حدیث ِ نور کی تحقیق

محدث کے پچھلے کسی شمارہ میں راقم الحروف نے ''حدیث نور کی تحقیق'' کےسلسلے کے ایک استفتاء کے جواب میں کچھ گزارشات عرض کی تھیں، مندرجہ ذیل مضمون گویا کہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگر قارئین اس سے اُسے ملاکر پڑھیں گے تو مزید شرح صدر ہوگی۔ إن شاء اللہ

نور والی حدیث مقطوع السند ابتک نقل ہوتی آرہی ہے، اس لیے ہم ایک مسلم کی حیثیت سے اس کا مطالعہ کرنے کے مکلت نہیں ہیں، کیونکہ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ سنی سنائی باتوں کے پیچھے نہ پڑ جایا کہ کرو۔ أو کماقال (مسلم)

اگر یہ حدیث ثابت بھی ہوجائے تو بھی اس کے معنی وہ نہیں جو اوہام پرست طبقہ اپنے جذبات کی تسکین کے لیے گھڑنے کی کوشش کرتا ہے، یہاں نور اصل میں روشنی اور وضوح کے ایک ایسے درجہ اور کیفیت کا نام ہے، جس سے خدا کی مرضی، منشا،غصہ اور ناراضگی، حق اور باطل، مفر اور نافع، عذاب اور ثواب، دنیا اور آخرت میں عزت اور ژلت ، خیر اور شرکی دنیا کھل کر سامنے آجاتی ہے، اس لیے ایمان، قرآن، تورات،وحی، نبوت، رُشد و ہدایت جیسے تمام مکارم کو نور سے تعبیر کیاگیا ہے۔اگر معروف معنوں میں یہ نور ہوتے توآپ جانتے ہیں کہ پھر قرآن اور نبوت نے تو اس معنی میں ہم پر کوئی روشنی نہیں ڈالی اور جو دوسری ظاہری روشنی میسر ہے اس سے رشد و ہدایت کے پہچاننے میں کسی کو کوئی مدد نہیں ملی، بلکہ ہم نے دیکھا ہے کہ جن کے گھروں میں سب سے زیادہ یہ مادی روشنی ہوتی ہےبلکہ جن کے ایوان مادی روشنی کی وجہ سے بقعہ نور بنے ہوتے ہیں وہی ظلمات ، جہل، عمل کی تاریکی اور فسق و فجور اور کفر و رسومات کے اندھیروں کا سب سے بڑے نشیمن اور نشان بھی ہوتے ہیں۔ اقبال نے اسی حقیقت پر یوں روشنی ڈالی ہے۔

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا

زندگی شب تاریک سحر کر نہ سکا

اس لیے جولوگ نور نبوت کو ظاہری نور بنا کر حضورؐ سے ''انسانیت کبریٰ'' کامقام چھیننے میں مصروف ہیں، وہدراصل حضورؐ کے مقام و مرتبہ کو گرا رہے ہیں اور دشمنان دین کو انکار رسالت کی ایک بنیاد فراہم کررہے ہیں کہ جس پاک ہستی کو نوع انسان کی طرف مبعوث ہونا تھا، اس کے متعلق تو حضرت ابراہیم ، تورات ، انجیل اور قرآن حکیم نے یہاعلان کیا تھاکہ وہ نوعی طور پر ان کا ہم جنس ہوگا اور محمد عربی فداہ ابی وامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں مسلم مدعی ہیں کہ وہ انسان نہیں ہیں نور ہیں، اس لیے وہ ہماری مبعوث ہی نہیں ہوئے، لہٰذا ہم ان کاکلمہ پڑھنے کے پابند بھی نہیں ہیں، اس کے علاوہ مسلم حضورؐ کے سلسلے میں جن کمالات کا ذکر کرتے رہتے ہیں، ان میں بھی کوئی ندرت باقی نہیں رہے گی، کیونکہ بھوکے رہے تو ان کاکیا کمال، نور کو کب بھوک لگتی ہے، زخم کھائے تو دھوھ اور چاندنی پرکب کسی گولی نے اثر کیا ہے، رات بھر جاگے تو کیا ہوا، کب کوئی روشنی محو خواب نظر آتی ہے، رات دن اللہ اللہ کیا تو کیا کمال، فرشتے کب دم لیتے ہیں۔ الغرض جو بھی کمال بیان کیاجائے گا، وہ کمال کی بجائے پیغمبر خدا ﷺکا العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ الٹ ایک فراڈ بن جائے گا۔اس لیے جن نادان دوستوں نے ''نور'' دریافت کیا ہے، انہوں نے دراصل رسول پاک ﷺ کی عقیدت اور ارادتمندی کا کوئی حق ادا نہیں کیابلکہ ان کے سلسلے میں مزید ایسے مسائل پیدا کر ڈالے ہیں، جن کی وجہ سے پیغمبر خداﷺ کی ذات ہی موضوع بحث بن کر رہ گئی ہے۔اس لیےبہتر ہے کہ پیغمبر خدا کو سمجھنے کے لیے جاہلی پیمانوں سے کام لینے کے بجائے عقل و ہوش اور سنجیدگی سے کام لیاجائے، ایسی عقیدت کو بھاڑ میں ڈالیے جس کے ہاتھوں آپؐ کی ذات ہی شکوک و شبہات کا ہدف بن کر رہ جائے۔

