اللہ اور اُس کارسولؐ اور آپ کا بُرا چاہیں؟ غلط سمجھے ہو


یقول محمد بن قیس سمعت عائشة تقول ألاأحدثکم عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وعني قلنابلیٰ قالت لما کانت لیلتي انقلب فوضع نعلیه عند رجلیه ووضع ردآءہ و بسط اإزاره علی فراشه ولم یلبث إلاریثما ظن أني قد رقدت ثم انتعل رویدا وأخذ رداء ہ رویدا ثم فتح الباب رویدا و خرج وأجافه رویدا وجعلت درعي في رأسي فاختموت و تقنعت إزاري و انطلقت في أثرہ حتی جآء البقیع فوخع یدیہ ثلث مرات و أطال القیام ثم انحرف و انحرفت و أسرع فأسرعت فھرول فھرولت فأحضر فأحضرت و سبقته فدخلت ولیس إلا أن اضطجعت فدخل فقال مالك یا عائشة رابیة قال سلیمان حسبته قال حشیا قال لتخبرني أوليخبرني اللطیف الخبیر؟ قلت یارسول اللہ بأبي أنت و أمي فأخبربته الخبر قال أنت السواد الذي رأیت أما مي فلھزني لھزۃ أوجعتني قال:

أظننت أن یحیف اللہ علیك و رسوله، الحدیث (رواہ النسائي باب الغیرۃ ص2؍79)

خُدا کا رسولﷺ اور اس پر ظلم؟ اُف: محمد بن قیس فرماتے ہیں، میں نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو یہ کہتے سناکہ کیا میں تمہیں اپنا او رنبی کریمﷺ کا ایک واقعہ سناؤں؟ ہم نے کہا ہاں! (پھر بتایاکہ) میری باری کی ایک رات حضورﷺ (عشاء کی نماز سے) واپس تشریف لائے۔پھر اپنے دونوں جوتے اپنے دونوں پاؤں کے پاس رکھے اور اپنے بستر پر چادر بچھا کر اتنی دیررُکے کہ ان کو اندازہ ہوگیا کہ میں سوگئی ہوں۔ پھر آہستہ سے جوتا پہنا آہستہ سے چادر لی، آہستہ سےدورازہ کھول کر نکلے اور آہستہ سے اسے بند کیا، دوپٹے سےمنہ ڈھانپا اور اپنی چادر اوڑھ کر میں بھی آپؐ کے پیچھے ہولی یہاں تک کہ آپ جنت البقیع میں پہنچ گئے اور (دعا کے لیے) تین بار ہاتھ اٹھائے اور کافی دیر (دعا کے لیے) قیام فرمایا، پھر واپس ہوئے او رمیں بھی واپس ہوگئی، آپؐ جلدی جلدی چلے، میں بھی جلدیجلدی چلی، آپ ؐ اور تیز ہوگئے میں بھی اور تیز ہوگئی، اور آپ سے پہلے گھر میں داخل ہوکر لیٹ گئی، پھر آپؐ بھی آگئے اور کہا: اےعائشہؓ! سانس کیوں پھول رہا ہے، خود ہی بتاد و، ورنہ اللہ تو مجھے بتا ہیدے گا، میں نےکہا کہ: اے اللہ کےرسول، فداک ابی وامی، پھر میں نے ساراواقعہ سنا دیا۔ آپؐ نے (سن کر ) فرمایا:ہاں ہاں رات کالی کالی چیز سامنےجاتی ہوئی دکھائی دیتی تھی وہ تمہیں تھیں؟ پھر آپ نے میری چھاتی پر مکامارا جس سے مجھے دود بھی ہوا (اور)فرمایا:

کیاتو نے یہ گمان کیاکہ اللہ اور اس کے رسولؐ تجھ پر ظلم کریں گے؟ (ایں خیال است و محال است و جنوں!)

رسول اللہ ﷺ باری باری اپنی بیویوں کے ہاں قیام کیاکرتے تھے، جس دن جس کی باری ہوتی، اس رات ان کے ہاں ہی قیام فرماتے، جس رات حضرت صدیقہؓ کے ہاں قیام فرمایا، اس رات کو جو واقعہ پیش آیا، حضرت عائشہؓ نے اپنے شاگرد طلبہ کو وہ سنایا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عشاء کی نماز پڑھ کر واپس آئے تو اپنے کپڑے او رجوتے خاص حساب سے رکھے، کیونکہ خاص پروگرام ملحوظ تھا، جب اندازہ ہوگیا کہ صدیقہ گہری نیند سوگئی ہے، آہستہ سے اُٹھ کر بقیع کے معروف قبرستان میں تشریف لے گئے، وہاں دیر تک اللہ کے حضور گڑگڑا کر اس دیار کے باسیوں کے لیے دعائیں کیں، جب آپؐ فارغ ہوکر واپس آئے تو صدیقہؓ بھی واپس آگئیں مگر دوڑ دوڑ کر سانس پھو ل رہا تھا، پوچھا تو سب کچھ بتا دیا، اس پر آپؐ نے فرمایا: اے بھولی! تو نے یہ خیال کیاکہ تجھ سے ہم بے انصافی کریں گے؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔

واقعہ یہ ہےکہ : پیغمبرخداﷺ جو بھی احکام بتاتے ہیں وہ صرف خلق خدا کے لیےنہیں بتاتے کہ وہی کریں بلکہ خود بھی اس کی شدت سے پابندی کرتے ہیں۔ یہاں احکام کے سلسلے میں ''من وتو'' کا امتیاز بالکل محال ہے،کیونکہ احکام الہٰی کی تعمیل عبادت کہلاتی ہےجو اللہ کا پیغمبر ہوتا ہے، وہ سب سے زیادہ اللہ کا فرمانبردار ، عبادت گزار اور وفادار ہوتا ہے، خاص کر ان کا یہ پہلو کہ : اس سے یہ توقع بھی کی جاسکے کہ : وہ بندگان خدا کا استحصال کریں کریں گے، ان کا بُرا چاہیں گے یا اپنا مفاد سامنےرکھیں گے حد درجہ کی بدگمانی بھی ہے، اور رسول نافہمی کی بات بھی۔ العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ۔

دنیا میں جتنےدساتیر، قوانین اور زندگی کے لیےخاص طرز حیات ، تعامل اور نظام تشخص کیے گئے ہیں یاکہے جارہے ہیں، ان سب میں کوتاہ فہمی کابھی امکان رہتا ہے اور خود غرضی کا بھی ، بلکہ واقعہ ہےکہ ایسا ہورہا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پاک ﷺ کی بات ہی اور ہے، وہاں کوتاہ فہمی ، بے تدبیر اور خود غرض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ غور فرمائیں کہک: اگر آپ سے وہ پاکیزہ زندگی کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس سے خدا اور اس کے رسولؐ کو ذاتی حیثیت میں کوئی دلچسپی ہوسکتی ہے، اگر آپ سے کہتے ہیں کہ خدا کے حضورؐ نیاز مندی سے پیش آؤ ، تو خدایا اس کے رسولؐ کا اس کے بغیر کیا اٹکا ہوا ہے۔ آپ سے اگر وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ: آپ ابنائے جنس اور خلق خدا کے ساتھ فراخدلانہ معاملہ کیا کریں یا اس کی خوشنودی کے لیے بندگان خدا کی مدد کیا کریں تو آخر اس میں خدا او راس کے رسولؐ کے لیے کیا رکھا ہے؟ اسی طرح خدا سے وہ کون سے بات ہے جو پوشیدہ رہ جاتی ہے کہ اس کے پیش کردہ نظام اور احکام میں کسی قسم کی کمی، جھول یا کسر رہ جائے گی اور دنیاکولینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ جہاں خدا کے حضور نذرانہ پیش کرنے یا دینے کی جو بات ہے، وہ بھی دراصل خدا سے لینے کی ہی ایک سبیل ہے ورنہ ہمارا خدا ہمارے چند سجدوں ، تسبیح و تقدیس کے زبانی زمزموں اور خیرات کے چند ٹکوں کے انتظار میں نہیں ہے۔ نہ ہی اس کے بغیر اس کا کوئی کام رُکا پڑا ہے بلکہ وہ ان سب سے بے نیاز ہے۔

خدا در انتظار حمد مانیست ... محمدؐ چشم بر راہ ثنا نیست

خدا مدح آفرین مصطفیٰؐ بس ... محمدؐ حامدِ حمد خدابس

جو لوگ اپنے دور کے قائدین کی زندگی کی طرح پیغمبر خداﷺ کوبھی تصور کرتے ہیں، وہ اصل میں بہت بڑی زیادتی کرتے ہیں، یہ لوگ تو عموماً کھوٹے سکے ہیں جو بخت و اتفاق کی بات ہے کہ رائج ہوگئے ہیں، ورنہ یقین کیجئے! یہ ردی ہیں، ان کے بدلے میں مٹھی بھر مٹی بھی نہیں مل سکتی یہ تو زنجیریں ہیں، اکسیریں او رقوم کے لیے خوش آئند تقدیریں نہیں ہیں۔

پیغمبر خدا کامعاملہ ان سب سے جدا ہے اور بالکل جدا، چہ نسبت خاک رابا عالم پاک: امت سوتی ہے پیغمبر جاگتا ہے،امتی عموماً مسکراتے ہیں، پیغمبر رات کو اُٹھ اُٹھ کر خدا کے حضور گڑگڑاتے ہیں، لوگ عیش و تنعم کی زندگی بسر کرتے ہیں، پیغمبر کے چولہے میں دو دو ماہ تک آگ نہیں جلتی، یہاں انواع و اقسام کے ملبوستاب کی ریل پیل رہتی ہے ، وہاں پیٹ پر دو دو پتھر باندھ کر کمر کو سیدھارکھنا پڑتا ہے، بہرحال اللہ اور اس کے رسول جو دیتے ہیں، ہمیں دیتے ہیں، ہماری خاطر اور ہمارے لیے دیتے ہیں اور صرف دینے کے لیے دیتے ہیں۔ ان کا لینا بھی صدبار دینے کے لیے ہی کی ایک تدبیر ہوتی ہے آپ نے خدا اور رسول سے ہٹ کرصدیاں گزار دی ہیں، مگر کلق خدا جہاں تھی وہاں رہی، اب کم از کم دس سال تو خدا اور اس کے رسول کے پاس رہ کردیکھ لیجئے! اگر آپ کی بگڑی پھر بھی نہ بنے تو پھر خاکم بدہن انہیں چھوڑ دیجئے! جدھر چاہے رُخ کرلیجئے! لیکن دور دور رہ کرناحق اور بلاجواز خدا اور اس کے رسول پاکﷺ کے خلاف بدگمانیوں کے چکر نہ چلائیے۔

