تعارف و تبصرہ کتب
(1)
نام : برصغیر پاک و ہند کے علمی ، ادبی اور تعلیمی ادارے
مرتب : ابوسلمان شاہجہان پوری و امیر الاسلام
صفحات : 504
ناشر : گورنمنٹ نیشنل کالج ،کراچی
گزشتہ سال نیشل کالج کے میگزین علم و آگہی کا ایک خصوصی شمارہ ''علمی ، ادبی اور تعلیمی ادارے'' شائع ہوا تھا۔ اس میں تقریباً چالیس ادارے تھے۔زیر نظر شمارہ اسی سلسلے کی دوسری جلد ہے۔ اس میں اداروں کی تعداد پانچ ، چھ سو سے کسی طرح کم نہ ہوگی۔ یہ نمبر تعلیمی ادارے ، تاریخ آثار قدیمہ کے ادارے ،علمی ادبی ادارے ، علمی و فنی ادارے ، علمی دینی ادارے ، تعلیمی و تبلیغی ادارے ، ثقافتی ادارے ، علمی شخصیاتی ادارے اورعلاقائی لسانی ادبی ادارے کے زیر عنوان نو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔مضامین کی فہرست پر ایک نظر ڈال لینے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ مرتبین نے نہایت فراخ دلی کےس اتھ ہر طرح کے اور ہرخیال کے اداروں کو شامل کیاہے۔اس میں دیوبندی ،بریلوی ، اہل حدیث ، جماعت اسلامی ، پرویزی وغیرہ مکاتب فکر کے ساتھ عیسائی تبلیغی اداروں کو بھی شامل کیاگیا ہے اس لیے کہ اُردو زبان و ادب کے فروغ میں مشنری اداروں کا بھی ایک حصہ ہے ، اس میں مدرسہ رحیمیہ ، مدرسہ نذیریہ (دہلی) ،دارالعلوم تقویۃ الاسلام (امرتسر) ، دارالرشاد (پیر جھنڈا) ، جمعیت دعوت وتبلیغ (پونا) ، بیت الحکمت مدرسہ نظارۃ المعارف القرآنیہ (دہلی) ، انجمن السامیہ (رانچی) وغیرہ پر نہایت بلند پایہ اور تعارفی مضامین ہیں۔
گزشتہ دو سال سے نیشنل کالج نے کالج میگزینوں کی عام روایت سے ہٹ کر نمبر نکالے ہیں۔ یہ نمبر اپنے موضوع کی اہمیت او رعلمی و تحقیقی معیار کے لحاظ سے نہایت قابل قدر و لائق مطالعہ ہیں۔ یہ دونوں نمبر اپنی ظاہری و معنوی خوبیوں کی بنا پربلند پایہ تصانیف کی حیثیت رکھتے ہیں۔کتابت و طباعت آفسٹ کی ہے۔ سرورق سہ رنگا اور خوشنما ہے۔کاغذ البتہ نیوز پرنٹ استعمال کیا گیاہے۔ قیمت درج نہیں۔
(2)
نام : حضرت امیرخسرو
مدیر اعلیٰ : پروفیسر عصمت اللہ خاں
صفحات : 480
ناشر : جناح گورنمنٹ کالج ، کراچی
یہ بظاہر ایک کتاب ہے لیکن فی الحقیقت جناح گورنمنٹ کالج کے مجلہ ''ہم سخن'' کا خصوصی شمارہ ہے۔ پاکستان میں گذشتہ سال امیرخسرو کی سات سو سالہ تقریبات ک ےموقع پر جو لٹریچر شائع کیا گیا او رریڈیو ، ٹی وی وغیرہ سے امیرخسرو کی شخصیت کا جس طرح تعارف کرایا گیا اس سے طبیعت پر جو اداسی چھائی تھی یہ نمبر دیکھ اداسی دور ہوگئی اور خوشی ہوئی کہ ایسے لوگوں کو بھی کمی نہیں ہے جنہوں نےامیرخسرو کی شخصیت کو ان کے دور کے صحیح پس منظر میں تلاش کرنے ، ان کی عظمت کے حقیقی پہلوؤں کو پیش کرنے او ران کے علمی و ادبی اور فکروسیرت کے محاسن کی جستجو کی واقعی کوشش کی ہے۔
ایک ایسے نمبر میں جس میں تقریباً چالیس مضامین مختلف اہل علم فکر کے ہوں زبان و بیان کی یکسانیت نہیں ہوسکتی نہ فکری سطح ایک ہوسکتی ہے لیکن یہ نمبر اتنی خوبصورتی کے ساتھ ترتیب دیاگیا ہے کہ فکر و نظر کے اختلاف کے باوجود اس میں ایک تصنیف کی شان پیدا ہوگئی ہے۔ جہاں تک امیرخسرو کی علمی شخصیت و سیرت کے محاسن او ران کی ادبی خدمات اور ان کی مثنویات کی ادبی و تاریخی اہمیت کا تعلق ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن امیر خسرو کو عام طور پر جس طرح پیش کیاگیا ہے او ران کے جن فنی کمالات کو اجاگر کیا گیاہے مثلاً گانا ، بجانا ، سازوں کی ایجاد وغیرہ اگر یہ ان کی شخصیت کے واقعی پہلو تھے او ران فنون میں انہیں ایسا ہی انہماک تھا تو ہم ان کی شخصیت کے اس پہلو کی داد نہیں دے سکتے اور اگر اس میں اہل قلم کی عقیدت کاحصہ زیادہ ہے تو قلم کی ان ندرت کاریوں او راس کے انداز تحقیق کی بھی تحسین نہیں کی جاسکتی کہ شخصیت کو ایک اعجوبہ بنا دیا جائے۔ امیرخسرو کے سلسلے میں یہ نمبر ایک سنجیدہ کوشش ہے جس کی قدر کی جانی چاہیے۔
یہ نمبرآفسٹ میں شائع ہوا ہے۔ کتابت و طباعت اچھی اور کاغذ اخباری استعمال ہوا ہے۔ سرورق امیرخسرو کی رنگین تصویر سےمزین ہے او راس میں ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو پیش کیا گیا۔
(3)
نام : الطاف القدس فی معرفۃ لطائف النفس
مؤلف : شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
مترجم : سید محمد فاروق القادری
ناشر : ''المعارف'' گنج بخش روڈ لاہور
صفحات : 112، طباعت : آفسٹ
قیمت : : 50؍7 روپے
شاولی اللہ محدث دہلوی نے زوال پذیر مغل معاشرہ میں تحدید و احیائے دین کی جو کوششیں کیں آج کے دور میں ان سے روشنی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ خوش آئند امر ہے کہ پاکستان میں شاہ ولی اللہ کے فلسفہ و فکر کو سمجھنے کی شعوری کوششیں کی جارہی ہیں۔شاہ ولی اللہ اکیڈمی حیدر اباد ان کی اصل تالیفات ترتیب و تحشیہ کےساتھ شائع کررہی ہے۔ اسی طرح بعض افراد ذاتی طور پر شاہ صاحب کی تجدید مساعی پر لکھ رہے ہیں۔
ادارہ ''المعارف ''جو تصوف کے موضوع پر عمدہ کتابیں شائع کرتا ہے اس نے اپنے اشاعتی پروگرام میں شاہ صاحب کی تصوف سے متعلق کتابوں کے اُردو تراجم شامل کیے ہیں۔''الطاف القدس''اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔
الطاف القدس کا موضوع لطائف نفس یعنی عقل، روح، نفس، سیر، خفی اور اخفیٰ وغیرہ کی تہذیب و آراستگی ہے۔ شاہ صاحب نے ان لطائف کی تہذیب و ترتیب کے لیےکشف و وجدان کے ذریعہ گفتگو کی ہے۔علم لطائف کا ذکر قرآن و سنت بلکہ صوفیائے متقدمین کی کتابوں میں بھی نہیں یہ شاہ صاحب کے غور و فکر او رکشف ووجدان کا نتیجہ ہے۔ ظاہر ہے اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے کیونکہ ''حجۃ اللہ البالغہ''اور ''الطاف القدس'' کے شاہ ولی اللہ میں واضح فرق معلوم ہوتا ہے۔کیا اچھا ہوتا کہ مقدمہ نگار صاحب کے فکری ارتقاء پر روشنی ڈالتے اور اس خلجان کو دور کرتے۔
''الطاف القدس'' کےزیر نظر ترجمہ سے پہلے تین تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ سب سے پہلے مولوی ظہیر الدین سید احمد نبے حامل المتن ترجمہ شائع کیا تھا۔ پھر جناب عبدالحمید سواتی نے 1964ء میں گوجرانوالہ سے ایک ترجمہ شائع کیا ۔ اسی طرح ماہنامہ ''القاسم'' (دیوبند) میں قسط وار ترجمہ شائع ہوتا رہا۔
زیرنظر ترجمہ سادہ او رسلیس ہے البتہ ''اصطلاحات '' ادق او رمشکل ہیں تاہم تصوف کی کتابیں دیکھنے والے استفادہ کرسکتے ہیں۔ جناب حکیم محمد موسیٰ صاحب نےگیارہ صفحات کامقدمہ لکھا ہے۔حزبی حمایت کے زیر اثر ان کے اخذ کردہ بعض نتائج سے اتفاق ممکن نہیں۔
''المعارف'' کی مطبوعات میں جو نفاست او رعمدگی ہوتی ہے یہ کتاب بھی اس کی حامل ہے۔
(4)
نام : فقہائے ہند۔حصّہ اوّل۔ دوم
مؤلف : محمد اسحاق بھٹی
ناشر : ادارہ ثقافت اسلامیہ۔ کلب روڈ لاہور
صفحات : 328۔ طباعت : گوارا
قیمت : 57؍13 روپے
گذشتہ چند سال سے جناب محمد اسحاق بھٹی صاحب، ''برصغیر میں علم فقہ'' کے موضوع پر کام کررہے ہیں او ران کی تحقیق و جستجو کے نتائج بتدریج منظر عام پرآرہے ہیں۔ اس سلسلہ کی پہلی کڑی ''پاک و ہند میں علم فقہ'' پر ''محدث'' میں تبصرہ کیا جاچکا ہے۔ بھٹی صاحب کی زیر نظر تالیف آٹھویں صدی ہجری تک کے 295 فقہائے ہند کا تذکرہ ہے۔ صدی وار فقہاء کی تفصیل یہ ہے:
پہلی صدی ہجری 36 دوسری صدی ہجری 17
تیسری صدی ہجری 7 چوتھی صدی ہجری 7
پانچویں صدی ہجری 4 چھٹی صدی ہجری 9
ساتویں صدی ہجری 55 آٹھویں صدی ہجری 160
مؤلف نے تذکرہ نگاری کا عمدہ معیار قائم کیا ہے او رہر صاحب ترجمہ کے بارے میں ضروری تفصیلات کا احاطہ کیا ہے۔کتاب کے مراجع و مصادر کی فہرست سے کسی قدر فاضل مؤلف کی محنت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ اہل علم و تحقیق کی طرف سے بلا شبہ ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک اچھوتے او ربہت اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔
بعض معروف صوفیاء کو ''فقہاء'' کی صف میں شامل کیا گیا ہے اور یہ بعید نہیں کہ ایک صوفی ، فقہ پربھی نظر رکھتا ہو تاہم ترجمہ میں یہ واضح ہونا چاہیے تھاکہ کن روایات یا شواہد کی بنا پر انہیں ''فقیہ'' قرار دیاگیا ہے۔مثال کےطور پر شیخ احمد بن ہانسوی، بہاء الدین زکرین ملتانی اور فرید الدین گنج شکر کے بارے میں ایسی روایات اور شواہد پیش نہیں کیے گئے جن سے ان کے فقیہ ہونے پر روشنی پڑتی ہو۔
کتاب میں ''اشاریہ'' کی کمی بطور خاص کھٹکتی ہے۔''اشاریہ'' بلکہ ''اشاریے'' علمی کتابوں کےلیے ناگزیر ہیں۔ادارہ ثقافت اسلامیہ کے ارباب بست و کشاد سے التماس ہے کہ وہ اپنی مطبوعات میں اس علمی روایت کو اپنائیں۔
(5)
نام : خطبات مدراس
مؤلف : سید سلیمان ندوی
ناشر : گلستان پبلیکیشنز۔ 40۔ اردو بازار لاہور
صفحات : 58
قیمت : 50؍2روپے
سید سلیمان ندوی مرحوم کوسیرت نگاری سے خاص مناسب تھی۔ انہوں نے نہ صرف اپنے استاد علامہ شبلی نعمانی کی ادھوری ''سیرت النبی'' کو مکمل کیا بلکہ ''رحمت عالم'' او ر''خطبات مدراس'' کے نام سے دو مستقل بالذات کتابیں لکھیں اوّل الذکر تالیف، بچوں او رکم تعلیم یافتہ حضرات کے لیے لکھی گئی اور زیرنظر ''خطبات مدراس '' اہل علم و فضل کے لیے دعوت غوروفکر ہے۔
''خطبات مدراس'' کاسبب تالیف یہ ہے کہ 1925ء میں سیدصاحب نے مدراس میں سیرت نبی اکرمﷺ کے مودوع پر آٹھ خطبات دیئے۔ ان خطبات کے مخاطب مسلمانوں کے علاوہ ہندو اور عیسائی بھی تھے۔ چنانچہ خطبات میں اس بات کو پیش نظر رکھا گیا ہے کہ عقیدت اور تحقیق و استدلال پہلو بہ پہلو ہیں۔
سید صاحب کی یہ کتاب جامعیت اور دلپذیر انداز بیان کی وجہج سے بہت مقبول ہے ۔ اس لیے کئی ایڈیشن چھپے ہیں۔ زیرنظر ایڈیشن ''گلستان پبلیکیشنز ''کےجریدی سلسلہ کی پہلی کتاب ہے۔ امید ہے یہ ایڈیشن بھی حسب سابق اپنا کردار ادا کرے گا۔
(6)
نام : انسانیت، موت کے درواز پر
مؤلف : مولانا ابوالکلام آزاد
ناشر : گلستان پبلیکیشنز۔ 40 ۔اُردو بازار لاہور
صفحات : 54
قیمت : 3 روپے
مولانا ابوالکلام آزاد کا ''ہفت روزہ الہلال'' برصغیر کے مسلمانوں کی قومی بیداری میں ایک سنگ میل کی حثییت رکھتا ہے۔ مولانا آزاد کی پرجوش اور فکر انگیز تحریروں نے غافل مسلمانوں کوبھولا ہوا راستہ دکھایا۔ ان کی تحریروں کو اوّل روز سے حرز جان بنایا گیا اور آج بھی ان کے قلم سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ غوروفکر سے پڑھا جاتا ہے۔ اس لیے اکثر دوسرے افراد کی تحریریں بھی مولانا کے نام سے چھپتی رہتی ہیں۔ زیر نظر تالیف بھی مولانا آزاد سے منسوب ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مضامین ''الہلال'' میں چھپے تو ہیں لیکن ان کے رشحات قلم نہیں۔
تاہم تالیف اپنے موضوع پر عمدہ کوشش ہے۔نبی اکرمﷺ، خلفائے راشدین، بعض دوسرے صحابہؓ اور تابعین کی زندگی کے آخری ایام ان میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
''گلستان پبلی کیشنز'' کے جریدی سلسلہ کی یہ دوسری کتاب ہے ، اُمید ہے یہ سلسلہ کامیابی سے چلتا رہے گا۔
(7)
نام : ''میثاق'' (قرآن کانفرنس نمبر)
ایڈیٹر : ڈاکٹر اسرار احمد
ناشر : ''انجمن خدام القرآن'' 12۔ افغانی روڈ سمن آباد لاہور
صفحات : 200
قیمت : 6 روپے
ماہنامہ ''میثاق'' ملک کا معروف دینی جریدہ ہے او رجنوری 1973ء میں انجمن خدام القرآن کے آرگن کے طور پر شائع ہورہا ہے۔ زیر نظر خصوصی اشاعت انجمن کی تیسری کانفرنس کی روداد اس میں پیش کیے گئے چند مقالات اور کراچی و سکھر کی مقامی انجمنوں کی رپورٹوں پرمشتمل ہے۔مقالات کی تفصیل یہ ہے۔
مسلمانوں کے قرآن حکیم سے بُعد اور بے گانگی کے اسباب یوسف سلیم چشتی
اقبال اور وجود مصدقہ خواجہ غلام صادق
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا خالد۔ ایم ۔ اسحاق
قرآن مجید کی معجزانہ تاثیر ڈاکٹر ذوالفقار علی ملک
اعجاز قرآن مولانا محمد مالک
فضیلت قرآن سید حامد میاں
شاہ ولی اللہ او رعلوم قرآن ڈاکٹر محمد مظہر بقا
قرآن اور تصور ملکیت مولانا محمد طاسین
مقالہ نفار حضرات ملک کے معروف اہل دانش ہیں۔ ان کی گفتگو ئیں فکر انگیز ہیں اور عمل کی دعوت دیتی ہیں۔