اسلام کا نظامِ زکوٰۃ اور چند جدید مسائل
'زکوٰۃ' اسلام کے ارکان خمسہ میں شامل ایک اہم رکن ہے جس کا تارک و منکر بلا شبہ کافر و مرتد ہے۔ جیسا کہ قرآنِ مجید میں کافر و مشرک لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ﴿فَإِن تابوا وَأَقامُوا الصَّلوٰةَ وَءاتَوُا الزَّكوٰةَ فَإِخوٰنُكُم فِى الدّينِ...١١﴾... سورة التوبة ''اگر وہ (کفر و شرک سے) توبہ کرلیں اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تووہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔'' گویا اُمت ِمسلمہ میں شمولیت اور مسلم برادری کا حصہ بننے کے لئے ضروری ہے کہ (i) کفر و شرک سے توبہ کی جائے، (ii) نماز ادا کی جائے اور (iii) زکوٰۃ ادا کی جائے۔
زکوٰۃ ایسا اہم دینی فریضہ ہے کہ سستی اور کاہلی کی وجہ سے اگر کوئی صاحب ِنصاب شخص زکوٰۃ ادا نہ کرے تو حکومت وقت جبری طور پر اس سے زکوٰۃ وصول کرنے کی مجاز ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں جب بعض قبائل نے محض زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو آپؓ نے ان کے خلاف قتال کیا اور بعض صحابہؓ کے شبہات پر آپؓ نے فرمایا:
«واﷲ لأقاتلن من فرّق بین الصلاة والزکوٰة فإن الزکوٰة حق المال واﷲ! لومنعوني عنا قا کانوا یؤدونھا إلی رسول اﷲ لقاتلتھم علی منعھا» (بخاری:۱۴۰۰)
''اللہ کی قسم! جوشخص نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے، میں اس کے خلاف ضرور قتال کروںگا۔ بلا شبہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اور اللہ کی قسم! اگر (بالفرض) لوگ بکری کا چھوٹا بچہ جو وہ بطورِ زکوٰۃ اللہ کے رسول کو دیا کرتے تھے، مجھے دینے سے انکار کردیں تو ان کے انکار پر میں نے ان کے خلاف جنگ کروں گا۔''
زکوٰۃ کی فرضیت و اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اور معاشرتی سطح پربہت سے فوائد و مصالح کی بنیاد بھی یہی نظام زکوٰۃ ہے۔ مالداروں کے زائد از ضرورت مال میں سے جہاں ایک انتہائی معمولی اور متعین حصہ بطورِ زکوٰۃ لیا جاتا ہے، وہاں یہی جمع شدہ حصص معاشرے ہی کے ان افراد کی فلاح و بہبود اور کفالت و تربیت پر صرف ہوتے ہیں جو نہ صرف غربت و افلاس کا شکار ہوتے ہیں بلکہ بعض دیگر وجوہات کی بناپر معاشرے کے فعال رکن بننے سے قاصر ہوتے ہیں۔ معاشرے کے اس کمزور اور مستحقِ زکوٰۃ طبقہ سے اگر زکوٰۃ کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے دریافت کیا جائے تو یہ طبقہ اسلام کے نظامِ زکوٰۃ کو ایک بہت بڑی نعمت قرار دے گا۔ جبکہ اس کے برعکس وہ طبقہ جو زکوٰۃ دینے کا اہل قرار پاتا ہے اس کا نکتہ نظر اوّل الذکر سے کہیں مختلف ہوتا ہے۔ اس لئے کہ زکوٰۃ دینے سے ان کے مال میں کمی ہوتی ہے جسے وہ خواہ مخواہ کی چٹی اور بارِ گراں محسوس کرتے ہیں۔ اور ایسے لوگ تو آٹے میں نمک برابرہیں جو زکوٰۃ دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کو بھی اگر یہ کہہ دیا جائے کہ زکوٰۃ فرض نہیں بلکہ مستحب ہے تو ان کی تعداد میں بھی واضح کمی پیدا ہوجائے گی۔
بنیادی طور پر انسان حریص ہے اور مال سے محبت اسکی فطری کمزوریوں میں شامل ہے۔ اسلام نے انسان کی اس فطری کمزوری پر قابو پانے کے لئے جن ذرائع کو اختیار کیا وہ یہ ہیں:
1. زکوٰۃ کو 'فرض' قراردیا
2. صرف اتنے مال پر زکوٰۃ کو فرض کیا جو انسان کی ضرورت سے زائد ہو
3.آلات پیداوار اور ذاتی استعمال کی چیزوں کو اس سے مستثنیٰ کردیا
4. صرف اتنا مال بطورِ زکوٰۃ فرض کیاجو کل مال کے مقابلے میں انتہائی معمولی (یعنی اڑھائی فیصد) ہو
5. زکوٰۃ فر ض کرنے کے باوجود اس کی فضیلتیں بیان کیں
6. زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کو دنیاوی سز ا اور اُخروی عذاب سے متنبہ کیا
