش کرنا مناسب خیال کرتے ہیں۔مطبوعہ فتاویٰ نذیریہ جلد اوّل ص420،423 میں ان کا اپنا فتوےٰ موجود ہے۔ استفادہ تام کے لیے ہم سوال و جواب نقل کردیتے ہیں۔

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عمر کہتا ہے کہ آیت ''أليس الله بأحكم الحاكمين'' اور ''سبح اسم ربك الأعلى '' اور ''فبأي حديث بعده يؤمنون'' وغیرہ آیات کا جواب جس طرح قاری کو دینا چاہیے اسی طرح سامع کوبھی دینا چاہیے اور زید کہتا ہے کہ ان آیات کاجواب صرف قاری کو دیناچاہیے سامع کو نہیں دینا چاہیے...... پس ان دونوں سے کس کا قو ل حق و صواب ہے۔ بینوا توجروا

الجواب: صورت مسئول عنہا میں عمرو کا قول اقرب الی الصواب (حق سےزیادہ قریب) ہے یعنی آیات مذکورہ کا جواب جس طرح قاری کو دینا چاہیے اسی طرح سامع کو بھی دینا چاہیے اس لیے رسول اللہ ﷺ کا بوقت قراءت ان آیتوں کاجواب دینا ثابت ہے اور آپؐ کا قول و فعل امت کے لیے ہروقت دستور العمل ہے تاوقتیکہ اس کی تخصیص کسی وقت خاص یا شخص خاص یا حالت خاص کے ساتھ ثابت نہ ہو، مثلاً رفع الیدین اور وضع الیدین علی الصدر (یعنی سینے پر ہاتھ باندھنا) اور رفع سبابہ فی التشھد (تشہد میں انگلی اٹھانا) اور جلسہ استراحت اور تورک او رقبل افتتاح قرأت کے ''الله أکبر کبیرا ۔ والحمد لله کثیر ا و سبحان الله بکرة و أصیلا'' یا ''إني وجهت وجهي للذي فطر السموٰت والأرض'' یا ''اللهم باعد بیني و بین خطا یاي'' پڑھنا یا رکوع میں ''سبوح قدوس رب الملئکة والروح'' اور سجدہ میں''سجد لك وجهي و عظامي و مخي'' پڑھنا وغیر ذٰلک ، یہ سب ایسے افعال ہیں جن کی مسنونیت میں کس طرح کا شک نہیں ہوسکتا اور امت محمدیہ میں سے ہر شخص کے لیے یہ افعال مسنون ہیں خواہ وہ شخص امام ہو یا مقتدی، خواہ منفرد ہو، حالانکہ یہ کہیں ثابت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے مقتدیوں کوان امور کی تعلیم فرمائی ہو یا عام طور پر فرمایا ہوکہ جو شخص جب نماز پڑھے تو ایسا کرے پھر بھی یہ احکام ہر شخص کے لیےاسی وجہ سے عام رہے کہ قول و فعل پیغمبرﷺ تمام افراد امت کے لیے دستو رالعمل ہوتا ہے جب تک حدیث مرفوع سے ہی تخصیص ثابت نہ ہو۔ قال اللہ تعالیٰ: لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة الایۃ پس بناء بر تقریر ہذا ان آیات کا جواب ہر شخص کو دینا چاہیے عام ازیں کہ قاری ہو یا سامع ، نماز میں ہو یاغیر نماز میں امام ہو یامقتدی یا منفرد اتباعا لفعل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

اس کے بعد حضرت میاں صاحب نے ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور صحیح مسلم سے ان احادیث کو نقل کیا ہے جن سے آنحضرتﷺ سے ان آیات کا جواب دیناثابت ہوتا ہے ، اس کے بعد آپ جامع ترمذی کے حوالہ سے وہ حدیث سے وہ حدیث لائے ہیں جس میں آپؐ نے صحابہؓ کی خاموشی پر جنوں کے جواب دینے کا تذکرہ فرمایا اور صحابہؓ کو سورۃ رحمٰن کی مخصوص آیت کے جواب کی ترغیب دی، ان تمام روایات کونقل کرنے کےبعد میاں صاحب فرماتے ہیں:

''اس حدیث ترمذی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس قسم کی آیتوں کا جواب قاری یا مصلی کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ خود اس کلام پاک کے معنی اور موقع کے لحاظ سے ہے۔ جب ہی تو آپؐ نے صحابہ کرامؓ کے سکوت پر اعتراض فرمایا او رجنات کے جواب دینے کو مدحیہ طور پر ذکر فرمایا، حالانکہ آپؐ نے اس سے پہلے صحابہ کرامؐ کو اس جواب کی تعلیم نہیں فرمائی تھی، پس معلوم ہواکہ خود رسول اللہﷺ نے بھی جن جن آیات کاجواب دیا ہے وہ اس خصوصیت سے نہیں کہ آپؐ امام یا قاری تھے بلکہ ان آیتوں کا معنی اور موقعہ ہی ایسا ہے کہ جب وہ آیت پڑھی جاوے تو پڑھنے والا اور سننے والا اس کامناسب جواب ،جو احادیث سے ثابت ہووے دے۔

اس کے بعد حضرت صاحب نے اپنی تقریر کی تائید میں جامع صغیر کی شرح، شرح صحیح مسلم او رکتاب الاذکار للنووی کی بعض عربی عبارات تحریر فرمائی ہیں جنہیں ہم طوالت کے خوف سے حذف کررہے ہیں۔ ان عبارات کا جوہری مفہوم یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا یہ قول ''أليس ذٰلك بقٰدر على أن يحيي الموتى '' اور ''أليس الله بأحكم الحاكمين'' پڑھے تو ''بلیٰ'' کہے، کیونکہ ان آیات میں سوال کیاگیا ہے جس کا جواب دیناچاہیے او رخطاب کا حق ہے کہ مخاطب اس کا مناسب جواب دے، اگر نہ دے گا تو سامع غافل او ربے خبر تصور ہوگا یا جیسے کوئی جانور ہے جو آواز تو سنتا ہے لیکن مطلب نہیں سمجھتا یا کسی اندھے، گونگے ، بہرے کی طرح جسے کچھ سمجھ نہ آئے۔ یہ حالت بہت بُری حالت ہے۔ (مفہوم عبارات نقل کردہ میاں صاحب)

