فتاوی

1۔ نماز ِ مغرب سے پہلے دو رکعتیں
2۔ تصویر بنانا، بنوانا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

ماسٹر بشیر احمد صاحب علی پور چٹھہ ضلع گوجرانوالہ سے لکھتے ہیں:
جناب مولانا صاحب، السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ'!

سوال : کیا نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھنا مسنون ہے؟ جواب مدلّل، بالتفصیل تحریر فرمائیں، جزاکم اللہ
الجواب :عصر حاضر میں امت مسلمہ کا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت دین اسلام سے بہ بہرہ او رلاتعلق ہے اور جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے ، اس میں اضافہ ہی اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ چنانچہ ایک ایک کرکے سنن نبویہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام) کو ترک کیا جارہا ہے۔ زیادہ افسوس تو ان اصحاب علم و فضل پر ہے جو علم کے باوجود صحیح احادیث سے ثابت شدہ سنتوں کو اہمیت نہ دیتے ہوئے عملاً ترک کرچکے ہیں۔ انہی سنتوں میں سے نماز مغرب سے قبل دو رکعت نماز ادا کرنے کی سنت بھی ہے، حالانکہ بہت سی احادیث میں اس کا ذکر اور ثبوت ملتا ہے۔ تفصیل ملاحظہ ہو:

قولی احادیث:
یعنی وہ احادیث ، جن میں رسول اللہ ﷺ نے مغرب سے قبل نماز کی ترغیب دلائی ہے:
'' عن عبداللہ بن مغفل قال قال النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بین کل أذانین صلوٰة بین کل أذانین صلوٰة ثم قال في الثالثة لمن شآء'' 1
''حضرت عبداللہ بن مغفلؓ فرماتے ہیں، آنحضرتﷺ نے فرمایا: ہر دو اذانوں (یعنی اذان و اقامت) کے درمیان نماز ہے۔ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔ تیسری مرتبہ بھی اسی طرح ارشاد فرمانے کے بعد فرمایا جو چاہے (یعنی جو پڑھنا چاہے پڑھے اور جو نہ پڑھنا چاہے نہ پڑھے)''

''عن عبداللہ بن الزبیر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مامن صلوٰة مفروضة إلابین یدیھا رکعتان''2
''حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے روایت ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: '' ہر فرضی نماز سےقبل دو رکعتیں ہیں''

مذکورہ بالا دونوں احادیث کا عموم متقاضی ہے کہ عام نمازوں کی طرح مغرب سے قبل بھی نماز پڑھنا مسنون ہے۔ ظاہر ہے ، نماز مغرب بھی فرضی نماز ہے اور نماز مغرب اور باقی نمازوں میں بحیثیت نماز و فرضیت کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ اور سنن دارمی کی بتویب میں نماز مغرب کا ذکر ہے۔جبکہ سنن ابی داؤد کی ایک اور حدیث کے متن میں بھی واضح طور پر نماز مغرب کا ذکر ہے۔ملاحظہ ہو:
''عن عبداللہ المزني قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلوا قبل المغرب رکعتین ثم قال صلوا قبل المغرب رکعتین لمن شآء خشیة أن یتخذھا الناس سنة'' 3
''حضرت عبداللہ المزنیؓ فرماتے ہیں، آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا: ''مغرب سے قبل دو رکعت نماز پڑھا کرو، مغرب سے قبل دو رکعت نماز پڑھا کرو۔'' (البتہ تیسری مرتبہ ''جو چاہے'' کے الفاظ کا اضافہ فرمایا) تاکہ لوگ اسے سنت (موکدہi ) نہ بنا لیں۔''

فعلی حدیث:
یعنی وہ حدیث جس میں خود آنحضرتﷺ کا مغرب سے قبل دو رکعتیں پڑھنا مذکور ہے۔ملاحظہ ہو :
''عن عبداللہ بن بریدة أن عبداللہ المزني حدثه،أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی قبل المغرب رکعتین'' 4
''عبداللہ بن بریدہ کا بیان ہے، حضرت عبداللہ المزنیؓ نے انہیں بتایا کہ آنحضرتﷺ نے مغرب سے قبل دو رکعت نماز پڑھی۔''

