دستور1973ءمیں نویں ترمیم کے لیے قرارداد
16۔اکتوبر 1985ء کو یہ قرار داد قومی اسمبلی نے اپنے اجلاس میں حکومتی پارٹی اورآزاد گروپ کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت متفقہ طور پر منظور کی۔
(1) قومی اسمبلی متفقہ طور پر یہ قرار داد منظور کرتی ہے کہ اس کے آئندہ اجلاس میں ایک نئے دستوری ترمیمی بل کے ذریعے درج ذیل دستوری ترامیم کی جائیں۔
(الف) : آرٹیکل نمبر 2 میں ''اسلام پاکستان کا سرکاری مذہب ہے'' کے بعد اضافہ کیا جائے کہ ''قرآن و سنت ملک کے بالاترین (سپریم) قانون اور پالیسی بنانے اور قانون سازی کے لیے اصل منبع ہوں گے۔''
(ب) : آرٹیکل نمبر 203 ب (ج) میں ترمیم کی جائے۔ تاکہ درج ذیل کو مؤثر بنایا جاسکے۔
(i) قانون کی تعریف درج ذیل ہوگی:
''قانون میں کوئی بھی رواج یا رسم جسے قانون کی طاقت حاصل ہو شامل ہے۔ لیکن اس میں دستور شامل نہیں ہے۔''
(ii) جملہ کا بقیہ حصہ ''مسلم پرسنل لاء'' سے لے کر ''آخری لفظ'' تک حذف کردیا جائے۔
(iii) ایک وضاحتی شق کا اضافہ کیا جائے تاکہ مالیاتی بینکاری سے متعلق معاملات میں فیڈرل شریعت کورٹ متعلقہ ماہرین کے مشورے کے بعد متعین اقدامات اور ایک مقررہ مدت کی سفارش کرے گی جس مدت میں متعلقہ قانون ساز ادارے کو ضروری اقدامات کرنے ہوں گے۔ تاکہ قانون کو اسلام کے ضابطوں کے مطابق بنایا جاسکے۔
(2) مزید برآں قومی اسمبلی یہ قرار داد بھی منظور کرتی ہے کہ وزیراعظم ایک کمیشن قائم کریں جو چھ ماہ کے اندر اندر پارلیمنٹ کو رپورٹ دے کہ اس قرارداد کے پیرا گراف نمبر 1 اور دستور کے آرٹیکل نمبر 2۔اے کو پورا کرنے کے لیے دستور میں مزید کن ترامیم و تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
(3) یہ کمیشن ملک میں نفاذ اسلام کے عمل کو تیز بنانے کے لیے اقدامات اور ذرائع بھی تجویز کرے گا اور پارلیمنٹ کو اس سمت میں ہونے والی پیرقفت سے بھی اگاہ کرے گا۔
نفاذ شریعت بل 1985ء
بل کے بارے میں 24۔ اپریل 1986ء تک آراء بھیجنے کی ہدایت
قاضی عبداللطیف و مولانا سمیع الحق، سینیٹروں نے 13 جولائی 1985ء کو سینٹ میں نفاذ شریعت بل 1985ء پیش کیا۔بل کو پیش کئے جانے کے بعد متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔ 10نومبر 1985ء کو محرک کی طرف سے زبانی تحریک پیش کیے جانے کے بعد بل منتخبہ کمیٹی کوبھیج دیا گیا تھا۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ 12 دسمبر 1985ء کو ایوان میں پیش کی۔
26 جنوری 1986ء کو یہ بل منتخبہ کمیٹی کی پیش کردہ صورت میں سینیٹ کے زیر غور لایا گیا ہے۔بل حسب ذیل ہے:
چونکہ قرار داد مقاصد کو، جوکہ سابقہ دساتیر میں بطور تمہید کے رکھی گئی ہے، جناب صدر مملکت نےاپنے صدارتی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے دستور مستقل کا حصہ قرار دے دیا ۔ اور چونکہ قرارداد مقاصد میں اس ملک کا حاکم اعلیٰ تشریعی اور تکوینی دونوں حیثیتون سے رب العالمین خالق کائنات کو تسلیم کیا گیاہے۔ اور چونکہ یہ ملک مسلمانوں کی عملی زندگی کو قرآن اور سنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے معرض وجود میں لایا گیاہے۔ اور چونکہ اس ملک کے باشندوں کے ساتھ یہ عہد کیا گیا کہ یہاں قرآن و سنت کا قانون زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی اور نافذ ہوگا۔ اور چونکہ موجودہ ریفرنڈم اور انتخابات میں عوام نے صدر مملکت اور پارلیمنٹ کو شریعت کے عملی نفاذ کے لیے منتخب کیا ہے۔
1۔ لہٰذا حسب ذیل قانون وضع کیا جاتا ہے:
1۔ مختصر عوان ، وسعت اور آغاز نفاز (1) یہ ایکٹ نفاذ شریعت ایکٹ 1985ء کے نام سے موسوم ہوگا۔
2۔ یہ پورے پاکستان پر وسعت پذیر ہوگا۔
3۔ یہ (***) فی الفور نافذ العمل ہوگا۔
2۔ تعریف۔ اس ایکٹ میں شریعت سے مراد:
(الف) دین کا وہ خاص طریقہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کے ذریعے سے اپنے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے۔
(ب) شریعت کا اصل مأخذ قرآن پاک اور سنت رسول اللہ ﷺ ہے۔
(ج) کوئی حکم یا ضابطہ ، جواجماع امت سے ثابت اور ماخوذ ہو، شریعت کا حکم متصور ہوگا۔
(د) ایسے احکام جو امت کے مسلّمہ اور مستند فقہاء (مجتہدین نے قرآن پاک، سنت رسولﷺ اور اجماع امت کے قیاس و اجتہاد کے ذریعے مستنبط کرکے مدوّن کیے ہیں۔ شریعت کے احکام متصور ہوں گے۔
3۔ کوئی مقننہ شریعت کے خلاف قانون نہیں بنائے گی:
مقننہ کوئی ایسا قانون یا قرار داد منظور نہیں کرسکے گی جو شریعت کے احکام کے خلاف ہو۔ اگر کوئی ایسا قانون یا قرار داد منظور کرلی گوی تو (***) اسے وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا جاسکے گا۔(***)
4۔ عدالتیں شریعت کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کریں:
ملک کی (*) عدالتیں (***) تمام امور و مقدمات میں شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی۔(***)
5۔ وفاقی شرعی عدالت کا دائرہ اختیار:
وفاقی شرعی عدالت کا دائرہ اختیار سماعت و فیصلہ بلا (*) استثنیٰ تمام امور و مقدمات پر حاوی ہوگا۔(***)
6۔ شریعت کے خلاف احکامات دینے پر پابندی:
انتظامیہ کا کوئی بھی فرد بشمول صدر مملکت اور وزیراعظم، شریعت کے خلاف کوئی حکم نہیں دے سکے گا۔(***)
7۔ عدالتی عمل اور احتساب :
حکومت کے تمام عمال بشمول صدر مملکت (***) اسلامی قانون عدل کے مطابق عدالتی احتساب سے بالاتر نہیں ہوں گے۔
8۔ حذف کردی گئی۔
9۔ غیر مسلم کو تبلیغ کی آزادی:
غیر مسلم باشندگان مملکت کو(***) اپنے ہم مذہبوں کے سامنے مذہبی تبلیغ کی آزادی ہوگی اور انہیں اپنے شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون کے مطابق کرنےکا حق حاصل ہوگا۔
10۔ علماء کو جج مقرر کیا جائے گا:
تمام عدالتوں میں حسب ضرورت تجربہ کار جید اور مستند علماء دین کا بحیثیت جج اور معاونین عدالت تقرر کیاجائے گا۔
11۔ ججوں کی تربیت کے انتظامات :
علوم شرعیہ اور اسلامی قانون کی تعلیم اور ججوں کی تربیت کا ایسا مؤثر انتظام کیاجائے گا کہ مستقبل میں علوم شرعیہ اور خصوصاً اسلامی قانون کے ماہر جج تیار ہوسکیں۔
12۔ قرآن و سنت کی تعبیر:
قرآن و سنت کی وہی تعبیر معتبر ہوگی جو اہل بیت عظامؑ، صحابہ کرامؓ اور مستند مجتہدین کے علم اصول تفسیر اور علم اصول حدیث کے مسلّمہ قواعد و ضوابط کے مطابق ہو۔
13۔ عمال حکومت کےلیے شریعت کی پابندی:
انتظامیہ، عدیہ ، مقننہ کے ہر فرد کے لیے فرائض شریعت کی پابندی اور محرمات شریعت سے اجتناب کرنا لازم ہوگا۔
14۔ ذرائع ابلاغ کی تطہیر:
تمام ذرائع ابلاغ کو خلاف شریعت پروگراموں ، فواحش اور منکرات سے پاک کیا جائے گا۔
15۔ حرام کمائی پر پابندی:
حرام طریقوں اور خلاف شریعت کاروبار کے ذریعہ دولت کمانے پر پابندی ہوگی۔
16۔ بنیادی حقوق کا تحفظ:
شریعت نے جو بنیادی حقوق باشندگان ملک کو دیئے ہین ان کے خلاف کوئی حکم نہیں دیا جائے گا۔(***)
3۔ بل کی اغراض و وجوہ بھی حسب ذیل ہیں:
مملکت خداداد پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے۔ اس کی بنیاد اسلام کے نظریہ پر قائم ہے۔
اس مسّودہ قانون کی غرض و غایت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور ملک کے اسلامی نظریہ کا استحکام ہے۔
اہل ملک کو، جو بلا امتیازی عرصہ سے اس نظام کے لیے بے چین ہیں، مطمئن کرنا ہے۔
ملک میں صحیح اسلامی معاشرہ کے ذریعہ امن و امان اور اسلامی مساوات قائم کرنا ہے۔
4۔ 26 جنوری 1986ء کو منعقد ہونے والے سینیٹ کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیاگیا کہ بل پر تین ماہ کے اندر یعنی 25۔اپریل 1986ء تک رائے عامہ حاصل کرنے کے لیے اسے مشتہر کیا جائے۔
5۔ عوام میں سے کوئی شخص یا کوئی ادارے یا انجمنیں وغیرہ جو بل کی تمام یا اس کی کسی دفعہ پر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، وہ اپنی رائے سیکرٹری،سینیٹ سیکرٹریٹ، عمارت بینک دولت پاکستان، اسلام آباد کو زیادہ سے زیادہ 25 اپریل 1986ء تک بھیج سکتا ہے۔