اُمّت کا تعلق ولادت سے نہیں، بعثت سے ہوتا ہے!

﴿لَقَد جاءَكُم رَ‌سولٌ مِن أَنفُسِكُم عَزيزٌ عَلَيهِ ما عَنِتُّم حَر‌يصٌ عَلَيكُم بِالمُؤمِنينَ رَ‌ءوفٌ رَ‌حيمٌ ﴿١٢٨﴾... سورة التوبة

''(لوگو!) تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آئے ہیں، تمہارے تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے اور ان کوتمہاری بہبود کاہوکا ہے (اور) وہ مسلمانوں پرنہایت درجے شفیق (اور)مہربان ہے۔''

امتوں کو واسطہ اور تعلق ہمیشہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ السلام کی بعثت سے ہوتا ہے ان کی ولادت سے نہیں ہوتا۔ کیونکہ مبعوث کی بعثت ایک پیام، اسوۃ تبین او راراء ۃ الطریق ہوتی ہے، کسی مولود کی ولادت میں یہ باتیں نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی بعثت کا احسان تو جتایا ہے ، ان کی ولادت کا نہیں۔

﴿لَقَد مَنَّ اللَّهُ عَلَى المُؤمِنينَ إِذ بَعَثَ فيهِم رَ‌سولًا مِن أَنفُسِهِم...١٦٤﴾ ... سورة آل عمران

''یعنی اللہ نے مسلمانوں پر(بڑا ہی) فضل کیا کہ ان ہی میں کا ایک رسول بھیجا۔''

﴿هُوَ الَّذى بَعَثَ فِى الأُمِّيّـۧنَ رَ‌سولًا مِنهُم...٢﴾... سورة الجمعة

''وہ(خدا)ہی تو ہے جن نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا۔''

کیونکہ اصل مقصود تعلیم، تزکیہ ، طہارت او رحکمت کا اتمام ہوتا ہے، اور اس کا تعلق براہ راست بعثت سے ہوتا ہے، ولادت سےنہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی بعثت سے انہی مقاصد کا اتمام بتایا ہے۔

﴿يَتلوا عَلَيهِم ءايـٰتِهِ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ...٢﴾... سورة الجمعة

''جو اُن کو (اللہ کی ) آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے، او ران کا تزکیہ کرتے او ران کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔''

آپ جانتے ہیں کہ ان امور کاتعلق براہ راست مولود اور اس کی ولادت سے نہیں ہوتا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ دل میں خیال آئے کہ مبعوث کی ولادت نہ ہوتی تو بعثت کی نوبت کیسے آتی؟ یہ بجا ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ پھر اس کو شروع سے کیوں نہ شروع کیاجائے؟ اگر حضرت آدم علیہ السلام نہ ہوتے تو آپؐ کا ظہور کیسے ہوتا۔ پھر آپؐ کے آباؤ اجداد نہ آتے تو آپؐ کی تشریف آوری کیونکر ہوتی؟ اگر ولادت کی بھی کوئی شرعی حیثیت ہوتی تو آپؐ کی شیرخوارگی کا دور بھی احکام دینیہ کا ماخذ ضرور قرار دیا جاتا۔ انبیاء کرام علیہم السلام خود بھی ''یوم میلاد'' کا اہتمام کرتے، ان کے صحابہؓ او ردوسرے صلحاء بھی اس کی مشعلیں ضرور روشن فرماتے۔ کیونکہ عشاق بھی تھے او رباذوق بھی۔ حساس بھی تھے او راسلام و ایمان کےتقاضوں اور دواعی سے باخبر بھی۔ ورنہ خاکم بدہن یہی کہنا پڑے گا کہ وہ رواہ و رسم سے بے خبر رہے جس کو بعد میںکچھ لوگوں نے''دریافت'' کرلیا۔

ہمارے نزدیک''یوم میلاد'' جیسی تقریب کی ایجاد، حجازی ذوق کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عجمی رسم ہے جو ان لوگوں کی پردہ دار تو ہوسکتی ہے جن کے ترکش حیات قابل مثال اقدار سے خالی ہوتے ہیں اور وہ اب چاہتے ہیں کہ ان کے دور ذمہ داری کا مطالعہ چھوڑ دیں، چنانچہ انہوں نے لوگوں کے سامنے اپنے دور بچپن کو پیش کرنے کے لیے ''سالگروہ'' کی طرح ڈالی، کیونکہ وہ معصوم او رپیارا دور ہوتا ہے ان کی بچپن کی کہانی سے لوگوں کےذوق کامزہ بھی کچھ بدل جاتا ہے اور یاروں اور قدح خواروں کی قصیدہ خوانیوں سے اپنی خود نمائی کے لیے ایک تقریب بھی مہیا ہوجاتی ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ جو لوگ اپنی ذات کی حد تک اپنے حیوانی دائروں میں ہر طرح سے سیر ہورہتے ہیں، وہ اپنے بچپن کے البیلے دور کو یاد کرکے پھر سے تازہ دم ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور زندگی کی مسرفانہ بےتابیوں کی تسکین کے لیے ایک نیادور عیش ڈھونڈ لانے کے لیے ایک حیلہ کرتے ہیں۔ظاہر ہے کہ نبی کریمﷺ کی مطہر اور مقدس زندگی ان تکلفات سے بالا اور ان کی حیات طیبہ کا خاکہ زندگی ان جعلی رنگ آمیزیوں کابالکل محتاج نہیں تھا۔ پھر خدا جانے یہ عجمی عشاق حضورﷺ کی مبارک زندگی کو ان تکلفات کے مارے لوگوں کی راہ پر ڈال کر، آپؐ کی کسر شان کے سامان کیوں کررہے ہیں؟ گو اب سالگرہ نے مزید ترقی کی ہے، لیکن یقین کیجئے! وہ پیام اور اسوہ سےخالی رہتی ہے۔

ہمارے نزدیک ''یوم بعثت'' کے بجائے ''یوم ولادت'' پر اصرار ایک عجمی سازش کانتیجہ ہے کہ دنیا ''دور پیامی'' کے مطالعہ کا اہتمام کرکے کہیں پھنس نہ جائے، اس لیے ان کی یہ کوشش ہے کہ حضورؐ کی ولادت کی کوئی تقریب تخلیق کرلی جائے تاکہ معاملہ کام و دہن یا شعر و سخن کی حد تک محدود رہے۔اس سے آگے نہ بڑھنے پائے ورنہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔

یہ ایک عجیب واقعہ ہے کہ یوم میلاد کے مناتے ہوئے لوگ رحمۃ للعالمین ﷺ کے عہد طفولیت تک بھی محدود نہیں رہتے بلکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کےپورے سراپا کو پیش کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ حالانکہ بات حضورؐ کے ظہور کی تھی، یوم مبعوث کی نہیں تھی۔ اگر یوم میلاد منانابھی ہے تو پھر اپنی اولاد کے لیے اس سے اسباق مرتب کیے جائیں اور ان کو اس رنگ میں رنگ کر ''محمدیت'' علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام تک پہنچنےکے لیے ایک اساس ان کومہیا کردی جائے تاکہ اس طرح وہ امت مسلمہ مشہود کی جاسکے جس کو وجود میں لانے کے لیے پیغمبر خدا نے اپنی تمام پیغمبرانہ کوششیں صرف کرڈالیں۔

یہ یوم ولادت عجمی سالگرہ کا چربہ ہیں، جوصرف ان لوگوں کی تخلیق ہیں جو پیغمبر خدا ﷺ کے علم و عمل کو اپنانا کا تو حوصلہ نہیں رکھتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ ان کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کرکے سرخرو ہولیں۔ بالفاظ دیگر یہ کہ:خدا او راس کے رسولؐ کو فریب دینا چاہتے ہیں۔ یخادعون الله والذين امنوا

ہم نے دیکھا ہے کہ جو افراد اور طبقے زبانی کلامی خراج عقیدت پیش کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں وہی لوگ ''مسنون علم و عمل'' کے لحاظ سے سب سےزیادہ تہی دامن ہوتے ہیں کیونکہ وہ دل کی بھڑاس نکال کر دل کا بوجھ ہلکا کرلیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ایک سال اب پاس ہوجائے گا، خدا اور اس کے رسولؐ سے دور بھی زندگی گزری تو خیرسلاّ ہے،اگلے سال ''عید میلاد'' اور ''یوم ماتم'' منا کر پھر سے دور کی مسافیں دور کرلیں گے۔ جولوگ ''عید میلاد'' کے جلوس کی رونق کی دوبالا کرتے ہیں، وہی لوگ عموماً ''ننگ نبی'' ہوتے ہیں۔ منہ پر ڈاڑھی نہیں، بلکہ ڈاڑھی دیکھ کر ان کے تیور بدل جاتے ہیں ، نماز کے نزدیک وہ نہیں جاتے،حقہ سگریٹ کا شوق وہ فرما لیتے ہیں،فلم او رسینما کی دنیا ان کےدم قدم سے آباد ہوتی ہے۔ رسولؐ کی نعت گا کر ، پھر ملکہ ترنم اور کسی گلوکارہ کے فلمی گیت گاتے اور منہ کا مزہ بدلتے ہیں۔ ان ظالموں نےمحمد رسول اللہﷺ جیسی پاک ہستی کی یاد یوں منائی ہے جیسے سیاسیئن سوء کو مناتے ہیں، اس جلوس میں وہ سب کچھ ہوتاہے جو دنیا داروں کی یاد اور سالگرہ مناتے وقت کرتے ہیں۔ ان کو ''عیدمیلاد'' اور ''جشن سیرت'' کا نظارہ کرنے کے بعد ایک بااصول سنجیدہ اور باذوق شخص بدمزہ ہوئے بغیرنہیں رہ سکتا۔ہمارے جلوس سیرت رسولؐ کی حیات طیبہ کے غماز نہیں ہوتے۔ حضرت رسول کریمﷺ اپنی ذات گرامی کے عجمی عید کا ہدف بننے سے جتنا ڈرتے تھے آپؐ کے وہ اندیشہ بالکل بجا او رحرف بہ حرف صحیح نکلے۔

«قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم .... ولا تجعلوا قبري عیدا» (رواہ أبوداود عن أبي هریرة و أبو یعلی المقدسي عن علي بن الحسین)

''حضورؐ نے فرمایا:کہ میری قبر کو عیدنہ بنا لینا۔''

اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ میری قبر پر سال بہ سال میلہ نہ لگایاکرنا، دوسرے یہ کہ میری وفات کے بعد میری عید نہ منایا کرنا۔ قبر پر میلہ یا عرس کرنے سے قبر کی پوجا کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں اور رسومات شرکیہ اور بدعیہ کے لیے راہ ہموار ہوتی ہے اورف آپؐ کی وفات کے بعد آپؐ کی عید منانے کا صورت میں ''عید میلاد'' ''عجمی سالگرہ'' اور دوسری سطحی یادیں اور قوالییں ہی ہوسکتی ہیں۔ یہ باتیں وہ ہیں کہ اگر کسی کو ضد سے ایمان پیاریا ہو تو آسانی سے سمجھ آسکتی ہے ۔ ورنہ خدا حافظ!