عن المسور بن مخرمة و مروان یصدق کل واحد منھما صاحبه في حدیث طویل فبینما ھو یکلمه إذ جآء سھیل بن عمرو (وفي روایة) إنه لما جآء سھیل بن عمرو وقال النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لقد سھل لکم من أمرکم، قال معمر قال الزھري في حدیث فجآء سھیل بن عمرو فقال ھات اکتب بینناو بینکم کتابا فدعا النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الکاتب فقال النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکتب بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، قال سھیل أما الرحمٰن فواللہ ما أدري ماھو؟ ولکن اکتب باسمك اللھم کما کنت تکتب فقال المسلمون واللہ لا نکتبھا إلابسم اللہ الرحمٰن الرحیم فقال النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکتب باسمك اللھم، ثم قال؟ ھذا ما قاضی علیه محمد رسول اللہ، فقال سھیل: واللہ کوکنا تعلم أنک رسول اللہ ما صددنك عن البیت ولا قاتلناك ولکن اکتب محمد بن عبداللہ فقال النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : واللہ إني لرسول اللہ وإن کذبتمو ني اکتب محمد بن عبداللہ .... فقال له النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم على أن تخلوا بيننا وبين البيت فنطوف به ، فقال سهيل : والله لا تتحدث العرب ، أنا أخذنا ضغطة ، ولكن ذلك من العام المقبل ، فكتب ، فقال سهيل ، وعلى : أنه لا يأتيك منا رجل ، وإن كان على دينك إلا رددته إلينا ، قال المسلمون : سبحان الله ، كيف يرد إلى المشركين وقد جاء مسلما ؟ فبينما هم كذلك إذ دخل أبو جندل بن سهيل بن عمرو يرسف في قيوده ، وقد خرج من أسفل مكة حتى رمى بنفسه بين أظهر المسلمين ، فقال سهيل : هذا يا محمد ، أول ما أقاضيك عليه أن ترده إلي ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم : إنا لم نقض الكتاب بعد ، قال : فوالله إذا لم أصالحك على شيء أبدا ، قال النبي صلى الله عليه وسلم : فأجزه لي ، قال : ما أنا بمجيزه لك ، قال : بلى ، فافعل ، قال : ما أنا بفاعل ، قال مكرز : بل قد أجزناه لك ، قال أبو جندل : أي معشر المسلمين أرد إلى المشركين ، وقد جئت مسلما ، ألا ترون ما قد لقيت وكان قد عذب عذابا شديدا في الله ، قال : فقال عمر بن الخطاب : فأتيت نبي الله صلى الله عليه وسلم ، فقلت : ألست نبي الله حقا ؟ قال : بلى ، قلت : ألسنا على الحق وعدونا على الباطل ؟ قال : بلى ، قلت : فلم نعطي الدنية في ديننا إذا قال : إني رسول الله ، ولست أعصيه وهو ناصري ، قلت : أوليس كنت تحدثنا أنا سنأتي البيت فنطوف به ؟ قال : بلى ، فأخبرتك أنا نأتيه العام ؟ قال : قلت لا ، قال : فإنك آتيه ومطوف به ، قال : فأتيت أبا بكر ، فقلت : يا أبا بكر ، أليس هذا نبي الله حقا ؟ قال : بلى ، قلت : ألسنا على الحق وعدونا على الباطل ؟ قال : بلى ، قلت : فلم نعطي الدنية في ديننا ، إذا قال : أيها الرجل إنه لرسول الله صلى الله عليه وسلم وليس يعصي ربه وهو ناصره فاستمسك بغرزه ، فوالله إنه على الحق ، قلت : أليس كان يحدثنا أنا سنأتي البيت ونطوف به ؟ قال : بلى ، أفأخبرك أنك تأتيه العام ؟ قلت : لا ، قال : فإنك آتيه ومطوف به . قال الزهري : قال عمر : فعملت لذلك أعمالا ، قال : فلما فرغ من قضية الكتاب ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأصحابه : قوموا فانحروا ، ثم احلقوا ، قال : فوالله ما قام منهم رجل حتى قال ذلك ثلاث مرات ، فلما لم يقم منهم أحد دخل على أم سلمة فذكر لها ما لقي من الناس ، فقالت أم سلمة : يا نبي الله ، أتحب ذلك اخرج ، ثم لا تكلم أحدا منهم كلمة حتى تنحر بدنك ، وتدعو حالقك فيحلقك ، فخرج فلم يكلم أحدا منهم حتى فعل ذلك نحر بدنه ودعا حالقه فحلقه ، فلما رأوا ذلك قاموا فنحروا وجعل بعضهم يحلق بعضا حتى كاد بعضهم يقتل بعضا غما

ثم رجع النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إلی المدینة فجآء ہ أبوبصیر رجل من قریش وھو مسلم فأرسلوا في طلبه رجلین فقالو العھد الذي جعلت لنافد فعه إلی الرجلین فخرجا به ......

