سورہ بقرہ
(قسط 20)
﴿
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (44) وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (45) الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ﴾
''کیا تم (دوسرے)لوگون سے نیکی کرنے کو کہتے ہو او راپنی خبر نہیں لیتے۔ حالانکہ تم کتاب (الہٰی بھی) پڑھتے رہتے ہو کیاتم (اتنی بات بھی )نہیں سمجھتے اور (مصائب کی سہار کے لیے) صبر اورنماز کا سہارا پکڑو او رالبتہ نماز سخت مشکل کام ہے مگر ان کے لیے (نہیں) جو خاکسار (اور سچے نیاز مند ) ہیں جو یہ خیال (پیش نظر) رکھتے ہیں کہ وہ (آخر کار) اپنے رب سے ملنے والے او راسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔''
1۔ (البر) نیکی کو کہتے ہیں، اس لفظ میں وہ تمام اعمال، اقوال اورمقاصد آجاتے ہیں جواسلام میں مطلوب ہیں اور دنیوی اور اخروی زندگی کی مبارک تعمیر کےلیے قرآن و سنت نے ان کا انتخاب کیاہ۔ بّر (نیکی) شجر حیات کی ان چند پتیوں، کلیوں اورٹہنیوں کا نام نہیں ہے ، جن کی اساس، جڑیں اورتنے مضمحل، کھوکھلے، بے جان ، بے روح اوربے آبرو سے دکھائی دیتے ہوں۔ بس چند جذباتی یانمائشی قسم کی ظاہری بعض رسموں او رکچھ عام قسم کی نیکیوں کے ذریعے بنیادی حقائق کو بہلانے کے خبط کو ''روحانی میدان مارنا'' تصور کیا جاتا ہو۔مثلاً
بعض ظاہری رسموں پرقناعت۔ بعض نیک اعمال پر قناعت کرنےاور دین کی بنیادی اقدار سے بے پرواہی برتنے کے باوجود اس خوش فہمی میں رہنا کہ دین کےتقاضے پورے ہوگئے۔
لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ(پ2۔ بقرہ ع22)
''(مسلمانو!) نیکی یہی نہیں کہ (نماز میں)اپنا منہ مشرق (کی طرف کرلو) یا مغرب کی طرف۔''
وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا (پ2۔ بقرہ ع24)
''اور یہ کچھ نیکی (میں داخل) نہیں ہےکہ گھروں میں ان کے پچھواڑے کی طرف سے آؤ''
گویا کہ چند ظاہری رسوم کو اختیار کرکے مطمئن ہوجانا، خوش فہمی تو ہوسکتی ہے ، دین نہیں ہے۔
خدمت خلق۔ خدمت خلق او رخانہ خدا کی دیکھ بھال بڑی چیز ہے، لیکن جو لوگ اس قسم کی خدمات کو دوسری دینی اقدار اور فرائض کا بدل تصور کرلیتے ہیں، وہ بہت بڑی ہوتی ہیں۔
أجعلتم سقاية الحاج و عمارة المسجد الحرام فرمایا! حقیقی نیکی یہ ہے کہ خدا کو مانیں۔ (جیسے ماننا چاہیے) قیامت میں اس کے حضور جواب دہی کااحساس رکھیں۔ چاہیے کہ وہ فرشتوں ، کتابوں، نبیوں کو برحق تسلیم کریں۔ اس کی راہ میں مال خرچ کریں، نمازیں قائم کریں، زکوٰۃ دیں، عہدکے پکے رہیں اور تنگی ترشی میں ہمت نہ ہاریں، یہ لوگ سچے بھی ہیں اور متقی بھی۔
لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (بقرہ۔ ع22)
سچی نیکی اس کی ہے جو پرہیزگاری اختیار کرتا ہے۔
ولٰكن البر من اتقى (بقرہ۔ع24)
خلق کے سلسلے کی جو خدمات ہوتی ہیں، وہ ایمان باللہ او راحساس آخرت او رجہاد فی سبیل اللہ جیسی چیزیں نہیں ہیں، وہ ان کی فرع ہیہں۔
كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَوُونَ عِنْدَ الله(توبہ ع3)
حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ :نیکی او رحسن معاملہ سےعمر بڑھتی ہے:
ولا یزید في العمراإلاالبر (ابن ماجہ عن ثوبان) والدہ کے ساتھ نیک سلوک اور برخوردارانہ نیکی بہت بڑی نیکی ہے:
کذالکم البر کذالکم البروکان أبر الناس بأمه (مشکوٰۃ)باپ کی وفات کے بعد ان کے دوستوں کے ساتھ نیکی کرنا بھی بہت بڑی نیکی ہے۔
من أبرالبرأھلة الرجل و دأبیه بعد أن یولی (مسلم۔ ابن عمرؓ) والدین کی وفات کے بعد ان کے لیے دعائیں، استغفار ، ان کے معاہدوں کا پاس، ان کے سلسلے کا صلہ رحمی او ران کے دوستوں کا احترام بھی نیکی ہے۔
الصلوٰة علیھما والا ستغفار لھما و إنفاذ عھد ھما أھلة الرحم التي لا توصل إلابھما وإکرام صدیقھما (ابوداؤد۔ عن الساعدی)
2۔
تنسون أنفسكم ۔ (خود فراموشی، اپنی بات کی ذمہ داری کا احساس نہ کرنا، اپنے مقام اور فریضہ سے بے خبری) اپنے آپ کو بھول جانا ایک بہت بڑا مرض ہے، ایک بات کو صحیح سمجھتے ہوئے اپنی ذات کے لیے اس کی ضرورت کا احساس نہ کرنا، لوگوں کو اس کی تبلیغ کرنا مگر خود اس سے غافل رہنا، ذہنی طور پر اعتراف حق کے باوجود اپنے بعض ذاتی مصالح اور مفاد عاجلہ کی بنا پر اس کو قبول کرنے یا اختیار کرنےکا حوصلہ نہ کرنا۔قلبی خلش کے باوجود ضمیر کی آواز اور قلب سلیم کی صدائے برحق پر بوجھ بن کر سطحی اغراض کے لیے راستہ صاف رکھنے کے خبط میں مبتلا رہنا، ایک بہت بڑی مہلک خود فراموشی ہے، لیکن بسا اوقات حق تعالیٰ کی طرف سے خود فراموشی کو جو ڈھیل مل جاتی ہے ، وہ سمجھ لیتا ہے کہ ، سب خیر ہے۔مگر وہ اتمام حجت کی بات ہوتی ہے آخر اس کو دھر ہی لیا جاتا ہے۔
فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ (پ7۔ انعام ع5)
پھر جن سے ان کو آگاہ کیا گیا تھا جب وہ (اس کو) بھول بسر بیٹھے (تو) ہم نے ان پرہر طرح کی نعمتوں کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ جو نعمتیں ان کو دی گئی تھیں جب ان کو پاکر خوش ہوئے (تو)یکایک ہم نے ان کو دھر پکڑا اورعذاب کا انا تھا کہ وہبے اس ہوکر رہ گئے۔
خدا بھی ان کو بھلا دے گا۔
فاليوم ننسهم (الاعراف ع6)
نسوا الله ننسيهم (توبہ ع9) جنہوں نےنتائج سے بے خبر ہوکر یوں زندگی گزاری جیسے ان کا خدا کوئی نہیں۔ ان کے لیے خدا کی طرف سے یہ سب سے بڑی سزا ہے۔
3۔
أنتم تتلون الكتٰب۔ (حالانکہ تم کتاب پڑھتے رہتے ہو) لوگوں کو امربالمعروف کرنا اور خود کو بھول جانا، اس کی سنگینی اس وقت اوربڑھ جاتی ہے جب وہ کتاب خواں بھی ہو۔ آنکھوں سے دیکھنے،کانوں سےسننے اور دل و دماغ سے سوچنے کے مواقع بھی میسر ہوں، اس کے باوجود وہ یوں جیتے ہوں، جیسے ان کو اپنے سرپیر کابھی ہوش نہیں اور نہ ہی ان کو خدا یاد ہے، تو ظاہر ہےکہ اب بے خبری او راندھیرے والی بات نہیں ہے کہ ان پر ترس کرنے کی کوئی سبیل بھی باقی رہ جائے۔ قرآن حکیم نے دوسری جگہ یوں ذکر فرمایا ہے:کہ یہ کتاب خواں کیا ہیں، بس گدھے ہیں اپنے پر کتابیں لدی ہیں۔
مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا(پ28 ۔ جمعہ ع1)
''جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا پھر انہوں نے اس پر عمل نہ کیا، ان کی مثال گدھے کی مثال ہے ، جس پرکتابیں لدی ہیں۔''
خدا کے نزدیک ایسے ذہنی عیاش او رباتونی ادمی بہت بُرے لوگ ہیں۔
لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (2) كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ (پ28۔ الصف ع1)
''وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرکے دکھاتے نہیں، یہ (بات)اللہ کو سخت ناپسند ہے کہ کہو (سب کچھ) اور کرو (کچھ بھی) نہیں۔''
خدا کےنزدیک شعراء اس لیےبُرے ہیں کہ وہ صرف دماغی عیاش ہیں، باتونی ہیں، کرتے کراتے کچھ نہیں۔
وإنهم يقولون مالا يفعلون (پ19۔ الشعراء ع11)
حافظ ابن القیم فرماتے ہیں کہ خدا فراموشی یا خود فراموشی جیسی غفلت او ربے ہوسی اچانک او ریکدم انسان پرطاری نہیں ہوجاتی بلکہ فسق و معصیت میں مسلسل غرق رہنے کے نتیجے میں بطور سزا اس پرطاری کردی جاتی ہے یعنی یہ اس کا قدرتی نتیجہ ہوتا ہے۔ گویا کہ اب خدا اس کو اپن ےحال پرچھوڑ دیتا ہے کہ جہاں جاکر وہ پہنچنا چاہتا ہے، جا پہنچے۔
وَمِنْ عُقُوبَاتِهَا: أَنَّهَا تَسْتَدْعِي نِسْيَانَ اللَّهِ لِعَبْدِهِ، وَتَرْكَهُ وَتَخْلِيَتَهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ نَفْسِهِ وَشَيْطَانِهِ، وَهُنَالِكَ الْهَلَاكُ الَّذِي لَا يُرْجَى مَعَهُ نَجَاةٌ..... وَأَعْظَمُ الْعُقُوبَاتِ نِسْيَانُ الْعَبْدِ لِنَفْسِهِ، وَإِهْمَالُهُ لَهَا، وَإِضَاعَتُهُ حَظَّهَا وَنَصِيبَهَا مِنَ اللَّهِ، وَبَيْعُهَا ذَلِكَ بِالْغَبْنِ وَالْهَوَانِ وَأَبْخَسِ الثَّمَنِ(الجواب الكافي لمن سأل عن الدواء الشافي ص46)قرآن حکیم نے ان کی اسی غفلت کےنتائج کا یون ذکر فرمایا ہے:
فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ(پ28۔الصف ع1)
''تو جب انہوں نے کجی اختیار کی (تو) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو (بھی )کج کردیا۔''
رحمت عالم ﷺ نے معراج کے سفر میں دیکھا کہ :آگ کی قینچی سے کچھ لوگوں کے ہونٹ کترے جارہے ہیں۔پوچھا تو جبرائیل امین نے بتایا کہ: یہ آپ کی امت کے خطیب، واعظ اور رہنما ہیں جو لوگوں کو نیکی کی تبلیغ کرتے تھے مگر اپنے کو بھلا ہی دیا تھا، یعنی جو کہتے اس پر خود عمل نہیں کرتے تھے۔
" رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي رِجَالًا تُقْرَضُ شِفَاهُهُمْ بِمَقَارِيضَ مِنْ نَارٍ قُلْتُ: مَنْ هؤلاءِ يَا جبريلُ؟ قَالَ: هؤلاءِ خُطباءُ أُمَّتِكَ يَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبَرِّ وَيَنْسَوْنَ أَنْفُسَهُمْ «. رَوَاهُ فِي» شرح السّنة «وَالْبَيْهَقِيّ فِي» شعب الإِيمان " وَفِي رِوَايَتِهِ قَالَ: «خُطَبَاءُ مِنْ أُمَّتِكَ الَّذِينَ يقولونَ مَا لَا يفعلونَ ويقرؤونَ كتابَ اللَّهِ وَلَا يعملونَ» (مشکوٰۃ بحوالہ شرح السنۃ والبیہقی)
قیامت میں ایک شخص کو لاکر آگ میں ڈالا جائے گا، تو اس میں اس کی آنتیں گر پڑیں گی پھر اس میں وہ چکی پیسنے والے گدھے کی مانند گھومے گا تو دوزخی جمع ہوکر اس سے پوچھیں گے : یہ کیا قصہ ہے ؟ کیا آپ وعظ نہیں کیا کرتے تھے، وہ جواب دیں گے کہ جی ہاں! پر بات یہ ہے کہ تمہیں سناتا تھا میں خود اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔
" يُجَاءُ بِالرَّجُلِ يَوْمَ القِيَامَةِ فَيُلْقَى فِي النَّارِ، فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُهُ فِي النَّارِ، فَيَدُورُ كَمَا يَدُورُ الحِمَارُ بِرَحَاهُ، فَيَجْتَمِعُ أَهْلُ النَّارِ عَلَيْهِ فَيَقُولُونَ: أَيْ فُلاَنُ مَا شَأْنُكَ؟ أَلَيْسَ كُنْتَ تَأْمُرُنَا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَانَا عَنِ المُنْكَرِ؟ قَالَ: كُنْتُ آمُرُكُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَلاَ آتِيهِ، وَأَنْهَاكُمْ عَنِ المُنْكَرِ وَآتِيهِ " (صحیحین عن اسامۃ)
کچھ بہشتی ، کچھ دوزخیوں کے پاس جائیں گے ، ہم نے تو آپ کی تبلیغ سے جنت پالی، آپ کودوزخ میں کیا شے لے گئی،وہ جواب دیں گے کہ ہم کہتے تھے کرتے نہیں تھے۔
" إِنَّ أُنَاسًا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَنْطَلِقُونَ إِلَى أُنَاسٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَيَقُولُونَ: بِمَ دَخَلْتُمُ النَّارَ فَوَاللهِ مَا دَخَلْنَا الْجَنَّةَ إِلَّا بِمَا تَعَلَّمْنَا مِنْكُمْ؟ فَيَقُولُونَ، إِنَّا كُنَّا نَقُولُ وَلَا نَفْعَلُ " (رواہ الطبرانی فی الکبیر ۔ ترغیب و ترہیب ص435)
حدیث سے معلوم ہوتا ہ ےکہ یہ اسلوب زندگی منافق کا ہوتا ہے،مسلم کا نہیں ،اور اسی کا اندیشہ ہے۔
ولکن أتخوف علیکم منافقاً عالم اللسان یقول ما تعرفون و یعمل ما تنکرون(طبرانی۔ ترغیب ترہیب ص435)
فرمایا کہ دوسرے کی آنکھ کا تنکا تو نظر آجاتا ہے لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر دکھائی نہیں دیتا۔
یبصر أحدکم القذاة في عین أخيه و ینسي الجزع في عینه (رواہ ابن فی صحیحه ۔ ترغیب ترہیب ص436)
فرمایا: جو شخص لوگوں کو درس دیتا ہے لیکن اپنا جائزہ نہیں لیتا، اس کی مثال چراغ کی ہے کہ دوسروں کو روشنی بخشتا ہے مگر اپنی جان کو پھونکتا ہے۔
مثل الذي یعلم الناس الخير وینسي نفسه کمثل السراج یضيء للناس ویحرص نفسه (رواہ الطبرانی و اسنادہ حسن۔ ترغیب ص435)
4۔
استعينوا (مدد لو، مدد چاہو ، سہارا لو، پشت پناہ بناؤ) دنیا میں ہرکام انسان خود انجام نہیں دے سکتا،اسے ایسے ذرائع کی ضرورت پڑ ہی جاتی ہے ، جو ہمت سے زیادہ کاموں میں کام دے سکتے ہیں او راس کی دو قسمیں ہیں۔
تحت اسباب۔ کچھ کام وہ ہوتے ہیں جوعموماً ایک دوسرے سے کرنے کو کہا جاتا ہے۔مثلاً دس روپے ادھار دو، یہ بھاری بوجھ ہے، اٹھانے میں تعاون کرو، پانی لادو، روٹی پکا دو، سوا لادو، مسکین کو کھانا کھلاؤ، میدان جنگ میں جہاد کے لیے نکلو وغیرہ وغیرہ یہ سبھی امور ''تحت الاسباب'' شمار ہوتے ہیں۔ اس قسم کے ذرائع اور وسائل سے کام لینا مشروع ہے، جائز ہے اور رخصت ہے۔
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (پ6۔ مائدہ ع1)
وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا(مائدہ ع3)
جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ (پ26۔ حجرات ع2)
فَابْعَثُوا أَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هَذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنْظُرْ أَيُّهَا أَزْكَى طَعَامًا فَلْيَأْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِنْهُ (پ15۔ الکہف ع3)
حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا (پ16۔الکہف ع10)
قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا(پ16۔کہف ع11)
الغرض: اسباب کی حد تک ایک دوسرے سے استعانت کرنا جائز ہے ،لیکن پھر بھی دو تین باتوں کوملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
ایک یہ کہ جو کام عزت نفس کے خلاف اورذوں ہمتی پر مبنی ہوں ان سے اسباب کی حد تک بھی مدد لیناشرعاً قبیح فعل ہے۔جیسے کسی کے سامنے ''دست سوال'' دراز کرنا،او ر مانگنے والوں کی طرح بھیک مانگنا۔
المسألة كدوح(ترمذی۔ سمرۃ)
دوسرا یہ کہ حتی الامکان وہ کام خود ہی انجام دے جن میں گو قدرے کلفت ہوتی ہے تاہم کیے جاسکتے ہیں جیسے اگر کوئی پاس نہ ہو تو عموماً وہ خود کرلیے جاتے ہیں۔کیونکہ یہ مقام ، مقام عزیمت ہے یہی وجہ ہے کہ آپ نے بعض صحابہ کو بتاکید فرمایا تھا کہ کسی سے سوال نہ کرنا۔ اب اگر سواری کی حالت میں ہاتھ سے کسی صحابی سے چھڑی گر جاتی تو پابہ رکاب رفقاء کے ہوتے ہوئے بھی اتر کر خود اٹھانے کی کوشش کرتے۔ کسی سے کہنے سے پرہیز کرتے۔
لیسئل أحدكم ربه حاجته كلھا حتى یسأله الملح وحتى یسأله ششع نعله إذا انقطع (مشکوٰۃ عن انس)
تیسرا یہ کہ: اسباب وذرائع او ران کی طبعی تاثیرات کا خلاق بھی اللہ تعالیٰ ہے، اس لیےداب الصالحین یہ ہے کہ :اب بھی رجوع رب کی طرف رہے اور اسی سے ہی تکمیل کےلیےدعائیں کی جائیں، مثلاً جہاد کرو ، پر دعائیں بھی رب سےمانگو۔
فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (پ2۔ بقرہ ع32)
تکلیف ہوجائے ، بیمار پڑ جائے تو دوا کرو اوردعا بھی۔
أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ (پ17۔ انبیاء ع6)
مناسب مقام کی تلاش بھی کیجئے! اور دعائیں بھی مانگیے۔
رَبِّ أَنْزِلْنِي مُنْزَلًا مُبَارَكًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ (پ18۔ مومنوں ع2)
دنیا کے دھندے بھی چلتے رہیں اور اصلاح حال کے لیے بھی رب سے درخواستیں کیجئے ۔
اللهم...... أصلح لي دنیاي التي فيها معاشي (مسلم عن ابی ہریرۃ)
ان قیود سے غرض یہ ہے کہ کسی بھی سٹیج پر بندہ خدا سےبےنیاز نہ رہنے پائے اور ذوں ہمتی کے جتنے امکانات ہیں بساط بھر ان کابھی سدباب ہوجائے۔
مافوق الاسباب۔ کچھ امور وہ ہیں جو اسباب او رانسانی بساط اور توفیق سے دراء الورا ہیں، ان کےسلسلے میں یہ ہے کہ ان کے لیے صرف رب سے واسطہ رکھے او راسی کی طرف ہی رجوع رہے کیونکہ خدا کے ماسوا جو بھی ہیں ، وہ ان کی حد تک ''سوالی'' سے کم محتاج نہیں ہیں۔ قرآن حکیم نے ان کی اس حیثیت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ (پ17۔ الحج ع10)
طالب (سوالی، فریادی)اورمطلوب (ماسوی اللہ کی ہر فریادرس شے) دونوں ہی بودے او ربےزورے ہیں۔
اس مسئلہ کا تعلق کسی عظیم ہستی کی عظمت ، تقدس اور شخصیت سے نہیں اور نہ ہی اس حیثیت سے یہ اس مسئلے کا حل ہے۔ اصل مسئلہ ''مافوق الاسباب'' کی تخلیق کا ہے کہ نیست سے ہست اور عدم سے وجود میں لانا کسی او رکے بس کا روگ بھی ہے یانہیں۔ اسباب سے سے ماور اء دنیا میں انسان ، عظیم انسان اور بزرگ تر انسان کی تگ و تاز ممکن بھی ہے یا نہیں، مثلاً مادی وسائل جب مفقود ہوں، سماعت کا مادی ذریعہ ہوا، کان او رجان ، جہاں بالکلیہ غائب ہوجائیں کیا ان ذرائع او راسباب سےبالاتر ہوکر کوئی انسانی ہستی سن سکتی ہے، زبان نہ رہے تو کیا وہ گویا ہوسکتی ہے، ہاتھ او رپاؤں اپنی مادی تاب دتواں کے بغیر کہیں چل سکے ہیں، دل و دماغ اپنی جاں نواز بہاروں سے بالاتر احساس اور سوچ سے ہمکنار رہ سکت ہیں۔ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو ظاہر ہے کہ ان امو رکےسلسلے کی تخلیقات کے لیے معروف مافوق الاسباب کا کوئی نیا سلسلہ ہوگا؟ اسی صورت میں اب ان مادی ذرائع سے کٹ جانے کے بعد پھر آپ کی کیسی سنیں گے او رسن کر کس طرح آپ کی ضرورت کے لیےمناسب تخلیق انجام دیں گے؟ بعص روایات سے پتہ چلتا ہے کہ:
مردے سلام سنتے ہیں، سلام کرنے والے کو پہچانتے ہیں بلکہ غسل دینے والوں ، کفنانے، اٹھانے والوں او رقبر میں اتارنے والوں کو بھی وہ پہچانتے ہیں او رعالم برزخ میں باہم وہ ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں۔لیکن بیشتر کی روایاتی حیثیت تسلی بخش نہیں ہے اور جو کسی درجہ میں قابل توجہ ہیں وہ خاص کو احناف کے نقطہ نظر سے مفید مطلب نہیں ہیں، کیونکہ احاد ہیں اس لیے آیات الہٰیہ کی مخصص نہیں ہوسکتیں۔ ہمارے نزدیک گو ایسا کوئی تکلف نہیں ہے تاہم وہ مجمل ہیں۔ قرآن حکیم نے اس کی نقاب کشائی کی ہے او روہ یہ کہ : مذکورہ سب باتیں ، اسباب عادی کے تابع نہیں ہیں، بلکہ وہ سب اللہ کی حیثیت او رحکمت کے تابع ہیں، وہ جب اور جیسا چاہتا ہے ان کوسنا دیتا ہے۔
وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ (پ22۔ فاطر ع3)
زندہ اور مردے برابر نہیں ہیں، اللہ میاں جس کو چاہتے ہیں بات کے سننے کی توفیق دیتے ہیں او رجو لوگ قبروں میں (مدفون ہیں) آپ ان کوسنا نہیں سکتے۔''
آیت نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ زندوں اورمردوں کی دنیا مختلف ہے۔یہ سرتا پا مادی اور وہ سرتاپا غیر مادی او رصرف برزخی۔ انسان اہل قبور کے لیے جن ذرائع کو استعمال کرسکتا ہے وہ صرف سرتاپا مادی ہیں لیکن وہاں مادی او راسباب و ذرائع کے تمام رشتے منقطع ہیں، اس لیے فرمایا کہ ان کوسنانا آ پ کے بس کی بات نہین ہے، ہاں اگر خدا مناسب سمجھتا ہے تو ان تک ان کو پہنچا دیتا ہے ۔ اسی مضمون کو قرآن نے یوں بیان فرمایا ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ (پ17۔ الحج ع10)
''لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے، پس اسے کان لگا کر (غور سے )سنیں۔ خدا کے سوا جن کو تم پکارتے ہو وہ ایک مکھی (بھی تو) پیدا نہیں کرسکتے، اگرچہ اس کے لیے وہ سب جمع بھی ہوجائیں او راگر مکھی ان سے کچھ چھین لے جائے وہ اس کو اس سے چھڑا بھی تو نہیں سکتے، طالب او رمطلوب (کس قدر) کمزور (اور بودے) ہیں۔''
یہاں پہلی چیز تو صرف تخلیق سے متعلق بیان کی گئی ہے کہ یہ بات ماسوی اللہ کے بس کے بات نہیں، اس لیے مافوق الاسباب سے متعلق ان توقعات قائم کرنا خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں، دوسری یہ بات بتائی کہ : تخلیق کی توفیق نہ سہی مادی اسباب سے متعلقہ امور کی انجام دہی بھی تو ان کے بس میں ان کے بس میں نہیں رہی،کیونکہ اب وہ اسباب اور تاب و تواں ہی ان میں نہیں رہی جن کے باعث زندگی میں یہ سب امور ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھے جاتے تھے، کیونکہ ان کے لیے جو بال و پر تھے، وہ اب ان کے پاس نہیں رہے۔ لہٰذا اس مرحلہ (مافوق الاسباب کی دنیا) میں غیروں کی راہ دیکھنا او ران سے درخواستیں کرنا، بنیادی اقدار کونہ سمجھ سکنے کانتیجہ ہے، ان کے بس میں نہ توفیق تخلیق کہ وہ نیست سے ہست کرسکیں او رنہ مادی وہ قوتیں جن کےذریعے کوئی گتھی ناخن تدبیر سے یا بازوئے شمشیر سے سلجھائی جاسکتی ہے۔اس کے باوجود اگر کوئی شخص کسی دوسرے ہستی سے آس لگائے بیٹھا رہے تو آکر جب آنکھ کھلے گی تو اسے پتہ چلے گا کہ یہ کس قدر فضول خوش فہمی تھی۔
قرآن کریم نے ان نادانوں کی یہ مثال کس قدر بصیرت افروز بیان فرمائی ہے کہ جب وہ امیدوں میں چور اپنے مقام پر پہنچے تو انہیں کچھ بھی ہاتھ نہ آیا،نہ کچھ دیکھنے میں آیا، دیکھا تو خدا سامنے تھا، اب کہاں جاتے ہو، جھولی ادھر کرو۔اپنے کیے کا پھل لو، ادھار نہیں کریں گے، نقد دیں گے اور ابھی حساب چکائے دیتے ہیں۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّى إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِنْدَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ (پ18۔ النور ع5)
''او رجو منکر لوگ ہیں ان کے اعمال،جیسے چٹیل میدان میں چمکتا ہوا ریت کہ پیاسا اس کو پانی خیال کرتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اس ک ےپاس آیا تو اس کو کچھ بھی نہ پایا اور (دیکھا تو )خدا کو اپنے پاس موجود پایا او راس نے (وہاں ہی)اس کا حساب چکا دیا۔''
استعانت کے باب میں یہ تفصیل ان دوستوں کے لیے مفید رہے گی جو اپنی عاقبت کی خیر چاہتے ہیں۔ واللہ ولی التوفیق بہرحال، تحت اسبب کے سلسلے کی استعانت ہو یا مافوق الاسباب؟ سب کے سلسلے میں حقیقی ''مستعان'' رب العٰلمین ہے۔
واللهُ المُستعانُ(پ12۔ یوسف ع2)
و رَبنا الرحمٰنُ المستعانُ (پ17۔ انبیاء ع7)
استعانت کی شے صر ف اللہ ہے۔
اس لیے سورہ فاتحہ میں حصر کے ساتھ فرمایا کہ یوں کہو۔
إياك نستعين (پ1۔ فاتحہ) صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
دنیا میں سب سے بڑی ''وجہ کشش'' اعانت ہوتی ہے، اس لیے جہاں سے یہ سبز باغ دکھاوی دیتے ہیںدنیا اسی طرف لپک پڑتی ہے۔ اس لیے قرآن نے اس کا سدباب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ :مستعان صرف اللہ ہے او راس سلسلے میں اسی کی طرف رجو ع کیا جائے او رصرف اسی کی طرف .... ورنہ اگر دوسرے مرکز توجہ بن گئے تو توحید کا باغ اجڑ جائے گا بلکہ شش جہات میں بٹ کر انسانی توجہ، انسان کو پریشان ، بے وفا اور بے خدا بنا ڈالے گی۔
5۔ بالصبر (صبر کے ساتھ، حوصلےکےساتھ)اسکے اصل معنی ہیں:نفس کو نفسانی دلچسپیوں اور اس کو اس کی بے لگام خواہشات سے باز رکھنا۔
أصل الصبر:منع النفس عمابها وکفها عن هواها (جامع البیان للطبری :1؍259)
بعض روایات سے بھی اس کی تاوید ہوتی ہے کہ :صبر دو قسم کا ہے: ایک محبوب چیزوں کے سلسلے میں خدائی حدود کو ملحوط رکھنا اور دوسرا خواہشات نفس کے علی الرغم یعنی طبیعت کو یہ جبر جس چیز کے لیے آمادہ کرنا پڑتا ہے ، اس کے لیے آمادہ کرنا او راس پر ثابت قدم رہنا۔
الصبر صبران، صبر على تکره و صبر على ماتحب (.....)
دکھ اور مصیبت میں صبر کا مفہوم تو معروف ہے، دلچسپیوں او ربہاروں کو دیکھ کر متوازن رہنا بڑے حوصلے کی بات ہے ۔حق تعالیٰ نے اس کی مثال قرآن میں قارون کی بیان کی ہے کہ اس کی ٹھاٹھ باٹھ کر دیکھ بہت سے دنیادار للچا گئے مگر باخدا لوگوں نے کہا کہ: یہ کچھ نہیں، رب کی طرف سے اجروثواب کی جو دولت ہاتھ لگے گی وہ سب سے بہتر ہے۔ مگر یہ کیفیت اہل صبر ہی کے حصے میں آئی ہے۔
فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ (79) وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ لِمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ (پ20۔قصص ع8)
بعض بزرگوں نے اسے یوں بیان کیا ہے کہ اپنی بپتا اپنے خدا کے بغیر کسی سے نہ کہنا، صبر کہلتا ہے۔
ترك الشکوى من ألم البلوى لغیر الله إلی اللهاس صبر سے غرض: ذلت کی زندگی پر قناعت کرنا نہیں ہے بلکہ بوجہ اللہ حق پراستقامت کا نام ہے۔
وَالَّذِينَ صَبَرُواْ ابْتِغَاء وَجْهِ رَبِّهِمْ(رعد ع3)
ولربك فاصبر (مدثر ع1) اس میں عزت نفس کا پاس بھی ہے ، مخمصہ سے مخلصی پانے کے لیے جائزامکانات کا جائزہ لینے کے سلسلے کا ایک وقفہ غور بھی۔ رجوع الی اللہ کے لیے یہ ایک مبارک تقریب بھی ہے او رطالبان حق کے لیے باد مکالف کے ہزاروں طوفانوں میں ''حق کے جھنڈا'' کوبلند رکھنے کا ایک حسین اسوہ حسنہ بھی۔ قرآن حکیم نے ان حقائق کو اپنے مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے۔
مصائب میں نعرہ مستانہ: صابر لوگ جب مصائب کے ہجوم میں گھر جاتے ہیں تو بدحواس نہیں ہوتے بلکہ کہتےہیں : ہم اللہ کے، اللہ ہمارا، اسی کے حضور حاضر ہونا ہے یعنی وہ قطعاً ضائع نہیں کرے گا ۔
وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (پ2۔ بقرہ ع19)
ان کا نعرہ مستانہ رنگ لاتا ہے او ررحمت الہٰی آگے بڑھ کر ان کا دامن تھام لیتی ہے۔
أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (پ2۔ بقرہ ع19)
ہمت نہیں ہاری: پانی سر سے گزر گیا تب بھی ہمت نہیں ہاری، اپنی کمزوریوں پرنظر ثانی کا موقعہ ملا او رحق پرثابت قدم رہنے کے لیے رب سے دعائیں کیں۔
فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ (146) وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ الایۃ (پ4۔ آل عمران ع15)
کیونکہ مصائب اللہ کسی کے سر پر نہیں بلکہ وہ انسان کی اپنی کمزویوں کا نتیجہ ہوتا ہے، اس لیے اس مرحلے پر اپنا جائزہ لینا خوشی بختی ہے۔
وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ(پ25۔ شوریٰ ع4)
ابتلاء سے غرض بھگانا نہیں بلکہ عزم و حوصلہ کے ساتھ ناساز گار حالات کامقابلہ کرنے والوں کی آزمائش مقصود ہے۔
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ الایۃ (پ26۔ محمد ع4)
اس لیے فرمایا: ہمت کے دھنی سچے ہوں تو وہ دُگنے دشمنوں پر چھا سکتے ہیں۔
إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ(انفال ع9)
قنوطیت او رمستی کے بیان بین : حق تعالیٰ نے ایک مثال کے ذریعے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ صبر قنوطیت کانام ہے نہ اترا کرمست ہو رہنے کا بلکہ خوشحالی میں شکرگزاری اور تنگی ترشی میں اس کی رحمت کی آس رکھنے کو صبر کہتے ہیں، جس کی نشانی یہ ہے کہ وہ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ نہیں رہتے بلکہ وہ ثابت قدم رہ کر مناسب اور عقدہ کشا اعمال صالحہ میں مصروف ہوجاتے ہیں: بس رحمت کے دروازے انہیں کے لیے کھول دیے جاتے ہیں۔
وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَئُوسٌ كَفُورٌ (9) وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ (10) إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ(پ12۔ ہود ع2)
صبر کشائش حال کا ذریعہ ہے، اندر ہی اندر گھٹ کر مرجانے کا نہیں بشرطیکہ خوف خدا شامل حال ہو اور پریشان حالی میں خلاف شریعت کرنے سے ڈرتا رہے۔
مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (پ13۔یوسفع10)
صبر جمیل۔ بزدلی ، دوں ہمتی اور شکوہ سے پاک حوصلہ ، صبر و ثبات کو صبر جمیل کہتے ہیں۔
فاصبر صبرا جميلا (پ29۔ معارج ع2)
فصبر جميل (یوسف ع2)
یہ اولوالعزم انبیاء کا اسوہ حسنہ ہے: اس لیے حکم ہوتا کہ ویسا ہی آپ بھی صبر سے کام لیں۔
فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ (احقاف ع4)
انہی کی صحبت اختیار کرو: صبر کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ باخدا بندوں کی صحبت میں رہیے۔
ان آیات نے ''صبر'' کی صحیح نقاب کشائی کی ہے کہ : صبر ، چپ چاپ دُکھ سہنے کا نام نہیں بلکہ ہوشربا گھڑیوں میں ہوش و عمل میں توازن قائم رکھنے اور آندھیوں میں اجالے کے سامان کرنے کے لیے پیہم عمل اور سعی و کوشش سے کام لینے کا نام ہے۔
یہ تو میرے دل میں تھا: نزول حق پرمتوقع مشکلات کے باوجود بول اُٹھتے کہ تامل اور ڈر کاہے یہ بات تو پہلے بھی میرے دل میں تھی۔ اس جرأت پر حق تعالیٰ انہیں دہرا اجر دیتے ہیں۔
وَإِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ قَالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهِ مُسْلِمِينَ (53) أُولَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا(پ20۔ قصص ع6)
صبر، حوصلہ کا نام ہے: صبر ذلت پر قناعت کرنے کو بھی نہیں کہتے بلکہ قدرت کے باوجود جذبات پر قابو پاکر درگزر کرنے کانام ہے۔ خدا کے نسدیک یہ عالی ظرفی ہی بہتر ہے۔
وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ (نحل ع16)
ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ (پ14 نحل ع14)
ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُوا السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ(پ14۔ نحل ع14)
مخبتین: اس میں فروتنی، مسکنت، عاجزی او ربے چارگی ہے مگریہ صرف خدا کے سامنے۔
وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ (34) الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِينَ عَلَى مَا أَصَابَهُمْ (پ17۔ انبیاء ع5)
اچھی آخرت صبر کا صلہ ہے: اسلام بہت سی گراں بار ذمہ داریوں کوقبول کرنے اور بہت سی دلفریب چیزوں سے الگ رہنے کا مطالبہ کرتا ہے مگر یہ چیز صرف اسے ہی حاصل ہوسکتی ہے جو ''صبر و حوصلہ'' رکھتے ہیں، جو اس مقام پرفائز ہوجاتے ہیں۔ملائکہ ان کوسلام کہیں گے۔اچھی آخرت بھی انہی صابروں کی ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (پ13۔ رعد ع3)
بات صرف آخرت کی ہی نہیں دنیا میں بھی اس کے نظارے کیے جاسکتے ہیں۔
بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ (پ4۔ آل عمران ع13)
اگر آپ نے صبر و تقویٰ کو شعار بنا لیا تو دنیامیں دشمن آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے۔
وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا(پ4۔ آل عمران ع12)
امامت: صبر و ثبات او ریقین محکم کے ساتھ جو لوگ دین حق پر قائم رہتے ہیں حق تعالیٰ ان کو امامت پرفائز کردیتے ہیں۔
وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ(پ21۔ سجدہ ع3)
جب تک بنی اسرائیل بھی اس راہ پر گامزن رہے تو ان کےساتھ بھی یہی معاملہ کیا۔
وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا(اعراف ع16)
اور عملوں سے کہیں بہتر دیتے ہیں۔
وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ(پ14۔ النحل ع12)
اللهم اجعلنا منهم إنك علی کل شيء قدیر ۔آمینکیونکہ خلاف شریعت جتنا او رجیسا کچھ سرزد ہوتا ہے وہ اسی بے صبری کا ہی تو نتیجہ ہوتا ہے کہ: انسان حدود اللہ پامال کرجاتا ہے او رمفاد عامہ کی سطحی سی تحریک پرشریعت مطہرہ کو پس پشت ڈال کربھاگ کھڑا ہوتا ہے۔
کیا آپ صبرکریں گے؟ چونکہ صبر کو ملاک الامر کی حیثیت حاصل ہے اس لیے اللہ تعالیٰ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ:
کیا ارادہ ہے؟ صبر کرو گے یا نہ؟
أتصبرون (پ19۔ الفرقان ع2)
بلکہ دوسروں کوبھی اس کی وصیت کرو: صرف خود نہیں، دوسروں کوبھی ایسے صبر کی تلقین کیا کرو کیونکہ برادران ملت کے ساتھ یہ سب سے بڑی نیکی ہے۔
ثبات علی الباطل: اہل باطل بھی باطل کی راہ میں صبر و ثبات کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔چونکہ یہ ایک مادی ذریعہ بھی ہے اس لیے دنیا کی حد تک ہوسکتا ہے کہ اس کوفائدہ دے جائے مگر اخروی لحاظ سے ان کا یہ صبر و ثبات ان کے لیے وبال بن جائے گا۔
إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ آلِهَتِنَا لَوْلَا أَنْ صَبَرْنَا عَلَيْهَا وَسَوْفَ يَعْلَمُونَ حِينَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِيلًا(پ19۔ الفرقان ع4)
أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَى آلِهَتِكُمْ(پ23۔ ص ع1)
قیامت میں بھی وہ کہیں گے کہ اب جزع فزع کریں یاصبر و حوصلہ سےکام لیں۔ سب بے کار ہے۔
أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَحِيصٍ(پ13۔ ابراہیم ع3)
صبر مطلوب نہیں کہ جو کرے او رجس بات پر کرے، کام آئے۔ یہ تو حق کے حصول کا ایک ذریعہ ہے اس لیے اگر مقصد پاکیزہ ہے تو اچھارنگ لائے گاورنہ نہیں۔ ہاں دنیا میں جوقومیں اپنے مقاصد کے لیے صبر و عزم کے ساتھ کام لیتی ہیں، دنیوی حد تک ان کے لیے مبارک ہی ثابت ہوتا ہے۔ اگر مقصد صالح نہیں ہوتا تواخروی جوابدہی کا وبال بہرحال دوبالا ہوجائے گا۔ تاہم صبر بالکلیہ ضائع نہیں ہوسکتا۔ عارضی سہی بہرحال ایک حدتک کبھی کام آہی جاتا ہے ۔اگرمقصد بھی پاک ہو تو پھر اس کی سرفرازیوں کےکیا ہی کہنے؟
استعانت بالصبر: بہرحال قرآن نے ''استعانت بالصبر'' کا حکم دیا ہے تو اس سےمراد وہ صبر ہے جس کی تفصیل اوپر کی سطور میں گزری ہے۔جوبھی مسلمان ان خطوط پر صبر و حوصلہ کاشعار بنائے گا یقین کیجئے وہ کبھی درماندہ نہیں رہے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
الصلوٰۃ : استعانت بالصبر کے ساتھ قرآن حکیم نے ''الصلوٰۃ'' نماز کا بھی ذکرکیا ہے ک ہاپنے مشکل اوقات میں''نماز'' سے مدد حاصل کرو۔
نماز کیا ہے؟ اس کی پوری تفصیل شروع کے رکوع میں گزر چکی ہے۔
قرآن حکیم نے دوسرےمقام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کےذکر میں فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا تھا:
استعينوا بالله واصبروا (پ9۔ اعراف ع15)
اللہ سےمدد مانگو اور صبر سے کام لو۔
اللہ سے مدد مانگنے کے مختلف طریقے ہیں۔
1۔ ایک یہ کہ: اس سے دعائیں کی جائیں کہ حق وصداقت کے اس مرحلے میں ہماری مدد فرما ۔ رحمت کے دروازے کھل جائیں گے۔
وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (پ8۔ اعراف ع5)
2۔ ان کے احکام کی روشنی میں زندگی کا سفر جاری رکھا جائے اور خصوصی کیس میں، اس سلسلے کے الہٰی حدود کوملحوظ رکھ کر محنت کی جائے۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (پ14۔ النحل ع12)
3۔ تیسرا طریقہ نماز کا ہے، جیسا کہ زیر تفسیر آیت میں ذکر آیا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کااسوہ حسنہ بھی یہی ہے کہ:
جب آپ پرمشکل وقت آتا تو آپ نماز پڑھتے۔
إذا حزبه أمر فصلیسفر میں حضرت ابن عباس کو اپنے بھائی کے انتقال کی خبر پہنچی تو
إنا للہ وإنا إلیه راجعون پڑھ کر راستہ سے ایک طرف ہوگئے اور سواری سے اتر کر لمبی دو رکعت نماز نفل پڑھی، پھراُٹھ کر سواری کی طرف چل پڑے اور
واستعينوا بالصبر والصلوٰة آیت پڑھی (ابن جریر طبری:1؍260)
4۔ چوتھا طریقہ صبر کا یہ ہے کہ جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے: صبر کامفہوم بھی یہی ہے کہ خدا کا سہارا لے اور اس کے تقاضے دل کی سچی پیاس سے پورے کرے او ریہ بات خدا کی توفیق کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔
وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ (پ14۔ النحل ع16)
جومسنون صبر سے کام لیتے ہیں،انجام انہیں کا اچھا رہتا ہے، گویا صبر تقویٰ ہے اور تقویٰ صبر۔
فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ (ہود ع4)
مخالف کچھ کہیں، آپ صبر سے کام لیں اور خدا کی یاد میں لگے رہیں۔
فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ الایۃ (طہٰ ع8)
دشمن دین آپ کے حوصلہ پست کرنےکی کوشش کریں گےلیکن آپ ہمت نہ ہاریں ، یقین رکھیں اللہ کے وعدے سچے اور برحق ہیں۔
فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ (الروم ع6)
برداشت کا یہ وقفہ، وقفہ بے کار نہیں ہے بلکہ اس سلسلے کی ہدایات الہٰی کے مطالعہ کاوقفہ ہے پوزیشن لےکرپھر حالات کے مقابلے کے لیے میدان میں اتر آنا چاہیے۔
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوتِ(پ29۔ قلم ع2)
بے دین او رغلط کاروں کے پیچھے لگ کر ربانی ہدایات کا دامن نہ چھوٹنے پائے۔
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا(دھر ع2)
رسول پاک ﷺ کا ارشاد ہے کہ مومن سراپا خیرو برکت ہے۔ خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے اور بُراوقت آتا ہے تو صبر کرتا ہے:
إن الأمرکله له خیر .....إن إصابته سراء شکر فکان خیراله وإن أصابته ضراء فکان خیراله (مسلم)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ہم تمہیں آزماتے ہیں خاص کو سختیوں کی کٹھالی میں ڈال کر۔ یہاں تک کہ دشمن بھی ہنسنےلگتے ہیں، اس پربھی وہ صبر اورحوصلے سے کام لیتے ہں تو ہم ان کو سلام کہتے ہیں۔
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ(پ2۔بقرہ ع19) لَ
تُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ(پ2۔ آل عمران ع19)
فرمایا: ہم ان بہادروں کا ساتھ دیں گے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (پ2۔ بقرہ ع19)
گویا کہ یہ چاروں امور استعینوا باللہ اور ما صبرک الا باللہ کا خارجی پر تو ہیں، جو ان ذرائع سے استعانت کی ''درخواست'' کرتا ہے ۔وہ گویا کہ خدا کے حضور پیش ہوکر اسی سے التجا کرتا اور استعانت طلب کرتا ہے ۔ یہ استعانت بھی، قرآن حکیم کی ایک نرالی اصطلاح ہے۔ یہاں اعانت کےلیے درخواست ہےنہ دعا۔ پھر اسے معروف معنوں میں ''درخواست اعانت'' کیسے تصور کیاجائے، یہاں تو ایک ایسا سراپا پیش کیاجارہا ہے جو سراپاکردار اور عمل ہے، ہاں اسے زبان حال کہہ سکتے ہیں۔
اصل میں استعانت کی یہ قرآنی شکل ''اپنی مدد آپ'' کی ایک حکیمانہ صورت ہے۔ اس سےغرض یہ ہے کہ :ایسےغیروں پر بھروسہ کرنے ، کسی کا بھکاری بننے، دوں ہمتی کے مرض میں مبتلا ہونے اور غیر خدا کے حضورکاسہ گدائی پیش کرنے کی عادت نہ پڑے، بلکہ ضرورت ہے کہ اسے اپنی دنیا آپ تخلیق کرنے کا شعور بخشا جائے۔ گویاکہ تعمیر سیرت کا یہ ایک ایسا انداز ہے کہ اگر کوئی فرد یاقوم اس مقام پر فائز ہوجاتی ہے تو بحر و بر کی زمام قیادت اس کے حوالے کردی جاتی ہے، زبان سےخود نکلتا ہے پورا ہوتا ہے، جدھر کا رخ کرتاہے،راستے ہموار ہوجاتے ہیں،ہاتھ اٹھتے ہیں تو ابر باراں بن جاتے ہیں، انگلی کےاشارہ سے قمر دو نیم ہوجاتا ہے، اُجڑے اور خشک کنویں میں تھوک دیں تو اس میں پانی لہریں لینے لگے کیونکہ گفتہ اُو گفتہ اللہ بود۔ لیکن اس میں اتنی احتیاط ملحوظ رکھی گئی ہے کہ :اپنی حیات طیبہ کی یہ برکتیں دیکھ کر وہ خود خدانہ بن بیٹھے، اس لیےصبر کی مختلف صورتوں میں خدا کی حیثیت اور رضا کو ملحوظ رکھنے پر زیادہ زو ردیا گیا ہے اورنماز میں خدا کاپورا غلام بناکر اس کے خود خدا بننےکے سارے امکانات بھی قتاہ کردیئے گئے ہیں۔ ہاں ایسے صبر او رایسی نماز کاحامل بندہ مومن بہت بڑی اکسیربن جاتا ہے۔مشکلیں تو معمولی بات ہے موت کے پہاڑ بھی اس سے ٹکرا جائیں تو پاش پاش ہوجاتے ہیں۔ اس لیے فرمایا، صبر و نماز کا سہارا لے کر مشکلوں پر قابو پانے کی کوشش کرو۔ یعنی یوں خدا کے ہوکر دکھاؤ او رامان پاؤ۔
حضورﷺ کا ارشاد ہے:جب مانگنا ہو، خدا سے مانگیے اور جب مدد درکار ہو تو خدا سے مدد مانگیے۔
اذا سئالت فاسأل الله وإذا استعنت فاستعن بالله(مشکوٰۃ)
6۔
إنها لكبيرة (یقین کیجئے! وہ نماز یا استعانت سخت مشکل کام ہے) لوگ معروف معنوں میں صبر بھی کرلیتے ہیں او رنمازیں بھی پڑھ لیتے ہیں مگراستعانت کے سلسلے میں، صبر و صلوٰۃ یعنی صرف خدا پرقناعت کریں، بہت مشکل ہے۔ خاص کر استعانت کے سلسلے میں کتاب و سنت کی ہدایات کو ملحوظ رکھ کر چلیں۔ ان کے لیے اور ہی مشکل ترین بات ہے ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ : نماز روزے کے بڑے پابند ہوتے ہیں مگر جب استعانت کی باری آتی ہے تو بے صبری کاشکار ہوکر دوسرے آستانوں کی تلاش کو اُٹھ دوڑتے ہیں۔ اگر ان سے کہا جائے کہ: ہوش کرو، خدا کا آستان چھوڑ کر، صبر و نماز کی راہ ترک کرکے غیر اللہ کے دروازہ پردستک دینے کو بے قرار ہورہےہو تو یوں محسوس کریں گے جیسے کسی نے ان کو گولی مار دی ہو۔ ہمارے نزدیک سب سے بھاری اور مشکل مرحلہ یہی استعانت کا ہے۔ خدا کے حضور جھک جانے کے باوجود ،اوہام پرست پیشانیوں میں غیروں کے آستان پرجھکنے کی بے چنیاں بھی جوان رہتی ہیں۔اس لیے فرمایا کہ یہ مرحلہ ''کارے دارد'' والی بات ہے۔
اگر نماز مراد لی جائے جیسا کہ جمہور کا نظریہ ہے تویہ ہوسکتا ہے کیونکہ لوگ دکھ سہنے کو سہہ لیتے ہیں مگر نماز کےلیے خدا کے حضور جھکنے کی توفیق نہیں پاتے، یہ عبادت ان کے لیے حد درجہ کی شاق ڈیوٹی ہے۔ سولی چڑھ جانا ان کے لیے اتنا مشکل کام نہیں جتنا پانچ وقت خدا کے حضور حاضری دینا دشوار ہے۔
7۔
إلا الخٰشعين (مگر جو جُھک جانے والے خاکسار، نیاز مند ہیں او ردھڑکتا دل رکھتے ہیں) دراصل یہ وہ فروتنی ہے جو قلبی احساسات کے نتیجے میں اعضاء اور جوارح پر طاری ہوجاتی ہے ۔ کہتے ہیں کہ دل کی فروتنی ، عاجزی اورخاکساری کا نام خضوع ہے او رجوارح کی عاجزی کا نام خشوع مگر مابعد کی آیت سے تعلق کی بنا پر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خشوع سے مراد، دل کی ہی دھڑکنیں خشیت اور عاجزی ہے۔ ویسے بھی قرآن نے اس لفظ کو دل کے احساسات سے الگ رکھ کر صرف ظاہری اعضاء کی عاجزی اور فروتنی کے لیے استعمال کیا ہو، مجھے یاد نہیں پڑتا۔مثلاً بعض اہل کتاب کے اعیان کے سلسلے میں کہا ہے کہ اللہ سے خشوع کرتے ہوئے ایمان لائے ہیں۔
وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِله(پ4۔ آل عمران ع20)
ظاہر ہے اس سے دل کا ہی خشوع مراد ہے۔
انبیاء کے بارے میں فرمایا: وہ ہمارے آگے خشوع کرنے والے تھے۔
وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ (پ17۔ انبیاف ع6)
فرمایا: نماز میں خشوع کرتے ہیں۔
الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ(پ28۔ مومنون ع1)
نماز میں ظاہری فروتنی ہوتی ہے۔ اس پر مزید خشوع طاری کرنے کے کیا معنی ؟ یہی ناکہ: دل کی نیازمندی کے ساتھ پڑھتے ہیں!
بعض روایات میں آیا ہے :کہ ایک شخص نماز میں اپنی ڈاڑھی سے کھیل رہا تھا، حضورﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضا بھی خشوع کرتے۔
لو خشع قلبه لخشعت جوارحه (اسرار اللغۃ مع انوار اللغۃ)
اس لیے ہمارے نزدیک ،خشوع سے مراد ظاہری جوارح کی وہ عاجزی ہے جو دل کے خشوع کے نتیجےمیں ہو۔
یہاں اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ:
قرآنی استعانت یا نماز کا اہتمام ہر شخص کا کام نہیں، ایسی مبارک قرآنی استعانت یا نماز کے حامل وہی لوگ ہوسکتے ہیں ، جن کے دلوں میں خدا کی شرم ، احساس ممنونیت یا خشیت اور آس پائی جائے گی۔
دوسرے نہیں.......
8۔ ي
ظنون (جو خیال رکھتے ہیں، جو سمجھتے ہیں او رجو یقین کرتے ہیں) ظن گمان کے معنی میں آتا ہے لیکن یقین کے معنی میں آیاہے۔ ظن یہاں اسی مناسبت سے استعمال کیا گیاہے: بہرحال وہ فی الحال آنکھوں دیکھی شے نہیں ہے۔یہی قول ابن زید کا ہے۔
لأنهم لم یعانبوا فکان ظنهم یقیناً وليس ظنا في شك (ابن جریر :ص262)
9۔
ملقوا ربهم الایۃ (اپنے رب سے ملنے والے ہیں)
یعنی استعانت باللہ یا نماز کی راہ صرف وہی لوگ اختیار کرسکتے ہیں جو قیامت میں اپنے رب کے حضور شرف باریابی کا سودا رکھتے ہیں او رانہیں خدا کے دربار میں پیش ہونے او رحساب دینے کا یقین حاصل ہے۔
استعانت بالصبر او راستعانت بالصلوٰۃ ،جہاں صلاح و فلاح کا قرآنی نسخہ ہے وہاں تعلق باللہ میں استواری کا ایک پاکیزہ او رپائیدار ذریعہ بھی ہے جو اس میں جتنا راسخ ہوگا، اتنا ہی اس کو خدا سے ملنے او رشرف باریابی حاصل کرنے کا شوق بھی دامنگیر ہوجائے گا۔ اللھم اجعلنا منھم۔
فقہ القرآنپ(1) ع(5)
احساس ممنونیت: رب کے احسانوں کو یاد رکھنا، تعلق باللہ کی استواری کا ذریعہ اور قدر شناسی کی نشانی ہے۔ (
اذكروا نعمتي)
ا
یفائے عہد: ایفائے عہد، بالخصوص جو عہد خدا کے نام پرکیے جائیں، اس کی پابندی ضروری ہے اور اس سے فرار کے لیے بہانے تلاش کرتے ہوئے یا خفیہ تدبیروں سے کام لیتے ہوئے خدا سے ڈرنا چاہیے۔ (
وإياي فارهبون)
بدی کی طرح ڈالنا: بدی کوئی کرے، بُری ہوتی ہے، لیکن جو شخص اس کی طرح ڈالتا ہے او رابتداء کرتا ہے۔ وہ بدی سب سے بُری اور متعدی بدی ہوتی ہے، جو جو شخص اس راہ کو اختیار کرے گا، اس کی نحوست میں سے اس کو حصہ ملے گا۔ اس لیے فرمایا : تمہیں انکار میں پہل نہیں کرنی چاہیے۔ بدعت میں بھی اس کا یہ پہلو مضمر ہوتا ہے، کیونکہ یہ بھی ایک گونہ ''نئی طرح'' ہوتی ہے۔(
ولاتكونوا أول كافربه)قرآن فروشی: مفاد عاجلہ کی خاطر قرآنی تقاضوں کی تعمیل سے پرہیز کرنا، قرآن فروشی ہے (
لا تشترو ا بآياتي)
تلبیس : حق، باطل کی آمیزش سےباطل بن جاتا ہے لیکن حق کی آمیزش سے باطل حق نہیں بنتا۔ جیسے دودھ کےمٹکے میں پیشاب کی ایک بوند تو اسے بیکار کردیتی ہے لیکن پیشاب کے ایک پیالہ میں دودھ کا ایک مٹکا اسے دودھ نہیں بنا دیتا۔ (
لا تلبسوالحق بالباطل)
کتمان حق: حق چھپانا خاص کر جان بوجھ کر ، حق کشی ہے،قتل ناحق ایک گھناؤنا فعل ہے لیکن ''حق کشی'' تو اس سے بھی بڑھ کر ''سنگین جرم'' ہے۔ (
ولا تكتموا الحق) ...... افسوس! اس مرض میں عموماً سیاسئیین سوء، کلامی اور فقہی گروہ زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔
اقامت نماز: نماز گو پڑھی جاتی ہے لیکن نماسی کو حکم اقامت نماز کا ہے، یعنی خدا کے حضور حاضری دینے کے بعد پھر اس سے غائب ہونے کے فتنے سے بچنے کی کوشش کرے۔نماز میں نمازی کا جو حال ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک نماز پنجگانہ سے زیادہ بھاری ''اقامت نماز'' کا فریضہ ہے، پنجگانہ نماز میں، جائے نماز یا نماز کے ٹائم میں نماز کی پابندی ہوتی ہے لیکن اقامت نماز کا فریضہ پوری زندگی کے پورے شئون اور احوال و ظروف کو محیط رہتا ہے۔اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ:
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ (پ20۔ عنکبوت ع5)
آپ نماز قائم کرتے رہیں، کچھ شک نہیں، نماز بے حیائی اور ناشائستہ حرکتوں سے روکتی ہے، او ریاد خدا بڑی چیز ہے او رجوکچھ تم لوگ کرتے رہتے ہو اللہ جانتا ہے۔
اسی آیت کا سیاق ان امور پر واضح روشنی ڈالتا ہے ، جو ہم نے ''اقامت صلوٰۃ'' سے اخذ کیے ہیں۔
قرآن و حدیث میں نمازی کے لیے ''خاشع'' اور نماز کے لیے ''خشوع'' کا ذکر آیا ہے۔ خاشع وہی ہوتے ہیں جو رب تعالیٰ کی معیت کے تصور سے موّدب رہتے ہیں۔ یہ بھی ''اقامت نماز'' کی ایک صورت ہے۔
ایتائے زکوٰۃ : زکوٰۃ ایک ایسی سرکاری ادائیگی ہے، جس سے کوئی بھی مستطنیع شخص مستثنیٰ نہیں ہے۔زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے قانونی دباؤ کے ساتھ '''تزکیہ'' کا احساس بنیادی حیثیت رکھتا ہے، یعنی اس جذبہ سے دیتا ہے کہ گھٹنے کے بجائے مال اور بڑھے گا، اور ساتھ ہی دل کی پاکیزگی میں بھی اضافہ ہوگا جس کی بدولت کوئی بندہ مومن خدا کے حضور حاضر ہونے کے قابل ہوسکتا ہے، کیونکہ اسے مال و جان سے زیادہ خدا محبوب ہوتا ہے۔
رکوع رہنے والوں کے ساتھ رہو: رکوع ایک تو وہی ہے جو نماز میں کیا جاتا ہے یعنی باجماعت نماز پڑھا کرو ، دوسرا یہ کہ: یہ بھی اقامت نماز کی ایک صورت ہے کہ: احکم الحاکمین کے حضور یوں مؤدب رہا کرو۔ تیسرا یہ کہ: حنیف بن کر جیو اور تمہارے تصورات کا محور اسی کی ذات ہو او رایسی ہی قابل رشک ہستیوں کی صحبت اختیار کیا کرو۔
کانت العرب في الجاھلیة تسمع الحنیف راکعاً إذا لم یعبد الأوثان و یقولون رکع إلی الله(تاج العروس)
فقہ القرآن : تبلیغ۔ امر بالمعروف، دعوت حق اور تبلیغ دین ، دینی فریضہ ہے بشرطیکہ داعی اور مبلغ خود ننگ دعوت نہ ہو، خاص کر جو حضرات کتاب و سنت کا علم بھی رکھتے ہیں، وہ اگر کہیں کچھ اور کریں کچھ، تو ان کی زندگی کا یہ تضاد نہ صرف ان کے لیے مضحکہ خیز ہے بلکہ جس حق و صداقت کی سربلندی اور نشرواشاعت کے لیے وہ کوشاں ہوتا ہے اس کا بھی بیڑا غرق کرتا ہے او راس کے مستقبل اور نیک شہرت کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ اس لیے اسلام میں یہ ایک خطرناک معصیت ہے۔
استعانت: مشکلات میں خدا کے حضور حاضری دینا او رصرف اسی سے اپنی بپتا کہنا، قرآنی نقطہ نظر سے ''جائز استعانت'' ہے بلکہ دینی فریضہ ہے، یعنی ہمت نہ ہاریں، پیش آمدہ مشکلات کےسلسلے کی دینی ہدایات کا دامنہ نہ چھوڑیں۔
صبر: ع جاں رسد بجاناں یا جاں زتن برآید
کی راہ پر گامزن رہنا''صبر '' کہلاتا ہے۔
صلوٰۃ : او رخدا کے حضور نماز ادا کرکے یوں کھو جائیں کہ:
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
خاشع: اپنی مشکل میں ''صبر جمیل اور نماز مسنون'' کے ساتھ اللہ کے حضور ''صورت سوال'' پیش ہونا صرف ان لوگوں کے لیے ممکن ہے جوپوری اور سچی فروتنی کے ساتھ یہ یقین رکھتے ہیں کہ جب بالآخر اسی کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے تو پھر ابتداء اسی سے کیوں نہ کریں۔
جن کی یہ کیفیت نہیں ہوتی، ان کو او رکیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں؟ خدا ہی بہتر جانتا ہے بہرحال اتنی سی بات تو سب واضح ہے کہ وہ لوگ ہرجائی ہوتے ہیں اس لیے وہ صرف خدا پر قناعت نہیں کرتے ، بلکہ حق کے ساتھ باطل کی آمیزش کرکے، تعلق باللہ کو داغدار کرلیتے ہیں: اس کے باوجود اس پران کا دل بھی باغ باغ ہوجاتا ہے۔
وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ(پ24۔ زمر ع5)
اور جب خدا کے سوا دوسرے باطل سہااروں کا ذکر کیاجاتاہے تو بس یہ لوگ خوش ہوجاتے ہیں۔
قیامت: مؤخر الذکر آیت میں قیامت کاذکر آیا ہے ۔ اس سلسلے کی مناسب تفصیل چھٹے رکوع میں آئے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