یورپی مستشرقین نےحضرت نبی کریمﷺ کی کثرت ازواج مطہرات پربہت سے اعتراض کیے ہیں او راب بھی بعض مکتب فکر کے لوگ جو حقیقت حال سےناواقف ہوتے ہیں۔ واقعات کا دیانت دارانہ جائز لئے بغیر رحمۃ للعالمینؐ کی عظمت و منصب کا لحاظ رکھے بغیر اشارتاً یا کنایتاً ایسے خیالات کا اظہا رکرتے رہتے ہیں۔ از روئے انصاف و عقل بہتر طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کسی مسئلہ کے ہرایک پہلو کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے۔
اگر بفرض محال مستشرقین کے اعتراضات کو درست تسلیم کرلیا جائے ، تو بھی محمدﷺ کی عظمت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ وجہ یہ ہے کہ جن قوانین فطرت کا اطلاق عوام پر ہوتا ہے بعض دفعہ مرضی باری تعالیٰ سے انبیاء کرام ان قوانین و قواعد سے مستثنا پائے جاتے ہیں۔ ہم آپ کو اصول فطرت سے ذرا ہٹاکر ایک بزرگ نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال پیش کرتے ہیں جن کی ولادت تو دائرہ قدرت کے اختیار میں تھی مگر اصول قدرت کے مطابق نہیں تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے بعد لوگ حضرت مریم علیہ السلام کے پاس آئے اور بچہ کی طرف اشارہ کرکے کہا''یہ کیا ہے؟'' بجائے اس کے کہ ان کی والدہ جواب دیتیں ، بچہ نے کہا ''میں خدا کا بندہ ہوں '' اگرچہ یہودیوں نے اس خلاف فطرت بچہ کو ماننے سے انکار کردیا۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصی عظمت سے یہ چیز پایہ ثبوت کو پہنچ گئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طبعی طبیعت اور فطری قواعد و ضوابط کوبدل دیا اور اس قسم کی تبدیلی پر اللہ تعالیٰ پوری طرح قادر ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ عیسائی مبلغین حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تو لوگوں سے کہتے ہیں کہ قانون کائنات کی تبدیلی پر یقین لے آؤ۔لیکن خرق عادت کے اس سے کم تر عجب واقعات جو رسول کریمﷺ سے منسوب ہیں ان پر تنقید شروع کردیتے ہیں۔حالانکہ اکابرین سے ایسے واقعات کا ظہور ممکن ہے جورسوم، اجتماع اور قوانین طبعی کے خلاف ہیں۔ (محمد حسین ہیکل۔ سیرت الرسولؐ۔ 394)
ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ہم جس زمانہ کا ذکر کررہے ہیں، اس وقت عرب قوم میں کیا رواج تھا یہ تو واضح ہے کہ عربوں میں کثرت ازواج کو صراحتہً کبھی منع نہیں کیاگیا۔ پس تحدید ازدواج کے حکم سے پیشتر کثرت ازواج کوئی ایسا فعل نہ تھا جس پر انبیاء سابقین یا حضور نبی کریمﷺ پر نکتہ چینی کی جاسکے۔ دلائل عقلی اور قرآن حکیم کے تمام احکامات سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی امر کے امتناع کے احکام صادر ہونے کے زمانہ مابعد سے علاقہ رکھتے ہیں نہ کہ اس حکم کے قبل کے زمانہ سے۔
