نفسی نفسی کا ایک عالم ہے
زندگی پُر اَلم بنائی ہے ربّ عالم تیری وہائی ہے
ایک سہارا تھا دل کامبہم سا وہ بھی اب رہن بے وفائی ہے
نفسی نفسی کا ایک عالم ہے بے خودی سی ہر اک پہ چھائی ہے
دل سکون کو ترس گئے توبہ کیا قیامت جنوں نے ڈھائی ہے
عشق بدنام ہے ہوس کے لیے حُسن بے تاب خود نمائی ہے
بے نیازی کا ذوق ہی نہ رہا ہاتھ میں کاسہ گدائی ہے
ہوس زر ہے دشمنی تمکین سادگی رہن بے نوائی ہے
ہر نفس سرکشی پر مائل ہے ہرنظر کا سہ گدائی ہے
زندگی کا ہی کیا بھروسہ ہے جاں بھی اپنی نہیں پرائی ہے
ترک ذوق عمل کی کیسی سزا ہم نے فطرت سے آج پائی ہے
ترک ذوق یقین کردینا اپنے خالق سے بے وفائی ہے