محفلِ میلاد

کتاب و سنت کی روشنی میں

سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز حفظہ اللہ ۔ سعودی عرب کے ایک متبحر عالم دین ہیں۔ دیگر اداروں کے علاوہ آپ ادارہ فتویٰ سازی کے رئیس عام او رنگران اعلیٰ ہیں۔ آپ کے اکثر فتاوے عرب رسالوں اور اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ گزشتہ سال عربی کے ایک اخبار ''عکاز'' عدد نمبر 3560 بروز ہفتہ موافق 28؍2۔1396ھ میں ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ ماہ ربیع الاوّل کا چاند دیکھنے کے بعد اتوار کے روز عالم اسلام ایک مجلس منعقد کرےگا۔ اسسلسلہ میں ادارہ فتویٰ سازی کی جانب سے ایک بیان نشر کیاجائے گا تاکہ حضور اکرمﷺ کے میلاد کے سلسلہ میں عالم اسلام میں محفلیں منعقد کرانے کے لیے ایک وقت معین کیا جائے۔

یہ خبر پڑھ کر آپ نے اس عدم جواز اور بدعت ہونے پر ایک مدلل اور مبسوط فتویٰ صادر کیا۔ آپ کا یہ فتویٰ ''اخبار العالم الاسلامی'' عدد نمبر 470 بروز سوموار موافق 22؍3؍1396ھ کو شائع ہوا تھا۔ اب چونکہ محفل میلاد کی بدعت جاری ہے او ر12 ربیع الاوّل کو حکومت کی سرپرستی میں دھوم دھام سےمنائی گئی..... اس لیے اس فتویٰ کا اُردو ترجمہ پیش خدمت ہے جوہر مسلمان کے لیے جو اللہ تعالیٰ او راس کے رسولؐ کی اطاعت کو ہرامر سےمقدم تصور کرتا ہے، ہدایت او ررہنمائی کا باعث ہے۔ ولقد یسرنا اقلرآن للذکر فھل من مدکر۔ (سیف الرحمٰن الراجی)

الحمدللہ وحدہ والصلوٰة والسلام علی من لا نبي بعدہ۔ أما بعد ۔

آنحضرت ﷺ کے یوم ولادت کے دن اجتماع کرنا یا کوئی دیگر ایسا کام کرنا منع ہے ۔ اس لیےکہ دین (اسلام ) میں یہ ایک نئی بدعت ایجاد کیگئی ہے۔ یہ کام آنحضرتﷺ اور آپؐ کے خلفائے راشدین میں سے کسی نے نہیں کیا۔ اسی طرح دیگرصحابہؓ او رتابعین کے زمانہ میں بھی کسی نے یہ کام نہیں کیا حالانکہ یہ لوگ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت مبارک کو (بعد میں آنے والے) لوگوں سے زیادہ جانتے تھے اور آپؐ سے ان کی محبت بھی انتہائی درجہ کی تھی او رآپؐ کی پیروی کرنے میں سب سے پیش پیش تھے۔

رسول اکرمﷺ نےفرمایا ہے۔ من أحدث في أمرنا ھذا مالیس منه فھورد (بخاری و مسلم)

''یعنی جو شخص ہماری شریعت میں ایسا کام جاری کرتاہے جو شریعت میں نہیں ہے تو ایسا کام ناقابل قبول ہے۔ ''

ایک اور حدیث میں فرمایا:

علیکم بسنتي و سنة الخلفاء الراشدین المھدیین من بعدي تمسکوا بھا  عضوا علیھا بالنواجد وإیاکم و محدثات الأمور فإن کل محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة (احمد۔ ابوداؤد۔ ترمذی۔ ابن ماجہ)

''یعنی میرےدنیا سے انتقال فرمانے کے بعد میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کا التزام کرو اور سختی سےسنت کے پابند رہو اور (دین میں) نئے نئے امور ایجاد کرنے سے بچو کیونکہ (دین اسلام میں)نیا کام ایجاد کرنا بدعت ہے او رہر بدعت گمراہی ( کاباعث ) ہے۔''

تو مذکورہ دونوں حدیثوں میں بدعت ایجاد کرنے او راس پر عمل کرنے سے سختی سے روکا گیا ہے او راللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں ارشاد فرمایا ہے۔ وما اتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا (الحشر) ''جو (حکم) تم کو رسول اکرمﷺ ارشاد فرمائیں اس پر عمل کرو اور جس (کام) سے منع فرمائیں اس سےباز آجاؤ۔''

نیز اللہ تعالیٰ نےفرمایا: ﴿فَليَحذَرِ‌ الَّذينَ يُخالِفونَ عَن أَمرِ‌هِ أَن تُصيبَهُم فِتنَةٌ أَو يُصيبَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿٦٣﴾... سورة النور

یعنی جو لوگ آنحضرتﷺ کے حکم کے خلاف ورزی کرتے ہیں، انہیں ڈرنا چاہیے کہ مبادا وہ فتنہ اور آزمائش میں مبتلا ہوجائیں یا دردناک عذاب انہیں گھیرلے۔

مزید برآں فرمایا:

﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَر‌جُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ‌ وَذَكَرَ‌ اللَّهَ كَثيرً‌ا ﴿٢١﴾... سورة الاحزاب

''تمہارے لیے اللہ کے رسولؐ ایک بہترین نمونہ ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ( سےملنے) او رآخرت کے دن (کےواقع ہونے) پر ایمان رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کوبہت یاد کرتا ہے ۔''

ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿وَالسّـٰبِقونَ الأَوَّلونَ مِنَ المُهـٰجِر‌ينَ وَالأَنصارِ‌ وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـٰنٍ رَ‌ضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَ‌ضوا عَنهُ وَأَعَدَّ لَهُم جَنّـٰتٍ تَجر‌ى تَحتَهَا الأَنهـٰرُ‌ خـٰلِدينَ فيها أَبَدًا ۚ ذ‌ٰلِكَ الفَوزُ العَظيمُ ﴿١٠٠﴾... سورة التوبة

''مہاجرین او رانصار میں سے سب سے پہلے (ایمان لانے والے) اور وہ لوگ جنہوں نے ان کی اچھی طرح پیروی کی۔ اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہوا اور وہ اللہ تعالیٰ پر راضی ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے یے ایسے باغات تیارکررکھے ہیں جن میں (دودھ ، شہد اور شربت کی)نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ اس میں ہمیشہ کے لیے رہیں گے بڑی کامیاب تو یہی ہے۔''

ایک او رمقام پر ارشاد خداوندی ہے:

﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...٣﴾... سورة المائدة

''آج میں نے تمہارےلیے تمہارا دین (اسلام) مکمل کردیا اور اپنی نعمت (قرآن پاک) کو بھی تم پر پورا کردیا او رتمہارے لیے دین اسلام کاانتخاب کیا۔''

اس موضوع پر (قرآن پاک میں) کافی آیات مذکور ہیں۔ اس قسم کی محفل میلاد منعقد کرانے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے دین کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا بلکہ نامکمل اور تشنہ تکمیل چھوڑ دیا اور آنحضرت ﷺ نے جس بات کی امت کو تبلیغ کرنا تھی تاکہ وہ اس پر عمل کریں، اس سے وہ قاصر رہے۔ حتیٰ کہ یہ لوگ جو سب سے متاخرین ہیں، آئے تو انہوں نے شریعت الٰہی میں ایسی ایسی نئی باتیں ایجاد کیں جن کی اللہ تعالیٰ نے انہیں اجازت نہیں دی تھی بلکہ اپنی طرف سے من گھڑت بنائیں۔ ان کاگمان تھا کہ یہ امور (بدعات) قرب الہٰی کا ذریعہ ہیں۔ حالانکہ اس میں ایک عظیم خطرہ ہے او راللہ اور اس کے رسول (حضرت محمدﷺ) پراعتراض وارد ہوتا ہے (کہ انہوں نے دین کو تشنہ تکمیل چھوڑ دیا) حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے دین کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا او راپنی نعمت (قرآن کریم) کو مکمل کردیا۔

اور رسول اکرمﷺ نے تبلیغ میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا او رجنت میں لے جانے والے او رنار جہنم سے بچانے والے ہر عمل سے اپنی امت کو مطلع کیا۔ جس طرح کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ آنحضتﷺ نے فرمایا:« ما بعث اللہ من نبي کان حقا علیه أن یدل أمته علی خیر ما یعلم لھم و ینذرھم شرما یعلم لھم» (مسلم )

''یعنی ہرنبی جو اللہ کی طرف سے مبعوث ہوکر آیا اس کے ذمے یہ بات واجب تھی کہ اپنی امت کو اس بھلائی اور نیکی کی خبر دے جو ان کے حق میں وہ جانتا ہو اور انہیں ہر اس بُرائی سے ڈرائے جو وہ جانتا ہو۔''

او ریہ بات معلوم ہے کہ ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺ سب نبیوں سے افضل ہیں۔ او رسب سے آخر میں آپؐ کی تشریف آوری ہوئی ہے۔ آپؐ نےسب نبیوں سے زیادہ تبلیغی کام کیا اور خیر خواہی کی ہے۔اگرمحفل میلاد منعقد کرانا کوئی دینی امور میں سے ہوتا جواللہ کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہوتا تو رسول اکرمﷺ اپنی امت کے لیے اس کے متعلق ضرور کوئی حکم فرماتے یا اپنی مبارک زندگی میں خود یہ کام سرانجام دیتے۔ یا پھر آپؐ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسے کرے ۔ جب مذکورہ بالا قابل تکریم ہستیوں میں سے کسی نے یہ کا م نہیں کیا ( او رنہ ہی کرنے کا حکم دیا) تو معلوم ہواکہ یہ کوئی اسلامی امر نہیں ہے بلکہ ان بدعات میں سے ہے جن سے آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو ڈرایا تھا او ربچنے کی تاکید فرمائی تھی۔ جس طرح مذکورہ بالا دو حدیثوں میں گذر چکا ہے اسی طرح اس مفہوم کی کئی اور حدیثیں مذکور ہیں جیسا کہ خطبہ جمعۃ المبارک میں آپ ﷺکا ارشاد گرامی ہے:

«أما بعد فإن خیرالحدیث کتاب اللہ و خیر الھدیٰ محمد صلی اللہ علیه وآله وسلم و شرالأمور محدثاتھا وکل بدعة ضلالة» (مسلم )

''اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد سب سے بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے او رسب طریقوں سے افضل طریقہ حضرت محمد ﷺ کا ہے او رسب سے بُرے کام (دین میں)نئے نئے امور ہیں او رہر بدعت (دین میں نیا کام) گمراہی ہے۔''

قرآن کریم کی آیات او راحادیث نبوی اس معاملہ میں کثرت سے وارد ہیں۔ علماء کی ایک جماعت محفل میلاد منعقد کرانے کو گناہ تصور کرتی ہے اور اس سے بچنے کی تلقین کرتی ہے۔ انہوں نے مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا ہے (او ران کا یہ فیصلہ کتاب و سنت کی روشنی میں درست اور صحیح ہے) متاخرین میں سے کچھ لوگوں نے ان کی مخالفت کی ہے او راس (محفل میلاد منعقد کرانے ) کوجائز قرار دیا ہے بشرطیکہ منکرات سے محفوظ ہو(یعنی اس میں کوئی گناہ کا ارتکاب نہہو) جیسا کہ آنحضرتﷺ کی شان میں غلو سے کام لینا (یعنی حضور اکرمﷺ میں صفات الہٰی کا عقیدہ رکھنا وغیرہ) غیر محرم مردوں اور عورتوں کا یکجا اکٹھے ہونا اور گانے بجانے اور لہو و لعب کے آلات استعمال کرنا وغیرہ جن باتوں کو شریعت نے منکرات میں شمار کیاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بدعت حسنہ ہے (جس کے کرنے سے ثواب ہوتا ہے)

اب ایسی صوت میں جب کہ لوگوں کا آپس میں کسی شرعی معاملہ میں نزاع او رجھگڑا پیدا ہوجائے تو شرعی قاعدہ یہ ہے کہ ایسی صو رت میں اللہ کی کتاب کو اور آنحضرت ﷺ کی سنت کو فیصل او رحاکم ٹھہرایا جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ وَأُولِى الأَمرِ‌ مِنكُم ۖ فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُ‌دّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّ‌سولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ ۚ ذ‌ٰلِكَ خَيرٌ‌ وَأَحسَنُ تَأويلًا ﴿٥٩﴾... سورة النساء

''اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ او راس کے رسول کی تابعداری کرو اور اپنے (مسلمان) حاکموں کی بھی اطاعت کرو۔ اگر کسی معاملہ میں تمہارا (اپنے حاکموں سے ) اختلاف پیدا ہوجائے (تو ایسی صورت میں) اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اپنا نزاع کا معاملہ اللہ اور رسول (حضرت محمد ﷺ) کے پاس لے جاؤ (تاکہ وہ تمہارے نزاع کو ختم کردیں)یہ بہت اچھی بات ہے او راس کا انجام بھی اچھا ہے۔''

چنانچہ ہم نے اس مسئلہ (محفل میلاد منعقد کرانے) کو اللہ کی کتاب کی طرف فیصلہ کے لیے لوٹا دیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ اس کا فیصلہ یہ ہے کہ ہم رسول اکرمﷺ کی پیروی کریں، ان امور میں جو آپؐ نے ارشاد فرمائے او رجن امور سے آپؐ نے منع فرمایا ہے ان سےباز آئیں۔ او رہمیں خبر دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یقیناً اس امت کے لیے دین کی تکمیل کردی۔ او ریہ احتفال (مجلس میلاد) ایسا کام نہیں جسے آنحضرت ﷺ لے کر آئے ہوں (تو اسی کا نتیجہ یہ ہوا)کہ یہ (محفل میلاد) اس دین (اسلام) سے نہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مکمل کردیا ہے او رہمیں رسول اکرمﷺ کی اتباع کا حکم فرمایا ہے۔ پھر ہم نے اس (مسئلہ) کو سنت رسولؐ کی طرف لوٹایا تو اس میں بھی اس کاوجود نہ پایا یعنی نہ تو آپؐ نے یہ کام خود کیا اور نہ ہی اس کا حکم فرمایا۔پھر آپؐ کے صحابہ کرامؓ نے بھی نہیں کیاتو اس سےمعلوم ہوا کہ یہ کام (امور) دین سے نہیں بلکہ نئی ایجاد کردہ بدعات میں سے ہے او ریہود و نصاریٰ کی عیدوں کی طرح ان سےتشبہ ہے۔ اب جو شخص معمولی سی بصیرت رکھتا ہو او رحق و انصاف کا متلاشی ہو تو اس کے لیے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محفل میلاد دین اسلام کا کوئی امر نہیں ہے بلکہ نئی ایجاد کردہ بدعات میں سے ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ او راس کے رسولؐ نے ترک کرنےاو ران سے بچنے کا حکم فرمایا ہے او رایک صاحب خرد شخص کو یہ لائق نہیں کہ وہ اس بات سے دھوکہ کھا جائے کہ تمام ممالک میں لوگ اسے کثرت سے کرتے ہیں کیونکہ حق کو کثرت کے پیمانے سے نہیں ناپا جاتا بلکہ شرعی دلائل کی کسوٹی سے حق و باطل میں امتیاز کیا جاتاہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے یہود اور نصاریٰ کے متعلق فرمایا:

﴿وَقالوا لَن يَدخُلَ الجَنَّةَ إِلّا مَن كانَ هودًا أَو نَصـٰر‌ىٰ ۗ تِلكَ أَمانِيُّهُم ۗ قُل هاتوا بُر‌هـٰنَكُم إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ﴿١١١﴾... سورة البقرة

''اور انہوں (یہود اور نصاریٰ) نے کہاکہ ہمارے سوا جنت میں کوئی داخل نہیں ہوگا (حالانکہ) یہ ان کی اپنا تمنائیں ہیں (اس دعویٰ کےمتعلق ان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت محمد ﷺ سے فرمایا) آپ ان (یہود و نصاریٰ)کو کہہ دیجئے کہ اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو تو کوئی دلیل پیش کرو۔''

نیز یہ بھی فرمایا:﴿وَإِن تُطِع أَكثَرَ‌ مَن فِى الأَر‌ضِ يُضِلّوكَ عَن سَبيلِ اللَّهِ...١١٦﴾... سورةالانعام

''یعنی اگر آپ نے زمین میں اکثریت والےگروہ کی پیروی کی تو آپ کو اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے۔''

پھر یہ محفل میلاد بدعت ہونے کےساتھ ساتھ او رکئی بُرائیوں کو جنم دیتی ہے جیسا کہ مرد اور عورتوں کا یکجا اکٹھے ہونا او رگانے بجانے کےآلات کا استعمال کرنا او رنشہ آور اور محذرات اشیاء کا استعمال کرنا اور اعتقاد رکھنا کہ آنحضرتﷺ غیب دین ہیں۔ مزید برآں اس میں ایسے ایسے کام کیے جاتے ہیں جو سراسر شرک ہوتے ہیں۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ آنحضرتﷺ کی شان میں غلو سے کام لیا جاتاہے ۔ اسی طرح دیگر اولیاءے کرام کی شان میں حد سے تجاوز کیا جاتا ہے اور ان سے دعائیں مانگی جاتی ہیں او رمدد طلب کی جاتی ہے اور یہ عقیدہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ غیب دان ہیں اور اس جیسے دیگر امور جو کفر ہیں اکثر لوگ کرتے ہیں۔ جب محفل میلاد منعقد ہوتی ہے تو دیگر بزرگوں کے عرس کے موقع پر یہ لوگ کفر و شرک کے کام سے باز نہیں آتے۔ حالانکہ آنحضرتﷺ کی صحیح حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا: «إیاکم والغلو في الدین فإنما أھلك من کان قبلکم الغلو في الدین (....؟) ''یعنی دین کے معاملہ میں غلو سے مت کام لو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو او رمبالغہ آمیزی نے ہلاک کردیا۔''

نیز آنحضرتﷺ کا ارشاد گرامی ہے:« لا تطروني کما أطرت النصاریٰ ابن مریم إنما أنا عبد فقولوا عبداللہ و رسوله» (بخاری) ''میری شان میں مبالغہ مت کرو جس طرح عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ بن مریم علیہم السلام کی شان میں غلو او رمبالعہ سے کام لیا ۔ میں تو ایک بندہ ہوں مجھے اللہ کا بندہ اور اس کارسول کہو۔''

یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے کہ اکثر لوگ ایسے اجتماعات میں حاضری کو لازم قرار دیتے ہیں اور وہاں پر حاضر ہونے کے لیے ایڑی چوٹی کازور لگاتے ہیں۔حالانکہ یہ کام بدعت ہے او راس بدعت کےمتعلق جو علماء اعتراض کرتے ہیں اور ناجائز تصور کرتے ہیں تو اس کی مدافعت کی خاطر انہیں طرح طرح کے من گھڑت جوابات دیئے جاتے ہیں او رجن امور کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے یعنی جمعہ اور جماعت میں شامل نہیں ہوتے۔ اس فرض کی ادائیگی کی خاطر معمولی سی تگ و دو بھی نہیں کرتے اورنہ ہی جمعہ جماعت میں عدم شمولیت کو کوئی گناہ تصور کرتے ہیں یہ ان کےضعف ایمان اور قلت بصیرت کی نشانی ہے۔نیز گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سےقلب کے کثرت سے زنگ الود ہونے کی علامت ہے ہم اللہ تعالیٰ سےاس سے بچاؤ کا اپنے لیے اور تمام مسلمانوں کےلیے سوال کرتے ہیں۔

بعض لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ محفل میلاد میں تشریفلائے ہیں۔ اس لیے تمام لوگ آپؐ کے احترام میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور آپؐ کا استقبال کرتے ہیں۔ یہ بات بالکل غلط اور بے بنیاد ہے اور انتہائی جہالت ہے۔ کیونکہ آنحضرتﷺ قیامت سے پیشتر اپنے روضہ اطہر سےباہر تشریف نہیں لائیں گے او رنہ ہی کسی سے ملاقات کریں گے۔اسی طرح آپؐ میلاد کی مجالس میں تشریف نہیں لائیں گے بلکہ آپؐ اپنی قبر مبارک میں آرام فرما ہیں اور آپؐ کا روح اطہر اللہ تعالیٰ کے پاس کرامت اور عزت کے مقام پر علیین میں اعلیٰ مقام پر آرام فرما ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ مومنون میں بیان فرمایا ہے:

﴿ثُمَّ إِنَّكُم بَعدَ ذ‌ٰلِكَ لَمَيِّتونَ ﴿١٥﴾ ثُمَّ إِنَّكُم يَومَ القِيـٰمَةِ تُبعَثونَ ﴿١٦﴾... سورة المؤمنون ''یعنی پھر تم اس (دنیاوی زندگی) کے بعد مرجاؤ گے پھر قیامت کے روز (قبروں سے) اٹھائے جاؤگے۔''

نیز آنحضرتﷺ نے فرمایا: «أنا أول من ینشق عنه القبر یوم القیامة و أنا أول شافع و أول مشفع» (....؟)

''قیامت کے روز سب سے پہلے میں قبر سے اٹھوں گا او رسب سے پہلے (اپنی امت کی) شفاعت کروں گا او رسب سے پہلے (اللہ تعالیٰ)میری شفاعت کو منظور فرمائے گا۔''

یہ آیت شریفہ اور حدیث شریف اور دیگر آیات اور احادیث نبویہ جو اس مفہوم کی ہیں تمام اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اکرمﷺ اور دیگر لوگ جو ملک عدم میں جاچکے ہیں سب قیامت کے روز اپنی اپنی قبروں سے اٹھیں گے ۔ اس مسئلے میں تمام علماء متفق ہیں کسی نے اس میں اختلاف نہیں کیا۔ تو ہرمسلمان کو چاہیے کہ ان کی بدعات سے آگاہ ہوجائے او رجہلا کے گروہ نےجو جو بدعات اور خرافات جاری کی ہوئی ہیں ان سے بچے او رپرہیز کرے ۔ یہ بدعات اور خرافات ایسی ہیں کہ ان کےمتعلق اللہ عزوجل نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ واللہ المستعان و علیه التکلان ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ۔

ہاں البتہ آپؐ پر صلوٰۃ اور سلام بھیجنا ، تو یہ سب سے افضل اور اعلیٰ ہے۔ یہ آپؐ کے قرب کا سبب ہے اور نیک اعمال میں سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلـٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ ۚ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا ﴿٥٦﴾... سورة الاحزاب

''اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبیﷺ پر درود بھیجتے ہیں تو اے ایمانوالو! تم بھی آپؐ پر درود و سلام بھیجو۔''

نیز آنحضرتﷺ کی حدیث ہے: «من صلی علي واحدة صلی اللہ علیه بھا عشرا» (....؟) ''جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو ایسے شخص پراس درود کے بدلے اللہ عزوجل دس مرتبہ درود بھیجتا ہے۔''

یہ درود وسلام تمام اوقات میں پڑھنا جائز ہے اور نماز کے آخر میں اس کی تاکید ہے بلکہ اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ آخری تشہد میں اس کا پڑھنا ضروری ہے (یعنی اس کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی) او رمتعدد مقامات پر سنت مؤکدہ ہے۔ ان میں سے ایک موقع اذان ہونے کے بعد کا ہے۔ اسی طرح جب آپؐ کا نام نامی اور اسم گرامی کا ذکر آئے او رجمعہ او رجمعہ کی رات اس کا پڑھنا سنت ہے جیساکہ کثرت سے حدیثیں اس پر دلالت کرتی ہیں۔

ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سوال کرتے ہیں کہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو اپنے دین کے سمجھنے کی توفیق بخشے اور اس (دین) پر ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشے اور تمام مسلمانوں پر احسان فرمائے کہ وہ سنت نبوی کی سختی سے پابندی کریں او ربدعت سے پرہیز کریں۔ انه جواد کریم وصلی اللہ علی نبینا محمد وآله وسلم و صحابه۔
حوالہ جات

ترغیب جلد اوّل ص83

مشکوٰۃ المصابیح جلد اوّل ص30

ترغیب جلد اوّل ص83

ترغیب جلد اوّل ص83