حضور نبی اکرمﷺ کےسپرد جو کام کیا گیا تھا ۔ وہ یہ تھا کہ ایک نوزائیدہ قوم کو ، جو اسلامی تہذیب کے نقطہ نظر سے تراشیدہ تھی،ہر شعبہ زندگی میں تعلیم و تربیت دے کر ایک اعلیٰ درجہ کی مہذب و شائستہ او رپایزہ قوم بنائیں۔ اس غرض کے لیے صرف مردوں کو تربیت دینا کافی نہ تھا۔ بلکہ عورتوں کی تربیت بھی اتنی ہی ضروری تھی ۔ اسلامیات کے اصول سکھانے پر جو لوگ مامور کیے گئے تھے یا کو مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط پر پابندیاں تھیں۔ذرائع ابلاغ کے لیے اخبار، ریڈیو، ٹی وی تو تھے ہی نہیں۔لے دے کر عورتوں کو براہ راست تعلیم کے لیے عورتوں کی ضرورت تھی اور اس کی واحد ضرورت یہی ہوسکتی تھی کہ آپ کی اپنی تربیت یافتہ اور ذمہ دار خواتین تیار کی جائے جو صحیح خطوط پر عورتوں کو دینی تعلیم دے سکیں۔ صرف اسی مقصد کے پیش نظر آپ نے متعدد خواتین سے نکاح کئے ان کو براہ راست تعلیم دی تاکہ وہ ان عالمانہ صلاحیتوں کے ساتھ خواتین عرب میں تبلیغ کا کام انجام دے سکیں۔
اس کے علاوہ اسلامی نظام زندگی قائم کرنے کے لیےجاہلانہ نظام زندگی کو اختیار کرنے والوں سے جنگ بھی ناگزیر تھی۔ ان حالات میں دوسری تدابیر کے ساتھ ساتھ آ پ کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ مختلف قبائل میں نکاح کرکے دیرینہ عداتوں کو ختم کریں او رنئی دوستیوں کی بناء پر مستحکم کرسکیں۔چنانچہ جن خواتین سے آپ نے نکاح کئے۔ ان کے انتخاب میں یہ مصلحت کم و بیش نمایاں تھی۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ سے نکاح کرکے آپ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم بنایا۔ حضرت اُم سلمہؓ اس خاندان کی بیٹی تھیں جن سے ابوجہل اور خالد بن ولید کا تعلق تھا۔ حضرت اُم حبیبہؓ ابوسفیان کی بیٹی تھی۔ ان شادیوں نے بڑی حد تک ان خاندانوں کی دشمنی کا زور توڑ دیا او راس نکاح کے بعد ابوسفیان کبھی حضورﷺ کے مقابلے پرنہیں آئے۔ حضرت صفیہؓ، جویریہؓ او رریحانہؓ یہودی خاندان سے تھیں۔ انہیں آزاد کرکے جب حضورﷺ نے ان سے نکاح کئے تو یہودیوں کی تخریبی سرگرمیاں سرد پڑگئیں۔ معاشرہ کی عملی اصلاح اور اس کی جاہلانہ رسوم کو ختم کرنا بھی آپﷺ کے فرائض منصبی میں شامل تھا۔ چنانچہ آپؐ نے حضرت زینب بنت جحش سے محض اس بناء پر نکاح کیا کہ عرب میں متبنیٰ کو حقیقی بیٹا اور وراثت کا حقدار سمجھا جاتا تھا او راس کی بیوی سے نکاح حرام تصور ہوتا تھا چونکہ یہ رسم و رواج حقیقت اور شرعی کے خلاف تھا۔ لہٰذا آپؐ نے اپنے منہ بولے بیٹے حضرت ''زید'' سے طلاق یافتہ حضرت زینبؓ بن جحش سے نکاح کرکے عملاً اس رسم کا خاتمہ کردیا۔
حضرت میمونہؓ کی ایک بہن سردار نجد کے گھر میں تھی۔ یہ نکاح نجد میں صلح و آشتی او راسلام پھیلانے میں بہت نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ حالانکہ اہل نجد نے ہمیشہ اسلام کے خلاف فساد برپا کیا۔ یہ مصلحتیں اس بات کی مقتضی تھیں کہ نبی ﷺ کو جو کار عظیم سپرد کیا گیا تھا۔ اس کی ضروریات کے لحاظ سے آپؐ نے اس ذریعہ امن و تبلیغ سے بھی استفادہ حاصل کیا۔