مذکورہ باتوں کو اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے زکوٰۃ کی شکل میں انسان پر کوئی ظلم نہیں کیا۔ لیکن اس کے باوجود اگر انسان یہ سمجھتا ہے کہ یہ اڑھائی فیصد مال بطورِ زکوٰۃ دینا ظلم ہے تو پھر اسے یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ اس کے پاس موجود ۱۰۰ فیصد مال کہا ں سے آیا؟ اس مال سے آگے جو وہ مزید نفع کما رہا ہے تو یہ نفع، بڑھوتری اور برکت کون پیدا کررہا ہے؟ اگر تو انسان کا اللہ پر ایمان مستحکم ہے توکچھ بعید نہیں کہ انسان کو بات فوری طور پر سمجھ میں آجائے اور وہ خوشی سے اس فرض کو ادا کرنا شروع کردے۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ زکوٰۃ، جو پہلے ہی بہت سارے اصحابِ ثروت کے لئے سنگ ِگراں کی حیثیت رکھتی ہے، کی فرضیت کے حوالہ سے کچھ نئے نظریات سامنے آرہے ہیں، مثلاً ذاتی رہائش، ذاتی سواری، آلاتِ تجارت وغیرہ پر بھی زکوٰۃ کو محض اس لئے فرض قرار دیا جانے لگا ہے کہ یہ تمام اشیا بھی نہایت قیمتی ہیں اور ان کا مالک 'غنی' کہلانے کا حقدار ہے اور غنی ہی اسے چونکہ زکوٰۃ لی جاتی ہے لہٰذا قیمتی سواری اور قیمتی رہائش کے مالک سے بھی زکاۃ لی جائے گی۔ ان شبہات کی کیا حیثیت ہے، اور اس ضمن میں پیش کئے جانے والے دلائل کا کیا معیارہے اس کی تفصیل آئندہ سطور میں پیش کی جارہی ہے۔اس ضمن میں موضوعِ بحث کو سمجھنے کے لئے زکوٰۃ سے متعلقہ بنیادی شرائط اور حدود و قیود پر تفصیلی روشنی ڈال دی گئی ہے اور متعلقہ شبہات کی تردید بھی ان کے مقامات پر کر دی گئی ہے۔
شروطِ زکوٰۃ
متقدم فقہا میں سے جمہور فقہا نے زکوٰۃ کی فرضیت کے حوالہ سے جن شروط کو متفقہ طور پر بیان کیا ہے وہ یہ ہیں:
1. زکوٰۃ سے متعلقہ مال متعین فرد کی ملکیت ہو
2. اس مال پر اسے ملک ِتام حاصل ہو
3. وہ مال، نامی (یعنی نشوونما کا متحمل) ہو
4.وہ مال ضروریاتِ زندگی (حاجاتِ اصلیہ)سے زائد ہو
5. اس مال پر ایک سال کا وقفہ گزر چکا ہو
6. زکوٰۃ ادا کرنے میں کوئی مانع (قرض وغیرہ کی موجودگی) نہ ہو۔
7. وہ مال مقررہ نصاب کو پہنچ چکا ہو
اس کی مزید تفصیل درج ذیل ہے:
1. مال متعین فرد کی ملکیت ہو
اس کامعنی یہ ہے کہ جس مال سے زکوٰۃ نکالنا فرض ہے وہ مال کسی خاص شخص کی ملکیت ہونا چاہئے۔ اگر وہ مال کسی خاص شخص کی ملکیت نہ ہو تو اس پر زکوٰۃ ادا نہ کی جائے گی مثلاً وقف شدہ اموال، بیت المال، ہسپتال وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جوفردِ واحد کی ملکیت نہیں ہوتیں بلکہ مجموعی طور پر یہ تمام مسلمانوں کے لئے وقف ہوتی ہیں، اس لئے ان سے زکوٰۃ نہیں نکالی جائے گی اور نہ ہی گذشتہ چودہ صدیوں میں کوئی ایسی مثال ہمیں ملتی ہے کہ کسی حاکم وقت نے بیت المال سے یا ہسپتال وغیرہ کی آمدن سے زکوٰۃ ادا کی ہو۔
2. ملک ِتام حاصل ہو
زکوٰۃ اس مال پرفرض ہوگی جوصاحب ِمال کی کامل ملکیت میں ہو۔ خواہ یہ ملکیت قبضہ کی صورت میں ہو یا غیر قبضہ کی صورت۔ لیکن ملکیت بہرحال ایسی ہونی چاہئے کہ مالک کو اس مال پر تصرف کا پورا اختیار ہو اور اسے ہی فقہا کی اصطلاح میں 'ملک ِتام' کہا جاتا ہے۔ گویا کوئی ایسا مال جو گم ہوجائے یا ضائع ہوجائے یا ا س پر کوئی اور تسلط جما لے یا چوری ہوجائے یا ناقابل واپسی قرض کی سی حیثیت اختیار کرجائے تو ایسی تمام صورتوں میں اس پر ملک ِتام کا اطلاق ہرگز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ایسے مال کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی، اِلا یہ کہ جب بھی ایسا گمشدہ مال واپس مل جائے، چوری شدہ مال برآمد ہوجائے، قرض میں ڈوبا ہوا مال واپس ہاتھ آجائے تو پھر ان پر دیگر شرائط ِزکوٰۃ کی روشنی میں زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔
دیگر شرائط میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ اگر ان پر ملکیت میں آنے کے بعد سال نہیں گزرا تھا تو سال گزرنے کا انتظار کیا جائے۔ جمہور فقہا کا فیصلہ تو یہی ہے اور ایک سال گزرنے کی شرط سے متعلقہ احادیث وآثار سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ تاہم بعض فقہا اس کے برعکس اس رائے کے قائل ہیں کہ جب ایسا مال دوبارہ ملکیت میں آجائے توگذشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ نکالی جائے گی لیکن یہ رائے نہ صرف یہ کہ مرجوح ہے بلکہ تکلیف ما لایطاق بھی ہے۔ کیونکہ جب ایک مال کسی شخص کے ملکیت میں رہا ہی نہیں اور ایک عرصہ تک اسی وجہ سے اس مال سے مزید نفع حاصل کرنے پربھی وہ قادر نہ رہا تو پھر اس سارے عرصہ کی زکوٰۃ آخر کیوں دی جائے؟ اور ویسے بھی قرآنِ مجید نے زکوٰۃ کے حوالے سے یہ بات کہی ہے کہ ﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَة...﴾ اور ﴿وَفِي اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ...﴾ اور﴿ اَنْفِقُوْا مِنْ طَيبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ...﴾یعنی زکوٰۃ اس مال پر ہے جو انسان کی ملکیت میں ہو جبکہ سال گذرنے کی شرط (جو آگے آرہی ہے) دیگر احادیث سے ثابت ہے،لیکن جو مال انسان کی ملکیت ہی میں نہ رہا یا اس پر ایک سال کا عرصہ نہیں گزرا تو پھر اس پر اصولی طور پر زکوۃ فرض نہیں۔
