مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کے لیے کافی ہے یا نہیں، یہاں بھی او روہاں بھی؟ زندگی کے جتنے شئون اور احوال و ظروف ہیں، وہ دینی ہوں یادنیوی ، معاشرتی ہوں یامعاشی، سیاسی ہوں یا اخلاقی، روحانی ہوں یا مادی ، ان سب پہلوؤں اور صورتوں میں وہی ذات یکتا اور داتا ہمیں بس کرتی ہے۔ یا دنیائے ہست و بود میں کوئی ایسا گوشہ بھی ہے جہاں خدا کوئی نہ ہو، ہو تو کوئی اور ہو اور وہاں رب العالمین کی قدرتوں کی ڈور کے لیے رسائی ممکن ہی نہ ہو،یعنی اب وہاں بات مقامی صوابدید او رمقامی قوتوں کے حوالےہورہے؟
مثلاً سیاسی مسئلہ پیش آجائے تو اپنی قومی یا کسی ذیلی اسمبلی کی طرف رجوع کیاجائے، فریاد کرنے کی نوبت آئے تو کسی سیاسی رہنما کے دروازہ پردستک دی جائے؟
کوئی معاشی گتھی الجھ جائے تو اسے مزوگی روح،مارکسی ذریت، یا لینن او رسہگل کی معنوی اولاد سے ''المدد'' کہنے چاہیے؟
آفات سماوی کی یورش سے ملک اور قوم کی جان پر بن جائے تو کاسہ گدائی لے کر اقوام عالم سے بھیک مانگ کر کام چلایا جائے۔
انفرادی یا اجتماعی کوئی دھندا درپیش ہو تو اس کے لیے اپنے چودھری کے باب عالی کے طواف شروع کردیئے جائیں یاکسی مشہور بزرگ کی خانقاہ کے سامنے ہاتھ پھیلا کر فریاد کی جائے، اہل مزار او راہل قبور سے اپنی بپتا کہی جائے؟
گو بظاہر ہر ایسی جرأت کوئی شخص اور طبقہ نہیں کرسکے گا کہ وہ خدا سے بے نیازی اور اپنی مدد آپ کااعلان بھی کرے تاہم یہ ایک واقعہ ہے کہ اہل دنیا کاجو تعامل دیکھنے میں آتا ہے اس سے یہی مترشح ہوتا ہےکہ:
تنہا خدا پرقناعت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ انسان کبھی اس کی طرف دیکھتا ہے او رکبھی اس کی طرف، کبھی ادھر لپکتا ہے او رکبھی ادھر او ریوں سرمارتا پھرتا ہے جیسے اس کا خدا کوئی نہ ہو۔علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا:
در عرب گردیدم دہم در عرب
مصطفیٰ نایاب وار زاں بولہب
''میں عجم میں بھی پھرا او رعرب میں گھوما (پر دیکھا کہ)مصطفیٰ بالکل نایاب اور ابولہب ارزاں ہی ارزاں''
آپ حیران ہوں گے کہ اگر کسی سے کہا جائے کہ:
اپنی زندگی کے جتنے مسائل ہیں،ان کو قرآن و حدیث کی روشنی میں حل کیجئے؟ او راپنے نفس و طاغوت یا دوسری اقوام کے طرز حیات پر فدا ہونے کے بجائے، خدا اور اس کے رسولؐ کی رہنمائی پر بھروسہ کیجئے! ہرمعاملہ اور ہر پہلو سے اسی ذات واحد پر تکیہ کیجئے! تو وہ یوں محسوس کرتا ہے جیسے ہم نے اسے کوئی گالی دی ہو او رجن کی عقیدت کے بت اس کی آستینوں میں ہوتے ہیں، ان کے بارے میں بھی اسے ایک گستاخانہ تلمیح تصور کرلیتا ہے او راس سے اس کا دل بھچنے لگ جاتا ہے۔ صدق اللہ و رسوله۔
وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ(پ24۔ الزمر ع5)
''اور جب اکیلے خدا کاذکر کیاجاتا ہے تو جو لوگ خدا کے سامنے جوابدہی کے دن(آخرت) پر یقین نہیں رکھتے (تو) ان کے دل بھچنے لگتے ہیں۔''
ہاں اگر ذات پاک کی بات چھوڑ چھاڑ کر کسی دوسرے کاذکر آجاتا ہےتو ان کے دل دماغ باغ ہوجاتے ہیں:
وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ(ایضاً)
''اور جب خدا کے سوا دوسروں کاذکر کیا جاتا ہے تو بس یہ لوگ خوش ہوجاتے ہیں۔''
لوگ سوچتے ہوں گے کہ : اللہ نے شاید ''ہرجائیوں'' کا ذکر کیا ہے؟ مگر یہ صحیح نہیں ہے، بلکہ آیت میں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ ہرجائی نہیں ہیں، یکجائی ہیں او ربالکل یکسو ہیں، لیکن خدا کے معاملہ میں نہیں، نفس او رطاعوت کےسلسلے میں، دین کی حد تک ان میں بعض دینی اعمال کاجو رنگ دیکھنے میں آتا ہے ، وہ زیادہ تر ''مزہ اور ذائقہ'' بدلنے والی بات ہوتی ہے، کیونکہ جیساکچھ اور جتنا کچھ دینی اقدار کا ان کے ہاں چلن اور رواج نظر آتا ہے، ان سے ان کے نفس و طاغوت کی بنیادی دلچسپیوں میں کوئی فرق نہیں آتا۔ صرف ''فریب نفس'' کی افیون انہیں مل جاتی ہے جس کے ذریعے ان کو ایک گونہ تسکین حاصل ہوجاتی ہے کہ شیطان کی معیت کی وجہ سے ''رحمٰن'' کو ان کے ساتھ رہنے میں کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی، گویا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی سیاست میں کامیاب رہے ہیں کیونکہ !
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
یہی وجہ ہے کہ عرب میں ایک بت پرست طبقہ اس لیے اپنے آپ کو ''حنیف یا حنفاء'' کہلانے پر اصرار کرتا تھا کہ وہ کعبہ کا حج بھی کرلیتا تھا اور ختنہ بھی کرا لیتا تھا، ان کے نزدیک صرف اتنی سی بات ہے وہ دین براہیمی اور متبع کہلا سکتے ہیں۔
بریں عقل و دانش بباید گریست
یہی کچھ آج ہورہا ہے بلکہ اس سے بھی بدتر حالت میں کیونکہ ان کے ہاں حج تو ایک بات تھی۔ یہاں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلم کی مسلمانی کے لیے اب صرف اتنی سی بات کافی ہے کہ (1) وہ مسلمان کے گھر میں پیدا ہوگیا ہو (2) ختنہ کرایا ہو (3) اور گائے کاگوشت کھاسکتا ہو۔ اس کے بعد ان کو یہ فکر نہیں رہتی کہ وہ رسول ﷺ کے ساتھ ہیگل او رمارکس کا بھی کلمہ پڑھتا ہے، سوشلسٹ ہوجائے یا سود خوار نماز کا تارک ہو یا روزہ خور، فیصلے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے قبول کرے یا دشمنان خدا اور رسولﷺ کے، ان کی مسلمانی میں بہرحال کوئی فرق نہیں آتا۔ اب آپ یہ خیال فرمائیں گے کہ اگر اس کانام ''دین'' ہے تو کیا یہ صرف ''ذائقہ اور مزہ'' بدلنے والی بات نہیں ہے؟ بلکہ ہم نے دیکھا ہے کہ اس باب میں لوگ جس قدر کفر اور باطل کےسلسلے میں مخلص اور جذباتی ہورہے ہیں ان کا ہزاروں حصہ بھی اسلام کے سلسلے میں وہ مخلص نہیں رہے۔نام نہاد مسلم تو صرف اس لیے مسلمان کہلاتا ہے کہ وہ مسلم کے گھر میں پیدا ہوا ہے یا صرف ضمیر کی خلش کو دور کرنے کے لیے اپنے لیے ایک فریب نفس تشخیص کرلیا ہے تاکہ اپنی اندرونی کشاکش سے نجات پاسکے۔ ورنہ یہ ایک واقعہ ہے کہ اسے اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہا، جتنا ہے، اسے آپ اسلام کے ''واہمہ'' سے تعبیرکرسکتے ہیں، کیونکہ یہ ظالم لوگ، مسلمانی کےمفہوم سے آشنا نہیں، ''اسلام'' اپنے آپ کو پورا پورا او ربالکل مکمل خدا کے حوالے کرنے کانام ہے مگر ہمارے ہاں صر ف نام ہی نام ہے، باقی اللہ ہی اللہ۔
اس خام مسلمانی کااصل سبب یہ ہے کہ چونکہ اسلام کو قبول کرلینے کے بعد، انسان اپناخدا آپ نہیں رہتا، شتر بےمہار جیسے اسلوب حیات کے لیے ابن آدم کو کھلی چھٹی نہیں ملتی اس لیے غیرشعوری طور پر اس کے دماغ میں یہ بے اطمینانی گھر کرگئی ہے کہ : اسلام سے آسودگی مل بھی سکتی ہے یا نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ اسلام صرف ''پابندی ہی پابندی''کا نام ہے،راحت جان کے اس میں سامان نہیں ہیں۔ حالانکہ سوچنے کایہ انداز ہی بالکل غلط ہے۔ کتاب و سنت ہمارے سامنے ہیں۔ وہ ببانگ دُہل اعلان کررہے ہیں کہ طمانیت اور سکون جیسی متاع بے بہا نام کی جو چیز سنتے ہو وہ صرف خدا کے ہاں سے ملتی ہے او ربس! یقین کیجئے! خدا اور اس کے رسولﷺ کی رہنمائی کے بعد اور کسی کی کچھ بھی ضرورت نہیں رہتی، جیسے وہ یکتا ہے ویسے وہ یکہ و تنہا کافی بھی ہے او روافی بھی ،زندگی کی کوئی الجھن درپیش ہو یا دنیا کاکوئی دھندا ، حیات مستعار کا کوئی فطری داعیہ ہو یا کائنات بشریٰ کا کوئی قدرتی تقاضا، ان سب کے لیے اس کی جناب سےمد دملتی ہے،رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ سنبھالا ملتا ہے اس لیے اس نےبندوں سے خود ہی مطالبہ کیا ہے کہ مجھ پر ہی تمہیں اعتماد اور بھروسہ کرناچاہیے او رمیری ہی چارہ سازی اورکارسازی کو کافی سمجھناچاہیے!
قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ(پ24۔ زمر ع4)
''اعلان کردیجئے! مجھے خدا کافی ہے اور بس کرتا ہے (پر یہ) بھروسہ (وہی) کرتے ہیں جو (اس پر) اعتماد رکھتے ہیں۔''
یعنی بات اعتماد کی ہے، جن کوخدا پر اعتماد ہے، وہ تو کارساز حقیقی کا در چھوڑ کر کسی دوسرے دروازہ کی طرف جاتے نہیں ہیں او رجن کا دل اس اعتمادسے خالی ہے، اس کے لیے تنہا او راکیلے خدا پر قناعت کرنا ہی مشکل ہے۔
جب انسان اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اس سے سب سے پہلے جن الفاظ میں اقرار اور حلف وفاداری لیا جاتاہے ، وہ مشہور و معروف کلمہ لاإله إلا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ خدا کے اقرار سے پہلے یہ مطالبہ کہ: اور کوئی خدا نہیں'' کا پہلے اعتراف کیاجائے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ جب خدا کے حضور پہنچے ہیں تو اب اپنا جائزہ لے لیجئے کہ : دوسرا اور کوئی بت طناز تو بغل میں دبا کرنہیں پہنچے،اگر یہ بات ہے تو پھر حکم ہوتا ہے کہ : واپس پلٹ جائیے! ہمیں آپ کی یاری پسند نہیں ہے۔
انجمن حمایت اسلام لاہور کے نویں سالانہ جلسہ میں راقم الحروف کے شیخ الشیخ او رمعروف مترجم قرآن مولانا ڈپٹی نذیراحمد دہلوی نے ''توحید'' کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے ایک فکر انگیز تصور اور معنی خیز بات کہی تھی،جسے مدتوں ہوئے پڑھا تھا، مگر وجد آور کیف کا وہ سماں ابھی ذہن میں تازہ ہے جو اوّل مرحلے پر پڑھتے ہی محسوس ہوا تھا وہ فرماتے ہیں:
''جب اس طرح اسباب ظاہر کو، اور اسباب ظاہر کی تخصیص بھی کیوں کرو؟ بلکہ ماسوی اللہ کو انتظام دنیا سے بے دخل محض سمجھ لو گے تم کو ھوالأول والاخر والظاھر و الباطن کے معنی معلوم ہوں گے۔''
ایک مرد قلندر او ربندہ حنیف نے اسے یوں بیان کیا تھا:
توحید تو یہ ہے، خدا حشر میں کہہ دے
کہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
یعنی خدا کی طرف رخ کرنے سے پہلے یہ عہد ہونا چاہیے کہ خدا کی طرف رخ کرلینے کے بعد وہ اب پلٹ کر پیچھے کی طرف یا ادھر ادھر نہیں دیکھے گا، کیونکہ وہ ''اللہ'' تنہا ہی کافی ہے، سب کو کافی ہے اور ہر اعتبار سے کافی ہے۔ وہ سب کی سنتا ہے او راکیلا ہی سب کی بگڑی بناتا اور سنوارتا ہے جو چاہے وہاں سے ملے گا او رجتنا چاہیے ! وہی دے گا۔ لا إله إلا اللہ کے یہی معنی ، یہی رمز او ریہی تلمیح ہے، اس تفصیل کے بعد آپ سے حق تعالیٰ پوچھتے ہیں:
أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ (پ24۔زمر ع5) ''(فرمائیے) کیا(تنہا) خدا اپنے بندے (رسول) کے لیےکافی نہیں ہے۔''
بہرحال ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ : جناب ! آپ کا کیاخیال ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات ، اس کے احکام اور نظام اسلام آپ کے لیےکافی نہیں ہیں؟ کیا اس میں آپکے روگوں کے لیے شفا کی پڑیہ نہیں ہے، اللہ میاں نے آپ کو دنیا اور آخرت کی سرفرازی کے لیے جو تجویز فرمایا ہے؟ کیا وہ آپ کو کافی نہیں ہے؟ اگر ہے او ریقیناً ہے تو پھر ادھر ادھر کیا دیکھتے ہو؟ سیدھے رُخ اپنے خدا کی طرف کیوں نہیں چلتے، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کا دین ، ''دین حنیف'' ہے، جس کامفہوم ہی رب کے لیے یکسوئی ہے اور جس پاک ہستی کے آپ امتی کہلاتے ہیں، اس کاتعارف بھی یہی پیش کیاگیا ہے کہ:
مازاغ البصر وما طغى (پ27۔ النجم ع1)
''(عالم ملکوت کی سیر میں بھی) اس کی نظر نہ (کسی طرف کو ) بہکی او رنہ (جگہ سے) اچٹی۔''
اب آپ غور فرمائیں! جہاں صورت حال یہ ہو کیا وہاں کسی مرحلہ پر بھی اگر آپ کی اس ''یک بینی، یکسوئی او ریکجہتی'' میں کوئی فرق آگیا تو کیا آپ نے اپنے کلمہ کی شرم رکھی اور اپنے پاک پیغمبرﷺ کی راہ لی؟ اگر نہیں او ریقیناً نہیں تو پھر سوچ لیجئے! کل آپ کی اس دورُخی کا کیا حشر ہوگا؟