حضرت ماعز ؓ اور روایاتِ حدِ رجم

حد ِ رجم کے بارے میں ایک مسلک تو یہ ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم ہے او رغیر شادی شدہ کے لیے سو کوڑے ہیں۔ اس مسلک کی طرف اشارات قرآن مجید میں ملتے ہین، جن کی تفصیل ایک الگ مستقل مضمون میں بیان کی جائے گی۔ ان شاء اللہ اور احادیث میں صراحت کے ساتھ حدِ رجم کا بیان موجود ہے۔ تقریباً چالیس صحابہؓ سے رجم کی روایات ملتی ہیں۔ پھر ہر دور میں ان روایات کو نقل کرنے والے کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔نیز اس حد پر خلفائے راشدینؓ کے زمانے میں عمل ہوا او رمحدثین کرام او رفقہاء ، مجتہدین سب نے اس پر اتفاق کیا۔اہل سنت والجماعت کے تمام مسالک اس پر متفق ہیں۔ حتیٰ کہ شیعہ حضرات بھی اس سے اتفاق رکھتے ہیں۔ خوارج اور نظام معتزلی کے سوا پوری امت کا اس پر تعامل او راجما ع پایا جاتاہے۔

دوسری رائے یہ ہے کہ چونکہ رجم کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے۔ اس لیے بدکار مرد اور عورت کو ، خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، صرف سو کوڑے لگائیں جائیں گے۔ قرآن سے یہی ثابت ہے۔ یہ رائے خوارج اور بعض معتزلہ نے اختیار کی ہے او راس دور کے منکرین سنت بھی اسی خیال کو زور شور سے پیش کررہے ہیں۔

تیسرا مکتب فکر دوسرے مسلک سے ملتا جلتا ہے۔صرف اتنا فرق ہے کہ اگر بدکار مرد یا عورت عادی مجرم ہوں یا اُن میں دہشت گردی اور غنڈا  پایا جاتا ہو، تو اُن کو آیت محاربہ کی روشنی مین رجم کیا جائے گا۔ لیکن اگر وہ عادی مجرم نہ ہوں تو پھر کسی زانی کو محض شادی شدہ ہونے کی بنا پر رجم نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ صرف سو کوڑے مارے جائیں گے۔کیونکہ قرآن میں صرف یہی ایک سزا مذکور ہے۔ یہ رائے مولانا حمید الدین فراہی کے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے حضرات کی ہے۔یہ بالکل انوکھی رائے ہے او رنیا اجتہاد ہے۔ جوچودہ سو سال کے بعد منکشف ہوا ہے۔اس رائے کا خلاصہ یہ ہے کہ بدکار، عادی مجرم ، خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، اس کو رجم کیا جائے گا۔ ورنہ سو کوڑے لگائیں جائیں گے۔

زیر نظر مضمون میں تیسرے مسلک پر تبصرہ کرنا مقصود ہے۔ ''تدبر قرآن ''میں اس بارے میں تحریر ہے:
''مجرم دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک تو وہ جن سے چوری یا قتل یا زنا یا قذف کا جرم صادر ہوجاتا ہے، لیکن ان کی نوعیت یہ نہیں ہوتی کہ وہ معاشرے کے لیے آفت اور وبال بن جائیں یا حکومت کے لیے لاء اور آرڈر کا مسئلہ پیدا کردیں۔ دوسرے وہ ہوتے ہین جو اپنی انفرادی حیثیت میں بھی او رجتھا بنا کربھی معاشرے او رحکومت دونوں کے لیے آفت اور خطرہ بن جاتے ہیں۔

پہلی قسم کے مجرموں کے لیے قرآن میں معین حدود اور قصاص کے احکام ہیں۔ جو اسلامی حکومت انہی شرائط کے مطابق ناقد کرتی ہے، جو شرائط قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ دوسری قسم کے مجرموں کی سرکوبی کے لیے احکام سورہ مائدہ کی آیات نمبر33 اور 34 میں دیئے گئے ہیں۔'' 1

