اجل ہے گھات میں تیری تُو محوِ غفلت ہے

موت کبھی بستر علالت پر او رکبھی اچانک اس طرح آجاتی ہے کہ توبہ کی بھی مہلت نہیں ملتی۔

عاجز کہیں آجائے نہ وہ وقت اچانک
جس وقت کہ توبہ کی بھی مہلت نہیں رہتی

انسان اپنی لمبی عمر کی امید میں توبہ کو مؤخر کرتا رہتا ہے او رسمجھتا ہےکہ میں ابھی جوان ہوں۔ بہت وقت ہے۔بڑھاپے میں توبہ کرلوں گا اور آخر میں صالح اعمال بجا لاؤں گا۔لیکن !
کہیں دست ندامت اٹھتے اٹھتے
در توبہ مقفل ہو نہ جائے
گناہوں کی ہوائے تُندہی میں
چراغ زیست عاجز بجھ نہ جائے

بڑھاپےتک بہت کم لوگ پہنچتے ہیں۔ اکثر بچپن او رجوانی میں مرجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں طویل العمر اش|خاص بہت کم نظر آتے ہیں۔بچے اور جوان زیادہ جوانی میںموت سے غفلت کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی دشمن کے محاصرے کے وقت عیش و عشرت میں مبتلا ہو۔ بڑھاپے میں موت سے غفلت کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی دشمن کے حملے کے وقت گہری نیند سو رہا ہو۔

عقلمندی کا یہ تقاضا ہے کہ انسان ایام زندگی کو موت سے پہلے غنیمت سمجھے۔ موت کے بعد سفر آخرت میں پیش آنے والے مراحل کے لیے زادِ راہ فراہم کرنے میں تمام تر کوششیں بروئ ے کار لائے۔
اس عمر کے لمحات میں وہ کام کیے جا
جو کام ترے آئیں گے عقبیٰ کے سفر میں
گوہر سے گراں تر ہیں تیری زندگی کے لمحات
ہشار! کہ ہوجائیں نہ یہ نذر خرافات
غفلت ہی کے رستے میں یہ کٹ جائے نہ مہلت
لب پر نہ کہیں وقت اجل ہو ترے ہیہات

﴿وَيَومَ يَعَضُّ الظّالِمُ عَلى يَدَيهِ يَقولُ يـلَيتَنِى اتَّخَذتُ مَعَ الرَّ‌سولِ سَبيلًا ﴿٢٧﴾يـوَيلَتى لَيتَنى لَم أَتَّخِذ فُلانًا خَليلًا ﴿٢٨﴾... سورة الفرقان

''اور اس (قیامت کے) دن ظالم (گنہگار) اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائے گا او رکہے گا ہائے افسوس! میں رسول کا راستہ اختیار کرتا۔ ا ےکاش میں فلاں آدمی کو دوست نہ بناتا۔''
وہ وقت آئے گا رو رو کے جب پکارو گے
خدا اور اس کے نبیؐ کی نہ بات مانی کیوں

ہمارے مربی و محسن سیّد کونینﷺ فرماتے ہیں:

الیس من دان نفسه و عمل لما بعد الموت والعاجز من اتبع نفسه ھوا ھا و تمنیٰ علی اللہ الامانی (الترغیب)

''عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو (ناجائز) خواہشات سے روکتا ہے اور موت کے بعد آنے والے وقت کے لیے تیاری کررہا ہے۔ بے وقوف وہ ہے جو اپنے نفس کی (ناجائز) خواہشات کے پیچھے لگا ہوا ہے اور اللہ (کی رحمت) پر اُمید رکھتا ہے۔''

ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

«اغتنم خمساً قبل خمس شبایک قبل ھرمک و صحتک قبل سقمک وغناک قبل فقرک فراغاک قبل شغلک و حیاتک قبل موتک» (الحاکم)

''پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جانو۔جوانی کو بڑھاپے سے پہلے او رصحت کو بیماری سے پہلے، امیری کو فقیری سے پہلے اور فرصت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔''

حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے میرے شانے پراپنا دست مبارک رکھ کر فرمایا:

«کن فی الدنیا کاتک غریب اوعا برسبیل وعد نفسک فی اصحاب القبور وقال یا عبداللہ اخا اصبحة فلا تحدث بالمسآء واذا امسیت فلا تحدث نفسک بالصباح وخذ من صحتک قبل سقمک ومن حیاتک قبل موتک فانک لا تدری یا عبداللہ ما اسمک غداً »(بخاری و ترمذی)

''دنیا میں اس طرح رہ گویا کہ تو اجنبی ہے یا راہ چلتا ہوا (مسافر) او راپنے آپ کو (زندگی ہی میں) اہل قبور میں شامل کرلے اور آپؐ نے فرمایا اے عبداللہ! جب تو صبح کرے تو اپنے دل میں شام تک زندہ رہنے کی امید نہ ہو او رجب شام کرے تو صبح تک زندگی کی آس نہ رکھ۔ اپنی صحت میں اپنی بیماری کے لیے کچھ کرلے او راپنی موت سے پہلے زندگی میں اس کی تیاری کرلے اے عبداللہ! تجھے کچھ خبر نہیں کل تیرا نام کیا ہوگا؟ (زندہ یا مردہ؟)''

