انتخاب

خدا پر کامل اعتقاد رکھیے۔ علماءِ کرام کے خلاف سازش

خدا پر کامل اعتقاد رکھیے:

''تاریخ ان لوگوں کے بارے میں فیصلہ کرے گی جن کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے نتیجہ میں برصغیر میں بد امنی اور انتشار پھیلا۔ ہزاروں لوگوں کو طرح طرح کے مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں اپنے گھر بار، اپنی املاک، غرض کہ ہر چیز کو خیر باد کہنا پڑا۔ نہتے عوام کو جس منظم طریق سے قتل کیا جا رہا ہے اسے دیکھ کر ہلاکو اور چنگیز کی روحیں بھی شرما رہی ہیں۔ ہم ایک سوچی سمجھی اور منظم سازش کا شکار ہوئے ہیں اور اس سازش کو تیار کرتے وقت دیانت داری، جرأت و بہادری اور احترام کے ابتدائی اصولوں کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ ہم خدا کے حضور سر بسجود ہیں کہ اس نے ہمیں مصائب کا مقابلہ کرنے کی ہمت عطا فرمائی۔ اگر ہم قرآن پاک کو رہنما بنائیں تو یقین کیجئے کہ آخری فتح ہماری ہی ہو گی۔ اپنا حوصلہ بلند رکھیے۔ موت سے خوف زدہ نہ ہوں۔ ہمارے مذہب نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم سفرِ آخرت کے لئے ہر وقت تیار رہیں۔ ہمیں حوصلے اور جرأت کے ساتھ موت کا سامنا کرنا چاہئے تاکہ پاکستان اور اسلام کے ناموس کی حفاظت کی جا سکے۔ مسلمان کے لئے شہادت سے بڑھ کر کوئی رتبہ نہیں۔ اپنا فرض انجام دیجئے اور خدا پر کامل اعتقاد رکھیے۔ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کا وجود ختم نہیں کر سکتی۔ پاکستان ہمیشہ قائم رہے گا۔'' بانیٔ پاکستان محمد علی جناح ۳۰ ؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء

علماء کرام کے خلاف سازش:

۱۸۵۷ء کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد جب انگریز نے ہندوستان پر اپنے حاکمانہ قبضہ کی گرفت مضبوط کرنی چاہی تو انہیں یہ محسوس ہوا کہ مسلمان کٹر قسم کے مذہبی لوگ ہیں اور اپنے مذہبی تعصب کی بنا پر انگریزوں کی ہر ایک چیز سے نفرتِ شدید کرتے ہیں اور اسی مذہبی جوش کے باعث ان میں جذبۂ جہاد بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ انگریز ہندوستان کو فتح کر چکے تھے لیکن وہ جانتے تھے کہ مسلمان کا جذبۂ جہاد ایک شیر کی طرح ہے کہ جب تک وہ اپنی کچھار میں پڑا سوتا رہتا ہے کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا۔ لیکن جب وہ بیدار ہو جاتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت بھی اس کو خوفزدہ نہیں کر سکتی۔ یہی اندیشہ تھا جس نے انگریز کو پریشان کر رکھا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ کوئی ترکیب ایسی چلنی چاہئے کہ مسلمانوں کے دلوں میں انگریزیت کے خلاف جو جذبۂ نفرت بھرا ہوا ہے وہ جاتا رہے لیکن اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ علمائے کرام کا ہی وجود ہے اور یہ ایسی کچی گولیاں کھیلے ہوئے نہیں ہیں کہ آسانی سے کسی کے نقرئی یازریں دامِ فریب میں آسکیں۔ اس بناء پر انہوں نے چاہا کہ کسی طرح علماء کا وقار ختم کر دیا جائے اور مسلمانوں کے دل و دماغ پر انہوں نے جو تسلط جما رکھا ہے اس کی گرفت کو ڈھیلا کر دیا جائے۔'' (فہم قرآن تالیف مولانا سید احمد صاحب ص ۱۶)

ارباب تعلیم اور اصحابِ مدارس کے لئے لمحہ فکریہ:

اربابِ بصیرت اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے ملک میں لا دینی تعلیم اور مادہ پرستانہ رجحانات نے تعلیم و سیاست سے اسلام کو الگ رکھ کر جس طرح نظریہ پاکستان کو عملی شکل دینے سے پہلو تہی کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی، اس نے پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں اور آج نہ صرف یہ کہ ہم مشرقی پاکستان کھو بیٹھے ہیں، بلکہ پورے پاکستان میں لادین اور علیحدگی پسندانہ تحریکیں زوروں پر ہیں جس کا واحد حل ملک میں اسلامی نظام کا عملاً نفاذ اور اسلامی تعلیم کا دور دورہ ہے۔ بلاشبہ اس وقت ملک میں اگر اسلام کا کچھ نام باقی ہے تو یہ دینی مدارس کا رہینِ منت ہے۔ لیکن اگر ینی مدارس نے عصری تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے نصاب تعلیم اور طریقۂ تعلیم کو زمانہ حال کی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں نہ کیں تو معاشرہ کی نگاہ میں وہ اپنی رہی سہی اہمیت بھی کھو بیٹھیں گے جس کا نتیجہ ملک و ملت کی تباہی ہو گا۔

اس وقت جبکہ ملک میں نئی تعلیمی پالیسی تیار کی جا رہی ہے اور دینی مدارس میں بھی نئے سال کی ابتدا ہے، اصحابِ مدارس اور ماہرینِ تعلیم کو دینی مدارس کو مفید تر بنانے اور ان کے روشن مستقبل کے لئے باہمی مل بیٹھنے کا انتظام کرنا چاہئے تاکہ باہمی تبادلہ خیالات سے طریقہ ہائے کار اختیار کیے جا سکیں۔ اس وقت ملک کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ علماء کی ایک کھیپ تیار کی جائے جو کتاب و سنت کی تعلیمات کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق پیش کر کے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات کے طور پر ملک میں رائج کر سکیں۔