دوسری جگہ تحریر ہے:
''یہ سزا (حدِ رجم) ہر قسم کے زانیوں کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ صرف اُن زانیوں کے لیے ہے، جو معاشرے کی عزت و ناموس کے لیے خطرہ بن جائیں۔ عام سزا زنا کی وہی ہے جو سورہ نور کی زیر بحث آیت میں مذکور ہے۔قطع نظر اس سے کہ مرتکب جرم شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ۔'' i

قرآن مجید کی ان دو آیات:
(1) آیت محاربہ سورہ مائدہ،
(2) آیت سورہ نور۔

کی مذکورہ بالا تفصیل و تاویل بالکل انوکھا انکشاف ہے۔عہد صحابہؓ سے لے کر آج تک یہ تفسیر کسی کو نہیں سوجھی۔اس تاویل کی بنیاد زیادہ تر قیاس و گمان پر ہے۔ کتاب و سنت سے کوئی نص صریح نہیں پیش کی گئی ہے اس بارے میں جو قرائن و شواہد پیش کیے گئے ہیں، اُن کی وضاحت ذیل میں درج کی جاتی ہے۔

(1) دعویٰ کیاگیاہے :
''ماعز کی سزائے رجم کے بارے میں جو روایات ملتی ہیں۔ ان میں نہایت عجیب قسم کا تناقض ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑا بھلا مانس تھا اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک نہایت بدخصلت گُنڈا تھا۔'' 2

مزید تحریر ہے کہ:
''میری رہنمائی کے لیے یہی بات کافی ہے کہ نبی ﷺ نے اس کو رجم کی سزا دلوائی، اس وجہ سے میں اُن روایات کو ترجیح دیتا ہوں جن سے اس کا وہ کردار سامنے آتا ہے، جس کی بناء پر یہ مستحق رجم ٹھہرا۔روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب نبی ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کسی غزوہ کے لیے نکلتے تو یہ چپکے سے دبک کر بیٹھ رہتا او رمردوں کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر شریف بہوؤں بیٹیوں کا تعاقب کرتا۔بعض روایات سے اس تعاقب کی نوعیت بھی واضح ہوتی ہے کہ جس طرح بکرا بکریوں کا کرتا ہے۔یہاں تک کہ بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ یہ عورتوں کے پیچھے ''ینب نبیب التیس.......'' 3

اس پوری عبارت میں قیاس آرائیوں کی بھرمار ہے اور حضرت ماعزؓ کومحض قیاس اور گمان کی بنیاد پرطعن و تشنیع کا نشانہ بنایاگیاہے، مثلاً کہا گیا ہے کہ:
''آپؐ نے اس کوبلوا کر تیکھے انداز میں پوچھ گچھ کی۔'' 4

(الف) واضح رہے کہ کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ماعزؓکو خود بلوایا تھا۔بلکہ روایات سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ماعزؓ کو ان کی قوم نے اس گناہ کے ارتکاب کے بعد آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضری دینے پر آمادہ کیاتھا۔ جیساکہ حدیث میں ہے:

نعیم بن ہزال کہتے ہیں:
''کان ما عز بن مالك یتیما في حجر أبي، فأصاب جاریة من الحي ،فقال له أبي، ائت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فأخبرہ بما صنعت لعله یستغفرلك فإنما یرید بذٰلك رجاء أن یکون له مخرجا۔ الحدیث'' 5

(ب) ''نہایت تیکھے انداز میں پوچھ گچھ کی۔''
حضرت ماعزؓ کے واقعے سے متعلق روایات بار بار پڑھنے سے کوئی تیکھا انداز نہیں معلوم ہوتا بلکہ نہایت مشفقانہ انداز سامنے آتا ہے۔آپؐ کے ہر سوال سے '' رحمة اللعالمینؐ'' کی شان جھلکتی ہے، مثلاً یہ سوال کہ:
''أبك جنون؟'' ''کیا تو جنون زدہ ہے؟''

جواب میں کہا گیا: ''نہیں! '' پھر آپؐ نے سوال کیا: ''کیا تم شادی شدہ ہو؟'' انہوں نےجواب دیا : ''جی ہاں!'' صحیح مسلم میں ہے کہ اس کے بعد آپؐ نے حکم دیاکہ اسے رجم کردیا جائے۔نیز حدیث کی عبارت صاف بتا رہی ہے کہ آپؐ نے محض اس بناء پر رجم کا حکم دیا تھا کہ ماعز محصن (شادی شدہ) تھے۔ یعنی انہوں نے بدکاری کاجرم شادی شدہ ہونے کے باوجود کیا تھا، ورنہ آپؐ یہ سوال فرماتے ''کیا تم عادی مجرم ہے؟'' اور ''کیا تو ''گنڈا'' اور ''دہشت گرد'' ہے؟ '' نبی ﷺ نے ایسا کوئی سوال نہیں کیا؟ تو ہم خود ظن و تخمین کی بنا پر انہیں ''گنڈا'' کیسے قرا ردے سکتے ہیں؟ اس واقعہ کی تمام روایتا صاف بتلا رہی ہیں کہ رجم کی حد ''احصان'' کی بنا پر دی گئی تھی۔یعنی ''مناط حکم'' ''احصان'' ہے۔پھر یہ کیسے دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ :
''گُنڈا، بدخلصت، زانی، خواہ کنوارا ہو یا شادی شدہ ، ہر حال میں رجم کیا جائے گا؟''

باقی رہے،''ینب نبیب التیس'' کے الفاظ، تو ان سے کہاں معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد حضرت ماعز بن مالک الاسلمیؓ ہیں۔جو باربار رسول اللہ ﷺ سے اپنی ذات پر حد رجم جاری کرنے کی درخواست کرتے رہے۔ بلکہ آپؐ نے عام الفاظ میں فرمایاتھا کہ : ''مجھے ایسے افراد پر قدرت حاصل ہوئی، جو عورتوں کا تعاقب کرتے ہیں، تو میں ان کو ایسی سزا دوں گا جس سے دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔'' یہ کلمات آپؐ نے حضرت ماعزؓ پر حد رجم جاری کرنے کے بعد فرمائے تھے۔ اگر واقعی اس سے حضرت ماعزؓ ہی مراد تھے تو رسول اکرمﷺ یہ الفاظ رجم کی حد جاری کرنے سے قبل اُن کے سامنے فرماتے تاکہ ان کوبھی معلوم ہوتا کہ یہ سزا کس جرم میں دی جارہی ہے؟ پھریہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ رسول اکرمﷺ فوت شدہ افرا دکی غیبت کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ بلکہ زندہ افراد کی، ان کی غیر حاضری میں، غیبت کرنے سے بھی روکتے تھے او ریہاں آپؐ خود ماعزؓ کے رجم ہونے کے بعد اُس کی غیبت کررہے ہیں۔ آخریہ کیسے درست ہوسکتا ہے؟

(2) ایک روایت میں ہے کہ ''رجم کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے نہ اُن کے لیے استغفار کیا او رنہ اُن کو بُرابھلا کہا۔'' 6

لیکن اگر یہ الفاظ''ینب نبیب التیس''حضرت ماعزؓ پر چسپاں کردیئے جائیں او راس طرح ان کا ''بدخصلت گُنڈا'' ہونا ثابت ہوجاوے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ رسول اکرم ﷺ نے ان کو رجم کرنےکے بعد بُرا بھلا کہا، ظاہر ہے کہ یہ تشریح حدیث کے الفاظ ''ولا سبه'' کے خلاف پڑتی ہے۔ اور ''سبه'' کے ہم معنی بن جاتی ہے۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ماعزؓ سے رجم کی حد جاری کرنے سے قبل یہ سوال کیا نہ فرمایا:
''ھل کنت تنب نبیب التیس وراء نسآء المجاھدین حین خرجوا اللغزوة.......'' بلکہ اس کے برعکس یہ سوال کیا گیا : ''ھل أحصنت......؟'' یعنی سوال ''احصان'' کا ہے اور سزا ''نبیب التیس......'' والے جرم کی دی جارہی ہے ۔یعنی دہشت پسندی اور گنڈے پن کی! یہ صورت حال تو اس طرح کی ہوئی کہ جیسے کسی سے دریافت کیا جائے: ''ھل شربت خمرا؟'' اور اقرار کی صورت میں ''قطع ید'' کی سزا دے دی جائے۔ واضح رہے کہ جس طرح چور کی سزا ''قطع ید'' ایک مستقل سزا ہے۔ اسی طرح آیت محاربہ میں جو سزائیں بیان کی گئی ہیں، وہ ڈکیتی، غنڈہ گردی اور دہشت پسندی کے لیے ہیں۔ خواہ زنا کا ارتکاب کیا ہو یا نہ کیاہو۔

پھرایک انتہائی افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ ''تدبر قرآن'' میں حضرت ماعزؓ کو ''بدخصلت گنڈا'' قرار دیا ہے او رسہ ماہی رسالہ ''تدبر'' میں ''کٹر منافق'' کا لقب دیا گیاہے۔ 7

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشہور منافقین مدینے میں دندناتے پھرتے تھے، لیکن کسی کو بھی محاربہ کی سزا رجم وغیرہ نہ دی گئی۔ دی گئی تو بیچارے ماعزؓ کو ؟ آخر فرق کیوں؟

عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین مدینہ میں موجود تھا۔ اس کی ریشہ دوانیاں او راسلام دشمن سرگرمیاں کسی سے مخفی نہ تھیں۔ملاحظہ ہو، تدبر قرآن جلد 3 صفحہ۔ لیکن اس پر او راس کے بدخصلت گُنڈے ساتھیوں پر آیت محاربہ کے مطابق سزا کیوں جاری نہیں کی گئی؟

آیت محاربہ میں ''أن يقتلوا'' سے رجم مراد لیا گیا ہے۔ اس پر تفصیل گفتگو دوسرے مستقل مضمون میں ہوسکتی ہے۔مذکورہ بالا تفسیر ایک قسم کا شذوذ ہے۔ حضرت ماعزؓ کو رجم اس لیے کیا گیا تھا کہ شدی شدہ ہونے کے باوجود انہوں نے زنا کا ارتکاب کیا تھا نہ کہ اس بنا پر کہ وہ گنڈے یا عادی مجرم تھے۔

حضرت ماعزؓ کو ''بدخصلت گنڈا'' ثابت کرنے کے لیے دوسری دلیل یہ دی گئی کہ آنحضورؐ نے ان کی نماز جنازہ ادا نہیں کی۔ اصل الفاظ یہ ہیں:
''دوسری روایات میں اس بات کا ذکر بالصراحت ہوا ہے کہ نبی ﷺ نے اس کی مغفرت کے لیے دعا کی اور نہ اس کا جنازہ پڑھا۔ جو اس بات کی شہادت ہے کہ اس کو کٹر منافق قرار دیا گیا ۔'' 8

''لم یصل عليه'' یہ الفاظ سنن ابی داؤد جلد 4 صفحہ 577 کتاب الحدود میں ملتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسری روایات بھی پیش نطر رکھنا ضروری ہیں۔ ایک روایت میں ہے:

''فقال له النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیرا و صلی عليه .....''
یعنی ''حضرت ماعزؓ کو رجم کرنے کے بعد آپؐ نے ان کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا اور اُن پر نماز جنازہ ادا کی۔'' 9

دوسری روایت میں ہے:
''عن أبي أمامة: (في قصة ماعز) فقال قیل یارسول اللہ! أتصلي عليه؟ قال: لا ، قال: فلما کان من الغد، قال: فصلوا علی صاحبکم، فصلی عليه رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والناس'' 10
یعنی '' حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ حضرت ماعز کے واقعے میں راوی کا بیان ہے: ''کسی نے سوال کیا کہ آپؐ ماعز پرنماز جنازہ پڑھیں گے؟ آپؐ نے فرمایا: ''نہیں!'' لیکن دوسرے دن آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ''اپنے ساتھی پر نماز جنازہ ادا کرو'' اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اور لوگوں نے ماعزؓ پر نماز جنازہ ادا کی۔''

ابوداؤد کی روایت سے معلوم ہوتا ہےکہ ''رسول اکرم ﷺ نے حضرت ماعزؓ کی نماز جنازہ نہیں ادا کی۔'' لیکن صحیح بخاری کی روایت میں ہے: ''آپ نےان کا تذکرہ اچھے انداز میں کیا او ران کی نماز جنازہ ادا کی'' امام بخاری نے اس روایت کو ترجیح دی ہے۔مصنف عبدالرزاق اور حدیث کی دوسری کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے حضرت ماعزؓ کی نماز جنازہ پہلے دن نہیں ادا کی، لیکن دوسرے دن آپؐ نے اور لوگوں نے نماز جنازہ ادا کی۔''

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وحی کے ذریعے آپؐ کو بتایا گیا کہ ماعزؓ کی بخشش ہوگئی ہے اور وہ دعائے مغفرت کے مستحق ہیں۔ ا س لیے آپؐ نے دوسرے دن اس کمی کی تلافی فرما دی۔

لفظ ''صلی علیه .....'' کو مزید تقویت حضرت غامدیہؓ کی حدیث سے ملتی ہے جس میں مذکور ہے کہ جب آپؐ نے غامدیہ کو رجم کرنے کے بعد، اُن کی نماز جنازہ ادا کی، تو حضرت عمرؓ نے دریافت کیا:
''تصلي علیھا وقد زنت! '' فقال: لقد تابت توبة لو قسمت بین سبعین من أھل المدینة لو سعتھم ۔ وھل وجدت توبة أفضل من أن جادت بنفسھا للہ عزوجل''   11
یعنی ''آپؐ اس عورت کی نماز جنازہ ادا کرتے ہیں، جس نے زنا کا ارتکاب کیا ہے؟'' جواب میں رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ''اس خاتون نے ایسی توبہ کی ہے کہ اہل مدینہ میں سے اگر ستر آدمیوں میں تقسیم کی جائے تو ان کوبھی کافی ہوجائے۔ اور ایسی توبہ سے افضل کیا توبہ ہوگی کہ اس خاتون نے اپنی جان کا نذرانہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کردیا۔'' 12

افسوس ہے کہ اس خاتون کے بارے میں بھی رسالہ ''تدبر'' میں لکھا گیا ہے:
''روایات کے مطالعے سے بیان کا یہ تناقض ہی سامنے نہیں آتا، یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہ آزاد قسم کی عورت تھی جس کا نہ کوئی شوہر تھا، نہ سرپرست جو اس کے کسی معاملے کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہوتا۔وضع حمل کی مدت اس نے ایک انصاری کے ہاں گذاری۔'' 13

اصل بات یہ ہے کہ محدثین کے اصول کے مطابق دیکھا جائے تو حضرت غامدیہؓ کے قصہ رجم کی تفصیلات میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے بچے کی فطامت(ii) کے بعد رجم کا حکم دیا اور دوسری روایت میں ہے کہ آپؐ نے وضع حمل کے بعد یہ حکم دیا۔ یہاں اس پہلی روایت کو ترجیح دی جائے گی۔ اس قاعدے کے مطابق کہ ''زیادة الثقة مقبولة'' یعنی ''ثقہ راوی کی طرف سے روایت میں اضافہ معتبر ہوگا '' اس کی بے شمار مثالیں احادیث میں ملتی ہیں۔

مزید افسوس یہ ہے کہ ''تدبر قرآن'' میں انداز ایسا اختیار کیاگیا ہے ، جس سے ذہن اس طرف منتقل ہوتا ہے کہ یہ غامدیہ خاتون چکلا چلایا کرتی تھیں۔اصل الفاظ یہ ہیں کہ:
''اس عہد کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بہت سی ڈیرے والیاں ہوتی تھیں، جو پیشہ کراتی تھیں او ران کی سرپرستی زیادہ تر یہودی کرتے تھے، جو ان کی آمدنی سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ اسلامی حکومت قائم ہونے کے بعد ان لوگون کا بازار سرد پڑ گیا، لیکن اس قسم کے جرائم پیشہ آسانی سے باز نہیں آتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس قماش کے کچھ مرد، اور بعض عورتیں زیر زمین یہ پیشہ کرتے رہے اور تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے، بالآخر جب وہ قانون کی گرفت میں آئے تو سورہ مائدہ کی اسی آیت کے ماتحت، جس کا حوالہ اوپر گزرا ہے، آپؐ نے ان کو رجم کرایا۔'' 14

اس طرز فکر پر افسوس کیے بغیر نہیں رہا جاسکتا، کہ عہد جاہلیت کی تاریخ تو قابل اعتماد ہے، لیکن صحیح مسلم اور ابوداؤد میں ثقہ راویوں کی بڑی تعداد کے ذریعے جو کردار حضرت غامدیہؓ کا معلوم ہوتا ہے ، وہ ناقابل اعتبار ہے۔ ﴿كَبُرَ‌تْ كَلِمَةً تَخْرُ‌جُ مِنْ أَفْوَ‌ٰهِهِمْ......﴾

........ کیا وہ خاتون جو اپنے گناہ کا احساس کرتے ہوئے بار بار یہ کہتی ہے کہ:
''یارسول اللہ ، طھرني!''
''اے اللہ کے رسولؐ، مجھے پاکر دیجئے!''

جب معلوم ہوتا ہےکہ یہ خاتون حمل سے ہے تو آپؐ وضع حمل تک رجم کی سزا کوملتوی کردیتے ہیں، لیکن یہ خاتون وضع حمل کے بعد، بغیر کسی دباؤ کے خود بخود حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچ کر اپنے اوپرحد جاری کرنےکی درخواست کرتی ہے اور جب دودھ چھڑانے کی مدت تک مہلت دی جاتی ہے، تو جیسے ہی بچہ روٹی کھانے کے قابل ہوجاتا ہے تو وہ اس کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا دے کرخود رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کرتا ہے کہ ''اب یہ بچہ میرے دودھ کا محتاج نہیں رہا۔ اس لیے مجھے پاک کردیا جائے اور سیاہ کاری کاجو داغ مجھ پر لگ گیا ہے اُسے حد جاری کرکے دھو دیا جائے۔'' یعنی اس خاتون کا مطلب یہ تھا کہ دنیاکی سزا آخرت کے عذاب کے مقابلے میں ہلکی ہے اسے برداشت کیا جاسکتا ہے، لیکن آخرت کا عذاب برداشت نہیں ہوسکتا، کیا ایسی پاکباز خاتون کو آزاد اور ڈیرے والیوں اور زیر زمین پیشہ کرانے والیوں میں شمار کیا جاسکتاہے؟ اس سے بڑھ کر ایک نیک خاتون صحابیہؓ کی توہین کیاہوسکتی ہے! پھر کمال یہ ہے کہ اس عورت کو آزاد قرار دینے کی بنیاد سراسر قیاس آرائی اور تخمین و گمان پر ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا ٱجْتَنِبُواكَثِيرً‌ا مِّنَ ٱلظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ ٱلظَّنِّ إِثْمٌ...﴿١٢﴾...سورۃ الحجرات
کہ ''گمان کی بہت سی اقسام سے بچو، کیونکہ کچھ گمان گناہ ہیں۔'' (سورہ حجرات)

اس خاتون کے آزاد اور لاوارث ہونے کی دلیل یہ ہے کہ مدت رضاعت گزارنے کے لیے اسے ایک انصاری شخص کے حوالے کردیا گیا۔ اصل الفاظ یہ ہیں:
''فقال: إذا لا نرجمھا و ندع ولدھا صغیرأ لیس له من یرضعه؟ فقام رجل من الأنصار، فقال إلي رضاعه یا نبي اللہ فقال: فرجمھا''
لیکن افسوس کہ حضرت غامدیہؓ کو آزاد ، یعنی آوارہ ثابت کرنے کا خیال اتنا غالب تھا کہ اسی صحیح مسلم او رابوداؤد میں، جس کا حوالہ بار بار رسالہ تدبر میں دیاگیاہے، یہ الفاظ نگاہ سے اوجھل ہوگئے:

''فقالت یا نبي اللہ أصبت حدا، فأقمه علي فدعا نبي اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ولیھا، فقال أحسن إلیھا فإذا وضعت فائتني بھا، ففعل''15
یعنی ''اس عورت نے کہا: ''اے اللہ کے نبیؐ، میں حد کی سزاوار ہوگئی ہوں تو آپؐ اس کو مجھ پرجاری کیجئے!'' نبی ﷺ نے اس کے ولی کوبلایا اور فرمایا، اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور جب وضع حمل ہوجائے تو اس کو میرے پاس لے آؤ!'' تو اس نے ایسا ہی کیا۔''

ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ اس خاتون کا کوئی نہ کوئی ولی موجود تھا جس کو آپؐ نے اس خاتون کی سرپرستی کے لیے بلایا، او راسے حسن سلوک کی تاکید کی، اب جس روایت میں ''رجلا من الأنصار'' ہے، اس سے بھی یہی ولی مراد ہوگا۔ جس کابیان مذکورہ بالا روایت میں ہے۔ اب دونوں روایتوں میں تعارض کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اب خود سوچا جائے کہ کہاں قیاس آرائی پر مبنی حملہ ''معلوم ہوتا ہے'' او رکہاں مذکورہ بالا حدیث کی واضح عبارت؟ کیا ایسی خاتون کو، جو خود اپنے اوپر بہ اصرار زنا کی حد یعنی سزائے رجم، جاری کرانے پرمصر ہوجاتی ہے او رجس کی رسول اکرم ﷺ نے نما زجنازہ پڑھائی اور دوران رجم خون کے چھینٹے پڑنے پر، جب حضرت خالد نے اُسے برا بھلا کہا، تو آپؐ نے انہیں سختی سےمنع فرمایا، آپؐ کے الفاظ یہ ہیں:
''مھلا یا خالد، فوالذي نفسي بیدہ لقد تابت توبة، لوتا بھا صاحب مکس لغفرله، ثم أمر بھا فصلیٰ علیھا، ودفنت'' 16
یعنی ''اے خالدؓ، نرمی برتو، قسم ہے اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ناجائز محصول وصول کرنے والا بھی ایسی توبہ کرتا، تو اس کی بھی بخشش ہوجاتی۔'' پھر آپؐ نے اس کے بارے میں حکم فرمایا او راس پر نماز جنازہ ادا کی، اور پھر وہ دفن کی گئی۔''

کیا اب چودہ سو سال کے بعد، اس کو آزاد پیشہ کرانے والی قرار دینا، قذف کے زمرے میں نہیں آتا؟ بالکل اسی قسم کی صورت حضرت ماعزؓ کے بارے میں نظر آتی ہے کہ ان کوبدخصلت گنڈا ثابت کرنے کا کیال اتنا غالب رہا کہ ''ینب نبیب التیس'' کے الفاظ تو پیش نظر رہے او ربہ تکلف ان الفاظ کو حضرت ماعزؓ پر چسپاں کردیاگیا، لیکن خود ان کے قبیلے کے لوگوں کابیان لائق توجہ نہ رہا او رنہ اس پر اعتماد کیاجاسکا۔

اصل واقعہ یہ ہے کہ جب آنحضورﷺ نے قبیلے والوں سے دریافت فرمایاتو انہوں نے حضرت ماعزؓ کے بارے میں کہا:
''ما نعلم إلا وفي العقل من صالحینا''
''ماعزؓ کے بارے میں ہمیں یہی معلوم ہے کہ وہ عقل سے بھرپور ہے او رہمارے نیک لوگوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔'' 17

(جاری ہے)


حوالہ جات
1. صفحہ 504 جلد4
2. حوالہ مذکور
3. حوالہ مذکور
4. جلد 4 صفحہ 506
5. ابوداؤد۔ حدود۔جامع الاصول ج3 ص525
6. صحیح مسلم ج11، کتاب الحدود
7. ملاحظہ ہو تدبر نمبر 3 صفحہ 30
8. سہ ماہی رسالہ ''تدبر'' شمارہ نمبر 3 صفحہ 30
9. صحیح بخاری مع فتح الباری جلد12 صفحہ 129 کتاب الحدود
10. مصنف عبدالرزاق جلد7 صفحہ 321، فتح الباری جلد 12، صفحہ 131
11. جامع الاصول ج3 صفحہ 533، بحوالہ صحیح مسلم، ابوداؤد، جامع ترمذی
12. صحیح مسلم مع شرح للنووی جلد نمبر 11 صفحہ 205
13.  ص 35، شمارہ3
14. تدبر قرآن، جلد 4 صفحہ 506
15. صحیح مسلم مع شرح النووی جلد 11 صفحہ 205 کتاب الحدود
16. جلد 11 صفحہ 203
17. صحیح مسلم ج11،ص203

 


 

i. تدبر قرآن، جلد4 صفحہ 505

ii.  یعنی دودھ چھڑانا