مخالفین کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو چار بیویوں کی اجازت ہے۔ یہاں تک کہ جن لوگوں کے پاس چار بیویوں سے زیادہ تھیں تو سورہ نساء کے نازل ہونے کے بعد آنحضرتﷺ نے ان کو حکم دیاکہ چار سے زیادہ اگر ہیں تو ان کو علیٰحدہ کردو۔ قیس بن حارث جب مسلمان ہوئے تو ان کے پاس آٹھ بیویاں تھیں۔ غیلان الثقفی جب مسلمان ہوئے تو ان کے پاس دس بیویاں تھیں۔ جو ان کے ساتھ مسلمان ہوگئیں تھیں۔ رسول اللہﷺ نے ان کو حکم دیا کہ چار عورتیں چن لی|ں باقی چھوڑ دیں۔ مگر خود آپؐ نے چار سے زیادہ ازواج مطہرات کو علیٰحدہ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ جب آپؐ کا وصال ہوا تو 9 بیویاں زندہ موجود تھیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان عورتوں سے جو آنحضرتﷺ کے عقد میں آچکی تھیں۔ دوسروں کونکاح کرنے سے منع فرما دیاتھا۔
''وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا''
(ترجمہ): ''اے مسلمانو! خدا کے پیغمبرؐ کی بیویوں سے اس کےبعد نکاح مت کرو۔''
یہی سبب تھا کہ آنحضرتﷺ نے اپنی کسی زوجہ کو اپنی زوجیت سے خارج کرنا پسندنہ فرمایا۔ مگرمسلمانوں کی عورتوں سے یہ حکم متعلق نہ تھا۔ اس لیے خود تو حضورﷺ نے اپنی تمام ازواج کو بدستور نکاح میں رکھا۔ مگر جن مسلمانوں کےپس چار عورتوں سے زیادہ نکاح میں تھیں ان سے فرمایا کہ چار سے زیادہ ہوں تو ان کوچھوڑ دیا جائے۔ گو حضور ﷺ کی ازواج مطہرات کے بارے میں اگر نکاح حکماً منع کیا جاتا تو اسلام میں ایک عظیم فتنہ رونما ہوسکتا تھا۔ یہ عورتیں اگر طلاق لینے کےبعد نئے خاوند کرتیں تو وہ خاوند انے مزاج اور مطلب کے مطابق سینکڑوں حدیثیں اپنی بیویوں کے حوالہ سے بیان کرسکتے تھے۔ جو بالآخر فسق و فجور کا شاخسانہ بن جاتا اور اسلامی احکامات میں اختلال و فجور کا باعث ہوتا۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا
حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے پہلے شوہر کا نام ابوہالہ بن زرارہ تھا۔ ان سے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ جب ابوہالہ مرگیا تو خدیجہ نے عتیق بن عائز سے نکاح کرلیا جو کہ قریش کے بنی مخزوم قبیلہ سے تھا۔ اس سے ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ جب عتیق بھی مرگیا تو 28 قبل ہجری میں حضرت محمدﷺ سے نکاح کرلیا۔ نکاح کے وقت حضورﷺ کی عمر 25 سال او رحضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی عمر 40 سال تھی۔نکاح کے بعد آپ سے چار لڑکیاں زینب، رقیہ، اُم کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہن پیدا ہوئیں ۔ لڑکےبھی پیدا ہوئے ،مگر زندہ نہ رہے۔ حضرت خدیجہؓ نے سنہ 3 قب ہجری میں 65 سال کی عمر میں مکہ مکرمہ میں انتقال فرمایا۔ اس بات سے سب کو اتفاق ہے کہ حضرت خدیجہ کی زندگی تک رسول اللہ ﷺ نے کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں کیا۔
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا
حضرت سودہؓ کے باپ کا نام زمعہ تھا او رماں کا نام شموس بنت قیس تھا۔ ان کا نکاح سکران بن عمرو سے ہوا تھا۔ اس سے ایک لڑکا عبدالرحمٰن پیدا ہوا تھا ۔ حضرت سودہ او ران کا شوہر دونوں مسلمان ہوگئے تھے۔ جب دوسری مرتبہ مسلمان ہجرت کرکے حبش گئے تھے۔ تب حضرت سودہ مع اپنے شوہر کے مکہ سے حبش چلی گئی تھیں۔جب حبش سے واپس آئیں تو مکہ میں ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا۔پھر سنہ 3 قبل ہجری میں ان کے خاوند کا جب انتقال ہوا تو حضرت سودہؓ کا نکاح حضورﷺ سے ہوگیا۔ اس وقت حضور ﷺ کی عمر 50 سال تھی او رحضرت سودہؓ بھی 50سال کی تھیں۔ اس حالت میں یہ خام خیالی ہے کہ آنحضرتﷺ نے یہ نکاح کسی خواہش نفسانی کے سب کیا بلکہ حضرت سودہؓ مسلمان تھیں او رکفار مکہ سے تکالیف اٹھا چکی تھیں او رجب ان کے شوہر کا انتقال ہوا تو تنہا رہ گئی تھیں۔ پس حضورﷺ نے ان کو زوجیت میں لانا بتقاضائے انسانیت خیال فرمایا۔ آج تک کسی مؤرخ نے حضرت سودہؓ کے حسن و جمال کی یا مال و متاح کی تعریف نہیں کی۔ نہ ایسی کوئی شہادت ملتی ہے۔ ان حالات میں ظاہر ہے کہ آنحضورﷺ نے حضرت سودہؓ کو عقد کا شرف محض اس لیے بخشا تھا کہ باقی ماندہ عمر میں بالکل بے یارومددگار نہ رہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
حضرت ابوبکرصدیقؓ کی دختر تھیں ۔ ان کی ماں کا نام اُم رومان زینب تھا۔ رخصتی کی رسم سنہ یکم ہجری میں ہوئی۔ یہی وہ خاتون تھیں جن کی اسلامی خون سےولادت اور اسلامی دودھ سے پرورش ہوئی تھی۔ نبی کریمﷺ نے اس شادی کو منجانب اللہ قرار دیا ہے آپ کی پاکدامنی پر جب غزوہ انمار میں لوگوں نے شبہ پیدا کردیا تو سورۃ نور میں ''الطیبات للطیبین والطیبوں للطیبات'' کے الفاظ آپ ک لیے اترے اور آپ کی پاکی اور طہارت کو فرشتوں نے تسلیم کیا۔ لیکن رب العالمین ان کے ہی مرتبے بلند فرماتا ہے جو اس کی بارگاہ میں انکسار اختیار کرتے ہیں۔ آپ کی فضیلت منصب بارگاہ الہٰی میں کس قد رتھی اس کا اندازہ حضور اکرمﷺ کے اس ارشا د سے ہوتا ہے : ''یہ عائشہ ہی ہے کہ میں اس کے لحاف میں ہوتا ہوں تو اس وقت بھی وحی کا نزول ہوتا ہے۔''
حضرت عائشہؓ کے رتبہ سے متعلق صحیحین میں یہ روایت مذکو رہے ''نبی کریم ﷺ نے حضرت عائشہؓ سے کہا۔ یہ جبرائیل ہیں اور تم کو سلام کہتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا ان پر اللہ کا سلام اور رحمت ہو۔''
قرآن مجید میں جب درج ذیل آیت یعنی آیت تخیر کا نزول ہوا:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا(الاحزاب:28۔29)
تو رسول کریمﷺ نے سب سے پہلے حضرت عائشہؓ سے دریافت فرمایا جس کے جواب میں حضرت عائشہؓ نے فوراً یوں کہا:''میں تو اللہ اور رسول اور آخرت ہی کو اختیار کرتی ہوں۔''
کتب احادیث میں آپ کے ذریعہ منقول شدہ احادیث کی تعداد دو ہزار دو سو دس بتائی گئی ہے ۔
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
آپ حضرت عمرؓ کی بیٹی تھیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام زینب بنت مظعون تھا۔ حضرت حفصہ ؓ کے پہلے شوہر کا نام خنیس ابن حذافہ تھا۔ جنہوں نے حضرت حفصہ کےسا تھ ہجرت کی او رغزوہ بدر کے بعد انتقال ہوا۔ خنیس کے انتقال کے بعد 3 ہجری میں رسول کریمﷺ سے عقد ہوا۔ اسوقت رسول پاکﷺ کی عمر 56 سال تھی۔ آپ سے رشتہ ازدواج منسلک کرنے کا مقصد یہ تھا کہ حضرت عمرفاروقؓ سے تعلقات کی بنیاد مضبوط ہوجائے۔ (اسی غرض سے آپؐ نے حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ کو شرف دامادی بخشا تھا او رحضرت حفصہؓ کے عقد سے لوگوں کویہ یقین دلانا بھی منظو رتھاکہ مسلمان سمجھ لیں کہ اگر وہ راہ خدا میں کام آگئے تو ان کے بیوی بچے سرپرستی سے محروم نہیں رہیں گے۔ حضرت حفصہؓ کا انتقال 45ہجری میں ہوا اور آپ کی عمر 63 سال تھی۔
حضرت زینب اُم المساکین رضی اللہ تعالیٰ عنہا
حضرت زینبؓ جو ایام جاہلیت میں اپنی فیاضی کی وجہ سے اُم المساکین کے نام سے مشہور تھیں۔ قبیلہ بنوہلال سے تھیں آپ کے باپ کا نام خزینہ بن حارث تھا اور والدہ کا نام ہند بن عوف تھا۔ ان کا پہلا شوہر عبداللہ بن جحش تھا جو غزوہ اُحد میں شہید ہوگئے۔
ان کےانتقال کے بعد آپ کا نکاح رسول خدا سے 3 ہجری میں ہوا۔ یہاں بھی وہی معاملہ تھا کہ حضور سرور کائناتؐ کو آپ کی سرپرستی منظور تھی۔ آپ چاہتے تھےایک شہید کی بیوی جس کے شوہر نے خدا کے نام پر جام شہادت نوش کیا۔ وہ اس کے بعد نان و نفقہ کو محتاج نہ ہو۔ اس وجہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک کرلیا۔ اس وقت ان کی عمر 29 سال تھی اور حضور نبی کریمﷺ کی عمر 56 سال تھی۔ آپ رسول اللہ ﷺ کے پاس صرف آٹھ ماہ رہ کر انتقال فرماگئیں ان کی عمر اس وقت 30 سال تھی۔
حضرت اُُم سلمٰہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
آپ کا اصل نام ہند تھا۔ ان کی والدہ عاتکہ تھی۔ جوقبیلہ بنو کنانہ سے تعلق رکھتی تھی۔ مگریہ عاتکہ عبدالمطلب کی بیٹی او رنبی کریم کی پھوپھی نہیں تھیں بلکہ ان کے باپ کانام عامر تھا۔ حضرت اُم سلمٰہؓ کے باپ ابوامیہ تھے جن کا نام حذیفہ تھا اور عرب کے مشہور شہ سوار تھے۔ حضرت اُم سلمٰہ کے پہلے شوہر ابوسلمہ بن عبدالاسد مخزومی تھے وہ او ران کے شوہر دونوں مسلمان ہوکر ملکہ حبشہ ہجرت کرگئے تھے وہاں ان کی دو لڑکیاں پیدا ہوئیں جن کا نام زینب اور درہ تھا۔ دو لڑکے پیدا ہوئے جن کانام سلمہ اور عمر تھا۔ ابوسلمہ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ 4 ہجری میں وفات پائی تو اُم سلمٰہ کا نکاح رسول خداﷺ سے ہوا۔ اس وقت اُن کی عمر 26 سال او رحضورﷺ کی عمر 62 سال تھی جب حضورؐ نے اُم سلمٰہ کو شادی کا پیغام بھیجا تو جواب ملا کہ میری جوانی کے دن بیت گئے ہیں او ربچے بھی زیادہ ہیں۔ لیکن آپ ؐ نے مکرر پیغام بھیجا (اور اس کی وجہ محض یہ تھی اُم سلمٰہ ایک شہید کی بیوہ تھیں) تو حضرت اُم سلمٰہ راضی ہوگئیں۔ ظاہر ہے کہ یہ رشتہ اُم سلمٰہ کے حسن و جمال کی وجہ سے نہ تھا۔ اگر عقد اس خیال سے ہوتا تو مہاجرین و انصار میں بہت سی دوشیزائیں موجود تھیں آپ کسی کا بھی انتخاب فرما لیتے۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ یہ رشتہ صرف نادار بیوہ سے ہمدردی کے لیے تھا۔ اُم سلمٰہؓ نے 62 ہجری میں وفات پائی تو ان کی عمر کچھ کم 80 سال تھی۔
حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا
زینبؓ جحش کی بیٹی تھیں او رماں کانام امیمہ تھا اور امیمہ عبدالملب کی بیٹی تھی او رعبداللہ (حضور ﷺ کے والد) کی بہن تھیں۔ اس رشتے سے حضرت زینبؓ آنحضرتﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ پہلی مرتبہ ان کا نکاح زید بن حارث سے ہوا، جب زید بن حارث نے طلاق دے دی تو نبی کریمؐ سے ان کانکاح 5 ہجری میں ہوا۔ اس وقت ان کی عمر35 سال اور حضورﷺ کی عمر 58 سال تھی۔ آپ کا حضور نبی کریمﷺ کے بعد انتقال ہوا۔چونکہ اس نکاح پر مستشرقین نے بہت کچھ کہا ہے تو بہتر ہے کہ اس معاملہ کو ذرا تفصیل سے بیان کردوں۔ حضرت زینب ایک عالی خاندان کی عورت تھیں۔ ان کو پسند نہ تھا کہ ایک شخص (زید بن حارثہ) جسے اگرچہ نبی کریمﷺ نے متبنیٰ بنا رکھا تھا مگرکسی وقت بحیثیت غلام بھی رہا تھا، سے شادی کی جائے۔ مگر جب آنحضرت نے نکاح پراصرار کیا اور اس پر ایک آیت بھی نازل ہوئی جو یہ ہے:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا (الاحزاب:36)
''مسلمان مرد اور عورت کو یہ نہیں چاہیے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ مقرر کردیں تو پر اس امر میں اس کو کچھ اختیارباقی رہ جائے او رجس نے خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ایک بڑی گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔''
اس وقت حضرت زینبؓ حضرت زیدؓ س نکاح کرنے پر راضی ہوگئیں مگر طبیعت مطمئن نہ تھی۔ اب سوچئے کہ اگر رسول اللہﷺ کوزینبؓ سے نکاح کرنا منظور ہوتا تو زید کے ساتھ نکاح کرنے میں اس قدر اصرار کیوں فرماتے۔بعد نکاح زینبؓ اور زید ؓ کی نہ بن سکی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زید زینب سے عاجز اگئے او رطلاق دینے کا ارادہ کرلیا۔ حضرت نبی کریمﷺ نے ان کو ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ حالانکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ اطلاع کردی تھی کہ زینب کو زید طلاق دے گا او روہ تیری زوجیت میں آجائے گی۔
وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ(احزاب:37)
ترجمہ: '' اور یاد کرو جب کہا آپ نے اس شخص کے بارے میں جس پر انعام کیا اللہ نے او رانعام کیا تو نے ۔ پاس رکھ اپنی بیوی اور ڈرو اللہ سے اور تم اپنے دل میں ایک ایسی بات چھپاتے تھے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا او رتم لوگوں سے ڈرتے تھے حالانکہ اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔''
اس کے باوجود آنحضرتﷺ کو فکر دامنگیر ہوئی کہ زید کے طلاق دینے کے بعد زینب کا کیا ہوگا۔ آخر وہ آپ کی پھوپھی زاد بہن تھیں او رزید کےساتھ شادی بھی آپ کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اب سوائے اس کے زینب کی سرپرستی کریں کیا چارہ تھا مگر خوف تھا کہ عر ب کیا کہیں گے کہ متبنیٰ کی مطلقہ کے ساتھ شادی کرڈالی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی۔
فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا( احزاب:37)
ترجمہ: ''پس جب فیصلہ کرچکا زید جدا کرنے کا تو ہم نے آپ کے نکاح میں دے دیا تاکہ مومنوں کو اپنے متبنیٰ کی بیویوں سے نکاح کرنے میں کوئی خلش نہ رہے۔ جب وہ مکمل کرچکیں ضرورت اپنی اور ہے اللہ کا حکم پورا ہونے والا۔''
حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
آپ بنت الحارث بن ابی ضرار بن حبیب بن مصطلق قبیلہ سے تھیں۔ 5 ہجری میں غزوہ مریسیع میں اسیر ہوکر آئیں۔ حضور نبی کریمﷺ نے ان کو شادی کے لیے قبول فرمایا۔ ان کی پہلی شادی نافع بن صفوان سے ہوئی۔ مسلمانوں نے جب اس کی شادی کی خبر سنی تو سب نے کہا دیا کہ بنی مصطلق اب رسول اللہﷺ کے قرابت دار ہیں او راب ہمیں ان سے اس کے مطابق سلوک کرنا چاہیے۔چنانچہ تمام قیدیوں کو رہا کردیا گیا ان کے بائی عبداللہ بن حارث اور عمرو بن الحارث جو نہایت دلیر جوان تھے مسلمان ہوگئے۔ حضرت جویریہ کا انتقال 50 ہجری میں ہوا۔
حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
آپ کا اصل نام رملہ تھا۔ ان کے باپ کا نام ابوسفیان تھا۔ او رماں کا نام صفیہ تھا۔ دونوں ماں باپ بنی اُمیہ سے تھے۔ اُم حبیبہؓ کا پہلا شوہر عبداللہ بن حجش تھا جو مسلمان تھا او رحبشہ اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کو گیا تھا۔ وہاں جاکر عبداللہ تو عیسائی ہوگیا مگر اُم حبیبہ مسلمان رہیں۔ جب عبداللہ مرگیا تو آنحضورﷺ نے نجاشی کو کہلا بھیجا کہ ان کا نکاح اُم حبیبہ سے کردے۔ چنانچہ 7 ہجری میں یہ نکاح بمقام حبشہ ہوگیا او رآنحضرت ﷺ کی طرف سے نجاش نے مہر ادا کیا۔ (علامہ حافظ ابن قیم زاد المعاد، جلد اوّل صفحہ 93)
اس وقت اُم حبیبہ کی عمر 37 سال تھا او رآنحضرت ﷺ کی عمر 60 سال تھی ۔ بعد نکاح اُم حبیبہ مدینہ آئیں اور حضورؐ کے پاس رہیں۔ ان کی وفات 44 ہجری میں ہوئی۔ اُم المؤمنین اُم حبیبہ ؓ کے فضائل میں سے وہ قصہ ہے جسے ابن اسحاق امام اہل سیر نے بیان کیا ہے، کہ اُم حبیبہؓ نے اپنے باپ ابوسفیان کے لیے بستر لپیٹ دیا ابوسفیان نے بیٹی سے کہا کیا باتہے مجھے بستر پر نہیں بیٹھنے دیتیں تو حضرت اُم حبیبہؓ نے جواباً کہا کہ یہ بستر رسول خدا کا ہے ۔ آپ تو مشرک ہیں آپ بستر پر نہ بیٹھیں۔(رحمۃ للعالمین۔جلد دوم صفحہ 178)
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
یہ حی بن اخطب کی بیٹی تھیں۔ ان کی ماں کا نام بّرہ بنت سموال تھا۔ ان کا پہلا شوہر سلام بنمشکم ھتا۔ دوسرا شوہر کنانہ بن ابی الحقیق تھا۔ جو جنگ خیبر میں مارا گیا تھا۔ دحیہ کلبی کبار میں سے تھے۔ انہوں نے صفیہ سے شادی کی خواہش ظاہ رکی جس پر لوگوں میں اختلاف ہوگیا اور سب نے یہی کہا کہ اس سے حضور ﷺ نکاح فرما لیں۔ حضور نبی اکرمﷺ نے صفیہؓ کو آزاد فرمایااور بعد میں نکاح کرلیا۔ایک روز صفیہؓ نے شکایت کی کہ حضرت حفصہؓ نے کہا تھا کہ ہمارا نسب اونچا ہے جوکہ محمدﷺ سے جاملتا ہے ۔ حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ''تم بھی کہہ دیتیں کہ تم مجھ سے بہتر کیسے ہوگئیں۔ میرا باپ ہارون علیہ السلام ہے۔ میرا چچا موسیٰ علیہ السلام ہے اور میرا شوہر محمدﷺ ہے۔ آپ نے 50 سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں انتقال فرمایا۔
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
آپ بنت الحارث بن بحیربن محزم بن رویبہ بن عبداللہ تھیں۔ آپ کےپہلے شوہر کا نام ابی رحم بن عبدالعزیٰ تھا۔ اس سے پیشتر خویطب بن عبدالعزیٰ کےناکح میں تھیں۔ جب نبی کریمﷺ نے 7 ہجری میں عمرہ فرمایا تو اس وقت ان کے شوہر وفات پاچکے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ نے آپ کے بارے میں آنحضورﷺ سے ذکر فرمایا کہ بہت پریشان حال ہیں۔ حضورﷺ نے نکاح ذیقعدہ 7 ہجری میں فرمالیا۔ اس وقت حضرت میمونہؓ کی عمر 36 سال اورحضورﷺ کی عمر 59 سال تھی۔ آپ تقریباً 3 سال حضور کریمﷺ کے ساتھ رہیں اور 80 سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ کی وفات 51 ہجری میں مکہ مکرمہ میں ہوئی سب سے زیادہ عمر ازواج مطہرات میں آپ نے پائی۔
مستشرقین نے کثرت ازواج پرطرح طرح کے حیرت کن تبصرے کیے ہیں۔ ان سے متاثر صاحبان اگر غور و فکر سے جائزہ لیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی عمر 63 سال ہوئی جس میں سے پچاس سال کی عمر تک ایک عورت سے جودو شوہروں کی مطلقہ تھی ان سے رشتہ ازدواج میں گزارے۔ جس کے انتقال کے وقت تک اور شادی نہ کی اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کے انتقال کے بعد ایک اور ضعیف اور نادار بیوہ سے شادی کی۔ ہجرت کے بعد سن ایک ہجری سے7 ہجری تک 9 شادیاں کیں جن میں سے آٹھ برائے نام تھیں ۔ پس پردہ وہ اسباب تھے جن کاتذکرہ مختصراً اوپر کرچکا ہوں۔آپ سوچئے کہ جس شخص نے زندگی کے عین عنفوان شباب کازمانہ کمال تقویٰ اور نہایت ورع کے ساتھ گزارا جبکہ مکہ کی ایک ممتاز شخصیت عتبہ بن ربیعہ (جوکہ قبیلہ بن عبدشمس کا سردار تھا)نے حضورﷺ سے التجا کی تھی کہ مکہ کی جس دوشیزہ کو کہو او رجتنی دولت کہو دیتا ہوں مگر اس نئے خدا کاذکر بند کردو جو تم کرتے رہتے ہو۔مگر حضورﷺ ، رسالت مآب نے پیش کش رد کردی کیا کوئی شخص ایسے عظیم انسان کے لیے باطل خیال دل میں لاسکتاہے کہ اس ترویج کی وجہ وہی تھی جو عام طور پر جوش جوانی سے منسوب کی جاتی ہے۔
اگر تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جاوے تو ثابت ہوجائے گا کہ عیش پرستی تو دور کی بات ہے آپ نے نہایت عسرت و تنگدستی کی حالت میں بےآسرا نادار عورتوں سے شادی کرکے خود کو ان کےنان و نفقہ کاکفیل بنا کر ایثار عظیم کا ثبوت دیا ہے۔ یقیناً اگر انسانیت کے زاویہ نگاہ سے ان کثرت ازدواج کے اغراض و مقاصد کا تجزیہ کیا جائے تو آپؐ پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے اس کی بے بنیادی او ربےثباتی اظہر من الشمس ہوجائے گی۔