مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے

پاسبان حرم سعودی عرب کے عظیم حکمران شاہ خالد بن عبدالعزیز نے اسلام اباد میں''شاہ فیصل مسجد ''کا سنگ بنیاد رکھاجودنیابھر میں اپنی نوعیت کی سب سے بڑی مسجد ہوگی اور اس کی تعمیر پر 25 کروڑ روپے لگت آئے گی۔ یہ مسجد تین سال میں مکمل ہوگی، اس میں بیک وقت ایک لاکھ افراد نماز اداکرسکیں گے۔ یہ مسجد اور اس کے مینار 22 میل تک کے فاصلے سے دیکھے جاسکیں گے۔

مسجد کا مرکزی ہال 150 فٹ لمبا اور ساڑھے باسٹھ ہزار مربع فٹ رقبے پرمحاط ہوگا اور اس کی چھت کے نیچے کوئی ستون نہیں ہوگا۔مسجد کے چار مینار ترکی طرز کے ہوں گے او رہر مینار تین سو فٹ سے زائد اونچا ہوگا۔مسجد کے ہاں میں 20 ہزار افراد کی اور خواتین کی گیلری میں دو ہزارعورتوں کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہوگی۔ نیز اس میں دو ہزارافراد کے لیے ڈیوڑھی ہوگی اور ایک لاکھ افراد کے لیے مرکزی احاطہ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ چار ہزار کاروں کے لیے ایک کار پارک اور دو ہزار سائیکلوں کے لیے ایک سائیکل سٹینڈ بھی ہوگا۔مسجد کے ساتھ ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، عجائب خانہ، لائبریری، آڈیٹوریم اور مسجد کے سٹاف کے لیےمکانات اور گراؤنڈ وغیرہ ہوں گے۔ (ملخص)

مسجد بنانا سنت رسول، عظیم ثواب اور توشہ آخرت ہے۔

من بنی مسجد الله یتبغي به وجه اللہ بنی اللہ له بیتافي الجنة (بخاری وغیرہ)

گھر اتنا نہیں، جتنا مسجد کا رقبہ ہے بلکہ اس سے بھی کہیں وسیع تر اور شایان شان:

بنی اللہ له بیتا أوسع منه (رواہ أحمد بإسناد لین) وفي روایة بنی اللہ له في الجنة أفضل منه (رواہ احمد)

یہاں وسیع رقبہ، عظیم عمارت اور عظیم محیر العقول میناروں کی اتنی ضرورت نہیں جتنی اخلاص او ررب کی رضا جوئی کے جذبہ کی ہے،اگر جذبہ حصول رضا الہٰی اور اقامت دین کا ہے تو ایک بےمایہ چھوٹے سے پرندے کے گھونسلے کے برابر بھی اس نے کوئی جگہ خدا کی ملاقات اور اس کے ذکر اور مناجات کے لیے بنا کروقف کرڈالی ہے، تو حق تعالیٰ اس کے بدلے میں بھی اس کو جنت میں گھر عطا کرے گا۔

من بنی للہ مسجد اقدر محفص قطاة بنی اللہ له بیتا في الجنة (رواہ البزار و ابن حبان۔ الترغیب والترہیب)

اگر ایک طرف دس ہزارفٹ لمبی چوڑی مسجد تعمیر کی اور ساتھ ہی دوسری جگہ ایک دس فٹ کے رقبہ پرفلم اور سینما گھر بھی تعمیر کرڈالا ہے تو اس وقت یہ کہا جاسکے گا کہ اللہ ہی نیتوں سے واقف ہے۔ وہی جزا دینے والا ہے۔

ریا او رنمود کی تمنا سے مسجد کے بانی کی آخرت غارت ہوجاتی ہے:

من بنی مسجد إلایرید به ریاء و لا سمعة (طبرانی)

بلکہ مفسرین نے تصریح کی ہے کہ: ایسی مسجد، مسجد ضرار کے حکم میں ہوتی ہے۔

کل مسجد بني مباھاة أوریاء أوسمعة أو لغرض سواء ابتغاء وجه اللہ أو بمال غیرطیب فھو لاحق بمسجد ضرار (مدارک)

مال حلال سے ہو،حرام کی کمائی کا دخل نہ ہو۔

من بنی بیتا یعبداللہ فیه من مال حلال (الترغیب والترہیب طبرانی)

بنانا تو بڑی بات ہے، جس ن ےاس گھر میں جھاڑو دی، رسول خدا ﷺ نے تو اس کی نماز جنازہ تک کا خصوصیت سے اہتمام فرمایا تھا۔

فقال هلا  از نتموني فأتی قبرھا فصلی علیھا (رواہ البخاری)

مسجدبنانا او رجھاڑو کی توفیق نہیں لیکن اس گھر سے ایک گونہ تعلق خاطر پیدا ہوگیا ہے تو اس کا بھی بیڑا پار ہوجاتا ہے۔ جب ساری دنیا تپش سے جل رہی ہوگی اس وقت اللہ میاں اسے اپنے ہی سایہ رحمت میں لے لیں گے۔

سبعة یظلھم اللہ في ظله یوم لاظل ..... ورجل قلبه معلق بالمسجد (بخاری)

مسجد کی تعمیر سے غرض، عبادت گزاروں کے لیے الگ تھلگ تنہائیاں مہیا کرنا اور ذکر اللہ کے لیےسازگار فضا کا اہتمام کرنا ہے۔ اگر اس کے بجائے، وہ سیاحوں، عجائب پرستوں اور فن کاروں کی دلچسپی کی چیز بن کر رہ جائے یا خود نمازی کے فتنہ بن جائے ، اس کی یکسوئی کو غارت کر ڈالے، رب کی طرف توجہ دینے کے بجائے خود ہی جاذب توجہ بن کر رہ جائے تو روحانی نقطہ نظر سے یہ دینی خدمت کچھ مطلوب دولت نہیں رہتی۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی مسجد،کچی اینٹوں او رکھجور کی شاخوں اور تنوں سےبنائی گئی تھی۔

إن المسجد کان علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبنیا باللبن وسقفه بالجرید و عمدہ (بخاری و ابوداؤد)

حضرت ابوبکرؓ نے بھی اپنے مبارک عہد میں اس میں کوئی تصرف نہیں کیا تھا، حضرت عمر نے رنگ وہی رکھا مگر توسیع کردی، دراصل کھجوروں کا سامان کمزور پڑ گیا تھا۔

فلم یزدفیه أبوبکر شیئاً وزادفیه عمر و بناہ علی بنائه في عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باللبن والجرید و أعاد عمدہ (بخاری و ابوداؤد)

حضرت عمرؓ نے مجھ کو ایسے نقش و نگار اور رنگوں سے مزین کرنے سے منع کردیا تھا جونمازی کی توجہ کے لیے فتنہ بن سکیں۔

وأمر عمر بنباء المسجد وقال أکن الناس من المطرو إیاک أن تحمر أوتصفر فتفتن الناس (بخاری)

لیکن حضرت عثمانؓ نے اس میں خاصا ردوبدل کیا اور اسے آراستہ پیراستہ کرکے جاذب نظر بنایا۔

ثم غیرہ عثمان فزادفیه زیادة کثیرةو بنی جدارہ بالحجارة المنقوشة و القصة و جعل عمدہ من حجارةمنقوشة و سقفه بالساج (بخاری و ابوداود)

لیکن اس زمانہ میں صحابہ نے حضرت عثمان کے اس کام کو پسند نہیں کیا تھا۔

ومع ذلك فقد أنکر بعض الصحابة (فتح الباری)

حضرت محمود بن لبید انصاری صحابی فرماتے ہیں کہ جب حضرت عثمانؓ نے اس کا ارادہ کیا تو لوگوں نے اسے بُرا منایااو رکہا کہ اس میں حضور کی سادگی اور شکل رہنے دیتے۔

قال لما أراد عثمان بناء المسجد کرہ الناس ذلك وأحبوا أن یدعوہ علی ہیئته (مسلم)

صحابہ اور تابعین کا یہ انکار اس قدر بڑھا کہ حضرت عثمانؓ زچ ہوگئے اور اس کے لیے ان کو بیان دینا پڑا۔

قال الخولاني أنه سمع عثمان یقول عند قول الناس فیه حین بني مسجد الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إنکم أکثرتم الحدیث(بخاری)

اس سے مراد مسجد کی توسیع نہیں بلکہ رنگ و روغن ہے۔

قال البغوی:

لعل الذي کرہ الصحابة من عثمان بناء ہ بالحجارة المنقوشة لا مجرد توسیعه (شرح السنۃ۔ فتح الباری)

بہرحال یہ ایک صحابی کا فعل ہے، جس پرصحابہ او رتابعین نے انکار کیا او رنہایت شدومد کے ساتھ انکار کیا تھا۔ اس لیےبہتر یہی ہے کہ ایسا کرنے سے حتی الامکان پرہیز کیا جائے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ:

مساجد کو مزین کرنے کا مجھے حکم نہیں ہوا۔

ما أمرت بتشیید المساجد (ابوداؤد عن ابن عباس)

حضرت ابن عباس نے اس کی تشریح کی ہے کہ: تم یہود و نصاریٰ کی طرح مسجدوں کو آراستہ پیراستہ کرو گے۔

لتزخرفنھا کما زخرقت الیهود والنصاری (ابوداؤد)

حضرت عمرؓ نے اس سلسلے کی حکیمانہ نفسیات بھی بیان کی ہیں، یعنی بے عمل یا بدعمل قوم کا یہی وطیرہ ہوتا ہے۔

ما ساء عمل قوم لوط إلازخرفوا مساجد ھم (ابن ماجہ)

یعنی قول لوط جب بدعمل ہوگئی تو اس نے مسجدوں کو آراستہ پیراستہ کرنا شروع کردیا تھا۔ مقصد یہ ہے کہ: بے عمل او ربدعمل لوگ، اعمال کو حسین بنانے کےبجائے خارجی امور کی زیب و زینت میں لگ جاتے ہیں تاکہ ان کو ضمیر کی خلش سے نجات مل جائے اس لیے اس کو حضور نے علامات قیامت میں سے ایک علامت قرار دیا ہے۔

لا تقوم الساعة حتی يتباهي الناس في المساجد (ابوداود ، ابن ماجہ)

حضرت انسؓ فرمایا کرتے تھے کہ : فکر و مباہات پر تو زور رہے گا مگر اس کی معنویت ختم ہوجائے گی۔ الا ماشاء اللہ۔

یتباهون بھا ثم لا یعمر ونھا إلاقلیلا (بخاری تعلیقا)

اسلامی مملکت کے دارالحکومت کی شاہی مسجد کا خطیب اور امام ہمیشہ اسلامی مملکت کا سربراہ رہا ہے۔ مدینہ منورہ میں سرکاری اور شاہی مسجد، ''مسجدنبوی'' تھی، سب سے پہلی اس اسلامی مملکت کے پہلے خطیب و امام محمد رسول اللہ ﷺ کی اپنی ذات گرامی تھی جو بیکوقت سربراہ مملکت بھی تھے اور اللہ کے رسول بھی۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

آپ کے بعد حضرت صدیق اکبرؓ تشریف لائے تو اس شاہی مسجد کی امامت او رخطابت کا فریضہ بھی وہی انجام دیتے رہے، آپ کے بعد یکے بعد دیگرے حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے یہ ڈیوٹیدی ، کوفہ میں شاہی مسجد کی امامت حضرت علیؓ نے کی۔ تقریباً تقریباً بنوامیہ کے عہد میں بھی یہی کیفیت رہی۔

جو علاقے دور پڑتےتھے ، وہاں کے صوبائی دارالحکومت او رچھاؤنیوں کی جامع مساجد کی امامت اسلامی فوج کے سربراہوں اور صوبائی گورنروں کے سپرد رہتی تھی: امام ابن تیمیہ  لکھتے ہیں: کہ شروع سے یہ سنت اور دستور چلا آرہا ہے۔

كَانَتْ السُّنَّةُ أَنَّ الَّذِي يُصَلِّي بِالْمُسْلِمِينَ الْجُمُعَةَ وَالْجَمَاعَةَ وَيَخْطُبُ بِهِمْ: هُمْ أُمَرَاءُ الْحَرْبِ، الَّذِينَ هم نواب ذي السلطان على الأجناد؛ وَلِهَذَا لَمَّا قَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ فِي الصَّلَاةِ، قَدَّمَهُ الْمُسْلِمُونَ فِي إمَارَةِ الْحَرْبِ وَغَيْرِهَا. وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذَا بَعَثَ أَمِيرًا عَلَى حَرْبٍ، كَانَ هُوَ الَّذِي يُؤَمِّرُهُ لِلصَّلَاةِ بِأَصْحَابِهِ، وَكَذَلِكَ إذَا اسْتَعْمَلَ رَجُلًا نَائِبًا عَلَى مَدِينَةٍ، كما استعمل عتاب ابن أَسِيدٍ عَلَى مَكَّةَ، وَعُثْمَانَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ عَلَى الطَّائِفِ، وَعَلِيًّا وَمُعَاذًا وَأَبَا مُوسَى عَلَى الْيَمَنِ، وعمرَو بْنَ حَزْمٍ عَلَى نَجْرَانَ: كَانَ نَائِبُهُ هُوَ الَّذِي يُصَلِّي بِهِمْ، وَيُقِيمُ فِيهِمْ الْحُدُودَ وَغَيْرَهَا مِمَّا يَفْعَلُهُ أَمِيرُ الْحَرْبِ، وَكَذَلِكَ خُلَفَاؤُهُ بَعْدَهُ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ الْمُلُوكِ الْأُمَوِيِّينَ وَبَعْضِ الْعَبَّاسِيِّينَ (السیاسۃ الشرعیۃ ص10)

اس لیے ہمارے نزدیک اسلامی جمہوریہ کے سربراہ اپنی قوم میں افضل ترین اور اہل ترین شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ معروف میں ان کے احکام کی خلاف ورزی شرعاً حرام ہوتی ہے اور اس کو تاحین حیات اپنے منصب سے معزول کرنا جائز نہیں ہوتا الا یہ کہ وہ ملک و ملت کی خدمت کے بجائے ان کو اپنی نجی خواہشات کےلیے بطور داشتہ کے استعمال کرے۔

چونکہ پاکستان بھی اسلامی جمہوریہ ہے، او رپوری سرکاری دلچسپی اور نگرانی میں شاہ فیصل مسجد تعمیر کی جارہی ہے او راسلام آباد میں اسے ہی شاہی مسجد کی حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ:

پاکستان کے وزیراعظم مسٹرذوالفقار علی بھٹو او رصدر مملکت چودھری فضل الہٰی اپنے آپ کو اس فریضہ امامت سے عہدہ برا ہونے کے لیے ضرور تیار کریں بلکہ صوبائی گورنروں ، سیکٹریوں،ڈپٹی کمشنروں، تحصیلداروں، علاقہ کے تھانیداروں اور گاؤں کے نمبرداروں کو بھی ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کا درس دیں تاکہ وہ اپنے علم و عمل میں مناسب تبدیلی کرکے محراب و منبر سے مناسبت حاصل کرلیں۔

خطابت او رامامت نماز دراصل ایک ملّی قیادت ہے، گزراوقات کا پیشہ نہیں ہے۔ امام او رخطیب اس کوہونا چاہیے جو احتساب کے اختیارات بھی رکھتا ہو، اپنے حلقہ میں محترم اور معزز تصور کیا جاتا ہو،ایسا نہیں کہ :اس کو حقیر اور کمین تصور کیا جاتا ہو۔

امامت کے لیے ضروری شرائط صرف یہ ہیں کہ امام (1) قرآن دان اوربہترین قرآن خواں ہو۔ (2)باعمل ہو(3)نیک شہرت کا مالک ہو۔

صدر مملکت اور وزیراعظم کو اس عظیم شاہی مسجد کی امامت اور خطابت کے لیے جتنا وقت درکار ہے،اتنے عبوری دور میں ان کے لیے اس مسجد میں پانچ وقت کی نماز، جمعہ او رعیدین کی نمازوں میں شرکت کرنا ضروری ہو۔

اس میں ایک آزاد عربی مدرسہ قائم کیا جائے جس میں علمائے سُوء کے بجائے علمائے حق تدریس کی ڈیوٹی پر فائز ہوں۔ صرف غرباء نہیں بااثر افراد کی اولاد بھی شریک درس ہوا کرے۔

عربی علوم کے مختلف شعبے قائم ہوں، تفسیر، حدیث، فقہ،ادب،اصول،معانی و بیان، تجوید، جدید فلسفہ، طب، ریاضی، ہیئت کے لیےمستند افاضل کی خدمات حاصل کی جائیں۔

اس کا امام و خطیب آزادہو۔ اسی طرح اس درس گاہ کا صدر مدرس اپنے ضمیر او رعلم کی حد تک آزاد ہو، پارلیمنٹ کی برسراقتدار پارٹی 3؍2 اور حزب ا|ختلاف کی 3؍2 تعداد ان کے خلاف عدم اعتماد کی قرار داد پرجب تک دستخط نہ کرے، ان کو نکالنا جائز نہ ہو۔

اس درس گاہ کے فارغ التحصیل طلبہ کے لیے ملکی منصب او رعہدے کے دروازے یکساں کھلے ہوں۔ کچہریوں، عدالتوں اور دوسرے انتظامی تعلیمی اور نشرواشاعت کے شعبوں میں ان کے ساتھ ترجیحی سلوک کیا جائے۔

اس کے اساتذہ اور صدر مدرس (پرنسپل)کی تنخواہیں ،کسی کالج کے پرنسپل اور پروفیسر سے کم نہیں ہونی چاہیئں! ان کے لیے صرف عربی علوم میں مہارت کا ہونا کافی تصور کیا جائے۔ ان کی اہلیت کے لیے کسی دوسری زبان یا علوم کی ڈگری ضروری نہیں ہونی چاہیے۔اساتذہ کے لیے ''اہل السنۃ والجماعۃ'' ہونا بھی ضروری ہو۔اس کا وہی مرتبہ ہونا چاہیے جو کبھی قاہرہ یونیورسٹی کا تھا۔

ادارہ تحقیقات اسلامیہ اور ثقافیتوں ک وان کے تحت کردیاجائے بلکہ اس میں مدغم کردیا جائے او رقومی اور صوبائی اسمبلیوں کو بھی اسلامی احکام کے سلسلے کی رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی دوسرے ادارے کے بجائے صرف اسی درسگاہ کے دارالافتاء کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