برّصغیر پاک و ہند میں علمِ حَدیث اور علمائے اہل حدیث کی مساعی

مولانا عبدالتّواب ملتان (م1366ھ)
1288ھ میں ملتان میں پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم اپنے والد مولانا قمر الدین ملتانی سے حاصل کی۔اس کے بعد دہلی جاکر شیخ الکل مولانا سید محمدنذیر حسین محدث دہلوی (م1320ھ) سے حدیث کی سند لی۔

تکمیل تعلیم کے بعد ملتان میں درس و تدریس شروع کی اور کتابوں کی خرید و فروخت اور اشاعت کا کاروبار شروع کیا۔ بیرون ملک سے کتب حدیث منگوا کر مستحق علماء میں مفت تقسیم کرنا آپ کا مشغلہ تھا۔خاص کر امام ابن تیمیہ ، امام ابن القیم او رحافظ ابن حجر عسقلانی کی مصنفات سے آپ کو خصوصی شغف تھا۔انہی حضرات کی کتابیں باہر سےمنگواتے اور مستحق علماء و طلباء میں تقسیم کرتے۔

حدیث کے سلسلہ میں آپ کی خدمات :
اشاعت حدیث پر آپ نے خصوصی توجہ دی۔ اس سلسلہ میں خود بھی کتب حدیث پر حواشی و تعلیقات لکھیں، اُردو میں ترجمے کئے اور بعد میں ان کو طبع کرا کر شائع بھی کیا۔

حدیث پر آپ کے عربی تعلیقات :
1۔ مصنف ابن ابی شیبہ پر جامع تعلیقات اور حواشی، اس کو آپ نے شائع بھی کیا۔
2۔ مسند عمر بن عبدالعزیز الاموی پر مفید حواشی۔
3۔ شرح حدیث ''ماذئبان جائعان'' (لابن رجب) پر تعلیقات۔
4۔ حواشی علیٰ حاشیہ ابی الحن السندی علیٰ صحیح مسلم۔

اُردو تراجم و حواشی :
1۔ ترجمہ صحیح بخاری 8 پارے
2۔ ترجمہ و حواشی بلوغ المرام من ادّلة الاحکام (مطبوع)

وفات : 9رجب 1396ھ کوملتان میں انتقال فرمایا:1

شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری (م1367ھ)
شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری مرحوم و مغفور کے تعارف کی ضرورت نہیں، ایک زمانہ ان سے واقف ہے۔ تحریر و تقریر میں جو اسلامی خدمات آپ نے انجام دی ہیں، ان کا اعتراف نہ کرنا بہت بڑی ناشکری ہوگی۔

مولانا ثناء اللہ  جون 1868ء میں امرتسر میں پیداہوئے۔ ابتدائی تعلیم مولانا احمد اللہ امرتسری (م1336ھ) او رمولانا غلام علی قصوری سے حاصل کی۔ بعد ازاں مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیرآبادی (م1334ھ) سے حدیث پڑھی۔فقہ اور دیگر علوم کی تکمیل شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیو بندی (م1339ھ) سے کی ۔ اس کے بعد شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م1320ھ) سے حدیث کی سند حاصل کی۔2

حضرت میاں صاحب سے حدیث میں سند و اجازہ حاصل کرکےمولانا احمد حسن کانپوری سے بھی پڑھا۔ تکمیل تعلیم کے بعد واپس امرتسر پہنچے اور مدرسہ تعلیم الاسلام میں در س نظامیہ کی تدریس شروع کی۔

انہی دنوں اسلام کے خلاف ایک طرف عیسائی اور آریہ زہر اُگل رہے تھے، تو دوسری طرف قادیانی فتنہ بھی پیدا ہوچکا تھا۔ مسلمانوں کی طرف سے مولانا محمد حسین بٹالوی (م1338ھ) ان کا دفاع کررہے تھے۔ مولانا ثناء اللہ صاحب بھی میدان میں آگئے اور آپ نے ان ہرسہ دشمنان اسلام کا مثبت جواب دیا۔ آریہ ، عیسائیت او رقادیانیت کے خلاف کتابیں لکھیں او ران اعتراضات کا جو وہ اسلام پر کررہے تھے، مثبت جواب دیا۔

1902ء میں آپ نے اخبار ''اہل حدیث '' جاری کیا۔اس اخبار کے ذریعے آپنے ہر اس گروہ کا، جس نے بھی اسلام او رپیغمبرؐ اسلام کے خلاف نازیبا کلمات استعمال کئے ان کادندان شکن جواب دیا۔

او راس کے بعد مولانا ثناء اللہ امرتسری کو جو مقام برصغیر میںملا، اس پرکچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ آپ نے ہر فن او رہر موضوع پر لکھا۔ اگر آریہ نےاسلام پر اعتراضات کیے، تو ان کامنہ توڑ جواب دینے والےمولانا ثناء اللہ  تھے۔اگر کسی نے پیغمبر اسلامؐ کے خلاف نازیبا کلمات استعمال کئے، تو اس کی زبان کو لگام دینے والے مولانا امرتسری تھے۔ اگر مرزاقادیانی نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا، تو اس کا تعاقب کرنے والے مولانا ثناء اللہ امرتسری تھے اور اگر کسی نے حدیث کے خلاف کچھ لکھا، تو اس کی غلط تحریروں کی قلعی کھولنے والے اور اس کے مکر او رجھوٹ کو عیاں کرنے والے بھی مولاناثناء اللہ امرتسری تھے۔

اسلام ، پیغمبر اسلامؐ کی حمایت میں آپ نے جو گراں قدر علمی خدمات سرانجام دی ہیں، اس پرمجھ ایسے کم علم کا لکھنا دوپہر کو چراغ جلانے کے مترادف ہے۔

ملکی تحریکات میں بھی آپ نے ایک اہم کردار ادا کیاہے، ندوة العلماء کی تحریک، جمعیة علمائے ہند، خلافت تحریک، کانگرس او رمسلم لیگ میں آپ کی خدمات نمایاں ہیں۔

جماعت اہل حدیث کے لیے آپ کی خدمات انتہائی اہم ہیں۔ آپ برسوں آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کے جنرل سیکرٹری رہے۔علم حدیث میں بھی آپ کی خدمات شاندار ہیں۔

آپ نے قرآن مجید کی چار تفسیریں لکھیں۔ عربی میں آپ کی ''تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن'' ایک بہترین تفسیرہے۔ علامہ سید رشید رضا مصری نے اس تفسیر کو بہت پسند فرمایا او رمولانا سید سلیمان ندوی مرحوم نے تو یہاں تک لکھا کہ اس تفسیر کو نصاب درس میں داخل کرنا بہت ضروری ہے۔ 3

تصانیف :
مولانا کی تصانیف کی صحیح تعداد معلوم نہیں، تاہم دو سو سے کم نہیں ہوگی۔آپ کی جن تصانیف کا پتہ چل سکا ہے، ان کی تفصیل بہ عنوان پیش خدمت ہے:

تفاسیر قرآن مجید : تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن (عربی)، بیان القرآن علیٰ علم البیان عربی ، تفسیر ثنائی اُردو، 7 جلدوں میں، برہان التفاسیر بجواب سلطان التفاسیر۔

عامة المسلمین اور دیگرموضوعات پر کتب: آیات متشابہات، اسلام اور اہل حدیث، شمع توحید، خطاب بہ مودودی، حیات مسنونہ، اسلام اور برٹش لاء، القرآن العظیم، خلافت و رسالت، تحریک وہابیت پرایک نظر ، مسئلہ حجاز پر ایک نظر ، سلطان ابن سعود اور علی برادران۔

تنقیدی کتب : امرتسری اور غزنوی نزاع، تحفہ نجدیہ و فصل قضیة الاخوان ، نافہم مصنف، فیصلہ آرہ، اتباع سلف، دلیل الفرقان بجواب اہل القرآن ، حجیت حدیث اور اتباع رسولؐ، خلافت محمدیہ، ثنائی پاکٹ بک، خاکساری تحریک او راس کابانی، قرآن اور دیگر کتب ، الفوز العظیم۔

عام اسلامی کتب: میل ملاپ، ہدایة الزوجین، اسلامی تاریخ، قرآنی قاعدہ ثنائیہ، اربعین ثنائیہ، مائة ثنائیہ، شریعت و طریقت، کلمہ طیبہ، السلام علیکم، اعرب العرب، التعریفات النحویہ، خصائل النبی، رسوم اسلامیہ ، عزت کی زندگی، سماکم المسلمین۔

متعلقہ اہلحدیث او راہل تقلید:اجتہاد و تقلید، تقلید شخصی اور سلفی، تنقید تقلید ، علم الفقہ جلد اوّل، فقہ اور فقیہہ، حدیث نبویؐ اور تقلید شخصی، اصول فقہ (عربی)، اہل حدیث کا مذہب ، فتوحات اہل حدیث، فاتحہ خلف الامام ، آمین رفع الیدین، اصلی حنفیت اور تقلید شخصی، تکذیب المفکرین، المرقاة فی احکام الصلوٰة۔

آریہ : مقدس رسول، حق پرکاش، تغلیب الاسلام (چار حصوں میں)کتاب الرحمان، تبر اسلام، مناظرہ نگینہ، حدوث و ید، باعث سرور در مباحثہ جبل پور، حدوث دنیا، الہام، نماز اربعہ، فتح الاسلام المعروف مناظرہ خواجہ ، ثمرات تناسخ، اصول آریہ، نکاح آریہ، محمد رشی، بحث تناسخ، ہندوستان کے دو ریفارمر، سوامی دیانند کا علم و عقل، جہاد وید، شادی بیوگان اور نیوگ، تحریف آریہ، مباحثہ دیوریا، تُرک اسلام، تعلیم الاسلام بجواب تہذیب الاسلام، مرقع دیانندی۔

تردید عیسائیت: تحریفات بائیبل، تقابل ثلاثہ، اسلام اور مسیحیت، توحید تثلیث اور راہ نجات ، جوابات نصاریٰ، مناظرہ الٰہ آباد۔

قادیانیت: الہامات مرزامع جواب آئینہ حق، آفة اللہ، اباطیل مرزا، بہاء اللہ اور مرزا، بطش قدیر برقادیانی تفسیر کبیر، تعلیمات مرزا، تاریخ مرزا، تحفہ مرزائیہ، تفسیرنویسی کا چیلنج او رمرزا، تحفہ احمدیہ، تفسیربالرائے (کچھ حصہ) ثنائی پاکٹ بک (کچھ حصہ) چیستان مرزا، رسائل اعجازیہ، شاہ انگلستان اور مرزائے قادیان، شہادت مرزا ملقب عشرہ مرزائیہ، زار قادیان، صحیفہ محبوبیة، عقائد مرزا، علم کلام، عجائبات مرزا، عشرہ کاملہ، عمر مرزا، فیصلہ مرزا، فسخ نکاح مرزائیان، قاتح قادیان، فتح ربانی در مباحثہ قادیانی، قادیانی مباحثہ (دکن، لیکھ رام اور مرزا، محمد قادیانی، مراق مرزا، مرقع قادیانی، مکالمہ احمدیہ (حصہ اوّل) ، محمود مصلح موعود؟ ، ناقابل مصنف مرزا، نکاح مرزا، نکات مرزا، ہفوات مرزا، ہندوستان کے دو ریفارمر۔

مولانا امرتسری کے متعلق علماءے عصر کی آراء:
مولانا سید سلیمان ندوی (م1373ھ)لکھتے ہیں:
''مولانا ثناء اللہ امرتسری مناظرہ کے امام تھے۔'' 4

مولانامحمد ابراہیم میر سیالکوٹی  (م1375ھ) لکھتے ہیں:
''اگر اسلام یا پیغمبر اسلام او رقرآن و حدیث کے خلاف کوئی فرقہ رات کو پیدا ہوجائے تو صبح ان کی دندان شکن جواب دینے کے لیے مولانا ثناء اللہ امرتسری تیار ہوں گے۔''

یہ بات اظہر من الشمس ہے او راس پر برصغیر کے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ:
''مولانا ثناء اللہ امرتسری جماعت اہل حدیث کے سردار، محفل فضل و کمال کے مسند نشین او رپوری ملت اسلامیہ کامشترکہ سرمایہ تھے۔جوبیک وقت مخالفین اسلام کے چو طرفہ حملوں کا جواب دیتے تھے اورفضائے ہند و پاک پر عظمت اسلام او روقار دین محمدیؐ کاپرچم لہراتے تھے۔''5

تقسیم ہند کے بعد گوجرانوالہ تشریف لائے، یہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد سرگودھا منتقل ہوگئے، وہاں دوبارہ اخبار ''اہلحدیث'' جاری کرنے کا پروگرام بنا رہے تھے کہ مارچ 1948ء (1367ھ) میں80 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔

اللهم اغفرله وارحمه و عافه و اعف عنه۔آمین۔


حوالہ جات
1. بلوغ المرام اردو ، ص12
2. حیات ثناوی ص6
3. معارف، ج24 ص316 نمبر 4
4. معارف ستمبر 1948ء
5. حیات ثنائی، ص 68