اسی ساری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ |آیات کا جواب قاری اور امام کی طرح سامع اور مقتدی کے لیے بھی جائز او رمستحب ہے، اگرچہ واجب کسی پرنہیں۔ بعض نو جوان اہل علم ایسے مسائل میں تشدد پر اتر آتے ہیں تو پرسکون ماحول میں توحش اور ارتعاش پیدا کرنا وجہ افتخار خیال کرتے ہیں|۔ یہ روشن سلف کے تعامل کے قطعی خلاف ہے۔ضعیف حدیثوں سے وجوب تو نہیں، استحباب بہرحال ثابت ہوجاتا ہے او رجہاں دلائل متعارض ہوں وہاں تطبیق کے علاوہ توفیق کا عمل بھی مناسب ہوتاہے اور دلائل متعارضہ کا حق یہی ہے کہ مسئلہ میں وسعت رہنے دی جائے اور کسی کو کوئی خاص اور معین صورت اختیار کرنے پرنہ مجبو رکیا جائے او رنہ ہی دوسری صورت اپنانے والوں پر طعن و تشنیع کی جائے او رنہ ہی فریقین سے کسی کوبدعتی یا تارک حدیث کہا جائے کہ سلامتی کی راہ یہی ہے۔ (ہفت روزہ اہلحدیث20 ۔ اکتوبر 1978ء)

تعاقب از موانا حافظ ثناء اللہ خاں صاحب

فروعی مسائل میں اہلحدیث کا طرز فکر و عمل:

مؤقر جریدہ ہفت روزہ ''اہل حدیث'' لاہور مورخہ 20۔ اکتوبر 1978ء میں قرآنی آیات کے جواب کے سلسلہ میں میری رائے کے ساتھ ہمارے محترم دوست مدیر اعلیٰ اہل حدیث نے اپنی مخالفانہ رائے کا اظہار بھی ضروری سمجھا ہے او راس کے لیے انہوں نے جماعت اہل حدیث کی دو مایہ ناز ہستیوں کے فتاویٰ کی اشاعت کی ہے تاکہ اپنے مدعا کو تقویت دے سکیں۔

جہاں تک ان مبارک ہستیوں کے عزت و احترام اور علم و فضل او راعلیٰ مقام کاتعلق ہے ہمیں ان سے کوئی نسبت نہیں، لیکن مدیر اعلیٰ موصوف نے ان کے فتویٰ کو جس انداز میں شائع کیا ہے او راس ضمن میں اپنی طرف سے جو اصولی بحث (ضعیف حدیث کے قابل عمل ہونے کی) اٹھائی ہے موجودہ علمی انحطاط کے دو رمیں وہ کئی فتنوں کادروازہ کھول سکتی ہے اس لیے میں نےمناسب سمجھاکہ کم ازکم اس بارے میں اہل حدیث کے انداز فکر کی وضاحت کردوں کیونکہ اہل حدیث کا نہج فکر مخصوص ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کسی مسئلہ میں اہل حدیث علماء کی دو رائے ہوں لیکن اہل حدیث کا مخصوص فکر اگر اپنے امتیازات کھو بیٹھے تو پھر اس مکتب فکر کے وجود کا جواز باقی نہیں رہتا ، جیسا کہ بعض موقعوں پر عامۃ الناس علماء اہل حدیث کی مختلف آراء دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں او راس تذبذب میں پڑ جاتے ہیں کہ اس میں سے کون سا مسلک اہل حدیث کا ہے، حالانکہ مسلک اہل حدیث پیش آمدہ مسائل کے حل میں صرف ایک مخصوص طرز عمل سے واسطہ رکھتا ہے جس کی حفاظت علماء اہل حدیث پر فرض ہے۔ ہمارے نزدیک آراء کے باہمی تفاوت کی زیادہ اہمیت نہیں۔طوالت سے بچنے کے لیے ہم مثالیں پیش کرنے سے احتراز کرتے ہیں۔غالباً مدیر اعلیٰ کو بھی ہمارے اس اصول سے اختلاف نہیں ہوگا۔ اس تمہید کے بعد ہم اپنے جائزہ کو اہل حدیث کے علمی اسلوب کی وضاحت کی غرض سے صرف دو نکتوں پرمحدود رکھتی|ں گے۔

اوّلاً : مدیر اعلیٰ کا یہ فرمان محدثین کے نزدیک کہاں تک درست ہے کہ:

''ضعیف حدیثوں سے وجوب تو نہیں استحباب بہرحال ثابت ہوجاتا ہے۔''

ثانیاً: مسئلہ مذکورہ کی وضاحت کے لیے محترم بزرگوں کے فتوؤں کی اشاعت کا انداز تقلیدی تو نہ ہے جب کہ خود ہی یہ بزرگ غیر منقسم ہندوستان میں مقلدین کے خلاف صف آرا رہے شیخ الکل میاں صاحب  نے ''معیار الحق'' کتاب لکھی او رحضرت الاستاذ محدث روپڑی کی بیشتر تصانیت کا محور یہی موضوع رہا۔ پہلے نکتہ کے لیے ہم اہل حدیث کے متقدمین اور متاخرین ،راسخین فی العلم کے چند ایک ارشادات کا مختصر ذکر ہی کافی سمجھتے ہیں ورنہ اس موضوع پر ان بزرگوں نے اس قدر تفصیلی بحثیں کی ہیں کہ ایک مستقل تصنیف بھی اس کی متحمل نہیں ہوسکتی او راس موضوع پر ان شاء اللہ کسی فرصت میں ایک مقالہ ہدیہ ناظرین کروں گا۔ فی الحال ائمہ کے چند ارشادات پیش خدمت ہیں۔

