نوٹ: اس موضوع پر صحيح نقطہ نظر با دلائل پيش كرنے كے لئے ہم عنقريب ايك تفصیلی مضمون ہدیۂ قارئین کریں گے۔ ان شاء اللہ (ادارہ)
سماع سے مراد گانے باجے سننا ہے۔ یہ جائز ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔ علمائے احناف میں حضرت امام عبد الغنی نابلسی (ف ۱۱۴۴ھ) کا نظریہ یہ ہے کہ مشروط طور پر جائز ہے ، ورنہ ناجائز۔ انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی ہے اس کا نام ''إیضاح الدلالات في سماع الآلات۔'' اس میں انہوں نے ''سماع'' کے مختلف پہلوؤں سے بحث کی ہے جو خاصی دل چسپ اور طویل ہے۔ آخر میں اس کا حاصل پیش کیا ہے، یہاں پر ہم اس حصہ کی تلخیص آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ اس تلخیص کا بھی حاصل یہ ہے کہ ''نہ نومن تیل ہو گا، نہ رادھا ناچے گی۔'' نہ وہ شرائط پوری ہوں نہ کوئی سنے۔ تاہم ''حمایت سماع'' سے عوام کچھ غلط ہی تاثر لیتے ہیں۔ جیسا کہ آپ ان کے تعامل کا مشاہد فرما رہے ہیں۔ حالانکہ سماع کے مضرات کا تقاضا تھا کہ سدِ باب کے طور پر اس کی حواصلہ افزائی سے اجتناب کیا جاتا۔
ناجائز ہونے کی شرائط:
اگر گانوں اور باجوں میں مندرجہ ذیل امور پائے جائیں تو پھر وہ ناجائز ہوں گے۔
شراب کا دور چلتا ہو، زنا، لواطت اور اس کے محرکات اور دواعی موجود ہوں، جیسے خواہشِ بد کے ساتھ غیر عورت کا بوس و کنار۔ اگر واقعۃً تو وہ مجلس ان فواحش سے خالی ہو، لیکن قلب و نگاہ میں انہی محرمات کی ہلچل ہو کہ سنتے ہی کچھ اسی قسم کے جذبات کو انگیخت ہوتی ہو اور دل چاہنے لگے کہ کاش! یہ سبھی کچھ یہاں موجود ہوتا۔ ان حالات میں یہ بالکل حرام ہے، کیونکہ قصد و نیت کے فتور سے ''وقوع فی المحرمات''' کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ جب کسی شے سے ''تصورات اور خیالات'' مکدر ہو جاتے ہیں تو وہ شے حرام ہو جاتی ہے۔ اس لئے یہ بھی حرام ہیں۔
باقی رہا یہ تجسس کہ باطناً کوئی کس حد تک اس میں ملوث ہے تو گو اس زمانہ میں اکثریت ایسے ہی نا اہلوں کی ہے تاہم ظن و تخمین اور غور و تدبر کے ذریعے علمائے حق اس قسم کی کرید، تجسس اور فتویٰ صادر کرنے کے مکلف نہیں ہیں۔ یہ کام دراصل حکامِ وقت کا ہے۔ کیونکہ وہ خلقِ خدا کی اصلاح حال کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور قانوناً گرفت کرنا بی ان کے لئے ممکن ہوتا ہے۔
اس کی اصل عبارت یہ ہے:
فان اقترنت ھذه الاٰلات وھذا السماع المذكور بأنواعه بالخمر أو الزني أو اللواط أو دواعي ذلك من اللمس بشھوة والتقبيل أو النظر بشھوة لغير الزوجة والأمة أو لم يكن شئ من ذلك في المجلس بل كان في المقصد والنية الشھوات المحرمة بأن تصور في نفسه شيئا من ذٰلك واستحسن أن يكون الموجود في المجلس فھذه السماع حرام حينئذ علي كل من سمعه بعينه في حقه ھو في نفسه باعتبار قصده ونيته لأنه داع في حقهاإلي الوقوع في المحرمات الموجودة في المجلس والمقصودة التي تصورھا في نفسه واستحسنھا أن تكون في ذلك المجلس وكل ما يدعو الي الحرام فھو حرام وإذا كان ھذا المعني ھو الغالب الكثير في أھل ھذا الزمان فلا نحكم به نحن في كل أحد بالفراسة والتخمين وننسب الفسق بسبب ذلك إلي أمة محمد ﷺ ما لم تكن المحرمات المذكورة ظاھرة في ذلك المجلس من غير احتمال ولا تاويل فكل نفس له علي نفسه بصيرة وكل أحد مكلف بحفظ نفسه من المحرمات المھلكة في الآخرة كما ھو مكلف بحفظ نفسه من الأمور المهلكة في الدنيا ولا يجوز التجسس عن عورات المسلمين كما قدمناه الا لحكام السياسة فقط دون حكام الشرع وبقية الناس لأن حكام السياسة ھم المأمورون بسياسة الخلق وتأديبھم علي كل حال ولھم في ھذا من الأحكام ما ليس بغيرھم
مباح صورتیں:
ان کا سننا اس وقت جائز ہے جب مجلس اور قلب و دماغ ان امور سے خالی اور پاک ہوں۔
وہ مجلس جو شراب زنا، لواطت، غیر عورت سے بوس و کنار سے خالی ہو۔ سننے والے کا قصد و ارادہ مستحسن اور پاکیزہ ہو۔ باطن صاف ستھرا ہو۔ اس میں ناپاک خواہشات کا ہجوم نہ ہو، دل کو کنٹرول میں رکھ سکے، جن خیالات، تصورات اور واردات کو اللہ نے حرام کیا ہے۔ اس کو ان سے بچا سکے۔ اگر خیالات آئیں بھی تو فوری طور پر دل کو ان سے پاک کر سکے۔ جو داغ دھبے اُبھرنے لگیں انہیں دھو سکے اور ان کے بار بار کے سماع سے ان کا آئینۂِ دِل مکدر نہ ہونے پائے اور ان کے اثراتِ بد کے قبول کرنے سے فکر و نظر کا تحفظ کر سکے۔
پھر اس کے لئے سماع جائز ہے۔
وأما المباح من ذلك فھو إذا کان المجلس خالیا من الخمر والزنی و اللواطة واللمس بشھوة والتقبيل والنظر بشھوة لغير الزوجة والأمة وكان لذلك السامع قصد حسن و نيته صالحة وباطن نظيف طاھر من الھجوم علي الشھوات المحرمة كشھوة الزني أو اللواط أو شرب الخمر أو شيء من المسكرات أو المخدرات وكان قادرا علي ضبط قلبه وحفظ خاطره من أن يخطر فيه شيء ما حرمه الله تعاليٰ عليه وإذا خطر يقدر عليٰ دفعه من قلبه وغسل خاطره منه في الحال ولا يضره تكرر وقوع ذلك في القلب بعد أن يكون مراقبا للامتناع من قبوله فإنه يجوز له أن يسمع ھذا السماع المذكور حينئذ بأنواعه كلھا ولا يحرم عليه شيء من ذلك
ہمارے نزدیک سماع مع آالآلات کا درجہ ''تفریحِ مباح'' کا درجہ ہے اور وہ بھی عوام کے لئے، خواص کے لئے نہیں، ہاں حسنِ آواز کے ساتھ صرف منظوم مگر بے ضرر کلام کا سننا خواص کے لئے بھی جائز ہے۔ لیکن مع الآلات؟ حاشا وکلا۔ یہ عامی قسم کے لوگوں کا شعار ہے۔ سنجیدہ اور خواص کا نہیں ہے۔
علامہ نابلسی نے اور کئی ایک صوفیاء اور علماء کی طرح یہ کہہ کر بڑا ظلم کیا ہے کہ:
''یہ اہل معرفت کے لئے مستحب، موجب ثواب اور روحانیت کے سلسلہ میں ایک مفید شے بھی ہے۔
فیصیر السماع المذکور حینئذ في حقه مستحبا، مندوبا إليه يتاب عليه لاستفادته منه الحقائق الالھية والمعارف الربانية وفھمه به المعاني التوحيدية والإشارات الربانية
ہمارے نزدیک گانوں اور باجوں کو روحانیات کے باب میں مفید اور ترقیٔ درجات کا موجب تصور کرنا غیر مسلم اقوام کا مذہبی احساس اور گمراہ کن عقیدہ ہے۔ ملتِ حنیفیہ کا نہیں ہے۔ یہ گرجوں، مندروں، اور گرد واروں کی تو جان ہیں مگر خانۂ خدا، مساجد اور مقاماتِ مقدسہ کو ان سے کبھی بھی ملوث نہیں کیا گیا۔ اور نہ ہی کسی با خدا بندے اور اللہ والے نے خانۂ خدا کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے۔ شروع میں یہ مسئلہ در پیش آیا کہ نماز کے لئے اعلان کرنے کی کیا صورت ہو۔ خواب میں ناقوس وغیرہ دکھا کر اذان سکھلائی گئی۔ کیونکہ ان حالات اور ان کے ساتھ سماع غناء کو روحانیات کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ہے۔ اگر ہے تو صرف اتنی کہ یہ ''غارت گر روحانیت'' ہے۔ قومِ یہود اور قومِ ہنود جیسی اقوام کے رسوماتِ عبادت کا حصہ ہیں۔ مسلم کا نہیں ہے۔
حوالہ جات
[1] ايضاح الدلالات فی سماع الآلات ص ۳۷
[1] ایضاح الدلالات فی سماع الآلات ص ۳۸
[1] ايضاً ص ۳۹