فجعل لا یخرج من قریش رجل قد أسلم إلا لحق بأبي بصیر حتی اجتمعت منھم عصابة فواللہ مایسمعون بعیر قد خرجت لقریش إلی الشام إلااعترضوا لھا فقتلوھم وأخذوا أموالھم فأرسلت قریش إلی النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنا شدہ باللہ و الرحم لما أرسل فمن أتاہ فھوا من ۔ (بخاري، کتاب الشروط، باب الشروط في الجهاد المصالحة... الخ: ص1؍377 و مسلم :ص 2؍104،25 ملخصا و ملتقطا)

حضرت مسور اور مروان سے روایت ہے کہ وہ ایک دوسرے کی بات کی تصدیق بھی کرتے ہیں (یہ ایک لمبی حدیث ہے ..... وہ (مکرز)آپؐ سے گفتگو کر ہی رہاتھا کہ سہیل بن عمرو (سفیر قریش مکہ) آیا او رایک اور روایت میں ہے کہ سہیل بن عمر آیا تو اس نے (رسول خدا) سے کہا لائیے! اپنے اور تمہارے درمیان میں عہدنامہ لکھوں، تو نبی کریم ﷺ نے (اپنے ) کاتب (حضرت علیؓ) کو بلایا، پھر فرمایا:لکھیے! بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، (یہ سن کر) سہیل بولا: خدا کی میں تو نہیں جانتا رحمٰن کیا شے ہے؟ البتہ باسمک اللھم لکھیئے! جیسا کہ پہلے آپ لکھتے آرہے ہیں، اس پرمسلمان بولے: بخدا ہم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہی لکھیں گے،تاہم نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ باسمک اللھم (الہٰی! تیرے ہی نام سے شروع کرتے ہیں) ہی لکھیے! پھر حضورؐ بولے: یہ وہ عہد نامہ ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ نے طے کیا، سہیل پھر بولا: اگر ہم آپ کو رسول اللہ سمجھتے ہیں (تو) بیت اللہ سے آپ کو روکتے اور نہ آپ سے لڑائیاں لڑتے، بلکہ آپ محمد بن عبداللہ (عبداللہ کے بیٹے محمد)لکھیے! اس پررسول کریمﷺ نے فرمایا۔ اللہ کی قسم میں اللہ کا سچا رسول ہوں۔ اگرچہ تم مجھے جھٹلاتے ہو (پھر حکم کیا کہ) محمد بن عبداللہ (ہی ) لکھیے!... پھر اس (سہیل) سے فرمایا: کہ تم ہمیں بیت اللہ (خانہ کعبہ) کا راستہ دےدو گے کہ ہم طواف کریں، سہیل (حسب معمولی) پھر بڑبڑایا:بخدا ! (یہ نہیں ہوگا) عرب میں شور مچ جائے گا کہ ہم دب گئے ، ہاں یہ آئندہ سال ہوسکتا ہے، چنانچہ آپؐ نے ایسا ہی لکھ لیا۔ پھر سہیل بولا: ہماری طرف سے یہ شرط بھی ہے کہ آپ کے پاس ہمار اجو بھی آدمی آپ کا ہی کلمہ پڑھ کر آئے گاآپ کو اسے ہمارے پاس واپس لوٹانا ہوگا، مسلما ن بول اٹھے، سبحان اللہ! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ مسلمان ہوکر آئے اور اسے مشرکوں کے پاس کردیاجائے (ایک اور روایت میں ہے کہ : آپ کا کوئی شخص اگر آگیا تو ہم واپس نہیں کریں گے۔مسلم) یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ بیڑیوں میں جکڑے ہوئے گرتے پڑتے حضرت ابوجندل (قریش مکہ کے سفیر سہیل بن عمر کے بیٹے) آگئے اور وہ مکہ کی نچلی جانب سے نکل آئے تھے۔ (کفار مکہ کو اس کا پتہ ہی نہ چلا اور آکر مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو لا کر پھینک دیا، اس پر سہیل سیخ پا ہوکر) بولا۔ اے محمد! (ﷺ معاہدہکی) یہ وہ پہلی شرط ہے جس پر میں (ابھی) آپ سے عملدرامد چاہتا ہوں کہ آپ اسے(ابھی ہی) مجھے واپس کریں! نبی کریمﷺ نے فرمایا کہا کہ ہم نے معاہدہ طے نہیں کیا (ابھی تو وہ لکھا جارہا ہے) اس پر سہیل بولا تو پھر بخدا ہم کو معاہدہ نہیں کرتے.... (یہ صورت حال دیکھ کر حضرت) ابوجندل پکارے: مسلمانو! سوچیئے! میں مسلمان ہوکر (تمہارے پاس) آیا ہوں (دیکھئے!) مجھے (اب) مشرکوں کے حوالے کیا جارہا ہے، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ مجھ پرکیا گزری ہے (راوی کا بیان ہے کہ) اللہ کی راہ میں انہیں سخت عذاب دیئے گئے تھے (اس پرمسلمان بے قابو ہوگئے چنانچہ حضرت) عمرؓ بن الخطاب فرماتے ہیں میں نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا او رکہا:

کیاآپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں! میں نے کہا کہ کیا ہم (مسلمان) حق پراو رہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے؟ فرمایا:بالکل! میں نے عرض کی: تو پھر اپنے دین کے سلسلے میں ہم یہ ذلیل شرط کیوں قبول کرنے لگے ہیں؟

حضورﷺ نے جواب دیا ، میں اللہ کا رسول ہوں،میں اپنی مرضی نہیں کرسکتا (باقی رہا انجام؟ سو) یقین کیجئے! وہ (ضرور) میری مدد کرے گا۔

(حضرت عمرؓ کہتے ہیں) میں نے (پھر) عرض کی:کیا آپؐ نے ہم سے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم عنقریب بیت اللہ پہنچیں گے او راس کا طواف کریں گے؟ آپؐ نے فرمایا: کیا میں نے آپ سے یہ بھی کہا تھا کہ ہم اسی سال ہی پہنچیں گے؟ میں نے کہا نہیں! (اس پر) آپؐ نے فرمایا ، یقین رکھیے! آپ بہرحال پہنچیں گے اور اس کاطواف کریں گے۔

.... جب معاہدہ کرکے آپؐ فراغ ہوگئے تو آپ ؐ نے صحابہ کر حکم دیا، اٹھیے! قربانی دیجئے اور سرمنڈائیے (کیونکہ عمرہ کی نیت سے گئے تھے ، قربانیا ہمراہ تھیں) راوی کہتا ہے کہ بخدا! ہم میں سے ایک شخص بھی نہ اٹھا (کیونکہ بظاہر دب کر فیصلہ قبول کرنے سے وہ سخت بدحواس ہورہے تھے، بہرحال حضرت ام سلمہؓ کے مشورہ کے مطابق) آپ باہر نکلے،کسی سے بھی بات نہ کی اور جاکر اپنی قربانی دی، سر مونڈنے والے کوبلاکر سرمنڈایا، جب (شمع رسالت کے پروانے) صحابہ نے دیکھا تو سب اُٹھ کھڑے ہوئے، قربانی دی اور سرمنڈانے کے لیے اتنا ہجوم ہوگیا کہ ایک دوسرے کے شہید ہوجانے کا اندیشہ ہونے لگا۔

..... پھر نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لے آئے تو قریش کا ایک اور جواب ابوبصیر مسلمان ہوکر آگیا، جس کے پیچھے پیچھے انہوں نے یہ کہہ کر اپنے دو آدمی بھیج دیئے کہ اپنا وہ عہد یاد کیجئے! جو آپ نے ہم سے کیا تھا، چنانچہ آپؐ نے اسے بھی ان کے حوالے کردیا اور وہ دونوں ان کو لے کر نکل گئے۔

.... پھر یوں ہوا کہ جوبھی قریشی جوان مسلمان ہوگا وہ(مدینہ کے بجائے) سیدھا حضرت ابوبصیر سے جاملتا (جو جان بچا کر بمقام سیف الجررہ رہے تھے) یہاں تک کہ وہ ایک جتھا بن گیا، پھر تو یہ حال ہوگیا کہ ) جب وہ سنتے کہ قریش مکہ کا قافلہ شام کو چلا ہے تو اس کو روک کر،ان کو قتل کرکے لوٹ لیتے (آخر تنگ آکر) قریش نے حضورؐ کو اپنا پیغام بھیجا اور خدا اور قرابت کاواسطہ دے کر آپؐ سے درخواست کی کہ آپ ان کوبلالیں (ہم عہد کرتے ہیں کہ) جب جوبھی آپ کے پاس آئے اسے چھٹی ہے۔ (بخاری، مسلم ۔مختصراً)

یہ ایک نہایت طویل روایت ہے، مگر انتہائی بصیرت افروز، خاص کر ان لوگوں کے لیے ایک روشن مشعل راہ ہے جو دین حق کے معاملے میں پہلے اطمینان حاصل کرلینا ضروری سمجھتے ہیں، آپ غور فرمائیں! کہ بظاہر اس معاہدہ کی کون سی شق اور شرط تھی جو مسلمانوں کے لیےباوقار تھا؟ یا یوں کہیےکہ معاہدہ کا کون سا لفظ ایسا تھا جسے مسلمانوں نے بظاہر دب کر قبول نہیں کیا تھا، یہاں تک کہ حضرت صدیق اکبرؓ کے سوا دوسرا اور ایک صحابی بھی آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو اس معاہدہ کو سن کر حواس نہ کھوبیٹھا ہو۔ اور روایت کے ان الفاظ کا دیقتک بعضا غما سے بعض ائمہ نے یہ اخذ کیا ہے کہ غم کے مارے صحابہ کے اوسان یوں خطا ہورہے تھے کہ اندیشہ تھا وہ ایک دوسرے کا سرمونڈتے ہوئے ایک دوسرے کاگلا نہ کاٹ ڈالیں۔ ......

واقعہ یہی ہے کہ :معاہدہ میں جوجو ہوا ، بظاہر اس میں اطمینان کی کوئی بات نہیں تھی، مگر اسلام کا یہ اصرار ہے کہ تم بہرحال مطمئن رہا کرو، اور احکام دین کی تعمیل کے نتائج کے تم ذمہ دار نہیں ہو، ان کی ڈوری اللہ کے حوالےکرکے چل پڑا کرو، یقین کیجئے! اللہ تمہیں ضائع نہیں ہونے دے گا۔ (لن یضیعني، ابن ہشام)

جسے عام نگاہیں ایک کمزوری اورذلت قراردے رہی تھیں، ا ےپیغمبرؐ ''وجہ طمانیت'' قرار دے رہے تھے (وھوناصری بخاری) او رجب تیندن کے بعد حدیبیہ سےواپس پلٹے تو راہ میں آیت اتری انا فتحنا لک فتحا مبینا (سورہ فتح) ''ہم نے تجھے کھلی ہوئی فتح عطا کی۔''

غور کیجئے! جسے دنیا''دب کر اور ذلت کا معاہدہ'' تصور کررہی تھی ، اسے پیغمبر خدا ''نصرت الہٰی'' کی ایک سبیل قرار دے رہے ہیں اور قرآن اس کا '' فتح مبین'' کے لفظوں میں اعلان کررہا ہے او رحد یہ ہے کہ اسے ایک ایسی ''فتح و نصرت '' سے تعبیر فرمایا ہے جس کے ذریعے اگلی پچھلی ساری حسرتیں پوری ہوجائیں گی اور اب تک جو جو کمی رہ گئی تھی اس کی بھی کسر نکل جائے گا او ریہ معاہدہ ایسی ڈھال اور خود ثابت ہوگا جس کے بعد دشمن کا کوئی تیر اور کوئی تدبیر نبوی مشن کی تکمیل کی راہ میں حائل نہیں ہوسکے گی۔ راستہ میں جو آیات نازل ہوئیں، ان کو اس پس منظر میں جب آپ پڑھیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ محسوس کریں گے کہ یہ معاہدہ دب کرنہیں، پوری حکمت عملی اور وقت نظری کے ساتھ قبول کیا گیا تھا۔

انا فتحنا لک فتحا مبینا۔ لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخرویتم نعمتہ علیک و یھدیک صراطا مستقیما و ینصرک اللہ نصوا عزیزا ھوالژی انسل السکینۃ فی قلوب المؤمنین لیزدا دوا ایمانا مع ایمانھم وللہ جنود السموٰات والارض وکان اللہ علیما حکیما لیدکل المومنین والمومنت جنت تجری من تحتھا الانھر خلدین فیھا و یکفر عنہم سیاتھم وکان ذلک عند اللہ فوزاا عظیما (پ26۔ الفتح ع1)

(اے پیغمبر! یہ حدیبیہ کی صلح کیا ہوئی) حقیقت میں ہم نے کھلم کھلا تمہاری فتح کرا دی تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی ان لغزشوں کی تلافی کرے جو پہلے یا بعد میں صادر ہوئیں، اور آپ پر اپنی نعمت کااتمام کرے اور آپ کو صراط مستقیم پرلے چلے او ریہ کہ اللہ آپ کی مؤثر نصرت فرمائے وہ ذات جس نے مسلمانوں کے دلوں میں ''طمانیت'' نازل فرمائی تاکہ ایمان کے ساتھ او رایمان زیادہ ہو، اور آسمانوں اور زمین میں اللہ ہی کے لشکر ہیں اور اللہ ہمیشہ سے علیم و حکیم ہے،تاکہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو اس جنت میں داخل کرے جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں اس میں وہ سدا رہیں گے اور یہکہ ان پر سے ان کی کوتاہیوں کا (بوجھ) تا ردے او راللہ کے نزدیک یہ ''عظیم فتح'' ہے۔