اصول حدیث کی مشہور کتاب ''قواعد الحدیث '' میں علامہ جمال الدین قاسمی  فرماتے ہیں: ''فقد حکي فیه عن جماعة من الأئمة أنهم لا یرون العمل بالحدیث الضعیف مطلقا کابن معین البخاري و مسلم و أبي بکر بن الحربأ الفقیه و غیرهم و منهم ابن حزم'' یعنی ائمہ اہل حدیث کی ایک جماعت اس طرح گئی ہے کہ ضعیف حدیث پرعمل مطلقاً ناجائز ہے (خو اہ مسئلہ وجوبی ہو یا استحبابی) ان میں سے ابن معین، بخاری، مسلم، ابوبکر العربی وغیرہم ہیں، ابن حزم کی بھی یہی تحقیق ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ''القاعدۃ الجلیلة'' صفحہ 84 میں فرماتے ہیں: ''ولم یقل أحد من الأئمة أنه یجوز أن یجعل الشيء واجبا  أو مستحبا بحدیث ضعیف ومن قال هذا فقد خالف الإجماع'' یعنی ''ائمہ میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ کسی ضعیف حدیث سے کسی شے کو واجب یا مستحب قرار دینا جائز ہے اور جو یہ کہتا ہے وہ اجماع کی مخالفت کرتا ہے۔'' گویا مدیر اعلیٰ کی یہ بات کہ ''ضعیف حدیثوں سے وجوب تو نہیں استحباب بہرحال ثابت ہوجاتا ہے۔'' ائمہ اہل حدیث کے اجماع کے خلاف ہے ہند میں اہل حدیث انداز فکر کے مشہور نقیب نواب صدیق حسن |خاں اپنی عربی تفسیر ''فتح البیان في مقاصد القرآن'' کے مقدمہ میں فرماتے ہیں۔''أخطأ من قال أنه یجوز التساهل في الأحادیث الواردۃ في فضائل الأعمال'' یعنی ''وہ شخص غلطی پر ہے جو عقیدہ رکھے کہ فضائل اعمال میں ضعیف احادیث کو بھی لینا جائز ہے۔''

چونکہ مدیر اعلیٰ کو یہ غلطی اہل الرائے کے بعض علماء کے طرز عمل سے لگی ہے۔ اس لیےمحدثین کے اس مسئلک کی وضاحت ہم ان ہی کے حوالہ سے پیش کیے دیتے ہیں۔ چنانچہ مولانا عبدالحئ لکھنوی اپنی تصنیف ''الاجوبۃ الفاضلہ'' میں مشہور محقق جلال الدین الدوانی سے نقل فرماتے ہیں۔ ''اتفقوا علی أن الحدیث الضعیف لا یثبت به أحکام الخمسة الشرعیة و منھا الاستحباب'' یعنی محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ضعیف حدیث سے کوئی حکم شرعی (وجوب،حرمت،استحباب، کراہت او راباحت) ثابت نہیں ہوتا۔ ان سے استحباب بھی ہے۔ عالم اسلام کے مشہور محدث علامہ ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ تعالیٰ متذکرہ بالا مغالطےٰ (بعض ائمہ حدیث ضعیف حدیث سے احتجاج میں تساہل روا رکھتے ہیں) کا ازالہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ  سے نقل کرتے ہیں:

''ومن نقل عن أحمد أنه کان یحتج بالحدیث الضعیف الذي لیس بصحیح ولا حسن فقد غلط علیه '' (بحوالہ القاعدۃ الجلیلة صفہ85) یعنی جس نے امام احمد  سے نقل کیا ہے کہ وہ ضعیف حدیث سے بھی دلیل پکڑتے تھے اس نے آپ پر غلط الزام لگایا ہے اور علامہ احمد محمد شاکر الباعث الحثیث صفحہ 101 میں لکھتے ہیں:'' وأما ما قاله أحمد بن حنبل ، وعبد الرحمن بن مهدي ، وعبد الله بن المبارك ... فإنما يريدون به ـ فيما أرجح ، والله أعلم ـ أن التساهل إنما هو في الأخذ بالحديث الحسن الذي لم يصل إلى درجة الصحة ؛ فإن الاصطلاح في التفرقة بين الصحيح والحسن لم يكن في عصرهم مستقراً واضحاً ، بل كان أكثر المتقدمين لا يصف الحديث إلا بالصحة أو بالضعف فقط'' یعنی ''احمد بن حنبل، عبدالرحمٰن بن مہدی او رعبداللہ بن مبارک کے اس قول، (حرام او رحلال کے بارہ میں مروی حدیث میں ہم سختی کرتے ہیں اورفضائل اعمال کے بارہ میں ہم نرمی کرتے ہیں) کامفہوم یہ ہے کہ ان کی نرمی صرف حسن حدیث قبول کرنے تک تھی کیونکہ ان کے زمانہ میں ابھی صحیح او رحسن کا مروجہ فرق نہ تھا بلکہ اکثر متقدمین حدیث کو صحیح کہتے تھے یا ضعیف یعنی وہ حدیث کی صحیح اور ضعیف صرف دو قسمیں کرتے تھے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ  او رمشہور محدث علامہ احمد محمد شاکر کی توجیہات پیش کرنے کے بعد شیخ البانی ایک اور توجیہ اپنی طرف سے بھی پیش کرتے ہیں وہ یہ کہ ان کی مذکورہ نرمی دراصل ان کا یہ رواج تھا کہ وہ ضعیف احادیث کو باسند روایت کرتے تھے کیونکہ اس زمانہ میں ضعیف حدیث کوباسند نقل کرنا اس کی تصحیح یا ضعیف سے کفایت کرتا تھا۔ (ملخصاً)

دراصل قرآنی آیات کے جواب کے بارے میں اس کا استحباب قاری تک محدود رکھنے کے حق میں میری ترجیحی رائے احادیث کے معیار پر مبنی ہے۔ میں نے اپنے جواب میں اس بارے میں وارد احادیث میں صحت اور ضعف پربحث کرکے لکھا ہے کہ صحیح احادیث میں سامع مقتدی یا غیر مقتدی کا جواب ثابت نہیں، اس لیے میری نظر میں اولیٰ یہ ہے کہ اس حکم استحباب کو صرف قاری پر محصور رکھا جائے۔ یہ بات لکھتے ہوئے میرے سامنے ایک تو احادیث کا معیار تھا کہ سامع کے بارے کوئی صحیح حدیث موجو دنہیں جبکہ ہمارے ہاں اہل حدیث میں یہ عمل عام ہوکر عدم توازن کا شکار ہوگیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ قرآن کی عام آیت رحمت و عذاب پر تو خاموش رہتے ہیں لیکن چند مخصوص صورتوں میں جواب کو سنت قرار دے دیا ہے۔ یہ مروجہ طریقہ سلف میں موجود نہ تھا، اس لیے میں نے یہ رواج مرجوح سمجھا، رتیسری وجہ میرے سامنے فقہاء محدثین کا یہ اصول تھا کہ عبادت میں اصل حظر (ممانعت) ہے۔ چنانچہ ہمارے جن بزرگوں نے سامع کو بھی قاری پرقیاس کیا ہے انہوں نے اس مذکورہ اصول سے اس مسئلہ میں بے اعتنائی کی ہے۔

چوتھی وجہ چند احادیث ہیں جو نماز کی حالت میں مقتدی کی خاموشی کو کم از کم احتیاطی حیثیت تو دے دیتی ہیں مثلاً حدیث: ''لاتفعلوا إلابفاتحة الكتاب'' اور ''وإذا قرأ فأنصتوا'' وغیرہ۔

پانچویں وجہ جو حقیقت میں فتوےٰ میں مذکور حضرت شیخ الکل میاں صاحب کے اصول (قول و فعل) کی صحیح تعبیر ہے۔ پیغمبر تمام افراد امت کے لیے دستو رالعمل ہوتا ہے جب تک حدیث مرفوع میں ہی تخصیص ثابت نہ ہو وہ یہ کہ نبیﷺ کی اتباع صرف اس معنی میں جمیع افراد امت کے لیے عام ہے جب فرد کی حالت بھی وہی ہو ، یعنی آپ نے اگر کوئی عمل قاری کی حیثیت سے کیا ہے تو امت کے سب قاریوں کے لیے ہوگا۔ اصول نے عموم فعل اور العبرۃ بعموم اللفظ کی مباحث میں اس نکتہ کی وضاحت کی ہے مثلاً قرآن کی آیت وإذا قرئ القرآن الایۃ سے کوئی شخص یہ عمومی حکم نکالے کہ نماز سے باہر ایک شخص قرآن کی تلاوت کررہا ہو تو اس کے قریب دوسرے تلاوت کرنے والے سب خاموش ہوجائیں تو یہ عموم غلط ہوگا۔

ہمارا خیال ہے کہ مدیر اعلیٰ موصوف بھی اس حکم کو مقتدی او رعام سامع تک نہیں سمجھتے ہوں گے۔ اس روشنی میں ہماری ترجیحی رائے پر بھی غور فرمائیں کہ ہماری احتیاط کتنا وزن رکھتی ہے۔

اب ہم دوسرے نکتہ پر توجہ دلانا مناسب سمجھتے ہیں، چونکہ جماعت اہل حدیث جو پاک و ہند میں حضرت شیخ الکل او رحضرت الاستاذ محدث روپڑی وغیرہ بزرگوں کی مجاہدانہ سرگرمیوں کا ثمرہ ہے ، ان بزرگوں کی کتاب و سنت کے احیاء اور تقلید سے اجتناب کے لیے کامیاب تحریک کے امتیازات آہستہ آہستہ پس پشت ڈال رہی ہے۔ان بزرگوں نے تو مذاہب اربعہ کے مذہبی تعصب سے نجات دلائی تھی لیکن ہم لوگ ان کی تقلید کے درپے ہوکر پانچواں تقلیدی مذہب اختیار کررہے ہیں او رآج کل زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ ہم ان بزرگوں کے ہر جزوی مسئلہ کو بھی تسلیم کریں حالانکہ اہل حدیث کامسلک چند فروعی مسائل کی مخصوص تعبیر نہیں ہے بلکہ اہل حدیث کتاب و سنت کی سلفی نہج پرفہم و تعبیر کا نام ہے۔کسی مخصوص مسئلہ میں اہل حدیث کی دو یا زیادہ آراء سے مسلک اہل حدیث پر کوئی زد نہیں پڑتی۔ اس لیے ہم نے بھی پیش آمدہ مسئلہ میں کوئی سخت رویہ اختیار نہیں کیا تھا بلکہ استحباب کے دو پہلوؤں میں ایک کو اولیٰ قرار دیا تھا یعنی قرآنی آیات کا جواب صرف استحبابی مسئلہ ہے۔ قاری کے جواب کے حق تک تو ہم بھی مستحب سمجھتے ہیں لیکن سامع کےلیے ضعف احادیث کی وجہ سے جواب کو احتیاط کے منافی سمجھتے ہیں۔ بہت سے ائمہ نے اس حکم کو مزید محدود کیا ہے۔ بعض تو اس کے لیےصرف نفل نماز کی شرط لگاتے ہیں اور بعض صرف منفرد کے لیے جائز سمجھتے ہیں، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ (مغنی ابن قدامہ جلد اوّل صفحہ 550، سبل السلام جلد اوّل صفحہ 286 وغیرہ۔ اہلحدیث، الاسلام ، الاعتصام)

مولانامحمد عطاء اللہ صاحب حنیف کا تبصرہ!

اس سلسلے میں ہمیں دو گزارشات کرنی ہیں|۔ اوّل حدیث ضعیف کے سلسلے میں وہ یہ کہ فاضل مضمون نگار کی حدیث ضعیف کے متعلق بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ حدیث ضعیف مطلقاً ناقابل اعتبار ہے لیکن یہ اطلاق محل نظر ہے۔ ہم موصوف کو حافظ ابن حجر کے اس فیصلے کی طرف توجہ دلائیں گے کہ انہوں نے تین شرطوں کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ تدریب الراوی وغیرہ میں ہے۔

وذكر شيخ الإِسلام له ثلاثة شروط : أحدها : أن يكون الضعف غير شديد ، فيخرج من انفرد من الكذابين والمتهمين بالكذب ومن فحش غلطه ، نقل العلائي الاتفاق عليه .
الثاني : أن يندرج تحت أصل معمول به .الثالث : أن لا يعتقد عند العمل به ثبوته بل يعتقد الاحتياط (صفحہ 196، طبع مدینہ منورہ ۔ 1959ء)

یعنی شیخ الاسلام (حافظ ابن حجر) نے حدیث ضعیف کے لیے تین شرطیں ذکر کی ہیں‎۔ (1) ضعف شدید قسم کا نہ ہو یعنی راوی کذاب یا متہم بالکذب اور خطائے فاحش کامرتکب نہ ہو (اگر کسی روایت میں اس انداز کا راوی ہوگا تو یہ ضعف شدید ہوگا، جس کی وجہ سے روایت پایہ اعتبار سے ساقط ہوجائے گی) (2) بیان کردہ روایت کی کوئی ایسی اصل (بنیاد) موجود ہو جو معمول بہ ہو (3) عمل کرتے وقت ''روایت کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھے بلکہ احتیاط کے طور پر اس پر عمل کو جائز سمجھے۔'' تیسری شرط کا مطلب یہ ہے کہ اگر حدیث ضعیف میں مذکور عمل کی فضیلت کی کوئی اصل صحیح بھی موجود ہوتو ایسی ضعیف قابل عمل ہوسکتی ہے او رہم سمجھتے ہیں کہ فاضل موصوف کے استاذ علامہ ناصر الدین البانی، (حفظہ اللہ) جو ضعیف احادیث کے معاملہ میں کافی متشدد بتائے جاتے ہیں۔ اس توجیہ سے شاید ان کو بھی انکار نہ ہو جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا بھی رجحان اسی طرف ہے۔ فاضل تنقید نگار نے حضرت الامام کی جس عبارت کا ایک ٹکڑا نقل کیا ہے۔ وہ عبارت یہ ہے۔ (یعنی ایک طویل بحث کے سلسلے میں)