بعض دفعہ انسان اہل خانہ کو یہ کہہ کر باہر جاتا ہے کہ میں چندگھنٹوں میں واپس آرہا ہوں۔ لیکن راستے میں وہ کسی حادثہ کاشکار ہوجاتاہے چند گھنٹوں میں لوٹنے کی بجائے چند لمحات کے بعد اس کی میت گھر آجاتی ہے۔

﴿وَما تَدر‌ى نَفسٌ ماذا تَكسِبُ غَدًا وَما تَدر‌ى نَفسٌ بِأَىِّ أَر‌ضٍ تَموتُ...٣٤﴾... سورة لقمان

''کسی انسان کو خبر نہیں کل اسے کیا کام درپیش آجائے اور اس کی موت کس مقام پر واقع ہوجائے۔''

ماضی قریب میں خاندان غزنویہ کے چشم و چراغ معروف اور ممتاز عالم دین سید ابوبکر غزنوی وطن سے دور لندن میں سڑک عبور کرتے ہوئے موٹر کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے اور اب ان کے حقیقی بھائی سید عمر فاروق چند روز قبل حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال فرما گئے۔ فیصل آباد میں مولانا عبدالرشید قمر دفعتاً دنیائے فانی سے عالم بقا کی طرف سدھار گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
مریض کھا چکا اس کا جوآب و دانہ تھا
برائے موت مرض تو فقط بہانہ تھا

اچانک اموات کے واقعات روزانہ نامعلوم کس قدر وقوع پذیر ہورہے ہیں جنہیں ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں او رکان سن رہے ہیں۔
آتے رہتے ہیں پیش نظر دن رات جنازوں کے منظر
حیرت ہے یہ پھر کیوں اپنی اجل ہم دل سے بھلائے بیٹھے ہیں
ہر صبح سفر ہر شام سفر عاجز آخر انجام سفر
کچھ چلے گئے کچھ جانے لگے دنیا میں جو آئے بیٹھے ہیں

میرے تین لڑکے عبیدالرحمٰن، عطاء الرحمٰن، ثناء الرحمٰن مکہ مکرمہ میں مقیم ہیں۔ منجھلا لڑکا عطاء الرحمٰن بعمر 28 سال جو کہ چار ننھے منھے بچوں کا باپ ہے۔بجلی سے چلنے والی کپڑے دھونے کی مشین میں پٹرول سے اپنے کپڑے صاف کررہے تھا کہ پٹرول آگ پکڑ لیتاہے ، جس سے اس کے ہاتھ پاؤں، سینہ، چہرہ بُری طرح جھلس جاتے ہیں۔ یہ واقعہ 22 جون 1978ء کو ہوا۔ وہ ہسپتال میں گیارہ روز موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہ کر 3 جولائی 1978ء کو اپنے خالق یکتا سے جاملتا ہے۔
یہ کہتے جارہے ہیں جانے والے
کہ دنیا سے نہ کوئی دل لگائے

حرم شریف میں نماز مغرب کے بعد ڈھائی تین لاکھ فرزندان توحید نے نماز جنازہ ادا کی او رجنت المعلیٰ میں بہ حسن اتفاق اُم المؤمنین حضرت خدیجہ طاہرہؓ کے مرقد اقدس کے قریب جگہ پائی۔ہمیں ٹیلی فون پریہ روح فرسا اطلاع ملی۔ اگرچہ یہ خبر بڑی ہی کربناک تھی مگر اپنے کریم آقا کی ہدایت کے مطابق واستعینوا بالصبر والصلوٰۃ (ایسے مواقع پر) صبر او رنماز سے مدد حاصل کیا کرو۔ اسی وقت اس عاجز نے صبر کا گھونٹ پی کر دو رکعت نماز ادا کی ۔ اس کی توفیق بھی میرے مہربان مالک ہی نے مجھے عطا فرمائی۔ ورنہ ایسے مواقع پر انسان کہاں صبر کرتا ہے۔ الحمدللہ علی احسانہ۔

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اوصاف بیان کرتا ہوا فرماتا ہے:

﴿الَّذينَ إِذا أَصـبَتهُم مُصيبَةٌ قالوا إِنّا لِلَّهِ وَإِنّا إِلَيهِ ر‌جِعونَ ﴿١٥٦﴾... سورة البقرة

''ان لوگوں کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ یہی کہتے ہیں ۔ ہم اللہ ہی کے لیے ہیں او راسی کی طرف لوٹنا ہے۔''

لہٰذا ہم بھی اس حادثہ جاں گداز کے موقع پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے ہیں۔

قارئین کرام کی خدمت اقدس میں عاجزانہ استدعا ہے کہ وہ متوفی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔ اس حدیث کے مطابق کفی بالموت و اعظار (الترغیب) موت کافی وعظ ہے۔

اللہ تعالیٰ اس اچانک جواں سال موت کو ہمارے لیے درس عبرت او رہماری اصلاح اعمال اور آخرت کے لیے تیاری کا ذریعہ بنائے اور مرنے والے کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین