اسلام کا قانون جنایت

(ذمّی کے بدلے مسلمان کا قتل)

(5)

قاضی بشیر احمد صاحب اسلام کے قانون سرقہ پر بحث ختم کرچکے ہیں اور قسط نمبر 7 سے انہوں نے فصل دوم یعنی قتل کے احکام کا ذکر شروع کیا ہے۔ بحث کے سیاق و سباق کو دیکھنےسے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف فقہ حنفی کی روشنی میں عصمت مال کی طرح عصمت دم کو بھی اورؤالمحدود بالشبہات کی نذر فرما رہے ہیں۔ ہمارے کہے بغیر انشاء اللہ قارئین خود محسوس فرمائیں گے کہ سابقہ روایات کے مطابق اسلامی جذبات و احساسات سے صرف نظر کرتے ہوئے موصوف نے عصمت دم کو فقہ حنفی کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلہ میں احادیث صحیحہ و سقیمہ کے امتیاز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فقہ حنفی کے مطابق فتویٰ صادر فرمایا ہے اور بعض مواقع پر اپنی طرف سے بھی رائے زنی فرمائی ہے۔

بہرحال قاضی صاحب نے قسط نمبر 8 میں دو اہم مسئلوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے (1) ذمّی کے بدلے مسلمان کا قتل (2) قتل میں شرک۔

ہم ان شاء اللہ ان دونوں مسئلوں پربالاختصار بحث کریں گے اور قارئین سے انصاف کی توقع رکھتے ہیں۔

قولہ: مقتول کا ولی معلوم ہو (شرائط متعلقہ مقتول)

اقول: یعنی قصاد اس وقت لیا جائے گا جب مقتول کا ولی معلوم ہو جس کا مطلب یہ ہواکہ اگر کوئی مقتول لاوارث ملے اور قاتل موقع پر پکڑا جائے تو اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا لیکن افسوس کہ موصوف نے کوئی حوالہ نہیں دیا تاکہ ہم دیکھ سکتے کہ اس کی بنیاد کیا ہے جبکہ علامہ کاسانی حنفی نے مقتول سے متعلقہ صرف تین شروط کا ذکر کیا ہے جس میں جزو قاتل، ملک قاتل اور عصمت دم کا مسئلہ ہے۔ حالانکہ ایسی صورت میں حکومت کو ولایت کے اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں اور اسے اختیار ہوتا ہے کہ اسے قصاصاً قتل کردیا جائے تو پھر نہ معلوم اس سے حد قصاص کو کیوں مرفوع سمجھا گیا ہے۔

قولہ: مقتول کا ولی ایسا شخص نہ ہو جس کو قاتل سے قصاص کا حق نہ ہو۔ (شرط نمبر 4)

اقول: تو پھر وہ ولی کس چیز کا ہوا؟

فائدہ: مزید تفصیل میں جانے سے قبل ہم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ پیش آمدہ مسئلہ میں احناف او رجمہور محدثین کا اکتلاف دو باتوں پرمبنی ہے۔(1) عصمت دم دارالاسلام پر مبنی ہے یااسلام پر (2) خبر واحد کے ساتھ قرآن کی تخصیص درست ہے یانہیں۔

1۔ اوّل الذکر میں جمہور محدثین کا مسلک ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہو اسے ابدی عصمت دم حاصل ہوگی کیونکہ اسے یہ اعزاز بوجہ اسلام حاصل ہوا ہے چنانچہ جب تک اسلام ہے اس اعزاز کو سلب نہیں کیاجاسکتا۔ لیکن احناف کے نزدیک انسان اگر دارالاسلام میں آجائے تو اسے بھی عصمت ابدیہ حاصل ہوگی خواہ وہ ذمی ہو یاکوئی اور..... جس کامطلب یہ ہوا کہاگر کوئی مسلمان دارالحرب میں چلاجائے تو اس کی عصمت دم ختم ہوجائے گی اور کوئی کافر دارالاسلام میں آجائے تو اسے عصمت حاصل ہوجائے گی۔ اس بحث کو ہم سردست موقوف رکھتے ہوئے قارئین سے انصاف کی بھیک مانگتے ہیں کہ وہ فرمائیں کہ یہ نقطہ نظر کس حد تک روح اسلام سے تطابق رکھتا ہے۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ 1947ء کے واقعہ پراس کا اثر یوں ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت جن مسلمانوں کو سکھوں او رہندوؤں نے شہید کردیا تھا ان پر فرد جرم عائد نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ دارالحرب میں تھے یا پھر یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ احناف ن ےابھی تک ہندوستان کو دارالحرب قرار ہی نہ دیا تھا۔ اسی طرح پاکستان میں جن سکھوں وغیرہ کو قتل کیاگیا وہ مسلمان ماخوذ ہوں گے کیونکہ یہ دارالاسلام تھا خواہ وہ ذمی تھے یا نہیں۔ یا پھر احناف نے ابھی تک پاکستان کو دارالاسلام باور ہی نہ کیا تھا۔

2۔ جہاں تک ثانی الذکر مسئلے کاتعلق ہے یہ علماء کے نزدیک بڑا اہم او رمعرکۃ الآرا مسئلہ ہے جس میں احناف او رجمہور محدثین کا خاصا اختلاف ہے۔احناف خبر احاد کے ساتھ عمومات قرآن کے قائل نہیں جبکہ جمہور محدثین قائل ہیں۔ یہ اوراق اس بات کےمتحمل نہیں کہ اس مسئلہ کو بالتفصیل لکھا جائے لیکن اس سلسلہ میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ نبی علیہ السلام کی ہر حدیث صحیح خواہ متواتر ہویا احاد سے قرآن مجید میں تخصیص ہوسکتی ہے ورنہ بہت سے امور ایسے رہ جائیں گے جو اجمال پر مبنی ہیں او ران کی تفصیل و تشریح حدیث کے علاوہ ممکن نہیں اور خبر احاد سے متعلق اس منفی اصول کو اپنا نا دراصل اسلامی مجموعہ قوانین و احکام سے راہ فرار اختیار کرنے کے مترادف ہے او راس حدیث کا مصداق ہےکہ :

لا ألفین أحدکم متکئا علیٰ أریکته یأ تیه الأمر مما أمرت به أونھیت عنه فیقول لا أدري ماوجدنا في کتاب اللہ اتبعناه (ابوداؤد)

اور علامہ ابن قیم نے اسی طرح اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

''اگر رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کو ردّ کردینے کا سلسلہ اسی طرح بڑھتا رہے کہ ظاہر کتاب کا جو مفہوم کوئی شخص سمجھ رہا ہے وہی صحیح ہے تو اگر سنن ردّ کردی جائیں گی اور بالکلیہ باطل قرار پائیں گے او رجوئی بھی چاہےعموم یا اطلاق آیات کے بہانہ سے اپنے مذہب کے کلاف ہر سنت صحیحہ کا ردّ کرسکتا ہے وہ بڑا آسانی سے کہہ سکتا ہے کہ یہ سنت اس فلاں عموم قرآنی کے مخالف ہے یا اس اطلاق کے خلا ف پائی جاتی ہے لہٰذا ناقابل عمل ہے۔ جیسے روافض نے یہ حدیث ردّ کردی ۔ ''نحن معاشر الأنبیاء لا نورث'' اوردلیل میں قرآن کا یہ عموم لائے ہیں کہ ''يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ الایۃ لہٰذا کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنے فہم قرآن کے مطابق کسی سنت کو ردّ کردے سوائے اس صورت کے کہ وہ اس کاضعیف ہونا ثابت کردے (حیات ابن حنبل ص325)

بہرحال احناف نے یہ اصول دراصل اپنے مذہب کے تحفظ کے لیے وضع کیاہے ورنہ شرعی نقطہ نطر سے یہ کسی طرح بھی قابل فہم و عمل نہیں چنانچہ شاہ عبدالعزیز احناف کے اس اصول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

''ومن الطائف التي فلما ظفر۔ لحفظ مذھبه ما اخترعته المتأخرون لحفظ مذھب أبي حنفیة وھي عدة قواعد یردون بھا جمیعا ما یحتج به علیھم من الأحادیث الصحیحة'' (فتاویٰ عزیزیہ : ج1 ص66)

شاہ صاحب کی اس تصریح سے معلوم ہوا کہ اس طرح کے تمام اصول بعد میں آنے والوں نے حسب منشا بنائے ہیں تاکہ ان کی آڑ میں خلاف مذہب احادیث صحیحہ کوردّ کیا جاسکے حالانکہ ایسے حسب مفاد خود ساختہ اصولوں سے حدیث کو ردّ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حدیث بہرکیف ان وضعی قواعد سےاعلیٰ و افضل اور واجب العمل ہے۔شاہ ولی اللہ  فرماتے ہیں کہ:

فإن رعایة الحدیث أو جب من رعایة تلك القاعدة المخرجة (حجۃ اللہ البالغہ: ج1 ص156)

اور درحقیقت ان اصولوں کا امام ابوحنیفہ کی طرف انتساب بہت بڑی زیادتی و جسارت ہے او ران کی طرف یہ نسبت بالکل غلط ہے کیونکہ یہ تمام قاعدے متاخرین کی سعی ناشکور کا ثمرہ ہیں جنہوں نے اپنے مذہب کے بے جا تحفظ کے لیے یہ قوانین وضع فرمائے۔ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:

وھذہ الأصول المذکورة في کتاب البزدوي و نحوہ و إنما الحق أن أکثر أصول مخرجة علی قولھم و عندي أن المسئلة القائلة بأن الخاص مبین لا یلحقه البیان و ان ا لزیادة نسخ وإن العام کالخاص و أمثال ذلك أصول مخرجة علی کلام الأئمة وأنھالا تصح بھا روایة عن أبي حنیفة و صاحبیه (حجۃ اللہ البالغہ: ج1 ص160)

استاذ ابوزہرہ احناف کے اس نظریہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

الفاظ خصوص و عموم سے متعلقہ مسائل او ران کے ظنی اور قطعی ہونے کے اعتبار سے ان کی دلالت کی نسبت فقہائے عراق کے سرخیل امام ابوحنیفہ کی طرف کیسی بھی ہو ان کے شواہد سے اہل الرائے کے ذاتی رجحانات کااندازہ ہوجاتا ہے مگر ان رجحان کو بہ قول ان کے یہاں احادیث صحیحہ کی قلت یا ان تک پہنچنےوالے بعض آثار ہیں۔۔۔۔ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ زیادہ تر نصوص قرآنیہ میں حجت لانے میں مبالغہ کرتے ہیں او راس موضوع پر وارد شدہ احادیث کی طرف چنداں توجہ نہیں دیتے۔ (حیات ابوحنیفہ :ص414)

استاذ موصوف نےایک او رجگہ امام ابوحنیفہ کے اس مسلک کا اعتذار کرتے ہوئے یوں لکھا ہے:

شاید امام ابوحنیفہ کے تنہا نص قرآنی پر اعتماد کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو احادیث کی رسائی حاصل نہ ہوسکی اگراحادیث ان تک پہنچ جاتیں تو تبیین و تشریح قرآن میں ضرور ان سے مدد لیتے۔ (حیات امام ابو حنیفہ ص414)

اس سےمعلوم ہوا کہ امام صاحب کا عموم قرآن کی تخصیص نہ کرنا اور اس کا ثبوت نہ ملنا اس بنا پرنہیں کہ امام صاحب تخصیص کے قائل نہیں تھے بلکہ اس کی وجہ محض یہ تھی کہ وہ احادیث آپ تک نہیں پہنچتی۔ (واللہ اعلم)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ سنت کو بالائے طاق رکھ کر قرآن مجید کے مطالب و معانی نہیں سمجھے جاسکتے یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مربوط ہیں کہ نہ دونوں آپس میں متعارض و متصادم ہیں نہ ایک سے دوسرے کا انقطاع ممکن ہے اور سنت ہر حال میں قرآن مجید کی تبیین و تشریح ہے چاہے وہ متواتر کی صورت میں ہو یا احاد کی۔ اور سنت کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں کیونکہ اس کے بغیر کتاب و سنت سے استفادہ ناممکن ہے او رجو حضرات احادیث کو چھوڑ کر محض قرآن پراکتفا کرنے کے قائل ہیں وہ دراصل ضلالت میں ہیں جیسا کہ متعدد آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ اس پر دال و شاہد ہیں۔

نیز بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ہم سینکڑوں مسائل ایسے دکھا سکتے ہیں جن میں خود احناف نے اپنے وضع کردہ اس اصول کی مخالفت کرتے ہوئے قرآنی عمومات کی تخصیص اور مطلقات کی تقیید کی ہے مثلاً وضو میں مطلق راس کی ربع راس کے ساتھ تقیید کس دلیل سے ہے(2) قہقہہ سے وضو ٹوٹنا کس دلیل سے ہے اس میں تو صحیح خبر احاد بھی پیش نہیں کرسکتے (3) ایک مکبر کی تکبیر تحریمہ کے ساتھ تقیید کس دلیل سے (4) دیہات میں جمعہ ناجائز کہنا کس دلیل سے (5) ولادت وغیرہ کے مقدمہ میں صرف ایک عورت کی گواہی معتبر ہونی کس دلیل سے (6) ایک وضو سے کئی وقت کی نمازیں پڑھنا کس دلیل سے(7)نماز کے اوقات پنجگانہ کی تحدید کس دلیل سے وغیرہ وغیرہ۔ اور اسی طرح صرف نماز، زکوٰۃ، روزہ او رحج ہی کے متعدد مسائل ہیں جن میں احناف نے خبر احاد ہی نہیں بلکہ قیاس سے بھی تخصیص و تحدید اور تقیید فرمائی ہے او رکوئی خبر متواتر موجود نہیں ہوتی۔

جب تیری زلف میں آئی تو حسن کہلائی

وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی

عود الی المقصود : بحث رواں کے مقدمات پر طائرانہ نطر کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ قاضی موصوف نے دوسرے مسئلہ کے ضمن میں فریق ثانی کے دلائل کا تجزیہ کیے بغیر احناف کے دلائل ذکر کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے بنا بریں ضروری خیال کیا جاتا ہےکہ ہم فریقین کے دلائل قارئین کے سامنے رکھیں تاکہ وہ خود فیصلہ فرمائیں کہ آیا دلائل کی روشنی میں ذمی کے بدلے مسلمان کو قتل کرنا چاہیے یا نہیں؟

واضح رہے کہ ذمی کے بدلے مسلمان کو قتل نہ کرنے کے قائلین میں امام شافعی، امام احمد اور ثوری وغیرہ شامل ہیں جبکہ قتل کے قائلین میں امام ابوحنیفہ او رابن ابی لیلی وغیرہ ہیں چنانچہ علامہ ابن رشد اس تفصیل کو یون نقل فرماتے ہیں کہ:

وأما قتل المؤمن بالکا فر الذمي فاختلف في ذلك علی ثلاثة أقوال فقال قوم لا یقتل مؤمن بکافر و ممن قال به الشافعي والثوري و أحمد و داود و جماعة وقال قول یقتل به وممن قال به أبوحنیفة و أصحابه و ابن أبي لیلی (بدایة المجتهد: ج2 ص299)

یاد رہے تیسرا مسلک امام مالک وغیرہ کا ہے جو کہ تفریق پرمبنی ہے جسے یہاں بوجہ اختصار ترک کیا جاتا ہے۔

دلائل فریق اوّل : امام شافعی وغیرہ نے قرآن و حدیث کے علاوہ آثار سے بھی استدلال کیا ہے جیسا کہ درج ذیل دلائل سے واضح ہوگا چنانچہ انہوں نے اس سلسلہ میں قرآن سے استدلال کرتے ہوئے درج ذیل آیات پیش کی ہیں:

وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا(نساء)

علامہ شوکانی اس آیت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ:

ولو کان للکافر أن یقتص من المسلم في ذلك أعظم سبیل وقد نفي اللہ تعالیٰ أن یکون له علیه سبیل نفيا مؤکدا (نیل الاوطار:ج7 ص72)

2لَا يَسْتَوِي أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّةِ ( حشر)

علامہ کاسانی حنفی اس آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

ألاتری أن المسلم مشهود له بالسعادة والکافر مشھودله بالشقاء فأنی یتساویان

نیز فرماتے ہیں  :

ولأن المساواة شرط وجوب القصاص ولا مساواةبین المسلم والکافر (البدائع و الصنائع : ج10 ص4625)

3۔أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ (35) مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ(قلم)
أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا لَا يَسْتَوُونَ (سجدہ)

ان آیات کو ذکر کرنےکے بعد حافظ ابن حزم  فرماتے ہیں کہ:

فَوَجَبَ يَقِينًا أَنَّ الْمُسْلِمَ لَيْسَ كَالْكَافِرِ فِي شَيْءٍ أَصْلًا، وَلَا يُسَاوِيهِ فِي شَيْءٍ، فَإِذْ هُوَ كَذَلِكَ فَبَاطِلٌ أَنْ يُكَافِئَ دَمُهُ بِدَمِهِ، أَوْ عُضْوُهُ بِعُضْوِهِ أَوْ بَشَرَتُهُ بِبَشَرَتِهِ - فَبَطَلَ أَنْ يُسْتَقَادَ لِلْكَافِرِ مِنْ الْمُؤْمِنِ، أَوْ يُقْتَصَّ لَهُ مِنْهُ - فِيمَا دُونَ النَّفْسِ - إذْ لَا مُسَاوَاةَ بَيْنَهُمَا أَصْلًا.وَلَمَّا مَنَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَجْعَلَ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا وَجَبَ ضَرُورَةً أَنْ لَا يَكُونَ لَهُ عَلَيْهِ سَبِيلٌ فِي قَوَدِهِ، وَلَا فِي قِصَاصٍ، أَصْلًا - وَوَجَبَ ضَرُورَةً اسْتِعْمَالُ النُّصُوصِ كُلِّهَا، إذْ لَا يَحِلُّ تَرْكُ شَيْءٍ مِنْهَا.( محلی ابن حزم :ج10 ص352)

ان آیات سے معلوم ہوا کہ مسلمان کا حکم ہرگز ذمی وغیرہ کے حکم جیسا نہیں ان کےعلاوہ او ربھی متعدد آیات ایسی ہیں جن سے یہی مفہوم ادا ہوتا ہے جن کو اختصار کے پیش نظر موقوف کیا جاتا ہے۔

احادیث : فریق اوّل نےجن احادیث سے استدلال کیا ہے ان کاذکر کرتے ہوئے علامہ ابن رشد فرماتے ہیں کہ:

فَعُمْدَةُ الْفَرِيقِ الْأَوَّلِ مَا رُوِيَ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ أَنَّهُ سَأَلَهُ قَيْسُ بْنُ عُبَادَةَ، وَالْأَشْتَرُ: هَلْ عَهِدَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَهْدًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ قَالَ: لَا، إِلَّا مَا فِي كِتَابِي هَذَا، وَأَخْرَجَ كِتَابًا مِنْ قِرَابِ سَيْفِهِ فَإِذَا فِيهِ: «الْمُؤْمِنُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ وَيَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ، أَلَا لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ، مَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ» (بدایۃ المجتہد : ج2 ص299)

2۔ یہی روایت بالفاظ دیگر ابوحجیفہ کے واسطہ سے بخاری، ابوداؤد، نسائی، ترمذی اور مسنداحمد میں بھی آتی ہے اور حضرت علیؓ ہی سے ایک روایت احمد، نسائی، ابوداؤد میں بھی بایں الفاظ منقول ہے۔

أن نبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال المؤمنون تتکافأ دماء ھم وھم یدعلی من سواھم ویسعی بذمھم أدناھم، ألالایقتل مؤمن بکافر ولا ذوعھد في عھدہ۔

عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جدہ أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قضیٰ أن لابقتل مسلم بکافر (ولا ذوعهد في عهدہ) (ترمذي أبوداود و أحمد و ابن ماجه)

قاضی صاحب او ران کے پیش رو حضرات نے اس حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے جو عطف کا مسئلہ پیش کیا ہے کہ معاہد کے مقابلہ میں حربی ہوتا ہے لہٰذا یہاں مراد کا فرحوبی ہے۔اس کے حافظ ابن حجر نے فتح اور علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں متعدد جواب دیئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شبہ دراصل اصول سےعدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔چنانچہ علامہ مبارکپوری اس شبہ کے ازالہ میں فرماتے ہیں کہ:

بأن ھذا مفھوم صفة والخلاف في العمل به مشهود بین أئمة الأصول ومن جملة القائلین بعدم العمل بالحنیفیة فکیف یصح احتجاجھم به (تحفۃ الاحوذی: ج2 ص312)

اور علامہ شوکانی مختلف جوابات دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

بِأَنَّ الصَّحِيحَ الْمَعْلُومَ مِنْ كَلَامِ الْمُحَقِّقِينَ مِنْ النُّحَاةِ وَهُوَ الَّذِي نَصَّ عَلَيْهِ الرَّضِيُّ أَنَّهُ لَا يَلْزَمُ اشْتِرَاكُ الْمَعْطُوفِ وَالْمَعْطُوفِ عَلَيْهِ إلَّا فِي الْحُكْمِ الَّذِي لِأَجْلِهِ وَقَعَ الْعَطْفُ وَهُوَ هُنَا النَّهْيُ عَنْ الْقَتْلِ مُطْلَقًا مِنْ غَيْرِ نَظَرٍ إلَى كَوْنِهِ قِصَاصًا أَوْ غَيْرَ قِصَاصٍ فَلَا يَسْتَلْزِمُ كَوْنُ إحْدَى الْجُمْلَتَيْنِ فِي الْقِصَاصِ أَنْ تَكُونَ الْأُخْرَى مِثْلَهَا حَتَّى يَثْبُتَ ذَلِكَ التَّقْدِيرُ الْمُدَّعَى.(نیل الاوطار :ج7 ص11)

بہرحال یہ شبہ اپنے اندر کوئی وزن نہیں رکھتا جس بنا پر اس حدیث پرکوئی آنچ آسکے۔ ومن یرید التفصیل فلیراجع (فتح الباری : ج12 ص261)

اور علامہ زیلعی نے نصب الرایہ التنقیح کے حوالہ سے ان احادیث کو صحیح الاسناد اور حسن کہا ہے۔

4۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا:

لایحل قتل مسلم إلا في إحدی ثلاث خصال زان محصن فیرجم و رجل یقتل مسلما متعمدا اأورجل یخرج من الإسلام فیحارب اللہ و رسول فیقتل أو یصلب أو ینقی من الأرض (أبوداود، نسائي)

اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا کہ ذمی کا قتل چونکہ ان تینوں اقسام کے قبیل سے نہیں لہٰذا اس کی وجہ سے مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا۔

5۔ امام زہری فرماتے ہیں کہ : کتب النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بین قریش والأنصار أن لا یقتل مؤمن بکافر (مصنف عبدالرزاق: ج10 ص98)

6۔ علامہ شوکانی ن ےاس ضمن میں اس حدیث کو بھی پیش کیا ہے کہ الإسلام یعلوا ولا یعلی یعنی جب ذمی کے بدلے مسلمان کو قتل کیا جائے گا تو غیر شعوری طور پر اسلام کی پستی ہوگی۔ او رذمی پر مسلمان کی فوقیت دراصل اسلام کی برتری کا ثبوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک یہودی نے کہا کہ والذی اصطفیٰ موسیٰ علی البشر تو مسلمان نے اسے تھپڑ رسید کیا۔ نبی علیہ السلام کے پاس شکایت گئی تو آپ نے اس سے قصاص نہیں لیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کی فضیلت کا تقاضا ہے کہ اسے ذمی کے مساوی قرار نہ دیا جائے اور یاد رہے کہ احناف کے نزدیک تھپڑ مارنے میں بھی قصاص ہے تو نہ معلوم احناف نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس عدم قصاص کو کس چیز پر محمول فرمائیں۔

آثار : امام مکحول حضرت عمرؓ کے متعلق فرماتے ہیں:

أن عمر أرادأن یقید رجلا مسلما برجل من أھل الذمة في جراحة فقال له زید ابن ثابت أتقید عبدك من أخیك؟ فجعل عمردیته (مصنف عبدالرزاق: ج10 ص100)

عن ابن عمر أن رجلا مسلماً قتل رجلا من أھل الذمة عمدا ورفع إلی عثمان فلم یقتله و غلظ علیه الدیة مثل دیة المثل (بیہقی: ج8 ص33)

حدثنا ابن شهاب قال کان عثمان و معاویة لا یقید المشرك من المسلم (ایضا:ج8 ص33)

امام بیہقی آخری آثار کے متعلق فرماتے ہیں : ''الأول موصول وھذا منقطع''

4۔ امام زہری ہی کے واسطہ سے حضرت عثمانؓ سے یہ منقول ہے کہ ابن شاس جذامی نے شام میں ایک آدمی (ذمی) کو قتل کردیا تو حضرت عثمانؓ نے اس کو قصاصاً قتل کرنے کا حکم دیا۔ لیکن ابن زبیرؓ او ردیگر صحابہ کرام کے کہنے پر انہوں نےاسے قتل کرنے کے بجائے ایک ہزار (دینار) دیت لے لی۔ اس واقعہ کے بعد امام شافعی فرماتے ہیں کہ:

قلت ھذا من حدیث من یجھل فإن کان غیر ثابت فدع الاحتجاج به وإن کان ثابتا فقد زعمت أنه أرادقتله فمنعه أناس من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوجع لھم فھذا عثمان رضی اللہ عنه و أناس من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجمعون أن لا یقتل مسلم بکافر فکیف خالفتھم (بیہقی: ج8 ص33)

یادرہے امام شافعی کا قول من یجھل دراصل تعریف انقطاع میں توسع کانتیجہ ہے کہ امام شافعی نے اس انقطاع پر جہالت کا اطلاق تو سعاً کیاہے ورنہ دراصل اس میں کوئی راوی مجہول ہے اورعلت صرف انقطاع میں کی ہے چنانچہ علامہ ترکمانی فرماتے ہیں۔

ان آثار صحابہ کے علاوہ تابعین میں سے زہری،عکرمہ او رعطار کا بھی یہی مسلک ہے او ران سے اس مسئلہ پر متعدد فتاویٰ بھی منقول ہیں جیسا کہ مصنف عبدالرزاق وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے ۔ علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ:

أکثرأھل العلم لا یوجبون علی مسلم قصاصا بقتل کافر کان روی ذلك عن عمرو عثمان و علي و زید بن ثابت و معاویة و به قال عمر بن عبدالعزیز و عطا والحسن و عکرمة والزھري و ابن شبرمة و مالك والثوري والأوزاعي والشافعي و إسحاق و أبوعبیدة و أبوثور و ابن المنذر (المغنی : ج9 ص341)

دلائل فریق ثانی: احناف نے بھی اپنے مدعی کی تائید میں چند آیات سے احتجاج کیا ہے ۔ مثلاً علامہ کاسانی حنفی فرماتے ہیں:

ولنا عمومات القصاص من نحوقوله تبارکكو تعالیٰ کتب علیکم القصاص فی القتلیٰ و قوله سبحانه و تعالیٰ و کتبنا علیھم فیہا ان النفس بالنفس (بدائع:ج10 ص4625)

یعنی القصاص فی القتلی او رالنفس بالنفس کی عمومیت کا یہ تقاضا ہے کہ ذمی کے بدلے مسلمان کو قتل کیا جائے۔

حالانکہ اس تعمیم کی تخصیص ان احادیث صحیحہ سے ہوتی ہے جو اس سلسلہ میں مروی ہیں اور اسی طرح اشارہ کرتے ہوئے علامہ شوکانی لکھتے ہیں کہ:

ومن جملة ما احتج به القائلون بأنه یقتل المسلم بالذمي عمومة قوله تعالیٰ النفس بالنفس ویحاب بأنه مخصص بأحادیث الباب (نیل الاوطار: ج7 ص11)

او ریہی بات مسئلہ پر بالتفصیل روشنی ڈالنے کے بعد علامہ قرطبی نے فرمائی ہے۔ ان کے الفاظ ہیں کہ:

قتل فلا یصح في الباب الأحادیث البخاري وھو یخصص عموم قوله تعالیٰ کتب علیکم القصاص فی القتلیٰ الایة و عموم قوله النفس بالنفس (تفسیر قرطبی:ج2 ص247)

حافظ ابن حزم دوسری آیت کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ تورات کا حکم ہے جس کے ہم مکلف نہیں اور اگرہم مکلف ہیں تو یہ مسلمانوں کے ساتھ ہی خاص ہے او رانہوں نے آیت کے سیاق و سباق سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ کافر کے لیے صدقہ کفارہ نہیں ہوسکتا جس سے معلوم ہوا کہ یہ حکم مومنین کے ساتھ ہی خاص ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:

أَمَّا قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ} [المائدة: 45] فَإِنَّ هَذَا مِمَّا كَتَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي التَّوْرَاةِ، وَلَا تَلْزَمُنَا شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَ نَبِيِّنَا - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - ثُمَّ لَوْ صَحَّ أَنَّنَا مُلْزَمُونَ ذَلِكَ لَكَانَ الْقَوْلُ فِي هَذِهِ الْآيَةِ كَالْقَوْلِ فِي الْآيَاتِ الْأُخَرِ الَّتِي ذَكَرْنَاهَا بَعْدَهَا، وَفِي الْأَخْبَارِ الثَّابِتَةِ الَّتِي أَوْرَدْنَا، وَفِيهَا «أَوْ نَفْسٌ بِنَفْسٍ» .وَأَيْضًا - فَفِي آخِرِ هَذِهِ الْآيَةِ بَيَانُ أَنَّهَا فِي الْمُؤْمِنِينَ بِالْمُؤْمِنِينَ خَاصَّةً؛ لِأَنَّهُ قَالَ عَزَّ وَجَلَّ فِي آخِرِهَا: {فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ} [المائدة: 45] وَلَا خِلَافَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ فِي أَنَّ صَدَقَةَ الْكَافِرِ عَلَى وَلِيِّ الْكَافِرِ الذِّمِّيِّ الْمَقْتُولِ عَمْدًا لَا تَكُونُ كَفَّارَةً لَهُ - فَبَطَلَ تَعَلُّقُهُمْ بِهَذِهِ الْآيَةِ. (محلی: ج10 ص351)

اور پہلی آیت کے متعلق فرماتے ہیں کہ:

وَهَذَا نَصٌّ جَلِيٌّ بِأَنَّهَا فِي الْمُؤْمِنِينَ خَاصَّةً، بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ فَقَطْ؛ لِأَنَّهُمْ إخْوَةٌ كُلُّهُمْ، فَاسِقُهُمْ وَصَالِحُهُمْ، عَبْدُهُمْ وَحُرُّهُمْ، وَلَيْسَ أَهْلُ الذِّمَّةِ إخْوَةً لَنَا - وَلَا كَرَامَةَ لَهُمْ.(محلی: ج10 ص352)

یعنی اس کا مدلول بھی مومنین ہی ہیں جن میں باہمی اخوت کا رشتہ ہے او ران کا کوئی طبقہ اس رشتہ سے بالاتر نہیں جبکہ مسلمانوں اور ذمیوں کے درمیان اس قسم کی اخوت کا کوئی ناطہ نہیں ہے۔ امام شافعی اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:

فمن عفي له من أخیه شيء لأنه جعل الآخرة بین المؤمنین فقال إنما المؤمنون أخوة وقطع ذلك بین المؤمنین والکافرین ودلت سنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی ظاھر الآیة (کتاب الاء: ج6 ص32)

یعنی ان آیات کی اس حدیث کے ساتھ تخصیص ہوسکتی ہے جیسا کہ علامہ زیلعی نے حدیث عائشہ کے الفاظ ''ورجل یقتل سلمامتعمدا کو ابن مسعودؓ کی روایت کے الفاظ النفس بالنفس کی تفصیل و تخصیص کہا ہے۔ تاہم اگر اس تخصیص بالحدیث کو تسلیم نہ بھی کیا جائے تو بقول حافظ ابن حزم ان آیات کی تخصیص ان مذکورۃ الصدر آیات سے بھی ہوجاتی ہے لہٰذا اس تعمیم سے احتجاج و استدلال کا کوئی جواز نہیں او راسی قبیل سے ومن قتل مظلوما ًکی تخصیص ہے۔

اسی طرح احناف کی طرف سے پیش کردہ آیت وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا کا جواب دیتے ہوئے حافظ ابن حزم فرماتے ہیں:

وَأَمَّا قَوْله تَعَالَى: {وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا}  فَهُوَ أَيْضًا فِي الْمُؤْمِنِ يُسَاءُ إلَيْهِ خَاصَّةً؛ لِأَنَّ نَصَّهَا {وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ} وَلَا خِلَافَ فِي أَنَّ هَذَا لَيْسَ لِلْكُفَّارِ وَلَا أَجْرَ لَهُمْ أَلْبَتَّةَ. (محلی: ج10 ص352)

یعنی یہ آیت بھی مسلمانوں ہی کے ساتھ خاص ہے کیونکہ کفار کے لیے تو کسی صورت میں بھی اجر نہیں۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ وان عاقبتم فعاقبوا بھی اسی قبیل سے ہے کیونکہ کفار کے لیے وہ صبر کریں یانہ کریں ان کو خیر یا اجر نہیں ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہےکہ وقدمنا الی ماعملوا من عمل فجعلناہ ھباء منثوراً۔

بہرحال ان آیات کی تخصیص صریحہ اور تاویل صحیحہ کے علاوہ لن یجعل اللہ للکافرین علی المؤمنین سبیلا اور ولکم فی القصاص حیوۃ کے علاوہ الإسلام یعلو ولا یعلی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ذمی کے بدلے مسلمان کو قتل نہ کیا جائے۔

احادیث: احناف جن احادیث سے احتجاج کرتے ہیں ان میں سرفہرست ابن عمرؓ کی حدیث ہےکہ:

عن ابن عمرأن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتل مسلما بمعاھد وقال إن أکرم من وفی بذمته (دارقطنی: ج3 ص135)

لیکن یہ حدیث بوجہ ضعف قابل استدلال نہیں کیونکہ اس میں متعدد رواۃ متکلم فیہ ہیں مثلاً

عمار بن مطر ... جس کو ابن حبان نے سارق الحدیث، رازی نے یکذب او رابن عدی نے احادیثہ بواطیل کہا ہے۔

ابراہیم بن محمد.... امام احمد فرماتے ہیں یروي أحادیث لیس لھا ..؟؟ قطان نے کذاب کہا ہے اس کے علاوہ امام بخاری ، دارمی،نسائی اور دارقطنی جیسے اصحاب فن نے بھی اس کی تضعیف کی ہے۔

اس حدیث کو امام دارقطنی نے سنن میں متعدد طرق سے ذکر کیا ہے لیکن مدار دو راویوں پر ہے اوّل عمار بن مطر جس پرسند کامدار ہے اور علامہ محدث ڈیانوی اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ:

والحمل فیه علی عمار بن مطر الرھاوي وکان یقلب الأسانید و یسرق الحدیث حتی کثرذلك في روایاته وسقط عن حد الاحتجاج (سنن دارقطنی حاشیہ:ج3 ص135)

دوسرا راوی عبدالرحمان بن البیلمانی ہے جس سے یہ روایت کبھی موصول او رکبھی مرسل طور پر منقول ہے لیکن اس کا موصول بیان کرنا عمار کی غلطی ہے او رابن بیلمانی اسے مرسل بھی بیان کرتا ہے تاہم وہ بھی ضعیف ہے۔ امام دارقطنی فرماتے ہیں:

وابن البیلماني ضعیف لاتقوم به حجة إذا وصلی الحدیث فکیف بما یرسله (سنن: ج3 ص135)

بہرحال یہ حدیث فنی نقطہ نظر اور روایت و درایت کے اعتبار سے اس قابل نہیں کہ اس سے استدلال کیا جائے۔

نیز علامہ حازمی نے اپنی کتاب الناسخ والمنسوک میں امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ ابن بیلمانی کی حدیث اگر ثابت بھی ہو تو اسے فتح مکہ کے خطبہ کی وجہ سےمنسوخ سمجھا جائے گا۔ امام شافعی کے الفاظ ہیں:

حدیث البیلماني علی تقدیر ثبوته منسوخ بقوله علیه السلام في زمن الفتح لایقتل مسلم بکافر (نصب الرایۃ : ج4 ص336)

او ریہی وہ روایت ہے جس کی طرف قاضی صاحب نے ابن سلمہ او رابن المنکدر کے نام سے اشارہ کیا ہے او راس کی جمیع اسناد ضعیف رواۃ پر مبنی ہیں۔ امام دارقطنی اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں۔

ھذاھوالأصل في الباب وھو منقطع روایة غیرثقة

یعنی لے دے کے احناف کے نزدیک اس سلسلہ میں یہی حدیث ہے جو کہ منقطع ہے او راس کے تمام راوی ضعیف اور متکلم فیہ ہیں۔

بڑا شور سنتےتھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اک قطرہ خون نکلا

بہرحال اس کے علاوہ بھی اگر کوئی حدیث آتی ہے تو اس میں بھی عبداللہ بن یعقوب اور عبداللہ بن عبدالعزیز جیسےمجہول راوی ہی ہیں۔

آثار: اس کے بعد اصحاب الرائے نے جن آثار کا سہارا لیا ہے ان میں سرفہرست حضرت علیؓ کا فیصلہ ہے جس کا ذکر قاضی صاحب نے بھی کیا ہے کہ آپ نے اہل حیرہ میں سے ایک قتل کے بدلہ میں ایک مسلمان کو قتل کردیا تھا۔ (ملخصاً) لیکن یہ اثر حضرت علیؓ سے کسی صحیح سند سےمروی نہیں کیونکہ اس میں متعدد رواۃ ضعیف اور متکلم فیہ ہیں مثلاً حسن بن میمون ۔ علی بن مدینی کہتے ہیں لیس بمعروف اور قیس بن ربیع کو امام نسائی نے متروک ، دارقطنی نے ضعیف کہا ہے۔ امام احمد فرماتے ہیں ولہ احادیث منکرۃ وکان کثیرا الخطأ ابن معین فرماتے ہیں ضعیف لا یکتب حدیثہ۔

ان کےعلاوہ اس سند کا مدار ابوالجنوب ہے جس کے متعلق ابوحاتم فرماتے ہیں کہ ضعیف بین الضعف لا یشتقل به او رامام دارقطنی نےبھی اس کی تضعیف کی ہے۔

یعنی یہ اثر بلحاظ سند اس قابل نہیں کہ اس سے احتجاج ہوسکے بالخصوص جبکہ دوسری روایت میں خود علیؓ یہ مرفوع الفاظ بیان کرتے ہیں کہ لایقتل مسلم بکافر تو پھر یہ کیسے باور کیا جاسکتا ہےکہ حضرت علیؓ کو فرمان نبوی کا علم بھی ہو اور اس کی مخالفت بھی کریں۔ امام بیہقی نے امام شافعی سے یہی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے:

وفي حدیث أبي حجیفة عن علي لا یقتل مسلم بکافر دلیل علی أن علیا لا یروي عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شیئاً یقول بخلافه (نصب الرایہ: ج4 ص337)

اگر وہ اثر صحیح بھی ہو تو اسے اس حدیث کی اطلاع کے بعد ناسخ سمجھا جائے گاکیونکہ وصول حدیث کے بعد حضرت علیؓ کا اپنے فتویٰ پر مصر رہنا وغیرہ خلاف حقیقت او رمقام صحابیت کے بھی خلاف ہے (یعنی اصول نقطہ نظر سے بھی حضرت علیؓ سے یہ اثر صحیح معلوم نہین ہوتا او رنہ ہی اسے قابل استدلال سمجھا جائے گا)نیز ہم حضرت کے قول کے مکلف بھی نہیں بالخصوص جبکہ نبی علیہ السلام سے اس کے کلاف صحیح حدیث مروی ہو۔

آثار صحابہ کے ضمن میں ایک اثر قاضی صاحب نےحضرت عمرؓ سے بھی پیش کیا ہے جو کہ حیرہ مقام کے نصاریٰ کے ساتھ متعلق ہے جس میں آپنے قتل کا حکم فرمایا اور بعد میں فرمایا کہ اگر وہ ابھی قصاصاً قتل نہیں کیا گیا تو اسے قتل نہ کیا جائے لیکن سوء اتفاق سے وہ قتل کیا جاچکا تھا۔ اس اثر کو بیہقی نے بھی ذکر کیا ہے لیکن یہ اثر بھی بوجوہ قابل احتجاج معلوم نہیں ہوتا۔اوّل یہ کہ اس کی اسنادی حیثیت کمزور ہے یہی وجہ ہے کہ امام بیہقی نے حضرت عمرؓ سے روایات نقل کرنے کے بعد امام شافعی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ:

قلنا ولا حرف وھذہ أحادیث منقطعات أوضعاف أو تجمع الانقطاع و الضعف جمیعاً (بیہقی : 88؍33)

ثانیاً: حضرت عمرؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ شام میں ایک ذمی کو مسلمان نے قتل کردیاتو حضرت عمرؓ نے اسے قصاصاً قتل کردینے کو کہا لیکن حضرت ابوعبیدہؓ نے منع فرما دیا آپ نے ابوعبیدہؓ سے پوچھاتو انہوں نے کہا کیاتم غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرو گے تو حضرت عمرؓ خاموش ہوگئے( ملخصاً) او رعین ممکن ہے کہ حضرت عمرؓ کا دوسرا حکم امتناعی اسی قبیل سے ہوکہ آپ نےبعد میں اس کے قتل سے روک دیا غالباً اس طرح اشارہ کرتےہوئے امام شافعی فرماتے ہیں کہ:

الذي رجع إلیه أولیٰ به ولعله أرادات یخیفه بالقتل ولا یقتله (بیہقی:ج8 ص32)

او رمصنف عبدالرزاق کے الفاظ ہیں کہ :

قدم عمر بن الخطاب الشام فوجد رجلامن المسلمین قتل رجلا من أھل الذمة فھم أن یقید فقال له زید بن ثابت أتقید عبدك من أخیك؟ فجعل عمر دیته (مصنف عبدالرزاق:ج10 ص100)

ثالثا: حضرت عمرؓ کے متعلق بھی یہ گمان رکھنا قرین انصاف نہیں کہ آپ نے ارشاد نبوت کے باوجود ایسا حکم جاری فرمایا ہو جو نبی علیہ السلام کے حکم کےمنافی ہو۔ کیونکہ ''مصنف'' ہی کے دوسرے واقعہ کے ضمن میں حضرت معاذؓ نے آپ کو نبی علیہ السلام سے روایت بھی سنائی تھی جس کامطلب یہ تھا کہ مسلمان اور ذمی ایک برابر نہیں او رایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے کہا۔ لا تقد منه بہرحال یہ اثر بھی إذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال اور دیگر قرائن صارفہ اور مخالف حدیث ہونے کی بنا پرمردود ہے۔

نیز اس ضمن میں یہ واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ شہادت عمرؓ پر جب عبیداللہ بن عمرؓ نے ہرمزان او رابولؤلؤ کی بچی کو قتل کردیا تو حضرت علیؓ ن ےاسے بھی قصاصاً قتل کرنے کا فیصلہ کیا حالانکہ ہرمزان مسلمان نہیں تھا۔ ملخصاً)

لیکن یہ بات اس وجہ سے صحیح معلوم نہیں ہوتی کہ ابولؤلؤ کی مقتولہ بیٹی مسلمان تھی او ریہ بات بھی محل نظر ہے کہ کیا ہرمزان اس وقت مسلمان تھا یا نہیں؟ کیونکہ امام شافعیؓ‎ نے اس کا اسلام ذکر کیا ہے بلکہ یہ بھی منقول ہے کہ حضرت عمرؓ نے اس کے اسلام پر اس کےلیے دو ہزار درہم اس کو دیئے اور قتل کیےجانے کے وقت اس کا لاالہ کہنا صرف تعجب کی بنا پر ہوسکتا ہے یاعبیداللہ کے اتہام پر اسےمطمئن کرنا تھا۔ (وللتفصیل نصب الرایہ:ج4 ص338)

ابن منذر فرماتے ہیں: لم یصح عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبر یعارضه ولأنه لا یقاد المسلم بالکافر فیھا دون النفس بالإجماع کما قال ابن عبدالبر (فقه علی المذاہب الأربعة: ج5 ص283)

امام زفر کا رجوع : محترم قارئین کرام! آپ نے دونوں طرف کے دلائل پڑھ لیے لہٰذا اب ہمیں مزید کسی قسم کی بحث لکھنے یا کرنے کی ضرورت نہیں کہ آپ خود فیصلہ فرمائیں کس فریق کے دلائل مبنی برحقیقت و صحت ہیں؟ اور کس فریق کے دعویٰ کی بنیاد دلائل قویہ اور احادیث صحیحہ پر ہے اور جس بات کو صحیح پائیں اس پر عمل کریں اگرحنفی مسلک صحیح ہے تواسے اپنائیں اگر شافعی مذہب درست ہے تو اسے اپنانابھی آپ کا فرض ہے لیکن یاد رکھیے ایک طرف نبی علیہ السلام سے صحیح حدیث مروی ہے دوسری طرف آپ کا کوئی صحیح فرمان نہیں، ایک طرف صحابہؓ کا جم غفیر ہے دوسری طرف کوئی صحابی نہیں۔ ایک طرف تابعین کی معتدبہ جماعت ہے ، دوسری طرف کسی تابعی سے بھی صحیح قول منقول نہیں۔ ایک طرف مسلمان کی عزت و وقار کا مسئلہ ہے دوسری طرف غیرمسلم قومیت ایک طرف اسلام کی سربلندی کا مسئلہ ہے دوسری طرف کفر و الحاد۔ غرضیکہ ایک طرف حنیفیت ہے دوسری طرف حنفیت ۔اب آپ کے امتحان کا وقت ہے کہ آپ کس راہ کو پسند فرماتے ہیں ہم اس سلسلہ میں حکم دینے کے مجاز تو نہیں البتہ ریاست حنفیہ کے ستون کی مثال پیش کرتے ہیں کہ شائد خدا آج کے بھٹکے ہوئے مسلمان کو ہدایت عنایت فرما دے اور آج کے احناف بھی اسی طرح حدیث نبوی کو حرف آخر سمجھنے لگیں۔ قصہ ہے امام زفر کا۔امام موصوف مملکت حنفیہ میں کوئی محتاج تعارف نہیں۔ حنفی مسلک کے بیشتر مسائل میں ان کےقول پر ہوتا ہے۔ ان کاذکر ہے کہ ایک دن ان سے عبدالواحد بن زیاد کی ملاقات ہوئی انہوں نے کہا زفر صاحب کیاہوا کہ لوگ آپ کا مذاق اڑاتے ہیں تالیاں بجاتے ہیں او رہرمجلس کا موضوع سخن آپ بنے ہوئ ہیں۔ امام صاحب نے کہا بات کیا ہے۔ انہوں نے کہا ایک طرف تمہارا دعویٰ ہے کہ شبہات کی بناد پر حدود کو دور کرنا چاہیے لیکن دوسری طرف سب سے بڑی حد کو قائم کر رہے ہو محض شبہات کی بناء پر۔ وہ ہے کیا؟ امام زفر نے کہا.. ابن زیاد نے کہا نبی علیہ السلام نے تو فرمایا ہے کہ ذمی کے بدلے مسلمان کو قتل نہیں کیا جاسکتا مگر تم ہو کہ قتل کافتویٰ دیتے ہو۔ امام زفر فرمانے لگے ہیں شہادۃ ً کہتا ہوں کہ آج سے میں اس مسئلہ سے رجوع کرتاہوں۔ ملخصاً من البیہقی)

امام زفر کا یہی واقعہ نقل کرنے کے بعد علامہ خطیب بغدادی حافظ ابوبکر  سے نقل فرماتے ہیں کہ:

كان زفر بن الهذيل من أفاضل أصحاب أبي حنيفة فلما حاجه عبد الواحد في مناظرته وفت في عضده بحجته ، أشهده على رجعته خيفة من مدَّع يدعي ثباته على قوله الذي سبق منه بعد أن تبين له انه زلة وخطأ ، فكذلك يجب على كل من احتج عليه بالحق أن يقبله ، ويسلم له ، ولا يحمله اللجاج والمراء على التقحم في الباطل مع علمه به قال الله تعالى 16 ( { بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ} (کتاب الفقیہ المتفقہ :ج2 ص57،58)

قاضی ابویوسف کی پشیمانی: اس قسم کا ایک واقعہ قاضی ابویوسف کے ساتھ پیش آیا کہ آپ نے ایک دفعہ ذمی کے بدلے مسلمان کو قتل کرنےکا حکم صادر فرمایا لیکن تعمیل حکم سے قبل آپ کے پاس کسی نے رقعہ پہنچایا جس پر درج ذیل اشعار تحریر تھے۔

یاقاتل المسلم بالکافر ..... جرت وما العادل کالجائر

یامن ببغداد و أطرافھا ..... من علماء الناس أو شاعر

استرجعوا وابکوا علی دینکم .... واصطبروا فالأجر للصابر

جار علی الذین أبویوسف ..... بقتله المؤمن بالکافر

(الاحکام السلطانیہ للماوردی ص231)

جب یہ اشعار قاضی صاحب کے پاس پہنچے تو آپ فوراً خلیفہ وقت ہارون الرشید کے پاس گئے اور یہ واقعہ کہہ سنایا تو ہارون الرشیدنے کہا اب کسی حیلہ سازی کے ساتھ اس واقعہ کاتدراک کرو چنانچہ قاضی صاحب نے دوبارہ ورثاء مقتول کو طلب کیا او رشہادت لانے کو کہا لیکن وہ کوئی شہادت نہ لاسکے تو آپ نے پہلا حکم واپس لے لیا یعنی ذمی کے بدلے مسلمان کو قتل نہ کیا گیا۔

اب غور طلب بات یہ ہے کہ اگرپہلا حکم مبنی برحقیقت و شرعیت تھاتو قاضی صاحب کے رجوع کا کیاحکم ؟ اور قتل کا بوجھ کس پر ہوگا؟ لیکن پہلی بات چونکہ ویسے ہی غلط تھی تو آپ نےاس سےرجوع کرلیا۔ لیکن اس رجوع کے محرکات کیاتھے۔ یہ انما الاعمال بالنیات کا مسئلہ ہے لیکن افسوس کہ علامہ ماوردی لکھتے ہیں:

والتوصل إلی مثل ھذا سائغ عند ظهور المصلحة فیه (ایضاً)

یعنی مصلحت کےطور پر ایسی حیلہ سازی جائز ہے ۔ نیز گویا کہ قاضی صاحب کارجوع حقیقی نہ تھا بلکہ ایک وقتی ہنگامے کو روکنے کے لیے حیلہ پر مبنی تھا ۔ قارئین عظام! یہی وہ حیلہ سازی ہے جو دین میں رخنہ اندازی کے مترادف ہے۔ فتدبروا۔

ہم حُسن ظن کے پیش نظر سمجھتے ہیں کہ قاضی صاحب نے رجوع کرلیا تھا کیونکہ مجتہد یخطی و یصیب لیکن جب اسے معلوم ہوجائے کہ وہ غلطی پر ہےتو اسے رجوع کرلینا چاہیے او رمجتہد کی شان بھی یہی ہے اسی طرح اصولی نقطہ نگاہ سے جب ایک مجتہد صحیح حدیث سے استدلال کررہا ہو او ردوسرا ضعیف حدیث سے۔ تو ضعف حدیث سے استدلال کرنے والا خطا او رغلطی پر ہوتا او رصحیح حدیث سے استدلال کرنے والا مصیب ہوتا ہے۔ زیربحث مسئلہ میں بھی یہی نوعیت ہے کہ امام شافعی صحیح حدیث (جو کہ بخاری کے حوالہ سے گزر چکی ہے) سے استدلال کرتے ہیں او رامام ابوحنیفہؓ‎ کا استدلال ضعیف روایت سے ہے (کما مر) تو اس اصول کےپیش نظر امام شافعی درستگی پر ہوئے او رامام ابوحنیفہ غلطی پر... اس بحث کو مولوی شبیر احمد عثمانی نے اپنے رسالہ ہدیہ سنیدمیں فتاویٰ ابن تیمیہ کے حوالہ سے امام احمد کےقول کے ساتھ یوں لکھا ہے کہ:

إذا کانت الروایة عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحیحة فأخذبھارجل وأخذ اخر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واحتج بالشییء الضعیف کان الحق فیأ خذبه الذي احتج بالحدیث الصحیح وقد أخطأ الاخر في التأویل مثل لا یقتد مؤمن بکافر واحتج بحدیث البیلماني قال فھذا عندي مخطئ والحق مع من ذھب إلی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا یقتل مؤمن بکافر (مجموعہ رسائل ثلاثہ :ص41)

کیا پھر امام ابوحنیفہ او ران کے ہم خیال کافر کے بدلے مسلمان کو قتل کرنے میں مخطی نہیں؟ کیونکہ نہیں۔۔۔ یہی تو وجہ ہے کہ امام زفر اور قاضی ابویوسف نےاپنے قول سے رجوع کرلیاتھا۔

بہرحال اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں سے صرف نظر فرمائے اور آج ہم کو بھی ان کی طرح حدیث رسول اللہﷺ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی توفیق بخشے۔ بالخصوص آج کے احناف کو جو اس روشنی کے دو رمیں بھی انہی فرسودہ مسائل کو از سر جگا رہے ہیں جن سے ان کے پیشتر حضرات رجوع کرچکے ہیں یہ توفیق ملے کہ وہ ایسی خدمت اسلام سے باز رہیں اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس مسئلہ میں امام شافعی کی تحقیق پر چلنے کی توفیق دے کہ وہی عین روح اسلام کےمطابق ہے آپ فرماتے ہیں:

لا یقتل مؤمن عبدو لاحر لا امرأة بکافر في حال أبداو کل من وصف الإیمان من أعجمي أوأبکم یعقل و یشیر بالإیمان و یصلي فقتل کافر فلا قود علیه و علیه دیته في ماله حالة سواء أکثر القتل في الکفار أولم یکثرو سواء قتل کافرا علی مال یأخذہ منه أو علی غیر مال لايحل واللہ أعلم قتل مؤمن بکافر بحال في قطع طریق ولا غیرہ۔ (کتاب الام: ج6 ص33)