(عزیز زبیدی)

الجواب:

أول ما خلق اللہ نوري (مصنف عبدالرزاق)

مصنف عبدالرزاق ہم نے شروع سے آخر تک خوب اچھی طرح دیکھی ہے اس میں اس قسم کاباب ہی نہیں ہےنہ یہ حدیث۔لہٰذا حواشی سب غلط ثابت ہوئے۔

صحیح حدیث یہ ہے: أول ما خلق اللہ القلم

1۔ ترمذی کتاب 44 ب68 2۔ ابوداود کتاب 39 ب16

3۔ مسند زید بن علی جلد7ص97 4۔ مسندامام احمد بن حنبل جلد5 ص317

5۔ مسندابوداؤد طیالسی ح577 6۔ حلیۃ الاولیاء لابی نعیم جلد8 ص181

7۔ تاریخ بغداد جلد13 ص40 8۔ تاریخ طبری جلد اوّل ص17 مطبع حسنیہ بمصر

9۔ البدایہ والنہایہ لابن کثیر جلد اوّل ص8 10۔ تاریخ الکامل لابن الاثیر ج اوّل ص12

مؤرخ طبری نے ایک باب باندھا ہے۔ القول في ابتداء الخلق ما کان أوله

اس میں ایک حدیث حضرت عبادہ ؓبن الصامت سے قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال أول ما خلق اللہ القلم دوسری حدیث ابن عباس ؓ سے بھی ان ہی الفاظ کے ساتھ آتی ہے بلکہ حضرت ابن عباسؓ سے تو متعدد احادیث آئی ہیں۔

اس کےبعد لکھا ہے ذکرمن قال ذلك جو حدیث نہیں بلکہ محمد بن اسحاق کا قول ہے۔أول ماخلق اللہ عزوجل النور والظلمة ثم میز بینھما فجعل الظلمة لیلاً أسود مظلما وجعل النور نھارا مضیامبصرا ۔ محمد ابن اسحاق نےکہا:

یعنی سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نور اور ظلمت کو پیدا کیاتو نور سےمراد دن اور ظلمت سے مراد رات۔ مورخ طبری لکھتے ہیں۔ قال أبوجعفر و أولی القولین في ذلك عندي بالصواب قول ابن عباس للخبر الذي ذکرت عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم أنه قال أول شيء خلق اللہ القلم۔

(یعنی مورخ طبری کے نزدیک ان دونوں میں سے وہ حدیث صحیح ہے جو حضرت ابن عباسؓ نے رسول اللہ ﷺ سے نقل کی ہے کہ أوّل ما خلق اللہ القلم۔

شیعہ حضرات کا ایک رسالہ میرے پاس حدیث نور نامی ہے۔ جس میں متعدد روایات خلقت أنا وعلي من نور واحد۔

''یعنی میں اور علی ایک ہی نور سے پیدا کیےگئے ہیں۔''

کتاب الأمالي والحالس و عیون أخبار الرضا و کتاب الخصال از شیخ صدوق و بحار الأنوار ملا باقر مجلس و کتاب طبقات الأنوار۔

اس قسم کی روایات شیعہ حضرات کی کتابوں میں آئی ہیں جو ہمارے نزدیک معتبر نہیں ہیں۔ مولوی محمد عمر اچھروی اپنی کتاب مقیاس نور میں لکھتے ہیں ۔عبدالرزاق نہایت پایہ کا محدث ہے اس نے اسے درج کیا ہے حالانکہ ہم ابھی ثابت کر آئے ہیں کہ یہ حدیث مصنف عبدالرزاق میں قطعی نہیں ہے۔ آگےچل کر ایک اور فرضی دلیل دیتے ہیں کہ جبریل آنحضرتﷺ کو پہلے آسمان پرچھوڑ کر رُک گئے اور اس کے بعد آنحضرتﷺ تن تنہا سدرۃ المنتہیٰ کی طرف پرواز کرگئے۔ یہ آپؐ کے نور کے بین دلیل ہے۔

الجواب:روایت اچھروی صاحب نے کہاں سےلی؟ حدیث کی کسی کتاب میں نہیں آئی بلکہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ حضرت جبریل ہرجگہ آنحضرتﷺ کے ساتھ رہے اور جنت دوزخ ہر چیز آپؐ کو جبریل ہی نے دکھلائی بلکہ جبریل کو آپؐ نے اصل صورت میں دیکھا۔ چھ سو پروں سے ساراآسمان ڈھک گیا تھا۔ یہ اچھروی صاحب کا اللہ او راس کے رسولؐ پر افترا ہے جو کہ صحیح احادیث کو چھوڑ کر کسی شاعر کےقول کو پہلے باندھتے ہیں۔ احادیث صحیحہ کے مقابل روح البیان وغیرہ کا قولی قطعی معتبر نہیں ہوسکتا۔

اچھروی صاحب آگے چل کر مستدرک حاکم جلد2 ص614،615 کی ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو وحی بھیجی کہ اے عیسیٰؑ آنحضرتؐ پرایمان لا اگر اس کازمانہ نہ پالے تو اور تیری امت سےجو ملے اسے محمدﷺ پر ایمان لانے کا کہہ۔ اگر محمدﷺ نہ ہوتے تو جنت ہوتی نہ دوزخ ہوتا۔

علامہ ذہبی جن کی جلالت شان کا اعتراف مولانا احمد رضا خاں بھی کرتے ہیں اس حدیث کےمتعلق تلخیص المستدرک جلد2 ص615 میں لکھتے ہیں۔ قلت اظنہ موضوعا میں اسے موضوع (من گھڑت روایت) سمجھتا ہوں۔ اسی طرح دوسری حدیث مستدرک جلد2 ص615۔ جب حضرت آدم سے خطا سرزد ہوئی تو آدم نے کہا یا اللہ بحق محمدﷺ مجھ کو معاف کردے۔ اس حدیث کےمتعلق بھی علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ موضوع ہے۔

او رامام ابوحنیفہ اور ان کے دونوں شاگردوں کے نزدیک بحق نبی یا بحق رسول کہہ کر دعا مانگنا مکروہ بلکہ أقرب إلی الحرام ہے۔ملاحظہ ہو کتب فقہ حنفی۔

1۔ فتاویٰ عالمگیری جلد5 ص318 2۔ ہدایہ جلد 4 ص326 کتاب الکرامیہ

3۔ درمختار شرح وقایہ ص569 4۔ شرح فقہ اکبر للملاعلی قاری ص160


حاشیہ

ہم نے بھی مصنف عبدالرزاق کا مطالبہ کیا ہے ، کہیں نہیں ملی۔ہوسکتا ہے کہ ان کی کسی دوسری تصنیف میں ہو۔مثلاً تفسیرعبدالرزاق یا جامع عبدالرزاق وغیرہ لیکن ہم یہ دعویٰ تو نہیں کرسکتے کہ عبدالرزاق نے کہیں بھی اسے روایت نہیں کیا، سوال یہ ہےکہ اس کی سند کیا ہے؟ کیونکہ ان کی اسانید میں ہر قسم کے راویوں کی بھرمار ہے، خدا جانے وہ کیسی ہو؟ اگر صحیح بھی ہو تو جیسا کہ ہم نے نوٹ میں بتایا ہے، اس کے معنی وہ نہیں ہیں۔ (زبیدی)

قال القزویني:وإنما صح في الأخبار انتھاؤہ إلی سدرة المنتهی فحسب و أما إلی ماورائھا؟ فلم یصح و إنما ورد ذلك في أخبار ضعیفة أومنکرة لا یعرج (غایة المقال لعبد الحي) اس سے معلوم ہواکہ سدرۃ المنتہیٰ کے پرے جانے کی باتیں، قصہ خوانوں کے قصے ہیں، حدیث نہیں ہے۔ (زبیدی)