غور کیجئے! صلح حدیبیہ کے معاہدہ میں جیسی کچھ دفعات طے پائی تھیں، اگران کو سامنے رکھا جائے تو العیاذ باللہ خاکم بدہن خدا اور اس کے رسولؐ کی باتیں بظاہر ایک مذاق محسوس ہوں گی کیونکہ جو لوگ وحی الٰہی کی رہنمائی کے مقابلے میں اپنے اطمینان کی بات کرتے ہیں یا احکام الہٰی کی تعمیل کے نتائج کی پہلے ضمانت چاہتے ہیں وہ تو یہی کہیں گے کہ چت گر جانے کے باوجود ہمیں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ: گو نیچے آگئے ہیں تاہم ہماری ٹانگ تو اوپر ہے۔ لیکن خدا اور اس کے رسولؐ نے جو بات کہی،بعد میں حالات نے ثابت کردیا کہ ہمارے وسواس جھوٹے ، ہماری فکر کوتاہ، ہمارے اندیشے سطحی اور ہماری بے چینیاں ہماری بے خبری کا نتیجہ تھیں، رسول اللہ ؐ کی طمانیت ، یقین محکم بصیرت ، خدا پرکامل اعتماد کا حاصل تھی او رجو بات خدا کے قرآن نے بتائی وہ کسی مجذوب کی بڑ نہیں تھی، بلکہ حکیم مطلق ، بنیاد او رقدیر خدا کا فیصلہ تھا او راٹل فیصلہ تھا جو بالآخر پورا ہوکر رہا۔ واقعہ یہ ہے کہ بندوں سے خدا جومطالبہ کرتا ہے اس سے اس سے اس کی اپنی کوئی غرض وابستہ نہیں ہوتی ہے بلکہ وہتو چاہتے ہیں کہ یہ باغ جہاں سدا اباد رہے او ربندگان خدابھی خوش و خرم اور شاد رہیں، بہرحال ہر کام کے کرنے او رہرمقصد کے حاصل کرنے کے لیے تنہا چاہنا اور چاہت کافی نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے ایک سلیقہ، ایک طریق اور ایک اصول ہوتا ہےمگر یار دوستوں کا اصرار ہوتا ہے کہ اصولوں کی بات بھاڑ میں جائے، خدا کو ہماری خواہش کی بات کرنی چاہیے، یعنی ادھر ہم چاہیں اورادھر ہوجائے۔ اگر اس راستہ میں طریق کار اور سلیقہ کی دہائی ہوتی ہے تو چلا اُٹھتے ہیں او رپھر واویلا شروع کردیتے ہیں کہ دیکھو جی! آخر وہی ہوا ،بات نہ ہی بنی، ہم نے تو پھر ٹھیک ہی کہا تھا کہ یہ کام یوں نہیں ہوگا یوں ہونا چاہیے۔

اسلام نے ''مسلم اور بندہ مومن'' کے لیے جو طریق کار تجویز کیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ اپنی توجہ منقسم نہ کریں۔ ہم جوکہتے ہیں آپ اس کی تعمیل کریں اور نتائج کی ذمہ داری ہم پرچھوڑ دیں اور اسلام کایہ مطالبہ ہے کہ پوری طمانیت اور اعتماد کے ساتھ احکام الہٰی کا اتباع کریں او رایک غلام کی طرح سود و زیاں سے بے نیاز ہوکر کریں۔ انشاء اللہ آپ بہتر رہیں گے۔ خدا آپ کابُرا چاہتا ہے نہ اس کارسولؐ۔

مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا (پ6۔ النساء ع21)

''اگر تم لوگ (خدا کے )شکر گزاررہو اور (اس پر ) ایمان رکھو (اعتماد کرو) تو خدا کو تمہیں عذاب دے کر کیاکرنا ہے؟''

اوپر کی آیت میں ''لیغفر''اور ''ذنب'' تشریح طلب ہیں، علامہ راغب فرماتے ہیں ''الغفر'' کے معنی کسی ایسی شے کے پہنا دینے کے ہیں جو اسےمیل کچیل سےمحفوظ رکھے (مفردات) گویا کہ صلح حدیبیہ کا یہ معاہدہ ایک ایسی ڈھال تصور کیا گیا جس کے بعد کسی ناکامی کے میل کچیل میں ملوث ہونے کا امکان نہ رہا۔ یہاں پر ''ماتقدم'' فرما کر یہ بھی تلمیع کردی کہ یہ معاہدہ صرف آئندہ کے لیےضمانت نہیں، ماضی کے سارے دھونے میں دھو دے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا، پہلے کوئی خاطر میں نہ لاتا تھا، اب واپسی پردنیا کےعظیم تاجداروں او رحکومتوں کو نہ صرف دعوت نامے بھیجے بلکہ ان سے یہ بھی کہہ دیا کہ :

أسلم تسلم (بخاری) ''مسلمان ہوجائیے بچ جائیے گا۔''

وقولھم للصبي ''أذنب'' مجاز (کتاب الفروق لأبي ھلال العسکري)

اس لیے حضورﷺ کے سلسلے میں بھی اس کااستعمال بطور مجاز ہواہے، یعنی وہ امور جن میں غیر ارادی لغزشوں کی وجہ سے ناکامی ہوئی، مطلوب نتائج برآمد نہ ہوئے او رانجام غلط رہا۔ وہ حضورؐ کا ''ذنب'' کہلائے، کیونکہ بعض جگہ انجام اچھا نہ رہا، اس کا بھگتان آپ کے ساتھ آپ کے رفقائے کار کو بھی بھگتنا پڑا، اس پر فرمایا یہ انجام پچھلے تھے یا حالیہ سب کی تلافی کردی جائے، سابقہ لغزشوں پر غلط اثرات او رنتائج موقوف کردیئے جائیں گے اور آئندہ کے لیےمزید عنایات شامل حال کردی جائیں گی، اسےغفران کہتے ہیں۔