تقریری احادیث:
صحابہ کرامؓ نے آنحضرتؐ کی موجودگی میں کوئی کام کیا اور آنحضرتؐ نے انہیں کچھ نہ کہا بلکہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ گویا آپؐ اس عمل پر رضا مند ہیں، اسے تقریری حدیث کہا جاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ کی اکثریت آپؐ کی موجودگی می مغرب سے قبل دو رکعت نماز ادا کیا کرتی تھی مگر آپؐ نےکبھی بھی منع نہ فرمایا۔

''عن أنس بن مالك قال کان المؤذن إذا اذن قام الناس من أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یبتدرون السواري حتی یخرج النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وھم کذٰلك یصلون رکعتین قبل المغرب ولم یکن بین الأذان والإ قامة شيء وقال عثمان بن جبلة و أبوداود عن شعبة لم یکن بینھما إلاقلیل''5
''حضرت انس بن مالکؓ کا بیان ہے، مؤذن جب اذان دیتا تو صحابہ کرامؓ ستونوں کے قریب ہوکر مغرب سے قبل دو رکعت نماز پرھتے۔ جب آنحضرتﷺ تشریف لاتے تو وہ اسی حال میں ہوتے اور اذان اور اقامت کے مابین کوئی زیادہ وقفہ نہ ہوتا تھا۔ نیز جناب شعبہ کا بیان ہے کہ اذان او راقامت کے درمیان معمولی وقفہ ہوتا تھا۔''

''قال أنس و کنا نصلي علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکعتین بعد غروب الشمس قبل صلوٰة المغرب فقلت له أکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلاھما؟ قال کان یرانا فلم یأ مرنا ولم ینھنا'' 6
''(حضرت انسؓ کے شاگرد بیان کرتے ہیں کہ) حضرت انسؓ نے فرمایا، ہم ''آنحضرتؐ کے دور مبارک میں سورج غروب ہونے کے بعد او رنماز مغرب سے قبل، دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔'' میں نے پوچھا، ''کیا خو د رسول اکرمﷺ نے بھی یہ رکعتین پڑھی ہیں؟'' حضرت انسؓ نے جواب دیا، ''آپؐ ہمیں پڑھتے دیکھا کرتے تھے۔ چنانچہ نہ تو آپؐ نے ہمیں اس کا حکم دیا اور نہ ہی اس سے روکا''

معلوم ہواکہ آپؐ نے سکوت اختیار فرماتے ہوئے اس عمل پر رضا مندی کا اظہار فرمایا، ورنہ ناپسندیدگی کی صورت میں آپؐ قطعاً خاموش نہ رہتے اور اس سے منع فرما دیتے۔

''عن علي بن زید بن جدعان قال سمعت أنس بن مالك یقول إن کان المؤذن لیؤذن علیٰ عهد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیریٰ أنھا الإقامة من کثرة من یقول فیصلي الرکعتین قبل المغرب''7
''علی بن زید کا بیان ہے، میں نے حضرت انسؓ کو فرماتے سنا کہ ''آنحضرتﷺ کے عہد مبارک میں جب اذان ہوتی تو مغرب سے قبل دو رکعت پڑھنےوالوں کی کثرت دیکھ کر یوں معلوم ہوتا گویا اقامت ہوچکی ہے۔''

پس مذکورہ بالا قول، فعلی، تقریری احادیث سے ثابت ہوا کہ مغرب سے قبل دو رکعت نماز پڑھنا مسنون ہے، لہٰذا ائمہ کرام کو چاہیے کہ اذان اور اقامت کے مابین اتنا وقفہ ضرور دیا کریں کہ دو رکعت نماز پڑھی جاسکے۔ تاکہ جو نمازی اس سنت پر عمل کرنا چاہیں وہ عمل کرسکیں۔

(2)
(1) تصویربنانا، بنوانا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
(2) تصویر اگر جیب میں ہو تو نماز ہوجاتی ہے یا نہیں؟
(3) اگر تصویر شرعاً منع ہے تو اہلحدیث حضرات کیوں تصویریں کھنچواتے ہیں؟

الجواب :
واضح رہے کہ تصویر کی دو صورتیں ہیں۔ایک جاندار چیزوں کی تصویر، دوسری بے جان چیزوں کی تصویر۔ جاندار کی تصویر کا بنانا، بنوانا اور اس کی خرید و فروخت کرنا سب ممنوع او رناجائز ہیں۔ اس بارہ میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ ہم بالاختصار چند احادیث مع ترجمہ ذکرکرتے ہیں جن سے مسئلہ کی صورت واضح ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ

(1) ''عن أبي طلحة قال قال النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لا تدخل الملائکة بیتا فيه کلب ولا تصاویر'' 8
''حضرت ابوطلحةؓ فرماتے ہیں ، آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جس گھر میں کتے اور تصویریں ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔''

(2) ''عن عائشة أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لم یکن یترك في بیته شیئا فيه تصالیب إلا نقضه'' 9
''حضرت عائشہ صدیقہؓ کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں کوئی ایسی چیز سلامت نہ چھوڑتے جس پر تصویریں ہوتیں''

(3) ''عن عبداللہ بن مسعود قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول أشد الناس عذابا عنداللہ المصورون'' 10
''حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ ''اللہ کے ہاں سب لوگوں سے زیادہ عذاب تصویریں بنانے والوں پر ہوگا۔''

(4) '' حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں،''میں نے ایک مرتبہ ایک باتصویر تکیہ خریدا۔ آنحضرتﷺ نے دیکھا تو دروازے پر ہی ٹھہر گئے اور اندر تشریف نہ لائے۔ میں نے آپؐ کے چہرے پر ناگواری محسوس کی۔ میں نے کہا یارسول اللہ ﷺ! میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف رجوع کرتی ہوں، مجھ سے کون سی خطا سرزد ہوگئی؟'' آپؐ نے تکیہ کے متعلق فرمایا، ''یہ کیا ہے؟'' میں نے کہا، ''یہ آپؐ کے ٹیک لگانے اور بیٹھنے کے لیے میں نے خریدا ہے۔'' آپؐ نے فرمایا، ''ان تصویر والوں کو قیامت کے روز عذاب کیا جائے گا او رکہا جاوے گا کہ جن چیزوں کو تم نے بنایا ہے، انہیں زندہ کرو۔'' نیز فرمایا، ''جس گھر میں تصویر ہوں وہاں فرشتے نہیں آتے۔'' 11

(5) حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں ، میں نے آنحضرتﷺ کو فرماتے سنا کہ ''ہر مصور جہنم میں جائے گا او رجس قدر تصاویر اس نے بنائی ہوں گی، ہر تصویر کے بدلے جسم بنائے جائیں گے اور (اسی قدر) اس شخص کو عذاب دیا جائے گا۔'' ابن عباسؓ نے فرمایا: '' اگر ضروری بنانی ہو تو درختوں او ربے جان چیزوں کی تصویر بنا لیا کرو۔'' 12

پس ان احادیث سے معلوم ہواکہ:
(1) جاندار چیزوں کی تصاویر شرعاً ممنوع ہیں۔ ان کا بنانا ، بنوانا او ران کی تجارت کرنا جائز نہیں۔
(2) تصویر اگرچہ ناجائز ہے تاہم اگر جیب میں کسی جاندار کی تصویر ہو (جیسے شناختی کارڈ، پاسپورٹ او رکرنسی پر ہوتی ہیں) تو نماز ہوجائے گی اگرچہ بہتر یہی ہے کہ جیب میں تصویر نہ ہو۔
(3) دین میں کسی شخص یا قوم کا عمل و کردار حجت نہیں۔ اہلحدیث حضرات اگرچہ عقیدہ کے لحاظ سے سب سے افضل ہیں او رالحمد للہ عمل میں بھی یہ باقی تمام مسلمانوں سے آگے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے بعض لوگوں میں عملی کوتاہی آگئی ہے۔احادیث مذکورہ بالا وغیرہا سے چونکہ ثابت ہے کہ تصویر بنوانا جائز نہیں لہٰذا جو لوگ بنواتے ہیں انہیں اس سے بچنا چاہیے۔البتہ بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں تصویر سے بچنا مشکل ہوگیا ہے مثلاً پاسپورٹ، شناختی کارڈ، کرنسی اور تعلیمی اداروں میں داخلہ وغیرہ کے موقع پر۔ سو یہ تمام صورتیں اضطراری حیثیت رکھتی ہیں او ران کا گناہ ان لوگون کو ہوگا جنہوں نے یہ قانون بنایا ہے او رجو لوگ یہ کاروبار کرتے وہ بھی مجرم ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنا مجرمانہ کاروبار چھوڑ دیں تو یہ لعنت ختم ہوسکتی ہے۔مگر اس مرض کا علاج مشکل ہوچکا ہے۔

اگر کسی کے علم کے بغیر تصویر کھینچ لی گئی اور وہ اس پر خوش بھی نہ ہو تو امید ہے کہ وہ گرفت سے محفوظ رہے گا۔ إن شاء اللہ۔ واللہ أعلم بالصواب


حوالہ جات
1. صحیح البخاری ص1؍87 باب بین کل أذانین صلوٰة و باب کم بین الأذان والإقامة، صحیح مسلم صفحہ 1؍278 باب استحباب رکعتین قبل صلوٰة المغرب، سنن أبي داود مع عون المعبود صفحہ 1؍494 باب الصلوٰة قبل المغرب، سنن النسائی صفحہ 1؍78 باب الصلوٰة بین الأذان والإقامة،جامع ترمذی باب ماجاء في الصلوٰة قبل المغرب، سنن ابن ماجہ ص82 باب ماجاء في الرکعتین قبل المغرب، سنن دارمی صفحہ336 باب الرکعتین قبل المغرب
2. موارد الظمآن الیٰ زوائد ابن حبان صفحہ 162 رقم الحدیث 615
3. سنن ابی داؤد مع عون المعبود 1؍294
4. موارد الظمآن الیٰ زوائد ابن حبان صفحہ 163 رقم الحدیث 617
5. صحیح البخاری صفحہ 1؍83 باب کم بین الاذان والاقامة، صحیح مسلم صفحہ 1؍278 باب استحباب رکعتین قبل صلوٰة المغرب، سنن نسائی صفحہ 1؍83 باب الصلوٰة بین الاذان والاقامة
6. صحیح مسلم صفحہ 1؍278 باب استحباب رکعتین قبل المغرب، سنن أبي داود مع عون المعبود ج1 صفحہ 494، باب الصلوٰة قبل المغرب
7. سنن ابن ماجہ صفحہ 83 باب الرکعتین قبل المغرب
8. صحیح بخاری و صحیح مسلم، بحوالہ مشکوٰة صفحہ 2؍385
9. صحیح بخاری بحوالہ مشکوٰة صفحہ 2؍385
10. صحیح بخاری و صحیح مسلم۔مشکوٰة صفحہ 2؍385
11. صحیح بخاری و صحیح مسلم بحوالہ مشکوٰة صفحہ 2؍385
12. صحیحین بحوالہ مشکوٰة صفحہ 2؍386


i. سنت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک موکدہ دوسری غیر موکدہ۔ فرض نمازوں سے آگے پیچھے دس بارہ رکعتیں موکدہ ہیں، جنہیں سنت راتبہ بھی کہتے ہیں۔ باقی سنت غیر موکدہ ہیں۔ مغرب کی دو سنتیں اس قبیل سے ہیں۔ واضح رہے کہ یہاں ''أن یتخذھا الناس سنة'' کے الفاظ سے یہ مغالطٰہ نہیں ہونا چاہیے کہ نماز مغرب سے قبل دو رکعتیں سنت نہیں ہیں۔ کیونکہ حدیث میں اس سے قبل دو مرتبہ ''صلوا'' (پڑھو) کے الفاظ بصیغہ امر موجود ہیں۔ طاہر ہے اس کا یہی مطلب ہوسکتا ہے کہ یہ رکعتیں مسنون تو ہیں لیکن ان رکعتوں کو تاکید پر محمول نہ کرنا چاہیے۔ورنہ ''صلوا'' کے کوئی معنی ہی باقی نہیں رہتے۔ بالفاظ دیگر یہاں سنت کا لفظ فقہی اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا بلکہ طریقہ مسلوکہ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی انہیں موکدہ نہ جان لیا جائے۔ اسی لیے ترجمہ میں ہم نے اصل مفہوم کی رعایت رکھی ہے۔ جس کی تائید ''لمن شاء'' کے الفاظ بھی کررہے ہیں۔