لكن أحمد بن حنبل وغيره من العلماء جوزوا أن يروى في فضائل الأعمال ما لم يعلم أنه ثابت إذا لم يعلم أنه كذب ، وذلك أن العمل إذا علم أنه مشروع بدليل شرعي وروى حديث لا يعلم أنه كذب جاز أن يكون الثواب حقاً ، ولم يقل أحد من الأئمة أنه يجوز أن يجعل الشيء واجباً أو مستحباً بحديث ضعيف ، ومن قال هذا فقد خالف الإجماع .. فيجوز أن يروى في الترغيب والترهيب ما لم يعلم أنه كذب إلی آخرما قال (التوسل صفحہ 84،85)

دوسری بات زیر بحث مسئلہ کے متعلق ہے۔ سو اولاً ہمارے ہاں اس رواج کا کہ مقتدی بلند آواز سے یہ ''جوابات'' دیتے ہیں، کوئی جواز معلوم نہیں ہوتا۔ ثانیاً مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی صفحہ 215 ج4 میں زیر حدیث متعلقہ جواب آیت سورہ والتین فرمایا ہے۔ ''والحدیث یدل علی انمن یقرأ ھذہ الاٰیات یستحب لہ ان یقول تلک الکلمات سواء کان فی الصلوٰۃ او خارجہا واما قولھا للمقتدی خلف الامام فلم اقف علیٰ حدیث یدل علیہ انتہیٰ''

یعنی'' اس حدیث سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ قاری کا ''الیس اللہ باحکم الحاکمین'' کے بعد ''بلیٰ و انا علی ذلک من الشھدین'' کہنا مستحب ہے۔ وہ قاری نماز کے اندر ہو یانہ ہو لیکن امام کے پیچے مقتدی کا کہنا جہاں تک مجھے علم ہے ، کسی حدیث میں نہیں آیا ہے۔'' مولانا عبید اللہ صاحب مبارکپوری مدظلہ کا بھی فیصلہ یہی ہے۔

''والحديث يدل على أن من يقرأ هذه الآيات يستحب له أن يقول تلك الكلمات سواء كان في الصلاة أو خارجها. وأما قولها للسامع المقتدي أو غير المقتدي فلم أقف على حديث مرفوع صريح يدل على ذلك الخ'' (مرعاۃ المفاتیح صفحہ 68 ،صفحہ628 جلد اوّل طبع المکتبۃ السلفیہ لاہور)

رہی وہ بات جو مرعاۃ میں متاخرین شافعی فقہاء سے نقل کی گئی ہے تو اس کی حیثیت نکتہ آفرینی سے زیادہ نہیں معلوم ہوتی۔ ھذا ما عندنا واللہ اعلم (ہفت روزہ الاعتصام 29 دسمبر 1978ء)

جواب تبصرہ از مولانا حافظ ثناء اللہ خاں صاحب

ضعیف خبر اجماع کی رُو سے ناقابل اعتبار ہے! میں نے مؤقر جریدہ ''اہل حدیث لاہور '' مجریہ 20 ۔ اکتوبر 1978ء میں بعض قرآنی آیات کے جواب دینے کے مسئلہ پر قاری کے لیے اس کا استحباب صحیح حدیث سے ثابت کیا تھا او راس کے ضمن میں سامع کے لیے دار و روایات کا ضعف بھی بیان کیا تھا۔ آخر میں اپنی ترجیحی رائے میں یہ اظہار خیال کیا تھا کہ سامع کے لیے جواب نہ دینے میں احتیاط ہے۔کیونکہ اس بارے میں احادیث ثابت نہیں ہیں۔ اس فتوےٰ کی اشاعت کے لیے مدیراعلیٰ ''اہل حدیث'' نے اپنی مخالفانہ رائے کے لیے یہ اصول پیش کیا تھا۔ ''ضعیف حدیثوں سےوجوب تو نہیں استحباب بہرحال ثابت ہوجاتا ہے'' جس پر میں نے فروعی مسائل میں اہل حدیث کے طرز فکروعمل کی وضاحت کے لیے تبصرہ مناسب سمجھا اور اس اصولی بحث پر اپنا آرٹیکل اشاعت کے لیے مختلف رسائل کو بھیجا۔

ہفت روزہ ''الاسلام'' گوجرانوالہ نے اسے بعینہ شائع کیا اور ہفت روزہ ''الاعتصام'' لاہو رنے بھی عنوان تبدیل کرکے اس کی اشاعت کی۔ ہم واجب الاحترام حضرت مولانا عطاء اللہ صاحب حنیف کے انتہائی شکرگزار ہیں کہ انہوں نے اس پر اپنی طرف سے ملاحظات بھی پیش فرمائے اور نفس مسئلہ کی نہ صرف پرزور تائید کی بلکہ اس سلسلہ میں جماعت اہل حدیث کے دو مایہ ناز بزرگوں کی تائیدی کلام بھی نقل فرمائی۔ اگر صرف فتویٰ کی تائید ہمارا مقصود ہوتی تو ہمارے لیے حضرت مولانا عطاء اللہ صاحب حنیف جیسے بزرگ کی اس مسئلہ پر حتمی رائے کافی تھی جو ہمارے لیے موقف سے بڑھ کر تائیدہے۔ لیکن ہمیں یہ یقین نہیں آرہا کہ محترم موصوف اہل حدیث مکتب فکر کے امتیازی اصولی مسئلہ کے بارے میں محدثین کبار سے اختلاف رائے فرما سکتے ہیں کیونکہ زیر بحث مسئلہ کی تائید کے ساتھ ہی ہمارے اٹھائے ہوئے اصولی مسئلہ پر انہوں نے تعاقب فرمایا ہےچنانچہ موصوف نے اولاً موضوع بحث کو کچھ بدل دیا ہے۔ ہمارے زیرنظر صرف یہ جائزہ لینا تھا (کہ ضعیف حدیث سے وجوب تو نہیں استحباب بہرحال ثابت ہوتا ہے) اہل حدیث کا انداز فکر ہے یا نہیں۔ لیکن محترم موصوف اس موضوع کو بدل کر فرماتے ہیں کہ راقم (ثناء اللہ) کے نزدیک حدیث ضعیف مطلقاً ناقابل اعتبار ہے لیکن مولانا موصوف کی رائے میں یہ اطلاق محل نظر ہے ۔ چونکہ ہم پاکستان میں محدثین کا طرزعمل و فکر کا انحطاط دیکھ رہے ہیں ، اس لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کی وضاحت مناسب طور پر ہوجائے لہٰذا ہم پہلے یہ واضح کریں گےکہ محققین ائمہ حدیث شرعی احکام کے ثبوت میں ضعیف حدیث کا اعتبار نہیں کرتے۔

چونکہ استحباب پانچ شرعی تکلیفی احکام میں سے ایک حکم ہے لہٰذا یہ کسی ضعیف خبر سے ثابت نہیں ہوتا۔ پھر یہ بتائیں گے کہ جن ائمہ حدیث نے ضعیف حدیث کی روایت یا اس پر عمل کے لیے چند شروط لگائی ہیں، ان کا اصل مقصد او رماحصل کیا ہے او رہم کس طرح آج انحطاط علمی کے دور میں ان شروط کا اہتمام نہ رکھ سکنے کی وجہ سے حدیث کے سلسلہ میں نہ صرف غث و سمین کی تمیز ختم ہوگئی ہے بلکہ لوگ ہر طرح کی ضعیف خبر پر عمل سے بڑھ کر اسے عقیدہ سنت سے قابل استدلال ٹھہراتے ہیں۔

اب ہم پہلے نکتہ کو لیتے ہیں کہ حدیث ضعیف سے کوئی حکم شرعی تکلیفی |(وجوب، استحباب، اباحت،کراہت،حرمت) ثابت نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں ہم جہابذۃ محدثین کے بعض اقوال اپنے پہلے تبصرہ میں پیش کرچکے ہیں۔ دیگر بے شمار تائیدات اور وضاحتیں علم حدیث کی کتابوں میں بھری پڑی ہیں۔ ہم ان شاء اللہ کسی دوسری فرصت میں وہ تفصیلاً عرض کریں گے۔ فی الحال اس نکتہ پر امام ابن تیمیہ سے محدثین کا جو اجماع ہم نے نقل کیا تھا، اس کے متعلق وضاحت کرنا کافی ہوگا کیونکہ محترم مولانا عطاء اللہ صاحب حنیف نے غلطی سے یہی عبارت ضعیف حدیث کے قابل اعتبار ہونےکے لیے پیش کردی ہے اور اس عبارت کا کچھ زیادہ حصہ نقل فرمایا ہے کہ شاید ضعیف حدیث سے استحباب کے لیے گنجائش نکل سکے، لیکن اصل رائے جس سے ضعیف حدیث کے ناقابل اعتبار ہونے کاحتمی فیصلہ ہوتا ہے وہ چھوڑ دی ہے لہٰذا اب ہم عبارت کو وہاں سے شروع کرتے ہیں، عبارت یوں ہے:

''ولا یجوز أن یعتمد في الشریعة علی الأحادیث الضعیفة التي لیست صحیحة ولا حسنة لکن أحمد بن حنبل رحمه اللہ وغیره من العلماء الخ'' (التوسل: صفحہ 8485)
مولانامحترم نے ترجمہ نہیں دیا لہٰذا ہم تفہیم عبارت مکمل طور پر کئے دیتے ہیں تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ محدثین کا اتفاق اور اجماع کیاہے اور اختلافی نکتہ کیا ہے؟

''شریعت میں صحیح او رحسن احادیث کے علاوہ ضعیف پر اعتماد جائز نہیں لیکن احمد بن حنبل وغیرہ بعض علماء نے اعمال کی فضیلت کے ذکر میں بعض ایسی روایات کے صرف نقل کی اجازت دی ہے، جن کے صحت کے درجہ تک پہنچنے کا علم نہیں ہوسکا، بشرطیکہ ان کا جھوٹ بھی نامعلوم ہو، وجہ یہ ہ ےک ہجب اصل عمل تو صحیح دلائل سے مشروع ہواو راس مشروع عمل کی فضیلت کے بارے میں ایسی حدیث (خفیف ضعیف) ذکر کردی گئی جس کا جھوٹ ہونا معلوم نہیں، تو (نفس) عمل مشروع ہونے کی بناء پر ثواب تو درست ہے (البتہ ضعیف حدیث سے ثواب کی کیفت یا کمیت کا تعلق ہی باقی رہ جائے گا جو اسرائیلیات کے درجہ کی بات ہوگی۔ ظاہر ہےکہ جب اسرائیل روایات شرع محمدی کے خلاف نہ ہوں تو وعظ و نصیحت میں ان کا ذکر جائز ہے لیکن مسائل میں ان کاکسی درجہ اعتبار نہیں) فرماتے ہیں کہ کوئی امام (بشمول احمد بن حنبل وغیرہ) یہ نہیں کہتا کہ ضعیف احادیث کا اعتبار کرکے کوئی بات واجب یا مستحب قرار دینی جائز ہے اور جو شخص (ضعیف حدیث کے کسی درجہ اعتبار کی) یہ بات کرتاہے،وہ اجماع امت کی مخالفت کرتا ہے۔ (خطوط وحدانی میں مذکور باتیں بھی ابن تیمیہ کی اگلی عبارت کا مفہوم ہیں)

متذکرہ بالا عبارت سے حسب ذیل باتیں حاصل ہوتی ہیں۔

(الف) صحیح اور حسن حدیث کے علاوہ ضعیف احادیث پر اعتبار جائز نہیں۔

(ب) پوری اُمت اس بات پر اجماع کرچکی ہے کہ ضعیف حدیث سے وجوب یا استحباب جائز نہیں اور ائمہ سے اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔

(ج) محدثین کے نزدیک معرض استدلال اور روایت میں ضعیف احادیث کا اعتبار نہیں لیکن احمد بن حنبل وغیرہ بعض علماء چند شروط سے فضائل اعمال میں ان کی صرف روایت جائز سمجھتے ہیں۔

لیکن روایت حدیث کے بارے میں بھی محدثین کا مسلک صحیح مسلم کے مقدمہ سے ملاحظہ فرمائیے۔

حافظ ابن رجب حنبلی شرح ترمذی (ق112؍2) میں فرماتے ہیں:

''وظاهر ماذکره مسلم (یعنی الصحیح یقتضي أنه لا تروی أحادیث الترغیب إلاعمن تروی عنه الإحکام''

امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں ظاہراً یہ مسلک بیان کیا ہے کہ ترغیب و ترہیب (فضائل اعمال) میں بھی صرف وہ احادیث روایت کی جائیں جو احکام میں روایت کی جاتی ہیں یعنی محدثین کا اختلاف ضعیف حدیث کی صرف روایت میں ہے۔ اس کے اعتبار نہ کرنے پر سب متفق ہیں۔امام احمد بن حنبل وغیرہ بعض اعمال کا تساہل روایت کی حد تک ہے۔

غور فرمایئے اس دور میں جب کہ احادیث کی تدوین مکمل نہیں ہوئی تھی اگر احمد بن حنبل وغیرہ بعض شرائط کے تحت ضعیف احادیث کی روایت بھی روا نہ رکھتے تو آج ہم بہت سی ایسی ضعیف روایات سے محروم رہ جاتے جو شواہد اور توابع کی بناء پر مفید ہوتیں۔ خصوصاً جبکہ حدیث حسن بھی اس دور میں ضعیف کی قسم شمار ہوتی تھی، حالانکہ حسن قابل اعتماد ہے یہ وضاحت ہم پہلے تبصرہ میں بھی کرچکے ہیں۔

محدثین کا اختلاف بیان کرنے کے ساتھ مناسب ہوگا کہ یہ بھی بیان کردیا جائے کہ ضعیف سے استحباب کن لوگوں کا مسلک ہے اور اس بدعت کی ایجاد کا باعث کیا ہے؟

ہم پہلے ابن تیمیہ سے یہ نقل کرچکے ہیں کہ پوری اُمت کا ضعیف حدیث کے ناقابل اعتبار ہونے پر اجماع ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل الحدیث کے علاوہ اہل الرائ بھی ضعیف حدیث کو ناقابل اعتبار سمجھتے ہیں لیکن دور تقلید و انحطاط میں جب مسلک کو ضعیف احادیث سے تائید دینے کی حربی ضروریں پیش آئیں تو متعصبین نے بعض اصول ایجاد کیے جن میں سے ایک یہ تھا کہ ضعیف حدیث کے مطابق ان کے امام کا عمل مل جائے تو ایسی حدیث قابل عمل سمجھی جائے گی۔ پھر جب اس اصول کا استعمال معرض استدلال میں ہوا تو اس نے یہ شکل اختیار کی کہ ضعیف حدیث سے استحباب ثابت ہوجاتا ہے۔ یہ دونوں باتیں بعض متاکرین اہل الرائ کی کتابوں میں ملتی ہیں۔ اگرچہ ان کی تائید کے لیے انہوں نے متقدمین اہل الرائ یا بعض محدثین سے حسب منشا استنباطات کی کوشش کی ہے لیکن احمد بن حنبل وغیرہ کے مسلک کی وضاحت ہم کرچکے ہیں۔

اب ہم بعض محدثین کی ضعیف احادیث کی روایت او رشرائط پر گزارشات پیش کرتے ہیں۔چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت مولانا عطاء اللہ صاحب حنیف نے تدریب الراوی کے حوالہ سے چند شروط کا ذکر کیا ہے۔ یہ شروط اگرچہ طالبان حدیث کے ہاں معروف ہیں لیکن ان شروط سے ذہول بہت عام ہوچکا ہے میں شیخ الاسلام حافظ ابن حجر کے کلام اوراس کے مفہوم کے لیے اُن کے شاگرد خاص حافظ حافظ سخاوی کی کتاب ''القول البدیع في الصلوٰة علی الحبیب الشفیع'' صفحہ 258 طبع مدینہ منورہ کے حوالہ سے نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں:

''وقد سمعت شیخنا مرارا یقول و کتبه لي بخطه أن شرائط العمل بالضعیف ثلاثة الأول متفق علیه أن یکون الضعف غیر شدید فیخرج من انفرد من الکذابین والمتهمین بالکذب و فحش غلطه الثاني أن یکون مندرجا تحت أصل عام فیخرج ما یخترع بحیث لایکون له أصل أصلا الثالث أن لا یعتقد عند العمل به ثبوته لئلا ینسب إلی النبي صلی اللہ علیه وآله وسلم مالم یقله۔''

ہم نے اپنے استاذ حافظ ابن حجر سے کئی بار سنا او رانہوں نے مجھے اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیا کہ ضعیف حدیث پر عمل کے لیے تین شرطیں ہیں۔ پہلی جس پر اتفاق ہے، یہ ہے کہ ضعف شدید نہ ہو۔ تاکہ جھوٹوں کےساتھ متہم او رجن سے روایت حدیث میں بڑی غلطیاں ہوئیں، سے احتراز ہوجائے، دوسری یہ ہ کہ وہ حدیث ایک عام اصل کے تحت ہو، تاکہ جس حدیث کا کوئی اصل صحیح ثابت نہہو اس سے بچا جاسکے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ اس حدیث پر عمل کرتے وقت اس کے سنت ہونے کا عقیدہ نہ ہو کیونکہ اس طرح رسول اللہ ﷺ کی طرف وہ بات منسوب ہوجائے گی جو آپؐ نے نہیں فرمائی''

ان شرائط کی علیٰحدہ علیٰحدہ تشریح بھی پیش خدمت ہے ۔ پہلی شرط کا معنی یہ ہے کہ ضعیف حدیث پر عمل کے لیے حدیث کی حالت کی واقفیت ضروری ہے تاکہ شدید ضعف سے بچا جاسکے۔ اس شرط کو پیش نظر رکھ کر غور فرمائیے کہ ہمارے ہاں آج وہ لوگ کتنی تعداد میں ہیں جو احادیث کی صحت کے معیار کو سامنے رکھ کر گفتگو کرسکیں۔

خصوصاً احوال رواۃ کے سلسلہ میں جب مختلف ائمہ کی طرف سے جرح و تعدیل کا اختلاف ہوتا ہے تو اس میں ترجیح دینا کتنا مشکل امر ہے کجا یہ کہ راوی کی عدالت اور ضبط کی باریکیوں کو سامنے رکھ کر معیار حدیث کے متعلق کوئی پختہ رائے قائم کی جائے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ کام ناممکن ہے لیکن یہ بات ماننی پڑے گی کہ اس معیار کا فیصلہ کرسکنے والے بہت کم لوگ ہوں گے ۔نتیجتاً ضعف شدید اور ضعف خفیف کا امتیاز مٹ جائے گا اور بیشتر دفعہ ضعف شدید نظر انداز کردیا جائے گا۔

دوسری شرط کامعنی یہ ہے کہ ضعف حدیث میں مذکور مسئلہ کا اصل صحیح حدیث سے ثابت ہومثلاً کوئی عمل اصلاً تو صحیح حدیث سے مشروع ہے لیکن اس پرثواب کا ذکر ضعیف حدیث میں آیا ہو۔غور فرمائیے کہ بات عمل کی ہورہی تھی اور عمل صحیح حدیث سے مشروع ہے۔ حالانکہ ثواب کا تعلق انسان سےنہیں وہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ضعیف احادیث پر عمل سے کیا فرق پڑا؟ اصل عمل تو صحیح حدیث پر ہے، ضعیف پر نہیں۔

تیسری شرط کا مطلب یہ ہے کہ ضعف خفیف کے باوجود اس مسئلہ پر عمل کرتے وقت اس کے شرعی ہونے کا عقیدہ نہ رکھے کیونکہ شرع کے ثبوت کے لیے رسول اللہﷺ سے نقل صحیح اور ثبوت ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ بالا شرائط سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صحیح حدیث کے علاوہ ضعیف پر عمل جائز نہیں۔ البتہ مخالف جانب کے لحاظ سے ایسا ممکن ہو گا کہ بعض ان ضعف والی احادیث پر جن میں ظاہراً ثواب کا ذکر ہے لیکن مسئلہ صحیح حدیث سے ثابت ہے، ضعیف احادیث پر عمل کا وہم پڑے گا حالانکہ وہاں اصل عمل صحیح حدیث پرہوگا۔ ابن تیمیہ  کی جو عبارت پہلے گزر چکی ہے جس کے متعلق ہم نے وعدہ کیا تھا کہ اس کی وضاحت ہم شروط کی بحث میں کریں گے۔ ابن تیمیہ وہاں ایسی شروط کا لحاظ رکھ کر امام احمد کی رائے کی وضاحت کررہے ہیں لیکن ابن تیمیہ کی رائے میں امام کے نزدیک ایسی شرائط کا تعلق روایت حدیث سے ہے عمل حدیث سے نہیں، اس لیے روایت حدیث کی صورت میں ان شرائط کالحاظ یا صرف صحیح حدیث پر عمل کی رائے رکھنا ایک ہی معنی رکھتا ہے۔

ہمارا دل چاہتا ہے کہ محدثین کا طریق روایت اور روایت میں صحت و ضعف کے اعتبار کے لحاظ سے ان کے عمل پر بحث کریں او ریہ بتائیں کہ وہ کسی نہ کسی اندا زمیں روایت کرتے وقت بھی صحت اور ضعف کی نشاندہی ضروری سمجھتے تھے لیکن اس کے لیے ایک مستقل مضمون کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہم اس نکتہ کو چھوڑے دیتے ہیں۔ ہم اپنی گفتگو کو ختم کرنے سے پہلے اپنے استاذ شیخ ناصر الدین البانی جن کے بارہ میں حضرت مولانا عطاء اللہ صاحب کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ وہ شروط بالا کی وضاحت ان ہی کے کلام سے کیے دیتے ہیں۔ چنانچہ استاذ محترم کی کلام بلفظہ ملاحظہ فرمائیے:

«وجملة القول: إننا ننصح إخواننا المسلمين في مشارق الأرض ومغاربها، أن يَدَعوا العمل بالأحاديث الضعيفة مطلقاً، وأن يوجهوا همتهم إلى العمل بما ثبت منها عن . ففيها ما يغني عن الضعيفة. وفي ذلك منجاةٌ من الوقوع في الكذب على رسول الله . والذين يُخالِفونَ في هذا، لا بُدّ وأنهم واقعون فيما ذكرنا من الكذب. لأنهم يعملون بكل ما هبّ ودبّ من الحديث. وقد أشار إلى هذا بقوله: «كفى بالمرء كَذِباً أن يحدّث بكلّ ما سمِع». أخرجه مسلم. وعليه نقول: كفى بالمرء ضلالاً أن يعمل بكل ما سمع!»

''ہم مشرق و مغرب میں اپنے مسلمانوں بھائیوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ ضعیف احادیث پر عمل کو کلی طور پر ترک کردیں او راپنی ہمتوں کو صرف انہی احادیث پر مرکوز کردیں جو نبی علیہ السلام سے ثابت ہیں۔ ان میں وہ چیز موجو دہے جو ضعیف احادیث سے انسانوں کے لیے کافی ہو اور اس میں نجات ہو۔ چہ جائیکہ انسان رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ کا ارتکاب کر بیٹھے کیونکہ ہم تجربہ کی بناء پر جانتے ہیں کہ جو لوگ اس میں مخالفت کرتے ہیں وہ کذب میں واقع ہوئے ہیں کیونکہ وہ ہر قسم کی غث و سمین پرعمل کے عادی ہیں۔ رسول اللہﷺ اسی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔ انسان کے لیے یہی جھوٹ کافی ہے کہ وہ ہر سنی بات بیان کردے اور میں کہتا ہوں یہی گمراہی کافی ہے کہ سنی بات پر عمل کرے۔''

خلاصہ کلام یہ ہے کہ محققین علماء امت اس بات پرمتفق ہیں کہ شریعت او راس کی جزئیات خواہ وہ عمل ہوں یا فضائل اعمال ان کا اعتبار اسی صورت میں ہوگا جب وہ رسول اللہﷺ سے بہ نقل صحیح ثابت ہوں۔ اگر کوئی چیز آپؐ سے ثابت نہ ہو یااس کی نسبت آپؐ کی طرف ضعیف ہو تو اسے مشروع نہیں سمجھا جائے گا کیونکہ یہ وعید بالفاظ تواتر ثابت ہے۔ من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار (بخاری) یعنی جو شخص رسول اللہﷺ پر قصداً جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ آپؐ پرجھوٹ کی ایک شکل یہ ہے کہ کسی بات کے بارے میں آپؐ کی نسبت اعتماد نہ ہو کہ وہ آپؐ ہی کا قول و فعل اور تقریر ہے اور وہ یقینی صیغوں سے آپؐ کی طرف نسبت کی جائے۔

ضعیف حدیث کے بارے میں کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ رسول اللہﷺ کی سنت ہے۔لہٰذا اس کی اتباع کی صورت میں ظن مرجوح پرعمل لازم آئے گا جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مذمت فرمائی ہے۔ ان یتبعون الاالظن وان الظن لا یغنی من الحق شیئا۔

واٰخرد عوانا أن الحمدلله رب العلٰمین