نام کتاب: فضائل ابی بکرؓ جنتی بزبان مولا علیؓ جنتی
مرتب: مولانا عبد الرشید حنیف
ناشر: مکتبہ زبیریہ جھنگ صدر
مسلمانوں کی تاریخ کا وہ انتہائی سیاہ دن تھا جب کسی کلمہ گو نے حضرت علیؓ کی (بزعم خود) عقیدت میں کھو کر حضرت ابو بکرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت عمرؓ کو اپنی تنقید کا ہدف بنایا اور وہ روز بھی تاریخ اسلامی کا یقیناً تاریک ترین ہے جب کسی دوسرے کلمہ گو نے حضرت ابو بکرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت عمرؓ کی محبت میں سرشار ہو کر حضرت علیؓ کی تذلیل کی کوشش کی ہو گی۔ امتِ محمدیہ کا یہ اندازِ فکر اور اختلاف اتنا کرب ناک اور المناک ہے کہ اس سلسلہ میں دونوں محاذوں سے الفاظ کے جو زہریلے تیر چلائے گئے ہیں ان کا تصور کر کے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے اور سر ندامت سے جھک جاتا ہے۔ان چاروں بزرگانِ عظام (جن سے دو کو حضرت محمد ﷺ کا سسر اور دو کو آپ ﷺ کا داماد ہونے کا شرف حاصل ہے) کو ایسی ایسی غلیظ گالیاں دی گئیں اور ان پر ایسے ایسے بہتان و الزامات تراشے گئے کہ حیرانگی ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ سن پڑھ کر ہمارے دماغ کی رگیں کیوں نہیں پھٹ گئیں۔
یارانِ نبی ﷺ کا مقام اتنا اعلیٰ اور ارفع ہے کہ خود نبی اکرم ﷺ سے منقول ہے کہ:
''میں علم کا شہر ہوں، ابو بکرؓ اس شہر کی بنیاد ہیں، عمرؓ اس کی دیوار ہیں، عثمانؓ اس کی چھت ہیں اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں۔''
کاش صحابۂ کرامؓ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ذات با برکات پر مشقِ ستم کرنے والے اس پہلو پر غور فرمائیں کہ وہ کس شہر کی بنیاد یا دیوار یا چھت یا دروازہ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں اور اس برا بھلا کہنے کی زد براہِ راست کہاں پڑتی ہے؟ (العیاذ بالله) لیکن کیا کیا جائے کہ یہ مسئلہ اب ایک باقاعدہ اسلامی موضوع بن چکا ہے اور اس موضوع پر بیسیوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ یلغار و دفاع کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ تنقید و تنقیص کا یہ مشغلہ انتہائی اذیت ناک اور ایمان سوز ہے۔ صحابہ کرامؓ کے مرتبہ اور مقام کا مسئلہ ایسا نازک مسئلہ ہے کہ ان پر تنقید و تنقیص تو کجا ان کے متعلق خوب اور خوب تر کی رائے کا اظہار بھی بے ادبی و گستاخی تک جا پہنچتا ہے۔ فلاح کی راہ تو وہی ہے جو مولانا ظفر علی خاںؒ نے اختیار کی ہے۔
؎ ہم مرتبہ ہیں یارانِ نبی ﷺ کچھ فرق نہیں ان چاروں میں
اسی احتیاط کی راہ کو اختیار کرتے ہوئے مولانا عبد الرشید حنیف نے اڑتالیس ۴۸ صفحہ کا ایک کتابچہ بعنوان ''فضائل ابی بکرؓ جنتی بزبان مولا علیؓ جنتی'' مرتب کیا ہے۔ یہ کتابچہ اپنی طرز کا انوکھا اور قابل قدر حیثیت کا حامل ہے۔ حضرت علیؓ کے والا دشیدا اس کتابچہ کے مطالعہ سے خود ہی اندازہ کر سکتے ہیں کہ خود ان کے ممدوح حضرت ابو بکرؓ کے متعلق کتنی اونچی رائے رکھتے تھے اور ان کے دل و نگاہ میں ان کا کتنا احترام تھا۔
اس کتابچہ کی افادیت سے انکار نہیں لیکن مؤلف نے ترتیب میں محنت سے کام نہیں لیا۔ جس کی وجہ سے ایک قاری مطالعہ کے دوران ربط و ضبط کا خلا محسوس کرتا ہے۔ قیمت ایک روپیہ ہے۔ اسے مکتبہ زبیریہ جھنگ صدر کے علاوہ ادارہ اسلامیہ چیچہ وطنی ضلع ساہیوال اور ادارہ نشر علوم اسلامی سمن آباد جھنگ صدر سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
حاشیہ
[1] چاروں بزرگوں کا مقام بلاشبہ نہایت عالی ہے لیکن روایت مذکورہ غریب ہے۔ (ادارہ)
[1] عزت و احترام کے اعتبار سے تو سب واقعی برابر ہیں لیکن صحیح احادیث سے رتبی تفاوت ثابت ہے اور ساری امت میں سے ابو بکر صدیقؓ کا اعلیٰ مقام تو اہل سنت کا متفق علیہ مسئلہ ہے (مدیر)