3. مال' نامی' (نشوونما کا متحمل) ہو
یعنی زکوٰۃ اس مال پر دی جائے گی جو بالفعل یا بالقوۃ نشوونما کے قابل ہویا دوسرے لفظوں میں ا س مال سے زکوٰۃ دی جائے گی جس میں نمو ِحقیقی یا نمو ِ تقدیری کی خاصیت پائی جائے۔ نمو ِحقیقی سے مراد یہ ہے کہ حقیقی طور پر اس مال کی افزائش اور نشوونما ہوتی رہے مثلاً جانور بذریعہ پیدائش، مال و دولت بذریعہ تجارت اور زمین بذریعہ پیداوار افزائش حقیقی کی خاصیت رکھتی ہے جبکہ نمو ِتقدیری کا معنی یہ ہے کہ اس میں افزائش کی خاصیت بالفعل تو موجود نہ ہو مگر بالقوۃ اس میں یہ خاصیت پائی جاتی ہو مثلاً نقدی، کرنسی وغیرہ ایسی اشیا ہیں جن میں از خود اضافہ اورافزائش تو نہیں ہوتی مگر ان میں افزائش کی خاصیت موجود ہوتی ہے اور وہ اس طرح کہ اگر انہیں تجارت میں لگایاجائے تو افزائش و نمو حاصل ہوسکتی ہے۔ زکوٰۃ کے لئے 'مالِ نامی' کی شرط کی دلیل کیاہے، اس ضمن میں علامہ یوسف قرضاوی رقم طراز ہیں کہ
''فقہائِ کرام نے یہ شرط رسول اللہﷺ کی سنت ِقولی اور سنت ِعملی سے اَخذ کی ہے اور اسی سنت پر صحابہ کرام ؓ اور خلفائے راشدین کا عمل رہا ہے یعنی آپؐ نے ذاتی استعمال میں آنے والی اشیا پر زکوٰۃ واجب نہیں فرمائی، جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ ''کسی مسلمان پراس کے گھوڑے اور اس کے غلام میں صدقہ نہیں۔'' امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ انسان کے ذاتی استعمال کے مال پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ (شرح مسلم از نوویؒ: ج۷؍ص۵۵) اور رسول اللہ ﷺنے صرف نفع بخش و افزائش رکھنے والے مال پر زکوٰۃ عائد فرمائی ہے... (یعنی مویشیوں، نقدی، فصلوں اور کانوں وغیرہ پر۔ناقل) احکامِ شرعیہ کی تعلیل کے قائل فقہا کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ان مذکورہ بالااموال میں زکوٰۃ کے واجب ہونے کی علت یہ ہے کہ ان اموال میں یا تو بالفعل (فی الوقت) افزائش موجود ہے یا ان میں افزائش کی صلاحیت اور امکان موجود ہے۔'' [فقہ الزکوٰۃ مترجم: ج۱؍ ص۱۸۹،۱۹۰]
واضح رہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دورِ حاضر میںرہائشی مکانوں اور بڑی بڑی عمارتوں، فلیٹوں اور دکانوں وغیرہ میں بھی نمو کی خاصیت پائی جاتی ہے، اس لئے ان پربھی زکوٰۃ فرض ہونی چاہئے مگر ان کا یہ خیال غلط ہے۔کیونکہ ہر مالِ نامی محل زکاۃ نہیں ہوتا مثلا ذاتی استعمال کی اشیا میں گردش ایام کے ساتھ کتنا ہی نمو کیوں نہ ہوتا چلا جائے ان پر زکاۃ لاگو نہیں ہو گی اس لیے کہ شریعت نے انہیں زکاۃ سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے ، اسی طرح ذرائع پیداوار اور آلات تجارت کتنے ہی قیمتی کیوں نہ ہو جائیں انہیں بھی آنحضرت ؐ نے زکاۃ سے مستثنیٰ کر دیا ہے۔ اس کی مزیدتفصیل شرط نمبر۴اور نمبر۷ کے تحت ملاحظہ فرمائیے۔
4. زائد از ضرورت ہو
زکوٰۃ اس مال سے دی جائے گی جو انسان کی بنیادی ضروریات سے زائد ہو۔ اس سلسلہ میں دو باتیں قابل غور ہیں: ایک تو اس شرط کی شرعی دلیل اور دوسری یہ کہ بنیادی انسانی ضروریات کا دائرہ کیا ہے؟ جہاںتک اس مسئلہ کی شرعی دلیل کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں فقہا قرآنِ مجید کی اس آیت سے استشہاد کرتے ہیں:
﴿وَيَسـَٔلونَكَ ماذا يُنفِقونَ قُلِ العَفوَ...٢١٩﴾...سورة البقرة
''لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں؟ آپؐ فرما دیجئے کہ (وہ خرچ کرو) جو تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو۔''
اس آیت کی تفسیر میں صحابہ کرام ؓ و تابعین سے بھی یہی منقول ہے کہ اس 'عفو' سے مراد وہ چیز ہے جو اہل خانہ کی ضروریات سے زائد ہو۔ (تفسیر ابن کثیر:۱؍۳۸۳)
جبکہ بہت سی صریح احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے مثلاً
(i إنماالصدقة عن ظھر غنی (احمد:۲؍۵۰۱)