قال العسکري

إن الغفران لیقتضي إسقاط العقاب و نیل الثواب (کتاب الفروق لأبی ھلال العسکری)

ولیتم نعمته سے فوزا عظیما تک غفران کے اسی ''نیل الثواب'' کا بیان ہے۔بعد میں بالآخر صحابہؓ پر بھی واضح ہوگیا کہ جومعاہدہ ہوا وہ واقعی بالآخر ہمارے ہی مفاد میں رہا، اس لیے انہیں بھی طمانیت کی چاشنی سے حصہ مل ہی گیا جواز دیا و ایمان کا باعث بنا۔ بہرحال صلح حدیبیہ کے واقعہ نے یہ بات ثابت کردی کہ خدا اور رسولؐ کسی کا بھی بُرا نہیں چاہتے، بظاہر جو احکام اوپر سےمحسوس ہوتے ہیں، حقیقت میں جان جہاں ہوتے ہیں، اس لیےمسلم کاکام یہ ہے کہ وہ ان کا اتباع کرے اور صرف اتباع، باقی رہے نتائج؟ سو وہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے، نہ ہی اس سلسلے میں پہلےضمانت حاصل کرنےکی ضرورت ہوتی ہے۔ یقین کیجئے! حق تعالیٰ آپ کے اعتباد کو قطعاً ٹھیس نہیں پہنچائے گا۔

غور فرمائیے! اگر ''صلح '' کے بجائے بہ زور شمشیر مکہ میں داخل ہونے کی کوششیں کی جاتی تو آتش انتقام چین نہ لینے دیتی۔ جن شرائط پرانہوں نے خود اصرار کیا او ران سے بالآخر تنگ آکر جب خود ہی انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے تو بات خود بخود امن و آشتی کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچی۔ یہاں تک کہ مکہ بالآخر قبضہ میں آگیا اور کسی خوب خرابے کے بغیر فتح ہوا، جس کے بعد اسلام عالم عرب میں چار دانگ پھیل گیا اور خدا اور اس کے رسولؐ کی پیش گوئی اور نوید پوری ہوکر رہی۔ جب بظاہر اس قدر نا سازگار حالات میں احکام الہٰی کی تعمیل یہ رنگ لاسکتی ہے تو نارمل حالات میں اس کی برکات اور رحمتوں کا کیا عالم ہوگا، خود ہی اندازہ فرما لیجئے۔

دور حاضرین میں خدا کی بابت آج اسی اعتماد کا فقدان ہے۔اسلامی فرامین کی حقانیت صداقت اور ضرورت کا اندازہ کما حقہ ان کو اپنانے اور اختیار کرنےکے بعد ہی ہوتا ہے، جو شے''مدار کار'' ہے اس سے علیحدہ ہوکر اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنا دانشمندانہ بات نہیں ہوتی اس لیے پہلے سچے دل سے''تعمیل احکام'' کا التزام کیا جائے، پھر ان نتائج کا انتظار کیاجائے تو تعمیل احکام سے متوقع ہوسکتےہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ تعامل بھی ان نتائج کے ظہور کے لیےنہیں ہونا چاہیے بلکہ محض رب العالمین کی رضا اور خوشنودی کے لیے چاہیے، کیونکہ طمانیت او رمقام شہود کا فیضان ، اس کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ یہ دولت جنس بازار کی چیز نہیں ہےکہ بولی دےکر خریدی جاسکے، بلکہ جان او رآرام جان دے کر اسے حاصل کیاجاسکتا ہے۔

آج کامسلم روحانی طور پرجتنا بیمار ہے پہلےکبھی نہیں تھا، اسے دنیا کی دوسری ہرقوم کی ادا بھاتی ہے اور وہ تمام اقوام عالم کے سیاسی، معاشی، اخلاقی اور تمدنی آداب او ررسومات سے گہر عشق رکھتا ہے، اگر اسے ''بے یقینی'' کاروگ لگ گیا ہے توصرف ''نظام مصطفیٰ'' کے بارے میں لگ گیا ہے، اسے خسارہ اور گھاٹا بھی نظر آتا ہے تو کتاب و سنت سےتعلق رکھنے میں آتا ہے، چاہتا ہے کہ پہلے اس کا چہرہ دیکھ لوں تو پھر مانوں اور بالکل اسی طرح جس طرح کبھی ایک بدنصیب قوم نے کہا تھا کہ : لن نومن لک حتی نری اللہ جھرۃ (بقرہ ع6) ''ہم تو آپ کو ماننےکے نہیں، جب تک ہم اپنی آنکھوں سے خدا کو دیکھ نہ لیں۔'' اس پر قہر الہٰی کی بجلی گری اور وہ برباد ہوگئے۔ فاخذتکم الصعقۃ و انتم تنظرون (ایضاً) اس پرتمہیں بجلی آدبوچا اور تم دیکھا کیے۔آج ہم بھی انہی نادانیوں کے روح فرسا نتائج سے دوچار ہیں مگر ابھی اس کا احساس نہیں ہوا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون