کیمیائی تبدیلی کے بعد، حرام جانوروں کی ہڈی کی حلّت و حُرمت کا مسئلہ

ایک استفتاء، علمائے احناف کے جوابات اور کتاب و سنت کی روشنی میں صحیح حل
لینر پاک جیلیٹین لمیٹڈ (Leinor Pak Gelatine Limited)کالاشاہ کاکو کے مینجنگ ڈائریکٹر جناب خواجہ امتیاز احمد صاحب نے درج ذیل سوال اٹھایاہے:
'''ہمارے کارخانے میں مندرجہ ذیل اشیاء تیار ہوتی ہیں:
1۔ ڈائی کیلشیم فاسفیٹ
2۔ جیلیٹین

یہ اشیاء جانوروں کی ہڈیوں کو مختلف مراحل پرکیمیائی اثر کے تحت گزار کر مندرجہ ذیل طریقے پر تیار کی جاتی ہیں:
(الف) جانوروں کی ہڈیاں مختلف کارخانوں میں جمع ہوتی ہیں، دھوپ میں خشک ہوتی ہیں، پھر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑی جاتی ہیں۔ اس کے بعد ہمارے کارخانے میں لائی جاتی ہیں۔
(ب) ہم اس ہڈی کو کاسٹک سوڈا کے محلول میں دھوتے ہیں تاکہ ہر قسم کی چکنائی اور رطوبت دور ہوجائے۔
(ج) اس کے بعد یہ ہڈی نمک کے تیزاب میں ڈالی جاتی ہے۔جہاں پر کہ ای کیمیائی عمل ہوتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں ہڈی مندرجہ ذیل دو اجزاء میں تقسیم ہوجاتی ہے۔
(1) اوسین

(Ossein)(2) ڈائی کیلشیم فاسفیٹ(Di Clacian Phosphate)


(د) ڈائی کیلشیم فاسفیٹ (جو کہ دو معدنیات ، کیلشیم اور فاسفیٹ کامرکب ہے)مختلف استعمال میں لایا جاتا ہے۔جن میں تین بڑے استعمال یہ ہیں:
1۔ مرغیوں اور مویشیوں کی خوراک کے جزو کے طور پر۔
2۔ دوائیوں میں۔
3۔ بچوں کی خوراک ، مثلا فیریکس (Farex)وغیرہ میں۔


(ہ) اوسین پر مندرجہ ذیل مزید کام کرکے جیلیٹین بنائی جاتی ہے۔
اوسین کوچالیس سے ساٹھ دن تک چونے کے محلول میں رکھا جاتاہے۔ پھر دھویا جاتا ہے۔اس کے بعد پلانٹ پر ایک لمبے کیمیائی عمل کے ذریعے جیلیٹین نکالی جاتی ہے۔

(و) جیلیٹین مختلف استعمال میں آتی ہے۔کھانے پینے کی چیزوں میں، مثلاً کھانے کی جیلی اور گولی مٹھائیاں وغیرہ، دوائیوں میں، اس کے علاوہ صنعتی استعمال میں، مثلاً فوٹو گرافی او رایکسرے فلموں کی تیاری میں۔

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں التماس ہے کہ مندرجہ ذیل تین صورتوں میں ہر دو اشیاء (یعنی ڈائی کیلشیم فاسفیٹ اور جیلیٹین)کے شرعاً حلال اور پاک ہونے کے بارے میں فتوےٰ جاری فرمایا جائے تاکہ ہردو اشیاء کے استعمال (خصوصاً کھانے پینے کی اشیاء) کے سلسلے میں اطمینان قلب حاصل ہو:
1۔ اگر ہڈیاں صرف حلال جانور (ذبیحہ اور مردار ) کی ہوں۔
2۔ اگرنادانستہ طور پرممکنہ احتیاط کے باوجود مکروہ حرام جانور مثلاً گھوڑے اور گدھے کی ہڈیاں برائے نام شامل ہوجائیں۔
3۔ مندرجہ بالا مراحل سے گزرنے کے بعد تمام ہڈیاں کی ہیئت تبدیل ہوجاتی ہے۔ والسلام

دارالافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور کا فتویٰ:
اس استفتاء کا جواب، دارالافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور نے یوں دیا ہے:
''الجواب مبسملا و محمد لا و مصلیا و مسلماً، ہڈی کے اوپر رطوبت لگی ہوتی ہے، وہ ان جانوروں کی ناپاک ہے جو مردار ہیں او رجو حلال اور ذبح کیے ہوئے ہوں، ان کی نہیں، مگر جب ہڈی ان چیزوں سے پاک صاف ہوجائے گی تو پاک رہے گی، سوائے سؤر کی ہڈی کے۔ وہ کسی طرح استعمال نہیں ہوسکتی۔باقی حلال جانور کی ہرطرح، اور مردار کی رطوبت دو رکرنے کے بعد پاک ہیں۔ ان کا استعمال جائز ہے، صرف سؤر کی ہڈی کسی طرح استعمال نہیں ہوسکتی۔'' (دستخط مفتی صاحب)

دارالعلوم حزب الاحناف لاہور کا فتویٰ ؓ
بسم الله الرحمٰن الرحيم
''ہڈی خنزیر کے علاوہ خواہ کسی جانور کی ہو، جب اس میں سے رطوبت ختم ہوجائے اور بدبو وغیرہ نہ رہے تو پاک ہوجاتی ہے۔ اس کو جس مقصد کے لیے چاہیں استعمال میں لاسکتے ہیں۔ ہاں صرف خنزیر ایک ایسا جانور ہے جس کے جسم کا کوئی عضو کسی صورت میں مسلمان کے لیے استعمال میں لانا جائز نہیں۔باقی تمام جانوروں کی ہڈیاں مذکورہ بالا صورت میں پاک ہوجاتی ہیں۔ یہی حال چمڑے اور پٹھے وغیرہ کا ہے۔ علمائے احناف کا اس میں کوئی اختلاف نہیں۔واللہ اعلم و رسولہ۔ جل علا و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ (دستخط مفتی صاحب)

دارالعلوم دیوبند کافتویٰ:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب هو الموفق والمعین :
''خنزیر (سؤر) کے علاوہ تمام جانوروں کی ہڈیاں خریدنا، بیچنا اور دوا تیار کرنا جائز ہے۔خواہ زندہ جانوروں کو ذبح کرنے سے ہڈیاں ملی ہوں یا مردار کی ہڈیاں۔ ویجوز بیع عظامها(i) 1و شعر المیتة و عظمها طاھر(ii) 2بخلاف الخنزیر لأنه نجس العین(iii) 3۔ حلال جانور اور غیر ماکول اللحم(iv) دونوں کی ہڈیاں پاک ہیں البتہ سؤر (خنزیر)نجس العین ہے۔ اس کی ہڈی قطعاً پاک نہیں ہے او رنہ کسی میں اس کا استعمال جائز ہے۔ پھر یہ ہڈیاں تحلیل ہوکر کتنی منزلوں سے گزر کر ہڈی باقی نہیں رہتی۔ اعلم أن العلة عندمحمد ھي التغیر و انقلاب الحقیقة وأنه یفتٰی به للبلوى الخ(v) فیدخل فيه کل ماکان فيه تغیر و انقلاب حقیقة و کان فيه بلویٰ عامة(vi) 4

حاصل یہ ہے کہ ہڈیوں کا ان منزلوں سے گزرنے کے بعد کیلشم وغیرہ بن جانے کے بعد ان کے استعمال میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ البتہ سؤر کی ہڈی کی قطعا اجازت نہیں ہے۔ اس سےبچنا ہرطرح ضروری ہے۔ وأما الخنزیر فشعره وعظمه وجمیع أجزاءه نجسة الخ ولا یجوز بیعه في الروایات کلها(vi) 5
(دستخط مفتی صاحب، دارالعلوم دیوبند، تائیدی دستخط نائب مفتی دارلعلوم دیوبند)(مہر)

''محدث ''
الجواب بعون اللہ الوھاب:
وھو الھادي للصواب وإليه المرجع والمآب :أقول وباللہ التوفیق:

واضح رہے کہ جو جانور حلال ہیں، ان کے جسم کے تمام اجزاء بھی حلال ہیں، سوائے ان اجزاء کے جن کی حرمت یاکراہت کا بیان آجائے۔

اسی طرح جو جانور حرام ہیں۔ان کے تمام اجزاء بھی حرام ہیں۔ البتہ ان کے بارہ میں جواستثناء آجائے، وہ قابل قبول ہے مثلاً ہاتھی وغیرہ ماکول اللہم ہے لیکن ہاتھی دانت کا خارجی استعمال احادیث و آثار سے ثابت ہے اور اس کی خرید و فروخت بھی۔چنانچہ سنن ابی داؤد ہے:
''قال النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: یاثوبان اشتر لفاطمة قلادة من عصب و سوارین من عاج'' 6
کہ''آنحضرتﷺ نے حضرت ثوبانؓ سے فرمایا: (حضرت فاطمہ ؓ)کے لیے پٹھے کا قلادہ او رہاتھ دانت کے دو کنگن خرید دو۔''

''وقال الزھري في عظام الموتیٰ نحو الفیل وغیرہ: أدرکت ناسا من سلف العلماء یتمشطون بھاوید ھنون فیھا لایرون به بأسا وقال ابن سیرین و إبراھیم: ولابأس بتجارة العاج'' 7
یعنی ''امام زہری ہاتھی وغیرہ مردار کی ہڈی کے بارہ میں فرماتے ہیں، ''میں نےاپنے اسلاف علماء کرام کو پایا وہ اس سے کنگھی کرلیتے اور اس میں تیل وغیرہ ڈال لیتے اور کوئی حرج نہ سمجھتے '' اور ابن سیرین اور ابراہیم  فرماتے ہیں: ''ہاتھی دانت کی تجارت میں کوئی حرج نہیں۔''

مذکورہ بالا حدیث شریف اور آثار پرقیاس کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہڈی کو کنگھی وغیرہ خارجی استعمال کی صورت میں استعمال کرنا اور اس کی تجارت کرنا جائز ہے۔ باقی رہا مسئلہ ہڈی یا اس کے کسی جز کو کھانے کا، تو واضح ہو کہ صرف وہ جانور جو ماکول اللحم (حلال) ہوں اور انہیں اسلامی طریقےکے مطابق ذبح کیا گیا ہو، ان کی ہڈی اور ہڈی کے اجزاء کو کھانے میں استعمال کرنا جائز ہے۔

اور جو جانور ماکول اللحم تو ہوں، لیکن مردار ہوں یا غیر اسلامی طریقہ پرذبح کئے گئے ہوں ان کا کھانا حرام ہے۔ حدیث میں ہے:
''أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مربشاة میتة فقال: ھلا استمتعتم بإھابھا قالوا إنھا میتة قال إنما حرم أکلها'' 8
کہ ''آنحضرتﷺ کا گزر ایک مردہ بکری کے پاس سے ہوا ، آپؐ نے فرمایا: ''کیوں نہ تم نے اس کے چمڑے کو استعمال کرلیا؟'' صحابہؓ نے کہا: ''یہ تو مردہ ہے!'' آپؐ نے فرمایا:''اس کا (تو صرف )کھانا حرام ہے۔''

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جانور اگرچہ حلال ہوں، لیکن اگر وہ مرجائے تو اس کا کھانا حرام ہے۔ جب اس کا کھانا حرام ہے، تو اس کی ہڈی یا ہڈی کے کسی جزء کو کھانے میں استعمال کرنا بھی حرام ہے اور جو جانور غیر ماکول اللحم ہیں، ان کی ہڈی کو کنگھی ، سرمہ دانی کے بطور تو استعمال کیاجاسکتا ہے مگر کھانے میں اس کی ہڈی کا حکم اس کے گوشت والا ہے۔

خلاصہ یہ کہ صرف حلال مذبوحہ جانور کی ہڈی یا ہڈی کے کسی جزء کو کھانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ حرام جانور کی ہڈی یاہڈی کے کسی جزء کو ماکولات و مشروبات میں استعمال کرنا حرام ہے۔ ممکنہ احتیاط کے باوجود اگر حرام جانوروں کی ہڈیاں نادانستہ طور پر شامل ہوجائیں توعنداللہ مؤاخذہ ہوگا۔ ان شاء اللہ۔

باقی رہا آخری نکتہ کہ مذکورہ کیمیائی مراحل سے گزرنے کے بعد ہڈی کی ہیئت بدل جاتی ہے، تو معلوم ہوکہ حرام کو حلال کی شکل دینے کے بعد بھی اس کے استعمال کا حکم وہی رہتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے، رسول اللہ ﷺ سےپوچھا گیا: ''آیا شراب کو سرکہ بنا لیا جائے؟'' تو آپؐ نے فرمایا:''نہیں!'' لہٰذا حرام جانور کی ہڈی کی ہیئت بدل دینے سے اس کا حکم نہیں بدلتا۔ البتہ طبعی تبدیلی سے چیز کا حکم بدل سکتا ہے۔کیمیائی تبدیلی سے حکم نہیں بدلے گا۔جولوگ خنزیر کےعلاوہ تمام جانوروں کی ہڈیوں کو پاک اور طاہر کہتے ہیں، ان کے پاس کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہیں، جو وہ اپنے مؤقف کی تائید میں پیش کرسکیں۔

آخر کیا وجہ ہےکہ وہ لوگ خنزیر کی ہڈی کے استعمال کو ناجائز کہتے ہیں او رباقی کتے وغیرہ تمام حرام جانوروں کی ہڈی کا استعمال جائز او رپاک قرار دیتے ہیں؟ حالانکہ کسی چیز کا پاک ہونا الگ بات ہے او رحلال ہونا الگ۔ کیونکہ کہ بعض چیزیں پاک تو ہوتی ہیں لیکن حلال نہیں۔مثلاً بلی پاک ہے، اس کی بچی ہوئی چیز کھانے پینے میں بھی شرعا کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کے باوجود بلی حلال نہیں۔

ان حضرات پر تعجب ہے ، کہاں تو وہ اس قدر احتیاط برتتے ہیں کہ حلال جانوروں کے بعض اجزاء کی کراہت کا فتویٰ دیتے ہیں اور کہاں اس قدر وسیع اجازت اور ڈھیل کہ حرام جانوروں کے اجزاء بھی حلال:
حلال و حرام کامسئلہ انتہائی نازک ہے، حرام کو کسی ذریعہ سے بھی استعمال سے بچنا چاہیے۔

ھٰذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب


حوالہ جات
1. فتاویٰ قاضی خان
2. ہدایہ
3. ایضاً
4. ردالمختار
5. البحر الرائق
6. سنن ابی داؤد باب الانتفاع بالعاج
7. صحیح بخاری ترجمة الباب

8. صحیح بخاری باب جلود المیتة قبل أن تدبغ


i. اس کی ہڈیوں کی خرید و فروخت جائز ہے۔
ii. او رمردار کے بال او رہڈیاں پاک ہے۔
iii. بخلاف خنزیر کے، کہ وہ نجس العین ہے۔
iv. ایسے جانور جن کا گوشت نہ کھایا جاتا ہو۔
v. جان لے کہ امام محمد کے نزدیک اس کی علت ، اس کا تغیر اور حقیقی تبدیلی ہے او راسی پر فتویٰ ہوگا۔
vi. اس میں ہر وہ چیز داخل ہے جس میں تغیر اور حقیقی تبدیلی واقع ہو او ریہ عموم البلویٰ کی شکل ہے۔
vii. او رجہاں تک خنزیر کا تعلق ہے تو اس کے بال، ہڈیاں اور تمام اجزاء نجس ہیں او رتمام روایات میں اس کی بیع ناجائز ہے۔ (عربی عبارت کا اردو ترجمہ از ادارہ محدث ، برائے افادہ قارئین)