آثار بھی رہیں گے نہ تیرےمزار کے
دو روز گلستان دہرمیں گزار کے ہم جارہے ہیں بازئ اعمال ہار کے
ارض و سماء دشت و گلستان مہر و ماہ آثار ہیں یہ قدرت پروردگار کے
گُل مسکرا رہے ہیں عنادل ہیں نغمہ سنج پیچھےلگی ہوئی ہے خزاں بھی بہار کے
پایا ہے اُس نے اپنی رگ جاں سے بھی قریب دیکھا ہے جس نے جب بھی خدا کو پکار کے
نام اُن کاگونجتا ہے اذانوں میں رات دن چرچے ہیں شہر شہر مرے شہریار کے
کل تک بنے ہوئے تھے درندے جو بد سرشت بیٹھے ہیں آج سادھوؤں کا روپ دھار کے
وقف الم ہے ان کا ہر اک لمحہ حیات خطرات جن کے دل میں ہیں روز شمار کے
جن کی غذائے روح تھی احساس اقتدار کیسےسکوں اُنہیں ہو بجز اقتدار کے
آتی نہیں صدا بھی کوئی اُن کی قبر سے رکھاتھا جن کو خانہ دل میں اُتار کے
مٹ جائے گا تو صفحہ ہستی سے اس طرح آثار بھی رہیں گے نہ تیرےمزار کے
عاجز زمیں کی گود میں جانا ہے ایک دن پشت زمیں پہ چل نہ تو سینہ ابھار کے