''زکاۃ صرف غنی پر فرض ہے۔'' بعض شارحین نے اس کا یہ ترجمہ بھی کیا ہے کہ زکاۃ صرف اس پر فرض ہے جو زکاۃ دینے کے بعد بھی غنی رہے محتاج اور فقیر نہ ہو جائے۔ (دیکھئے شرح السنۃ :۶؍۱۷۹)
(ii لاصدقة إلا عن ظھر غنی (مسنداحمد :۲؍۲۳۰)
'' زکاۃ صرف غنی پر فرض ہے۔''
(iii حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے اللہ کے رسولؐ سے عرض کیا کہ
''میرے پاس ایک دینار ہے (اس کا مصرف کیا ہو؟) آپؐ نے فرمایا کہ اسے اپنے اوپر خرچ کرلو۔ اس نے پھر عرض کیاکہ میرے پاس ایک اور دینار بھی ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ اسے اپنی بیوی پر خرچ کرو۔ اس نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک اور بھی ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ اسے اپنی اولاد پر خرچ کرو۔ اس نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک اور بھی ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ پھر جہاں مناسب سمجھو، اسے وہاں خرچ کرو۔'' (مسلم؛کتاب الزکاۃ)
یہ روایت اگرچہ نفلی صدقہ سے تعلق رکھتی ہے، تاہم یہاں محل استشہاد یہ ہے کہ صدقہ خواہ نفلی ہو یا فرضی، یہ اسی مال سے ادا کیا جائے گا جو زائد از ضرورت ہو۔
اس مسئلہ کا دوسرا پہلویہ تھا کہ انسان کی بنیادی و اصلی ضروریات کا دائرہ کیا ہے۔ اگرچہ اس سلسلہ میں مختلف فقہا نے اپنے اپنے ادوار کی مناسبت سے مختلف اشیا کو حاجاتِ ا صلیہ اور ضروریاتِ زندگی قرار دیا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انہیںکسی خاص دور کی مناسبت سے حتمی طور پر متعین نہیں کیاجاسکتا کیونکہ حالات کی تبدیلی سے انسانی ضروریات کا دائرہ بھی بدلتا رہتا ہے۔ کبھی اگر دو چادریں، ایک خیمہ یا جھونپڑی اور گدھا، گھوڑا وغیرہ ضروریاتِ زندگی متصور ہوتے تھے تو اب ان کی جگہ سلے ہوئے کپڑوں کے جوڑے، پختہ تعمیر شدہ مکان اور موٹر گاڑیاں اشیائِ ضرورت بلکہ زندگی کا لازمی حصہ بن چکی ہیں۔ اور پھر ہر انسان کی اشیائِ ضرورت دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک شخص کے پاس کسی وجہ سے مہمانوں کی آمدورفت کا تانتا بندھا رہتا ہے تو اس کی ضروریات اس شخص سے مختلف ہوں گی جس کے پاس مہینوں بعد ہی کوئی مہمان آتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ شریعت نے اس بات کا تو خیال رکھا ہے کہ زکوٰۃ اس مال پر نکالی جائے جو زائد از ضرورت ہو مگر شریعت نے ضروریات اور زائد از ضروریات کا تعین نہیں کیا کہ فلاں فلاں اشیا تو ضروریات میں شامل ہیں اور فلاںفلاں اس سے مستثنیٰ۔ بلکہ حاجاتِ اصلیہ (یعنی اشیائِ ضرورت) اور زائد از ضرورت کا تعین انسان کی نیت، حالات کی مناسبت اور معاشرے کے عرف و معمول پر چھوڑ دیا ہے۔
لیکن ہمارے ہاں ایک عجیب صورت یہ پیدا ہوچکی ہے کہ بہت سی غیر ضروری چیزیں ہم اپنی بنیادی ضروریات کی چیزیں سمجھ بیٹھے ہیں اور بہت سی 'آسائشات' کو ہم اپنی 'احتیاجات' کی حیثیت دے چکے ہیں۔ علاوہ ازیں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنہیںمحض خوبصورتی اور خواہش کثرت کے پیش نظر ہم اپنے گھریلو سامان میں شامل کرنا 'ضرورت' سمجھنے لگے ہیں۔ اسی طرح اگر ۵،۱۰ مرلہ کے ایک مکان میں رہائشی ضرورت بآسانی پوری ہوسکتی ہے توپھر بھی ہم اس کی جگہ ایک دو کنال رقبہ پرمشتمل مکان کو رہائشی ضرورت کا ہدف بنالیتے ہیں۔ اگر ایک گاڑی ذاتی استعمال کے لئے کافی ہوسکتی ہے تو پھر بھی ایک کی بجائے دو یا تین گاڑیاں ہی اب ہماری 'ضروریات' میں شامل ہوگئی ہیں۔ حتیٰ کہ بعض لوگ محض زکوٰۃ سے بچنے کے لئے زائد نقدی سے کوئی ایسی شے خرید لیتے ہیں جو ایک طرف گھریلو استعمال میں شامل ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہوجاتی ہے اور دوسرے طرف حسب ِضرورت اسے نقد و نقد بیچنا بھی آسان ہوتا ہے۔ یہ رویہ اُصولی طور پر غلط ہے۔ اگر تو زکوٰۃ سے بچنے کی نیت سے کوئی ایسا حیلہ کیا جائے تو حاکم وقت زبردستی بھی زکوٰۃ وصول کرسکتا ہے اور اگر بے جا تعیش اور اسراف و تبذیر کے پیش نظر ایسا کیاجائے تو پھر اگرچہ ان ذاتی استعمال کی اشیاء پر زکوٰۃ فرض نہ ہوگی تاہم اس فضول خرچی کی اسلام مذمت ضرور کرتا ہے۔
ذاتی استعمال کی اشیا اور مختلف شبہات
گزشتہ چودہ صدیوں سے اُمت مسلمہ کے اہل علم و دانش کا یہ متفقہ فیصلہ چلاآرہا ہے کہ ذاتی استعمال کی اشیا خواہ وہ کتنی ہی قیمتی کیوںنہ ہوں، ان پرزکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ کیونکہ اس سلسلہ میں قرآن و سنت میں ایک بھی ایسی دلیل موجود نہیں جس میں یہ صراحت ہو کہ ذاتی استعمال کی اشیا (مثلاً گھر، سواری وغیرہ) پر زکوٰۃ ہے جبکہ اس کے برعکس بعض ایسے دلائل موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذاتی استعمال کی اشیا پر زکوٰۃ فر ض نہیں۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
''لیس علی المسلم صدقة في عبده ولا في فرسه'' (بخاری؛۱۴۶۴)
''کسی مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں زکوٰۃ فرض نہیں ِہے''
مذکورہ روایت میں غلام اور گھوڑے کا ذکر ہے، اس لئے کہ اہل عرب کے ہاں یہ دو چیزیں ذاتی استعمال کے لئے معروف تھیں۔غلام گھریلو ضروریات کے لئے اور گھوڑا (جہاد وقتال کے علاوہ) ذاتی سواری کے لئے۔ اسی طرح خچر اور گدھا بھی بطورِ سواری استعمال کیا جاتا تھا، اس لئے آپؐ نے اسے بھی زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ (دیکھئے دارقطنی:۹۵)
انہی چیزوں پر قیاس کرتے ہوئے دورِ حاضر کی نئی سواریاں (مثلاً موٹر سائیکل، کار وغیرہ) بھی زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دی جائیں گی۔ جبکہ ذاتی استعمال کی دیگر اشیا مثلاً رہائشی مکان، گھریلو سامان وغیرہ کو بھی غلام پر قیاس کرتے ہوئے زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔ اس کی تائید دو باتوں سے ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہ آپؐ نے ذاتی استعمال کی چیزوں پر کبھی زکوٰۃ عائد نہیں فرمائی اور دوسری یہ کہ صحابہ کرام ؓ کابھی یہی موقف رہا ہے مثلاً حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے: ''لیس في العروض زکوٰة إلا ما کان للتجارة'' (سنن بیہقی: ج۴؍ ص۱۴۷)''گھریلو استعمال اور صرف کی چیزوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں اِلا یہ کہ یہ چیزیں تجارت کے لئے رکھی ہوں۔'' یہی موقف حضرت عائشہ ؓ، ابن عباسؓ اور دیگر صحابہ کا تھا جبکہ اس مسئلہ میں صحابہ و تابعین اورائمہ سلف وغیرہ میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیابلکہ امام ابن منذر تو اس مسئلہ پر اجماع کا دعویٰ نقل کرتے ہیں کہ''وأجمعوا علی أن في العروض التي تدار للتجارة الزکوٰة إذا حال علیھا الحول'' (الاجماع:ص۱۴۵) ''زکوٰۃ صرف اس مال اور سامان میں ہوگی جو تجارت کے لئے رکھا ہو اور اس پرایک سال بھی گزر چکا ہو۔''
گزشتہ چودہ صدیوں میں کسی نے بھی اس مسئلہ میں اختلاف نہیں کیا تاہم دورِ حاضر میںبعض عرب علما نے اس میں اختلاف کیا اور اب یہ آواز پاکستان میں بھی سنائی دی جارہی ہے۔ اگرچہ اس مسئلہ میں ہم تو صحابہ و تابعین اور جمہور اُمت کے ساتھ ہیں تاہم اس سلسلہ میں پیش کئے جانے والے بعض شبہات کاجائزہ لینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے :
ïاس سلسلہ میں ڈاکٹر وہبہ الزحیلی رقم طراز ہیں کہ
''وبالرغم من أن جمهور فقھائنا لم ینصوا علی وجوب الزکوٰة في ھذا النوع فإني أری ضرورة الزکوٰة فیھا لوجود علة وجوب الزکوٰة فیھا وھي النماء والحکم یدور مع علته وجودا أو عدما... (الفقہ الاسلامي:ج۲؍ص۸۶۴)
''اگرچہ جمہور فقہا نے رہائشی گھروں، گھریلو سامان، آلات تجارت اور ذاتی استعمال کی سواریوں پر زکوٰۃ کو فرض قرار نہیں دیا جیساکہ ہم پہلے بھی ذکر کر آئے ہیں۔ لیکن میں ان تمام چیزوں پربھی زکوٰۃ فرض خیا ل کرتا ہوں۔ اس لئے کہ وجوب زکوٰۃ کی ایک علت نما (بڑھوتری، افزائش) بھی ہے اور وہ ان سبھی چیزوں میں پائی جاتی ہے اور حکم کا دارومدار چونکہ علت پر ہوتا ہے۔ اس لئے ان پر زکوٰۃ فرض ہونی چاہئے۔''
'نمو' کیا ہے، اس کی تفصیل شرط نمبر ۳ کے تحت ہم ذکر کر آئے ہیں تاہم محض 'نمو' کو علت بناکر ہر مالِ نامی کو موجب ِزکوٰۃ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ان میں سے بعض چیزوں کو شریعت نے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے مثلاً رہائشی مکان، گھریلو استعمال کی چیزیں، ذاتی سواری اور آلاتِ تجارت وغیرہ (یاد رہے کہ آلاتِ تجارت کے حوالے سے مزید تفصیل شرط نمبر ۷ کے ضمن میں آرہی ہے) اور اس استثنیٰ پر اُمت کااجماع ہوچکا ہے۔
اس ضمن میں ایک یہ شبہ پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ جوشخص 'غنی' ہو، اس پر زکوٰۃ فرض ہے لہٰذا جس کے پاس ۵،۱۰ لاکھ کا ذاتی مکان ہو، لاکھوں روپے کی گاڑی (ذاتی سواری) ہو اس پر بہرحال زکوٰۃ فرض قرار دی جانی چاہئے۔
اگرچہ غنی ہونا بھی وجوبِ زکوٰۃ کی ایک شرط ہے جس کی تفصیل اسی شرط کے آغاز میںہم پیش کر آئے ہیں لیکن غنا کی جو حدود شریعت نے متعین کی ہیں، وہ بھی ہمیں مدنظر رکھنا ہوں گی مثلاً کسی شخص کے پاس ۴ اونٹ یا ۳۹ بکریاں یا ۱۹۹ درہم چاندی یا ۱۹ دینار سونا ہو تو کیا وہ شخص غنی نہیں؟ لیکن اس کے باوجود شریعت نے اس پر زکوٰۃ فرض نہیں کی جب تک کہ اس کا نصاب پورا نہ ہوجائے۔ اسی طرح محض رہائشی مکان اور سواری کی ملکیت رکھنے والے کو شریعت نے 'غنی' قرار دے کر اس پر زکوٰۃ فرض نہیں کی جیسا کہ گذشتہ دلائل سے ثابت ہوچکا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس واقعاتی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ بہت سے لوگ ذاتی رہائش اور ذاتی سواری کے مالک ہونے کے باوجود زکوٰۃ کے مستحق ہوتے ہیں۔
اسی طرح ایک شبہ یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ جس دور میں ذاتی رہائش اور سواری کو مستثنیٰ قرار دیا گیاتھا تب ان چیزوں کی مالیت نہایت معمولی تھی مگر اب چونکہ ان کی مالیت بہت بڑھ چکی ہے اس لئے ان پربھی زکوٰۃ فرض ہونی چاہئے۔
اس اعتراض کی بھی کوئی حقیقت نہیں اس لئے کہ دورِ حاضر میں رہائشی مکانوں اور جدید سواریوں کی قیمتیں کتنی ہی کیوں نہ بڑھ جائیں جب شریعت نے ان پر زکوٰۃ عائد نہیں کی تو ہم ان پر زکوٰۃ عائدکرنے والے کون ہوتے ہیں ! جبکہ دوسری بات یہ ہے کہ اس دور میں بھی اونٹ، گھوڑے اسی طرح قیمتی تھے جس طرح دورِ حاضر کی گاڑیاں، حتیٰ کہ اس سلسلہ میں بعض ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ ایک ایک گھوڑا سو سو اونٹوں سے قیمتی ہوتا تھا۔(دیکھئے نصب الرایہ: ۳؍۳۵۹) اور آج بھی ایسے قیمتی گھوڑے موجود ہیں۔ اس لئے ذاتی استعمال کی چیزوں پر زکوٰۃ فرض قرار دینا شریعت سے بغاوت ہے اور یہ کوئی نئی رائے نہیں بلکہ گزشتہ چودہ صدیوں سے فقہائے امت کا اس پر اتفاق رہا ہے۔جیسا کہ خود وہبہ زحیلی نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔
(مزید تفصیل کے لیے دیکھئے مجموع الفتاویٰ از شیخ ابن بازؒ :ج۱۴؍ص ۱۶۴،۱۷۲، فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ج۹ ص ۳۱۴،۳۳۴،شرح مسلم از نووی ج ۹ص ۳۱۴،۳۳۴،تفہیم المسائل از گوہر رحمن ج ۳ص ۱۳۳ ،۴۰۵، فقہ الزکاۃ ازیوسف قرضاوی ج۱ص ۴۳۶،۴۳۷،فتاوی اہلحدیث از حافظ عبد اللہ روپڑی ج۲ص ۵۲۲،احکام ومسائل از مولانا عبد المنان نور پوری ج۱ص ۲۷۴)
5. ایک سال کا عرصہ گزر جائے
یعنی زکوٰۃ اس مال سے ادا کی جائے گی جس میںدیگر شرائط کے ساتھ یہ شرط بھی پائی جاتی ہو کہ وہ مال صاحب ِمال کے پاس ایک سال تک رہا ہو۔ سال پورا ہونے پر اس کی زکوٰۃ نکالنا فرض ہے جبکہ سال پورا ہونے سے پہلے ہی اگر کوئی چاہے تو پھر بھی زکوٰۃ دے سکتا ہے۔ دورانِ سال کی شرط کی دلیل یہ حدیث ِنبوی ہے:
''لازکوٰة في مال حتی یحول علیه الحول'' (المغنی:ج۴؍ص۴۶)
اگرچہ اس روایت کی سند میں ضعف ہے اور ایک سال مدت کو معتبر تسلیم کرنے میں بھی بعض اہل علم نے اختلاف کیا ہے تاہم ہمارے نزدیک یہی رائے مبنی برانصاف بھی ہے اور اکثر وبیشتر ائمہ سلف نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے۔(دیکھئے: زاد المعاد ج۱؍ص۳۰۷) حتی کہ امام ابن منذر نے اس شرط کے وجوب پر اجماعِ امت کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ (دیکھئے الاجماع: ص ۴۴)
البتہ بعض چیزیں اس سے مستثنیٰ ہیں مثلاً کھیتی کی زکوٰۃ (جسے 'عشر' کہا جاتاہے) اس وقت نکالی جائے گی جب کھیتی پکنے کے بعد کاٹ لی جائے۔ جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے: ﴿وَءاتوا حَقَّهُ يَومَ حَصادِهِ...١٤١﴾... سورة الانعام" اسی طرح کانوں اور مدفون خزانوں کی زکوٰۃ کے لئے بھی سال کی شرط نہیں بلکہ جب خزانہ حاصل ہوگا تبھی اس کی زکوٰۃ (یعنی پانچواں حصہ) دیا جائے گا۔
دورانِ سال حاصل ہونے والا اضافی مال
دورانِ سال حاصل ہونے والے اضافی مال کی تین صورتیں ہیں:
1. ایک تو یہ کہ وہ اضافی مال پہلے مال ہی کا نتیجہ اور فائدہ ہو مثلاً پہلے سے موجود جانوروں کے مزید بچے پیدا ہوجائیں یا کاروبار میں نفع ہو تواس نوعیت کے اضافی مال کو پہلے سے موجود مال ہی کے ساتھ ضم سمجھا جائے گا اور گزشتہ مال کے ساتھ اسے بھی زکوٰۃ میں شامل کیا جائے گا۔ جیسا کہ حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے زکوٰۃ وصول کرنے والے عامل سے کہا کہ:''اعتد علیهم بالسخلة یروح بھا الراعي علی یدیه ولا تأخذھا منهم''
'' زکاۃ کے جانوروں میں اس بچے کو بھی شمار کرو جسے چرواہا اپنے ہاتھوں میں اٹھائے پھرتا ہے البتہ یہ بچہ بطور زکاۃ وصول نہ کرنا۔''(نصب الرایۃ: ۳۵۵؍۲، مؤطا ؛کتاب الزکاۃ(۲۶)
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں مذاہب ِاربعہ کے تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ جانوروں کے بچے بھی نصاب زکاۃ میں شمار کیے جائیں گے۔
(الفقہ الاسلامی وادلتہ: ج۲؍ص۸۵۷)
واضح رہے کہ چالو کاروبار میںرأس المال پر حاصل ہونے والا منافع اصل مال کے تحت شمار ہوگا اور اس پر زکوٰۃ رأس المال کے حساب سے نکالی جائے گی مثلاً اگر ایک لاکھ سرمائے سے کاروبار شروع کیا گیا اور دورانِ سال ۱۰ ہزار کا نفع اِسی لاکھ سے حاصل ہوا تو سال کے اختتام پر ایک لاکھ دس ہزار سے زکوٰۃ نکالی جائے گی نہ کہ صرف لاکھ سے۔ البتہ ایک صورت اس سے مستثنیٰ ہے جو آگے آرہی ہے۔
2. دوسری صورت یہ ہے کہ دورانِ سال حاصل ہونے والا مال جنس یا نوعیت کے لحاظ سے پہلے مال سے مختلف ہو مثلاً اگر پہلے جانور تھے اور دورانِ سال نقد حاصل ہوگئی یا ایک لاکھ سرمایہ تھا اور دورانِ سال مزید رقم حاصل ہوگئی مگر یہ رقم سرمایہ کے نفع کے طور پر نہیں بلکہ کسی اور ذریعے (ہبہ، وراثت وغیرہ) سے حاصل ہو تو ایسی نئی رقم کو پچھلی رقم کے ساتھ نہیں ملایا جائے گا بلکہ اسے الگ شمار کرتے ہوئے ایک سال کا دورانیہ گزارا جائے گا۔ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو(الفقہ الاسلامی:ج۲؍ ص۸۵۸، ۸۵۹)
3. اس کے علاوہ ایک تیسری صورت بھی ہے جسے متقدمین نے بیان کیا ہے۔ علامہ یوسف قرضاوی اسے بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:
''اگر مالِ مستفاد (یعنی دورانِ سال حاصل ہونے والا مال) اس مال کی نوع سے ہو جو اس کے پاس بقدرِ نصاب پہلے سے موجود ہے اور اس کے اوپر سال کا کچھ حصہ گزر چکا ہو مثلاً یہ کہ کسی کے پاس چالیس بکریاں ہوں جن پر سال کاکچھ حصہ گزر چکا ہو اور دورانِ سال وہ سو(۱۰۰)بکریاں اور خرید لے یا اسے ہدیہ کردی جائیں تو امام احمدؒ اور امام شافعیؒ کے مطابق اس مالِ (مستفاد) پر سال گزرنے پر زکوٰۃ واجب ہوگی (سال سے پہلے نہیں) مگر امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ یہ مال بھی پہلے مال میں باعتبارِ سال ملا دیا جائے گا اور وہ سارے مال کی اس وقت زکوٰۃ ادا کردے گا جب اس مال کا سال پورا ہو جو اس کے پاس پہلے سے موجود تھا۔ اس لئے کہ اس مال کو باعتبارِ نصاب تو ضم کیا جائے گا تو لازم ہوا کہ اسے باعتبارِ حول (سال) بھی ضم کردیا جائے۔ جیسے جانوروں کے بچے (باعتبارِ نصاب اور باعتبارِ سال ضم ہوجاتے ہیں) نیز یہ کہ اس مالِ مستفاد کو باعتبارِ سال جدا رکھنے میں جانوروں کی زکوٰۃ میں تجزیہ کرنا ہوگا (کہ فلاں اور فلاں جانور کی یہ زکوٰۃ ہے اور فلاں اور فلاں کی یہ ہے) اور وجوبِ زکوٰۃ کے اوقات میں فرق ہوجائے گا۔ (مثلاً چالیس بکریوں کی زکوٰۃ محرم میں عائد ہورہی ہے اور باقی چالیس کی رمضان میں عائد ہوگی) اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مالک کو اپنی ملکیت کی تاریخیں بھی یاد رکھنا پڑیں گی اور یہ بھی حساب رکھنا پڑے گا کہ فلاں ملکیت پرکس وقت زکوٰۃ واجب ہورہی ہے اور کس قدرہو رہی ہے اور جو زکوٰۃ واجب ہو اس کی ادائیگی کی مقدار اس کو میسر اور اس کو ادا کرنا اس کے لئے ممکن ہو اور اس طرح یہ سلسلہ سارا سال چلتا رہے گا جو ظاہر ہے کہ بڑی تنگی کا باعث ہوگا اور فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَما جَعَلَ عَلَيكُم فِى الدّينِ مِن حَرَجٍ...٧٨﴾... سورة الحج ''اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی'' اس حرج (تنگی) کو دور کرنے کی غرض سے شریعت ِاسلامیہ نے پچیس سے کم اونٹوں پر اونٹوں کی غیرجنس سے زکوٰۃ فرض کی ہے (یعنی بکری) اور مویشیوں میں 'اوقاص' (نصاب زکوٰۃ میں وہ وقفے جو دو مقررہ مقداروں کے درمیان آتے ہیں) رکھے اور فوائد اور پیداوار کو اصل مال کے سال میں ضم کیا تاکہ یہ خرابیاں دور ہوسکیں جس سے یہ معلوم ہوا کہ ان خرابیوں کودور کرنا ہی اصل علت ہے جس کو اختلافی صورت پربھی منطبق کرنا چاہئے۔ مویشیوں میں امام مالک کی رائے بھی امام ابو حنیفہؒ کے مطابق ہے اور امام احمدؒ اور امام شافعیؒ کا ثمان (نقود) کے بارے میں یہی مسلک ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مسلک حنفی تطبیق میں زیادہ آسان اور پیچیدگی سے پاک ہے، اس لئے میرے نزدیک امام ابوحنیفہؒ کا مسلک زیادہ قابل قبول ہے۔'' (فقہ الزکوٰۃمترجم: ج۱؍ ص۲۲۳ تا۲۲۵)
واضح رہے کہ علامہ یوسف قرضاوی نے جو مذکورہ بالا (تیسری) صورت میں اپنا راجح نکتہ نظر پیش کیا ہے، ہمیں اس سے اختلاف ہے۔ اس لئے کہ یہاں جس علت (یعنی حرج) کو بنیاد بنایا گیا ہے وہ سرے سے بنیاد ہی نہیں بنتی۔ یعنی اگر کسی کو دورانِ سال نئے جانور حاصل ہوتے ہیں جو پہلے جانوروں کی حاصل پیدائش نہیں تو ان نئے جانوروں کو نشان زد کرکے بھی علیحدہ کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح پہلے جانوروں اور نئے جانوروں میں اختلاط کی وہ پریشانی جسے موصوف امام ابوحنیفہؒ کے حوالے سے پیش کررہے ہیں، پیدا ہی نہیں ہوگی، جبکہ مویشی پالنے والوں کے ہاں یہ طریقہ عرصہ دراز سے کامیاب چلا آرہا ہے۔ واﷲ أعلم
6. صاحب ِنصاب مقروض نہ ہو
وجوب زکوٰۃ کی ایک شرط یہ ہے کہ صاحب ِزکوٰۃ مقروض نہ ہو۔ اس شرط کی تائید کے بارے میں چند صریح روایات و آثار بھی منقول ہیں مگر ان کی صحت میں کلام ہے جبکہ دیگر عمومی دلائل سے بھی فقہا نے اس شرط کو ثابت کیا ہے۔ مثلاً ایک شخص کے پاس ایک لاکھ رقم موجود ہے اور اتنی ہی رقم اس پر قرض بھی ہے تو اس قرض کی وجہ سے اس شخص سے زکوٰۃ معاف ہوجائے گی۔ بلکہ قرض کی بعض صورتیں ایسی ہیں جن میں مقروض شخص مستحق زکوٰۃ بن جاتاہے۔ اسی لئے زکوٰۃ کے آٹھ مصارف میں سے ایک مصرف 'مقروض' بھی ہے۔ لیکن اس حوالے سے یہ بات یاد رہے کہ زکوٰۃ اسی مقروض سے معاف ہوگی جس کے پاس بنیادی ضروریات کے علاوہ اتنا سامان یا نقدی موجود نہ ہو جس کے ذریعے وہ اپنا قرض اُتار سکتا ہو۔ لیکن اگر اسکے پاس حقیقی ضروریات کے علاوہ اتناسامان اور نقدی موجود ہو کہ وہ اس کے ذریعے اپنا قرض اُتار سکتا ہے اور اپنا ذریعہ معاش بھی برقرار رکھ سکتا ہے تو پھر اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔
ان دونوں صورتوں میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ اگر مطلق طور پر ہر مقروض پر زکوٰۃ فرض قرار دے دی جائے توپھربہت سے مقروض حضرات کے لئے یہ تکلیف مالا یطاق ہوگی جبکہ ایسا شخص جو حقیقی ضروریات سے بھی تہی دامن ہو اور اس کے ساتھ مقروض بھی ہو، تو شریعت نے اسے مستحق زکاۃ کی فہرست میں شمار کیا ہے اور اگر ہرمقروض کو علیٰ الاطلاق زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دے دیا جائے تو پھر بہت سے اغنیا اور صاحب ِزکوٰۃ اس فریضے سے بری ہوجائیں گے کیونکہ کوئی شخص کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو، وہ اپنے کاروبار کو ترقی دینے کے لئے مزید قر ض بھی لیتا ہے اور ویسے بھی کاروبار میںقرض کا لین دین معمول کی بات ہے، اس لئے جو شخص مقروض ہو اسے چاہئے کہ اپنے کل قرض کی رقم کا حساب لگائے پھر اپنی بنیادی ضروریات سے زائد مال کا حساب لگائے اور اس میں سے قرض کو منہا کردے پھر جو رقم باقی بچے، اس میں سے زکوٰۃ ادا کردے۔
7. مقررہ نصاب کو پہنچ چکا ہو
گزشتہ سطور میں زکوٰۃ کی جن شروط کا تذکرہ گذرا ہے، ان میں ایک یہ بھی تھی کہ متعلقہ مال زائد از ضروریات ہو، لیکن اس زائد از ضرورت کا یہ معنی نہیں کہ جتنا بھی مال زائد از ضرورت ہوگا، اس کی زکوٰۃ نکالی جائے گی بلکہ زائد از ضرورت کی شریعت نے ایک حد متعین کردی ہے جسے 'نصابِ زکوٰۃ' کہا جاتا ہے۔ جب زائد از ضرورت مال اس نصاب کو پہنچے گا تبھی اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی، وگرنہ نہیں۔